22/07/2025
بارہ زندگیاں، انیس برس قید — ایک اور کیس جس نے عدالتی نظام پر سوال اٹھا دیے
تحریر: شفیع احمد
ممبئی بم دھماکہ کیس میں گیارہ ملزمان کو باعزت بری کیے جانے کے بعد کئی سوالات ایک بار پھر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ ان بارہ افراد (جن میں سے ایک دورانِ حراست فوت ہو چکا ہے) نے اپنی زندگی کے انیس قیمتی سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزار دیے۔ ہائی کورٹ کے مطابق استغاثہ ان پر الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہا۔
یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ماضی میں ایسے درجنوں مقدمات سامنے آ چکے ہیں جہاں مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا، برسوں بعد عدالت نے انہیں بے گناہ قرار دیا۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق ایسے 99 فیصد مقدمات میں آخر کار بے گناہی ثابت ہوتی ہے، لیکن وہ وقت، عزت اور زندگی کبھی واپس نہیں آتی۔
اسی تناظر میں سابق مہاراشٹر آئی جی پولیس ایس ایم مشرف نے اپنی معروف کتاب "Who Killed Karkare?" میں سنگین انکشافات کیے تھے۔ ان کے مطابق کئی معاملات میں انٹیلی جنس بیورو اور پولیس مل کر مخصوص طبقے، خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بناتی ہے تاکہ دہشت گردی کے نام پر ایک خاص بیانیہ تیار کیا جا سکے اور سماج میں نفرت کو فروغ دیا جائے۔
ایس ایم مشرف نے اپنی کتاب میں واضح طور پر لکھا کہ ہیمنت کرکرے، جو مالیگاؤں دھماکوں کی تفتیش میں ہندوتوا شدت پسندوں کی طرف بڑھ رہے تھے، ان کی موت مشتبہ حالات میں ہوئی۔ کتاب میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ ہیمنت کرکرے سچ کے بہت قریب پہنچ چکے تھے، اور اُن کی شہادت کے بعد بہت سے سوالات دبا دیے گئے۔
آج جب عدالت نے ممبئی بم دھماکوں میں پھنسائے گئے نوجوانوں کو باعزت بری کیا ہے، تو اس فیصلے نے کئی زخم دوبارہ تازہ کر دیے ہیں۔ کیا صرف بے گناہی ثابت ہو جانا کافی ہے؟ ان انیس برسوں کا حساب کون دے گا؟ ان والدین، بہن بھائیوں، بیوی بچوں، اور معاشرے کی نگاہوں میں جو اذیت ان افراد نے جھیلی، اس کا انصاف کہاں ہے؟
یہ فیصلہ نہ صرف عدلیہ کے لیے، بلکہ پورے سسٹم کے لیے ایک آئینہ ہے — اور شاید ایک موقع بھی کہ مستقبل میں انصاف صرف فیصلہ دینے سے نہ ہو، بلکہ گرفتاری، تفتیش، اور میڈیا رپورٹنگ کے ہر مرحلے میں انصاف کو مقدم رکھا جائے۔