میری تحریریں

میری تحریریں یہاں اس پیج میں آپکو صرف میرے احساسات ،جذبات اور سوچ کی ترجمانی کرتی ہوئی تحریریں نظر آ ینگی ★★★

ایک بھوکے فقیر نے ایک مکان کا دروازہ کھٹکھٹا یا اور کہا بہت بھوکا ہو اللہ کے نام میں کچھ کھانے کو  دے دو اندر سے آواز آئ...
09/07/2025

ایک بھوکے فقیر نے ایک مکان کا دروازہ کھٹکھٹا یا اور کہا بہت بھوکا ہو اللہ کے نام میں کچھ
کھانے کو دے دو
اندر سے آواز آئ ٹماٹر کھاؤ
فقیر نے کہا بہت بھوکا ہوں کچھ کھانے کو دے دو
اندر سے پھر اواز ائی ٹماٹر کھاؤ
فقیر نے تنگ آکر کہا ٹماٹر ہی کیوں روٹی کیوں نہ کھاؤں
اتنے میں ہی اس عورت کا شوہر
دروازے سے باھر نکلا اور کہا
کہ بابا معاف کرو میری بیوی توتلی ہے وہ کہہ رہی ہے کہ کما کر کھاؤ
فقیر نے غصّے سے کہا اوے لکھ دی لعنت تیرے ٹماٹر تے 🤪😂

قاہرہ قسط 2ہزاروں سال پرانے کھنڈرات میں جنم لینے والی ایک انوکھی کہانی، پچھلی قسط کا لنک سب سے نیچے اپ کو مل جائے گا نوٹ...
09/07/2025

قاہرہ
قسط 2
ہزاروں سال پرانے کھنڈرات میں جنم لینے والی ایک انوکھی کہانی،
پچھلی قسط کا لنک سب سے نیچے اپ کو مل جائے گا

نوٹ ۔۔
دوستو جو لوگ اس کہانی کی تمام اقساط پڑھنا چاہتے ہیں وہ میرے پیج کو لائک اور فالو کر لیں تا که می جب بھی نیا پوسٹ ڈالوں تو آپکو اسکی نوٹیفکیشن مل جائے

تحریر : جن زاد بھائی

قسط........ 2
یہ بات طے تھی کہ کم سے کم تین
ماہ سے پہلے دوبارہ کھدائی کا کام شروع نہیں ہو سکتا چنانچہ چند روز قاہرہ میں قیام کرنے کے بعد پروفیسر وقار کراچی روانہ ہو گیا پروفیسر ڈگلس سے یہ طے ہوا تھا کہ اسے اگر بلوچستان میں دریافت ہونے والے کھنڈرات میں زیادہ دلچسپی نظر نہ آئی تو تین ماہ بعد وہ دوبارہ قاہرہ پہنچ جائے گا۔

قاہرہ میں قیام کے دوران اسے راجہ کی طرف سے اپنے خط کے جواب میں کوئی اطلاع نہیں ملی تھی کراچی پہنچ کر بھی اس سلسلے میں اسے سخت مایوسی ہوئی۔ راجہ کے ملازم نے بتایا کہ وہ ایک بین الاقوامی کانفرنس کے سلسلے میں گزشتہ دو ماہ سے امریکہ گیا ہوا ہے اور اب شاید ایک ہفتہ تک واپس آ جائے۔

پروفیسر وقار نے راجہ کے نام ایک مختصر سا خط لکھ کر ملازم کے حوالے کیا اور دو دن کراچی میں قیام کے بعد کوئٹہ روانہ ہو گیا۔ اگر اس نے پہلے ہی سے لوڈرز ہوٹل میں کمرہ بک نہ کروا لیا ہوتا تو شاید اسے کسی فٹ پاتھ پر ہی بستر لگانا پڑتا۔ سردیوں کے موسم میں تو کوئٹہ میں الو بولتے نظر آتے ہیں لیکن اپریل کا مہینہ شروع ہوتے ہی میدانی علاقوں سے لوگ یہاں آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ پر بہار اور نکھرے موسم میں کوئٹہ آبادی میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔

لورڈز ہوٹل میں اپنے قیام کے دوران پروفیسر وقار متعلقہ حکام سے ان کھنڈرات کے بارے میں معلومات حاصل کرتا رہا جس کی خبر اس نے قاہرہ کے ایک اخبار میں پڑھی تھی۔ یہ کھنڈرات کوئٹہ سے بتیس میل دور مستونگ کے قصبہ سے چند میل کے فاصلہ پر دریافت ہوئے تھے۔ وہ علاقہ چونک قلات ڈویژن میں تھا اس لیے پروفیسر وقار کو کمشنر قلات سے رجوع کرنا پڑا۔ پروفیسر وقار کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ مقامی حکام نے اس کے ساتھ مکمل تعاون کیا اور اسے ان کھنڈرات پر ریسرچ کی اجازت دے دی گئی۔

جس دن وقار لورڈز ہوٹل سے رخصت ہو رہا تھا اس روز راجہ بھی پہنچ گیا۔ اتفاق سے وہ بھی لورڈز ہوٹل ہی میں آیا تھا۔ اس وقت پروفیسر وقار خوب صورت لان میں بیٹھا چند انگریز سیاحوں سے باتیں کر رہا تھا۔ اگر وہ اپنے کمرے میں یا ہوٹل سے باہر ہوتا تو یقیناً راجہ کو نہ دیکھ پاتا۔ راجہ کے آ جانے کی وجہ سے اسے مزید کوئٹہ میں رکنا پڑا۔ اگلے روز صبح ہی وہ مستونگ کی طرف روانہ ہو گئے۔

مستونگ میں مختلف افسران سے طویل ملاقاتوں کے بعد انہیں مستونگ کے تحصیلدار ہاشم خاں کے پاس پہنچا دیا تھا۔ ہاشم خاں بتیس سال کی عمر کا ایک سلجھا ہوا اور پر وقار شخصیت کا مالک انسان تھا۔ اس نے بڑے سکون سے پروفیسر وقار کی باتیں سنیں اور پھر اس سے ہر طرح کا تعاون کرنے پر آمادہ ہو گیا۔

’’یہ کھنڈرات یہاں سے اٹھارہ میل دور سفید چٹان کے دامن میں دریافت ہوئے ہیں۔‘‘ ہاشم خاں نے پروفیسر وقار کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے بتایا’’ لیکن میرا مشورہ ہے کہ آپ ان بے آب و گیاہ چٹانوں میں اپنا قیمتی وقت اور سرمایہ ضائع کرنے کی کوشش نہ کریں‘‘

’’کیا مطلب ۔‘‘ پروفیسر وقار نے الجھی ہوئی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا

’’یہ کھنڈرات دریافت ہونے کے بعد آثار قدیمہ کے ماہرین کو یقین تھا کہ وہ یہاں کی کسی صدیوں پرانی تہذیب کو بے نقاب کر سکیں گے لیکن بعد میں ان کا یہ خیال غلط ثابت ہوا اور کھدائی کا کام بند کر دیا گیا۔‘‘ ہاشم خاں نے جواب دیا

’’میرے خیال میں اگر کوئی کام شروع کیا جائے تو اس ادھورا چھوڑنے کی کوئی نہ کوئی منطقی وجہ ہونی چاہیے۔ صرف یہ کہہ دینا کہ اس کام کو جاری رکھنے سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ میری سمجھ سے بالا تر ہے۔ آخر کام بند کرنے کی کوئی وجہ تو ہو گی ۔‘‘

’’بات یہ ہے پروفیسر صاحب کہ ان سنگلاخ وادیوں میں خانہ بدوشوں کے قبیلے نقل مکانی کرتے رہتے ہیں۔ یہاں زندگی کے وسائل بہت محدود ہیں زندگی اور روح کا رابطہ قائم کرنے کے لیے کڑی محنت کرنا پڑتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹے ہوئے قبائل خانہ بدوشوں کی طرح ادھر ادھر بھٹکتے رہتے ہیں۔ انہیں جہاں کہیں سبزہ اور پانی نظر آتا ہے وہیں ڈیرہ جما دیتے ہیں اور ان کے مویشی جب تک گھاس کا آخری تنکا تک نہیں چر لیتے اس وقت تک وہاں سے کوچ نہیں کرتے۔ یہ خانہ بدوش عام طور پر چھولداریوں میں رہتے ہیں لیکن بعض اوقات موسم کی شدت کے پیش نظر رہائش کے لیے عارضی مکان وغیرہ بھی بنا لیتے ہیں۔ یہ مکان غیر تراشیدہ پتھر اور گارے سے بنائے جاتے ہیں۔ سفید چٹان کے دامن میں دریافت ہونے والے ان کھنڈرات کے بارے میں بالآخر یہی نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ کچھ عرصہ قبل وہاں کوئی ایسا ہی خانہ بدوش قبیلہ آباد ہوا ہو گا جس نے رہائش کے لیے وہ عمارتیں تعمیر کر لی ہوں گی۔ یہی وجہ تھی ماہرین نے اپنی وہاں مزید کھدائی کا کام بند کر کے حکومت کو اپنی رپورٹ پیش کر دی۔‘‘ تحصیلدار ہاشم خاں نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا
’’کیا وہ رپورٹیں اور ان کھنڈرات یا ان کے نواح کے نقشے دستیاب ہو سکتے ہیں۔‘‘ پروفیسر وقار نے پوچھا

’’جی ہاں ،چونکہ وہ علاقہ ہماری تحصیل کی حدود میں شامل ہے۔ اس لیے نقشوں اور ماہرین کی رپورٹوں کی نقول ہمارے ریکارڈ میں بھی موجود ہے۔ میں نے جب آپ کی آمد کے بارے میں سنا تو مجھے اس وقت یقین ہو گیا تھا کہ آپ ان چیزوں کو دیکھنا ضرور پسند کریں گے۔ اس لیے میں نے پہلے ہی ریکارڈ آفس سے وہ فائل منگوا لیا تھا۔‘‘ ہاشم خاں نے کہا اور اٹھ کر دیوار کے قریب ایستادہ الماری سے ایک فائل نکال لایا۔

نقشوں اور رپورٹوں کے مطالعہ سے کوئی اہم بات معلوم نہ ہو سکی۔ آثار قدیمہ کا کوئی بھی طالب علم آنکھیں بند کر کے ماہرین کی ان رپورٹوں پر یقین کر سکتا تھا لیکن نجانے کیا بات تھی کہ پروفیسر وقار ان رپورٹوں سے مطمئن نہیں تھا۔

’’خان صاحب!‘‘ اس نے فائل بند کر کے ہاشم خاں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ’’میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ ماہرین کی یہ رپورٹیں غلط ہیں لیکن ان رپورٹوں سے قطع نظر میں اپنے طور پر اور اپنی ذمہ داری پر ان کھنڈرات میں کھدائی کرنا چاہتا ہوں۔ اگر آپ اجازت کے سلسلے میں متعلقہ کاغذات تیار کروا دیں انتہائی ممنون ہوں گا۔ میں وقت ضائع کیے بغیر یہ کام شروع کر دینا چاہتا ہوں۔ کیوں کہ تین ماہ بعد مجھے مصر میں طوتن خامن کے مقبرے پر چھوڑے ہوئے ادھورے مشن کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے۔‘‘

’’کمشنر صاحب کی طرف سے پہلے بھی اس قسم کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔ کل صبح آپ کو تمام کاغذات تیار ملیں گے۔‘‘ ہاشم خاں نے جواب دیا

’’شکریہ! اور اب ایک ذاتی درخواست ہے۔ اگر آپ کی مصروفیات اجازت دیں تو ایک سلسلے میں آپ کی مدد کا خواہش مند ہوں۔‘‘ پروفیسر وقار نے کہا

’’فرمائیے! میں ہر خدمت کے لیے تیار ہوں۔‘‘ ہاشم خاں مسکرایا

’’میں کچھ دیر بعد کوئٹہ روانہ ہو رہا ہوں تاکہ ابتدائی تیاریوں کے علاوہ کچھ ضروری سامان فراہم کر سکوں۔ کھدائی کے لیے فی الحال ہمیں کم سے کم بیس ایسے مزدوروں کی ضرورت پڑے گی جو صحتمند توانا اور جفا کش ہونے کے علاوہ دیانتدار بھی ہوں میں چاہتا ہوں کہ مزدوروں کا انتظام یہیں سے کیا جائے اور یہ آپ کو کرنا ہو گا۔ کیونکہ یہاں کے لوگوں کو آپ سے بہتر اور کوئی نہیں سمجھ سکتا ان کے معاوضے کے بارے میں بھی وضاحت کر دوں کہ وہ جتنا ایک دن میں کماتے ہیں ،میں انہیں اس سے پانچ گنا زیادہ دوں گا۔ کھانے وغیرہ کا انتظام میرے ذمے ہو گا۔ اگر یہ معاوضہ کم محسوس ہوا تو اس میں اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔‘‘ پروفیسر وقار نے کہا

’’کم!‘‘ ہاشم خان نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ آپ کی پیشکش سے تو میرے منہ میں بھی پانی بھر آیا ہے جی چاہتا ہے آج ہی یہ تحصیل داری چھوڑ کر فرہاد کی طرح کدال اٹھا لوں‘‘۔

’’فرہاد کے ہاتھ میں تیشہ تھا!‘‘ پروفیسر وقار نے بھی مسکراتے ہوئے کہا۔

’’اسے آج کل کدال کہتے ہیں۔ تیشہ پرانے زمانے کی بات ہے۔ بہرحال آپ مطمئن رہیے۔ مزدوروں کا انتظام ہو جائے گا۔‘‘ ہاشم خاں نے جواب دیا۔ ’’لیکن آپ کب تک واپس آ جائیں گے ۔ ‘‘

’’میں پرسوں سہہ پہر تک پہنچ جاؤں گا اور اس سے اگلے روز صبح ہی ہم سفید چٹان کی طرف روانہ ہو جائیں گے۔‘‘ پروفیسر وقار نے اٹھ کر اس کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔

’’ٹھیک ہے۔ میں رات گزارنے کے لیے ڈاک بنگلے میں انتظام کر دوں گا۔‘‘ ہاشم نے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
حصیل دار ہاشم خاں سے رخصت ہو کر وہ دونوں باہر آ گئے۔ راجہ پر بوریت سی طاری تھی ہاشم خاں کی گفتگو کم سے کم راجہ کے لیے انتہائی مایوس کن تھی۔ وہ تو اس امید پر پروفیسر وقار کے ساتھ چلا آیا تھا۔ کہ اس مہم میں بھی کوئی بڑا خزانہ ہاتھ لگ جائے گا مگر ہاشم خاں کی باتوں نے اس کی امیدوں پر پانی پھیر دیا تھا اس کا دل چاہتا تھا کہ کوئٹہ پہنچنے ہی پروفیسر وقار سے کوئی معذرت کر کے کراچی لوٹ جائے لیکن اس کے ذہن میں یہ خیال بھی آیا تھا کہ ممکن ہے پروفیسر وقار اپنی اس مہم میں کامیاب ہو جائے اور کسی قدیم تہذیب کو بے نقاب کرنے کے علاوہ کوئی قیمتی خزانہ بھی ہاتھ لگ جائے۔ ماضی کے تجربات اس بات کے شاہد تھے کہ پروفیسر وقار نے جس کام میں بھی ہاتھ ڈالا تھا۔ کامیابی نے اس کے قدم چومے تھے۔

کوئٹہ پہنچتے ہی وہ دونوں ضروری سامان کی خرید میں مصروف ہو گئے۔ پروفیسر وقار نے کوئٹہ کے ایک ٹھیکیدار سے ایک ٹرک اور ایک جیپ طویل مدت کے لیے کرائے پر حاصل کر لی تھی۔ تیسرے روز یہ اطمینان کرنے کے بعد کہ اب کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی وہ مستونگ کی طرف روانہ ہو گئے۔ جب مستونگ پہنچے تو سورج غروب ہو رہا تھا۔ ڈاک بنگلے کے لان میں ایک طرف چند مقامی باشندے بیٹھے ہوئے تھے ان کے چہروں اور پیوند لگے لباس سے ان کی عسرت کا اظہار ہو رہا تھا۔ پروفیسر وقار کو یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ یہ مزور ہیں جن کا انتظام تحصیل دار صاحب ہاشم خاں نے کیا ہو گا۔ وہ برآمدے میں کھڑا گہری نظروں سے ایک ایک کا جائزہ لینے لگا۔ وہ سب تنومند و توانا تھے جفا کشی ان کے چہروں سے ٹپک رہی تھی۔

ان کی آمد کی اطلاع پا کر ہاشم خاں بھی پہنچ گیا۔ اس نے مزدوروں سے ان کا تعارف کروایا اور کچھ دیر بعد ان دونوں کو اپنے گھر لے گیا جہاں اس نے رات کے کھانے کا انتظام کیا ہوا تھا۔

روایتی انداز میں پیش کیا جانے والا کھانا خاصا لذیذ تھا۔ چند مقامی ڈشیں تو بہت ہی پر ذائقہ تھیں۔ کھانے کے بعد بہت دیر تک وہ لوگ باتیں کرتے رہے۔ موضوع آثار قدیمہ ہی تھا۔ پروفیسر وقار کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج تو تھی نہیں۔ اخبارات وقتاً فوقتاً اس کے کارناموں کے بارے میں مضامین شائع کرتے رہتے تھے۔ ہاشم خاں اس سے آثار قدیمہ کی مختلف مہمات کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔

رات گیاہ بجے کے قریب وہ لوگ ڈاک بنگلے پہنچ گئے اور پھر صبح انتہائی عجلت کا مظاہرہ کرنے کے باوجود کھنڈرات کی طرف کوچ کرتے ہوئے آٹھ بج گئے۔ دھوپ تیز ہو جانے کی وجہ سے گرمی میں خاصا اضافہ ہو گیا تھا۔ قصبے کی حدود سے نکلتے ہی انہوں نے رفتار بڑھا دی۔ آگے پروفیسر وقار کی جیپ تھی جسے رسول بخش نامی ایک مقامی ڈرائیور چلا رہا تھا۔ انور راجہ بھی اس کے ساتھ جیپ ہی میں تھا۔ ان سے تقریباً پچاس گز کے فاصلے پر سامان سے لدا ہوا ٹرک تھا۔

ان کے جسم پسینے سے شرابور ہو رہے تھے۔ پروفیسر وقار بار بار چہرے اور گردن کا پسینہ پونچھتا لیکن رومال ہٹاتے ہی پسینے کی دھاریں پھر بہنے لگتیں۔ راجہ کی حالت اس سے بھی بدتر تھی۔ وہ کچھ زیادہ ہی بے چینی محسوس کر رہا تھا اور دل ہی دل میں اس وقت کو کوس رہا تھا جب اس نے پروفیسر وقار کے ساتھ آنے کی حامی بھری تھی۔ اس کا بس چلتا تو یہیں سے واپس ہو لیتا لیکن حریص فطرت اسے پروفیسر کا ساتھ دینے پر مجبور کر رہی تھی۔ ممکن ہے ان کھنڈرات سے کوئی ایسا خزانہ دریافت ہو جائے جو اس کی ان تمام تکلیفوں کو بھلا دے۔

سڑکوں کے دونوں طرف بلند ٹیلے تھے۔ اس طرح ایک درہ سا بن گیا تھا جس میں وہ اس وقت سفر کر رہے تھے۔ پینتالیس کے زاویے کی طرح درہ نما اس ڈھلواں راستے کے اختتام پر ایک پتھریلا میدان تھا۔ یہ جگہ شاید کسی زمانے میں کسی دریا کی گزرگاہ رہی ہو گی۔ وادی میں پانی سے کٹاؤ کے نشان اب بھی نظر آ رہے تھے۔ میدان کے دوسری طرف سڑک بلندی پر چلی گئی تھی۔ یہ کوئی باقاعدہ سڑک نہیں تھی پتھروں میں بنا ہوا غیر ہموار راستہ سا تھا جس پر جیپ کو اچھے خاصے دھچکے لگ رہے تھے۔ سڑک کی بلندی ختم ہوتے ہی سامنے ایک وسیع پتھریلا میدان نظر آیا جس کے پرلی طرف بلند چٹانیں نظر آ رہی تھیں۔ وہ چٹانیں اب بھی تقریباً پانچ میل دور تھیں۔

دفعتاً جیپ کا انجن گڑگڑانے لگا۔ اس کے ساتھ ہی اس کی رفتار خود بخود کم ہوتی چلی گئی۔ پروفیسر وقار اور راجہ بیک وقت سوالیہ نگاہوں سے ڈرائیور رسول بخش کی طرف دیکھنے لگے۔ رسول بخس چند لمحوں تک گیئر بدل کر رفتار کو متوازن رکھنے کی کوشش کرتا رہا مگر کامیاب نہ ہو سکا۔

’’شاید ریڈی ایٹر میں پانی ختم ہو گیا ہے۔‘‘ اس نے بڑبڑاتے ہوئے جیپ روک لی اور نیچے اتر آیا۔

پروفیسر وقار اور راجہ بھی نیچے اتر آئے۔ راجہ نے جیپ کے ہڈ سے بندھی ہوئی چھاگل کھول لی اور منہ سے لگا کر پانی پینے لگا۔ پانی خاصا گرم تھا لیکن حلق تر کرنے کے لیے غنیمت تھا۔ پروفیسر وقار نے بھی چند گھونٹ بھرے اور ڈرائیور کی طرف دیکھنے لگا جو ریڈ ایئر کا ڈھکنا کھول کر اس کا جائزہ لے رہا تھا۔ اتنی دیر میں پیچھے آنے والا ٹرک بھی ان کے قریب آ کر رک گیا

پروفیسر وقار جیپ سے ٹیک لگائے کھڑا ان چٹانوں کی طرف دیکھنے لگا۔ تیز دھوپ کی وجہ سے اس سنگلاخ وادی میں چاروں طرف الاؤ سے دہکتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ الاؤ کی ان آتشیں لہروں میں وہ چٹانیں بھی سایوں کی طرح جھولتی اور جھلملاتی ہوئی سی نظر آ رہی تھیں۔دفعتاً پروفیسر وقار چونک گیا۔ اس کی نظریں ان چٹانوں کے دامن میں دائیں طرف ایک نقطے پر مرتکز ہو کر رہ گئیں۔ اسے جو کچھ بھی دکھائی دیا تھا۔ پہلے تو وہ اسے اپنا واہمہ ہی سمجھا لیکن غور سے دیکھنے پر اس کا شبہ یقین میں تبدیل ہوتا چلا گیا۔ وہ کوئی عمارت تھی جس کا اسٹوپا کی طرز پر بنا ہوا ایک حصہ کسی مینار کی طرح اوپر کو نکلا ہوا تھا۔ الاؤ کی طرح دہکتی ہوئی دھوپ کی لہروں میں یہ مینار بھی جھلملاتا ہوا نظر آ رہا تھا۔

’’راجہ دائیں طرف کی چٹان کے دامن میں وہ عمارت دیکھ رہے ہو۔ مجھے یقین ہے کہ یہاں ہم اپنے مقصد میں ضرور کامیاب ہوں گے۔‘‘ وہ راجہ کو متوجہ کرتے ہوئے بولا

’’کونسی عمارت۔‘‘ راجہ نے چٹانوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا

’’وہ ،دائیں طرف آخری چٹان کے دامن میں۔‘‘ پروفیسر وقار نے ہاتھ سے اشارہ کیا

’’مجھے تو وہاں کوئی عمارت نظر نہیں آ رہی۔‘‘ راجہ بڑبڑایا

’’شاید تمہاری بینائی کمزور ہے۔ لیکن مجھے حیرت ہے کہ ماہرین کی رپورٹوں اور نقشوں میں اس عمارت کا تذکرہ کیوں نہیں کیا گیا۔‘‘ پروفیسر وقار نے الجھے ہوئے لہجے میں کہا

’’میری بینائی ٹھیک ہے۔ ماہرین کی رپورٹیں اور نقشے بھی غلط نہیں لیکن میرا خیال ہے کہ تم فریب نظر کا شکار ہو رہے ہو۔‘‘ راجہ بولا

’’فریب نظر نہیں۔ مجھے اسٹوپا طرز کی بنی ہوئی وہ عمارت واضح طور پر نظر آ رہی ہے۔ اس مہم سے فارغ ہو کر کسی اچھے ڈاکٹر سے اپنی آنکھیں ٹیسٹ کروا لینا۔‘‘ پروفیسر وقار کہتا ہوا ڈرائیور کی طرف متوجہ ہو گیا جو ریڈی ایٹر میں پانی ڈالنے کے بعد بونٹ بند کر رہا تھا۔

ڈرائیور کے ساتھ ہی وہ دونوں جیپ میں بیٹھ گئے اور ان کا سفر ایک بار پھر شروع ہو گیا۔ ان کی منزل میدان کے اس پار نظر آنے والی وہی چٹانیں تھیں۔ پروفیسر کی نظریں اسی طرف جمی ہوئی تھیں جیسے جیسی فاصلہ کم ہوتا جا رہا تھا چٹان کے دامن میں نظر آنے والی اس عمارت کا ہیولہ واضح صورت اختیار کر رہا تھا۔ اس کے دوسری طرف ایک بلند فصیل نظر آ رہی تھی۔

وہ چٹان کے کافی قریب پہنچ چکے تھے۔ سڑک کے ایک طویل موڑ کی وجہ سے وہ چٹان ان کے اور عمارت کے درمیان حائل ہو گئی۔

’’اب تو شاید تمہیں میری بات کا یقین آ گیا ہو گا۔‘‘ پروفیسر وقار راجہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا

’’کس بات کا یقین۔‘‘ راجہ نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا

’’میں حویلی نما اس عمارت کی بات کر رہا ہوں جو اب چٹان کے پیچھے چھپ چکی ہے۔‘‘ پروفیسر وقار نے جواب دیا۔

’’تم یقیناً کسی فریب نظر کا شکار ہو پروفیسر وقار۔‘‘ راجہ نے اسے گھورا۔ یہاں دور دور تک عمارت تو کیا مجھے کسی کھنڈر کے نشان بھی نظر نہیں آ رہے۔‘‘

’’تمہارا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا۔‘‘ اس مرتبہ پروفیسر وقار نے اسے گھورا

’’میرا خیال ہے تمہارے دماغ پر گرمی کا اثر ہو چکا ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ تم ۔ ۔ ۔ !‘‘

’’وہ ۔ ۔ ۔ وہ دیکھو!‘‘ پروفیسر وقار اس کی بات کاٹ کر ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے چیخا۔ جیپ اس دوران دوبارہ دوسری طرف پہنچ چکی تھی اور وہ عمارت اب دوبارہ دکھائی دینے لگی تھی ’’ اب بھی کہو کہ میرے دماغ پر گرمی کا اثر ہو رہا ہے اور یہاں کسی عمارت کا وجود نہیں ہے‘‘

’’میں سچ کہہ رہا ہوں وقار! یہاں کوئی عمارت مجھے نظر نہیں آ رہی۔‘‘ راجہ نے سنجیدگی سے کہا

’’کیا ۔ ۔ ۔ واقعی ۔ ۔ ۔ سچ کہہ رہے ہو۔‘‘ پروفیسر وقار مڑ کر عجیب نگاہوں سے اس کی طرف دیکھنے لگا

’’مجھے جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں۔ اگر تمہیں میری نیت پر شبہ ہو تو رسول بخش سے پوچھ لو۔ لیکن خدشہ ہے کہ اس طرح وہ بھی تمہاری ذہنی تندرستی پر شبہ کرنے لگے گا۔‘‘ راجہ نے کہا

’’عجیب بات ہے۔‘‘ پروفیسر وقار بڑبڑاتا ہوا دوسری طرف دیکھنے لگا

جیپ چٹان کے دوسری طرف پہنچ چکی تھی۔ بھرے بھرے پتھروں پر مشتمل سفید رنگ کی یہ چٹان دھوپ میں آئینے کی طرح چمک رہی تھی۔ ان سفید پتھروں ہی کی وجہ سے اسے سفید چٹان کا نام دیا گیا تھا۔ اس کے دامن میں ایک طرف وہ کھنڈرات تھے جن کی کشش پروفیسر وقار کو اس ویرانے میں کھینچ لائی تھی۔ کھنڈروں سے ذرا آگے ایک بہت بڑا ٹیلہ تھا جس کا ایک حصہ چٹان ہی سے ملا ہوا تھا۔ اس ٹیلے کے دوسری طرف حویلی نما وہ عمارت تھی جو اب تک صرف پروفیسر وقار ہی کو نظر آ سکی تھی

کھنڈرات سے تقریباً پچاس گز کے فاصلے پر وقار نے جیپ رکوا لی اور نیچے اتر آیا۔ اس کے چند ہی منٹ بعد ٹرک بھی وہاں پہنچ گیا۔ پروفیسر وقار کے خیال میں کیمپ لگانے کے لیے یہ جگہ بہت مناسب تھی۔ اس نے راجہ کی طرف دیکھا جو جیپ سے ٹیک لگائے کھڑا متوحش نگاہوں سے چاروں طرف دیکھ رہا تھا۔ شدید گرمی کی وجہ سے اس کا لباس پسینے میں تر تھا آنکھیں انگارے کی طرح سرخ ہو رہی تھیں اگرچہ پروفیسر وقار کی اپنی حالت بھی اس سے مختلف نہیں تھی لیکن اس کی قوت برداشت راجہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی۔ وہ ہر قسم کے حالات میں کام کرنے کا عادی تھا۔ اس نے راجہ کو اپنی نگرانی میں ٹرک سے سامان وغیرہ اتروانے کی ہدایت کی اور کھنڈرات کی طرف چل دیا۔
جاری ہے
یھاں تک پڑھ کر بتائیں کہانی کیسی لگی ۔۔۔اگر آپ کا رسپانس اچھا آیا تو میں کہانی جلدی اور لمبی پوسٹ کرنے کی کوشش کرونگا ۔۔🌹

پارٹ.......1
https://www.facebook.com/share/p/1LF8BGn5ga/





بیوی نے شوہر سے پوچھا اگر میں تمہیں چار پانچ دن نظر نہ ا تو کیسا لگے گا  شوہر نے خوشی کے ساتھ چلاتے ہوئے کہا کہ بہت اچھا...
09/07/2025

بیوی نے شوہر سے پوچھا
اگر میں تمہیں چار پانچ دن نظر نہ ا تو کیسا لگے گا

شوہر نے خوشی کے ساتھ چلاتے ہوئے کہا
کہ بہت اچھا لگے گا
پھر پیر کو بھی بیوی نظر نہ ائی منگل کو بھی نظر نہ ائی بدھ کو بھی نظر نہ ائی اور جمعرات کو بھی نظر نہ ائی
اخر کار جمعہ کو جب انکھوں کی سوجن کم ہوئی تو تھوڑی تھوڑی بیوی نظر انے لگی

قسط نمبر اول مجھے شہر سے اپنی نوکری سے ہاتھ دھو کر واپس گاؤں آئے آج دوسرا دن تھا اور ابھی میں صحن میں پڑی چارپائی پر سید...
09/07/2025

قسط نمبر اول
مجھے شہر سے اپنی نوکری سے ہاتھ دھو کر واپس گاؤں آئے آج دوسرا دن تھا اور ابھی میں صحن میں پڑی چارپائی پر سیدھا لیٹا دھوپ سینک رہا تھا کہ میرے نتھنوں میں ہلکی سی ناگوار بو گھسی۔۔۔وہ بو تیز نہیں مگر شدید ناگوار ضرور تھی جو مسلسل مجھے آرہی تھی میں نے کراہیت سے ناک سکیڑی ۔۔۔
"اماں ۔۔۔او اماں یہ بدبو کیسی ہے ؟"میں نے جھنجھلا کر اٹھتے ہوئے اماں کو آواز دی اور برا سا منہ بنایا تھا اماں کمرے سے بھاگی ہوئی آئی تھی اماں کا ایک اکلوتا پتر پورے تین سال بعد اپنی شکل دکھائے تو اس نے یہی کرنا تھا یعنی ہاتھ کا چھالہ بنائے ہوئے تھی اور میں بھی صحیح نخرے دکھا رہا تھا البتہ ابا میری نوکری سے فراغت کی وجہ جانتے تھے اسلئے وہ مجھ سے نالاں تھے اور جب سے میں گھر آیا تھا وہ گھر میں کم پائے جاتے تھے ۔۔۔۔خیر اماں کو دیکھ کر میں نے ماتھے پر بل ڈالے ۔۔۔اماں نے بدبو محسوس کر کے ناک پر ڈوپٹہ رکھا تھا اور کہا
"یہ پڑوس سے آرہی ہے پتر"
کرتے کیا ہیں یہ؟؟؟میں نے تیکھی نظر ساتھ والے گھر کی دیوار پر ڈالتے ہوئے کلس کر پوچھا تھا ۔۔۔تین سال پہلے جب میں یہاں سے گیا تھا تو یہ گھر خالی تھا مگر اب اچانک آباد ہو گیا تھا اور نجانے رہتا بھی کون تھا؟؟۔۔۔جو بھی تھا اگر اسکی ہڈ دھرمی ایسے ہی برقرار رہتی تو میرے عتاب سے نہیں بچ سکتے تھے ۔۔۔
پتا نہیں کیا کرتے ہیں اور کیا کر رہے ہیں
انکو کوئی کچھ کہتا نہیں کیا ؟؟میں نے گراں گزرتی بدبو سے بچنے کے لئے کمرے کو ہی اپنی بہترین پناہ سمجھا اور اٹھ کر کمرے کی طرف بڑھا۔
دو جوان جہان لڑکیاں راتوں رات آکر بس گئیں نجانے کہاں سے ؟...کون ہیں گھر بار کیسے چلاتی ہیں ؟کون جانے ۔۔۔۔اور ایسی لڑکیوں سے کون منہ ماری کرے ۔۔۔ہوچھ گچھ کرنے گئی تھی وہ نکڑ والی نائی سلمہ مگر واپس آکر کچھ بولنے سے پہلے ہی لقوہ مار گیا ۔۔۔۔اب بستر پر پڑی رہتی خود کو کوستی ضرور ہو گئی کہ میں وہاں گئی کیوں؟؟"اماں کی روداد میں میرا غلیظ دماغ صرف دو لڑکیوں پر اٹک گیا تھا ۔۔۔یعنی دو لڑکیاں اکیلی ۔۔۔اگے پیچھے کوئی نہیں گاؤں والے بیزار اور ۔۔۔۔اگے جو جو میں سوچ رہا تھا شیطان بھی مجھ سے پناہ مانگے ۔۔۔مگر میں تو تھا ہی ایسا ۔۔۔ہر نظر کے سامنے سے گزرتی لڑکی کو اپنی بھوکی بھنبھوڑ دینے والی نظروں سے تاڑنا ۔۔۔اور موقع پاتے ہی داؤ لگا دینا مگر ۔۔۔۔شہر میں یہ میرے داؤ پیچ کافی کام آئے جس نے میری بھوک کو چار چاند لگا دئیے اسلئے گاؤں آکر بھی میں اسی داؤ کے لئے بے چین تھا مگر یہ شہر نہیں تھا گاوں تھا جہاں سب کی عزت سانجھی والا رواج تھا مگر ۔۔۔۔اب مجھے لگ رہا تھا کہ میری تمنا پوری ہو جائے گی
شام کو میں اپنے دو دوستوں نوابی اور گلاب ۔۔جو گاؤں کے میرے ہی طرح کے نکمے اور نظر باز تھے مگر انکی نظر بازی سے صرف میں واقف تھا یا وہ لڑکیاں جنکو وہ تاڑتے تھے ۔۔۔۔
یار میں نے سنا ہے میرے پڑوس میں دو کنواری کلیاں رہتی ہیں ؟؟میرا انداز نہایت لوفرانہ تھا
"ہاں رہتی تو ہیں "
"مگر یار کل سے میں نے انکو دیکھا نہیں "
"ارے وہ ایک کلی پانی لینے جاتی ہے ناں پنگڈنڈی سے گزر کر ۔۔۔۔"گلاب نے کہا تھا ۔۔۔
اچھاااااا۔۔۔میں نے پرسوچ انداز میں کہا اور ارادہ کیا کہ کل سے پگڈنڈی پر ڈیرہ لگانا ہے
"ہمممم۔۔۔۔لیکن ایک کلی کو نہیں دیکھا ہم نے آج تک باہر ۔۔۔اور کوئی جانتا بھی نہیں کہ یہ کہاں سے آئی کیا کرتی ہیں اور "آگے نوابی روداد بھی وہی اماں والی تھی مگر میں نے سوچ لیا تھا میں ضرور انکی تفتیش کروں گا ۔۔۔۔
اب پتا کروں گا نہ میں کہ یہ کہاں سے آئی ہیں "میں نے خودکلامی کی تھی اور چپ چاپ کل کا انتظار کرنے لگا۔
👀👀👀👀
رات کو میں اپنی سگریٹ کی طلب مٹانے چھت پر آیا تھا میں چاہتا تو کمرے میں بھی پی سکتا تھا مگر میرے اعصاب ابا کی سخت سست سننے سے قاصر تھے ۔۔۔ اسلئے چادر کی بکل مار کر سیدھا چھت پر چلا آیا ۔۔۔۔سردی میں سگریٹ پھونکتے ہوئے مجھے اپنی غلطی کا احساس شدت سے ہو رہا تھا اسلئے جلدی جلدی سگریٹ کے کش لے کر میں نیچے جانے لگا تو دھیمے دھیمے سروں میں مجھے گنگنانے کی آواز آئی تھی ۔۔۔۔آواز کسی لڑکی کی تھی اور پڑوس والے گھر سے آرہی تھی ۔۔۔میں حیران و پریشاں سا بائیں دیوار کی جانب چلا آیا ۔۔۔۔کن اکھیںوں سے ساتھ والے گھر کے صحن میں تانکا جھاکی کرتے ہوئے میں ساکت ہوا تھا اور میری ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ ہوئی تھی کیونکہ اتنی شدید سردی میں باہر چارپائی ڈالے کالے لباس میں ایک لڑکی چت لیٹی آسمان کو گھور تے ہوئے گنگنا رہی تھی اسکے کالے سیاہ بال کچھ اسکے کاندھوں پر کچھ چارپائی کے پائے سے ہوتے زمین کو لگ رہے تھے آسماں پر چاند نہ ہونے کے باوجود اسکا چہرہ میرے سامنے عیاں تھا لیکن اسکے چہرے کے نقش و نگار دھندلے سے تھے ۔۔ اتنااااا سفید چہرہ اور ایسی باریک آواز میں نے کبھی نہیں سنی تھی ۔۔۔اچانک خوف سے میرے وجود میں کرنٹ دوڑا تھا کیونکہ جہاں اسکے نقش و نگار دھندلے تھے وہیں میں نے اس لڑکی کی آنکھوں اور منہ سے خون نکلتے دیکھا تھا اور یہ منظر دیکھ کر میں خوف سے پیلا زرد پڑ چکا تھا ۔۔۔۔اسکا آنکھوں اور منہ سے خون نکلتا مجھے ایسے صاف دکھائی دے رہا تھا جیسے ہر طرف روشنی ہی روشنی ہو مگر نقوش چہرے کے ابھی بھی دھندلے تھے اچانک میری آنکھوں کے آگے دھند آگئی تھی اور دھند چھٹتے ہی جو منظر میں نے دیکھا وہ مجھے پاگل کر دینے کے لئے کافی تھا ۔۔۔۔۔کیونکہ ساتھ والے صحن میں نہ وہ لڑکی تھی اور نہ ہی چارپائی ۔۔۔۔میں جتنا دل گردے والا بنتا مگر تھا تو انسان ہی اسلئے خوف سا کھا کر میں نیچے آگیا اور آکر چارپائی پر لیٹ گیا ۔۔۔۔میرے ماتھے پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں تھیں اور میں مسلسل یہ سوچ رہا تھا اتنی سردی میں وہ لڑکی باہر لیٹی کیا کر رہی تھی اور اسکی آنکھوں سے خون ۔۔۔۔میرے جسم میں ایک پھریری سی دوڑ گئی ۔۔۔۔خدا خدا کر کے مجھے فجر کے وقت نیند نے آلیا اور پھر جب میں دن چڑھے اٹھا تو رات والے واقعے کو فراموش کر چکا تھا ۔۔۔۔
تیار شیار ہو کر میں نوابی اور گلاب کے ساتھ پگڈنڈی پر آگیا جہاں سے اس کنواری کلی نے گزر کر جانا تھا میرے ہاتھ میں غلیل بھی تھا اور کچھ کرنے کا عزم بھی ۔۔۔۔اور یہاں سے لوگوں کا گزر بھی اس وقت بہت کم ہی ہو رہا تھا کیونکہ آج دھند بہت تھی اور سردی بھی ۔۔۔۔سردی کی شدت کی وجہ سے نجانے کیوں مجھے وہم ہو رہا تھا کہ وہ کنواری کلی آج نہیں آئے گی مگر نوابی نے کہا وہ آندھی طوفان سیلاب میں بھی یہاں سے گزر جائے گی مگر گزرے گی ضرور ۔۔۔۔۔اچانک یونہی باتیں کرتے کرتے پائل کی چھن چھم کی آواز آئی تھی بے چینی سے میں نے اس آواز کی سمت دیکھا اور د یکھ کر دنگ رہ گیا۔۔۔
جاری ہے

تحریرشازل سعید بھائ ہندوستان کی ریاست اسام کے ضلع کریم گنج میں ایک قصبہ جسے اپ درمیانے درجے کا شہر بھی قرار دے سکتے ہیں ...
09/07/2025

تحریر

شازل سعید بھائ

ہندوستان کی ریاست اسام کے ضلع کریم گنج میں ایک قصبہ جسے اپ درمیانے درجے کا شہر بھی قرار دے سکتے ہیں بدر پور کے نام سے اباد ہے اس اس شہر میں مسلمانوں کی اچھی خاصی ابادی رہتی ہے مگر چونکہ ملک ہندو اکثریتی ہے تو اس لیے یہاں بھی اکثریت ہندووں کی ہے
بدر پور کے علاقے میں دو ایسے انسان اباد تھے جو دنیا و مافیہا سے لا تعلق تھے مگر ان کے پاس لوگوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی لوگوں کا ان کے پاس انے کا مقصد فقط ان سے دعا کروانا ہوتا تھا اس بات میں بہت حد تک حقیقت تھی کہ وہ لوگ جو بھی دعا کرتے تھے وہ قبول ہو جاتی تھی دونوں کے پاس کافی علم تھا مگر دونوں کے علم میں فرق یہ تھا کہ ایک شخص مسلمان تھا اور دوسرا ہندو تھا اب جن لوگوں کا تعلق ہندو مذہب سے تھا ان کا کہنا تھا کہ ہندوؤں کا بابا بڑا ہے یعنی زیادہ پہنچ والا ہے اور جو لوگ مسلمان تھے ان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کا بابا بڑا ہے یا نہیں زیادہ پہنچ والا ہے البتہ ان دونوں بابوں کی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنی دہلیز پر انے والے انسان کی بات کو توجہ سے سنتے تھے اگر کہیں ان کی مدد کی ضرورت ہوتی تھی تو وہ خود اٹھ کر ساتھ چل پڑتے تھے اگر کسی کو علمی مسئلے کا حل چاہے ہوتا تو اس کو علم سے جواب دیتے تھے اور اگر کوئی دنیا داری کے اعمال سے پریشان ہوتا تو اس کے لیے دعا کرتے تھے

وہاں ایک خاتون رہتی تھی جو انتہائی مالدار تھی اس کا شوہر تاجر تھا روپے پیسے کی کوئی کمی نہیں تھی خاتون کے پاس دنیا کی ہر اسائش تھی لیکن اس کے پاس اولاد نہیں تھی وہ خاتون پہلے ہندو بابے کے پاس گئی اور اسے کہا کہ دعا کرو مجھے اولاد مل جائے مجھے اپ جو کچھ کہو گے میں اپ کے ہاں وہ نظرانہ پیش کر دوں گی اس ھندو بابے نے خاتون سے کچھ وقت مانگا اور کہا کہ میں دعا ضرور کروں گا لیکن مجھے کچھ مہلت دو تم ایسا کرنا شام کو ا کر پتہ کر لینا میں تمہیں بتا دوں گا کہ میں نے کیا دعا کی ہے اور میری دعا قبول ہوئی بھی ہے یا نہیں ہوئی ؟
خاتون واپس چلے گئی انتظار کرتی رہی اور شام کو دوبارہ ائی ا کر اس ہندو بابے سے ملی تو اس نے جواب دیا کہ میں نے تمہارے لیے دعا کی ہے لیکن اس سے پہلے میں نے تمہارا حساب لگایا ہے میرے علم کے مطابق تمہارے نصیب میں اولاد نہیں ہے میں تمہارے لیے دعا پہلے کر چکا ہوں دوبارہ بھی کروں گا لیکن میری دعا سے تمہیں اولاد نہیں ہوگی خاتون نے یہ بات سنی تو مایوس ہو گئی لیکن پھر اس کے دل میں نہ جانے کیا بات ائی کہ وہ مسلمان بابے کے پاس چلے گئی
مسلمان بزرگ نے بھی اس کی بعد توجہ سے سنی اس کے سر پہ دست شفقت رکھا اس کے لیے دعا کی اور پھر اسے انتہائی میٹھے لہجے میں بتایا کہ کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جو ہم کرنا چاہتے ہیں ہماری خواہش ہوتی ہے کہ یہ ہو جائے لیکن وہ نہیں ہوتے اس کی وجہ یہ بالکل بھی نہیں ہوتی کہ ہمارا اللہ تعالی ایسا کر نہیں سکتا بلکہ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہمارے حق میں اس کام کا نہ ہونا بہتر ہوتا ہے یعنی ہمارا یہ ایمان ہے کہ جو کچھ اللہ تعالی کی ذات کرتی ہے اسی میں ہماری بھلائی ہوتی ہے ہمارے لیے وہی اچھا ہوتا ہے میں نے تمہارے لیے دعا کی ہے لیکن تمہارے نصیب میں اولاد نہیں ہے اس لیے میری دعا کے عوض اللہ تعالی تمہارے لیے کہیں نہ کہیں اسانی ضرور پیدا کر دے گا مگر میں اس بات کی گارنٹی نہیں دے سکتا کہ تمہاری اولاد ہوگی اسان لفظوں میں کہوں تو اولاد تمہارے نصیب میں نہیں ہے خاتون مایوس ہوئی اور وہاں سے اٹھ کر چلے گئے

جب دونوں بابوں سے خاتون کی بات نہ بنی تو اس کا دل بہت رنجیدہ ہوا وہ خاتون ہندو تھی وہ مندر گئی مندر جا کر وہ وہاں انے والے لوگوں کے خد و خال سے کپڑوں سے جوتوں سے چہرے کے تاثرات سے ان کے مالی حالات کا اندازہ لگاتی رہی اس نے وہاں کچھ دن باقاعدگی کے سے جا کر ایک فہرست بنائی اور اس میں وہاں انے والے غریب لوگوں کے نام لکھ لئیے اس نے اپنی دولت ان غریب لوگوں پر لگانا شروع کر دیی ان کے خاندان میں اگر کوئی بیمار تھا تو اس کا علاج شروع کروا دیا اگر کوئی چھوٹا بچہ تھا تو اس کو تعلیم دلوانا شروع کروا دی اگر کوئی نوجوان تھا تو اس کو کوئی نہ کوئی روزگار بنا کر دے دیا اگر کوئی بزرگ تھا تو اس کے لیے بہترین خوراک کا بندوبست کر دیا
خیر جب خاتون نے اپنی دولت غریب غرباء اور بے روزگار لوگوں پر لگانا شروع کر دی تو بدلے میں اللہ تعالی نے اس پر اپنی کرم نوازی شروع کر دی نہ صرف اس کے شوہر کا کاروبار چل نکلا بلکہ اللہ تعالی نے اس کو امید سے کر دیا یعنی اس کے اں بچے کی پیدائش متوقع ہو گئی خاتون کے لیے بات حیران کن تھی مگر جب آنے والے وقت نے اس بات کی تصدیق کر دی اور مقررہ وقت کے بعد خاتون نے ایک بچے کو جنم دے دیا تو یہ سب کے لیے حیران کن تھا کم از کم شادی کے اٹھ سے نو سال بعد ان کے ہاں اولاد ہوئی تھی کچھ عرصہ تو خاتون بچے کی پیدائش کی خوشی میں اتنا خوش رہی کہ اس کو اپنی ذات کا بھی خیال نہ رہا
مگر جب ایک مخصوص وقت گزر گیا تو اس خاتون کو ان دو بابوں کا یاد ایا جنہوں نے کہا تھا کہ تمہاری اولاد نہیں ہوگی خاتون نے بچہ لیا اور ان بابوں کے پاس گئی وہ ان کے پاس رکی نہیں ان کے قریب سے گزری
چونکہ بابوں کو دنیا کے امور میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی اس لیے انہوں نے خاتون پر توجہ نہ دی تو خاتون اگے جا کر واپس مڑ ائی اور اس ہندو بابے کے پاس گئی اسے جا کر بتایا کہ تم نے اور تمہارے ساتھی نے تو کہا تھا کہ میرے نصیب میں اولاد نہیں ہے مگر یہ دیکھو مجھے اولاد مل گئی ہے ہندو بابے نے جب اس کے پاس موجود بچے کو دیکھا تو اسے یقین نہ ایا اس نے ایک بار پھر خاتون کے چہرے کی طرف دیکھا اپنی انکھیں بند کی ایک لمحے کے لیے مراقبے کی حالت میں گیا جب اسے تصدیق ہو گئی کہ یہ اس خاتون کے بطن سے جنم لینے والا بچہ اسی کا ہے تو اس نے حیران ہو کر خاتون کو کوئی جواب نہ دیا اسے ساتھ لے کر مسلمان بابے کے پاس جا پہنچا مسلمان بابا انکھیں بند کیے اللہ تعالی کے ذکر اذکار میں مصروف تھا جب ہندو بابا وہاں پہنچا تو مسلمان نے اسے بنا انکھیں کھولے وہاں بیٹھنے کے لیے کہا

ہندو بابے نے اس مسلمان کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یہ بتاؤ اس خاتون کا بچہ کیسے ہوا جبکہ یہ کسی صورت میں ممکن نہیں تھا اس بات کے تم بھی گواہ ہو اس مسلمان بابے نے انکھیں بند رکھی اور کہا کہ کیا اس خاتون کو خود نہیں پتہ اس کا بچہ کیسے ہوا ؟
خاتون نے جواب دیا کہ نہیں مجھے نہیں پتہ میں نے تو تم لوگوں کی بات پر یقین کر لیا تھا کہ میرے نصیب میں اولاد نہیں ہے مگر حیران کن طور پر مجھے اولاد مل گئی میں نے ایک بچے کو جنم دیا ہے جب مسلمان بابے نے یہ بات سنی تو بند انکھوں میں یہ جواب دیا کہ تمہیں یہ سب کچھ تمہارے ہاتھوں سے دیے گئے صدقے کے وسیلے سے ملا ہے کیا تم نے مخلوق خدا کے لیے اسانی پیدا نہیں کی کیا تم نے اپنے رزق حلال کو مخلوق خدا پر خرچ نہیں کیا کیا تمہارے وسیلے سے بیماروں کو شفا نہیں ملی کیا تمہارے وسیلے سے بھوکوں کو کھانا نہیں ملا کیا تمہارے وسیلے سے بے روزگاروں کو روزگار نہیں ملا

خاتون نے جب مسلمان بابے کی باتیں سنی تو ان سب باتوں کا ہاں میں جواب دیا جب کہ اس مسلمان بابے نے اپنی انکھیں بند رکھی اور انکھیں بند رکھتے ہوئے کہا کہ بس یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے تمہیں اولاد عطا کر دی ہے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اولاد تمہارے نصیب میں نہیں تھی مگر اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے وہ جو چاہے کر سکتا ہے میرے پاس جتنا علم تھا اس علم کے مطابق اس وقت جب تم میرے پاس ائی تھی اس وقت تک تمہارے نصیب میں اولاد نہیں تھی لیکن پھر تم نے ایک ایسی نیکی کی ہے ایک ایسی اچھائی کی جو اللہ تعالی کو اتنی پسند اگئی کہ اللہ تعالی نے تمہارا نصیب ھی بدل دیا تمہارا مقدر ہی بدل دیا اور یہ صرف تمہارے ساتھ نہیں ہوا تم ازما لینا جس نے بھی مخلوق خدا کے ساتھ بھلائی کی ہوگی اس کے ساتھ ایسا ہی ہوا ہوگا اس کا مقدر بدل گیا ہوگا بھلے ہی اس کو کچھ ازمائشیں دیکھنا پڑی ہوں گی لیکن وقت نے اس کا ساتھ ضرور دیا ہوگا اس کی خواہش ضرور پوری کی ہوگی

اختتام

وہ بھی کیا دن تھے جب اونٹ کسی بھی کروٹ بیٹھ سکتا تھا ، ہاتھی کے دانت کھانے کہ اور دکھانے کہ ایک ہی ہوتے تھے ، ہر کوئی اپ...
08/07/2025

وہ بھی کیا دن تھے جب اونٹ کسی بھی کروٹ بیٹھ سکتا تھا ،
ہاتھی کے دانت کھانے کہ اور دکھانے کہ ایک ہی ہوتے تھے ، ہر کوئی اپنا الو سیدھا نہیں کرتا تھا جس کے پاس ایک لاٹھی تھی تو اس کی صرف ایک ہی بھینس ہوا کرتی تھی ، آم گھٹلیوں کے دام ملا کرتے تھے ، کھانے کے ساتھ روٹی فری ملا کرتی تھی ، ہر شخص زرداری کی طرح خوش نظر آتا تھا ، لڑکیوں کی انگریزی میرا سے زیادہ اچھی ہوا کرتی تھی، لڑکے سوائے اپنی بہن کہ ہر اس لڑکی کو باجی کہتے تھے جو انہیں بھائی کہتی تھیں، ڈاکو بھی اسی گھر میں ڈاکہ ڈالتے تھے جہاں اوپر کی کمائی کا خوب مال موجود ہوتا تھا، گوشت والا بکرے کو اتنا پانی پلاتا تھا کہ بعد میں گوشت میں پانی ملانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی ,کھٹا کھانے کے باوجود کسی کے دانت کھٹے نہیں ہوتے تھے، بجلی کا بل دیکھ کر کسی پر بجلی نہیں گرتی تھی، دودھ میں صرف دودھ ہوا کرتا تھا پانی ملانے کی آپشن خریدنے والے کے پاس تھی کہ جتنا اس کا دل چاہے پانی ملاۓ ، اس وقت جب بادل گرجتے تھے تو برستے بھی تھے ، سبزیوں کو ہوش میں لانے کیلئے پانی نہیں ڈالا جاتا تھا، دالیں اتنی اچھی ہوا کرتی تھیں کہ جلدی گل جاتی تھیں ، لوگ اتنے اچھے تھے کہ رسی جلتی تھی تو ساتھ میں بل میں ختم ہوجاتا تھا ، لوگ سچ بولتے تھے، کسی کو شرم سے پانی پانی نہیں ہونا پڑتا تھا، اس وقت عقل بڑی ہوتی تھی اور بھینس صرف دودھ دیتی تھی،لاتوں کے بھوت باتوں سے آرام کے ساتھ مان جاتے تھے ، اور اب !!!
کیا کہوں کہنے کے لیے الفاظ ہی نہیں مل رہے ۔"

السلام علیکم میرے پیارے پیارے بھائی بہن اور دوستوں جن ذات کا عشق کو اپ نے جس طرح پیار دیا اس کے لیے میں تہہ دل سے اپ کی ...
08/07/2025

السلام علیکم میرے پیارے پیارے بھائی بہن اور دوستوں جن ذات کا عشق کو اپ نے جس طرح پیار دیا اس کے لیے میں تہہ دل سے اپ کی مشکور و ممنون ہوں اور میں اپ کے لیے ایک نئی کہانی لے کر حاضر ہوئی ہوں اور امید کرتی ہوں کہ یہ کہانی بھی اپ لوگوں کو بہت پسند ائے گی اور اس کہانی کو بھی اپ لوگ ویسے ہی پیار دیں گے جس طرح جن ذاد کا عشق کہانی کو پیار دیا تھا ویسےہی پیار دیںگے....
تو چلیے چلتے ہیں قاہرہ سٹوری کی طرف

پارٹ 1

ہزاروں سال پرانے کھنڈرات میں جنم لینے والی ایک انوکھی کہانی،

فرعون مصر طوتن خامن کے مقبرے کی دریافت کے باون سال بعد یہ انکشاف ہوا کہ اس کے نواح میں طوتن خامن کے ایک معتبر امیر راعوس کا مقبرہ بھی ریت کی تہوں میں دفن ہے۔ یہ انکشاف آثار قدیمہ کے ایک برطانوی ماہر پروفیسر ڈگلس نے کیا تھا۔ پروفیسر ڈگلس کی عمر اس وقت ساٹھ کے ہندسے سے تجاویز کر چکی تھی۔ اس کی زندگی کا بیشتر حصہ ماضی کے باقیات پر ریسرچ کرتے ہوئے گزرا تھا۔ اگرچہ وہ ذاتی طور پر زمین کے سینے میں دفن ماضی کا کوئی راز دریافت نہیں کر سکا تھا لیکن اس موضوع پر اس کی رائے کو خاصی اہمیت دی جاتی۔ خصوصاً مصریات پر تو اسے اتھارٹی سمجھا جاتا۔ قدیم تحریریں سمجھنے میں پوری دنیا میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ اس معاملے میں اس کی رائے کو حتمی سمجھا جاتا۔

طوتن خامن کے مقبرے سے کچھ ایسی چیزیں بھی برآمد ہوئی تھیں جن کے بارے میں ابھی تک کوئی رائے قائم نہیں کی جا سکی تھی اور نہ ہی کوئی نتیجہ اخذ کیا گیا تھا۔ پروفیسر ڈگلس طویل عرصہ سے اس سلسلے میں ریسرچ کر رہا تھا۔ بالاخر اٹھائیس سال تک طوتن خامن کے مقبرے اور برٹش میوزیم میں موجود مقبرے سے برآمد ہونے والی ان چیزوں کے مطالعہ کے بعد پروفیسر ڈگلس اس نتیجہ پر پہنچا تھا کہ اس مقبرے کے نواح میں طوتن خامن کے ایک معتمد امیر راعوسس کا مقبرہ بھی موجود ہے۔ یہ دونوں مقبرے ایک زیر زمین سرنگ کے ذریعے ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے۔ لیکن ان چیزوں کے مطالعہ سے پروفیسر کو یہ جان کر حیرت ہوئی تھی کہ ان دونوں مقبروں کے درمیان تقریباً ساٹھ میل کا فاصلہ حائل تھا۔ قدیم زمانے میں اس قدر طویل سرنگ کا تصور محال تھا لیکن حقائق سے چشم پوشی بھی نہیں برتی جا سکتی تھی۔ اگر سر بفلک اہرام اور فراعنہ کے مقبروں کی مثالیں سامنے نہ ہوتیں تو شائد کوئی ان پر بھی یقین نہ کرتا۔

پروفیسر ڈگلس کو یقین تھا کہ اس کی تحقیقات غلط نہیں ہو سکتی۔ جب اس کی رپورٹ منظر عام پر آئی تو ایک طوفان سا اٹھ کھڑا ہوا۔ زندگی میں پہلی مرتبہ پروفیسر کی تحقیق سے اختلاف کیا گیا اور یہ اختلاف ان ماہرین کی طرف سے کیا گیا تھا جو خود بھی طویل عرصہ سے طوتن خامن کے مقبرے اور اس کے باقیات پر ریسرچ کر رہے تھے۔ لیکن پروفیسر نے ان اختلافات کی پرواہ کیے بغیر اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کرتے ہوئے درخواست کی کہ اسے راعوسس کے مقبرے اور اس طویل سرنگ کی تلاش کی اجازت دی جائے جو دونوں مقبروں کے درمیان رابطے کا کام دیتی تھی۔

ماہرین کی شدید اختلاف رائے کے باعث برطانوی حکومت پروفیسر ڈگلس کو اجازت دینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی تھی جس پر پروفیسر نے پیش کش کی کہ اگر اسے اجازت دیدی جائے تو اس مہم کے تمام اخراجات وہ خود برداشت کرے گا۔ اس پر بھی کچھ لوگوں نے اعتراض اٹھایا کہ زر مبادلہ تو حکومت ہی کا خرچ ہو گا لیکن کچھ درآمد کے بعد حکومت نے پروفیسر ڈگلس کی درخواست منظور کرتے ہوئے اسے اپنی تحقیقات جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔

اجازت ملتے ہی پروفیسر ڈگلس نے ابتدائی تیاریاں شروع کر دیں۔ اس کی تحقیقات کے مطابق راموسس کا مقبرہ طوتن خامن کے مقبرے کے جنوب میں ہونا چاہیے تھا۔ نقشوں کی مدد سے پروفیسر نے اندازے کی بنا پر اس طویل سرنگ کے راستے کا تعین کیا طوتن خامن کے مقبرے سے تقریباً اڑتالیس میل کے فاصلے پر دریائے نیل اس راستے کو کاٹتا ہوا گزر گیا تھا۔ اب غور طلب بات یہ تھی کہ کیا صدیوں پہلے بھی دریا اسی جگہ بہہ رہا تھا یا وہ راستہ بدل کر موجود پٹی پر پہنچا تھا۔ تاریخ کے اوراق شاہد تھے کہ نیل بار بار اپنے راستے بدلتا رہا ہے اس لیے یہ امکان زیادہ قرین قیاس تھا کہ جب ان دونوں مقبروں کے درمیان وہ سرنگ تعمیر کی گئی تھی تو دریا وہاں موجود نہ ہو اور صدیوں کے رد عمل میں راستہ بدل کر اس جگہ پہنچا ہو۔ جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ وہ سرنگ دریا کے نیچے سے گزر رہی تھی۔ پروفیسر ڈگلس نے ایک اور رخ پر بھی سوچا تھا کہ ممکن ہے دریا کے راستہ بدل لینے سے نمی کے باعث سرنگ کا اتنا حصہ دب چکا ہو یا بہہ گیا ہو۔ لیکن یہ خیال زیادہ قوی نہیں تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو کبھی نہ کبھی سرنگ کا راز کھل جاتا لیکن آج تک ان اطراف میں کسی سرنگ کے بارے میں نہیں سنا گیا تھا جس کا مطلب یہی تھا کہ دریا کے نیچے وہ سرنگ اب بھی جوں کی توں موجود ہے۔

سب سے پہلے پروفیسر ڈگلس نے ان لوگوں سے رابطہ قائم کیا جو اس مہم میں اس کا ساتھ دے سکتے تھے۔ یہ سب کے سب آثار قدیمہ کے ماہرین تھے جن کا تعلق مختلف ممالک سے تھا اور اس سے پہلے بھی ایسی کئی مہمات پر پروفیسر کے ساتھ کام کر چکے تھے۔ ان میں سر فہرست پروفیسر وقار کا نام تھا۔

روفیسر وقار کا تعلق پاکستان سے تھا۔ اپنے ملک میں اگرچہ اسے کوئی سرکاری حیثیت حاصل نہ تھی مگر آثار قدیمہ کے ان نوجوان ماہر کو حکومت کی نظروں میں بھی اہم مقام حاصل تھا۔ موہنجودڑو ،ہڑپہ اور ٹیکسلا کے آثار قدیمہ کے بارے میں اس کی کئی تحقیقاتی رپورٹیں اخبارات میں شائع ہو چکی تھیں۔ مصریات کے بارے میں بھی پروفیسر وقار کا مطالعہ وسیع تھا۔ برطانیہ کے پروفیسر ڈگلس سے اس کی ملاقات پاکستان میں موہنجودڑو کے موضوع پر ہونے والے سیمنار کے موقع پر ہوئی تھی۔ اس وقت دنیا بھر کے ماہرین پاکستان آئے ہوئے تھے۔ ماضی کے اس نشان کو سیم و تھور سے بچانے کے لیے مختلف تجویزیں پیش کی جا رہی تھیں۔ اس سیمنار میں پروفیسر وقار کی رپورٹ کو بھی خاصا سراہا گیا تھا۔ اس پہلی ملاقات پر پروفیسر ڈگلس نے اسے برطانیہ آنے کی دعوت دی۔ اس طرح پروفیسر وقار ،طوتن ،خامن کے مقبرے کی ریسرچ میں پروفیسر ڈگلس کے معاون کی حیثیت سے کام کرتا رہا اور اب جبکہ پروفیسر ڈگلس کو برطانوی حکومت سے تحقیقات جاری رکھنے کی اجازت مل گئی تھی تو اس نے دوسرے ماہرین کے علاوہ پروفیسر وقار کو بھی بلا بھیجا۔

تقریباً دو ماہ تک نقشوں پر کام ہوتا رہا اور جب کاغذ ی تیاریاں مکمل ہو گئیں تو یہ طے پایا تھا کہ ماہرین کو دو پارٹیوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ ایک پارٹی پروفیسر ڈگلس کی نگرانی میں طوتن خامن کے مقبرے کے اندر جنوبی رخ پر سرنگ کی تلاش کا کام کرے گی اور دوسری پارٹی ساٹھ میل جنوب میں دریا کے دوسرے طرف پروفیسر وقار کے سربراہی میں راعوسس کے مقبرے کی تلاش کے لیے کھدائی کا کام کرے گی۔

یہ سب کچھ طے ہو جانے کے بعد وہ لوگ مصر پہنچ گئے۔ مصری حکومت سے کھدائی کی اجازت حاصل کرنے میں زیادہ دشواری پیش نہیں آئی۔ پروفیسر ڈگلس اپنی پارٹی کے ہمراہ طوتن خامن کے مقبرے کی طرف روانہ ہو گیا اور پروفیسر وقار نے دریا کے دوسری طرف مقررہ مقام پر کیمپ لگا دیا ۔

پروفیسر وقار کی ہدایت پر ایک وسیع علاقہ میں تین مختلف مقامات پر کھدائی کا کام شروع کر دیا گیا۔ لیکن دو جگہوں پر جلد ہی کھدائی بند کر دینی پڑی۔ تیسری جگہ البتہ کام جاری رہا۔

پروفیسر ڈگلس سے ان کا رابطہ قائم تھا۔ کام کا جائزہ لینے کے لیے پروفیسر ڈگلس بھی ہفتے میں ایک مرتبہ ان کے پاس آ جاتا۔ پروفیسر ڈگلس اپنے اس معاون کی کارکردگی سے خاصا مطمئن نظر آ رہا تھا۔ اسی دوران پروفیسر وقار ایک روز ایک ضروری کام کے سلسلے میں قاہرہ چلا گیا۔ قاہرہ کے ہوٹل شیفرڈ میں اپنے کمرے میں بیٹھا ناشتہ کے دوران اخبار کا مطالعہ کر رہا تھا کہ اندرونی صفحہ پر ایک چھوٹی سی خبر میں بھی خاصی کشش تھی۔ اے پی پی کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک خبر میں بتایا گیا تھا کہ بلوچستان میں ایک چھوٹے سے قصبہ مستونگ کے قریب کھدائی کے دوران کچھ کھنڈرات دریافت ہوئے ہیں جن کے بارے میں شبہ ہے کہ ان کا تعلق صدیوں پرانی تہذیب سے ہے۔

اس مختصر سی خبر میں اگرچہ زیادہ تفصیل کا پتہ نہیں چل سکا لیکن پروفیسر وقار ناشتہ کرنا بھول گیا اس نے اسی روز پاکستان میں اپنے ایک دوست انوار راجہ کو خط لکھا کہ وہ پہلی فرصت میں بلوچستان جا کر اس سلسلے میں معلومات حاصل کر کے اسے آگاہ کرے۔ راجہ تاریخ کا اسکالر تھا۔ اسے آثار قدیمہ سے بھی بہت دلچسپی تھی لیکن صرف اس حد تک کہ پروفیسر وقار کے ساتھ بحث کر سکے۔ وہ پروفیسر وقار کے ساتھ ایک دو ایسی مہمات پر بھی کام کر چکا تھا۔ وہ فطرتاً حسن پرست اور لالچی انسان تھا۔ اپنی اسی فطرت کے ہاتھوں وہ کئی مرتبہ موت کے منہ میں جاتے جاتے بچا تھا۔

لیکن ان واقعات سے اس نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اس میں یہ خاصیت بھی تھی کہ اس نے پروفیسر کی کسی بات کو کبھی رد نہیں کیا تھا اس لیے پروفیسر کو یقین تھا کہ اس کا خط ملتے ہی راجہ بلوچستان روانہ ہو جائے گا۔

قاہرہ میں اپنا کام نمٹانے کے بعد پروفیسر وقار اپنے کیمپ میں پہنچ گیا۔ شام کا اندھیرا پھیل جانے کی وجہ سے کام بند ہو چکا تھا۔ اگلے روز جب کام دوبارہ شروع ہوا تو پروفیسر وقار یہ دیکھ کر مسکرا دیا کہ اس کے ماتحت خاصے تیز رفتار ثابت ہوئے تھے۔ اس کی غیر حاضری کے گزشتہ تین روز میں ریگزار کا ایک لمبا چوڑا حصہ کھدائی میں شامل ہو چکا تھا۔

اسی روز غروب آفتاب کے کچھ دیر بعد پروفیسر ڈگلس بھی پہنچ گیا۔ وقار کے خیمے میں بیٹھا وہ اس طرح گہری نظروں سے اس کے چہرے کا جائزہ لے رہا تھا۔ جیسے اسے پہلی بار دیکھ رہا ہو۔

’’کیا بات ہے پروفیسر! تم مجھے اس طرح گھور گھور کر کیوں دیکھ رہے ہو۔‘‘ پروفیسر وقار نے پوچھا

’’کوئی خاص بات نہیں۔ ویسے بائی دا وے تم نے کتنے عرصے سے اخبار نہیں دیکھا۔‘‘ پروفیسر ڈگلس نے اس کے چہرے سے نظریں ہٹائے بغیر کہا
وہ! اب سمجھا۔‘‘ پروفیسر مسکرا دیا۔ ’’شاید تم اس خبر کے بارے میں میرے تاثرات جاننا چاہتے ہو۔ جو بلوچستان میں کھنڈرات کی دریافت کے بارے میں شائع ہوئی ہے۔‘‘

’’ہاں ،تم ٹھیک سمجھے۔ وہ خبر میں نے بھی پڑھی تھی اور اسی روز سے تمہارے ہی بارے میں سوچ رہا ہوں۔‘‘

’’کیوں۔ میرے بارے میں کیوں سوچ رہے ہو۔‘‘ پروفیسر وقار نے الجھی ہوئی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا

’’بات تمہارے ملک کی ہے۔ ظاہر ہے تمہارے دل میں یہ خواہش ضرور ہو گی کہ اپنے وطن پہنچ کر ان کھنڈرات کی تحقیقات میں حصہ لو۔‘‘

’’تمہارا خیال غلط نہیں ہے۔ پروفیسر! لیکن میری ایک عادت یہ بھی ہے کہ جب تک پہلا کام مکمل نہ کر لوں کسی دوسرے کام میں ہاتھ نہیں ڈالتا۔‘‘

وقار کے اس جواب پر پروفیسر ڈگلس کے چہرے پر طمانیت سی پھیل گئی۔ پیٹرومیکس کی روشنی میں اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ وہ چند لمحے بھر پور نگاہوں سے وقار کے چہرے کا جائزہ لیتا رہا پھر پرسکون لہجے میں بولا

’’مجھے تمہارے خیالات جان کر خوشی ہوئی۔ لیکن اگر تم جانا بھی چاہو تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہو گا‘‘

’’فی الحال واپسی کا میرا کوئی ارادہ نہیں۔‘‘ میں نے تفصیلات معلوم کرنے کے لیے پاکستان میں اپنے ایک دوست کو خط لکھ دیا ہے۔ اگر اس میں مجھے کوئی دلچسپی محسوس ہوئی تو اسے اگلے پروگرام کے طور پر ذہن میں رکھوں گا۔‘‘ پروفیسر وقار نے جواب دیا۔

اس کے بعد تقریباً دو گھنٹے تک وہ اپنے کام کی موجودہ صورت حال پر تبصرہ کر رہے تھے۔ پھر پروفیسر ڈگلس رخصت ہو گیا۔

کھدائی کا کام تین ماہ تک جاری رہا۔ وہ ایک وسیع رقبہ پر تقریباً سو فٹ کی گہرائی تک کھدائی کر چکے تھے۔ اس کھدائی کے دوران کچھ ایسی چیزیں برآمد ہوئی تھیں جو اگرچہ زیادہ اہم نہیں تھیں لیکن انہیں امید بندھ گئی کہ اگر وہ اسی جگہ کھدائی کرتے رہیں تو کامیابی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں۔ لیکن چند روز کی مزید کھدائی کے بعد ایک بہت بڑی چٹان حائل ہو گئی۔ سینکڑوں فٹ لمبی چوڑی اس چٹان کو توڑنا آسان کام نہیں تھا۔ پروفیسر ڈگلس نے اس ہموار چٹان کے معائنہ کے بعد اس شبہ کا اظہار بھی کیا تھا کہ ممکن ہے یہ کوئی قدرتی چٹان نہ ہو بلکہ راعوسس کے مقبرے ہی کا ایک حصہ ہو جس کی تلاش میں وہ یہ یہ ساری جدوجہد کر رہے ہیں اس لیے چٹان کو توڑنے کی بجائے اس کے ساتھ ساتھ کھدائی کا کام جاری رکھا گیا۔ لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ وہ حقیقتاً کوئی چٹان ہی تھی جو زمین کی اتھاہ گہرائیوں تک چلی گئی تھی۔ اسی دوران وہ موسم شروع ہو گیا جس سے ریگزاروں کے باسی بھی خوفزدہ ہو کر پناہ کی تلاش میں نخلستانوں یا شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ تیز ہوا کے جھکڑ رات ہی رات میں ریت کے ٹیلے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر دیتے۔ بعض اوقات نخلستان بھی ریت کی تہوں سے دب کر نگاہوں سے اوجھل ہو جاتے۔

پروفیسر وقار کو کھدائی کا کام جاری رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔ وہ اب تک جتنی کھدائی کر چکے تھے وہاں دوبارہ ریت بھر رہی تھی۔ کئی ماہ کی کھدائی کے بعد برآمد ہونے والی وہ چٹان بھی ریت کی تہوں میں دفن ہونے لگی۔ موسم شدت اختیار کرتا جا رہا تھا۔ اب تو ان کے لیے وہاں ٹکنا بالکل نا ممکن ہو گیا تھا۔ کئی دیو پیکر مشینیں ریت میں دفن ہو چکی تھیں۔ پروفیسر وقار کو خدشہ تھا کہ اگر انہوں نے کام جاری رکھا تو کسی وقت وہ بھی ریت کی تہوں میں دب جائیں گے۔ چنانچہ پروفیسر ڈگلس سے مشورہ کرنے کے بعد کم سے کم تین ماہ کے لیے کام بند کر دیا گیا۔ اس فیصلے کے ساتھ ہی کیمپ اٹھا دیا گیا اور وہ لوگ قاہرہ پہنچ گئے۔

قاہرہ

دوستو کیسی لگی آپ کو نئی کہانی کی سنیک پیک ؟؟
کمنٹ میں ضرور بتائیں تاکہ اگلی قسط پوسٹ کروں

Address

29 Manoranjan Roy Chaudhri Road
Kolkata
700017

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when میری تحریریں posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share