17/08/2024
*کتنی بربادی مقدر میں تھی آبادی کے بعد :؟*
*🖋️: مولانا فیاض احمد صدیقی رحیمی :*
صدر مدرس :مدرسہ عربیہ ھدایت الاسلام انعام وہار سبھا پور دھلی. این. سی. آر :
[email protected] :
_____=====_____
محترم قارئین :
آج پورے ملک ھندوستان کی فضامسموم ہو چکی ہے ہمارا رشتہ خود اپنی تاریخ اور اپنے شاندار ماضی سے کٹ چکا ہے وقت کی ستم ظریفی کہئے یا ہماری لاپروائی کہ ہم اپنے کو دوسروں کی نگاہوں سے دیکھنے اور دوسروں کے بتائے ہوئے معیارات سے جانچنے لگے ہیں ستم ظریفوں نے مسلمانوں کو ان کے ماضی سے کاٹنے کی شاطرانہ چالیں چل رکھی ہیں حقائق پر سیاہی کے دبیز پردے ڈال دیئے ہیں اس لئے نئی نسل اپنے اسلاف کے کارناموں سے بالکل واقف نہیں آج ضرورت ہے اس بات کی کہ ہم تاریخ کے حقائق کو ان کے سامنے لائیں تاکہ وہ ان کے نقش قدم پر چل کر ملک و ملت کے لئے مفید سے مفید تر ثابت ہوں: اسی کے ساتھ ساتھ آج ھندوستان کی پوری اسلامی تاریخ کو جس طرح مسخ کرنے کی شرمناک کوشش بلکہ سازش کی جا رہی ہے وہ کسی سے بھی مخفی نہیں چونکہ مسلمانوں نے اپنے خون جگر سے اس کی سینچائی کی تھی اس لئے قدرتی طور پر انھوں نے اس کی حفاظت کے لئے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا جب فرنگی ہندوستان آئے اور ملک پر قبضہ کرنا شروع کیا تو مسلمان ہی یہاں کے حاکم تھے اور فرنگیوں نے ملک انہیں سے چھینا تھا اس لئے بھی فطری طور پر ان کے مقابلہ میں مسلمانوں کو آگے ہونا چاہیے تھا اور پھر اسلام کسی بھی طرح غلام رہنے کی اجازت نہیں دیتا اس لئے علماء سامراجیوں سے مقابلہ ضروری سمجھتے تھے اس بناء پر تحریک آزادی کے ہر دور میں انہوں نے مسلم عوام کی پوری قیادت کی اور ایک مخلص اور سمجھ دار رہنما کا پارٹ ادا کیا علماء کے استعمار مخالف موقف اور اس کے خلاف ان کی مسلسل جدوجہد نے فرنگیوں کو کبھی چین سے حکومت کرنے نہیں دیا اور مسلما نوں نے ہمیشہ اس ملک کو اپنا وطن آپنا گھر اور اپنی ابدی قیام گاہ سمجھا جس سے وہ کبھی اپنی نظریں پھیر نہیں سکتے تھے یہ مسلم قوم ہی ہے جس نے سب سے پہلے آزادی کا بگل بجایا جس مختلف تحریکوں کو جنم دیا جس کے مجاہدین نے ہندو بیرون ہند میں آزادی کے لیے ناقابلِ فراموش دوڑ دھوپ کی اور انگریز ہم ہی سے آزادی کے نعرہ کا زیادہ بدلہ لیتے رہے کیونکہ ملک مسلمانوں سے چھینا گیا تھا اور پھر وطن سے محبت اس کے ایمان کا ایک حصہ ہے اس لیے اس کی جدوجہد لازمی اور ضروری تھی یہ دن،، جشنِ یوم آزادی،، ہمیں سوچنے سمجھنے اور کوئی لائحہ عمل تیار کر نے کا پیغام دیتا ہے یہ دن ہمیں اپنے اسلاف اور بزرگوں کی قربانیوں کو یاد کر کے ان سے سبق سیکھ کر زندگی گزارنے کا حکم دیتا ہے میں عرض کروں کہ جنگ آزادی کی دو سو سالہ تاریخ ہے اس تاریخ کی ابتداء اس وقت ہوگئی تھی جب 1756ء میں نواب سراج الدولہ جیسے جری بہادر بادشاہ کا دور حکومت آیا اور تاریخ کا یہ روشن باب اس وقت مکمل ہوگیا جب وہ معروف ومشہور تاریخ دوہرائی گئی جس میں خون ندیاں بہہ گئیں گاجر مولی کی طرح محبین وطن کو کاٹ کر رکھ دیا گیا تھا آج جسے غدر 1857ء کے نام سے یاد کیا جاتا ہے پھر دوسرا دور اس وقت مکمل ہوا جب انگریزوں کی غلامی کی زنجیریں قانونی طور پر ہماری گردنوں سے نکالی گئیں اور وہ 1947ء کاوقت تھا
یہ ایک صدی کی تاریخ مسلمانوں کی بے نظیر اور بے لوث قربانیوں سے بھری پڑی ہے جسے کبھی بھلایا نہیں جاسکتا!
آزادی کی اس طویل ترین تاریخ میں ہماری عورتوں کو بھی بے حرمت کیا گیا اور ہمارے بچوں کو بھی ذبح کیا گیا ہمارے کار وبار بھی تباہ کئے گئے اور املاک پر بھی ڈاکہ زنی کی گئی ہمیں کالے پانی کی اذیتیں بھی برداشت کرنی پڑیں اور مالٹا کے زنداں خانوں میں بھی ہمارے صبر وضبط کا امتحان لیا گیا پانی پت وشاملی کے میدانوں میں بھی ہمارا خون جذب ہوا ہے اور احمد نگر کے قید خانوں کو بھی ہم ہی نے اپنے عزم و حوصلوں کا نظارہ کرایا ہے جلیا نوالہ باغ کے خونی منظر سے بھی ہم گزرے ہیں لاہور کی شاہی مسجد بھی ہماری قربانیوں کی شاہد وعادل ہے اور ہندوستان کے جس چپہ پر بھی آپ دیکھیں گے جس اینٹ کو اٹھائیں گے وہاں ہمارے خون کی مہک ہمارے بزرگوں کے گرم گرم راتوں کے آنسوؤں کی نمی اور ہمارے جیالوں کے ولولے اور عزائم و حوصلے ملیں گے -
*بہار اب جو ہند میں آئی ہوئی ہے*
*یہ سب پودا انہیں کی لگائی ہوئی ہے*
لیکن یہ کیسی وقت کی ستم ظریفی ہے کہ حریت کی سنگلاخ راہوں پر لہو لہو اور آبلہ پا کاروان آزادی کی تن تنہا ڈھائی سو سالہ مسافت طے کرنے کے بعد جب منزل سامنے آئی تو تمام خوابوں کی تعبیریں منافق اور حوصلہ شکن ہوگئیں، جمہوریت کا آئین مرتب ہوا،مگر اسی جمہوریت کی آڑ میں انہیں شہیدان آزادی اور کاروان آزادی کی نسلوں کے استحصال میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی، فرقہ پرستی کا پودا کھڑا ہوا حکومت پروش کرتی رہی، ملک دوٹکڑے ہوا اور مسلمان اقلیت میں ہوکر بے یارومددگار ہوگئے نہ ان کے لیے کوئی قانون نہ ان کے تحفظ کی کوئی ضمانت، نہ ان کی تعلیم کا کوئی نظم، اور نہ ہی ان معاشیات کا کوئی انتظام، فسادات کے ذریعے ان کی معیشت کو برباد کردیا گیا، عصبیت کے زیر اثر سیاسی ایوانوں سے لیکر عام اداروں تک ان کی نمائندگی صفر کردی گئی، فرقہ وارانہ مزاج کی تنظیموں کو اس قدر شہ دی گئی کہ وہ ناقابل شکست قوت بن کر سیاہ وسفید کی مالک بن گئی،
پھر کیا تھا پوری فضا اسلام مخالف پروپیگنڈوں سے مسموم ہوگئی، اسلامی قانون پر شب خون مارا گیا،منصوبہ بند طریقے سے مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے نام پر اغواء کر کے پوری زندگی تباہ کردی گئی،قوم کو ہر لحاظ سے ہراساں کیا گیا ستم یہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ یہ بربریت اور احسان فراموشی کا سلوک سیکولر کی علمبردار جماعت کے عہد میں ہوتا رہا ہے’جس بنیادوں کے استحکام میں مسلمان قائدین نے اپنے جانوں کی بازی لگا دی تھی،
*جب گلستاں کو خوں کی ضرورت پڑی*
*سب سے پہلے ہماری ہی گردن کٹی*
*پھر بھی کہتے ہیں ہم سے یہ اہل چمن*
*،یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں۔*
دنیا کے کسی ملک نے اس قوم کے ساتھ ایسی بدترین قسم کی احسان فراموشی نہیں کی ہوگی، اس کے ساتھ عصبیت کا سلوک نہیں کیا ہوگا جس کے آباؤ اجداد کا لہو اس سرزمین کے سینے میں جذب ہو،لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہندوستان کی مفاد پرست سیاسی پارٹیوں نے اسی قوم کا زندگی کے ہر شعبے میں دیدہ و دانستہ استحصال کیا ہے جس کے اسلاف کے خون سے اس سرزمین کا ذرہ ذرہ لہو رنگ ہے’۔ لیکن باوجود اس کے مسلم دشمنی اور انتہا پسندی کے جنون میں فسطائی طاقتوں نے اسلامی تشخص،اسلامی علامتوں کے مٹانے میں مسلمانوں کو ہراساں کرکےانہیں خود اعتمادی سے محروم کرنے میں، مسلمانوں کو اقتصادی سیاسی اور تعلیمی اعتبار سے بے وزن اور بے دست وپا کرنے میں اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے’،ماب لینچنگ کا معاملہ ہو یا معصوم نوجوانوں کی گرفتاریاں،گائے کے ذبیحہ کا مسئلہ ہو یا اسلامی قوانین کی تحریف کا تمام مراحل میں حکومت کے اقدامات سے واضح ہے’کہ ملک مکمل طور پر انتہا پسندی کی راہ پر جاچکا ھے، جمہوریت کا خون کرکے نازی ازم کی ہوائیں پورے ملک پر مسلط ہوچکی ہیں،ایسی دلخراش اور خوفناک صورت حال میں زخم زخم قلب و ذہن اور لہو لہو اجسام کس طرح وجود میں سرشاری کی کیفیت لائے، ملک کی ہفت رنگ فضاؤں میں ظاہراً چہروں پر مصنوعی مسکراہٹیں ایک لمحے کے لیے بکھر سکتی ہیں مگر وہ احساسات اور وہ جذبات جن میں کیف وانبساط کی لہریں موجزن رہتی ہیں انہیں ظلم وجبر کے پیدا نہیں کیا جاسکتا۔
*کتنی بربادی مقدر میں تھی آبادی کے بعد*
*کیا بتائیں ہم پہ کیا گذری ہے آزادی کے بعد*