Faiyaz ahamad ofcel naat page

Faiyaz ahamad ofcel naat page Hamre page KO follow karen achhi videos dekhne ke liye Shukriya🌹🌹🌹🌹🌹🏵️🏵️🏵️🏵️

Chand official info
Assalamu Alaikum Wa Rahmatullah ,,
Ye Channel Sirf Islamic progaram ke liye hai is par Naat , Taqreer , Aur Islamic Education se Related Videos Upload Kiye Jayenge
To AAP Sabhi Dosto Se Guzarish Hai K Zeyada Se Zeyada Mere Channel Ko Subscribe , Like & Share KareN.Aur page Ko Bhi like & Foliow Karen.

10/11/2024
03/10/2024

Ow kamale husne huzur hai ke gumane naqse jahan nahi.
Yahi phul khuar se dur hai yahi shamma hai ke dhuwan nahi

08/05/2024

حجاج_لائے_ہیں_آب_زم_زم

حجاج لائے ہیں آبِ زمزم
لانا تھا آقا کے دین کا غم
جو غم صحابہ کی زندگی تھی
وہ غم سے واقف نہ ہو سکے ہم


وہ غم ندائے رسولِ اطہر
وہ غم ادائے صدیقِ اکبر
وہ غم مُصفّا وہ غم مُعطر
وہ غم ایماں کو کرے مُنور
وہ غم غمِ دوجہاں سے بہتر
وہ غم بقائے اولادِ آدم


وہ غم زبانِ نبی پہ جاری
وہ غم گساروں پہ فضلِ باری
وہ غم سکھائے وفا شِعاری
وہ غم شیاطیں پہ ضربِ کاری
وہ غم میں گزرے حیات ساری
وہ غم کا مرکز تھا دارِ ارقم


وہ غم دوا ہے وہ غم شِفا ہے
وہ غم تو نُسخہِ کیمیا ہے
وہ غم مثالوں سے ماورا ہے
وہ غم طلب والوں کو مِلا ہے
وہ غم صحابہ کا راستہ ہے
وہ غم شکستہ دلوں کا مرہم


وہ غم ہی تفسیرِ مُصطفٰے ہے
وہ غم ہی تصویرِ مصطفٰے ہے
وہ غم ہی تاثیرِ مصطفٰے ہے
وہ غم ہی تقریرِ مصطفٰے ہے
وہ غم ہی تکبیرِ مصطفٰے ہے
وہ غم کو مانگو خدا سے ہردم


وہ غم نبی پہ ہوا ہے نازل
وہ غم کا غمگیں ولیِ کامل
وہ غم بھنور میں اُمیدِ ساحل
وہ غم فہد کی جہد کا حاصل
وہ غم ہو مولا ہماری کی منزل



#بےنشاں 😥☺️💚🤍

07/05/2024

*کہیں کہیں سے مشقت کی داستاں سن لو*

آج صبح خلافِ معمول وہ جلد اٹھ گیا تھا۔ لیکن کیا بات تھی کہ ہنستے مسکراتے چہرے پہ افسردگی کے آثار نمودار تھے۔ وہ اہلِ خانہ سے نظریں چرا رہا تھا۔ کم سخن سا بن گیا تھا ۔ مانو کہ کوئی عزیز چیز کھو گئی ہو۔ جیسے تیسے ضروریات سے فارغ ہوا بعدہ ناشتہ کرنے بیٹھ گیا۔ کچھ دیر کہیں کھویا کھویا رہا پھر ماں کی مشفقانہ آواز پہ خواب و خیال سے باہر آیا اور قدرے ناشتہ کر کے ہاتھ سمیٹ لیے۔پھر وہاں سے اٹھ کر فوراً اندر گیا اور بہن کے ہاتھوں سے پریس کیے کپڑے زیب تن کیے۔ابو نے یاد دلایا کہ ٹرین ۸ بجے ہے۔ جلدی کرو ورنہ چھوٹ جائے گی۔"جی ابو" اس نے دھیمے لہجے میں کہا اور تیاریوں میں سرعت کرنے لگا۔ دیکھتے دیکھتے بیگ، بستر، اشیاے خرد و نوش وغیرہ رختِ سفر گھر کے صدر دروازے کے سامنے لے آیا اور آخری سلام کے لیے واپس مڑا۔اب بھرائے لہجے ، اشکبار آنکھوں، پر سوز آواز اور دل موہ لینے والی صورت کے ساتھ اہلِ خانہ کو الوداع کہنا شروع کیا۔ عجب سماں تھا کہ سب بڑے پریشان نظر آ رہے تھے۔ فرطِ جذبات میں وہ خود کو روک نہ سکا اور بے ساختہ امی کے گلے جا لگا۔ والدہ سے بھی لختِ جگر کا ہجر برداشت نہ ہو سکا اور محبتوں کا سیلاب آنکھوں سے جاری ہو گیا۔ قریب میں کھڑی لڑاکو بہن بھی آنچل سے اپنا چہرہ چھپا کر مدھم آواز میں روئے جا رہی تھی۔ شوخ بھائی کا جامِ صبر لبریز ہو گیا اور بھائی کی فرقت ضبط نہیں کر پا رہا تھا۔وہ بھی فطری لگاؤ سے سرشار ہوکر بے تاب سا ہو گیا۔ اسٹیشن بھیجنے کے لیے تیار باپ کی دیرینہ شفقتیں جاگ اٹھیں۔ وہ یہ منظر دیکھ پیارے بیٹے کی فراق میں نڈھال ہو گیا لیکن کمالِ صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے آنسوؤں کو دائرۂ چشم تک محدود رکھا اور سب کو دلاسہ دیتے نیز ٹرین کا خوف دلاتے ہوئے مصنوعی مسکان کے ساتھ گویا ہوا: "ارے تم لوگ بھی کیا ماحول بنا رکھے ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ میرا لعل ہمیشہ کے لیے جا رہا ہے۔ بس دیڑھ دو مہینے کی بات ہے پھر بقر عید کی چھٹی میں تو واپس آ ہی جائے گا۔ چلو بھائی اب بس بھی کرو۔ میں سامان لے کر چلتا ہوں تم کو آنا ہو تو آؤ"۔یہ کہتے ہوئے بیگ اٹھایا اور باہر کی جانب نکل پڑا۔باپ کی باتوں کو سن کر سب بچھڑنے پہ جبراً راضی ہو گئے۔ وہ آنسوں پوچھتا ہوا باپ کے پیچھے چل دیا۔ ابھی دو قدم چلا تھا کہ ماں نے کچھ بلند اور مایوس کن آواز میں کہا: 'بیٹا بیگ میں روٹی سبزی رکھ دی ہے۔ جب بھوک لگے کھا ضرور لینا اور ہاں ٹرین سے اترنا نا اور سنو وہاں پہنچ کر فون کرنا نا بھولنا"۔ وہ سکتہ کے عالم میں ماں کے محبتوں کو سنتا رہا اور سر ہلا کر حامی بھرتا رہا پھر ہمت کر کے چل دیا۔ کچھ دور گیا تھا کہ "بھائی بھائی" کی پیاری آواز کان میں رس گھولنے لگی۔ پیچھے مڑ کے دیکھا تو بہن بھاگتی ہوئی آ رہی تھی۔ قریب آکر بولی "یہ کچھ پیسے جو عیدی میں مجھے ملے تھے، میں نے تمہارے لیے رکھ لیے تھے۔ اچھا ہوا یاد آ گئے ورنہ رہ جاتے"۔ یہ کہہ کر ہاتھ میں کچھ نوٹیں تھمائی اور بغیر آنکھ ملائے وہ گھر کو لوٹ گئی۔ ماں اور بہن کی محبتوں نے اسے توڑ کر رکھ دیا تھا۔گویا قیامت سے پہلے اس کی قیامت قائم ہو گئی تھی لیکن سواے جدائی کے کوئی چارۂ کار نا تھا۔ بڑے ضبط کے ساتھ منزل کی جانب دوبارہ روانہ ہوا۔ ابا کے ساتھ رکشہ میں بیٹھا اور کثرتِ ہم و غم کے سبب کچھ بولنے کی تاب نہ لا سکا۔ اسٹیشن کا راستہ جمود و سکوت اور گھر کی یاد میں کب گزر گیا، پتہ ہی نہ چلا۔

لو صاحب اسٹیشن آ گیا، رکشے والے نے کہا۔ والد نے اسے کرایہ دیا، شکریہ ادا کیا پھر ساز و سامان اتارا اور ہزار کوشش کے با وجود ایک بھی بوجھ بیٹے کو اٹھانے نہ دیا۔ پدر و پسر اسٹیشن میں داخل ہوئے۔ حسنِ اتفاق ٹرین رائٹ ٹائم تھی۔ آمد کا الاؤنس سن کے اس کے دل کی ڈھڑکنے تیز ہو گئیں کہ آخر کار اب باپ سے بھی رخصت ہونے کا وقت آن پڑا تھا۔ اسی اثنا میں ٹرین آگئی۔ ابو نے سارا سامان سیٹ تک پہنچا دیا اور بیٹے کو بٹھا کر غایتِ محبت کا اظہار فرمایا۔ اپنی غربت و وسعت کے مطابق جیب سے پیسے نکالے اور بیٹے کو دیتے ہوئے کہا : "فی الحال اتنے ہیں، انھیں رکھ لو۔ کاپی کتاب لے لینا۔ روز دودھ اور جوس پیتے رہنا۔ کھانے پینے میں کوتاہی نا کرنا۔ اگلے مہینے جب تنخواہ ملے گی تو اور بھیج دوں گا۔ تم پریشان بالکل نا ہونا"۔ ابھی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ ہارن بج گیا۔ باپ نے اضطراب میں لختِ جگر کی پیشانی کا بوسہ دیا اور خیال و توجہ کی نصیحت کی۔ اس نے بھی بڑھ کر شفیق باپ کے ہاتھوں کو چوم لیا۔ بس اسی کیفیت میں دونوں جدا ہو گئے اور ٹرین اسے لے کر سیکڑوں کلو میٹر دور کے سفر پر چل پڑی۔

اب وہ بالکل تنہا ہو گیا تھا۔مایوسیوں میں گھِر چکا تھا۔ خیالات مسلسل اسے پریشان کرنے لگے تھے۔ ذہن و دماغ منتشر ہو گئے تھے۔گھر والوں سے دوری کے ساتھ ساتھ اسے اس بات کا غم کھائے جا رہا تھا کہ جہاں جا رہا ہوں وہاں پورا سال ایک پُر مشقت نظام کے تحت گزارنا ہے۔ کھانا، پینا ، سونا، جاگنا ، رہنا ، اٹھنا بیٹھنا ،لکھنا پڑھنا سب ایک قانون کے پیشِ نظر ہوگا۔ اکثر کام کے لیے "لائن لگانا"ہوگا۔ اجنبی لوگ ہوں گے۔ بھوک پیاس کی شدت ہوگی۔ تعلیمی ذمہ داریاں ہوں گی۔ نا جانے کیسی کیسی خار دار وادیوں سے گزر ہوگا اور اس پہ مستزاد یہ کہ اِن دقات و مشقات جھیل کر، اچھے نمبرات سے پاس ہونا ہے تاکہ اپنے امیدواروں کے لیے فرحت و شادمانی کا سبب بن سکوں اور باپ کی محنت کی کمائی کا حق ادا کر سکوں۔ ان خیالات نے اسے پورے سفر بیدار رکھا اور آنکھیں بھی گاہے بگاہے ساتھ اشکوں سے تعاون کرتی رہیں۔ چند گھنٹے بعد وہ اپنے "مدرسہ" پہنچ گیا۔رات ہو گئی تھی اس لیے داخلہ کی کاروائی نہ ہو سکی۔وہ دل شکستہ ہو کر مسجد گیا۔ وضو کیا پھر نماز ادا کی۔ رب کا شکر ادا کیا۔ بعدہ باہر آکر کھانا کھایا۔ گھر فون کرکے سب کو تسلی دی اور پھر دن بھر کا تھکا ہارا کم عمر مسافر شخص واپس آکر ایک کمرے میں اجنبیوں کے ساتھ سو گیا۔ صبح اول فرصت میں کاروائی کرائی۔ روم لکھوایا۔ کتابیں خریدیں۔ اہلِ خانہ کو خبر دی کہ جس مقصد کے تحت آیا تھا اس کا آغازِ سعید ہو چکا یے اور پھر باضابطہ علمِ دینِ مصطفیٰ علیہ السلام کی حصول یابی میں مشغول ہو گیا۔

روز فرصت کے اوقات میں خصوصاً بعدِ عصر گھر فون ملا کر سب سے بات کرتا ۔ لاکھ مشکلات و تکالیف اٹھا کر بھی گھر والوں کو فقط راحت و مسرت ہی کی باتیں بتاتا۔ کہیں سے بھی اپنے کرب و قلق اور ذاتی معاملات و مسائل کا احساس نہیں ہونے دیتا۔ والدین کے تِکھارنے پر بھی وہ کٹ مار کے نکل جاتا لیکن اپنی پریشانی میں اپنوں کو شریک نہیں کرتا۔ البتہ وہ خود گھر، محلہ ، اہل تعلق کی خبر گیری کرتا اور فردا فردا سب کے متعلق دریافت کرتا۔ جن کے حوالے سے کوئی تنگی سنتا تو وہ مسافرِ راہِ علومِ دینیہ نمازوں کے بعد دستِ دعا دراز کرتا اور سادہ دلی سے التجا کرتا کہ مولیٰ تعالیٰ میرے فلاں پر اپنا خاص فضل و کرم فرما۔میرے گھر والوں کو سلامت رکھ۔ مجھے جید عالم و فاضل بنا دے۔ امید پر کھرا اترنے کی توفیق دے اور دین متین کا مجھ سے بھی کچھ کام لے لے اور مجھ جیسے نا تواں ضعیف الایمان بندے کو فتنہ و آزمائش سے بچائے رکھ۔یہ کہتے کہتے ماں باپ کا وہ لاڈلا بیٹا گھر سے سیکڑوں میل دور مسجد میں بیٹھ کر اپنے خالق و مالک کے حضور پھوٹ کر رو پڑتا۔۔۔۔۔۔۔۔جاری

🖊️محمد شاداب قادری

25/04/2024

درود شریف کی کی فضیلت
ایک یہودی کسی مسلمان کا پڑوسی تھا۔ اس یہودی کے ساتھ۔ اس کا مسلمان پڑوسی بہت اچھا سلوک کرتا تھا۔ اس مسلمان کی یہ عادت تھی کہ وہ ہر تھوڑی دیر بعد یہ جملہ کہتاتھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجنے سے ہر دعا قبول ہوتی ہے اور ہر حاجت اور مراد پوری ہوتی ہے۔ جو کوئی بھی اس مسلمان سے ملتا۔ وہ مسلمان اسے اپنا یہ جملہ ضرور سناتا اور جو بھی اس کے ساتھ بیٹھتا اسے بھی ایک مجلس میں کئی بار یہ جملہ مکمل یقین سے سناتا تھا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجنے سے ہر دعا قبول ہوتی ہے اور ہر حاجت اور مراد پوری ہوتی ہے۔ اس مسلمان کا یہ جملہ اس کے دل کا یقین تھا۔
اس نے ایک سازش تیار کی تاکہ اس مسلمان کو ذلیل و رسوا کیا جائے۔ اور ’’درود شریف‘‘ کی تاثیر پر اس کے یقین کو کمزور کیا جائے۔ اور اس سے یہ جملہ کہنے کی عادت چھڑوائی جائے۔ یہودی نے ایک سنار سے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی۔ اور اسے تاکید کی کہ ایسی انگوٹھی بنائے کہ اس جیسی انگوٹھی پہلے کسی کے لئے نہ بنائی ہو۔ سنار نے انگوٹھی بنا دی۔
وہ یہودی انگوٹھی لے کر مسلمان کے پاس آیا۔ حال احوال کے بعد مسلمان نے اپنا وہی جملہ ، اپنی وہی دعوت دہرائی کہ ’’حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجنے سے ہر دعا قبول ہوتی ہے ہر حاجت اور مراد پوری ہوتی ہے‘‘۔ یہودی نے دل میں کہا کہ۔ اب بہت ہو گئی۔ بہت جلد یہ ’’جملہ ‘‘ تم بھول جاؤ گے۔ کچھ دیر بات چیت کے بعد یہودی نے کہا۔ میں سفر پر جا رہا ہوں۔ میری ایک قیمتی انگوٹھی ہے۔ وہ آپ کے پاس امانت رکھ کر جانا چاہتا ہوں۔ واپسی پر آپ سے لے لوں گا۔ مسلمان نے کہا۔
کوئی مسئلہ نہیں آپ بے فکر ہو کر انگوٹھی میرے پاس چھوڑ جائیں۔ یہودی نے وہ انگوٹھی مسلمان کے حوالے کی اور اندازہ لگا لیا کہ مسلمان نے وہ انگوٹھی کہاں رکھی ہے۔ رات کو وہ چھپ کر اس مسلمان کے گھر کودا اور بالآخر انگوٹھی تلاش کر لی اور اپنے ساتھ لے گیا۔ اگلے دن وہ سمندر پر گیا اور ایک کشتی پر بیٹھ کر سمندر کی گہری جگہ پہنچا اور وہاں وہ انگوٹھی پھینک دی۔ اور پھر اپنے سفر پر روانہ ہو گیا۔ اس کا خیال تھا کہ جب واپس آؤں گا۔ اور اس مسلمان سے اپنی انگوٹھی مانگوں گا تو وہ نہیں دے سکے گا۔ تب میں اس پر چوری اور خیانت کا الزام لگا کر خوب چیخوں گا اور ہر جگہ اسے بدنام کروں گا۔ وہ مسلمان جب اپنی اتنی رسوائی دیکھے گا تو اسے خیال ہو گا کہ درود شریف سے کام نہیں بنا اور یوں وہ اپنا جملہ اور اپنی دعوت چھوڑ دے گا ۔ مگر اس نادان کو کیا پتا تھا کہ۔ درود شریف کتنی بڑی نعمت ہے۔ یہودی اگلے دن واپس آ گیا۔
سیدھا اس مسلمان کے پاس گیا اور جاتے ہی اپنی انگوٹھی طلب کی۔ مسلمان نے کہا آپ اطمینان سے بیٹھیں آج درود شریف کی برکت سے میں صبح دعا کر کے شکار کے لئے نکلا تھا تو مجھے ایک بڑی مچھلی ہاتھ لگ گئی۔ آپ سفر سے آئے ہیں وہ مچھلی کھا کر جائیں۔ پھر اس مسلمان نے اپنی بیوی کو مچھلی صاف کرنے اور پکانے پر لگا دیا۔ اچانک اس کی بیوی زور سے چیخی اور اسے بلایا۔ وہ بھاگ کر گیا تو بیوی نے بتایا کہ مچھلی کے پیٹ سے سونے کی انگوٹھی نکلی ہے۔ اور یہ بالکل ویسی ہے جیسی ہم نے اپنے یہودی پڑوسی کی انگوٹھی امانت رکھی تھی۔ وہ مسلمان جلدی سے اس جگہ گیا جہاں اس نے یہودی کی انگوٹھی رکھی تھی۔ انگوٹھی وہاں موجود نہیں تھی۔ وہ مچھلی کے پیٹ والی انگوٹھی یہودی کے پاس لے آیا اور آتے ہی کہا: حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجنے سے ہر دعاء قبول ہوتی ہے اور ہر حاجت پوری ہوتی ہے۔
پھر اس نے وہ انگوٹھی یہودی کے ہاتھ پر رکھ دی۔ یہودی کی آنکھیں حیرت سے باہر، رنگ کالا پیلا اور ہونٹ کانپنے لگے۔ اس نے کہا یہ انگوٹھی کہاں سے ملی؟۔ مسلمان نے کہا۔ جہاں ہم نے رکھی تھی وہاں ابھی دیکھی وہاں تو نہیں ملی۔ مگر جو مچھلی آج شکار کی اس کے پیٹ سے مل گئی ہے۔ معاملہ مجھے بھی سمجھ نہیں آ رہا مگر الحمد للہ آپ کی امانت آپ کو پہنچی اور اللہ تعالیٰ نے مجھے پریشانی سے بچا لیا۔ بے شک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے سے ہر دعاء قبول ہوتی ہے اور ہر حاجت و مراد پوری ہوتی ہے۔ یہودی تھوڑی دیر کانپتا رہا پھر بلک بلک کر رونے لگا۔ مسلمان اسے حیرانی سے دیکھ رہا تھا۔
یہودی نے کہا مجھے غسل کی جگہ دے دیں۔ غسل کر کے آیا اور فوراً کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت پڑھنے لگا اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ واشھد ان محمد عبدہ ورسولہ وہ بھی رو رہا تھا اور اس کا مسلمان دوست بھی۔ اور مسلمان اسے کلمہ پڑھا رہا تھا اور یہودی یہ عظیم کلمہ پڑھ رہا تھا۔ جب اس کی حالت سنبھلی تو مسلمان نے اس سے ’’وجہ‘‘ پوچھی تب اس نومسلم نے سارا قصہ سنا دیا۔ مسلمان کے آنسو بہنے لگے اور وہ بے ساختہ کہنے لگا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درودشریف بھیجنے سے ہر دعاء قبول ہوتی ہے ۔ اور ہر حاجت و مراد پوری ہوتی ہے۔
ایک آخری بات عرض کرتا چلوں کے اگر کبھی کوئی ویڈیو، قول، واقعہ،سچی کہانی یا تحریر وغیرہ اچھی لگا کرئے تو مطالعہ کے بعد مزید تھوڑی سے زحمت فرما کر اپنے دوستوں سے بھی شئیر کر لیا کیجئے، یقین کیجئے کہ اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہو گا لیکن ہو سکتا ہے کہ، اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سے آپ کی شیئر کردا تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز ثابت ہوسکتی ہیں شکریہ.

28/03/2024

▪نفس امارہ پہلا نفس ہے، یہ سب سے زیادہ گناہوں کی طرف مائل کرنے والا اور دنیاوی رغبتوں کی جانب کھینچ لے جانے والا ہے۔ ریاضت اور مجاہدہ سے اس کی برائی کے غلبہ کو کم کر کے جب انسان نفس امارہ کے دائرہ سے نکل آتا ہے تو لوامہ کے مقام پر فائز ہو جاتا ہے۔ اس مقام پر دل میں نور پیدا ہو جاتا ہے۔ جو باطنی طور پر ہدایت کا باعث بنتا ہے.

▪جب نفس لوامہ کا حامل انسان کسی گناہ یا زیادتی کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے تو اس کا نفس اسے فوری طور پر سخت ملامت کرنے لگتا ہے اسی وجہ سے اسے لوامہ یعنی سخت ملامت کرنے والا کہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس نفس کی قسم کھائی ہے :
" وَلَا اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ° "
’’اور میں نفس لوامہ کی قسم کھاتا ہوں۔‘‘
﴿سورة الْقِیٰمَة : ٢﴾

▪تیسرا نفس، نفس ملہمہ ہے۔ جب بندہ ملہمہ کے مقام پر فائز ہوتا ہے تو اس کے داخلی نور کے فیض سے دل اور طبعیت میں نیکی اور تقوی کی رغبت پیدا ہو جاتی ہے۔

▪چوتھا نفس مطمئنہ ہے جو بری خصلتوں سے بالکل پاک اور صاف ہو جاتا ہے اور حالت سکون و اطمینان میں آجاتا ہے۔
یہ نفس بارگاہ الوہیت میں اسقدر محبوب ہے کہ حکم ہوتا ہے :
يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ﴿۲۷﴾ ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ ﴿۲۸﴾
’’اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف لوٹ آ۔‘‘
{سورة الْفَجْر : ۲۷ تا ٢٨}
یہ نفس مطمئنہ اولیاء اللہ کا نفس ہے یہی ولایت صغریٰ کا مقام ہے۔

▪اس کے بعد نفس راضیہ، مرضیہ اور کاملہ یہ سب ہی نفس مطمئنہ کی اعلیٰ حالتیں اور صفتیں ہیں اس مقام پر بندہ ہر حال میں اپنے رب سے راضی رہتا ہے اس کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے۔
" ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً° ﴿۲۸﴾
" تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آکہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کی رضا کا مطلوب بھی (گویا اس کی رضا تیری مطلوب ہو اور تیری رضا اس کی مطلوب) .{سورة الْفَجْر : ۲٨}
" فَادْخُلِي فِي عِبَادِي° " ﴿۲٩﴾
" پس تو میرے (کامل) بندوں میں شامل ہو جا" {سورة الْفَجْر : ۲٩}
" وَادْخُلِي جَنَّتِي° " ﴿٣٠﴾
"اور میری جنتِ (قربت و دیدار) میں داخل ہو جا" {سورة الْفَجْر : ٣٠}
اللهم صل علی محمد و آل محمد و عجل فرجھم
منقول

11/03/2024

❤❤❤Ramzan ul Mubarak❤❤❤ ka mahina ap sabko Mubarak ho❤❤❤❤

Address

Madhupur

Telephone

+918789765201

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Faiyaz ahamad ofcel naat page posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share