Voice of Nature- فطرت کی آواز

Voice of Nature- فطرت کی آواز . "نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے، بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

"Success is not in fame or wealth, but in the goodness you spread.

Be a light for others!"

03/09/2025

Mehfil naat va manajaat

آفاتِ سماوی: بجلی گرنے، بادل پھٹنے اور سیلاب آنے کی وجہ ماحولیاتی توازن کا بگاڑباسمہ تعالٰی۔وَاَقِيْمُوا الْوَزْنَ بِالْ...
17/08/2025

آفاتِ سماوی: بجلی گرنے، بادل پھٹنے اور سیلاب آنے کی وجہ ماحولیاتی توازن کا بگاڑ

باسمہ تعالٰی۔
وَاَقِيْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيزَانَ۔
ترجمہ: "اور انصاف کے ساتھ توازن کو قائم رکھو اور ترازو میں کمی نہ کرو" (الرحمٰن:9)۔

قدرت کا پورا نظام ایک نازک توازن پر قائم ہے۔ فضا، زمین، پانی اور توانائی کا باہمی ربط ہی وہ پیمانہ ہے جس کے ذریعے زندگی رواں دواں رہتی ہے۔ جب انسان اپنی فطرت سے ہم آہنگی قائم رکھتا ہے تو یہ توازن امن، سکون اور رحمت کا ذریعہ بنتا ہے۔ لیکن جب انسان خود غرضی اور لاپروائی کے ساتھ فطرت کے اصول توڑنے لگتا ہے تو یہی نظام بگڑ کر اس پر آفات کی صورت میں پلٹتا ہے۔ بادل پھٹنا، آسمانی بجلی گرنا اور غیر معمولی سیلاب انہی آفاتِ سماوی میں شامل ہیں۔ جو دراصل ماحولیاتی بگاڑ کا نتیجہ ہے۔

بادل پھٹنے کا عمل ایک سادہ سائنسی حقیقت رکھتا ہے۔ جب فضا میں نمی غیر معمولی حد تک بڑھ جائے اور ہوا کا دباؤ کم ہو تو بادل ایک محدود علاقے پر مرکوز ہو جاتے ہیں۔ خاص طور پر پہاڑی خطوں میں جب نم دار ہوائیں اوپر اٹھتی ہیں اور فضا کی ایک مخصوص سطح پر وہ بھاری نم بادلوں میں تبدیل ہوتی ہیں،تو متوازن بارش شروع ہوجاتی ہے۔۔پھر آہستہ آہستہ ہوا کی وجہ سے یہ بادل بکھرنے لگتے ہیں اور بارش بند ہوجاتی ہے۔۔۔۔لیکن جب کوئی چیز ان بادلوں کو بکھر نے سے روکتی ہے تو، بھاری مقدار میں بارش برستی ہے۔ بادلوں کا زیادہ مقدار میں ایک ہی جگہ جمع ہونا کبھی کبھی بادل پھٹنے اور بجلی گرنے کا سبب بنتا ہے۔ بادلوں کے اندر پانی اور برف کے ذرات کی رگڑ سے ان کے اندر موجود الیکٹرانوں میں مثبت اور منفی برقی چارج پیدا ہوتا ہے۔ جب یہ فرق زیادہ ہو جائے۔ پوٹینشل وولٹیج زیادہ بڑھ جائے۔ تو اچانک برقی اخراج ہوتا ہے جسے آسمانی بجلی کہا جاتا ہے۔ یہ سب مظاہر فطری ہیں لیکن ان کی شدت میں اضافہ زیادہ تر انسانی مداخلت کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔
ہم نے آلودگی پولوشن سے فضا میں ایسے ذرات بکھیر دیے ہیں جو بادلوں کے بھاری اور جمع ہونے کے عمل کو غیر معمولی طور پر تیز کرتے ہیں۔

جنگلات کی کٹائی اور پانی کے ذخائر کو روکنے کے لیے بنائے گئے مصنوعی ڈیم بھی اس توازن کو بگاڑ نے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں ۔ فطری طور پر ہوائیں کھلے مقامات پر بادلوں کو زیادہ دیر ایک جگہ جمع نہیں رہنے دیتی ہیں۔ مگر پہاڑی علاقوں میں جغرافیائی صورت حال الگ ہونے کی وجہ سے ایسا نہیں ہوتا۔ پہاڑوں کی رکاوٹ کی وجہ سے بادل جلدی بکھرتے نہیں۔۔۔۔ان‌ مقامات پر مون سون کے اثرات بھی نہیں ہوتے ، قدرت نے پانی کی اتنی ہی مقدارجمع رکھی ہے جتنی ضرورت ہے باقی پانی سمندروں کی طرف بہہ جاتا ہے۔ اس لئے بادل بھی اتنے ہی بنتے ہیں جتنی ضرورت ہے۔ مگر جب ہم پانی روک لیتے ہیں ڈیم کی صورت میں۔۔تو نم آلود ہوائیں زیادہ پیدا ہوتی ہیں۔۔پہاڑوں کا نظام انہیں بکھرنے نہیں دیتا تو پورا نظام بگڑ جاتا ہے ۔بارش بے قاعدگی سے ہوتی ہے۔شروع ہوجائے تو پھر رکنے کا نام نہیں لیتی ۔کبھی طویل عرصے تک غائب ہوجاتی ہے۔۔۔اور کبھی ایک ہی پل میں برسوں کا کوٹہ سمٹ آتا ہے۔ اسی لمحے کو ہم آفت کا لمحہ کہتے ہیں۔ جس میں پلک جھپکتے ہی قیامت برپا ہو تی ہے۔ہزاروں انسانوں کی جان کا ایتلاف ہوتا ہے، اور کروڑوں اربوں مالیت کی املاک کی بربادی دیکھنے کو ملتی ہے۔

اسلامی نقطہ نظر سے دیکھیں تو موت اور حیات کا فیصلہ صرف اللہ کے حکم سے ہوتا ہے۔ وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتَابًا مُؤَجَّلًا۔ القرآن۔ یعنی کوئی جان اللہ کے حکم کے بغیر نہیں مر سکتی، ہر ایک متنفس کی موت کا وقت مقرر ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو ماننے کے بعد یہ کہنا درست نہیں کہ حادثات موت کے ذمہ دار ہیں۔ حادثہ محض ایک ذریعہ ہوتا ہے، اصل سبب اللہ کی مشیت ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ انسان اپنی بے احتیاطی اور ماحولیاتی بگاڑ کے لیے بری الذمہ ہو جائے۔ انسان کے اعمال ہی آفات کی شدت اور کثرت کا باعث بن سکتے ہیں، اور یہی چیز دراصل اللہ کی طرف سے امتحان اور تنبیہ بھی ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ بادل پھٹنا اور بجلی گرنا فطرت کے قوانین کے تحت ہونے والے مظاہر ہیں، لیکن ان کی شدت میں اضافہ انسان کے اپنے پیدا کردہ اسباب کا نتیجہ ہے۔ موت اپنی جگہ اللہ کی تقدیر سے طے ہے مگر اجتماعی نقصان، خوف اور تباہی کا تعلق براہِ راست ماحولیاتی توازن کے بگاڑ سے ہے۔ انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس توازن کو قائم رکھے، کیونکہ کائنات کا حسن اور سکون اسی توازن میں پوشیدہ ہے۔ قرآن کی آیت "وَاَقِيْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيزَانَ" اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ انصاف اور توازن قائم رکھو، کیونکہ فطرت کے پیمانے میں ذرا سا بھی بگاڑ انسان پر آفات کی شکل میں پلٹ سکتا ہے۔

موضوع کی مناسبت سے اپنی ایک پرانی نظم ،،انتقامِ فطرت،، کے چند شعر یاد آگئے۔

نہ ہو آوارہ گلشن میں تو شترِ بے عناں بن کر
یہ فطرت تم پہ برسے گی بلائے آسماں بن کر

تمہاری چھیڑ خانی سے،تو اس کا کچھ نہ بگڑے گا
رہوگے تم ہی آخر کو جہاں میں بے نشاں بن کر

تماشہ خوب ہوگا جب یہ چشمے سوکھ جائیں گے
بہیں گے تیری آنکھوں سے یہی اشکِ رواں بن کر

ترنّم آبشاروں کا تری آہوں میں گم ہوگا
زبانِ حال سے ماتم کناں ،آہ و فغاں بن کر

تبّسُم کھلتی کلیوں کا ،تکلّم بہتی ندیوں کا
تصّور میں نہ رہ جائے ترے وہم و گماں بن کر

نظارے خوف کھائیں گے بہاریں روٹھ جائیں گی
جہانِ رنگ و بو روئے گا تم پر نوحہ خواں بن کر۔

فضیلت ہے تجھے حاصل ،تو مقصودِ خلائق ہے
برس تو گلشنِ ہستی پہ بارانِ اماں بن کر
غ ن غ

Address

Kishtwar

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Voice of Nature- فطرت کی آواز posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share