M SHAFI MIR

M SHAFI MIR آزاد صحافت کرنے کیلئے میرا ساتھ دیجئے اور میری حوصلہ افزائی کیجئے

16/08/2025

Chesoti, Kishtwar — a heart-wrenching moment: A local youth fighting to save a child who lost all his family to the floods.

16/08/2025

: “We Lost Everything, We Are Homeless, We Need Support,” Victims Appeal to Govt

15/08/2025

"When the Skies Wept, Chashoti Mourned: A Village in Tears After "

15/08/2025
اصلاحی معاشرہ کونسل گول:  ایک عظیم مقصدکے حصول کیلئے ایک اجتماعی کوشش✍🏼ایم شفیع میر اس پُرفتن دور میں جب کہ مادہ پرستی، ...
06/08/2025

اصلاحی معاشرہ کونسل گول: ایک عظیم مقصدکے حصول کیلئے ایک اجتماعی کوشش
✍🏼
ایم شفیع میر
اس پُرفتن دور میں جب کہ مادہ پرستی، خود غرضی اور معاشرتی بے حسی ہر طرف سایہ فگن ہے، کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو چراغِ اُمید جلائے معاشرے کی اصلاح کی جدوجہد میں مگن ہیں۔ انہی میں سے ایک نمایاں نام ’’اصلاحی معاشرہ کونسل گول‘‘کاابھر کر سامنے آرہا ہے ،یہ تنظیم گزشتہ کئی برسوں سے سماجی خدمت کے جذبے کے تحت سماج میں پھیل رہی برائیوں کا قلع قمع کرنے کیلئے سرگرمِ عمل ہے۔
کونسل ہذانہ صرف منشیات جیسی لعنت کے خلاف آواز بلند کر رہی ہے بلکہ نوجوان نسل کو اس ناسور سے بچانے کے لیےآئے روز بیداری مہمات کا اہتمام کرتی آرہی ہے ۔ کونسل نے آج ’’پولیس، انتظامیہ اور علمائے کرام کے اشتراک سے‘‘ایک اجتماعی بیداری مہم کا انعقاد عمل میں لایا ۔ مجھے اُمید ہے کہ اصلاحی معاشرہ کونسل کی یہ کوشش کسی وقتی جذبات یا وقتی شہرت کا نتیجہ نہیں، بلکہ یہ ایک سوچا سمجھا، منظم اور مسلسل سفر کا آغاز ہے ایک ایسا سفر جو برائی کے اندھیروں میں روشنی کی کرن بن ثابت ہوگا ۔
آج منعقد ہونے والا یہ بیداری پروگرام اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ یہ تنظیم اب صرف خیالات کی دنیا میں نہیں بلکہ ’’عملی میدان میں‘‘قدم رکھ چکی ہے۔ اس عظیم کاوش پر میں اصلاحی معاشرہ کونسل کے صدر محترم اور ان کی پوری ٹیم کودل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ہمارے علاقے کو ایسے ہیں لوگوں کی ضرورت ہیں جو نمود نمائش یا خاموش تماشائی بننے کے بجائے ’’سماج میں مثبت تبدیلی لانے کا بیڑا اُٹھائیں۔
اس پروگرام کی سب سے خوبصورت بات یہ تھی کہ اس میں تمام مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام کی موجودگی نے اسے بابرکت بنا دیا۔ ایسے وقت میں جب مسلکی تقسیم ہمیں بانٹنے پر تُلی ہوئی ہے، علمائے دین کا ایک ساتھ آنا اس بات کی دلیل ہے کہ جب نیت خالص ہو اور مقصد بڑا ہو، تو اختلافات مٹ جاتے ہیں۔یہ منظر دل کو مسرت سے بھر دینے والا تھا، اور میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب میں نے جناب مفتی صفدر صاحب، جناب مفتی اعجاز صاحب،جناب مفتی بشیر احمد صاحب ، جناب مفتی جمالدین صاحب ،جناب مفتی محمد یوسف صاحب ،میرے ہم جماعت جناب مفتی عرفات صاحب،مولانا محمد شفیع سہمت ، مولانا مولانا شبیر احمد صاحب مولانا مصور زوہدصاحب ،جناب مولوی غلام نبی صاحب ، مفتی خادم حسینصاحب، مولوی عبدالرشید شیخصاحب، مفتی آفتاب رشید صاحب، قاری گلزار احمد صاحب،مولوی محمد یوسفصاحب، قار ی طارق حسین صاحب، مولوی محمد یوسف کشمیریصاحب، حافظ جمالدینصاحب، مفتی نوشاد احمدصاحب، مفتی قمرالدینصاحب،مولانا برکت اللہ صاحب ، قاری راقب احمدصاحب، مفتی جاویدصاحب ، مفتی بلال احمدصاحب ، مولوی بشیر احمدصاحب ، قاری شاہنوارصاحب اور دیگر علماء کو ایک پلیٹ فارم پر دیکھا۔ ان کی موجودگی نے اس مشن کو روحانی طاقت عطا کی۔
ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اگر ہم واقعی ایک صالح اور پرامن معاشرے کا خواب شرمندہ تعبیر کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں مسلکی اور گروہی حد بندیاں توڑ کر ایک ہو جانا ہوگا۔ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اصل مقابلہ کسی دوسری تنظیم سے نہیں بلکہ ان برائیوں سے ہے جو ہمارے گھروں، محلوں، اور بستیوں کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر رہی ہیں۔
آج کا نوجوان منشیات، بے راہ روی، اخلاقی زوال اور ذہنی اُلجھنوں کا شکار ہے۔ ان حالات میں اصلاحی معاشرہ کونسل گول کی مہمات صرف بیداری کا ذریعہ نہیں بلکہ نجات کی سبیل ہیں۔ ہمیں ایسی کاوشوں کو محض سراہنا ہی نہیں بلکہ ان کا حصہ بننا چاہیے۔
آخر میں، میں دوبارہ اصلاحی معاشرہ کونسل کی پوری ٹیم کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے سماجی بیداری کا علم بلند کیا۔ میری دلی دعا ہے کہ اللہ رب العزت کونسل کی پوری ٹیم کو مزید استقامت، خلوص اور کامیابی عطا فرمائےتاکہ یہ مشن رُکے نہیں، تھمے نہیں، بلکہ آگے بڑھے، پھیلے اور ہر فردِ بشر کو روشنی کی طرف لے جائے۔
یاد رکھیے! ہماری زندگی کا اصل مقصد یہی ہے کہ جب ہم دنیا سے رخصت ہوں، تو صرف چند لوگ نہیں، بلکہ پورا معاشرہ ہمارے کردار کو یاد کرے۔وہ لوگ جو معاشرے کی اصلاح کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، وہ وقت کے قیدی نہیں بلکہ تاریخ کے خالق بن جاتے ہیں۔اللہ رب العزت اصلاحی معاشرہ کونسل گول کو دین و دنیا میں کامیابی سے نوازے اور ان کی کاوشوں کو قبول فرمائے۔ آمین۔

اصلاحی معاشرہ کونسل گول:  ایک عظیم مقصدکے حصول کیلئے ایک اجتماعی کوشش✍🏼ایم شفیع میر اس پُرفتن دور میں جب کہ مادہ پرستی، ...
05/08/2025

اصلاحی معاشرہ کونسل گول: ایک عظیم مقصدکے حصول کیلئے ایک اجتماعی کوشش

✍🏼
ایم شفیع میر

اس پُرفتن دور میں جب کہ مادہ پرستی، خود غرضی اور معاشرتی بے حسی ہر طرف سایہ فگن ہے، کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو چراغِ اُمید جلائے معاشرے کی اصلاح کی جدوجہد میں مگن ہیں۔ انہی میں سے ایک نمایاں نام ’’اصلاحی معاشرہ کونسل گول‘‘کاابھر کر سامنے آرہا ہے ،یہ تنظیم گزشتہ کئی برسوں سے سماجی خدمت کے جذبے کے تحت سماج میں پھیل رہی برائیوں کا قلع قمع کرنے کیلئے سرگرمِ عمل ہے۔
کونسل ہذانہ صرف منشیات جیسی لعنت کے خلاف آواز بلند کر رہی ہے بلکہ نوجوان نسل کو اس ناسور سے بچانے کے لیےآئے روز بیداری مہمات کا اہتمام کرتی آرہی ہے ۔ کونسل نے آج ’’پولیس، انتظامیہ اور علمائے کرام کے اشتراک سے‘‘ایک اجتماعی بیداری مہم کا انعقاد عمل میں لایا ۔ مجھے اُمید ہے کہ اصلاحی معاشرہ کونسل کی یہ کوشش کسی وقتی جذبات یا وقتی شہرت کا نتیجہ نہیں، بلکہ یہ ایک سوچا سمجھا، منظم اور مسلسل سفر کا آغاز ہے ایک ایسا سفر جو برائی کے اندھیروں میں روشنی کی کرن بن ثابت ہوگا ۔
آج منعقد ہونے والا یہ بیداری پروگرام اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ یہ تنظیم اب صرف خیالات کی دنیا میں نہیں بلکہ ’’عملی میدان میں‘‘قدم رکھ چکی ہے۔ اس عظیم کاوش پر میں اصلاحی معاشرہ کونسل کے صدر محترم اور ان کی پوری ٹیم کودل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ہمارے علاقے کو ایسے ہیں لوگوں کی ضرورت ہیں جو نمود نمائش یا خاموش تماشائی بننے کے بجائے ’’سماج میں مثبت تبدیلی لانے کا بیڑا اُٹھائیں۔
اس پروگرام کی سب سے خوبصورت بات یہ تھی کہ اس میں تمام مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام کی موجودگی نے اسے بابرکت بنا دیا۔ ایسے وقت میں جب مسلکی تقسیم ہمیں بانٹنے پر تُلی ہوئی ہے، علمائے دین کا ایک ساتھ آنا اس بات کی دلیل ہے کہ جب نیت خالص ہو اور مقصد بڑا ہو، تو اختلافات مٹ جاتے ہیں۔یہ منظر دل کو مسرت سے بھر دینے والا تھا، اور میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب میں نے جناب مفتی صفدر صاحب، جناب مفتی اعجاز صاحب،جناب مفتی بشیر احمد صاحب ، جناب مفتی جمالدین صاحب ،جناب مفتی محمد یوسف صاحب ،میرے ہم جماعت جناب مفتی عرفات صاحب،مولانا محمد شفیع سہمت ، مولانا مولانا شبیر احمد صاحب مولانا مصور زوہدصاحب ،جناب مولوی غلام نبی صاحب ، مفتی خادم حسینصاحب، مولوی عبدالرشید شیخصاحب، مفتی آفتاب رشید صاحب، قاری گلزار احمد صاحب،مولوی محمد یوسفصاحب، قار ی طارق حسین صاحب، مولوی محمد یوسف کشمیریصاحب، حافظ جمالدینصاحب، مفتی نوشاد احمدصاحب، مفتی قمرالدینصاحب،مولانا برکت اللہ صاحب ، قاری راقب احمدصاحب، مفتی جاویدصاحب ، مفتی بلال احمدصاحب ، مولوی بشیر احمدصاحب ، قاری شاہنوارصاحب اور دیگر علماء کو ایک پلیٹ فارم پر دیکھا۔ ان کی موجودگی نے اس مشن کو روحانی طاقت عطا کی۔
ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اگر ہم واقعی ایک صالح اور پرامن معاشرے کا خواب شرمندہ تعبیر کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں مسلکی اور گروہی حد بندیاں توڑ کر ایک ہو جانا ہوگا۔ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اصل مقابلہ کسی دوسری تنظیم سے نہیں بلکہ ان برائیوں سے ہے جو ہمارے گھروں، محلوں، اور بستیوں کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر رہی ہیں۔
آج کا نوجوان منشیات، بے راہ روی، اخلاقی زوال اور ذہنی اُلجھنوں کا شکار ہے۔ ان حالات میں اصلاحی معاشرہ کونسل گول کی مہمات صرف بیداری کا ذریعہ نہیں بلکہ نجات کی سبیل ہیں۔ ہمیں ایسی کاوشوں کو محض سراہنا ہی نہیں بلکہ ان کا حصہ بننا چاہیے۔
آخر میں، میں دوبارہ اصلاحی معاشرہ کونسل کی پوری ٹیم کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے سماجی بیداری کا علم بلند کیا۔ میری دلی دعا ہے کہ اللہ رب العزت کونسل کی پوری ٹیم کو مزید استقامت، خلوص اور کامیابی عطا فرمائےتاکہ یہ مشن رُکے نہیں، تھمے نہیں، بلکہ آگے بڑھے، پھیلے اور ہر فردِ بشر کو روشنی کی طرف لے جائے۔
یاد رکھیے! ہماری زندگی کا اصل مقصد یہی ہے کہ جب ہم دنیا سے رخصت ہوں، تو صرف چند لوگ نہیں، بلکہ پورا معاشرہ ہمارے کردار کو یاد کرے۔وہ لوگ جو معاشرے کی اصلاح کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، وہ وقت کے قیدی نہیں بلکہ تاریخ کے خالق بن جاتے ہیں۔اللہ رب العزت اصلاحی معاشرہ کونسل گول کو دین و دنیا میں کامیابی سے نوازے اور ان کی کاوشوں کو قبول فرمائے۔ آمین۔

05/08/2025

passes away

جیسے وقت نے خود ایک لمحے میں کئی صدیوں کا درد سمیٹ لیا ہو۔ آج کا دن ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ میں بہت اہم ہے۔ بچھڑجانے کی کئی کہانیاں ایک ساتھ رقم ہوئی ہیں ۔یہ وہی دن ہے جب جموں کشمیر کی تاریخی ریاست کو کئی حصوں میں منقسم کیا گیا ، یہ وہی دن جب ستیہ پال ملک کی گورنر کی حیثیت سے ذمہ داریاں ختم ہوئیں، اور یہ وہی دن جب ستیہ پال ملک خود اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ یہ اک عجیب اتفاق ہے

05/08/2025

جذبات بہہ گئے، الفاظ کم پڑ گئے… غلام نبی آزاد رو پڑے!

Ghulam Nabi Azad | Speech on Article 370 Abrogation | Rajya Sabha | 5 August 2019

Ghulam Nabi Azad Salman Nizami

کشمیر میں سڑے گلے گوشت کا کاروبارغذا کے نام پر زہر فروشی،عوامی صحت خطرے میں!.....................ایم شفیع میر کشمیر، جسے...
04/08/2025

کشمیر میں سڑے گلے گوشت کا کاروبار

غذا کے نام پر زہر فروشی،عوامی صحت خطرے میں!.....................
ایم شفیع میر

کشمیر، جسے قدرت نے نہ صرف فطری حسن سے نوازا ہے بلکہ ایک منفرد ثقافتی ورثے سے بھی مالا مال کیا ہے، جہاں بہار کی ہوا میں چنار کے پتے جھومتے ہیں، خزاں کی شامیں فکرمندی کا رنگ لئے ہوتی ہیں، اور سردیوں کی راتیں گوشت کے خوشبودار پکوانوں سے گرم ہوتی ہیں۔ کشمیری تہذیب و تمدن کا اگر کوئی بنیادی جزو رہا ہے تو وہ ہے’گوشت‘ جو صرف ایک خوراک نہیں بلکہ ایک ثقافت اورایک پہچان ہے۔
حضورِ اقدس حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے گوشت کو پکوانوں کا سردار قرار دیا۔ اسی فرمانِ نبوی کی روشنی میں مسلم معاشرے، خاص طور پر کشمیری سماج میں گوشت کو اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ وادی میں کوئی بھی تقریب ہو، خواہ وہ خوشی کا مقام ہویا غم کی گڑی’گوشت ‘اس کا لازمی جزو ہوتا ہے۔’’وازوان‘‘محض کھانا نہیں بلکہ روایتی محبت، مہمان نوازی اور شانِ کشمیریت کی مکمل جھلک ہے۔
مگر افسوس صد افسوس! جس خطے میں گوشت ثقافت کی بنیاد ہے، وہیں آج یہی گوشت تعفن، بدبو اور بددیانتی کی علامت بن چکا ہے۔دن بہ دن وادی کے گوشت بازار گندگی، بے ترتیبی اور بدانتظامی کی ایک عبرتناک مثال بن کر ابھر رہے ہیں۔
گزشتہ چند روز قبل کشمیر کے زکورہ علاقہ میں سڑے گلے گوشت کی بھاری مقدار پکڑی گئی، جس نے نہ صرف انسانی صحت کوبلکہوادی کی عزت و وقار کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ گوکہ یہ گوشت باہر سے سپلائی کیا گیا تھا لیکن تشویش ناک یہ ہے کہ اِ س سڑے گلے گوشت کے خریدار ہمارے اپنے کشمیری بیوپاری بھائی ہیں ،یعنی وہی تاجر جنھیں اپنے گاہک کی صحت عزیز ہونی چاہیے، وہی اس زہر کو کھانے کی میز تک پہنچا رہے ہیں۔
اگر ہم مقامی دکانوں کا حال دیکھیں تو صورتحال اور بھی سنگین ہے۔ قصائی خانوں میں صفائی کا نام و نشان نہیں۔سرینگر کا مشہور’’کُکڑ بازار‘‘ جو انتظامیہ کی ناک کے نیچے ہے ، خود ایک داستانِ بربادی ہے۔ یہاں نہ پردے کا انتظام ہے، نہ مکھیوں سے بچاؤ کا کوئی بندوبست۔ مرغوں کو سرعام گندگی میں لتھڑی زمین پر ذبح کیا جاتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ’ذابح ‘محض چند لمحوں میں کئی مرغے ’’حلال‘‘کر دیتا ہے۔ ذبح شدہ مرغے بدبو میں لپٹے، گندگی میں لت پت، مکھیوں کا ہجوم اُن پر جشن مناتا ہے۔ آس پاس آوارہ کتے منہ چارتے نظر آتے ہیں اور دکاندار بے حس، لاپرواہ ہیں۔
صورتحال دیکھنے بعد انسان یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ کیاواقعی مرغوں کا اسلامی اصولوں کے مطابق ذبح ہورہاہے؟ یا محض کاروباری تیز رفتاری کا شکار ہو چکے ہیں؟یہاں کی ’’بدبو، گندگی اور بے حسی‘‘ انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ اکثر دکانوں میں یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ آپ گوشت خرید رہے ہیں یا کسی کچرے کے ڈھیر پر کھڑے ہیں۔
جب ہم ’کشمیر ‘کو ’جموں ‘سے تقابلی جائزہ لیتے ہیں تو حیرانی کی انتہا ہو جاتی ہے۔ جموں میں قصائی خانوں کی باقاعدہ رجسٹریشن، ٹائل شدہ فرش، بند دکانیں اور مکھیوں سے بچاؤ کے تمام اقدامات کیے جاتے ہیں۔ اگر کوئی دکان صفائی کے معیار پر پورا نہ اترے تو فوراً سیل کر دی جاتی ہے۔ مگر کشمیر میں؟ یہاں ہر سڑک، ہر چوراہے پر کھلے ذبح خانے موجود ہیں، اور حکومت خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔
ہم کب اس بدبودار حقیقت کو سامنے لائیں گے؟ کب ہم اس کاروبار کو روکیں گے جس میں انسانی جانیں داو پر لگی ہیں؟ کب ہم اپنی ثقافت کی اصل روح کو بچائیں گے؟ کیا یہ سچ ہے کہ اب ہمیں حلال و حرام کی تمیز بھی باقی نہیں رہی؟
معاملہ صرف انتظامیہ کا نہیں، یہ ہم سب کا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک جو اس گوشت کو خریدتا ہے، بغیر سوال کئے، بغیر معیار دیکھے، وہ بھی اس گناہ میں برابر کا شریک ہے۔ ہمیں اب اپنی ذمہ داری کو سمجھنا ہوگا۔ اگر ہم اب بھی نہ جاگے تو ہم مردار خوربن جائیں گے اور ایک دن ایسا آئے گا کہ ہم میں واقعی حلال اور حرام کا امتیاز ختم ہو جائے گا ۔
اے میرے کشمیرواسیو! آپ اُس خطے کے واسی ہو جسے دنیا میں جنت کہا جاتا ہے ،جہاں گوشت کی خوشبو تہذیب کی علامت تھی، مگر آج وہی گوشت بدبو بن کر کشمیر ی ثقافت کو پامال کر رہا ہے۔ یہ صرف گوشت نہیں، یہ غیرت ہے جو ہم بیچ رہے ہیں۔ اب وقت ہے کہ ہم ان بازاروں کو پاک کریں، اپنے ضمیر کو جھنجھوڑیں، اور اپنی تہذیب کو برباد ہونے سے بچائیں۔
کشمیر میں گوشت محض خوراک نہیںبلکہ روایت ہے، ثقافت ہے اور مہمان نوازی کی اصل پہچان ہے لیکن جب یہی گوشت مردار بن جائے، تو یہ صرف صحت کا نہیں بلکہ غیرت، غیرتِ ایمانی اور سماجی اقدار کا سوال بن جاتا ہے۔
ضرورت ہے کہ ہم سب بیدار ہوں، ہر قصاب سے صفائی اور شرعی اصولوں کا تقاضا کریں، انتظامیہ پر دباؤ ڈالیں کہ وہ ایسے دکانداروں کے خلاف کارروائی کرے جو اس خوبصورت خطے کے وقار کو برباد کر رہے ہیں۔ کیونکہ اگر ہم نے آج خاموشی اختیار کی، تو کل ہمیں گوشت کے نام پر مردار کھلایا جائے گا ۔اللہ ہمیں حلال، پاکیزہ، اور صحت مند رزق کی پہچان عطا کرے، اور ہمارے سماج کو شعور، غیرت، اور اصلاح کی راہ دکھائے۔ آمین۔

03/08/2025

’’ہر صفیانؔ کے پیچھے ایک ’وحید ‘ ؔہوتا ہے‘‘................................................................... سوشل میڈی...
31/07/2025

’’ہر صفیانؔ کے پیچھے ایک ’وحید ‘ ؔہوتا ہے‘‘...................................................................
سوشل میڈیا کی دنیا میں کبھی کبھی ایسی کہانیاں سامنے آتی ہیں جو دل کو چھو جاتی ہیں، جنہیں پڑھ کر انسان کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اور دل بے اختیار ’’واہ!‘‘کہہ اٹھتا ہے۔ ایک ایسی ہی دل کو چھو لینے والی کہانی ہے جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے عالمی شہرت یافتہ فینسنگ کھلاڑی ’’صفیان وحید سوہیل‘‘کی، جنہوں نے نہ صرف اپنی محنت، لگن اور عزم سے دنیا کو حیران کیا بلکہ اپنے والد ’وحید سوہیل‘ کو فخر کا ایسا احساس دیا جو ہر والد کا خواب ہوتا ہے۔
حال ہی میں، صفیان کی ایک بڑی کامیابی کے بعد اُن کے والد وحید سوہیل Waheed Sohil نے سوشل میڈیا پر ایک جذباتی پیغام شیئر کیا، جس میں انہوں نے اپنے بیٹے کی کامیابی پر فخر کا اظہار کیا۔ یہ پیغام صرف ایک باپ کی خوشی نہیں بلکہ اُس سفر منفرد اور خوبصورت داستان ہے جو ایک باپ اور بیٹے نے مل کر طے کیا۔ یہ پیغام اُس قربانی، صبر، دعاؤں اور محنت کا عکاس ہے جو اکثر پسِ پردہ رہ جاتی ہیں۔
سماجی رابطہ گاہ فیس بک جہاں سے آج کے دور میں صحافت پروان چڑھائی جا رہی پر بڑے بھائی وحید سوہیل نے اپنے فرنبردار فرزند کے پوسٹ کو شیئر کرتے ہوئے ایک جذباتی پوسٹ لکھا جس میں کچھ یوں تحریر تھا کہ ۔۔۔۔۔
’’پیارے صفیان، میرے عزیز بیٹے!! تم نے ہمیں بے حد فخر محسوس کروایا ہے! تمہاری محنت اور ثابت قدمی نے آج واقعی اپنا رنگ دکھایا ہے۔ اگرچہ دوسروں کو شاید تمہاری قربانیاں نظر نہ آئی ہوں، مگر تمہاری لگن اور اپنے ہنر سے وفاداری تمہاری اس شاندار کامیابی میں صاف جھلکتی ہے۔اس غیر معمولی کامیابی پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد! میں ان تمام لوگوں کا بھی تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے تمہارے اس سفر میں تمہارا ساتھ دیا۔بلندیوں کی طرف یونہی گامزن رہو، اور مجھے کامل یقین ہے کہ ایک دن، ان شاء اللہ، مجھے تمہیں اولمپکس میں چمکتے ہوئے دیکھنے کا اعزاز حاصل ہوگا۔‘‘
قابل ذکر ہے کہ یہ جملے صرف الفاظ نہیں، ایک والد کے دل کی آواز ہیں۔ ایک باپ جو ہر قدم پر اپنے بیٹے کے ساتھ کھڑا رہا، جس نے شاید اپنی خواہشوں کو دبا کر اپنے بیٹے کے خوابوں کو پروان چڑھایا۔ جب ایک بچہ کامیاب ہوتا ہے تو اُس کے پیچھے والدین کی دعائیں، ان کا صبر، ان کی محنت اور وہ وقت بھی شامل ہوتا ہے جو انہوں نے کافی کٹھن حالات میں خاموشی سے گزاراہو۔
واضح رہے صفیان ؔکی کہانی کا آغاز بہت سادہ مگر غیر معمولی حوصلے سے ہوا۔ جنوری 2019 کو ناچیز کی اِس ہونہار نوجوان سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ اُس وقت صفیان اپنے سفر کے ابتدائی مرحلے میں تھا، لیکن اُس کی آنکھوں میں خوابوں کی چمک اور دل میں کچھ کر دکھانے کا جذبہ صاف نظر آ رہا تھا۔ اُس دن ناچیز نے جو پہلا جملہ صفیان کے بارے میں لکھا تھا، وہ آج بھی ذہن میں تازہ ہے،میرے نہایت ہی قابل احترام معروف صحافی جناب جان محمد صاحبJaan Mohammad نے صفیان پر کی گئی میری سٹوری کی پہلی سرخی کچھ یوں لکھی تھی ’’ذرا تراشو تو سہی، یہاں ’ہیرے ‘ملیں گے جو ’ہیرو ‘بنیں گے!
باعث مسرت ہے کہ آج وہی ہیرا، فینسنگ کی دنیا میں جگمگا رہا ہے، ٹمٹما رہا ہے ۔ صفیان نے اپنی صلاحیتوں سے نہ صرف جموں و کشمیر بلکہ پورے ہندوستان کا نام روشن کیا ہے۔ اُس کی کامیابی ان نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہے جو خواب دیکھتے ہیں مگر انہیں سچ کر دکھانے کی ہمت کم رکھتے ہیں۔
یہ کہانی صرف ایک کھلاڑی کی کامیابی کی نہیں بلکہ اُس رشتے کی ہے جو ایک باپ اور بیٹے کے درمیان ہوتا ہے۔ باپ وہ ہستی ہے جو چھاؤں بن کر اولاد کو دھوپ سے بچاتا ہے، جو خود پسینہ بہا کر بیٹے کو سایہ دیتا ہے، اور جو اپنے بیٹے کے خوابوں کی تعبیر کے لیے اپنی نیندیں قربان کر دیتا ہے۔
صفیان اور وحید سوہیل کی پوسٹس کو دیکھ کر ایک بار پھر یہ احساس تازہ ہوا کہ اگر بچے صحیح سمت میں محنت کریں، اپنی لگن سے ہار نہ مانیں تو والدین کی محبت اور دعائیں اُنہیں کامیابی کی معراج تک پہنچا دیتی ہیں۔
بے شک صفیان نے ثابت کر دیا کہ کسی بھی شعبے میں عالمی سطح پر پہنچنا ممکن ہے، اگر ارادہ پختہ ہو، منزل واضح ہو، اور والدین کی دعائیں ساتھ ہوں۔ آج وہ نوجوان نسل کے لیے ایک رول ماڈل بن چکا ہے۔ اُس کی یہ کامیابی اُن تمام والدین کے لیے بھی امید کی کرن ہے جو اپنے بچوں کے خوابوں پر یقین رکھتے ہیں۔
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’’ہر صفیان کے پیچھے ایک وحید ہوتا ہے‘‘۔ ہر کامیاب بیٹے کے پیچھے ایک ایسا باپ ہوتا ہے جو اُسے حوصلہ دیتا ہے، اُس کی ہر ہار پر اُسے سہارا دیتا ہے اور ہر کامیابی پر اُس سے بڑھ کر خوش ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ صفیان کو مزید بلندیوں سے نوازے، اور ہر والدین کو ایسا فخر نصیب ہو جو آج وحید سوہیل کے چہرے پر نمایاں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دعا گو: ایم شفیع میر گول، ضلع رام بن ،جموںو کشمیر
رابطہ9797110275:

30/07/2025


Devastating Scenes of Rainfall in Suranda, Gameri, and Thatharka Areas of Sub-Division Gool, District Ramban

Address

Residency Road
Jammu
180001

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when M SHAFI MIR posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to M SHAFI MIR:

Share