31/07/2025
*مالیگاؤں کیس میں بریت – انصاف ہوا یا سچ دفن ہوا*؟
*تجزیہ:شفیع احمد*
جولائی 2025 کو این آئی اے کی خصوصی عدالت نے 2008 مالیگاؤں بم دھماکہ کیس میں تمام سات ملزمان کو بری کر دیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ استغاثہ قابل اعتماد اور ٹھوس ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا، اور ملزمان کے خلاف الزامات ثابت نہ ہو سکے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ثبوت نہیں تھے، یا ثبوت کو بے اثر بنایا گیا؟
اس کیس کی ابتدائی تفتیش مہاراشٹر اے ٹی ایس کے چیف ہیمنت کرکرے نے کی تھی، جو بعد میں ممبئی حملوں میں شہید ہو گئے۔ انہوں نے اس کیس میں 24 آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگز، دو لیپ ٹاپ اور دیگر اہم ڈیجیٹل شواہد عدالت میں پیش کیے تھے۔ ان کی تحقیق کے مطابق ملزمان کا تعلق شدت پسند گروپوں سے تھا اور ان کے پاس موجود ڈیٹا، کال ریکارڈز اور بیانات اس کی تصدیق کرتے تھے۔
اب جب عدالت یہ کہتی ہے کہ کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہیمنت کرکرے کی محنت، ان کے شواہد، اور ان کی شہادت کا کیا مطلب رہ گیا؟ کیا ان تمام شواہد کو نظرانداز کیا گیا یا جان بوجھ کر کمزور کیا گیا؟
اسی کیس کی سرکاری وکیل روہنی سالیان نے 2015 میں ایک انٹرویو میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ مرکزی حکومت کے ایک افسر نے انہیں کہا کہ اس کیس میں زیادہ سرگرمی نہ دکھائی جائے۔ ان کے بقول این آئی اے پر سیاسی دباؤ تھا کہ کیس کو نرم کیا جائے۔ بعد میں انہیں مقدمے سے ہٹا دیا گیا اور ان کے انکشافات کو بھی دبایا گیا۔
جب آج سارے ملزمان بری ہو گئے ہیں تو یہ سوال اور بھی اہم ہو جاتا ہے کہ آیا یہ فیصلہ حقیقت پر مبنی ہے یا سیاسی دباؤ کے تحت آیا؟
اس کیس میں 34 گواہوں نے عدالت میں اپنے بیانات بدل دیے۔ یو اے پی اے قانون کے تحت کیس کی قانونی منظوری میں خامیاں بتائی گئیں۔ سادھوی پرگیہ کی موٹر سائیکل، جس سے دھماکہ ہوا تھا، اس کو بھی ناقابل قبول ثبوت قرار دیا گیا۔
یہ سب صرف قانونی کمزوریاں ہیں یا دانستہ طور پر تفتیش کو اس نہج پر لے جایا گیا کہ سچ سامنے نہ آ سکے؟
متاثرین اور ان کے اہل خانہ کے لیے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اگر سب ملزمان بے قصور ہیں تو پھر ان کے پیاروں کو مارا کس نے؟ وہ معصوم لوگ جو 2008 میں مسجد کے قریب مارے گئے، ان کا خون کس کے سر ہے؟
عدالت نے اپنا کام قانون کے مطابق کیا، لیکن عوام کے دل میں یہ سوال باقی رہے گا کہ کیا انصاف ہوا یا سچ دفن ہوا؟
ہیمنت کرکرے کے سوال، روہنی سالیان کے الزامات، اور متاثرین کا درد آج بھی جواب مانگ رہا ہے۔ قانون نے فیصلہ سنا دیا، مگر ضمیر کی عدالت میں یہ کیس ابھی ختم نہیں ہوا۔