13/03/2025
مدارس اور اسلامی تنظیموں کو واجب زکاۃ کے علاوہ امداد دینا بھی فرض ہے
یعنی دارالامان ہندستان میں نفلی صدقے کا وجوب
اسلام میں کچھ مسائل ایسے ہیں، جن کا حکم وطن کی شرعی حیثیت بدلنے کی وجہ سے بدل جاتے ہیں، جیسے غیر مسلم کے ساتھ عقود فاسدہ، سود کے مسائل و معاملات اور تعزیرات کا عملی نفاذ ہے۔انھیں مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ امداد و تعاون کا بھی ہے۔
جو خطے اسلامی حکومتوں کی نعمت سے بہرہ ور ہیں، وہاں تو اسلامی اداروں کی تنظیم و قیام خود حکومت کے ذمہ ہوتا ہے؛ لیکن جہاں اسلامی حکومت نہیں ہے، ان علاقوں میں دینی و اسلامی اداروں کی تنظیم و بقا خود مسلمانوں کے ذمہ واجب ہے۔
اس تمہید کے بعد آئیے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمارا ہندستان اس وقت شرعی حیثیت سے کیا پہلو رکھتا ہے؟
سید الملت مولانا محمد میاں صاحب لکھتے ہیں کہ:
حضرت شاہ(عبدالعزیز) صاحب قدس اللہ سرہ العزیز کے ارشاد کے مطابق انگریزی دور کے ہندستان کو اگر دارالامن کہا جاسکتا ہے، تو 1947ء کے انقلاب کے بعد ہندستان کو بدرجہئ اولیٰ ”دارالامان“ کہاجاسکتا ہے؛ کیوں کہ انگریزی دور میں ہماری مذہبی آزادی انگریز کی عطا کردہ تھی اور اس وقت یہ آزادی کسی کی عطا نہیں؛ بلکہ ہمارا ایک فطری یا وطنی حق ہے۔ (مسلمان اور ہندستان کی وطنی حیثیت اور دوسرے مسائل۔ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد ہشتم، ص/162)
دار الامان اور فرائض مسلمہ
اسی تحریر کے باب سوم میں حضرت سید ملت دارالامان کے مسلمہ فرائض بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
”دار الامان میں مسلمانوں کو مذہبی آزادی حاصل ہو گی؛ لیکن اقتدار اعلیٰ مسلمانوں کے ہاتھ میں نہیں ہو گا۔ لہذا مسلمان مکلف نہ ہوں گے کہ وہ احکام -جن کے لیے اقتدار اعلیٰ (بہ عنوان دیگر قوت و شوکت) شرط ہے اور خالص اسلامی نظام حکومت کے بغیر وہ نافذ نہیں ہو سکتے-ان کو دارالامان میں نافذ کرنے کا تکلف کریں۔ لا یکلف اللہ نفسا إلاوسعہا۔
مثلاً؛ اسلامی حدود و تعزیرات یعنی قتل عمد، قتل خطا، زنا، تہمت، چوری، ڈکیتی، شراب نوشی وغیرہ کی وہ مخصوص سزائیں جو اسلام نے مقرر کی ہیں، اسلامی نظام حکومت کے بغیر ان کا نفاذ ممکن نہیں ہے۔ لہذا دار الامان میں ان کا نفاذ شرعا واجب بھی نہیں ہو گا۔(ایضا، ص/166)
پھر اس کی توضیح کرتے ہوئے مولانا نے لکھا ہے کہ دارالامان میں جہاد اصغر فرض نہیں ہوتا؛ بلکہ وہاں کے باشندوں کے ذمہ جہاد اکبر ہوتا ہے۔
”اقتدار اعلیٰ اور اجتماعی شوکت و قوت کے فقدان کا ثمرہ یہ بھی ہو گا کہ”دار الامن“ میں مسلمانوں پر ”جہاد اصغر“ فرض نہیں ہو گا؛ بلکہ ان پر فرض ہو گا کہ وہ ”جہاد اکبر“ کو پوری قوت سے انجام دیں۔ ”جہاد اصغر“ کا مشہور نام ”جہاد بالسیف ہے اور جہاد اکبر وہ ہے، جس کی ابتدا ”جہاد نفس“ سے ہوتی ہے، یعنی خود اپنے نفس امارہ سے جہادکرے۔
کما قال رسول اللہ ﷺ: المجاہد من جاہد نفسہ
چنانچہ رسول ﷺ کا ارشاد ہے: ”مجاہد وہ ہے جو خود اپنے نفس سے جہاد کرے۔
دشمن کو مارنا جہاد اصغر ہے۔ اور جہاد اکبر یہ ہے کہ خود اپنے نفس کو مو تو اقبل ان تموتوا (موت سے پہلے مر جاؤ) کا مزہ چکھائے۔
یہ جہاد میدانوں میں نہیں ہو تا؛ بلکہ مکانات کی کو ٹھریوں میں اور مسجدوں کی محرابوں میں ہوتا ہے، جہاں انسان اور اس کے معبود حقیقی کے سوا کوئی نہیں ہوتا۔ جہاں وہ اپنے رب کے سامنے اپنے افعال و اعمال کا محاسبہ کرتا ہے۔ آں حضرت ﷺ ایک مرتبہ میدان جنگ سے واپس ہوئے، تو ارشاد فرمایا:
رجعنا من الجہاد الاصغر الی الجہاد الاکبر
ہم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی جانب واپس ہوئے ہیں۔
اس جہاد میں ہاتھ بڑھائے نہیں جاتے؛بلکہ ہاتھ سکوڑے جاتے ہیں۔
کمال قال:کفوا یدیکم واقیموا الصلوۃ وآتوا الزکوۃ۔ (سورۃ نساء، آیت ۷۷)
اپنے ہاتھ روکو، نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو۔
اقامت صلوۃ اور صبر و استقامت
قیام صلوۃ اس جہاد کا سب سے بڑا حربہ ہوتا ہے اور دوسرا حربہ ضبط و تحمل اور صبر و استقامت ہوتا ہے۔ چنانچہ تمام شدائد و مصائب کے مقابلے میں انھیں دو حربوں کے استعمال کرنے اور ان سے مدد حاصل کرنے کا حکم ہے۔
کمال قال اللہ تعالیٰ: یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاۃِ إِنَّ اللَّہَ مَعَ الصَّابِرِینَ (۳۵۱) وَلَا تَقُولُوا لِمَن یُقْتَلُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْیَاءٌ وَلَٰکِن لَّا تَشْعُرُونَ (۴۵۱) وَلَنَبْلُوَنَّکُم بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِینَ (۵۵۱) الَّذِینَ إِذَا أَصَابَتْہُم مُّصِیبَۃٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ (۶۵۱)أُولَٰءِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ وَأُولَٰءِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُونَ (۷۵۱ البقرۃ)
مسلمانو! مدد حاصل کرو صبر اور نماز سے۔ بے شک اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ جو اللہ کے راستے میں مارے جائیں ان کو مردہ مت کہو۔ وہ زندہ ہیں، لیکن تمھیں خبر نہیں۔ اور تمھیں ہم آزمائیں گے خوف، بھوک، مالوں، جانوں اور میووں میں کمی کر کے۔ اور بشارت دیجیے ان صبر کرنے والوں (ضبط و تحمل کے ساتھ ثابت قدم رہنے والوں) کو کہ جب ان پر آتی ہے کوئی مصیبت، تو کہتے ہیں کہ بے شک ہم خدا کے ہیں اور خدا کی طرف ہی ہمیں رجوع کرنا ہے۔ یہی ہیں جن پر ان کے پروردگار کی طرف سے شاباش و آفرین رحمت اور مہربانی ہے اور یہی لوگ ہیں ہدایت پانے والے۔(ایضا،ص/ 171)
ادائے زکواۃ
اس جہاد کا تیسرا حربہ یا پروگرام کا تیسرا جز ”آتوا الزکوۃ“ ہے۔ زکوۃ ادا کرو۔ چنانچہ حافظ الحدیث علامہ عماد الدین ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ سورہ نساء کی مذکورہ بالا آیت: کفوا ایدیکم کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
کان المومنون فی ابتداء الاسلام وہم بمکۃ مامورین بالصلوۃ والزکوۃ وان لم یکن ذات النصب وکانوا مامورین بمواساۃ الفقراء وکانوا مامورین بالصفح والعفو عن المشرکین والصبرالی حین وکانوا یتحرفون ویودون لو امر وا بالقتال (تفسیر ابن کثیر - ج ۱، ص/ ۵۲۵)
ابتدائے اسلام میں جب کہ مسلمان مکہ میں تھے ان کو نماز اور زکوۃ کا حکم تھا، اس وقت زکوۃ کے لیے نصاب کی شرط نہیں تھی۔ مسلمانوں کو حکم تھا کہ وہ ضرورت مندوں کے ساتھ پوری پوری ہمدردی کریں۔ مشرکین کے مقابلے میں عفو اور درگذر کا حکم تھا اور یہ کہ ایک مدت تک ضبط و تحمل سے کام لیں۔ مسلمان دشمنان اسلام پر دانت پیسا کرتے تھے۔ وہ تمنا کیا کرتے تھے کہ ان کو جنگ کا حکم مل جائے۔
کاش ہند یونین کے مسلمان بھی اس حقیقت کو محسوس کریں کہ حفاظت و ترقی ملت کے لیے مالی جہاد اہم ترین فریضہ ہے۔ اس کا معیار شریعت کا مقرر کردہ نصاب نہیں، بلکہ قوم و ملت کی ضرورت اس کا معیار ہے۔ زکوۃ، یتیموں، بیواؤں اور مصیبت زدہ و مظلوک الحال مسلمانوں کا مخصوص حصہ ہے۔ ان کے علاوہ بہت سی قومی اور ملی ضرورتیں ہیں، جن کے لیے زکوۃ کے علاوہ امدادی رقوم کی ضرورت ہوتی ہے،جب کہ حکومت ان کی متکفل نہیں تو ان ضرورتوں کو پورا کرنا مسلمانوں ہی کا فرض ہے۔(ایضا، ص/172)
خلاصہ یہ نکلا کہ ہندستان چوں کہ دارالامان ہے، اور مدارس و مکاتب اور اسلامی تنظیموں کو چلانا کسی حکومت کے بجائے خود مسلمانوں کی بنیادی ذمہ داری ہے، اس لیے مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اسلامی اداروں کی واجب زکاۃ کے علاوہ نفلی صدقے اور امداد سے بھی تعاون کریں، تاکہ کفرستان ہند میں دینی امور انجام پذیر ہوتے رہیں اور امت مسلمہ کی دینی ترقی رکنے نہ پائے، اس لیے ناچیز کی اپیل ہے کہ رمضان کریم کے مبارک موقع سے خوب بڑھ چڑھ کر ہر جائز مدارس و مکاتب اور تنظیموں کو اپنا تعاون پیش کریں۔ان اللہ لایضیع اجر المحسنین۔
محمد یاسین جہازی
چیف ایڈیٹر جہازی میڈیا۔ کام
جہازی میڈیا باشعور افراد کی ایک ایسی تحریک ہے، جو ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کے لیے اپنی فکری و عملی خدمات پیش کرنے کے لیے عہدبند ہوتے ہیں