Jahazi Media

Jahazi Media جہازی میڈیا زوال پذیر امت مسلمہ کے عروج کے لیے فکری و عملی طور پر عہد بند ہے. نشر میں تعاون کریں.

13/07/2025
12/07/2025

مدارس و مساجد کو کیا قانونی خطرات لاحق ہیں؟
سنیے سپریم کورٹ آف انڈیا جناب عاقب بیگ صاحب کی زبانی

28/06/2025

کانفرنس: تحفظ ایمان سے خاندانی نظام کے استحکام تک میں شریک طالبات کا امتحان اور اس کا نتیجہ
اسپیکر: مولانا تحسین قاسمی جہازی
بموقع: تحفظ ایمان سے خاندانی نظام کے استحکام تک
بتاریخ: 15؍جون 2025۔
بمقام: جامعۃ الہدیٰ جہاز قطعہ، گڈا، جھارکھنڈ

28/06/2025

جامعۃ الہدیٰ جہاز قطعہ کا وژن
اسپیکر: مولانا تحسین قاسمی جہازی
بموقع: تحفظ ایمان سے خاندانی نظام کے استحکام تک
بتاریخ: 15؍جون 2025۔
بمقام: جامعۃ الہدیٰ جہاز قطعہ، گڈا، جھارکھنڈ

27/06/2025

طلاق لینا سیکھیں
تین طلاق سے پہلے 18 مصالحتی پروسیس اور حلالہ سے پہلے 36 مصالحتی پروسیس، طلاق اور حلالہ کی حقیقت ، ان پر اعتراضات کے جوابات وغیرہ
اسپیکر: مولانا محمد یاسین جہازی (جہاز قطعہ، گڈا، جھارکھنڈ)
بموقع: تحفظ ایمان سے خاندانی نظام کے استحکام تک
بتاریخ: 15؍جون 2025۔
بمقام: جامعۃ الہدیٰ جہاز قطعہ، گڈا، جھارکھنڈ

27/06/2025

نکاح کا درست اور اسلامی طریقہ
نکاح کی غیر اسلامی رسمیں
اسپیکر: مفتی محمد نظام الدین قاسمی مہتمم جامعۃ الہدیٰ جہاز قطعہ، گڈا، جھارکھنڈ،
بموقع: تحفظ ایمان سے خاندانی نظام کے استحکام تک
بتاریخ: 15؍جون 2025۔
بمقام: جامعۃ الہدیٰ جہاز قطعہ، گڈا، جھارکھنڈ

26/06/2025

اپنے ایمان کا محاسبہ کیجیے
ارتداد اور اس کے نقصانات
بموقع: کانفرنس: تحفظ ایمان سے خاندانی نظام کے استحکام تک
تاریخ: 15؍جون 2025 ء
بمقام: جامعۃ الہدیٰ جہاز قطعہ گڈا ، جھارکھنڈ
اسپیکر: مفتی محمد زاہد امان قاسمی مہتمم جامعہ خدیجۃ الکبریٰ بسنت رائے ، گڈا، جھارکھنڈ

منگا چک، بھاگلپور میں جنازے کی نماز سے پہلے اہم پیغامات21 جون 2025 کو بھاگلپور ضلع کے گاؤں منگا چک میں ایک جنازے کی نماز...
21/06/2025

منگا چک، بھاگلپور میں جنازے کی نماز سے پہلے اہم پیغامات

21 جون 2025 کو بھاگلپور ضلع کے گاؤں منگا چک میں ایک جنازے کی نماز سے پہلے، جھارکھنڈ کے جامعۃ الہدیٰ جہاز قطعہ گڈا کے مہتمم مفتی محمد نظام الدین قاسمی نے نمازیوں سے خطاب کیا۔ اس موقع پر انہوں نے موت کے بعد انجام دی جانے والی غیر شرعی رسومات پر سخت تنقید کی اور انہیں ترک کرنے کی اپیل کی۔ اس کے علاوہ، مولانا محمد یاسین جہاز قاسمی نے وقف بل کے حوالے سے حکومت کی بدنیتی کو اجاگر کیا اور اس کے خلاف پٹنہ میں ہونے والی ایک اہم کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی۔ تقریب میں تحفظِ مدارس کے لیے کاغذات کی درستگی جیسے اہم موضوعات پر بھی گفتگو ہوئی۔

غیر شرعی رسومات پر تنقید
مفتی محمد نظام الدین قاسمی نے اپنے خطاب میں کہا کہ موت ایک غمگین اور تعزیت کا موقع ہے، لیکن بدقسمتی سے ہم نے اسے تفریح طبع کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ انہوں نے وفات کے بعد انجام دی جانے والی غیر شرعی رسومات بالخصوص بھوج بھات کا تفصیل سے ذکر کیا اور انہیں اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیا۔ انہوں نے حاضرین سے اپیل کی کہ وہ ان رسومات کو مکمل طور پر ترک کریں اور اسلامی اصولوں کے مطابق عمل کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی رسومات نہ صرف شرعی نقطہ نظر سے غلط ہیں بلکہ یہ معاشرے میں غلط روایات کو بھی فروغ دیتی ہیں۔

وقف بل اور اس کے مضمرات
مولانا محمد یاسین جہازی قاسمی نے اپنے خطاب میں وقف بل کے حوالے سے حکومت کی بدنیتی پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ یہ بل نہ صرف وقف املاک کے لیے خطرہ ہے بلکہ یہ دستور کے تحفظ کے لیے بھی ایک سنگین چیلنج ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ وقف کا تحفظ صرف تنظیموں کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہر مسلمان کا دینی و ملی فریضہ ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر یہ بل منظور ہوا تو نہ صرف بڑی وقف جائیدادوں پر اثر پڑے گا بلکہ منگا چک جیسے چھوٹے قصبوں کی جنازہ گاہ اور قبرستان بھی خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کا یہ "جابرانہ اقدام" نہ رکا، تو ممکن ہے کہ ہم اپنے قبرستانوں میں اپنے پیاروں کو دفن بھی نہ کر سکیں۔

مولانا یاسین نے حاضرین سے 29 جون 2025 کو پٹنہ کے گاندھی میدان میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں بڑی تعداد میں شرکت کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس کا مقصد سپریم کورٹ کے سامنے مسلمانوں کی رائے کو پیش کرنا ہے تاکہ وقف املاک کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے اسے ہر فرد کی ذمہ داری قرار دیا کہ وہ اس اہم مقصد کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔

تحفظِ مدارس کے لیے اقدامات
جنازے کے بعد تدفین کے مرحلے میں علاقے کی اہم شخصیات اور ذمہ دارانِ مدارس نے شرکت کی۔ اس موقع پر تحفظِ مدارس کے لیے اہم اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ خاص طور پر، مدارس کے کاغذات کی درستگی اور انہیں اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ ذمہ داران کو ہدایت کی گئی کہ وہ ترجیحی بنیادوں پر اپنے اداروں کے کاغذات درست کریں تاکہ قانونی طور پر کسی قسم کی مشکلات سے بچا جا سکے۔ یہ اقدامات مدارس کے تحفظ اور ان کے مستقل استحکام کے لیے ناگزیر قرار دیے گئے۔
نتیجہ
منگا چک کے جنازے کے موقع نے نہ صرف دینی بیداری کا پیغام دیا بلکہ سماجی اور قانونی مسائل پر بھی توجہ مرکوز کی۔ مفتی محمد نظام الدین قاسمی اور مولانا محمد یاسین جہاز قاسمی کے خطابات نے حاضرین کو غیر شرعی رسومات ترک کرنے، وقف املاک کے تحفظ کے لیے آواز اٹھانے، اور مدارس کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کرنے کی ترغیب دی۔ 29 جون 2025 کو پٹنہ میں ہونے والی کانفرنس کو ایک اہم پلیٹ فارم کے طور پر اجاگر کیا گیا، جو نہ صرف وقف کے تحفظ بلکہ دستور کی حفاظت کے لیے بھی ایک سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔ اس تقریب نے مقامی سطح پر ایک بڑے قومی ایشو کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

21 جون 2025 کو بھاگلپور ضلع کے گاؤں منگا چک میں ایک جنازے کی نماز سے پہلے، جھارکھنڈ کے جامعۃ

21/06/2025

عصری تعلیمی مشن کے لیے دارالعلوم خورد گڈا جھارکھنڈ کی نئی خریدی زمین پر انقلابی عمل کے آغاز کا ایک یادگار منظر
باقی تفصیلات وڈیو میں ملاحظہ فرمائیں
21 جون 2025 ء سہ پہر 3 بجے

اس تحریر کو پڑھنے کے بعد میرے پیرو تلے زمین نکل گئی. اور ذہن میں یہ سوال گردش کرنے لگا کہ حالیہ امارت شرعیہ بہار کا اختل...
04/06/2025

اس تحریر کو پڑھنے کے بعد میرے پیرو تلے زمین نکل گئی. اور ذہن میں یہ سوال گردش کرنے لگا کہ حالیہ امارت شرعیہ بہار کا اختلاف، اسی طرح پاکستان میں تبلیغی جماعت کی رسہ کشی کہیں اسی سازش کا تو سلسلہ نہیں ہے.
اگر ہے تو اس کے آلہ کار بننے والے کو ہدایت نصیب فرمائے آمین

عیسائیت کی خفیہ سرنگ
محمد آصف دہلوی

دورانِ سفر ایک صاحب سے میں نے دریافت کیا، کیا آپ نے سلمان رشدی کی لکھنی ہوئی کتاب شیطانی آیات پڑھی ہے ؟ اس میں کیا لکھا ہے جو اس قدر مخالفت ہو رہی ہے ؟

انھوں نے کہا " پڑھی تو میں نے بھی نہیں مگر سنا ہے کہ اس کتاب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت تو ہین (خاکم بدہن) کی گئی ہے۔ اسی وجہ سے مسلمانوں کی طرف سے اس قدر احتجاج کیا جا رہا ہے ۔

دوران گفتگو انھوں نے کہا کہ مجھے ایک پرانا قصہ یاد آ گیا۔ وہ قصہ یوں ہے :

" میرے ایک دوست جو علی گڑھ میں نواب چھتاری کے ہاں کسی اونچی ملازمت پر تعینات تھے اور نواب صاحب ان سے کافی بے تکلف تھے ۔ انھوں نے یہ واقعہ سنایا کہ نواب صاحب ہندستان کی تقسیم سے پہلے انگریزوں کے بڑے بہی خواہ تھے ۔ مسلم لیگ اور کانگریس پارٹی سے بالکل لا تعلق تھے اور سیاست میں انگریزوں کے ہر طرح مدد گار تھے اسی لئے انگریزی حکومت نے ان کو یوپی کا گورنر بنا دیا تھا۔
ایک بار برطانوی حکومت نے سب ہندستانی صوبوں کے گورنروں کو مشورے کے لئے انگلستان بلایا تو نواب صاحب بھی بحیثیت گورنر انگلستان گئے
یہاں علی گڑھ کا جو بھی کلکٹر نیا آتا تھا ان سے برابر ملتا رہتا تھا اور کبھی کبھی آگرہ کا کمشنر بھی۔ ان سب افسروں کے نواب صاحب سے عمدہ تعلقات تھے۔
جب نواب صاحب لندن پہنچے تو جو کلکٹر اور کمشنر ان کے پرانے ملاقاتی تھے اور ریٹائر ہو کر انگلستان چلے آئے تھے جب انھیں نواب صاحب کے آنے کی اطلاع ملی تو وہ ملنے آئے ان میں سے ایک کلکٹر جو نواب صاحب سے بہت مانوس تھا اس نے کہا :-

نواب صاحب ! آپ یہاں تشریف لائے ہیں تو آئیے ، میں آپ کو یہاں کے عجائب خانے دکھا دوں جن میں ہزاروں برس پرانی ایسی ایسی چیزیں ہیں جو آپ نے کبھی دیکھی اور سنی نہ ہوں گی۔"

نواب صاحب نے کہا : - عجائب خانے تو میں نے سب دیکھ لئے حکومت نے دکھا دیئے ہیں اور یہاں جو بھی آتا ہے دیکھ کر ہی جاتا ہے البتہ اگر تم کچھ دکھانا ہی چاہتے ہو تو ایسی چیز دکھاؤ جو یہاں سے کوئی اور دیکھ کر نہ گیا ہو۔

انگریز کلکٹر نے کہا نواب صاحب ! ایسی کون سی چیز ہو سکتی ہے جسے کوئی اور دیکھ کر نہ گیا ہو؟ میں سوچ کر پھر بتاؤں گا ۔"

دو روز بعد وہ آیا اور اس نے کہا کہ نواب صاحب میں نے سوچ لیا اور معلومات بھی حاصل کر لی ہیں اب آپ کو ایسی چیز دکھاؤں گا جو اور کوئی یہاں سے دیکھ کر نہیں گیا ۔ اس پر نواب صاحب خوش ہو گئے اور کہا کہ " بس ٹھیک ہے ، کلکٹر نے نواب صاحب سے پاسپورٹ مانگا اور کہا کہ وہ جگہ دیکھنے کے لئے حکومت سے تحریری اجازت لینی ہوتی ہے۔ اس لئے پاسپورٹ کی بھی ضرورت ہوگی ۔ دو ایک روز بعد وہ نواب صاحب کا اور اپنا تحریری اجازت نامہ لے کر آیا اور کہا کہ کل صبح آپ میرے ساتھ میری موٹر میں چلیں گے سرکاری موٹر نہیں لے جائے گی۔
نواب صاحب اس پر راضی ہو گئے ۔ اگلے روز نواب صاحب اس کے ساتھ روانہ ہوئے شہر سے باہر نکل کر ایک طرف جنگل شروع ہو گیا۔ اس میں ایک چھوٹی سی سڑک تھی جس پر جوں جوں چلتے گئے جنگل گھنا ہوتا گیا۔ راستے میں کوئی پیدل چلتا نظر آیا نہ کسی قسم کی سواری پر نظر پڑی۔ کسی طرح کی آمد و رفت کا سلسلہ نہیں تھا۔ چلتے چلتے کوئی آدھ گھنٹہ گزرا تو نواب صاحب نے دریافت کیا۔ کیا دکھانے لے جا رہے ہو ؟ کوئی جنگلی جانور ہے یا کوئی تالاب جس میں خاص قسم کے جانور ہیں ؟ اس طرف آبادی ہے نہ آمد و رفت ابھی اور کتنا چلنا ہے ؟ اس نے کہا " بس، تھوڑی دیر بعد وہ جگہ آئے گی۔ جنگلی جانور یا کوئی تالاب وغیرہ ۔

تھوڑی دیر بعد ایک بڑا دروازہ آیا جو ایک بڑی عمارت کے مین گیٹ کی صورت میں تھا۔ اس میں آگے اور پیچھے دروازے تھے اور آگے بھی اور دونوں طرف فوجی چہرہ تھا۔ کلکٹر نے موٹر سے اتر کر پاسپورٹ اور تحریری اجازت نامہ دکھایا۔
اس نے دونوں رکھ لئے اور اندر آنے کی اجازت دے دی مگر یہ کہا کہ آپ اپنی موٹر یہیں چھوڑ دیجئے اور اندر جو موٹریں کھڑی ہیں ان میں سے کوئی لے لیجئے۔ نواب صاحب نے دیکھا یہ دروازہ کسی عمارت کا نہیں تھا اور اس کے دونوں طرف دیواروں کے بجائے بہت گھنی جھاڑیاں اور کانٹے دار درخت تھے جن میں سے کسی کا گذرنا ممکن نہ تھا۔

موٹر چلتی رہی مگر گھنے جنگل اور جنگلی درختوں کی دیوار کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ نواب صاحب نے گھبرا کر پوچھا " کب وہاں پہونچیں گے ۔ ؟ اس نے کہا ۔ بس پہونچ گئے۔ دیکھئے وہ جو عمارت نظر آرہی ہے وہاں جانا ہے ۔ پھر اس نے خاص طور پر یہ کہا ۔" اس عمارت میں جب داخل ہوں گے تو ہر چیز دیکھئے سنئے مگر آپ کسی سے کسی قسم کا کوئی سوال نہیں کریں گے، بالکل خاموش رہنا ہے آپ
کو جو کچھ دریافت کرنا ہو وہ مجھ سے پوچھ لیجئے گا۔
ویسے تو میں خود ہی بتاتا جاؤں گا " نواب صاحب
نے کہا " اچھا ٹھیک ہے۔ عمارت سے تھوڑے فاصلے پر انھوں نے موٹر چھوڑ دی اور پیدل عمارت کی طرف بڑھے۔ یہ ایک بڑی سی عمارت تھی شروع میں دالان تھا۔ اس کے پیچھے متعدد کمرے تھے جب دالان میں داخل ہوئے تو ایک نوجوان داڑھی مونچھوں والا، عربی کپڑے پہنے اور سر پر رومال ڈالے ایک کمرے سے نکلا ۔ ایک دوسرے کمرے سے دو ایک نوجوان اور نکلے، ان لوگوں نے پہلے کمرے سے نکلنے والے لڑکے سے کہا السلام علیکم " دوسرے نے جواب دیا " و علیکم السلام کیا حال ہے ؟" نواب صاحب حیران رہ گئے ۔ جب لڑکے ان کے قریب سے گزرے تو نواب صاحب نے کچھ دریافت کرنا چاہا مگر کلکٹر نے فوراً اشارے سے منع کر دیا پھر کلکٹر نے انھیں ایک کمرے کے دروازے پر لے جا کر کھڑا کیا۔ دیکھا کہ فرش اندر بچھا ہے اور اس اندر پر عربی لباس میں متعدد طلبہ بیٹھے ہیں اور ان کے سامنے ان کے استاد بالکل اسی طرح بیٹھے سبق پڑھا رہے ہیں جیسے اسلامی مدرسوں میں استاد پڑھاتے ہیں طلبہ عربی میں اور کبھی انگریزی میں استاد سے سوال کرتے تھے۔
کلکٹر نے نواب صاحب کو سب کمرے دکھائے اور ہر کمرے میں جو تعلیم ہورہی تھی وہ بھی بتائی ۔ نواب صاحب نے دیکھا کہیں کلام مجید پڑھایا جارہا ہے، کہیں قرات سکھائی جارہی ہے۔ کہیں معنی اور تفسیر کا درس ہو رہا ہے۔ کہیں احادیث پڑھائی جا رہی ہیں، کسی جگہ بخاری شریف کا درس ہو رہا ہے تو کہیں مسلم شریف کا ، کہیں مسئلے مسائل سکھائے جارہے ہیں اور کہیں اصطلاحات کی وضاحت اور کہیں مناظرہ ہو رہا ہے ۔ یہ سب دیکھ کر نواب صاحب بہت حیران ہوئے، ان کا جی چاہتا تھا کہ ایک آدھ طالب علم سے کمرے سے نکلتے وقت کوئی سوال کریں مگر کلکٹر ان کو اشارے سے روک دیا تھا۔ یہ سب دیکھ کر جب واپس ہوئے تو نواب صاحب نے کہا کہ اتنا بڑا دینی مدرسہ ہے جسے میرے اسلام کے ہر پہلو کے اس قدر عمدہ تعلیم دی جارہی ہے اور باریک سے باریک باتیں سکھائے جارہی ہیں ۔ آخر یہ مسلمان طالبہ کو اس طرح علاحدہ کیوں بند کر رکھا ہے اور کیوں چھپا رکھا ہے۔
تب کلکٹر نے کہا کہ : " ان میں کوئے مسلمان نہیں، یہ سب عیسائے مشنری ہے.
نواب صاحب کو مزید حیرت ہوئی اور انھوں نے اس کی وجہ دریافت کی تو کلکٹر نے کہا کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھیں مسلمان ممالک میں خصوصا شرق اوسط بھیج دیا جاتا ہے۔ وہاں یہ لوگ کسی بڑے شہر کی کسی بڑی مسجد میں جا کر نماز میں شریک ہوتے ہیں اور نمازیوں سے کہتے ہیں کہ وہ انگریز ہیں ۔ انھوں نے مصر میں از ہر یونیورسٹی میں تعلیم پائی ہے اور مکمل عالم ہیں۔ انگلستان میں اسلامی ادارے نہیں جہاں وہ تعلیم دے سکیں اور نہ مسجدیں ہیں اس لئے جلا وطنی اختیار کی ہے وہ سر دست تنخواہ نہیں چاہتے بلکہ صرف کھانا اور سر چھپانے کا ٹھکانا اور پہننے کے کپڑے درکار ہیں ۔ وہ مسجد میں مؤذن یا پیش امام یا بچوں کو کلام مجید کے معلم کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کو تیار ہیں اگر کوئی بڑا تعلیمی ادارہ ہو تو اس میں استاد کی حیثیت سے کام کر سکتے ہیں ان میں سے کسی کو مسجد یا مدرسے میں رکھ لیا جاتا ہے تو مقامی لوگ بطور امتحان ان سے مسئلہ مسائل بھی معلوم کرتے ہیں ۔ اور وہ کافی وشافی جواب دیتے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد جب کوئی اختلافی مسئلہ آتا ہے تو لوگ ان کے معتقد بن جاتے ہیں اور وہ اس اختلافی مسئلے پر ان کی دو پارٹیاں بنا کر خوب سے اختلاف پیدا کرتے ہیں اور مسلمانوں کو اس طرح آپس میں لڑاتے ہیں۔ سو اس ادارے کا پہلا اصلی مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو باہم لڑاؤ۔ چنانچہ شرق اوسط میں گر جاؤں کے
پادریوں کے ایک سالانہ جلسے میں ZAVYAR نام پادری نے بحیثیت صدر اپنی تقریر میں یہ کہا کہ مسلمانوں سے ہم مناظرے میں نہیں جیت سکتے اس لئے ہم نے اسے چھوڑ کر یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ انھیں آپس میں لڑاؤ، اس میں ہم کامیاب ہیں۔ لہٰذا ہمیں اس پر عمل پیرا رہنا چاہئے۔
اس مدرسے کا مقصد یہ ہے کہ حضور کا درجہ جس طرح بھی ہو سکے گھٹاؤ تا کہ مسلمانوں کے دلوں میں ان کی جو عزت اور محبت ہے وہ کم ہو جائے اس کے بغیر ہم مسلمانوں پر قابو نہیں پاسکتے۔ کیونکہ محض مسلمانوں کے سیاسی اختلاف سے اسلام ختم نہیں ہو گا۔
کلکٹر کی ان باتوں پر نواب صاحب حیرت کے سمندر میں غوطے کھا رہے تھے۔ دنیا بھر کے عیسائیوں نے اپنے اس پروگرام پر کئی پہلوؤں سے عمل کیابرصغیر میں انگریزی حکومت کے زمانے میں کتاب رنگیلا رسول ، لکھائی گئی۔ اس کے بعد غلام احمد قادیانی کو نبی بنایا گیا۔ ان سے جو کتابیں مذہب کے متعلق لکھوائی گئیں وہ اندرون خانہ اسی مسیحی ادارے کی کاوش کا نتیجہ تھیں در نہ غلام احمد کی بذات خود کیا قابلیت تھی۔ اسی طرح ایک ڈیڑھ عشرہ پہلے امریکہ میں رشاد خلیفہ نے اعلان کیا کہ اس نے کمپیوٹر کے ذریعہ عدد 19 کی بنا پر قرآن مجید کو اللہ کا کلام ثابت کیا ہے ۔ جیسے لوگ اسے کے معتقد ہو گئے تو اس سے نے قرآن میں چند آیتیں تحریف شدہ بتا دیے، پھر کہا کہ میرا نام " خلیفہ مقرآن مجید میں موجود ہے اور پھر اپنے نبی ہونے کا اعلان کر دیا ۔ جن لوگوں کو اس میں شبہ ہوا ان کے لئے مناظرے کا دن اور تاریخ مقرر کر دی اس نے جب قرآن میں چند آیتیوں کی تحریف کا اعلان کیا تو لوگوں نے کمپیوٹر کے ذریعے اس کے بنائے ہوئے حسابی نقشے کی جانچ کی جو غلط ثابت ہوا، مسلمان علماء مناظرہ کے لئے تیا ر تھے مگر مقررہ وقت مناظرہ سے پہلے غلام احمد قادیانی کی طرح اسے موت نے آدبوچا اور یوں اس فتنہ کا خاتمہ ہوا ، رشاد خلیفہ کا خاتمہ تو ہو گیا لیکن نے باقی ہے اس کا فتنہ، اس کا ادارہ اور سینٹر اور اس کے رفیق حسب سابق کام کر رہے ہیں اس کا تحریف شدہ قرآن امریکہ میں عام طور پر ملتا ہے۔ (صدیقی ٹرسٹ )
اب سلمان رشدی کی کتاب بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی معلوم ہوتی ہے کتاب چاہے سلمان رشدی نے خود لکھی ہو مگر مسالا غالباً اسی مسیحی ادارے کا تیار کردہ ہے، انگریزی حکومت نے بھی اس کی حفاظت کے لئے پولیس کے دو آدمی مستقلاً ساتھ لگا رکھے ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی ہر طرح کے انتظامات ہیں اور اسے ملعون کی حفاظت پر لاکھوں پونڈ خرچ ہو رہے ہیے جب کہ انگلستان میں رہنے والے کئی اور افراد کو بھی موت کی دھمکی دی جا رہی ہے وہ حفاظت کے لئے حکومت سے درخواست کرتے ہیں مگر اس کا عشر عشیر بھی نہیں کیا جاتا حال ہی میں چند مالدار انگلستانی سکھ باشندے بھارتی سکھوں کے خالصتان بنانے کے خلاف اور بھارتی حکومت کے طرفدار تھے ، خالصتان حامی سکھوں نے انھیں قتل کی دھمکی دی تو انھوں نے برطانوی حکومت سے مدد چاہی مگر حکومت نے کوئی خاص انتظام نہیں کیا اور وہ مالدار سکھ مارے گئے لیکنے سلمان رشدی کی کیا خصوصیت ہے کہ برطانوی حکومت نہ صرف اس قدرسخت حفاظتی انتظام کر رہی ہے بلکہ سیاسی طور پر ایران پر زور ڈال رہی ہے کہ امام خمینی کا فتوی واپس لیا جائے مسلمانوں کو چاہیے کہ ان سازشوں سے آگاہ رہیں اور اپنے گروہی و فرقہ وارانہ اختلافات کو ختم کر دیں ۔ جو ان کی اجتماعی قوت کو نہایت کمزور کئے دیتے ہیں، انہی اخلافات کا نتیجہ ہے کہ مسلمان بوسنیا، کشمیر اور فلسطین میں ہر جگہ بے کس و مظلوم ہیں مگر عالم اسلام ان کی مدد کرنے سے قاصر ہے۔
(بشکر یہ منشور کاشف اورنگ آباد نومبر 1994ء )

(ماہ نامہ الاسلام برطانیہ اگست 1998ء،ص/25-29)
ناقل محمد یاسین جہازی

محمد آصف دہلوی دورانِ سفر ایک صاحب سے میں نے دریافت کیا، کیا آپ نے سلمان رشدی کی لکھنی ہوئی

29/05/2025

ایک شاعر کی سب سے سچی بات

حَدَّثَنَا أَبُو نَعِيمٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصْدَقُ كَلِمَةٍ قَالَهَا الشَّاعِرُ كَلِمَةُ لَبِيدٍ:
أَلَا كُلُّ شَيْءٍ مَا خَلَا اللَّهَ بَاطِلٌ
مکمل ترجمہ (اسناد سمیت):
ابو نعیم نے ہم سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ سفیان نے عبد الملک بن عمیر سے، انہوں نے ابو سلمہ سے، اور انہوں نے ابو ہریرہ سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "شاعر کی سب سے سچی بات لبید کا یہ قول ہے:
'سنو! ہر چیز جو اللہ کے سوا ہے، باطل (فنا ہونے والی) ہے.
(جامع البخاری ،کتاب مناقب الانصار، باب ایام الجاھلیتہ)

مدارس اور اسلامی تنظیموں کو واجب زکاۃ کے علاوہ امداد دینا بھی فرض ہےیعنی دارالامان ہندستان میں نفلی صدقے کا وجوباسلام می...
13/03/2025

مدارس اور اسلامی تنظیموں کو واجب زکاۃ کے علاوہ امداد دینا بھی فرض ہے

یعنی دارالامان ہندستان میں نفلی صدقے کا وجوب

اسلام میں کچھ مسائل ایسے ہیں، جن کا حکم وطن کی شرعی حیثیت بدلنے کی وجہ سے بدل جاتے ہیں، جیسے غیر مسلم کے ساتھ عقود فاسدہ، سود کے مسائل و معاملات اور تعزیرات کا عملی نفاذ ہے۔انھیں مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ امداد و تعاون کا بھی ہے۔
جو خطے اسلامی حکومتوں کی نعمت سے بہرہ ور ہیں، وہاں تو اسلامی اداروں کی تنظیم و قیام خود حکومت کے ذمہ ہوتا ہے؛ لیکن جہاں اسلامی حکومت نہیں ہے، ان علاقوں میں دینی و اسلامی اداروں کی تنظیم و بقا خود مسلمانوں کے ذمہ واجب ہے۔
اس تمہید کے بعد آئیے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمارا ہندستان اس وقت شرعی حیثیت سے کیا پہلو رکھتا ہے؟
سید الملت مولانا محمد میاں صاحب لکھتے ہیں کہ:
حضرت شاہ(عبدالعزیز) صاحب قدس اللہ سرہ العزیز کے ارشاد کے مطابق انگریزی دور کے ہندستان کو اگر دارالامن کہا جاسکتا ہے، تو 1947ء کے انقلاب کے بعد ہندستان کو بدرجہئ اولیٰ ”دارالامان“ کہاجاسکتا ہے؛ کیوں کہ انگریزی دور میں ہماری مذہبی آزادی انگریز کی عطا کردہ تھی اور اس وقت یہ آزادی کسی کی عطا نہیں؛ بلکہ ہمارا ایک فطری یا وطنی حق ہے۔ (مسلمان اور ہندستان کی وطنی حیثیت اور دوسرے مسائل۔ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد ہشتم، ص/162)
دار الامان اور فرائض مسلمہ
اسی تحریر کے باب سوم میں حضرت سید ملت دارالامان کے مسلمہ فرائض بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
”دار الامان میں مسلمانوں کو مذہبی آزادی حاصل ہو گی؛ لیکن اقتدار اعلیٰ مسلمانوں کے ہاتھ میں نہیں ہو گا۔ لہذا مسلمان مکلف نہ ہوں گے کہ وہ احکام -جن کے لیے اقتدار اعلیٰ (بہ عنوان دیگر قوت و شوکت) شرط ہے اور خالص اسلامی نظام حکومت کے بغیر وہ نافذ نہیں ہو سکتے-ان کو دارالامان میں نافذ کرنے کا تکلف کریں۔ لا یکلف اللہ نفسا إلاوسعہا۔
مثلاً؛ اسلامی حدود و تعزیرات یعنی قتل عمد، قتل خطا، زنا، تہمت، چوری، ڈکیتی، شراب نوشی وغیرہ کی وہ مخصوص سزائیں جو اسلام نے مقرر کی ہیں، اسلامی نظام حکومت کے بغیر ان کا نفاذ ممکن نہیں ہے۔ لہذا دار الامان میں ان کا نفاذ شرعا واجب بھی نہیں ہو گا۔(ایضا، ص/166)
پھر اس کی توضیح کرتے ہوئے مولانا نے لکھا ہے کہ دارالامان میں جہاد اصغر فرض نہیں ہوتا؛ بلکہ وہاں کے باشندوں کے ذمہ جہاد اکبر ہوتا ہے۔
”اقتدار اعلیٰ اور اجتماعی شوکت و قوت کے فقدان کا ثمرہ یہ بھی ہو گا کہ”دار الامن“ میں مسلمانوں پر ”جہاد اصغر“ فرض نہیں ہو گا؛ بلکہ ان پر فرض ہو گا کہ وہ ”جہاد اکبر“ کو پوری قوت سے انجام دیں۔ ”جہاد اصغر“ کا مشہور نام ”جہاد بالسیف ہے اور جہاد اکبر وہ ہے، جس کی ابتدا ”جہاد نفس“ سے ہوتی ہے، یعنی خود اپنے نفس امارہ سے جہادکرے۔
کما قال رسول اللہ ﷺ: المجاہد من جاہد نفسہ
چنانچہ رسول ﷺ کا ارشاد ہے: ”مجاہد وہ ہے جو خود اپنے نفس سے جہاد کرے۔
دشمن کو مارنا جہاد اصغر ہے۔ اور جہاد اکبر یہ ہے کہ خود اپنے نفس کو مو تو اقبل ان تموتوا (موت سے پہلے مر جاؤ) کا مزہ چکھائے۔
یہ جہاد میدانوں میں نہیں ہو تا؛ بلکہ مکانات کی کو ٹھریوں میں اور مسجدوں کی محرابوں میں ہوتا ہے، جہاں انسان اور اس کے معبود حقیقی کے سوا کوئی نہیں ہوتا۔ جہاں وہ اپنے رب کے سامنے اپنے افعال و اعمال کا محاسبہ کرتا ہے۔ آں حضرت ﷺ ایک مرتبہ میدان جنگ سے واپس ہوئے، تو ارشاد فرمایا:
رجعنا من الجہاد الاصغر الی الجہاد الاکبر
ہم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی جانب واپس ہوئے ہیں۔
اس جہاد میں ہاتھ بڑھائے نہیں جاتے؛بلکہ ہاتھ سکوڑے جاتے ہیں۔
کمال قال:کفوا یدیکم واقیموا الصلوۃ وآتوا الزکوۃ۔ (سورۃ نساء، آیت ۷۷)
اپنے ہاتھ روکو، نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو۔
اقامت صلوۃ اور صبر و استقامت
قیام صلوۃ اس جہاد کا سب سے بڑا حربہ ہوتا ہے اور دوسرا حربہ ضبط و تحمل اور صبر و استقامت ہوتا ہے۔ چنانچہ تمام شدائد و مصائب کے مقابلے میں انھیں دو حربوں کے استعمال کرنے اور ان سے مدد حاصل کرنے کا حکم ہے۔
کمال قال اللہ تعالیٰ: یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاۃِ إِنَّ اللَّہَ مَعَ الصَّابِرِینَ (۳۵۱) وَلَا تَقُولُوا لِمَن یُقْتَلُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْیَاءٌ وَلَٰکِن لَّا تَشْعُرُونَ (۴۵۱) وَلَنَبْلُوَنَّکُم بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِینَ (۵۵۱) الَّذِینَ إِذَا أَصَابَتْہُم مُّصِیبَۃٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ (۶۵۱)أُولَٰءِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ وَأُولَٰءِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُونَ (۷۵۱ البقرۃ)
مسلمانو! مدد حاصل کرو صبر اور نماز سے۔ بے شک اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ جو اللہ کے راستے میں مارے جائیں ان کو مردہ مت کہو۔ وہ زندہ ہیں، لیکن تمھیں خبر نہیں۔ اور تمھیں ہم آزمائیں گے خوف، بھوک، مالوں، جانوں اور میووں میں کمی کر کے۔ اور بشارت دیجیے ان صبر کرنے والوں (ضبط و تحمل کے ساتھ ثابت قدم رہنے والوں) کو کہ جب ان پر آتی ہے کوئی مصیبت، تو کہتے ہیں کہ بے شک ہم خدا کے ہیں اور خدا کی طرف ہی ہمیں رجوع کرنا ہے۔ یہی ہیں جن پر ان کے پروردگار کی طرف سے شاباش و آفرین رحمت اور مہربانی ہے اور یہی لوگ ہیں ہدایت پانے والے۔(ایضا،ص/ 171)
ادائے زکواۃ
اس جہاد کا تیسرا حربہ یا پروگرام کا تیسرا جز ”آتوا الزکوۃ“ ہے۔ زکوۃ ادا کرو۔ چنانچہ حافظ الحدیث علامہ عماد الدین ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ سورہ نساء کی مذکورہ بالا آیت: کفوا ایدیکم کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
کان المومنون فی ابتداء الاسلام وہم بمکۃ مامورین بالصلوۃ والزکوۃ وان لم یکن ذات النصب وکانوا مامورین بمواساۃ الفقراء وکانوا مامورین بالصفح والعفو عن المشرکین والصبرالی حین وکانوا یتحرفون ویودون لو امر وا بالقتال (تفسیر ابن کثیر - ج ۱، ص/ ۵۲۵)
ابتدائے اسلام میں جب کہ مسلمان مکہ میں تھے ان کو نماز اور زکوۃ کا حکم تھا، اس وقت زکوۃ کے لیے نصاب کی شرط نہیں تھی۔ مسلمانوں کو حکم تھا کہ وہ ضرورت مندوں کے ساتھ پوری پوری ہمدردی کریں۔ مشرکین کے مقابلے میں عفو اور درگذر کا حکم تھا اور یہ کہ ایک مدت تک ضبط و تحمل سے کام لیں۔ مسلمان دشمنان اسلام پر دانت پیسا کرتے تھے۔ وہ تمنا کیا کرتے تھے کہ ان کو جنگ کا حکم مل جائے۔
کاش ہند یونین کے مسلمان بھی اس حقیقت کو محسوس کریں کہ حفاظت و ترقی ملت کے لیے مالی جہاد اہم ترین فریضہ ہے۔ اس کا معیار شریعت کا مقرر کردہ نصاب نہیں، بلکہ قوم و ملت کی ضرورت اس کا معیار ہے۔ زکوۃ، یتیموں، بیواؤں اور مصیبت زدہ و مظلوک الحال مسلمانوں کا مخصوص حصہ ہے۔ ان کے علاوہ بہت سی قومی اور ملی ضرورتیں ہیں، جن کے لیے زکوۃ کے علاوہ امدادی رقوم کی ضرورت ہوتی ہے،جب کہ حکومت ان کی متکفل نہیں تو ان ضرورتوں کو پورا کرنا مسلمانوں ہی کا فرض ہے۔(ایضا، ص/172)
خلاصہ یہ نکلا کہ ہندستان چوں کہ دارالامان ہے، اور مدارس و مکاتب اور اسلامی تنظیموں کو چلانا کسی حکومت کے بجائے خود مسلمانوں کی بنیادی ذمہ داری ہے، اس لیے مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اسلامی اداروں کی واجب زکاۃ کے علاوہ نفلی صدقے اور امداد سے بھی تعاون کریں، تاکہ کفرستان ہند میں دینی امور انجام پذیر ہوتے رہیں اور امت مسلمہ کی دینی ترقی رکنے نہ پائے، اس لیے ناچیز کی اپیل ہے کہ رمضان کریم کے مبارک موقع سے خوب بڑھ چڑھ کر ہر جائز مدارس و مکاتب اور تنظیموں کو اپنا تعاون پیش کریں۔ان اللہ لایضیع اجر المحسنین۔
محمد یاسین جہازی
چیف ایڈیٹر جہازی میڈیا۔ کام

جہازی میڈیا باشعور افراد کی ایک ایسی تحریک ہے، جو ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کے لیے اپنی فکری و عملی خدمات پیش کرنے کے لیے عہدبند ہوتے ہیں

Address

New Delhi
110002

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Jahazi Media posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Jahazi Media:

Share