Aleem Atish Official

Aleem Atish Official Student At Islamic university of Medina Saudia Arabia

12/05/2024

عربی زبان کی افہام وتفہیم کے لئے بھت ہی مفید لائحہ عمل۔

عربی عبارتوں کی افہام وتفہیم کے لئے بعض معتمد عربی ڈکشنریاں

✒️ دكتور فاروق عبد اللہ نراین پوری
(استاد جامعہ اسلامیہ نورباغ، ممبرا، ممبئی )

کسی بھی عربی کتاب میں بہت سارے ایسے الفاظ اور علمی اصطلاحات ہوتے ہیں جہاں تک بہت سارے قارئین کی رسائی نہیں ہوتی، خصوصًا علمائے متقدمین کی کتابوں میں ایسے بے شمار کلمات اور اصطلاحات ہوتے ہیں جن کا صحیح معنی ہمیں معلوم نہیں ہوتا۔ ان مشکل الفاظ کی معرفت اور تفہیم کے لئے ہمیں ڈکشنریوں کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔
اسی طرح جب ہم کوئی علمی مقالہ لکھتے ہیں تو بہت سارے الفاظ کے معانی بیان کرنے کے لئے ڈکشنریوں کا حوالہ دینا پڑتا ہے، لیکن منہجیت کے فقدان کی وجہ سے بسا اوقات بعض مقالےاہل علم کے مابین معیوب بلکہ مضحکہ خیز شمار کئے جاتے ہیں۔ بعض مقالہ نگارشروحاتِ حدیث یا کتبِ تفاسیر یا کتبِ فقہ وغیرہ سے ایسے مشکل الفاظ کا معنی بیان کرتے ہیں جو کہ علمی مقالوں میں ایک معیوب چیز مانی جاتی ہے، الا یہ کہ وہ معنی کتبِ معاجم یا کتبِ غریب میں مقالہ نگار کو کہیں نہ ملے تو ان ثانوی مصادر سے بھی مدد لے سکتا ہے۔ہاں اگر اصل مصادر میں اس کا معنی وضاحت کے ساتھ نہ ہو، اجمال کے ساتھ ہو تو پہلے مصادر اصلیہ سے استفادہ کرنے کے بعد مزید وضاحت کے لئے ان ثانوی مصادر کا حوالہ دے سکتا ہے۔
”ڈکشنری“ کے لئے عربی میں ”معجم“ یا ”قاموس“ کا لفظ مستعمل ہے۔ کسی معجم (ڈکشنری) کا انتخاب کرتے وقت یہ خیال رکھنا چاہئے کہ حتی الامکان وہ متقدم ہو۔ متقدم معاجم میں مطلوبہ معلومات موجود ہونے کے باوجود متأخر معاجم کی طرف رجوع کرنا مناسب نہیں۔ بلکہ بسا اوقات دیکھا جاتا ہے کہ متأخر معجم کے مصنف نے کوئی چیز اپنے متقدمین سے نقل کی ہے اور مقالہ نگار اصل مصدر کا حوالہ نہ دے کر متأخر معاجم کا حوالہ پیش کرتا ہے۔عام طلبہ کے مابین گرچہ یہ چل جاتا ہو لیکن علمی مقالوں میں یہ مناسب نہیں۔
اس لئے کسی معجم سے کسی مشکل کلمہ کا معنی نقل کرتے وقت یہ دھیان رکھنا چاہئے کہ یہ چیز انہوں نے اپنے کسی متقدم سے نقل کی ہے یا نہیں، کیونکہ اکثر متأخرین مصنفین نے اپنے سابقین کی کتابوں پر کام کیا ہے یا سابقین کی کتابیں ان کا اہم مصدر رہی ہیں۔

🔷 بطور مثال ملاحظہ فرمائیں:
(1) ابن فارس فرماتے ہیں کہ مقاییس اللغہ میں ان کا اعتماد علمائے سابقین کی ان پانچ کتابوں پر ہے: كتاب العين للخليل، إصلاح المنطق لابن السكيت، جمهرة اللغة لابن دريد، غريب الحديث اور الغريب المصنف لأبي عبيد۔ [مقاییس اللغہ: مقدمہ/504]
(2) امام صغانی کی ”العباب“ نے گویا سابقہ معاجم کو اپنے اندر سمیٹ لیا ہے، خصوصًا كتاب العين، جمهرة اللغة، الصحاح، تهذيب اللغة، اور مقاييس اللغة وغیرہ کو۔ [المعاجم اللغویہ لمحمد احمد ابی الفرج: ص28]
(3) ابن منظور نے لسان العرب میں پانچ کتابوں پر اعتماد کیا ہے، وہ ہیں: تهذيب اللغة للأزهري، المحكم لابن سيده، الصحاح للجوهري، حواشي ابن بري على الصحاح، والنهاية لابن الأثير۔ فرماتے ہیں: "میری اس کتاب سے نقل کرنے والا یہ سمجھے کہ گویا وہ انہیں پانچ اصولوں (کتابوں ) سے نقل کر رہا ہے"۔ [لسان العرب: 1/8]
(4) فیروز آبادی کی القاموس المحیط کے مراجع میں سے چند اہم مراجع یہ ہیں: العين للخليل، الجمهرة لابن دريد، الصحاح للجوهري، المحكم لابن سيده، تهذيب اللغة للأزهري، العباب للصغاني۔ [المعاجم اللغویہ لمحمد احمد ابی الفرج: ص29]
(5) فیروزآبادی کی القاموس المحیط پر تاج العروس جیسی ضخیم قاموس کی بنیاد ہے۔ زبیدی نے اس میں القاموس المحیط کی شرح کی ہے اور اس پر کافی استدراک کیا ہے۔
لہذا ان جیسی کتابوں سے کوئی چیز نقل کرتے وقت اصل مصادر کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور حتی الامکان اصل مصادر سے ہی اسے نقل کرنا چاہئے۔
کتب المعاجم سے استفادہ سے پہلے ان معاجم میں الفاظ کی ترتیب کا علم ہونا ضروری ہے۔ متأخرین علما کے یہاں حروف معجم (ا ، ب، ت، ث، ج، ح...) پر ترتیب دینا رائج ومعروف ہے لیکن متقدمین علماکے یہاں بعض کتابوں میں یہ ترتیب موجود نہیں ہے۔ بعض نے اسے مخارج الحروف اور مقلوبات الکلمہ پر مرتب کیا ہے تو بعض نے کلمہ کے آخری حرف پر اسے مرتب کیا ہے۔ اس لئے کسی بھی معجم سے استفادہ سے پہلے اس کی ترتیب کا علم ہونا ضروری ہے تاکہ مطلوبہ کلمہ تک بآسانی پہنچ سکے۔ ذیل میں بطور نمونہ چند مشہور ومعتبر معاجم کی ترتیب بیان کی جارہی ہے۔

🔷 مخارج الحروف اور مقلوبات الکلمہ پر مرتب بعض معاجم یہ ہیں:
(1) كتاب العين للخليل بن أحمد الفراهيدي (ت170هـ ، وقيل: 175هــ)
یہ پہلی ڈکشنری ہے جو ہم تک پہنچی ہے۔ اسے خلیل نے مخارج الحروف پر مرتب کیا ہے، حلق کے سب سے آخری حصے سے ادا ہونے والے حروف سے شروع کیا ہے اور ہونٹوں سے ادا ہونے والے حروف پر اسے ختم کیا ہے۔ اس لئے اس کی ترتیب اس طرح ہے: ع ح ھ خ غ ق ک ج ش ض ص س ز ط ت د ظ ذ ث ر ل ن ف ب م و ی ا ۔
ان میں سے ہر حرف کو کتاب کا نام دیا ہے۔ مثلًا پہلے حرف کا نام کتاب العین ہے۔ اسی سے کتاب کا نام بھی کتاب العین سے مشہور ہے۔
کتاب میں وارد الفاظ کو انہوں نے الٹ پلٹ کرکے ایک لفظ سے متعدد الفاظ تیار کیے ہیں اور ان پر بحث کی ہے، جسے قلب کہا جاتا ہے۔ مثلًا لفظ "رب" کو لیں، اسے قلب (الٹ پلٹ) کر دیا جائے تو یہ "بر" بن جاتا ہے۔ لفظ "حبر" کو قلب کیا جائے تو یہ الفاظ بنتے ہیں: ربح، بحر، رحب، حرب، برح۔ وقس علی ہذا۔
اس سے بعض کلمات ایسے تیار ہو سکتے ہیں جن کا کوئی معنی نہیں ہے۔ اسی لئے بعض کلمات کے متعلق خلیل نے کہا ہے کہ عرب نے اسے استعمال نہیں کیا ہے، یہ ایک مہمل لفظ ہے۔ حالانکہ ان کے بعد آنے والے علما نے ان پر استدراک بھی کیا ہےاور بعض جن الفاظ کو خلیل نے مہمل قرار دیا تھا انھیں دلائل کی روشنی میں مستعمل قرار دیا ہے۔
اس طریقے پر علمائے مقتدمین میں سے اور بھی دوسرے علما نے کتابیں لکھی ہیں۔ مثلًا:

(2) البارع في اللغة لأبي علي القالي (ت356هـ)
کتاب العین سے قالی نے کافی استفادہ کیا ہے۔ اور ان پر کافی اضافہ بھی کیا ہے خصوصًا جن الفاظ کو خلیل نے مہمل کہا تھا ان میں سے بہت سارے کلمات کے معانی اور کلام عرب سے ان کے شواہد کو ذکر کیا ہے۔ حالانکہ ابو علی القالی پربھی اس حوالے سے ان کے شاگرد ابو بکر الزبیدی نے استدراک کیا ہے اور ”المستدرک من الزیادۃ فی کتاب البارع علی کتاب العین“ نامی کتاب لکھی ہے۔ کتاب البارع کا اکثر حصہ مفقود ہے، اور صرف ایک ٹکڑا مطبوع ہے۔

(3) تهذيب اللغة لأبي منصور الأزهري (ت370هــ)
یہ ایک ضخیم ڈکشنری ہے۔ اس کا مقدمہ بڑا اہم ہے۔ شرعی نصوص سے شواہد کا خوب اہتمام کیا ہے کیونکہ اس کے مؤلف نا صرف لغوی بلکہ معروف شافعی فقیہ بھی تھے۔ اکثر متأخرین لغویوں کا یہ ایک اہم مصدر رہا ہے۔ مثلًا مختار الصحاح، العباب اور لسان العرب وغیرہ کا۔

(4) المحكم والمحيط الأعظم لابن سيده الأندلسي (ت458هـ)
اس کا مقدمہ بڑا طویل ہے۔ اس میں بھی بہ کثرت شواہد کا استعمال کیا گیا ہے۔ صرفی ونحوی مسائل پر کافی بحث موجود ہے۔ اور یہ بعد کی ڈکشنریوں کا ایک اہم مصدر ہے۔

🔷 ڈکشنریوں میں الفاظ کی ترتیب کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ انہیں حروف معجم (ا ب ت ث ج ح ..الخ) پر مرتب کیا جائے۔ اس نہج پر بے شمار ڈکشنریوں کو مرتب کیا گیا ہے۔ بعض نمونے ملاحظہ فرمائیں:

(1) كتاب الجيم لأبي عمرو الشيباني (ت206هـ)
یہ بہت مختصر لیکن بہترین ڈکشنری ہے، مگر صرف نوادر لغت پر مشتمل ہے۔

(2) جمهرة اللغة لابن دريد (ت321هـ)
یہ حروف معجم پر مرتب ہے لیکن کتاب العین کی طرح مقلوبات الکلمہ کا اس میں استعمال ہے۔ اس کا اکثر حصہ ابن درید نے اپنے حافظہ سے املا کروایا ہے، اس لئے اس میں کچھ جگہوں پر انہیں وہم بھی ہوا ہے۔

(3) مقاييس اللغة لابن فارس (ت395هـ)
اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں ہر مادے کا اصل بیان کیا گیا ہے۔ ہر مادے کے مفردات کو بیان کرنے کے ساتھ ابن فارس ایک یا زائد ایسا مشترک معنی بیان کرتے ہیں جس میں اس کے تمام مفردات شامل ہوں۔ چھ جلدوں میں شیخ المحققین عبد السلام محمد ہارون کی تحقیق سے مطبوع ہے۔

(4) مجمل اللغة لابن فارس (395هـ)
یہ کتاب مختصر ہے، مگر بہت ہی محرر انداز میں لکھی گئی ہے۔ غریب القرآن کی خاص رعایت کی ہے۔
دونوں کتابوں میں ابن فارس نے ترتیب میں ہر حرف میں اس کے بعد والے حرف سے ابتدا کی ہے، اور اسی ترتیب سے آگے بڑھے ہیں۔ مثلًا را میں اس کلمہ کو پہلےذکر کیا ہے جو را اور زا سے شروع ہوتا ہے، پھر جو را اور سین سے شروع ہوتا ہے، یہاں تک کہ را اور ذال کی باری آجائے، وقس علی ہذا۔

(5) أساس البلاغة للزمخشري (ت538هـ)
اس میں لفظ کے حقیقی معنی اور پھر اس کے مجازی استعمال کا ذکر ہے۔ اُدَبا کے لئے بہت مفید ہے۔

🔷 ڈکشنریوں میں الفاظ کی ترتیب کا تیسرا طریقہ یہ ہے کہ کلمہ کے آخری حرف پر انہیں مرتب کیا جائے۔ مثلًا "کتب" کو حرف الباء میں رکھنا، حرف الکاف میں نہیں۔ اس ترتیب کا فائدہ یہ ہے کہ کلمہ کے پہلے حرف میں تصریفات اور قلب کی صورت میں تبدیلی کا ہمیشہ ڈر لاحق ہوتا ہے لیکن آخری حرف میں نہیں۔ اس نہج پر بھی بہت ساری ڈکشنریوں کو مرتب کیا گیا ہے۔ بعض نمونے ملاحظہ فرمائیں۔

(1) الصحاح للجوهري (ت393هـ قريبًا)
یہ ایک ضخیم ڈکشنری ہے جس میں چالیس ہزار لغوی مادے موجود ہیں۔ یہ عمدہ ڈکشنریوں میں سے ایک ہے۔ اس کتاب کو جو مقبولیت حاصل ہوئی دیگر کو کم ہی حاصل ہو سکی۔ اسی لئے علمائے کرام کی ایک بہت بڑی جماعت نے اس پر متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں جن کی تعداد سو سے زائد ہے۔ کسی نے تعلیق چڑھائی تو کسی نے اس پر تکملہ کا کام کیا، کسی نے استدراک کیا تو کسی نے مقارنہ، کسی نے نقد کیا تو کسی نے دفاع، کسی نے اختصار کیا تو کسی نے اسے منظومہ کی شکل دی۔ ان تمام خدمات کی تفصیلات جاننے کے لئے الصحاح پر استاد عباس محمود العقاد کا مقدمہ (ص157-212) پڑھیں جس میں انہوں نے ایک سو نو (109) کتابوں کا ذکر کیا ہے۔

(2) العباب الزاخر واللباب الفاخر للصغاني (ت650هــ)
اس کتاب کے مؤلف کا تعلق قدیم غیر منقسم ہندوستان سے ہے۔ صحیح بخاری کا ان کا نسخہ "نسخہ بغدادیہ" کے نام سے مشہور ہے جس سے حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں کافی استفادہ کیا ہے۔ ان کی سوانح حیات اور علمی خدمات پر خاکسار کا ایک مقالہ بعنوان: ”علامہ صغانی: متحدہ ہندوستان کا ایک راویِ صحیح بخاری“ فری لانسر میں شائع ہو چکا ہے۔ یہ ایک محدث اور فقیہ کے ساتھ بہت بڑے لغوی تھے۔ ان کی یہ کتاب بڑی اہمیت کی حامل ہے لیکن افسوس کہ غیر مکمل ہے۔ امام سیوطی اس کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "أعظمُ كتابٍ أُلِّفَ في اللغة بعد عَصْرِ الصحاح كتابُ المُحْكَم والمحيط الأعظم لأبي الحسن علي بن سِيدَه الأندلسي الضَّرير ثم كتابُ العُباب للرضي الصَّغاني"۔ [المزہر فی علوم اللغہ وانواعہا: 1/76]
(زمانۂ ”الصحاح“ کے بعد لغت میں جو سب سے عظیم کتاب لکھی گئی وہ ابو الحسن علی بن سیدہ الاندلسی الضریر کی کتاب المحکم والمحیط الأعظم ہے ، پھر رضی صغانی کی کتاب العباب ہے۔)

(3) لسان العرب لابن منظور الأفريقي (ت711هــ)
یہ ان کے زمانے تک کی سب سے ضخیم ڈکشنریوں میں سے ایک تھی۔ اس میں اسی ہزار سے زائد لغوی مادے موجود ہیں۔ اس میں نصوص سے شواہد، کلمات پر ضبط، روایات کے مابین ترجیح جیسی سبھی خوبیاں موجود ہیں۔ بہت سارے علما نے اس کی علمی خدمت کی ہے۔

(4) القاموس المحيط للفيروزآبادي (ت817هـ)
یہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے استاد ہیں جن سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کافی استفادہ کیا ہے۔ یہ بھی ایک ضخیم ڈکشنری ہے جس میں ساٹھ ہزار لغوی مادے موجود ہیں۔ انہوں نے پہلے "اللامع المعلم العجاب الجامع بين المحكم والعباب" کے نام سے ایک ڈکشنری تصنیف کرنی شروع کی تھی۔ پانچ جلدوں کے بعد انہیں لگا کہ یہ بہت طویل ہو جائےگی اور سو جلدوں تک پہنچ جائےگی جس کا مراجعہ طلبہ کے لئے مشکل ہوگا، پس سابقہ ارادہ ترک کرکے اس سے مختصر یہ کتاب تصنیف کی جو کہ پھر بھی بہت ضخیم ہے۔
یہ بہت ہی مفید ڈکشنری ہے۔ اسی لئے علمائے کرام کی ایک جماعت نے اس پر مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں، جن میں سے سب سے مشہور زبیدی کی ”تاج العروس“ ہے۔

(5) تاج العروس من جواهر القاموس للزبيدي (ت1205هـ)
یہ القاموس للفیروزآبادی کی شرح ہے، اور اس پر کافی استدراک بھی کیا ہے۔ اس کے مؤلف اگرچہ متأخر الوفات ہیں لیکن ان کی یہ کتاب بہت ہی مفید اور ضخیم ہے، بلکہ یہ اب تک کی سب سے بڑی ڈکشنری ہے۔ اس میں ایک لاکھ بیس ہزار لغوی مادے موجود ہیں جنہیں مؤلف نے چودہ سال سے زائد مدت میں چھ سو مصادر سے جمع کیا ہے۔

🔷 اب تک جن معاجم کی بات کی گئی ان کا شمار "معاجم الالفاظ" میں ہوتا ہے۔ بہت سارے ایسے معاجم بھی ہیں جن کا تعلق معانی کے ساتھ ہے۔ یعنی ایک معنی اور موضوع سے متعلق الفاظ کو ایک جگہ جمع کردیا گیا ہے۔ چاہے ایک ہی موضوع پر مستقل کتاب میں ہو یا ایک کتاب میں کئی ایک موضوعات کو جمع کیا گیا ہو۔بطور نمونہ درج ذیل معاجم ملاحظہ فرمائیں:

(1) خلق الإنسان للأصمعي (ت216هـ)
(2) كتاب الإبل للأصمعي
(3) خلق الفرس لمحمد بن زياد الأعرابي (ت231هـ)
(4) كتاب الخيل لمعمر بن المثنى (ت210هـ)
اس کتاب کے مختصر تعارف پر خاکسار کا ایک مضمون فری لانسر میں شائع ہو چکا ہے۔
(5) كتاب الخيل للأصمعي
(6) كتاب الشاء للأصمعي
(7) كتاب الوحوش للأصمعي
(8) كتاب النخل لأبي حاتم السجستاني (ت255هـ)
(9) كتاب السلاح للأصمعي
(10) كتاب البئر لمحمد بن زياد الأعرابي (ت231هـ)
(11) كتاب الريح لابن خالويه (ت370هـ)

🔷 ان تمام کتب میں ایک ہی قسم کے معنی کو موضوع بحث بنایا گیا ہےاور اس کے متعلق الفاظ پر بحث کی گئی ہے۔ جب کہ بعض ایسی کتابیں بھی ہیں جن میں مختلف موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔ بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں:
(1) الغريب المصنف لأبي عبيد القاسم بن سلام (ت224هـ)
(2) كتاب الألفاظ لابن السكيت (ت244هـ)
(3) فقه اللغة وسر العربية للثعالبي (ت429هـ)
(4) المخصص لابن سيده (ت458هـ)
(5) تهذيب الألفاظ للخطيب التبريزي (ت502هـ)
مقالہ نگاروں اور مصنفین کو چاہیے کہ مشکل الفاظ کی شرح کے لئے ان مذکورہ معروف ومعتبر متقدم معاجم کی طرف رجوع کریں۔ ان معاجم میں مطلوبہ لفظ موجود ہونے کے باوجود معاصرین کی ڈکشنریوں کی طرف رجوع کرنا صحیح نہیں۔ مثلًا بعض باحثین مذکورہ متقدم ڈکشنریوں کی طرف رجوع نہ کرکے ان درج ذیل ڈکشنریوں کی طرف رجوع کرتے ہیں:
المعجم الكبير، المعجم الوسيط, المعجم الوجيز (انہیں مجمع اللغہ العربیہ مصر نے شائع کیا ہے)، معجم الفرائد للدكتور إبراهيم السامرائي، القاموس الجديد للجنة من اللغويين في تونس, المنجد للويس معلوف، البستان لعبد الله الميخائيل البستاني، الرائد لجبران مسعود, الشامل لمحمد سعيد إسبر وبلال جنيدي, المعجم العربي الحديث لاروس للدكتور خليل البحر وغیرہ ۔
ان کا یہ عمل قابل تعریف نہیں۔
ہاں اگر متقدم ڈکشنریوں میں مطلوبہ معلومات نہ ملیں تو ان جدید ڈکشنریوں کی طرف رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
ان معاصر ڈکشنریوں میں سب سے معتمد ”المعجم الوسیط“ ہے۔ شیخ محمد عزیر شمس حفظہ اللہ اس کے متعلق فرماتے ہیں: "جدید ڈکشنریوں میں یہ سب سے زیادہ معتمد ہے۔ اسے ماہرین لغت کی ایک ٹیم نے ترتیب دیا ہے۔ اس لئے قابل اعتماد ہے۔ اس کا حال ”المنجد“ جیسا نہیں"۔

🔵 اب تک عام مشکل الفاظ کی بات چل رہی تھی۔ لیکن اگر ان کا تعلق احادیث نبویہ سے ہے تو ان کے لئے غریب الحدیث پر لکھی گئی کتابوں کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ مثلًا:

(1) غريب الحديث لأبي عبيد القاسم بن سلام (ت224هـ)
(2) غريب الحديث لابن قتيبة الدينوري (ت276هـ)
(3) غريب الحديث لإبراهيم بن إسحاق الحربي (ت285هـ)
(4) غريب الحديث للخطابي (ت388هـ)
(5) تفسير غريب ما في الصحيحين للحميدي (ت488هـ)
(6) الفائق في غريب الحديث للزمخشري (ت538هـ)
(7) مشارق الأنوار على صحاح الآثار للقاضي عياض (ت544هـ)
اس میں صحیحین اور موطا امام مالک کی حدیثوں کے غریب الفاظ پر ہی صرف بحث کی گئی ہے۔ اس میں اعلام، انساب اور جگہوں کا بھی ذکر ہے۔ مختلف الفاظ کی روایت میں روات کے اختلافات کا ذکر اور ان کے اوہام کا بھی بیان ہے۔ اس کی ترتیب حروف المعجم پر ہے ، لیکن ہمارے یہاں کے حروف معجم کی معروف ترتیب پر نہیں بلکہ مغاربہ کی ترتیب پر ہے، جو کہ اس طرح ہے: ا ب ت ث ج ح خ د ذ ر ز ط ظ ک ل م ن ص ض ع غ ف ق س ش ھ و ی ۔
اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ امام کتانی کے اس قول سے لگایا جا سکتا ہے: "وهو كتاب لو وزن بالجوهر أو كتب بالذهب كان قليلًا فيه"۔ [الرسالہ المستطرفہ: ص157]
(اگر اس کتاب کو جواہرات سے تولا جاتا یا سونے سے لکھا جاتا پھر بھی کم تھا۔)
(8) غريب الحديث لابن الجوزي (ت597هـ)
(9) النهاية في غريب الحديث والأثر لابن الأثير (ت606هـ)
اس موضوع کی یہ سب سے بہترین اورجامع کتاب ہے۔
(10) مجمع بحار الأنوار في غرائب التنزيل ولطائف الأخبار لمحمد بن طاهر الفتني الغجراتي (ت986هـ)
اس میں غریب القرآن اور غریب الحدیث دونوں ہیں۔ علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ کی تحفۃ الاحوذی کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کتاب ان کے اہم مصادر میں سے ہے۔ اس کتاب سےانھوں نے تحفہ الاحوذی میں کافی استفادہ کیا ہے۔

🔵 جہاں تک مشکل اور غیر معروف اصطلاحات کا معاملہ ہے تو اس کے لئے متعلقہ فن کی امہات کتب کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور اس کا معنی ومفہوم بیان کرنا چاہیے۔ نیز اصطلاحات پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان کی طرف بھی رجوع کرنا چاہیے۔ اگر ان اصطلاحات کا تعلق فقہ سے ہے تو درج ذیل کتابوں کی طرف رجوع کرنا مفید ہوگا:

♦️ حنفی مذہب کے لئے:
(1) طلبة الطلبة لنجم الدين النسفي (ت537هـ)
(2) المُغرِب في ترتيب المُعْرِب للمطرزي (ت610هـ)
(3) أنيس الفقهاء لقاسم القونوي (ت978هـ)

♦️ شافعی مذہب کے لئے:
(4) الزاهر في غريب ألفاظ الشافعي لأبي منصور الأزهري (ت370هـ)
شروع میں بیان کیا جا چکا ہے کہ یہ بہت بڑے لغوی ہونے کے ساتھ ساتھ علمائے شوافع کے بہت بڑے عالم تھے۔ان کی کتاب تہذیب اللغہ اور الزاہر اس کی بہترین دلیل ہے۔
(5) حلية الفقهاء لابن فارس (ت395هـ)
(6) تهذيب الأسماء واللغات للنووي (ت676هـ)
یہ بہت ہی مفید کتاب ہے۔ اس کا پہلا حصہ شخصیات کے تعارف پر اور دوسرا حصہ مشکل کلمات اور اصطلاحات پر مشتمل ہے۔ اسی کتاب کی وجہ سے امام نووی کو امام جرح وتعدیل بھی کہا جاتا ہے۔
(7) تحرير ألفاظ التنبيه للنووي
(8) النظم المستعذب في شرح غريب المهذب للركبي (ت633هـ)
(9) المصباح المنير في غريب الشرح الكبير للفيومي (ت770هـ)

♦️ مالکی مذہب کے لئے:
(10) شرح غريب ألفاظ المدونة للجبي (توفي في القرن الرابع أو الخامس)
(11) الحدود لابن عرفة المالكي (تت803هـ)

♦️ اور حنبلی مذہب کے لئے:
(12) المطلع على أبواب المقنع للبعلي (ت709هـ)

🔵 اور اگر ان مصطلحات کا تعلق شریعت کے دوسرے فنون مثلًا عقیدہ وغیرہ سے ہے تو ان کتابوں کی طرف رجوع کرنا مفید ہوگا:
(1) غریب الحدیث لابن قتیبہ کا مقدمہ
(2) الزينة في الكلمات الإسلامية العربية لأحمد بن حمدان الرازي (ت322هـ)
(3) الحدود الأنيقة والتعريفات الدقيقة لزكريا الأنصاري الشافعي (ت926هـ)

🔵 ساتھ ہی ان کتابوں کی طرف رجوع کرنا بھی مفید ہوگا جو کہ تعریفات اور مصطلحات کے پر ہی لکھی گئی ہیں، مثلًا:
(1) التعريفات للجرجاني (816هـ)
(2) التوقيف على مهمات التعاريف للمناوي (ت1031هـ)
(3) الكليات (معجم في الاصطلاحات والفروق اللغوية) لأبي البقاء الكفوي (ت1094هـ)
(4) كشاف اصطلاحات الفنون للتهانوي (ت1158هـ)

♦️ ہر خاص کلمہ یا اصطلاح کے لئے متخصص اور مناسب مصدر کی طرف رجوع کرنا اور اس کا حوالہ دینا علمی مقالوں میں جان پھونک دیتا ہے، اور یہ اس مقالے کی ایک بڑی خوبی مانی جاتی ہے۔ اور اس کی رعایت نہ کرنا اہل علم کے نزدیک خلل تصور کیا جاتا ہے، بلکہ معیوب مانا جاتا ہے اور ایسے مقالوں کو وہ خاص اہمیت نہیں دیتے۔ اس لئے ان امور کی طرف مقالہ نگاروں اور مصنفین کو خصوصی توجہ دینا چاہیے۔ اللہ ہمیں نفع بخش علم کی نشر واشاعت کی توفیق عطا فرمائے۔

14/02/2024

پردھان منتری جی عربی زبان میں انڈیا اور امارات کی دوستی کو بیان کرتے ہوئے۔

علامہ احسان الٰہی ظہیر کا جذبۂ حق، ان کے سب سے قریبی دوست اور ساتھی کی زبانی۔
02/02/2024

علامہ احسان الٰہی ظہیر کا جذبۂ حق، ان کے سب سے قریبی دوست اور ساتھی کی زبانی۔

جو انسان خیر وبھلائ کا ارادہ کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ (جو کہ مسبب الاسباب ہے) اس کے لئے خود ہی اسباب وسائل فراہم کر...
31/01/2024

جو انسان خیر وبھلائ کا ارادہ کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ (جو کہ مسبب الاسباب ہے) اس کے لئے خود ہی اسباب وسائل فراہم کرتا ہے اور خیر کے سارے دروازے اس کے لئے کھول دیتا ہے۔

سعودی عرب‌کے متعلق خبریں بنانے کی مشین خاص لندن اور نیو یورک میں نصب ہے ۔سعودی عرب سے بھاگے غدار شیعہ اسےمشن کے طور چلات...
20/12/2023

سعودی عرب‌کے متعلق خبریں بنانے کی مشین خاص لندن اور نیو یورک میں نصب ہے ۔سعودی
عرب سے بھاگے غدار شیعہ اسے
مشن کے طور چلاتے ہیں ۔اس کی
فیڈنگ سعودیہ میں بسے شیعہ ،
خمینیت ،صہیونیت اور صلیبیت سے ہوتی ہے ۔
انھیں دونوں آفسوں سے سعودی عرب کے متعلق جھوٹی خبروں کی اشاعت ساری دنیا میں ہوتی ہے۔اور ٪ 9 .99 خبریں جھوٹی ہوتی
ہیں ۔مگر دنیا کے سارے تحریکی
خارجیوں رافضیوں کے نزدیک وحی کے درجے میں ہوتی‌ہیں ۔مسلمانوں کا اس وقت عجیب المیہ ہے "شعوری مسلمان"اس وقت سب سے زیادہ بے شعوری
کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔دشمنوں کا زھر پیتے ہیں اور اسے قرآنی
شفاء کہ کر اچھلتے ‌ہیں ۔ان کی فکر وفہم کے پیمانے میں دنیا کی ساری الا بلا بھر گیی ہے ۔اس پر مصیبت یہ کہ یہ اتنا سکہ بند ہوگیے ہیں کہ دشمنوں کی باتوں،
گمراہی کی ساری علامتوں کو اپنایے دین وامت کا ٹھیکیدار
بننے اور جنتی ہونے کا وہم پالے ہویے ہیں ۔

عبد المعيد مدني

https://www.facebook.com/100007862800411/posts/2883218525283546/?mibextid=cr9u03

26/10/2023

قضیہ فلسطین پر بھترین تبصرہ۔

جس کسی نے بھی بغیر جد وجہد اور انتھک کوششوں کے کامیابی کا منہ دیکھنا چاہا تو اس نے اپنی عمر ناممکن چیز کے حصول میں ضائع ...
05/10/2023

جس کسی نے بھی بغیر جد وجہد اور انتھک کوششوں کے کامیابی کا منہ دیکھنا چاہا تو اس نے اپنی عمر ناممکن چیز کے حصول میں ضائع کردی۔
امام شافعی۔

03/10/2023

ایک ایسی حدیث جسے چار صحابہ کرام ایک دوسرے سے روایت کرتے ہیں

عموما کسی حدیث کی سند میں ایک صحابی ہوتے ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، بسا اوقات دو صحابی ہوتے ہیں جن میں سے ایک صحابی دوسرے صحابی سے، اور وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، یعنی ایک ہی سند میں دو صحابی ہوتے ہیں۔
لیکن ایک ہی سند میں چار صحابہ کرام ہوں، اس کی مثال ش*ذ ونادر ہی ملتی ہے۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح (حدیث نمبر 7163) میں ایک ایسی حدیث روایت کی ہے جس کی سند میں صحابہ کرام کی تعداد چار ہے۔

نیچے سند ومتن کے ساتھ حدیث حاضر ہے:
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ، ابْنُ أُخْتِ نَمِرٍ، أَنَّ حُوَيْطِبَ بْنَ عَبْدِ العُزَّى، أَخْبَرَهُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ السَّعْدِيِّ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ قَدِمَ عَلَى عُمَرَ فِي خِلاَفَتِهِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: أَلَمْ أُحَدَّثْ أَنَّكَ تَلِيَ مِنْ أَعْمَالِ النَّاسِ أَعْمَالًا، فَإِذَا أُعْطِيتَ العُمَالَةَ كَرِهْتَهَا، فَقُلْتُ: بَلَى، فَقَالَ عُمَرُ: فَمَا تُرِيدُ إِلَى ذَلِكَ، قُلْتُ: إِنَّ لِي أَفْرَاسًا وَأَعْبُدًا وَأَنَا بِخَيْرٍ، وَأُرِيدُ أَنْ تَكُونَ عُمَالَتِي صَدَقَةً عَلَى المُسْلِمِينَ، قَالَ عُمَرُ: لاَ تَفْعَلْ، فَإِنِّي كُنْتُ أَرَدْتُ الَّذِي أَرَدْتَ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِينِي العَطَاءَ، فَأَقُولُ: أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي، حَتَّى أَعْطَانِي مَرَّةً مَالًا، فَقُلْتُ: أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خُذْهُ، فَتَمَوَّلْهُ، وَتَصَدَّقْ بِهِ، فَمَا جَاءَكَ مِنْ هَذَا المَالِ وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ وَلاَ سَائِلٍ فَخُذْهُ، وَإِلَّا فَلاَ تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ».

اس کی سند میں چار صحابہ کرام ہیں، جن کے نام یہ ہیں:
السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ، ابْنُ أُخْتِ نَمِرٍ،
وحُوَيْطِبُ بْنُ عَبْدِ العُزَّى،
وعَبْدُ اللَّهِ بْنُ السَّعْدِيِّ،
وعمر بن الخطاب رضي الله عنهم۔

اس حدیث کے متن میں ہمارے لیے یہ درس ہے کہ اگر کہیں کوئی مال تقسیم ہو رہا ہو، اور آپ کو بھی دیا جا رہا ہو، آپ نے اس کے لیے کوئی محنت، خواہش نہیں کی ہے، درخواست نہیں دی ہے، اس کے پیچھے نہیں بھاگ رہے، تو گرچہ اس مال سے آپ بے نیاز ہیں لینے سے انکار نہ کریں۔ لے لیں، اور مالک بننے کے بعد کسی دوسرے محتاج کو اپنے ہاتھ سے دے دیں۔

نیز کسی کو ایسا مال لیتے ہوئے دیکھیں تو ملامت نہ کریں اگر ظن غالب ہو کہ وہ کسی دوسرے محتاج کی مدد کر سکتا ہے۔

✍ فاروق عبد الله نراین پوری
استاد جامعہ اسلامیہ نورباغ ممبرا ممبئی

 ِن_جنازة_شيخ_الإسلام_ابن_تيمية_رحمه_الله ⚫  #مات بسجن قلعة دمشق  سنة 728 هجريا⚫  #ختم القرآن في سجنه ٨٠ مرة هو وأخوه، و...
03/10/2023

ِن_جنازة_شيخ_الإسلام_ابن_تيمية_رحمه_الله

⚫ #مات بسجن قلعة دمشق سنة 728 هجريا

⚫ #ختم القرآن في سجنه ٨٠ مرة هو وأخوه، وشرعا في الحادية والثمانين، فقرأ إلى "إن المتقين في جنات ونهر" #ومات بعدها..

⚫ #لما علم الناس بوفاته أتوا من كل مكان حتى امتلأت القلعة المسجون فيها عن آخرها..

⚫ #خرجت جنازته للصلاة عليها ودفنها قبل الظهر، ولم يُدفن إلا بعد العصر، من شدة الزحام على جنازته..

⚫ #ذهبت نعالُ الناس وعمائمهم، لا يلتفتون إليها من شغلهم بالنظر إلى الجنازة..

⚫ #لم تشهد دمشق جنازة كهذه قبل ذلك، حتى قُدّر عددُ الرجال ب ستين ألفا إلى مائتي ألف، والنساء ب خمسة عشر ألف امرأة، غير اللاتي كُنّ على الأسطحة وغيرها..

⚫ #لم يُطبخ في أسواق دمشق في هذا اليوم، ولم تُفتح كثير من الدكاكين ..

⚫ #كثير من الناس نوى الصوم في هذا اليوم؛ لأنهم لا يتفرغون في هذا اليوم لأكل ولا شرب..

⚫ #لم يتخلف عن جنازته أحد من أهل العلم إلا ثلاثة ، كانوا قد اشتهروا بمعاداته، فخافوا من الناس أن يقتلوهم..

⚫ #كان في الجنازة عدد كثير لايحصيه إلا الله، حتى صرخ صارخ:
" هكذا تكون جنائز أئمة السنة" ،
فتباكى الناس وضجوا عند سماع هذا الصارخ..

⚫ #كل هذا مع أنه كان محبوسا قبل موته من قبل السلطان، وكثير من الفقهاء كانوا ينفرون الناس منه،
ومع ذلك كانت هذه جنازته فقط دون سرد علمه ومناقبه رحمه الله رحمة واسعة.

📙|[من كتاب البداية والنهاية ابن كثير /الجزء الرابع عشر.(ص.698/767)]|.

اللهم اغفر له وارحمه، وارفع درجته في عليين، واجزه عنا خير ماجزيت عالما عن أمته🤲🏻

مسجد نبوی کا سب سے پہلا پتھر کا منبر۔
02/10/2023

مسجد نبوی کا سب سے پہلا پتھر کا منبر۔

Address

Siddhartha Nagar
Naugarh

Telephone

+917266035355

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Aleem Atish Official posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Aleem Atish Official:

Share