میری تحریریں

میری تحریریں یہاں اس پیج میں آپکو صرف میرے احساسات ،جذبات اور سوچ کی ترجمانی کرتی ہوئی تحریریں نظر آ ینگی ★★★

14.09.2025  ایسا دردناک واقعہ جس نے دل کو ہلا کر رکھ دیاایک ایسا واقعہ جو پرسوں 14 تاریخ  فیڈرل بی ایریا بلاک 21 میں پیش...
16/09/2025

14.09.2025
ایسا دردناک واقعہ جس نے دل کو ہلا کر رکھ دیا
ایک ایسا واقعہ جو پرسوں 14 تاریخ فیڈرل بی ایریا بلاک 21 میں پیش آیا جو دل کو چیر کر رکھ دے گی۔

کراچی میں ایک ایسا اندوہناک واقعہ پیش آیا کہ جسے سن کر روح کانپ جاتی ہے اور آنکھیں آنسو بہائے بغیر نہیں رہ سکتیں۔

میرے بچوں کا ٹیوشن سینٹر ایک گلی میں واقع ہے۔ میں روزانہ دوپہر کے وقت بچوں کو وہاں چھوڑنے اور شام کو لینے جاتا ہوں۔ اُس گلی میں ہمیشہ ایک ضعیف خاتون ایک گھر کے گیٹ کے پاس بیٹھی نظر آتی تھیں۔ ان کے کپڑے پرانے اور میلے، ہاتھ میں ایک پرانی لاٹھی، اور چہرے پر ایسی اداسی اور مجبوری کے آثار ہوتے کہ دل بے چین ہو جاتا۔

میں روز سوچتا تھا کہ ان سے بات کروں، ان کا حال پوچھوں، مگر جس دروازے کے باہر وہ بیٹھی ہوتی تھیں، وہ ان کا اپنا گھر تھا۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں ان کے گھر والے انہیں مزید تنگ نہ کرنے لگیں اگر میں ان سے خیر خبر لینے لگوں۔

پھر ایک دن وہ مجھے اس دروازے سے کچھ فاصلے پر دکھائی دیں۔ میں نے ہمت کی اور ان کی خیریت پوچھی۔ آنکھوں میں آنسو لیے بس اتنا کہا:
"بیٹا، مجھے کچھ کھانے کو دے دو۔"

اس دن کے بعد میں کبھی کھانا، کبھی کچھ رقم ان کے لیے لے جاتا۔ وہ اکثر محلے سے کھانے کا سہارا لیتی تھیں، کسی سے ناشتہ مانگ لیتی تھیں۔

ایک دن میں نے ان سے پوچھا:
"امّی، یہ گھر کس کا ہے جہاں آپ بیٹھی ہوتی ہیں؟"

وہ تھوڑا مسکرائیں، اور کہا:
"یہ میرا اپنا گھر ہے۔ میرے شوہر کے انتقال کے بعد میں نے اپنی زندگی بچوں کی پرورش میں گزار دی۔ میں اسکول میں پرنسپل تھی۔ زندگی بھر کی کمائی سے جو کچھ تھا، وہ برابر اپنے بچوں میں بانٹ دیا۔ ایک بیٹا باہر کے ملک میں ہے اور دوسرا میرے ساتھ اسی گھر کی اوپری منزل پر اپنی بیوی کے ساتھ رہتا ہے۔ نیچے والا کمرہ میرا ہے۔"

میں چونک گیا۔ مجھے احساس ہوا کہ وہ اپنے ہی گھر میں اپنے ہی بچوں کے رحم و کرم پر تھیں۔ نہ کھانا، نہ خیال۔ وہ بیٹے اور بہو کی بے رحمی کا شکار تھیں۔ مگر میں کچھ کر نہیں سکتا تھا — بس بے بسی سے دیکھتا اور کبھی کبھار مدد کر دیتا۔

پھر ایک دن گلی میں پولیس کی گاڑی آ گئی۔ پتہ چلا کہ وہ بزرگ خاتون اپنے کمرے میں گزشتہ چار دن سے مردہ حالت میں پڑی تھیں۔
ان کا سگا بیٹا اور بہو اُسی گھر میں موجود تھے۔ مگر ماں کی خبر تک نہ لی۔

لاش اس قدر خراب حالت میں تھی کہ جسم کا گوشت چوہوں نے نوچ ڈالا تھا۔ پورے محلے میں بدبو پھیل گئی تھی۔ تب جا کر ان "اولاد" کو ماں کی یاد آئی — اور وہ بھی دفنانے کے لیے، نہ کہ کسی پچھتاوے کے احساس سے۔

ایدھی والوں نے جب لاش کی حالت دیکھی، تو فوری اٹھانے سے انکار کر دیا۔ پولیس کو بلایا گیا۔ ایک عظیم ماں، ایک تعلیم یافتہ باوقار خاتون، جس نے اپنی ساری زندگی اولاد پر قربان کر دی — اسے یہ صلہ ملا کہ وہ چار دن تک بے کفن، بے گوروکفن پڑی رہی۔

جب سے یہ واقعہ سنا ہے، دل سے اس بیٹے اور اس کی بیوی کے لیے بددعائیں نکل رہی ہیں۔
اللہ تعالیٰ ایسی اولاد سے محفوظ رکھے۔

براہِ کرم اس تحریر کو آگے پہنچائیں، تاکہ لوگوں کو احساس ہو کہ والدین کا سایہ نعمت ہے — ان کی قدر کریں، جب تک وہ زندہ ہیں۔ بعد میں صرف پچھتاوا باقی رہ جاتا ہے۔
میرے حساب سے یہ قتل ہے اور قیامت کے دن اس کی کا فیصلہ میرا مالک اللّٰہ تعالیٰ سنائے گا۔ آمین

♦🟢نورانی آستانہ 🟢♦پارٹ.... 5گاؤں کے ایک سیدھے سادے گھرانے میں ایک نوجوان لڑکا رہتا تھا۔ دل کا نرم، شکل و صورت میں اچھا ا...
16/09/2025

♦🟢نورانی آستانہ 🟢♦

پارٹ.... 5

گاؤں کے ایک سیدھے سادے گھرانے میں ایک نوجوان لڑکا رہتا تھا۔ دل کا نرم، شکل و صورت میں اچھا اور مزاج میں سادہ۔ زندگی کا سب سے بڑا خواب یہ تھا کہ ایک دن اپنی پسند کی لڑکی سے شادی کرے گا اور سکون بھری زندگی گزارے ۔
گاؤں ہی میں ایک خوبصورت لڑکی رہتی تھی، جس سے وہ دل ہی دل میں محبت کرنے لگا۔ لڑکی بھی پہلے پہل اس کے ساتھ ہنسی مذاق کرتی، اس کی باتوں میں دلچسپی لیتی اور کئی بار محبت کے میٹھے الفاظ بھی کہہ دیتی۔ اس لڑکے کو لگا کہ یہی اس کی زندگی کی ساتھی ہے۔

کچھ مہینوں تک دونوں کی ملاقاتیں چلتی رہیں۔ لیکن پھر اچانک جب لڑکے نے شادی کی بات کی، تو لڑکی کا رویہ بدل گیا۔ اس نے سرد لہجے میں کہا:

“میں نے کبھی تم سے سچی محبت نہیں کی، یہ سب صرف وقت گزاری تھی۔ میری شادی تو ایک امیر آدمی سے ہوگی۔ تم میرے قابل نہیں ہو۔”

یہ جملہ لڑکے کے دل پر قیامت بن کر گرا۔ اس کا دل ٹوٹ گیا، مگر اس کے اندر ضد اور جنون جاگ اٹھا۔ وہ چاہتا تھا کہ یہ لڑکی ہر حال میں اسی کی ہو۔
اسی ضد اور پاگل پن میں وہ ایک ایسے بابا کے پاس جا پہنچا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ محبوب کو قدموں میں جھکانے کی طاقت رکھتا ہے۔

بابا کا ڈیرہ گاؤں سے دور ویرانے میں تھا۔ جھونپڑی نما کمرہ، دیواروں پر پرانی تعویذیں لٹک رہی تھیں، اور ہر کونے میں کالے دھوئیں سے جلی ہوئی دیے ٹمٹما رہے تھے۔ وہاں پہنچتے ہی لڑکے کے دل میں عجیب سا خوف بیٹھ گیا، مگر ٹوٹے دل کی ضد اس کے قدموں کو روکے نہ روک سکی۔

بابا کی آنکھیں سرخ تھیں اور چہرے پر وحشت طاری تھی۔ اس نے لڑکے کو گھورتے ہوئے کہا:
“میں جانتا ہوں تم کس لیے آئے ہو… تم اپنی محبوبہ کو ہر حال میں اپنے قدموں میں جھکانا چاہتے ہو، ہے نا؟”

لڑکے نے بے قراری سے اثبات میں سر ہلایا۔

بابا مسکرایا اور بولا:
“یہ کام آسان نہیں۔ اس کے لیے تمہیں سات راتوں کا چلہ کاٹنا ہوگا۔”

لڑکا چونک اٹھا:
“کیسا چلہ؟”

بابا نے آہستہ آواز میں بتایا:
“گاؤں کے پرانے قبرستان میں، جہاں کوئی آتا جاتا نہیں، تمہیں بارہ بجے رات سے صبح چار بجے تک ایک مخصوص دعا کا ورد کرنا ہوگا۔ تمہیں میرے دیے ہوئے مٹی سے ایک بڑا ستارہ بنانا ہوگا اور ستارے کے ہر کونے پر ایک موم بتی جلانی ہوگی۔ پھر ستارے کے بیچ بیٹھ کر بغیر ہلے ڈُلے ورد کرتے رہنا۔ لیکن یاد رکھنا! اگر چار بجے سے پہلے تم نے اس حصار سے قدم باہر نکالا، تو تمہاری جان خطرے میں ہوگی۔”

بابا نے سانس کھینچی اور پھر سخت لہجے میں کہا:
جنات تمہیں بہکائیں گے، کبھی تمہارے ماں باپ کا روپ دھار کر، کبھی تمہاری محبوبہ کا۔ لیکن تمہیں کسی قیمت پر دھوکہ نہیں کھانا۔”
لڑکے کے دل میں خوف تو تھا، مگر محبوب کو پانے کی ضد اس خوف پر بھاری تھی۔ اس نے ہاں میں سر ہلا دیا۔

پہلی رات جب وہ لڑکا قبرستان پہنچا تو آسمان پر گہرے بادل چھائے ہوئے تھے۔ ہوا میں عجب سی ٹھنڈک تھی اور قبروں کے درمیان سناٹا چیخ رہا تھا۔ اس نے بابا کی بتائی ہوئی مٹی سے زمین پر ایک بڑا ستارہ بنایا، ہر کونے پر موم بتی جلائی اور دل دھڑکتے ہوئے بیچ میں بیٹھ گیا۔

بارہ بجتے ہی اس نے ورد شروع کیا۔ پہلے پہل تو کچھ نہ ہوا، مگر رات کے ایک بجے کے قریب قبروں کے درمیان سرسراہٹ سنائی دینے لگی۔ یوں لگا جیسے کوئی سایہ اس کے اردگرد گھوم رہا ہو۔

اچانک ایک مانوس آواز سنائی دی:
“بیٹا، یہ کیا کر رہے ہو؟ گھر آ جاؤ…”

وہ چونک اٹھا، یہ تو اس کی ماں کی آواز تھی۔ مگر فوراً اسے بابا کی بات یاد آئی کہ جنات ماں باپ کا روپ دھار کر بہکائیں گے۔ اس نے آنکھیں بند کر کے ورد تیز کر دیا۔ آواز آتی رہی، رونے، بلانے اور منت کرنے کی لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔

پہلی رات یوں ہی گزر گئی۔ صبح چار بجے جب وہ قبرستان سے نکلا تو تھکاوٹ اور خوف سے نڈھال تھا مگر دل میں غرور بھی تھا کہ اس نے پہلا امتحان پاس کر لیا ہے۔

دوسری رات بھی تقریباً ویسی ہی گزری۔ اس بار اسے اپنی محبوبہ کا روپ دھارے ایک لڑکی نظر آئی جو روتے ہوئے کہہ رہی تھی:
“میں تم سے محبت کرتی ہوں، آؤ میرے پاس آ جاؤ…”

اس کا دل کانپا، مگر وہ جانتا تھا یہ دھوکہ ہے۔ اس نے ورد جاری رکھا اور آنکھیں نہ کھولیں۔

تیسری رات جب وہ قبرستان پہنچا تو ہوا اور بھی تیز تھی۔ قبروں پر اُلٹے چمگادڑ چکر لگا رہے تھے اور کتے زور زور سے بھونک رہے تھے۔ مگر وہ اپنے جنون میں ڈٹا رہا۔

چوتھی رات کا منظر باقی سب راتوں سے بالکل مختلف تھا۔ جیسے ہی وہ لڑکا قبرستان پہنچا تو وہاں ایک عجیب سی وحشت پھیلی ہوئی تھی۔ آسمان سیاہ بادلوں میں ڈوبا ہوا تھا، بجلی کڑک رہی تھی اور ہوا میں بدبو بھری تھی۔

اس نے کانپتے ہاتھوں سے وہی ستارہ بنایا اور موم بتیاں جلائیں۔ دل میں خوف بیٹھا ہوا تھا مگر ضد نے اسے مجبور کیا کہ حصار کے بیچ بیٹھ کر ورد شروع کرے۔

آدھی رات گزرتے ہی قبر کے قریب کی مٹی ہلنے لگی۔ چند لمحوں میں ایک بدشکل ہاتھ باہر آیا اور پھر آہستہ آہستہ ایک بھیانک شکل کا سایہ قبر سے باہر نکل آیا۔ آنکھیں سرخ، دانت نوکیلے اور جسم کی بو ناقابلِ برداشت۔

وہ لڑکے کو گھورتے ہوئے بولا:
“یہاں سے نکل جا… یہ جگہ ہماری ہے!”

لڑکے کا دل دہل گیا، مگر وہ ورد پڑھتا رہا۔ اس کے بعد یکایک کئی قبریں پھٹنے لگیں اور ان میں سے عجیب الخلقت مخلوق نکل کر اس کے گرد جمع ہوگئی۔ کوئی عورت کے بھیس میں، کوئی چھوٹے بچے کی شکل میں، کوئی جانور کی طرح۔ سب کی نظریں اس پر جمی ہوئی تھیں۔

پہلے تو وہ ان کے دھوکے کو نظرانداز کرتا رہا، مگر پھر اچانک ایک سایہ اس کی محبوبہ کے روپ میں آیا اور رو رو کر کہنے لگا:
“اگر تم مجھ سے محبت کرتے ہو تو حصار سے نکل آؤ… ورنہ میں یہیں مر جاؤں گی!”

اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے، دماغ سن ہوگیا اور دل کانپنے لگا۔ جنات نے شور بڑھا دیا، حصار ہلنے لگا، موم بتیاں بجھنے لگیں۔ آخرکار وہ ڈر کے مارے حصار توڑ کر بھاگ کھڑا ہوا۔

مگر یہ اس کی سب سے بڑی بھول تھی۔
جونہی وہ قبرستان سے باہر نکلا، سارے خبیث جنات اس کے پیچھے لپکے۔ وہ گھر تک دوڑتا گیا لیکن سایے بھی ساتھ ساتھ آ گئے۔ جیسے ہی گھر پہنچا تو جنات نے اس پر حملہ کر دیا۔

اگلی صبح وہ لڑکا نڈھال، بکھرے بالوں اور خوفناک آنکھوں کے ساتھ جاگا۔ اس کا رویہ بدل گیا تھا۔ کبھی زور زور سے چیختا، کبھی ہنستا، کبھی زمین پر گندگی میں لوٹنے لگتا۔ والدین کو مارتا پیٹتا اور راتوں کو عجیب زبان میں بولتا۔

اب اس لڑکے کی حالت دن بدن بگڑنے لگی۔ کبھی وہ گھر کے صحن میں اونچی آواز میں چیخنے لگتا، کبھی قہقہے مار کر ہنستا اور پھر اچانک رونے لگتا۔ کئی بار تو اس نے اپنے والدین کو دھکے دے کر زخمی کر دیا۔ گاؤں والے ڈر کے مارے اس کے گھر آنا جانا چھوڑ بیٹھے۔

اس کے ماں باپ پہلے تو سمجھے شاید یہ ذہنی بیماری ہے۔ وہ اسے شہر کے بڑے ڈاکٹروں کے پاس لے گئے۔ ڈاکٹروں نے کئی مہینے تک علاج کیا، دوائیں دیں، انجکشن لگائے، مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ بلکہ ہر دن اس کی حالت اور بھی خراب ہوتی گئی۔

ایک دن جب ڈاکٹر نے ہاتھ کھڑے کر دیے تو اس کے والدین سے بولا:
“یہ پاگل نہیں ہے۔ اس پر کسی نادیدہ مخلوق کا سایہ ہے۔ اب میڈیکل علاج بےکار ہے۔ اسے کسی بڑے بابا کے پاس لے جائیے۔”

والدین کے قدموں تلے زمین کھسک گئی۔ وہ اس کو ایک جعلی عامل کے پاس لے گئے۔ اس عامل نے عجیب و غریب تعویذ دیے اور ہزاروں روپے بٹور لیے، مگر لڑکے کی حالت ویسی کی ویسی رہی۔ پھر دوسرا بابا آیا، اس نے خون چھڑکنے کے بہانے اور زیادہ پیسے لوٹے۔

یوں ایک کے بعد ایک جعلی بابا آتا رہا، تعویذ اور منتر پڑھتا رہا، والدین کی جیب خالی کرتا رہا، مگر لڑکا دن بدن بدتر ہوتا گیا۔

اب تو حال یہ تھا کہ وہ رات کو قبروں کی طرف بھاگنے لگتا، درختوں سے سر ٹکرانے لگتا، اور عجیب عجیب آوازیں نکالتا۔ گاؤں کے لوگ اس سے دور بھاگنے لگے، کچھ تو کہتے تھے کہ اس پر چالیس خبیث جنات کا قبضہ ہے۔

آخر کار ایک بزرگ نے اس کے والدین کو مشورہ دیا:
“اگر تمہیں اپنے بیٹے کو بچانا ہے تو اسے حضرت پیر شاہ پہاڑی والے کے آستانے پر لے جاؤ۔ وہاں سے خالی ہاتھ کوئی نہیں لوٹتا۔”

لڑکے کی حالت اس قدر بگڑ چکی تھی کہ وہ اپنے ہوش و حواس میں نہ رہتا۔ کبھی پاگلوں کی طرح ہنستا، کبھی زور زور سے چیختا اور کبھی درختوں کی ٹہنیاں توڑ کر اپنے اوپر مارتا۔ والدین نے فیصلہ کیا کہ اب وہ آخری سہارا حضرت پیر شاہ پہاڑی والے کے پاس ہی لے جائیں گے۔

مگر مسئلہ یہ تھا کہ وہ لڑکا کسی کے قابو میں نہیں آتا تھا۔ پانچ چھ آدمیوں نے اسے پکڑنے کی کوشش کی مگر وہ سب کو دھکیل دیتا۔ آخر کار گاؤں کے دس مضبوط آدمی اکٹھے کیے گئے۔ سب نے مل کر رسیوں سے اسے باندھا، اور بڑی مشکل سے بیل گاڑی میں ڈال کر آستانے کی طرف روانہ ہوئے۔

راستے بھر وہ عجیب و غریب حرکات کرتا رہا۔ کبھی آواز بدل کر کسی عورت کی طرح ہنستا، کبھی گالیوں پر اتر آتا، کبھی عجیب زبان میں کچھ پڑھنے لگتا۔ اس کے والدین زار و قطار روتے رہے اور بار بار دہراتے:
“یا اللہ! ہمیں پیر شاہ جی کے قدموں تک پہنچا دے، بس یہی ہماری آخری امید ہیں۔”

لڑکے کی حالت اس قدر بگڑ چکی تھی کہ وہ اپنے ہوش و حواس میں نہ رہتا۔ کبھی پاگلوں کی طرح ہنستا، کبھی زور زور سے چیختا اور کبھی درختوں کی ٹہنیاں توڑ کر اپنے اوپر مارتا۔ والدین نے فیصلہ کیا کہ اب وہ آخری سہارا حضرت پیر شاہ پہاڑی والے کے پاس ہی لے جائیں گے۔

مگر مسئلہ یہ تھا کہ وہ لڑکا کسی کے قابو میں نہیں آتا تھا۔ پانچ چھ آدمیوں نے اسے پکڑنے کی کوشش کی مگر وہ سب کو دھکیل دیتا۔ آخر کار گاؤں کے دس مضبوط آدمی اکٹھے کیے گئے۔ سب نے مل کر رسیوں سے اسے باندھا، اور بڑی مشکل سے بیل گاڑی میں ڈال کر آستانے کی طرف روانہ ہوئے۔

راستے بھر وہ عجیب و غریب حرکات کرتا رہا۔ کبھی آواز بدل کر کسی عورت کی طرح ہنستا، کبھی گالیوں پر اتر آتا، کبھی عجیب زبان میں کچھ پڑھنے لگتا۔ اس کے والدین زار و قطار روتے رہے اور بار بار دہراتے:
“یا اللہ! ہمیں پیر شاہ جی کے قدموں تک پہنچا دے، بس یہی ہماری آخری امید ہیں۔”

جب وہ آستانے کے قریب پہنچے تو فضا ہی بدلی ہوئی تھی۔ ہوا میں سکون تھا، مسجد سے اذان کی آواز آ رہی تھی اور صحن میں بیٹھے درویش اللہ کا ذکر کر رہے تھے۔ جیسے ہی وہ لڑکے کو اندر لائے، دروازے پر ہی اس نے زور دار چیخ ماری اور تڑپنے لگا۔

پیر شاہ جی اس وقت حجرے میں ذکر میں مشغول تھے۔ مریدوں نے اطلاع دی کہ ایک نوجوان جس پر جنات کا سایہ ہے، باہر لایا گیا ہے۔ پیر شاہ جی نے آنکھیں بند کر کے کچھ دیر خاموشی اختیار کی، پھر فرمایا:
“لے آؤ… مگر اسے میرے حجرے کے بیچ میں چھوڑ دینا۔ تم سب باہر رہو۔”

لڑکے کو بڑی مشکل سے حجرے کے بیچ میں لایا گیا اور رسیوں سمیت فرش پر ڈال دیا گیا۔ جیسے ہی دروازہ بند ہوا، اس کے اندر سے ایک عجیب و غریب قہقہہ بلند ہوا۔ اس کی آنکھیں سرخ انگاروں کی طرح دہکنے لگیں اور آواز بدل گئی، گویا کوئی اور بول رہا ہو۔

“ہاہاہا… ہم اسے نہیں چھوڑیں گے۔ یہ ہمارا ہے۔”

پیر شاہ جی نے آنکھیں موند کر تسبیح ہاتھ میں پکڑی اور پرسکون لہجے میں بولے:
“بتاؤ، تم کون ہو؟ اور اس نوجوان پر کیوں قابض ہو گئے ہو؟”

لڑکے کے منہ سے خوفناک آواز نکلی:
“ہم قبرستان کے خبیث جنات ہیں۔ یہ ہمارے دائرے کو توڑ کر بھاگا تھا۔ اس کی نافرمانی کی سزا یہی ہے کہ ہم اس کے جسم میں رہیں۔”
یہ ہمیں قابو میں کرنا چاہتا تھا اب ہم اسکو اپنے قابو میں رکھیں گیں تو بیچ میں نا آ..
یہ ہمارا مجرم ہے اسے ہم نہیں چھوڑیں گے....
پیر شاہ جی نے کڑک دار آواز میں فرمایا.

“یہ اللہ کی مخلوق ہے، تمہارا غلام نہیں۔ فوراً نکل جاؤ ورنہ تم پر آگ برسے گی۔”

یہ سنتے ہی لڑکے کا جسم کانپنے لگا، اور اس کے منہ سے ایک اور آواز آئی، جیسے کئی مخلوقات بیک وقت بول رہی ہوں:
“ہم چالیس ہیں! ہم سب نے اس کے اندر جگہ بنالی ہے۔ ہمیں کوئی نہیں نکال سکتا۔”

پیر شاہ جی مسکرائے اور بولے:
“چالیس ہو یا چار سو، میرا رب ایک ہے۔ تمہارے جیسے ہزاروں جنات میرے مولا کے حکم سے ایک لمحے میں جل کر راکھ ہو جاتے ہیں۔”

پھر انہوں نے اونچی آواز میں اذان دی۔ اذان کی آواز سنتے ہی لڑکے کا جسم تڑپنے لگا، وہ زمین پر لوٹنے لگا اور چلا اٹھا:
“بند کرو! یہ آواز ہمیں جلا رہی ہے…!”
اذان مکمل ہوتے ہی حجرے کا ماحول بدل گیا۔ ایک عجیب سی روشنی چاروں طرف پھیل گئی۔ لڑکا زمین پر تڑپ رہا تھا، کبھی دیوار سے سر مارنے کی کوشش کرتا تو کبھی زنجیروں کی طرح بندھی رسیوں کو توڑنے کی۔

پیر شاہ جی نے آنکھیں بند کیں اور تسبیح کے دانے گھماتے ہوئے قرآن کی آیات بلند آواز میں پڑھنا شروع کیں۔ جیسے ہی سورۂ جن کی تلاوت ہوئی، لڑکے کے اندر سے ایک زور دار چیخ نکلی، گویا کئی آوازیں مل کر چیخ رہی ہوں۔

“ہم جل رہے ہیں! ہمیں مت پڑھو! یہ ہمارا شکار ہے!”

پیر شاہ جی نے اور بھی سخت لہجے میں آیات پڑھیں، ساتھ ہی پانی پر دم کیا اور اس کے منہ پر چھڑکا۔ پانی چھڑکتے ہی لڑکا بری طرح کانپنے لگا، اس کے جسم پر نیل پڑ گئے جیسے کسی نے آگ کے شعلے مارے ہوں۔

پھر پیر شاہ جی بولے:
“اے خبیث جنو! میں تمہیں اللہ کے حکم سے حکم دیتا ہوں، نکل جاؤ اس بدن سے ورنہ تمہیں قید کر دیا جائے گا۔”

اس پر لڑکے کے منہ سے کئی آوازیں آئیں:
“ہم قبرستان کی قسم کھا کر آئے تھے، اب ہم اس کا خون پیے بغیر نہیں جائیں گے!”

پیر شاہ جی نے غصے سے تسبیح زمین پر دے ماری اور بلند آواز میں قرآنی آیت پڑھنے لگے۔ کمرہ لرزنے لگا، چراغ جھومنے لگے۔

چند لمحے بعد لڑکے نے قہقہہ مارا اور اچانک خاموش ہو گیا۔ پھر ایک بھاری آواز نکلی:
“ہم مان گئے… مگر ہم سب نکلنے سے پہلے ایک شرط رکھتے ہیں…”

پیر شاہ جی پرسکون لہجے میں بولے:

شرطیں مجھ سے نہیں، اللہ سے منواتے ہیں۔ تمہارے پاس صرف دو راستے ہیں: یا تو فوراً نکل جاؤ، یا جل کر راکھ ہو جاؤ!”

پیر شاہ جی نے سخت لہجے میں آیت الکرسی دہراتے ہوئے ہاتھ فضا میں بلند کیے۔ اچانک لڑکے کا جسم کانپنے لگا اور اس کے منہ سے ایک بھیانک چیخ نکلی۔

پہلا خبیث جن آگ کے شعلے کی طرح لڑکے کے منہ سے نکل کر دیوار سے ٹکرایا اور غائب ہوگیا۔ پھر دوسرا جن، پھر تیسرا… یوں ایک ایک کر کے سب نکلنے لگے۔ حجرہ خوفناک آوازوں سے گونج اٹھا۔

کچھ جنات چیختے:
“ہم واپس قبرستان جا رہے ہیں… ہمیں یہاں سے نکال دو!”

پیر شاہ جی نے تلاوت جاری رکھی اور کہا:
“اللہ کے حکم کے بغیر کوئی کہیں نہیں جا سکتا۔ نکل جاؤ اور عہد کرو کہ دوبارہ کبھی اس انسان کے قریب نہ آؤ گے۔”

یوں کئی گھنٹے کی جدوجہد کے بعد لڑکا بالکل بے ہوش ہو گیا۔

اس کے اندر سے چالیس کے چالیس خبیث جن نکل چکے تھے۔ حجرے میں اب سکون کی لہر پھیل گئی تھی۔

جب لڑکا ہوش میں آیا تو وہ حیران پریشان چاروں طرف دیکھنے لگا۔ اس کے چہرے پر سکون تھا، آنکھوں سے وحشت ختم ہو چکی تھی۔ والدین خوشی سے رو پڑے اور پیر شاہ جی کے قدموں میں گر گئے۔

پیر شاہ جی نے مسکرا کر کہا:
“یہ اللہ کا کرم ہے۔ شفا دینا میرے ہاتھ میں نہیں، میرے رب کے حکم میں ہے۔”

پھر انہوں نے لڑکے اور اس کے والدین کو نصیحت کی:
“بیٹا! محبت نیکی ہے اگر خلوص کے ساتھ ہو، مگر ضد اور جنون تمہیں اندھیروں میں دھکیل دیتا ہے۔ کبھی بھی اپنے مقصد کے لیے غلط راستہ اختیار نہ کرنا، نہ جادو، نہ چلہ، نہ کسی خبیث قوت کا سہارا لینا۔ یہ سب تمہیں تباہ کر دیتے ہیں۔”

اس کے بعد پیر شاہ جی نے اس لڑکی کے لیے بھی پیغام دیا:
“بیٹی! محبت دل کی سچائی کا نام ہے، کھیلنے کا نہیں۔ کسی کے جذبات سے کھیلنا ظلم ہے۔ یاد رکھنا، جس کے ساتھ تم کھیلتی ہو، اس کی آہیں اور اس کا دکھ کبھی نہ کبھی لوٹ کر تمہارے سامنے ضرور آتا ہے۔”

لڑکا آنسو بہاتے ہوئے بولا:
“میں نے اپنی ضد میں اپنی زندگی برباد کی۔ اب کبھی بھی ایسے راستے پر نہیں چلوں گا۔”

والدین نے سجدۂ شکر ادا کیا، اور گاؤں والے جو یہ منظر دیکھ رہے تھے، وہ سب پیر شاہ جی کے ہاتھ چومنے لگے۔ اس دن کے بعد وہ لڑکا ایک نیک اور سیدھی راہ پر چلنے والا انسان بن گیا۔

یوں نورانی آستانے سے ایک اور خاندان کو سکون ملا اور سب نے جان لیا کہ اصل طاقت صرف اللہ کے پاس ہے، نہ کہ خبیث جنات یا جعلی باباؤں کے پاس۔

ختم شد

محبت عبادت ہے اگر سچائی ہو، ورنہ کھیل بنے تو بربادی لاتی ہے۔"

تو دوستو اج کی کہانی اپ کو کیسی لگی اگر کہانی پسند ائی ہو تو کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار لازمی کیجئے گا اور میرے پیج کو لائک اور فالو ضرور کر لیجئے گا تاکہ میں جب بھی کوئی نیا پوسٹ ڈالوں تو اپ لوگوں کی نوٹیفکیشن میں ا جائے شکریہ ملیں گے پھر ایک نیا ایپیسوڈ لے کر....



ایک امریکی جس نے عراقی صدر صدام حسینؒ کی پھانسی دیکھیترجمہ : ابو مصعب اﻻثري ایک امریکی جس نے صدر صدام حسینؒ کی پھانسی کے...
16/09/2025

ایک امریکی جس نے عراقی صدر صدام حسینؒ کی پھانسی دیکھی

ترجمہ : ابو مصعب اﻻثري

ایک امریکی جس نے صدر صدام حسینؒ کی پھانسی کے عمل میں شرکت کی، کہتا ہے کہ وہ آج تک اس واقعہ پر غور و فکر میں ہے اور اکثر یہ پوچھتا ہے کہ اسلام موت کے بارے میں کیا کہتا ہے۔

اس نے کہا: صدام ایسا شخص ہے جو احترام کے لائق ہے۔

رات دو بجے (گرینچ کے مطابق) صدام حسین کی کوٹھڑی کا دروازہ کھولا گیا۔
پھانسی کی نگرانی کرنے والے گروہ کا سربراہ اندر آیا اور امریکی پہریداروں کو ہٹنے کا حکم دیا، پھر صدام کو بتایا گیا کہ ایک گھنٹے بعد اسے پھانسی دی جائے گی۔

یہ شخص ذرا بھی گھبرایا نہیں تھا۔ اس نے مرغی کے گوشت کے ساتھ چاول منگوائے جو اس نے آدھی رات کو طلب کیے تھے، پھر شہد ملا گرم پانی کے کئی پیالے پئے، یہ وہ مشروب تھا جس کا وہ بچپن سے عادی تھا۔

کھانے کے بعد اسے بیت الخلا جانے کی پیشکش کی گئی مگر اس نے انکار کردیا۔

رات ڈھائی بجے صدام حسین نے وضو کیا، ہاتھ، منہ اور پاؤں دھوئے، اور اپنے لوہے کے بستر کے کنارے بیٹھ کر قرآن مجید کی تلاوت کرنے لگے، یہ قرآن انہیں ان کی اہلیہ نے بطور تحفہ دیا تھا۔ اس دوران پھانسی دینے والی ٹیم پھانسی کے پھندے اور تختے کا جائزہ لے رہی تھی۔

پونے تین بجے مردہ خانہ کے دو افراد تابوت لے کر آئے اور اسے پھانسی کے تختے کے پاس رکھ دیا۔

دو بج کر پچاس منٹ پر صدام کو کمرۂ پھانسی میں لایا گیا۔ وہاں موجود گواہان میں جج، علما، حکومتی نمائندے اور ایک ڈاکٹر شامل تھے۔

تین بج کر ایک منٹ پر پھانسی کا عمل شروع ہوا جسے دنیا نے کمرے کے کونے میں نصب ویڈیو کیمرے کے ذریعے دیکھا۔ اس سے قبل ایک سرکاری اہلکار نے پھانسی کا حکم پڑھ کر سنایا۔

صدام حسین تختے پر بلا خوف کھڑے رہے جبکہ جلاد خوفزدہ تھے، کچھ کانپ رہے تھے اور بعض نے اپنے چہرے نقاب سے چھپا رکھے تھے جیسے مافیا یا سرخ بریگیڈ کے افراد ہوں۔ وہ لرزاں اور سہمے ہوئے تھے۔

امریکی فوجی کہتا ہے:
"میرا جی چاہا کہ میں بھاگ جاؤں جب میں نے صدام کو مسکراتے دیکھا، جبکہ وہ آخری الفاظ میں مسلمانوں کا شعار پڑھ رہے تھے: لا إله إلا الله محمد رسول الله۔

میں نے سوچا کہ شاید کمرہ بارودی مواد سے بھرا ہوا ہے اور ہم کسی جال میں پھنس گئے ہیں۔ کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں لگتا کہ کوئی شخص اپنی پھانسی سے چند لمحے پہلے مسکرا دے۔

اگر عراقی یہ منظر ریکارڈ نہ کرتے تو میرے امریکی ساتھی سمجھتے کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں، کیونکہ یہ ناقابلِ یقین تھا۔

لیکن راز یہ ہے کہ اس نے کلمہ پڑھا اور مسکرایا۔
میں یقین دلاتا ہوں کہ وہ واقعی مسکرایا، جیسے اس نے کوئی ایسی چیز دیکھی ہو جو اچانک اس کے سامنے ظاہر ہوگئی ہو۔ پھر اس نے مضبوط لہجے میں کلمہ دوبارہ کہا جیسے کوئی غیبی طاقت اسے کہلا رہی ہو۔"

💢 صدام حسین کے بارے میں چند حقائق

1- وہ پہلا حکمران تھا جس نے اسرائیل کے شہر تل ابیب پر میزائل برسائے۔

2- اس نے یہودیوں کو خوف زدہ کر دیا کہ وہ بلیوں کی طرح بنکروں میں چھپ گئے۔

3- وہ جنگوں میں بھی عرب قومیت کے نعرے لگاتا تھا۔

4- اس نے جج سے کہا: "یاد ہے جب میں نے تمہیں معاف کیا تھا حالانکہ تمہیں پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی!" جج گھبرا گیا اور استعفیٰ دے دیا، پھر رؤوف کو لایا گیا۔

5- اس نے کہا: "اے علوج! ہم نے موت کو اسکولوں میں پڑھا ہے، کیا اب بڑھاپے میں اس سے ڈریں گے؟"

6- اس نے شام و لبنان کو کہا: "مجھے ایک ہفتہ اپنی سرحدیں دے دو، میں فلسطین آزاد کرا دوں گا۔"

❣️ آخری لمحے

پھانسی سے قبل امریکی افسر نے صدام سے پوچھا:
"تمہاری آخری خواہش کیا ہے؟"

صدام نے کہا:
"میری وہ کوٹ لا دو جو میں پہنتا تھا۔"

افسر نے کہا: "یہی چاہتے ہو؟ مگر کیوں؟"

صدام نے جواب دیا:
"عراق میں صبح کے وقت سردی ہوتی ہے، میں نہیں چاہتا کہ میرا جسم کانپے اور میری قوم یہ سمجھے کہ ان کا قائد موت سے خوفزدہ ہے۔"

پھانسی سے قبل اس کے لبوں پر آخری کلمات کلمہ شہادت تھے۔

اور اس نے عرب حکمرانوں سے کہا تھا:

"مجھے امریکہ پھانسی دے گا، مگر تمہیں تمہاری اپنی قوم پھانسی دے گی۔"

یہ کوئی معمولی جملہ نہ تھا بلکہ آج ایک حقیقت ہے۔

🌹 اللہ اس بہادر پر رحم فرمائے۔ 🌹

📌 اگر آپ نے یہ پڑھ لیا ہے تو حضور ﷺ پر درود بھیجیں

🌊 سمندر کی گہرائیوں میں تیس سالہ دوستی 🐟جاپان کے ٹیٹایاما بے کی پرسکون گہرائیوں میں ایک ایسی دوستی نے جنم لیا جو کسی دو ...
16/09/2025

🌊 سمندر کی گہرائیوں میں تیس سالہ دوستی 🐟

جاپان کے ٹیٹایاما بے کی پرسکون گہرائیوں میں ایک ایسی دوستی نے جنم لیا جو کسی دو انسانوں کے درمیان نہیں، بلکہ ایک انسان اور ایک مچھلی کے درمیان ہے۔

جاپانی غوطہ خور ہیرویوکی آراکاوا کی ملاقات یوریکو نامی ایک سیمیکوسائفس ریٹیکولیٹس (ایشین شیپسہیڈ راس) سے تین دہائیوں سے زائد عرصے قبل ہوئی۔ زخمی اور مشکل سے تیرتی ہوئی یوریکو کو آراکاوا نے اس زیرِ آب شینٹو مزار کے قریب پایا جس کی وہ دیکھ بھال کرتے ہیں۔ نرمی سے، غوطہ خور نے اسے روزانہ کھانا کھلایا یہاں تک کہ وہ صحت یاب ہو گئی۔ اور پھر... وہ کبھی مکمل طور پر چھوڑ کر نہیں گئی۔

جو ایک بچاؤ کے طور پر شروع ہوا، وہ ایک رسم بن گیا۔ آج تک، جب بھی آراکاوا سمندر کی گہرائی میں اترتے ہیں، یوریکو نمودار ہوتی ہے — چٹانوں سے نکل کر ان کا استقبال کرتی ہے، ان کی موجودگی کا جواب اس طرح دیتی ہے جسے صرف پیار کہا جا سکتا ہے۔ ❤️

لیکن یہ صرف ایک دل خوش کن کہانی نہیں — سائنس اس کی تائید کرتی ہے۔ یوریکو ایک ایسی نسل سے تعلق رکھتی ہے جو غیر معمولی یادداشت اور چہرے کی شناخت کے لیے جانی جاتی ہے۔ محققین نے تصدیق کی ہے: اس جیسی مچھلیاں برسوں... حتیٰ کہ دہائیوں تک انفرادی انسانوں کو یاد رکھ سکتی ہیں اور ان کا جواب دے سکتی ہیں۔

اب اپنی ستر کی دہائی میں، آراکاوا اب بھی اپنے پرانے دوست سے ملنے کے لیے غوطہ لگاتے ہیں، یہ ثابت کرتے ہوئے کہ دوستی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی — حتیٰ کہ انواع کے درمیان بھی نہیں۔

🕊️ ایک انسان۔ ایک مچھلی۔ اور ایک ایسی دوستی جو طوفانوں، وقت، اور لہروں سے بچ گئی — ہمیں یاد دلاتی ہے کہ کبھی کبھار سب سے معنی خیز رابطے سب سے غیر متوقع جگہوں سے آتے ہیں۔

ایک ریچھ نے آئس کریم کی دکان میں گھس کر اتنا آئس کریم کھایا کہ بے ہوش ہو گیا۔ٹاہو میں ایک آئس کریم شاپ نے ابھی نیا ماہان...
16/09/2025

ایک ریچھ نے آئس کریم کی دکان میں گھس کر اتنا آئس کریم کھایا کہ بے ہوش ہو گیا۔
ٹاہو میں ایک آئس کریم شاپ نے ابھی نیا ماہانہ فلیور متعارف کروایا تھا: شہد آئس کریم۔ مقامی لوگ اسے بہت پسند کر رہے تھے، مگر حیرت انگیز طور پر اصل مداح تو کہیں بڑے نکلے۔
صرف دوسرے دن جب دکان کھولی گئی تو ملازمین نے دیکھا کہ شہد والی آئس کریم کے ٹب خالی پڑے ہیں اور ایک دیوہیکل سیاہ ریچھ فرش پر اطمینان سے سو رہا ہے، اپنی دعوت اڑانے کے بعد۔
جنگلی حیات کے اہلکاروں کو بلایا گیا۔ انہوں نے بڑی احتیاط سے ریچھ کو جگایا اور اسے شہر سے دور ایک محفوظ علاقے میں منتقل کر دیا۔
ماہرین نے بتایا کہ ریچھ کی سونگھنے کی حس غیر معمولی ہوتی ہے — اندازہ ہے کہ خون سونگھنے والے کتوں سے سات گنا بہتر — جس سے وہ میلوں دور سے کھانے کو ڈھونڈ لیتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ شہد والی آئس کریم نے اسے سیدھا دکان تک کھینچ لیا۔
آخرکار مقامی وائلڈ لائف سینٹر نے آئس کریم کا خرچ خود اٹھا لیا۔ اور جب مالک سے پوچھا گیا تو وہ ہنس پڑا:
“جب تک کوئی پیسے دے رہا ہے، مجھے تو خوشی ہے کہ وہ پھر آئے۔ یہ ہماری سب سے تیز سیل تھی!”
کاپیڈ

منقول شازل بھائی میں نے ایک کہانی سنی تھی کہ اسلام آباد کے اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی  میں  کمپیوٹر سائنس ڈیپارٹمنٹ کے ا...
15/09/2025

منقول
شازل بھائی

میں نے ایک کہانی سنی تھی کہ اسلام آباد کے اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس ڈیپارٹمنٹ کے ایک پروفیسر کی بیوی کو کینسر کی بیماری لاحق ہوگئی ۔

تشخیص کے ساتھ ہی ڈاکٹرز نے معذرت کی اور یہ کہہ کر مذکورہ پروفیسر کو چلتا کیا کہ آپ کی بیوی صرف پندرہ بیس دنوں کی مہمان ہے ۔۔ اس کا علاج اب کسی کے بس کی بات نہیں ۔

یہ بات عام طور پر قیامت ڈھاتی ہے اور جس کا مجھے خود بھی پتا ہے کیونکہ اس قیامت سے میں ہزار بار گزرا ہوں ۔

اتنی آسانی سے کوئی کیسے مان لیں کہ مریض چند دنوں کا مہمان ہے اس لئے اس کو گھر میں رکھنا ہی بہتر ہے ۔۔بہرحال ڈاکٹرز بھی علمی بنیادوں پر فیصلے کرتے ہیں ۔۔

دوسرے عام لوگوں کی طرح پروفیسر بھی مان نہیں رہا تھا اور منت سماجت میں لگ گیا ۔۔ ڈاکٹروں نے لاکھ سمجھایا لیکن نتیجہ " وہی ڈھاک کے تین پات '' والی صورتحال ۔۔

خیر ڈاکٹرز نے مریض کو داخل کیا اور وہ بھی صرف خون کی منتقلی کے لئے ۔۔ پروفیسر صاحب کو لیگل ڈاکومینٹیشن کا کہا گیا اسی لئے وہ اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی کی طرف پلک جھپکتے ہی پہنچ گیا ۔

اب یہاں سے اصل کہانی شروع ہوتی ہے ۔۔.........

پروفیسر صاحب جیسے ہی یونیورسٹی سے نکلے تو ایک سفید ریش بزرگ گاڑی کے آگے کھڑے ہوگئے ۔ پروفیسر صاحب چونکہ جلدی میں تھے کیونکہ اس کی شریک حیات زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی تھی تھبی آگے بڑھنے کی کی بہتیرا کوشش کی لیکن ناکام رہے ۔

خیر اس نے بزرگ سے پوچھ ہی لیا ۔۔

جی بابا جی کیا خدمت کرسکتا ہوں ۔۔۔

بابا جی نے جواب دینے کی بجائے اگلے سیٹ پر بیٹھنا ہی مناسب سمجھا ۔ وہ جیسے ہی بیٹھ گئے پروفیسر صاحب دوبارہ گویا ہوئے ۔۔ میں کہاں آپ کو ڈراپ کروں ؟

اب اسے اتفاق کہئیے کہ بابا جی کی منزل بھی اس ہسپتال کے آس پاس ہی تھی جہاں پروفیسر صاحب کی بیوی داخل تھی ۔۔

دونوں جب روانہ ہوئے تو بابا جی نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی لاٹھی کو جنبش دی ، ایک سرد آہ بھری اور پروفیسر کی طرف دیکھ کر کہا ۔ آپ کی بیوی کینسر کے ساتھ نبرد آزما ہے ۔ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے ۔ آپ میری بات مان لیں اور اپنی بیوی کو آج کے بعد دھماسے (ازغکے ) کا پانی شروع کردیں ۔ اللہ نے چاہا تو شفا نصیب ہوگی ۔۔ کینسر کا بس یہی ایک علاج ہے ۔۔۔

پروفیسر نے جیسے ہی یہ باتیں سنی تو اس پر لرزہ طاری ہوگیا اور حیران ہونا بجا تھا کیونکہ بابا جی کو اس نے زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا اور جس نے اس کی پوری کہانی اسے بتادی تھی ۔۔

اس نے بہت کوشش کی بابا جی سے یہ پتا لگانے کی کہ وہ کون ہے اور یہ سب کیسے جانتا ہے لیکن بابا جی کے دبدبے کے سامنے وہ لاچار نظر آیا ۔۔۔ بابا جی جب گاڑی سے اتر رہے تھے تو یہ اس کے آخری الفاظ تھے ۔" دھماسہ مسلسل دیتے رہنا اور سور الرحمن کی تلاوت بھی سناتے رہنا ۔ ایک دو مہینے میں آپ کو پتا لگ جائیگا ۔۔

پروفیسر ویسے بھی ڈاکٹرز سے مایوس ہوچکا تھا جیسے ہی ہسپتال سے گھر پہنچا ۔ نوشہرہ سے دھماسے کا پودا منگوایا ، اس کو پانی میں ڈبو کر ایک کپڑے سے چھان کیا اور اللہ کا نام لے کر پلانا شروع کیا ۔

میں نے جب کہانی یہاں تک سنی تو چونکہ مجھے بھی ضرورت تھی اسی لئے سیدھا اسلام آباد پہنچ گیا اور مذکورہ پروفیسر جس کا نام شکیل شاہ تھا سے اس کے رہائش گاہ پر ملا ۔۔

یہ سال ٢٠١٨ میں رمضان کا شائد بائیسواں روزہ تھا ۔۔۔ آگے کی کہانی میں نے ان سے خود سنی ۔۔

وہ کہتے ہیں ۔

دھماسے کا استعمال میں مسلسل کرتا رہا اور میری بیوی کی تکلیف میں کمی آتی رہی ۔۔ ڈاکٹروں کے بتائے ہوئے پندرہ دن سے جب ہم بچ گئے تو پھر میرا حوصلہ اور بھی بڑھ گیا ۔۔

دھماسے کے مسلسل استعمال اور سورہ الرحمن سنانے کے پورے ایک مہینے بعد جب ہم نے ٹیسٹ کروائے تو بیماری کا نام و نشان تک نہ تھا ۔۔

آپ کو پتا ہے دس سال سے ذیادہ ہوگئے ہیں اور پروفیسر صاحب کی بیوی اب بھی حیات ہے ۔۔ اور پروفیسر صاحب اب باقاعدہ سیمینارز میں جاتے ہیں اور دھماسہ کی افادیت اور کینسر پر پریزینٹیشنز دیتا ہے ۔۔۔۔

اس کے پاس ان مریضوں کی باقاعدہ لسٹ تھی جو شفایاب ہوچکے تھے۔۔۔

دھماسے کو پشتو میں ازغکے کہتے ہیں اور وہ لوگ جو ستر کی دہائی میں جوان ہورہے تھے ان کو مذکورہ پودے کے بارے میں سب کچھ معلوم ہے ۔۔۔۔
اس کے بارے میں بہت سے لوگوں نے ٹھیک ہونے کے دعوے کئے ہیں شئیر کریں اگر کسی کا بھلا ہوں

♦ صدقہ جاریہ کے طور پر یہ پوسٹ آپلوگ شئر کرے دیں شاید کسی کا بھلا ہو جائے ♦

”کیا آپکو مانگنا آتا ہے؟“پرانی بات ہے، میں اپنی شاپ پر بیٹھا ہوا تھا۔ دو کسٹمر بھی موجود تھے اور میرا ایک دوست بھی میرے ...
15/09/2025

”کیا آپکو مانگنا آتا ہے؟“

پرانی بات ہے، میں اپنی شاپ پر بیٹھا ہوا تھا۔ دو کسٹمر بھی موجود تھے اور میرا ایک دوست بھی میرے پاس تھا۔ باتوں ہی باتوں میں اس نے کہا: "ریٹائرمنٹ لے لی ہے، اگلے مہینے عمرہ پر جا رہا ہوں۔"
میں نے خوشی سے مبارکباد دی اور پوچھا: "جب بیت اللہ پر پہلی نگاہ پڑے گی تو کیا دعا مانگیں گے؟"

یہ سن کر وہ لمحہ بھر کو خاموش ہوگیا، نظریں جھکالیں۔ میں نے دیکھا آنکھوں کے گوشے بھیگ چکے ہیں۔ پھر ہلکی سی آواز میں بولا:
"زندگی کی ساری حسرتیں ذمہ داریوں کے بوجھ تلے کٹ گئیں۔ اب تو بس ایک ہی دعا ہے، میں کہوں گا: میرے مولا! مجھے یہیں رکھ لے، واپس نہ بھیج۔"

یہ سن کر ساتھ بیٹھے ایک بزرگ پر عجیب کیفیت طاری ہوگئی۔ انہوں نے بےساختہ کہا: "اللہ اکبر، سبحان اللہ۔" لمحے بھر میں محفل کا ماحول ایمان سے بھر گیا۔

اس واقعے کو پانچ چھ برس گزر گئے۔ ایک دن بازار میں ایک دوست ملا۔ وہ پوچھنے لگا: "یہاں احرام کا کپڑا کہاں سے ملتا ہے؟"
میں نے جگہ بتائی اور پوچھا کس لیے؟ مسکرا کر بولا: "والد اور والدہ کے ساتھ عمرہ پر جا رہا ہوں۔"
میں نے مبارکباد دی اور اگلے دن ملاقات کا وقت طے کیا۔

اگلے دن جب اس کے گھر گیا تو والد صاحب ملے۔میں چونک گیا، یہ تو وہی بزرگ تھے جو برسوں پہلے شاپ پر بیٹھے "اللہ اکبر، سبحان اللہ" کہہ اٹھے تھے۔ جی بھر کے باتیں ہوئیں، دعائیں لی اور واپس آیا۔

بعد میں وٹس ایپ پر رابطہ رہا۔ دوست تصویریں بھیجتا رہا۔ ایک دن اس نے بتایا: "رات کو ہم مدینہ شریف پہنچیں گے۔" اگلے دن شاپ پر تھا کہ اس کا وائس میسج آیا، مصروفیت کے باعث فوراً نہ سن سکا۔ کچھ دیر بعد یاد آیا، جب سنا تو دل کانپ گیا۔
دوست نے روتے ہوۓ بتایا کہ بابا جی جیسے ہی روضہ اطہر کی حاضری سے واپس روم پہنچے، وہیں ان کی روح پرواز کر گئی۔

اللہ اکبر کبیراً!
میرے دل میں وہ پرانی یاد تازہ ہوگئی۔ یقیناً وہ قبولیت کی گھڑی تھی جب انہوں نے کہا تھا:الله أكبر، سبحان الله“ کہا تھا یقیناً انہوں نے دل میں کہا ہوگا "میرے مولا! مجھے یہیں رکھ لے۔"
اور دیکھئے، رب کریم نے کیسے دعا قبول کی کہ انہیں مدینہ شریف میں جنت البقیع کا ٹھکانہ نصیب ہوا۔ ان کی قبر بھی آقا کریم ﷺ کے قدموں کی سمت تھی۔

یا اللہ! تیرا کرم کتنا بڑا ہے، تو کتنا غفور و رحیم ہے۔ سبحان اللہ!
قیامت کے دن وہ بزرگ حضور اکرم ﷺ کے قدموں کے قریب اٹھیں گے۔ سوچتا ہوں تو دل معطر ہوجاتا ہے۔

احبابِ گرامی!
یہ رب کی رحمت ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔ ہم بس مانگنے والے ہیں۔ دل کھول کر دعا کیجیے، اپنی زبان میں، اپنے لیے اور دوسروں کے لیے۔

کیا آپ نے بھی کبھی اپنی زندگی میں دعا کی قبولیت کا منظر دیکھا ہے؟ کمنٹس میں ضرور لکھیے

تحریر:- عثمان غنی رانا

*یہ واقعہ ایک نیک شخص کا ہے جو اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بستر مرگ پر تھا۔* جب وہ قریب المرگ تھا، تو وہ تین الفاظ بار ...
15/09/2025

*یہ واقعہ ایک نیک شخص کا ہے جو اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بستر مرگ پر تھا۔*
جب وہ قریب المرگ تھا، تو وہ تین الفاظ بار بار دہراتا تھا: "کاش یہ نیا ہوتا"، پھر وہ کچھ دیر کے لیے بے ہوش ہو جاتا، اور جب دوبارہ ہوش میں آتا تو کہتا: "کاش یہ دور ہوتا"، اور پھر کچھ دیر بعد کہتا: "کاش یہ مکمل ہوتا"۔ اس کے بعد اس کی روح پرواز کر گئی۔

ایک صالح شخص نے اس نیک شخص کو خواب میں دیکھا اور اس سے پوچھا کہ وہ مرنے کے وقت یہ الفاظ کیوں دہرا رہا تھا۔ نیک شخص نے اسے پورا واقعہ بتایا۔

اس نے کہا کہ ایک دن وہ راستے میں جا رہا تھا اور اس کے پاس ایک پرانا کپڑا اور ایک نیا کپڑا تھا۔ راستے میں اسے ایک غریب شخص ملا جو سردی کی شدت سے کانپ رہا تھا۔ اس نیک شخص نے اسے اپنا پرانا کپڑا دے دیا۔ جب اس نیک شخص کی وفات کا وقت آیا، تو اسے جنت میں ایک عالی شان محل دکھایا گیا۔ فرشتے اس سے کہنے لگے: "یہ محل تمہارے اس عمل کے بدلے میں ہے کہ تم نے ایک رات ایک غریب کو کپڑا دیا تھا"۔ نیک شخص نے کہا: "یہ تو پرانا کپڑا تھا، کاش میں نے اسے نیا کپڑا دیا ہوتا"، یہی وجہ تھی کہ وہ کہہ رہا تھا: "کاش یہ نیا ہوتا"۔

پھر ایک دن وہ مسجد جا رہا تھا اور اس نے ایک اپاہج شخص کو دیکھا جو مسجد جانا چاہتا تھا۔ نیک شخص نے اسے اٹھا کر مسجد تک پہنچایا۔ جب اس کی وفات کا وقت آیا تو اسے جنت میں ایک اور محل دکھایا گیا۔ فرشتوں نے کہا: "یہ محل تمہارے اس عمل کے بدلے میں ہے کہ تم نے ایک اپاہج کو مسجد تک پہنچایا تھا"۔ نیک شخص نے کہا: "مسجد تو قریب تھی، کاش مسجد دور ہوتی تو میں اسے زیادہ مدد کر پاتا"، اسی لیے وہ کہہ رہا تھا: "کاش یہ دور ہوتا"۔

ایک دن وہ راستے میں کچھ کھانے کے ساتھ جا رہا تھا اور اس کے پاس ایک روٹی اور کچھ آدھی روٹی تھی۔ اس نے ایک بھوکے مسکین کو دیکھا اور اسے آدھی روٹی دے دی۔ جب وہ مرنے کے قریب پہنچا تو اسے ایک اور محل جنت میں دکھایا گیا۔ فرشتے کہنے لگے: "یہ محل تمہارے اس عمل کے بدلے میں ہے کہ تم نے آدھی روٹی ایک مسکین کو دی تھی"۔ نیک شخص نے کہا: "کاش میں نے اسے پوری روٹی دے دی ہوتی"، اسی لیے وہ کہہ رہا تھا: "کاش یہ مکمل ہوتا"۔

یہ واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ بظاہر چھوٹے اور معمولی نظر آنے والے اعمال اللہ کے ہاں بہت بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس لیے ہمیں کبھی بھی کسی نیک عمل کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے، ہو سکتا ہے کہ وہی عمل ہمارے لیے جنت میں ایک محل بن جائے۔۔
منقول
والسلام

Address

29 Manoranjan Roy Chaudhri Road
Kolkata
700017

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when میری تحریریں posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share