Mufti Shadab Raza Qadri

Mufti Shadab Raza Qadri This is an official page of M***i Shadab Raza Qadri..who cater and profess real meaning of ISLAM

لڑکیوں کے بھی عجیب مسائل ہوتے ہیں 😢😥جیسے ہی سنِ شباب کو پہنچتی ہیں کسی نہ کسی کو ان سے محبت ہو جاتی ہےمارکیٹ چلے جائیں ت...
16/08/2024

لڑکیوں کے بھی عجیب مسائل ہوتے ہیں 😢😥

جیسے ہی سنِ شباب کو پہنچتی ہیں کسی نہ کسی کو ان سے محبت ہو جاتی ہے

مارکیٹ چلے جائیں تو سیلز مین کو دل کش اور سریلی لگتی ہیں۔

سکول چلے جائیں تو راستے میں ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو ان سے محبت ہو جاتی ہے ۔

کالج جانے لگیں تو اپنے ہی کزن کو مادھوری ڈکشت لگنے لگتی ہیں۔

یونیورسٹی میں قدم رکھیں تو کسی پروفیسر کو پریاں لگنے لگتی ہیں

کسی ادارے میں جاب کے سلسلے میں جائیں تو وہاں کے کسی سٹاف میمبر کو الفت ہو جاتی ہے

آفس سنبھالیں تو مینیجر کو اپسرا لگنے لگتی ہیں۔

سسرال میں جائیں تو کسی سسرالی رشتہ دار کو کسی ماہ رخ کا عکس نظر آنے لگتا ہے۔

الگ گھر لے لیں تو پڑوسی کو کسی حور سے کم نظر نہیں آتیں۔

بازار میں نکلیں تو لونڈے لفنگے اپنی بے سری تال میں ایسے خراجِ تحسین پیش کرنے لگتے ہیں جیسے دھرتی پر لڑکیوں نے پہلی بار قدم رکھا ہو ۔

کہیں گھومنے پھرنے چلے جائیں تو ماشاءاللہ ۔۔۔سبحان اللہ جیسی تسبیحات با آوازِ بلند ہونے لگتی ہیں۔

غرض یہ کہ لڑکی کو کہیں بھی ہوں ہر سو محبت ہول سیل اور کبھی کبھی تو درباری لنگر کے حساب سے مل رہی ہوتی ہے۔

لیکن بدقسمتی سے ایک وہ شخص جس کو ان تمام مراحل سے بچ بچا کر لڑکی نکاح کے عوض پہنچ جاتی ہے اور اس سے پاکیزہ محبت کا رشتہ قائم کر لیتی ہے اس شخص کو لڑکی میں کوئی خوبی نظر ہی نہیں آتی اور لڑکی ساری زندگی خود کو مٹانے کوسنے اور تبدیل کرنے میں گزار دیتی ہے
منقول

WhatsApp Group Invite

14/07/2024

مکہ سے کربلا تقریباً 1731 کلومیٹر ہے۔
یہ فاصلہ گوگل میپ کے مطابق 18 گھنٹے بذریعہ مشینری مطلب گاڑی وغیرہ میں طے کیا جا سکتا ہے مگر آج سے1381 سال پہلے یہ فاصلہ ایک مُشکل اور تکلیف دہ راستہ تھا، جس پر امام حُسین علیہ السلام نے اپنا سفر 8 ذلحج 60 حجری یعنی 10 ستمبر 680 عیسوی کو اپنے اہل خانہ کیساتھ شروع کیا۔

سفر شروع کرنے کے بعد تاریخ کی کتابوں میں 14 مختلف مقامات کا ذکر ملتا ہے، جہاں امام نے یا پڑاؤ کیا یا مختلف لوگوں سے ملے اور یا لوگوں سے خطاب کیا۔۔
اس آرٹیکل میں ان 14 مقامات کا سرسری ذکر کیا جائے گا تاکہ جو لوگ نہیں جانتے اُنہیں سفر اور راستے کی تھوڑی آگاہی ہوسکے۔

نمبر 1: الصفا
یہ پہلا مقام تھا امام علیہ السّلام اس جگہ پر عرب کے مشہور شاعر الفرزدق سے ملے اور اُس سے کوفہ کے حالات پُوچھے ، شاعر بولا ” کوفہ والوں کے دل آپ کے ساتھ ہیں اور اُن کی تلواریں آپ کے خلاف ہیں”۔
شاعر نے امام کو کوفہ جانے سے روکا، مگر امام علیہ السّلام اپنا سفر شروع کر چُکے تھے۔

نمبر 2: ذات عرق
مکہ سے کوفہ جاتے ہُوئے یہ دوسرا مقام ہے جو مکہ سے تقریباً 92 کلومیٹر پر ہے، اس مقام پر امام علیہ السّلام اپنے کزن عبداللہ ابن جعفر سے ملے اور اس مقام پر عبداللہ ابن جعفر نے اپنے دونوں بیٹوں عون اور مُحمد کو امام علیہ السّلام کی خدمت میں پیش کیا اور ساتھ ہی امام علیہ السّلام کو کوفہ جانے سے روکا، جس پر امام علیہ السّلام نے جواب دیا:
”میری منزل اللہ کے ہاتھ میں ہے”۔

نمبر 3: بطن الروما۔
یہ مقام ذات عرق سے کُچھ کلومیٹر آگے ہے یہاں امام علیہ السّلام نے قیس بن مشیر کے ہاتھ کوفہ والوں کو خط لکھا اور یہاں امام علیہ السّلام کی مُلاقات عبداللہ بن مطیع سے ہُوئی جو عراق سے آرہا تھا۔ عبداللہ نے امام علیہ السّلام کو آگے جانے سے روکا اور بولا ” کوفہ والوں پر بھروسا نہیں کیا جا سکتا وہ اہل وفا میں سے نہیں" مگر امام علیہ السّلام نے اپنا سفر جاری رکھا۔

نمبر 4: زرود۔۔
حجاز کی پہاڑیوں پر یہ ایک چھوٹا سا ٹاون تھا اور یہاں پر حجاز کی پہاڑیوں کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے اور عرب کا تپتا ریگستان شروع ہوتا ہے۔ یہاں امام علیہ السّلام کی مُلاقات زُہیر ابن القین سے ہُوئی۔ اُسے جب پتہ چلا کہ امام علیہ السّلام کس مقصد کے لیے جارہے ہیں تو اُس نے اپنا تمام سامان اپنی بیوی کے حوالے کیا اور اُسے کہا کہ تم گھر جاؤ میری خواہش ہے کہ میں امام علیہ السّلام کے ساتھ قتل ہو جاؤں۔

نمبر 5: زبالہ
اس مقام پر امام علیہ السّلام کی مُلاقات دو آدمیوں سے ہُوئی جن کا تعلق عرب کے قبیلہ اسدی سے تھا انہوں نے امام علیہ السّلام کو کوفہ والوں کے ہاتھوں جناب مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر دی۔
امام علیہ السّلام نے فرمایا "بیشک ہم اللہ کے لیے ہیں اور اُسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں اور بیشک وہ ہماری قُربانیوں کا حساب رکھنے والا ہے”۔
اس مُقام پر امام علیہ السّلام نے اپنے ساتھ چلنے والوں کو بتایا کے جناب مُسلم اور جناب ہانی کو شہید کر دیا گیا ہےاور کوفہ والے ہماری نُصرت نہیں کریں گے، امام علیہ السّلام نے اس مقام پر فرمایا جو چھوڑ کر جانا چاہتا ہے واپس چلا جائے۔

بہت سے قبائل جو راستے میں امام علیہ السّلام کے ساتھ اس اُمید پر چل پڑے تھے کہ اُنہیں مال و دولت ملے گی اس مقام پر ادھر اُدھر بکھر گئے اور واپس اپنے گھروں کو لوٹ گئے اور امام علیہ السّلام کے ساتھ اُن کے اہل خانہ سمیت تقریباً پچاس لوگ رہ گئے۔

نمبر 6: بطن العقیق
اس مُقام پر امام علیہ السّلام اکرمہ قبیلے کے ایک آدمی سے ملے جس نے امام کو آگاہ کیا کہ "کوفہ میں آپ کا کوئی دوست نہیں، کوفہ کو یزید کے لشکر نے گھیرے میں لے لیا ہے اور اُس کے داخلی اور خارجی دروازے بند کر دئیے ہیں اور کوفہ تشریف نہ لے جائیں” ۔ یہاں بھی امام علیہ السّلام نے اپنا سفر جاری رکھا۔

نمبر 7: Sorat
اس مُقام پر امام علیہ السّلام نے رات بسر کی اور صبح اپنے قافلے سے کہا کہ جتنا پانی ہوسکتا ہے ساتھ لے لیں۔

نمبر 8: شرف
اس مُقام پر امام علیہ السّلام کے ساتھیوں میں سے ایک چلایا کے اُس نے ایک لشکر کو اپنی طرف آتے دیکھا ہے، امام علیہ السّلام فوراً قافلے کا رُخ موڑ کر قریب ایک پہاڑ کے پیچھے لے گئے۔

نمبر 9: ذو حسم۔۔
اس مُقام پر امام علیہ السّلام کی مُلاقات حُر اور اُس کے ایک ہزار سپاہیوں ہُوئی جو پیاسے تھے، امام علیہ السّلام نے سب کو پانی پلانے کا حُکم دیا اور بذات خُود بھی سب کو پانی پلایا اور جانوروں کو بھی پانی پلایا گیا، اس مُقام پر ظہر کی نماز ادا کی گئی اور سب نے ملکر امام علیہ السّلام کی امامت میں نماز ظہر ادا کی۔

اس مُقام پر امام علیہ السّلام نے حُراور اُس کی فوج سےخطاب کیا اور فرمایا ، مفہوم” او اہل کوفہ تُم لوگوں نے میرے پاس اپنے قاصد بھیجے اور مُجھے خطوط لکھے کہ تُم لوگوں کے پاس کوئی امام نہیں اور میں کوفہ آؤں اور تم لوگوں کو اللہ کے راستے میں اکھٹا کرؤں اور تم لوگ میری بیعت کر سکو، تم لوگوں نے لکھا کے آپ اہل بیعت ہیں اور ہمارے معاملات کو اُن لوگوں کی نسبت جو ناانصافی کرتے ہیں اور غلط ہیں، بہتر طریقے سے حل کر سکتے ہیں، مگر اگر تُم لوگوں نے اپنا ارادہ بدل لیا ہے اور مُنکر ہوگئے ہو اور اہل بیعت کے حقوق نہیں جانتے اور اپنے وعدوں سے پھر گئے ہوتو میں واپس چلا جاتا ہُوں”۔
حُر کے لشکر نے امام کو واپس نہیں جانے دیا اور اُنہیں گھیر کر کوفہ کی بجائے کربلا کی طرف لے گئے۔

نمبر 10: بیضہ
امام علیہ السّلام اگلے دن بیضہ پہنچے اور اس مقام پر پھر حُر کے لشکر سے خطاب کیا آپ نے فرمایا، مفہوم "لوگو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے جو شخص ایسے بادشاہ کو دیکھے جو ظالم ہو اللہ کے حرام قرار دئیے کو حلال کہے ، خُدائی عہدوپیمان کو توڑے ، سنت رسول کی مخالفت کرے اور اللہ کے بندوں پر گُناہ اور زیادتی کیساتھ حکومت کرتا ہو، تو وہ شخص اپنی زبان اپنے فعل اور اپنے ہاتھ سے اُس بادشاہ کو نہ بدلے تو اللہ کو حق پہنچتا ہے کے ایسے شخص کو اُس بادشاہ کی جگہ جہنم میں داخل کرے”۔
امام علیہ السّلام نے اس مُقام پر مزید فرمایا ، مفہوم” لوگو تمہیں معلوم نہیں کہ جن لوگوں نے شیطان کی اطاعت اختیارکی اور اللہ سے مُنہ پھیرا، مُلک میں فساد برپا کیا، حدود شرح کو معطل کیا اور مال غنیمت کو اپنے لیے مختص کر دیا، ایسی صورت میں مُجھ سے زیادہ کس پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اصلاح کی کوشش کرے، میرے پاس تمہارےقاصد آئے اور خطوط پہنچے کے تُم نے بیعت کرنی ہے اور تُم میرے مدد گار بنو گے اور مُجھے تنہا نہ چھوڑو گے، پس اگر تُم اپنا وعدہ پُورا کرو گے تو سیدھے راستے پر پہنچو گے”۔

امام علیہ السّلام نے یہاں لوگوں کو اپنے حسب اور نسب کا حوالہ دیا اور فرمایا، مفہوم "اگر تُم اپنے وعدے سے پھر جاؤ گے تو تعجب نہیں، تُم اس سے پہلے میرے والد اور میرے چچا زاد بھائی مُسلم کیساتھ ایسا ہی کر چُکے ہو اور عنقریب اللہ مُجھے تمہاری مدد سے بے نیاز کر دے گا”۔

امام علیہ السّلام کی تقریر سُن کر حُر نے امام سے کہا کہ اگر آپ نے جنگ کی تو آپکو قتل کر دیا جائے گا، امام نے فرمایا "تُم مُجھے موت سے ڈراتے ہو اور کیا تمہاری شقاوت اس حد تک پہنچے گی کہ مُجھے قتل کر دو گے”۔

حُر کے لشکر پر کوئی اثر نہ ہُوا اور وہ امام علیہ السّلام کو کربلا کی طرف گھیر کر لیجاتے رہے۔

نمبر 11: عزیب الحجنات۔
اس مُقام پر امام علیہ السّلام کی مُلاقات طرماح بن عدی سے ہُوئی جس نے امام کو کوفے والوں کے خطرناک ارادے سے آگاہ کیا، جسے امام پہلے ہی جانتے تھے اور امام سے اپنے ساتھ کوہ آجاہ چلنے کی درخواست کی تاکہ امام وہاں پناہ لے سکیں۔ امام نے فرمایا، مفہوم "اللہ تعالی تمہیں اور تمہاری قوم کو جزائے خیر دے، ہم میں اور ان لوگوں میں عہد ہو چُکا ہے اور اب ہم اس عہد سے پھر نہیں سکتے”۔

نمبر 12: قصر بنی مقاتل۔۔
فیصلہ ہوچُکا تھا کہ امام کو کوفہ نہیں جانے دیا جائے گا چنانچہ حُر کے لشکر نے کوفہ کا راستہ بدل کر امام علیہ السّلام کوگھیر کر کربلا کی طرف لیجانا شروع کیا اور امام علیہ السّلام راستے میں قصر بنی مقاتل رُکے اور شام کے وقت میں امام نے فرمایا ” بیشک ہم اللہ کے لیے ہیں اور اُسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں”۔

امام کے 18 سالہ بیٹے علی اکبر امام کے قریب آئے تو امام علیہ السّلام نے فرمایا کہ اُنہوں نے خواب میں کسی کو کہتے سُنا ہے کہ یہ لوگ اُنہیں قتل کرنے والے ہیں۔ جس پر جناب علی اکبر نے امام علیہ السّلام کو تسلی دی اور فرمایا، مفہوم ” کیاہم سیدھے راستے پر نہیں ہیں”۔

نمبر 13: نینوا۔۔
اس مُقام پر حُر کو ابن زیاد کا خط ملا جس میں اُس نے لکھا تھا کہ امام علیہ السّلام جہاں ہیں اُنہیں وہیں روک لواور اُنہیں ایسی جگہ اُترنے پر مجبور کردو جہاں پانی اور ہریالی نہ ہو۔
حُر نے امام علیہ السّلام کو ابن زیاد کے خط سے آگاہ کیا۔ آپ نے فرمایا ہم اپنی مرضی سے نینوا میں خیمہ زن ہوں گے۔ جس پر حُر نے کہا کہ ابن زیاد کے جاسوس ہر چیز کی نگرانی کر رہے ہیں لہذا میں آپ کو ایسا نہیں کرنے دے سکتا، پھر امام کا قافلہ ایک مقام پر پہنچا تو امام نے پُوچھا اس جگہ کا کیا نام ہے؟ کسی نے جواب دیا کربلا۔ امام علیہ السّلام نے فرمایا یہ کرب و بلا کی جگہ ہے یہ وہ جگہ ہے جہاں ہمیں قتل کیا جائے گا۔

نمبر 14: کربلا
امام علیہ السّلام کے حکم پر کربلا کے میدان میں خیمے گاڑ دئیے گئے ۔ دریائے فرات خیموں سے کُچھ میل کے فاصلے پر تھا اور یہ 2 محرم 61 ہجری کا دن تھا اور عیسوی کلینڈر پر 3 اکتوبر 680 کی تاریخ تھی۔

نوٹ: اس آرٹیکل میں کربلا کے حالات تفصیلاً بیان نہیں کیے جارہے ۔
اس آرٹیکل کا مقصد امام علیہ السّلام کے مکہ سے کربلا تک کے سفر میں آنے والی منازل اور چیدہ چیدہ واقعات کا ذکر کرنا تھا تاکہ جو لوگ نہیں جانتے اُنہیں 1731 کلومیٹر کے امام کے اس سفر کی تھوڑی آگاہی ہو۔

31/05/2024

تبدیلیٔ مسلک:

امام ابو جعفر ابتداء میں شافعی المذہب تھے بعد میں شافعیت کو چھوڑ کر حنفی مسلک اختیار کیا- شافعی مسلک کو چھوڑنے کے سبب کے بارے میں مختلف مؤقف ہیں-بعض نے یہ سبب بیان کیا ہے جس کو امام ذہبی نے ’’تذکرۃ الحفاظ‘‘ میں ذکر کیا ہے:

’’و کان اولا شافعیا یقرء علی المزنی فقال لہ یوم واللہ ماجاء منک شیٔ فغضب من ذالک و انتقل من ابی عمران‘‘[10]

’’امام طحاوی پہلے شافعی المذہب تھے اور امام مزنی کے پاس پڑھتے تھے ایک دن دورانِ تعلیم امام مزنی ناراض ہوئے اور کہا کہ تم سے کچھ نہ ہوسکے گا-امام طحاوی اس بات پر ناراض ہوگئے اور جاکر ابو عمران حنفی سے پڑھنا شروع کردیا‘‘-

لیکن اگر حقیقت پسندانہ نگاہ سے دیکھا جائے تو استاد کا شاگرد پر ناراض ہونا کوئی اتنی اہم اور شدید بات نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے مسلک بدلنا پڑے-اصل بات کیا تھی؟ علامہ عبد العزیز برہاروی اس کا ذکر یوں فرماتے ہیں کہ:

’’ان الطحاوی کان شافعی المذہب فقرء فی کتابہ ان الحاملۃ اذا ماتت و فی بطنھا ولدحی لم یشق فی بطنھا خلا فالابی حنیفۃ کان الطحاوی ولد مشقو قا فقال لا ارضی بمذ ھب رجل یرضی بھلا کی فترک مذہب الشافعی و صار من عظماء المجتہدین علی مذہب ابی حنیفۃ‘‘[11]

’’امام طحاوی ابتداء شافعی المذہب تھے ایک دن انہوں نے شافعیہ کی کتاب میں پڑھا کہ جب حاملہ عورت مر جائے اور اس کے پیٹ میں بچہ زندہ ہوتو بچہ نکالنے کے لئے اس کے پیٹ کو چیرا نہیں جائے گا-برخلاف مسلک ابو حنیفہ کے امام طحاوی کو پیٹ چیر کر نکالا گیا تھا کیونکہ آپ کی والدہ فوت ہوگئیں تھیں اور آپ اس وقت اپنی والدہ کے بطن میں تھے-آپ نے اس کو پڑھ کر کہا کہ میں اس شخص کے مذہب سے راضی نہیں جو میری ہلاکت پر راضی ہو پھر انہوں نے شافعیت کو چھوڑ دیا اور حنفی مسلک کو اختیار کیا اور اس مسلک کے عظیم مجتہدین میں سے بن گئے‘‘-

امام برہاروی کی یہ بات قرینِ انصاف لگتی ہے-تبدیلیٔ مسلک کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ محمد بن احمد شروطی فرماتے ہیں:

’’قلت للطحاوی لم خالفت خالک و اخترت مذہب ابی حنیفۃ فقال لانی اری خالی یدیم النظر فی کتب ابی حنیفۃ فلذالک انتقلھت الیہ‘‘[12]

’’میں نے امام طحاوی سے پوچھا کہ آپ نے اپنے ماموں یعنی امام مزنی کا مسلک کیوں ترک کیا تو فرمایا میں نے خود ان کو دیکھا کہ وہ اکثر امام ابو حنیفہ کی کتب کا مطالعہ اور ان کی جانب مراجعت کرتے ہیں اس لئے میں نےامام ابو حنیفہ کا مسلک اختیار کرلیا‘‘-

02/03/2024

• فرعون کا دریائے نیل میں ڈوبنے کا کوئی پروگرام نہیں تھا ، مگر ڈوبنا پڑا
• شداد اگلے سینکڑوں سال اپنی جنت میں عیاشیاں کرنا چاہتا تھا ، مگر دروازے پر پہنچ کر مر گیا
• نمرود کی پلاننگ تو کئی صدیاں اور حکومت کرنے کی تھی ، مگر ایک مچھر نے مار ڈالا
• یزید نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کر کے اپنے لیے لمبے عرصے کی بادشاہت کا انتظام کیا تھا ، مگر 3 سال بعد ہی عبرتناک موت مر گیا اور آگے اسکی نسل بھی مٹ گئی
• ہٹلر کے ارادے اور بھی خطرناک تھے مگر حالات ایسے پلٹے کہ خودکشی پر مجبور ہوا

دُنیا کے ہر ظالم کو ایک مدت تک ہی وقت ملتا ہے۔ جب اللہ کی پکڑ آتی ہے تو کچھ کام نہیں آتا
سارا غرور ، گھمنڈ اور تکبر یہیں پڑا رہ جاتا ہے۔

22/02/2024

خوشخبری خوشخبری الحمدللہ مفتی سلمان ازہری صاحب کو ضمانت مل چکی ہے وہ بہت جلد اپنے گھر پہنچیں گے انشاءاللہ

22/02/2024

خوشخبری خوشخبری
الحمدللہ ثم الحمدللہ مفتی سلمان ازہری صاحب کو ضمانت مل چکی ہے وہ بہت جلد اپنے گھر پہنچیں گے انشاءاللہ
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر و احسان ہے
ایم ایس آر رضی اللہ شریفی قادری

18/01/2024

صلاح الدین ایوبی جب فلس طین فتح کرنے نکلے تو دنیا بھر کے عیسا_ئی قوتیں متحد ہوکر سامنے آگئی تو صلاح الدین ایوبی کے مشیروں نے مشورہ دیا کہ ابھی حملہ نہ کیا جاۓ ابھی شکست کا خطرہ ہے تو اس موقع پر صلاح الدین ایوبی کے تاریخی الفاظ تھے ۔۔۔
کہ

یہی تو سب سے بہترین وقت ہے انہیں ایک ساتھ تباہ کرنے کا ورنہ ایک ایک کو کہاں تلاش کرتا پھروں گا۔۔۔۔🔥
یہ تھے اپنے وقت کے سلطان جن کی وفاداری کے چرچے آج بھی دنیا کے کونے کونے میں گونج رہے ہے تاریخ ہمیشہ ٹکرانے والوں کی لکھی جاتی ہے نہ کہ تلوے چاٹنے والوں کی💯

06/12/2023

Ajh rat molaqat ke bad Madhupur railway station pe

05/12/2023

لَيسَ الجَمالُ بِأَثوابٍ تُزَيِّنُنا
إِنَّ الجَمالَ جَمالُ العِلمِ وَالأَدَبِ
لَيسَ اليَتيمُ الَّذي قَد ماتَ والِدُهُ
إِنَّ اليَتيمَ يَتيمُ العِلمِ وَالأَدَبِ

______________.𑁍 علم کیا ہے 𑁍.______________
____________________________________________
اس کا جواب سورج کے طلوع و غروب سے طلب کیجیے، چاند کے ایاب و ذہاب سے پوچھیے، آبشاروں کی روانی اور دشت و صحرا کی ویرانی سے دریافت کیجیے، پہاڑوں کے سکوت اور دریاؤں کے شور سے سوال کیجیے۔
موسموں کا با قاعدہ تغیر و تبدل، بہار و خزاں کا ظہور و خفا، نباتات کی بو قلمونی، وحوش و طیور کی طبیعی نیرنگی، فضائے بسیط کے ستارے، کائنات کی لا انتہا وسعت اس بات کی گواہی دیتی نظر آئے گی کہ علم انسان کو پستی سے بلندی کی طرف لے جاتا ہے، گمگشتگان راہ کو منزل مقصود عطا کرتا ہے، علم ایک بے پایاں سمندر ہے، حقائق الاشیاء کا نام ہے، ادراک، شعور، آگہی، فکر، تخیل، سوچ اور نظریے کا نام ہے۔
علم سے آشنا ہو کر کوئی مفکر، کوئی مدبر، کوئی محقق، کوئی مدقق بنتا ہے۔
علم کے ذریعے آدمی ایمان و یقین کی دنیا آباد کرتا ہے، بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھاتا ہے، بُروں کو اچھا، دشمن کو دوست، بے گانوں کو اپنا بناتا ہے اور دنیا میں امن و امان کی فضا پیدا کرتا ہے۔

#علم وہ دولت ہے جو لٹتی نہیں
خرچ کرنے سے کبھی گھٹتی نہیں

23/11/2023

مگر مگر مگر
______________________________________

شادی ہال ، نکاح اور ولیمہ کی تقریب کے لیے رینٹ پہ لیے جاتے ہیں اور نکاح ایک شرعی حکم ہے مگر شادی ہال کا مالک پھر بھی پیسے مانگتا ہے

حج اور عمرہ ایک عبادت اور شرعی حکم ہے مگر ایئر لائن کمپنیز اور ٹریول ایجنٹس پھر بھی پیسے مانگتے ہیں

ختنے کروانے ایک فطری و شرعی حکم ہے مگر ڈاکٹرز پھر بھی پیسے مانگتے ہیں

قربانی ایک شرعی فریضہ ہے مگر قصائی پھر بھی پیسے مانگتا ہے

تعلیم ایک شرعی حکم ہے مگر ٹیچرز پھر بھی پیسے مانگتے ہیں

مسجد بنانا نیکی کا کام ہے مگر مستری و مزدور پھر بھی پیسے مانگتے ہیں

قرآن و حدیث کی اشاعت ایک اہم فریضہ ہے مگر پبلشرز پھر بھی قیمت مانگتے ہیں

تو نہ کسی کو ان کے تقوے پر شک ہوتا ہے نہ کوئی انہیں دنیا دار لالچی کہتا ہے نہ وہ دین فروش بنتے ہیں نہ ہی ریٹ فکس کرنے کو حرام کہا جاتا ہے

اور نماز پڑھنا
خطبہ جمعہ
عیدین
درس و تقریر
یہ سب بھی شرعی احکام ہیں
مگر مگر مگر
جب امام، خطیب، مدرس، یا مقرر ہر طرف سےمجبور ہو کر، اپنے دل و ضمیر پر پتھر رکھتے ہوئے اپنی تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ کردے یا تنخواہ طے کر لے یا تنخواہ لیٹ ہونے پہ اظہارِ ناراضگی کردے
تو بس پھر

وہ دنیا دار بن جاتا ہے
دین فروش کہلواتا ہے
لالچی ہوتا ہے
تقوی سے خالی ہوتا ہے

اسلام کے شہزادو!
صرف علماء کرام اور ائمہ مساجد کے ساتھ ہی ہمارا دوہرا معیار کیوں ہے؟
حالانکہ مسجد خوبصورت ہو، مزین ہو، ہر سہولت اس میں ہو، مگر امام و خطیب نہ ہو
تو جانتے ہیں آپ!

وہ مسجد اصلاح کا مرکز نہیں بن سکتی
وہ تربیت گاہ نہیں کہلا سکتی
لوگ اس سے دین نہیں سیکھ سکتے
امام کے بغیر مسجد میں بھی پڑھی ہوئی نماز ایک ہی شمار کی جائے گی
مگر مسجد کچی ہو یا کجھور کے پتوں سے بنی ہو مگر امام وخطیب موجود ہو تو
امام کے ساتھ پڑھی ہوئی ایک نماز، 27 نمازوں کے برابر اجر دلواتی ہے
وہ تربیت گاہ بھی بن جاتی ہے
دین کا مرکز بھی کہلواتی ہے
اور اسلامی تعلیمات کا سر چشمہ ہوتی ہے
امام مسجد بھی انسان ہیں کھاتے ہیں پیتے ہیں امام مسجد کے ساتھ رشتہ دار برادری دوست احباب خوشی و غمی ہوتی ہیں *اور درس و تدریس کے لئے کتابین بھی خریدنی ہوتی ہیں
لیکن پھر بھی کچھ لوگوں کا نظریہ ہے مسجد میں ٹائل لگوانا اے سی لگوانا ہی صدقہ جاریہ ہے
جوکہ مسجد کے امام و خطیب پر خرچ کرنے سے افضل ہے۔۔
تو جناب عالی یہی سوچ ہے جس نے آج اسلام کا نام بدنام کر رکھا ہے
👈اس لیے اپنے علماء کرام اور ائمہ مساجد کی قدر کریں
انکی ضروریات کا پورا پورا خیال رکھیں ۔ تاکہ وہ مکمل انہماک سے دین کا کام کر سکیں ۔۔۔ (انکل منقول)

02/11/2023

*{قـــول بــدیــع}*

*رشتوں کا اسیر بنانے کے لیے پیروں میں نہیں دل میں بیڑی ڈالنی پڑتی ہے*

08/10/2023

( پڑھنے کے لائق تحریر)
چمن حضور ، ام المدارس مرادآباد یوپی کے فارغ التحصیل، مفسر قرآن، اپنی تفسیر، ( #بَنامِ_تفسیر_نعیمی) کو کس طرح لکھیں۔

مفتی احمد یار خان نعیمی جب تفسیر نعیمی لکھنے لگے تو سوچا پہلے عمرہ کر کے آقاﷺ سے اجازت طلب کر آؤں پھر تفسیر لکھنا شروع کروں گا ۔
مفتی صاحب عمرہ کی غرض سے مکہ مکرمہ پہنچے عمرہ سے فارغ ہوئے تو حاضری اور اجازت لینے کےلیے مدینہ شریف کےلیے عازم سفر ہوئے ,عشاء کی نماز کے بعد آقاﷺ کے در انور پر جا کر سلام پیش کیا اور تفسیر لکھنے کی اجازت چاہی اور پھر سوچا آقاﷺ کی شان اور تفسیر قرآن لکھنی ہے کیوں نہ قلم , سیاہی اور اوراق بھی مدینہ شریف سے ہی خرید لوں , مفتی صاحب خریداری کی غرض سے مدینہ شریف کے بازار میں پہنچے وہاں سے خریداری کرتے کرتے آپ کو پارکر کمپنی کا ایک پین پسند آ گیا اس کی لکھائی بہت اچھی تھی اور سوچا اس پین سے ہی آقاﷺ کی شان اور رب کے فرمان کی تفسیر لکھوں گا , جب پین کی قیمت پوچھی تو پتہ چلا کہ میری جیب میں تو اس سے آدھی رقم بھی موجود نہیں ۔ پین اپنی جگہ واپس رکھ دیا اور واپس اپنے کمرے میں آ گئے۔
صبح تہجد اور فجر کی نماز کےلیے مسجد نبویﷺ تشریف لے گئے نماز اور سلام سے فارغ ہو کر آپ ریاض الجنہ میں بیٹھے انہماک اور تندہی درود شریف پڑھ رہے تھے کہ کسی نے آہستہ سے کان میں سرگوشی کی کہ مولوی صاحب آپ پاکستان گجرات سے آئے ہیں اور احمد یار آپ کا نام ہی ہے ۔
مفتی صاحب نے جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہی دوکاندار پین ہاتھ میں لیے کھڑا تھا ,اور کہنے لگا کہ حضور یہ پین رکھ لیجیے مفتی صاحب نے فرمایا کہ آپ مجھے کیسے جانتے ہیں اور میرے پاس اس کی قیمت کے برابر رقم بھی نہیں ہے تو دوکاندار بولا میں نے آپ سے اس کی رقم طلب ہی نہیں کی ,
مفتی احمد یار خاں نعیمی نے پوچھا پھر آپ مجھے کیوں یہ پین دے رہے ہو ,
تب دوکاندار نے روتے ہوئے کہا کہ میں سالوں سے مدینہ شریف میں ہوں اور ایک دن مجھے اس بات نے غمگین کر دیا اور میں نے دعا کی کہ یا اللہ مجھے مدینہ کی فضائیں تو عطا کر چھوڑی ہیں کبھی دیدار مصطفیﷺ بھی عطا فرما دے ۔
بس گزشتہ رات میرے سر آنکھیں بند ہوئیں اور میرے نصیب جاگ اٹھے اور سرکار دوعالم ﷺ تشریف لائے اور فرمایا کہ آپ کی دوکان کا یہ پین میرے احمد یار کو بہت پسند ہے فجر کی نماز کے بعد ریاض الجنہ میں جانا اس شکل و صورت کا بندہ پاکستان (گجرات) کا رہائشی ہو گا اس کو کہنا کہ یہ پین آقاﷺ نے آپ کےلیے بھیجا ہے۔
مفتی صاحب نے پین لے لیا اور چوم کر آنکھوں کو لگایا,
دوکاندار نے بھی مفتی صاحب کا شکریہ ادا کیا کہ اس پین اور آپ کی وجہ سے مجھے دیدار مصطفیﷺ نصیب ہو گیا
اللہ کرے اس تحریر کو دل سے پڑھنے والے کو بھی دیدار مصطفی نصیب ہو
آمین یارب العالمین
اور ہاں۔ پیج کو Followers ضرور کیجئے ۔

23/09/2023

‏امام طبرانی کی کتاب میں ایک واقعہ
پڑھا آنسو ہیں کہ رک نہیں رہے
آپ بھی پڑھیں
حضرت صعصعہ بن ناجیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ در رسول الله ﷺ
پر کلمہ پڑھنے آئے
مسلمان ہونے کے بعد
نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں
عرض کرنے لگے
یا رسول الله ﷺ ایک بات پوچھنی ہے
حضور ﷺ نے فرمایا پوچھو‏ کہنے لگے یا رسول الله ﷺ دور جاہلیت میں ہم نے جونیکیاں کی ہے
اُن کا بھی الله ہمیں اجر عطا کرے گا
کیا اُسکا بھی اجر ملے گا
تو
نبی کریمﷺ نے فرمایا تُو بتا
تُو نے کیا نیکی کی
تو کہنے لگے
یا رسول الله ﷺ میرے دو اونٹ گم ہوگئے میں اپنے تیسرے اونٹ پر بیٹھ کر
اپنے دو اونٹوں ‏کو ڈھونڈنے نکلا
میں اپنے اونٹوں کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے جنگل کے اُس پار نکل گیا
جہاں پرانی آبادی تھی
وہاں میں نے اپنے دو اونٹوں کو پا لیا
ایک بوڑھا آدمی جانوروں کی نگرانی پر بیٹھا تھا
اُس کو جا کر میں نے بتایا
کہ یہ دو اونٹ میرے ہیں
وہ کہنے لگا یہ تو چرتے چرتے یہاں آئے ‏تھے تمہارے ہیں تو لے جاؤ
اُنہی باتوں میں اُس نے پانی بھی منگوا لیا چند کھجوریں بھی آ گئی میں پانی پی رہا تھا کھجوریں بھی کھا رہا تھا کہ ایک بچے کے رونے کی آواز آئی تو
بوڑھا پوچھنے لگا
بتاؤ بیٹی آئی کہ بیٹا
میں نے پوچھا بیٹی ہوئی تو کیا کرو گے کہنے لگا اگر بیٹا ہوا تو
‏قبیلے کی شان بڑھائے گا
اگر بیٹی ہوئی تو ابھی یہاں اُسے زندہ دفن کرا دوں گا
اِس لیے کہ
میں اپنی گردن اپنے داماد کے سامنے جھکا نہیں سکتا
میں بیٹی کی پیدائش پر آنے والی مصیبت برداشت نہیں کر سکتا
میں ابھی دفن کرا دوں گا
حضرت صعصعہ بن ناجیہ کہنے لگے
یا رسول الله ﷺ
‏یہ بات سن کے میرا دل نرم ہوگیا
میں نے اُسے کہا
پھر پتہ کرو بیٹی ہے کہ بیٹا ہے
اُس نے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ بیٹی آئی ہے
میں نے کہا کیا واقعی تو دفن کرے گا
کہنے لگا ہاں!
میں نے کہا دفن نہ کر مجھے دے دے
میں لے جاتا ہوں
یا رسول اللّٰه ﷺ وہ مجھے کہنے لگا
اگر میں بچی تم ‏کو دے دوں تو تم کیا دو گے
میں نے کہا
تم میرے دو اونٹ رکھ لو بچی دے دو کہنے لگا
نہیں،
دو نہیں یہ جس اونٹ پہ تو بیٹھ کے
آیا ہے یہ بھی لے لیں گے
حضرت صعصعہ بن ناجیہ کہنے لگے ایک آدمی میرے ساتھ گھر بھیجو
یہ مجھے گھر چھوڑ آئے میں یہ اونٹ اُسے واپس دےدیتا ہوں
‏یا رسول اللّٰه ﷺ
میں نے تین اونٹ دے کر ایک بچی لے لی
اُس بچی کو لاکے میں نے اپنی
کنیز کو دیا نوکرانی اُسے دودھ پلاتی
یا رسول الله ﷺ وہ بچی میرے داڑھی کے بالوں سے کھیلتی
وہ میرے سینے سے لگتی
حضور ﷺ پھر مجھے نیکی کا چسکا لگ گیا پھر میں ڈھونڈنے لگا
کہ
کون کون سا قبیلہ
‏بچیاں دفن کرتا ہے
یا رسول الله ﷺ
میں تین اونٹ دے کے بچی لایا کرتا
یا رسول الله ﷺ میں نے 360 بچیوں کی جان بچائی ہے
میری حویلی میں تین سو ساٹھ
بچیاں پلتی ہیں
حضور ﷺ مجھے بتائیں
میرا مالک مجھے اِس کا اجر دے گا؟
کہتے ہے حضور ﷺ کا رنگ بدل گیا داڑھی مبارک پر آنسو گرنے
‏لگے مجھے سینے سے لگایا
میرا ماتھا چوم کے فرمانے لگے
یہ تو تجھے اجر ہی تو ملا ہے
رب نے تجھے دولتِ ایمان عطا کر دی ہے
نبی کریم ﷺ فرمانے لگے
یہ تیرا دنیا کا اجر ہے
اور
تیرے رسولﷺ کا وعدہ ہے
قیامت کے دن رب کریم تمہیں
خزانے کھول کے دے گا۔
منقول

13/09/2023

Aaj ki Raat nawabon ke Shahar Lucknow ke naam

09/09/2023

💧مسلک اہل سنّت مسلک اعلی
حضرت💧
🖊️مفتی محمد انور نظامی مصباحی
قاضی ادارہ شرعیہ جھارکھنڈ

قسط(١)

بسم اللہ الرحمن الرحیم
حامداومصلیا
مذہب اسلام چھٹی صدی عیسوی میں طلوع ہوا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سلم نے مصائب و آلام کے سائے میں دین حق کی تبلیغ و اشاعت فرمائی . صحابہ کرام نے صعوبتوں سے مجبور ہو کر حبشہ اور مدینہ منورہ کی جانب ہجرت کی۔ دین کی حفاظت کے لئے گھر بار اور رشتہ داروں کو بھی قر بان کر دیا . بلکہ وقت آیا تو اسلام کی سربلندی کے لئے نبی پاک کی عظمت پر جان تک کی بازی لگا دی اور اسلامی پیغام کو ایشیا سے لے کر یورپ اور افریقہ تک پہنچا دیا یا صحرائے عرب سے آندھی اور طوفان کی طرح اٹھے اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں چھا گئے مشرق میں ہندوستان اور مغرب میں اسپین کی سرزمین ،اللہ اکبر، کی صداؤں سے گونج رہی تھی.

دی اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں
اور کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں
دشت تو دشت ہے دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
اسلامی فتوحات کے سامنے دنیا کی کوئی طاقت قدم نہیں جما پا رہی تھی۔
یہودی شکست کھا کر مدینہ سے خیبر اور خیبر سے بھی پسپا ہو کر ذلت و رسوائی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے تھے عیسائی سلطنتیں روم سے لے کر اسپین تک مسلمانوں کے زیر اقتدار آ گئی تھی ایران کی مجوسیت کی حفاظت میں کسری بھی ناکام رہا تھا ۔ غرض ہر طرف اسلامی پرچم لہراتا نظر آ رہا تھا.

مخالفین اسلام:
مسلسل شکست کی وجہ سے یہودیت اور عیسائیت مسلمانوں کے خلاف محاذ آرائی میں مصروف ہوگئی میدان جنگ میں ناکامی کا بدلہ لینے کے لئے زیر زمین تحریکیں چلائی گئیں رحمت عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے پردہ فرماتے ہی اسلام دشمن عناصر اپنے ہتھکنڈے استعمال کرنے لگے. خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ, منکرین زکاۃ کی سرکوبی سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ جھوٹے مدعیان نبوت مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کا فتنہ سرابھارنے لگا.
خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ ادھر قبلۂ اول مسجد اقصیٰ کو عیسائیوں کے ناپاک قدموں سے پاک کرنے میں مصروف تھے، ادھر خارجیوں کا فتنہ اسلام کی بنیادیں ہلانے کی کوششوں میں مصروف تھا. خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ اور خلیفہ چہارم حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کے زمانے میں خارجیوں کا فتنہ مزید زہریلا بن رہا تھا. غرض کہ عیسائی محاذ جنگ میں اپنی ناکامیوں کا بدلہ لینے کے لیے خفیہ طریقے سے مسلمانوں میں اپنے تربیت یافتہ جاسوسوں کے ذریعے انتشارو اختلاف کی بیج بو رہے تھے. اور انہیں دین حق سے منحرف کرنے کی ہر ممکن کوشش میں لگے ہوئے تھے انہوں نے اسی زمانہ مبارکہ میں ایک گمراہ گروہ کو پیدا کرکے اسلام کو گہری چوٹ پہنچائی اس سے کئی گمراہ فرقے پیدا ہوئے .

معتزلہ:
اس فرقے نے سنت رسول صل اللہ علیہ وسلم اور جماعت صحابہ رضی اللہ تعالی علیھم کے اصولوں سے انحراف کیا۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ تعالی علیہ (م110ھ) نے ان کا نام معتزلہ(الگ ہونےوالا) رکھا.
علامہ سعد الدین تفتازانی علیہ الرحمۃ والرضوان اپنی مشہور زمانہ تصنیف" شرح العقائد النسفیہ" میں تحریر فرماتے ہیں.
," لانھم اول فرقۃ اسسواقواعد الخلاف لما ورد بہ ظاہر السنۃ و جری علیہ جماعۃ الصحابۃ رضوان اللہ علیہم اجمعین فی باب العقائد. ”
ترجمہ : معتزلہ وہ پہلا فرقہ ہے جس نے ظاہر سنت اور طریقہ جماعت صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم سے باب عقائد میں اختلاف کی بنیاد رکھی.(شرح عقائد, ص:5)
ان کے چند بنیادی عقائد
1 مرتکب گناہ کبیرہ نہ مومن ہے نہ کافر،،
اس طرح انہوں نے اسلام وکفر کے درمیان ایک نئی منزل نکالی۔

2" نیکی کا ثواب اور بدی کی سزا اللہ تعالی پر واجب ہے۔"

حالانکہ اللہ تعالی پر کچھ بھی واجب نہیں۔نیکی کا ثواب دینا اس کا فضل ہے اور بدی کی سزا دے تو یہ عدل ہے۔اگر وہ معاف فرما دے تو اس کی رحمت ہے۔
فرمان خداوندی ہے۔
"ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ و یغفر ما دون ذالک لمن یشاء۔"
ترجمہ: بے شک اللہ تعالی شرک کو نہیں بخشے گا اور اس کے علاوہ جسے چاہے گا بخش دے گا،،
3 ۔،،اللہ تعالی کی کوئی صفت قدیم نہیں،،
حالانکہ اللہ تعالی کی تمام صفات قدیم ہیں۔حضرت حسن بصری رضی اللہ تعالی عنہ نے اس فرقہ کا نام معتزلہ ( الگ ہونے والا)رکھا اور یہ حضرات اپنے کو" اصحاب العدل والتوحید "کہتے ہیں۔ (شرح عقائد ص 6)
معتزلہ کہتے ہیں کہ اصلح للعبد اللہ تعالیٰ پر واجب ہے۔یعنی اللہ تعالی پر واجب ہے کہ بندے کے حق میں جو بہتر ہو ، اس کے لئے وہی کرے۔،،
اس سلسلے میں شیخ ابو الحسن اشعری رحمۃ اللہ علیہ نے جو شروع میں معتزلہ کے ساتھ تھے،اپنے استاذ ابو علی جبائی معتزلی سے پوچھا کہ ایسے تین بھائیوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ,ایک نیک ہو کر مرا،دوسرا گناہ گار ہو کر اور تیسرا بچپن ہی میں فوت ہوگیا۔
جبائی نے کہا کہ پہلے کو،جو نیک بن کر مرا جنت میں ثواب ملے گا۔دوسرا جو گنہگار مرا جہنم میں سزا پائے گا اور جو بچپن میں فوت ہو گیا اسے نہ سزا ملے گی نہ ثواب ملے گا۔،،
حضرت ابوالحسن اشعری نے سوال کیا کہ اگر تیسرا بھائی اللہ تعالی سے عرض کرے گا٫٫میرے پروردگار مجھے بچپن میں کیوں موت کی نیند سلا دیا،مجھے دنیا میں زندہ کیوں نہ رکھا میں بھی تیری اطاعت کر کے جنت کا حقدار بنتا٫تو رب کیا جواب دے گا۔؟
ابو علی جبائی نے کہا:
رب فرمائے گا مجھے معلوم تھا کہ تو بڑا ہو کر گناہوں میں ملوث ہو جائے گا اور جہنم کا حق دار بن جائے گا۔تمہارے لئے یہی بہتر تھا کہ بچپن میں ہی مر جائے تاکہ سزا سے نجات پا جائے،،
حضرت ابوالحسن اشعری نے فورا سوال کر دیاکہ اگر دوسرا بھائی بھی یہ عرض کر بیٹھے کہ الہ العالمین مجھے بچپن میں کیوں نہیں موت دے دیا تاکہ میں بھی آج جہنمی نہ ہوتا؟؟
تو رب تعالی کیا جواب دےگا؟
اس سوال پر ابو علی جبائی معتزلی لاجواب ہو گیا کچھ نہ بول سکا۔
حضرت ابوالحسن اشعری رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے معتزلہ کا مسلک چھوڑ دیا اور ان کے ردو ابطال اورسنت اور طریقہ جماعت صحابہ کی اشاعت میں مصروف ہوگئے انہوں نے اور ان کے متبعین نے اپنے گروہ کا نام اہلسنت و جماعت رکھا (شرح عقائد ص 6)

رافضی (شیعہ)
خود کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا ماننے والا کہتے ہیں۔یہ لوگ خلفائے راشدین میں سے تین خلفاء کی خلافت کو معاذاللہ ،،خلافت غاصبہ،، کہتےہیں ۔
ان کے کچھ خاص عقیدے
1 ۔ائمہ اطہار رضی اللہ تعالی عنہم ،انبیاء علیہم السلام سے افضل ہیں،،اور یہ بالاجماع کفر ہے۔
2.قرآن مجید محفوظ نہیں بلکہ اس میں کچھ پارے یا سورت یا آیتیں امیر المومنین عثمان غنی یا دیگر صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہ وسلم نے نکال دیے ہیں،،
یہ عقیدہ بھی بالاجماع کفر ہے
3 ۔جو کام بندے کے حق میں نافع ہو اللہ عزوجل پر واجب ہے کہ وہی کرے،،
الغرض یہ معتزلہ سے ملتا جلتا ایک فرقہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ رافضی کے مقابلے میں بھی اہل حق کا نام اہل سنت و جماعت ہی رہا۔پوری تفصیل "تحفہ اثنا عشریہ" مصنفہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمۃ والرضوان میں دیکھی جا سکتی ہے۔

فتنہ٫٫ دین الہٰی ،،
سولہویں صدی ہجری میں تیمور خاندان کا ایک سرکش٫٫اکبر اعظم،،کے نام سے تخت سلطنت پر قابض ہوا ،اس نے اپنی سلطنت کی حدود میں اضافے کے لئے فوجی قوت کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے ہتھیار کا بھی استعمال کرنا چاہا۔اس نے ہندوؤں کو خوش کرنے کے لئے اسلام کے خلاف ایک نئے دین کی داغ بیل ڈالی۔اس نے چند دولت پرست ملاؤں کے تعاون سے یہ اعلان کر دیا کہ اسلام کی آمد کو ایک ہزار سال گزرا اس کا زمانہ ختم ہوگیا اب نئے دن کی ضرورت ہے ۔آج کی "بہائیت" کا نظریہ بھی اسی وقت پروان چڑھا تھا۔
اکبر کے دربار میں نبوت،وحی، حشر ،جنت، دوزخ ہر ایک کا مذاق اڑایا جاتا۔ثواب، عذاب کے تصور کو غلط قرار دیا جاتا، ذات نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراضات کیے جاتے ۔اسلامی جہاد کا نام لوٹ پاٹ رکھا گیا کسی کی مجال نہ تھی کہ شاہی محل میں نماز ادا کرسکے۔نماز و روزہ اور دوسرے احکامات اسلامی کے خلاف ابوالفضل نے جو اکبر کا درباری عالم تھا اعلانیہ اعتراضات کرنا شروع کر دیا۔
درباری عالموں نے اکبر کو خلیفۃ الزماں ،ظل اللہ اور امام مجتہد ٹھرایا۔اس نے تمام مذاہب کو ملا کر ایک نیا مذہب بنایا جس کا نام٫٫دین الہی ،،رکھا اس نے اپنے دین کا کلمہ
"لا الہ الااللہ اکبر خلیفہ اللہ،، تجویز کیا گیا۔
گائے کا گوشت حرام قرار دیا گیا ،دیوالی،دسہرہ،شیوراتری وغیرہ ہندو تہوار مشرکانہ رسومات کے ساتھ منائےجاتے۔پیشانی پر قشقہ لگایا جاتا۔ وغیرہ مشرکانہ عقائد و نظریات شامل کرکے اس دن کی اشاعت ہونے لگی ، فوجی قوت،شاہی دولت اور زرسرپرست علماء نے اس کی اشاعت کا بیڑہ اٹھایا تھا ،اسلام اور ایمان برائے نام رہ گیا تھا مسلمانوں کے عقائد ہندوانہ عقائد میں بدلنے کی سازش رچی جارہی تھی۔(اثبات النبوت،امام ربانی مجدد الف ثانی مطبوعہ ترکی ص3)
تفصیلات دیکھی جا سکتی ہے
۔
داڑھی منڈانا جائز، سور کاگوشت کھانا حلال ، اور ایک سے زائد بیویاں رکھنا ممنوع قرار دیا گیا۔ یہ مخصوص عقائد تھے۔،، دین الہی،، کے۔

اسلامیان ہند کی کشتی اکبری طوفان میں ہچکولے کھا رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے امت کی رہنمائی کے لئے اپنا وعدہ پورا فرمایا اور سرزمین پنجاب سرہند کی دھرتی پر ایک مومن کامل کو پیدا فرمایا۔ یہ تھے امام ربانی مجدد الف ثانی علیہ الرحمۃ والرضوان جو اکبر کے زمانے میں ۹۷۵ھ/۱۵۶۳ء میں پیدا ہوئے ۔

عنفوان شباب میں انہوں نے اکبری فتنے کی بھنگ محسوس کی اور پھر اس کے خلاف حق کی آواز کے ساتھ سینہ سپر ہو گئے ۔ حق وصداقت کی آواز بلند ہوئی ۔ اسلامی عقائد و نظریات کے اثبات اور اکبری خرافات کے رد و ابطال میں دلائل کے انبار لگا دیئے۔ متعدد کتا میں لکھیں ، علمائے حق نے ان کی آواز پر آواز ملاتے ہوئے ان کی حمایت کی ۔ حکومت نے ان کی آوازہ حق کو ظلم و زیادتی اور قید بند سے دبانا چاہا مگر حق و صداقت کا پیغام پھیلتا ہی گیا۔ حضرت مجددالف ثانی کو پیغام حق سنانے کی سزا یہ ملی کہ انہیں حکومت نے گوالیار کے جیل میں قید کر دیا ۔ اکبر کے جس بیٹے جہانگیر نے آپ کو قید کیا تھا آخر وہی آپ کی محبت میں گرفتار ہو کر آپ کی رہائی کا سبب بنا اور اس نے اپنے بیٹے ،،خرم ،،کو جسے شاہ جہاں کے لقب سے جانا جاتا ہے آپ کے حلقہ ارادت میں داخل کر دیا ۔ حضرت مجددالف ثانی نے اپنی پوری زندگی اکبر کے خود ساختہ عقائد کی تردید وابطال میں اور توحید ورسالت کے اثبات میں صرف کر دی۔ انہوں نے متعدد کتابیں تحریر فرمائیں ۔ ان کفریہ و شرکیہ عقائد کی تردید میں آپ کی مشہور زمانہ تصنیف
،، اثبات النبوت“ ہے۔

اس کے علاوہ آپ کے بے شمار مکتوبات ہیں جو کئی جلدوں میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ یہ مکتوبات امام ربانی“ کے نام سے مشہور ہیں اور حق و صداقت کا آئینہ ہیں آپ کی وفات ۱۰۳۵ھ /۱۶۲۴ء میں ہوئی۔

وهابيت

وہابیت محمد بن عبد الوہاب نجدی (۱۱ھ/۱۲۰۷ء) کی جانب منسوب ایک فرقہ ہے۔ ۱۴۲ھ میں اس نے اپنے باطل عقائد ونظریات
کی اشاعت کی ابتدا کی۔ ۱۱۵۰ھ کے بعد اس کے عقائد مشہور ہوئے ۔ سرزمین نجد میں اس کے عقائد مشہور ہوئے ۔ سرزمین نجد میں اس کے نظریات محمد بن سعود کے تعاون سے پھیلنے لگا۔ ابن سعود مقام درعیہ کا گورنر تھا۔ درعیہ وہی مقام ہے جہاں جھوٹا مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کی پیدائش ہوئی تھی ۔ ابن سعود نے طاقت کے زور سے ابن عبدالوہاب نجدی کے نظریات کی اشاعت کی اور جبرا لوگوں کو اس کا تابع بنایا۔ ایک طرف ابن عبدالوہاب کو ابن سعود کی طاقت سے فائدہ

مل رہا تھا دوسری جانب ابن عبدالوہاب نجدی کی شاطرانہ چالوں سے ابن سعود کی سلطنت کی سرحد میں وسیع ہو رہی تھیں ۔ اس طرح دونوں اپنے اپنے مفادات کے پیش نظر ایک دوسرے سے منسلک رہے اور دونوں کے مفادات کا تحفظ ہوتا رہا تا آنکہ یہ فتنہ جزیرۃ العرب میں عام ہو گیا۔ برطانوی استعمار کو اس کی پشت پناہی حاصل تھی سلطنت عثمانیہ کو پارہ پارہ کرنے کے لئے انگریزوں کو جاہ پسند ابن سعود کی شکل میں عربوں کا غدار مل گیا تھا تو دوسری جانب اسلامی قوت سے عاری کرنے کیلئے اور مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کے لئے محمد بن عبدالوہاب نجدی مل گیا تھا جس نے اپنے اور اپنے متبعین کے سوا تمام مسلمانوں کو کافر و مشرک قرار دے کر اپنے ماننے والوں پر دوسرے مسلمانوں سے جنگ کرنا فرض قرار دے رکھا تھا۔ اگر کوئی شخص اسکی اتباع سے قبل حج کر چکا ہوتا تو اسے پھر حج کرنے کو کہتا کہ تو نے جب حج کیا تھا تو مشرک تھا جب کوئی مسلمان اس کے گروہ میں شامل ہوتا تو اس سے قبول کرواتا کہ پہلے کا فر تھا اور اس کے ماں باپ حالت کفر میں مرے گذشتہ ائمہ مجتہدین کو کافر کہلواتا (معاذ اللہ ) اگر کوئی شخص یہ کہنے کو تیار نہ ہوتا تو اسے قتل کر دیتا۔ وہ بر ملا کہتا کہ چھ سو سال سے سبھی کلمہ گو کافر ہیں اس نے ان تمام باطل نظریات کا اظہار اپنی کتاب ،،کشف الشبہات عن خالق الارض والسموات" میں کیا ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی اتباع کا جھوٹا دعوی کرتا تھا۔ حنبلی علما نے اس کے باطل عقائد کی تردید میں کئی کتابیں لکھیں۔ خود اس کے بھائی شیخ سلیمان بن عبد الوہاب نے اس کے رد میں ایک کتاب لکھی۔
( الفجر الصادق، علامہ حضرت جمیل آفندی عراقی ۔ مطبوعہ ترکی کو ص ۱۹ ۱۹۱۸۸۷)

وهابيت هندوستان میں :

اسلام و مسلمین کی دشمنی میں عیسائی اور یہودی لابی ہمیشہ سے سرگرم عمل رہی ہے۔ اسی کی کارستانی تھی کہ سلطنت عثمانیہ کو تاخت و تاراج کر کے اسلامی حکومتوں کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہے کر دیا اور اپنی ناجائز اولا د اسرائیل کو آباد کیا جو عربوں ہی نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کی غیرت وحمیت کو ایک کھلا چیلنج ہے۔ آج بھی دنیا میں کہیں بھی کوئی نسلی فساد یا مذہبی تصادم ہوتا ہے اور عیسائیوں کے خلاف کوئی کاروائی ہوتی ہے تو امریکہ و برطانیہ اور اس کی رکھیل مجلس اقوام متحدہ (U.N.O) اس کے خلاف کاروائی کرنے اور قرار دادیں پاس کرانے میں اور پھر فوجی کاروائی کرنے کے لئے چین بے ہو جاتے ہیں۔ لیکن برسوں سے فلسطینیوں کی حق آزادی غصب کرنے والے صہیونیوں (اسرائیلوں ) کے خلاف ان کی زبان بندرہتی ہیں ا
اورUNOکی مجلسیں خاموش ہیں۔
مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کو پارہ پارہ کرنے کے لئے ۔ مسلمانوں میں نفاق کی بیج بونے کے لئے وہابیت کی سر پرستی اور اس کی اشاعت کے لئے برطانیہ نے عرب میں ابن سعود اور ابن عبدالوہاب نجدی کی ہر طرح مدد کی وہیں ہندوستان میں اس فتنے کی اشاعت کے لئے ابن عبدالوہاب نجدی کی کتاب "کتاب التوحید کا ترجمہ مولوی اسماعیل دہلوی (م ۱۸۳۸ء) سے کروایا جس میں اللہ ورسول جل جلالہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے شانہائے اقدس میں گستاخیاں کی گئیں، مسلمانوں میں انتشار پھیلا۔ علمائے حق نے اس کی شدت سے مخالفت کی ۔
۔ عیسائیت نے کبھی بھی مسلمانوں کی ترقی وخوش حالی کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا ہے اگر سعودی عرب اور کویت کے تحفظ کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے تو صرف اور صرف اپنے مفادات کے تحفظ کے

مولا نا منورالدین دہلوی جو اسمامیل دہلوی کے ہم سبق تھے انہوں نے اسماعیل دہلوی کو وہابیت کی اشاعت سے باز رکھنے کے لئے بہت سمجھایا مگر اس نے دعوت حق قبول نہ کی تو پورے ہندوستان ، مکہ معظمہ ومدینہ منورہ کے علما سے فتوے لئے کسی نے اسماعیل دہلوی کا ساتھ نہ دیا۔

ان کے علاوہ علامہ فضل حق خیر آبادی نے اس کے رد میں "تحقیق الفتوى في ابطال الطغویٰ"
اور مولانا شاہ مخصوص اللہ دہلوی نے

"معید الایمان“ لکھ کر شائع کیا۔ واضح رہے کہ اسماعیل دہلوی پر ۱۲۴۰ھ/۱۸۲۵ء کو ہی علمانے کافرو بے دین ہونے کا فتویٰ صادر فرمایا۔ جب کہ امام احمد رضا کی ولادت کئی سال بعد ۱۲۷۲ھ/۱۸۵۶ء میں ہوئی۔ تقویت الایمان انیسویں صدی کے اوائل میں لکھی گئی وہ بھی فارسی زبان میں۔ اس وقت مسلمان عربی فارسی یا اردو زبان سے واقف تھے ،لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ تقویت الایمان لکھے جانے کے چند سالوں ۱۸۵۲ء میں ہی اسے انگریزی زبان میں یورپ میں شائع کر دیا گیا تھا۔ اس سے ظاہر ہے کہ یہ ایک ایسی تحریک تھی جس کا مقصد سیاسی اغراض و مقاصد کا حصول تھا۔

اسی طرح کی ایک تحریک جومرزا غلام احمد قادیانی نے چلائی تھی اور وہ قادیانیت“ کے نام سے مشہور ہوئی اسے بھی انگریزوں کی پشت پناہی حاصل تھی ۔ اور انہیں انگریزی گورنمنٹ سے تنخواہ بھی ملی تھی چنانچہ جب پورا ہندوستان انگریزوں سے لڑ رہا تھا ۔ یہ لوگ مسلمانوں سے برسر پیکار تھے اور انگریزوں سے لڑائی کو نا جائز قرار دیتے تھے ۔ "حیات طیبہ "صفحہ ۲۶۹ میں ہے کہ مولوی اسماعیل نے فرمایا بلکہ اگر کوئی ان پر ( انگریزوں ) حملہ آور ہو تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اس (حملہ آور) سے لڑیں اور پنی گورنمنٹ پر آنچ نہ آنے دیں"

وهابيت ديوبندیت کے روپ میں :
(1) ہندوستان میں وہابیت کی بنیاد جس اسماعیل دہلوی نے رکھی تھی اس کی ترویج واشاعت مولوی قاسم نانوتوی نے مدرسہ دیوبند سے کی ۔بلکہ اس سے بھی ایک قدم اور آگے بڑھ کر حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جن کو قرآن میں خاتم النبین (آخری نبی) سے خطاب فرمایا گیا اور خود فرمان رسول ہے "لا نبی بعدی" یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔ اس قرآنی عقیدے کے خلاف مولوی قاسم نانوتوی نے تحریر الناس میں لکھا کہ "اگر آپ کےبعد بھی کوئی نبی
آجائے تو بھی خاتمیت محمدی میں کوئی فرق نہیں پڑے گا"۔ (تحذیر الناس ص ۲۸ )

اس طرح آخری نبی ہونے سے انکار کیا
(۲) اس کے بعد مولوی رشید احمد گنگوہی اور ان کے شاگردخلیل احمد امبیٹھوی نے براہین قاطعہ میں شیطان اور ملک الموت کے علم سے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے علم کو کمتر قرار دیا بلکہ شیطان اور ملک الموت کے لیے علم غیب ماننا ایمان اور حضور کے لئے ماننا شرک ٹہرایا ،
اس طرح نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو شیطان اور ملک الموت سے کمتر قرار دیا۔

(۳) مولوی اشرف علی تھانوی نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے علم پاک کو جانوروں، پاگلوں کے علم کی طرح بتایا۔ ( معاذ اللہ )

یہ وہ کفریہ عقائد تھے جو دیو بندی لابی ہندوستان کے مسلمانوں کے عقائد وایمان پر ڈاکہ ڈالنے کے لئے مشتہر کر رہی تھی ۔ ۔
اکابر دیو بند کو انگریزی حکومت ان کاموں کے لئے مالی امداد فراہم کر رہی تھی چنانچہ مکالمۃ الصدرین میں فاضل دیو بند مولوی شبیر احمد عثمانی نے اس کا اعتراف کیا کہ مولانا اشرف علی تھانوی کو برطانوی حکومت چھ سور ہے ماہ وار دیتی تھی“ (مکالمۃ الصدرین ص ۹ مطبوعہ )

وھابیت کے خلاف معر که آرائی میں پیش پیش رھنے والے علمائے اھل سنت :

علمائے ہند میں سے سب سے پہلے علامہ فضل حق خیر آبادی علیہ الرحمہ (۱۲۷۸ھ /۱۸۶۱ء) نے امام احمد رضا کی پیدائش سے بتیس (۳۲) سال قبل ۱۲۴۰ھ میں اسماعیل دہلوی کی کتاب تقویت الایمان کے رد میں ایک جلیل الشان کتاب" تحقیق الفتوی فی ابطال الطغویٰ" تصنیف فرمائی جس میں اسماعیل دہلوی کو اس کے عقائد باطلہ اور خدا اور رسول کی شان میں گستاخی کی وجہ سے کافر مرتد اور
بے دین قرار دیتے ہوئے ان کے قتل و تکفیر کا فتویٰ شرعی صادر کیا۔ حضرت مولانا شاہ رفیع الدین محدث دہلوی کے صاحب زادگان مولانا شاہ مخصوص اللہ اور مولانا شاہ موسیٰ نے اور حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے مشاہیر زمانہ شاگردان ، مولانا شاہ احمد سعید مجددی، مفتی صدر الدین آزرده (م ۱۸۰۷/۵۱۲۷۸ء ) مولانا رشید الدین دہلوی مولانا محبوب علی دہلوی علیہم الرحمة والرضوان وغیرہ ستر (۷۰) علمائے دہلی نے اس حقانی فتوی کی تصدیق کرتے ہوئے اس پر دستخط فرمائی۔ اس کے بعد استاذ العلما حضرت مولانا شاہ فضل الرسول
بدایونی علیہ الرحمہ نے وہابیت کی تردید میں" سیف الجبار" اور "المعتقد المنتقد "تحریر فرمائی. علمی خانوادہ فرنگی محل لکھنو کے تربیت یافتہ مولانا عبدالرحمن فاروقی سلہٹی آسامی نے رسالہ "سیف الابرار" میں وہابیت کی رد بلیغ فرمائی ۔ اور اسماعیل دہلوی کو بارگاہ رسول کا گستاخ قرار دیا۔ پھر ابوالکلام آزاد کے والد مولانا خیر الدین مکی ثم کلکتوی علیہ الرحمہ نے وہابیت کی تردید میں سرگرم حصہ لیا اور کلکتہ سے لے کر عرب کی سرزمین تک وہابیت کے خلاف برسر پیکار ہے۔ رد وہابیت میں انہوں نے دس جلدوں پر مشتمل ایک ضخیم کتاب " نجم الرجم الشیاطین" تحریر فرمائی۔

( آزاد کی کہانی ص ۳۸۱)

یہ وہ زمانہ تھا جب وہابیت اپنے ابتدائی دور میں تھی اور

اسلامی عقائد و نظریات پر شب خون مارنے کی تیاری ہو رہی تھی ، ان علما، فقہا نے اپنے دور میں ان کا جم کر مقابلہ کیا اور لوگوں کو حقانیت سے روشناس کرایا مسلمانوں نے ان نئے نظریات کو قبول نہیں کیا۔

۱۸۵۷ء ہندوستان کی تاریخ کا ایک ایسا موڑ ہے جب پورا ہندوستان غدر اور اس سے پیدا شدہ حالات سے نبرد آزمائی میں مصروف تھا وہابیت کے خلاف صف آرا ہونے والے علما نے جہاں وہابیت کی مخالفت کی تھی وہیں انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ صادر کیا تھا۔ انگریز جب اپنی شاطرانہ چالوں سے غدر کو نام کام بنانے میں کامیاب ہو گئے تو انہوں نے علمائے حق کو چن چن کر گرفتار کرنا شروع کر دیا ان کے خلاف مقدمات چلائے گئے ، یہی موقع تھا جب وہابیوں نے اپنے انگریز آقا کی وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے علمائے اہل سنت کو قید کر وانے اور ان کے خلاف مقدمات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا مدرسہ دیو بند کو اور علمائے دیو بند کو انگریزی گورنمنٹ کی

جانب سے پروانہ نجات پہلے ہی سے حاصل ہو چکا تھا کہ یہ لوگ گورنمنٹ کے وفادار ہیں ۔ ( رپورٹ جنرل کمیٹی پبلک بتوسط مولانااحسن نانوتوی)

وہابیوں کے لئے یہ سنہری موقع تھا جب ان سے لوہا لینے والے اور ان کی قلعی کھولنے والے مجاہدین اور علما ومحد ثین جزیرہ انڈمان میں قید تھے ۔ علامہ فضل حق خیر آبادی جنہوں نے سب سے پہلے وہابیت کے خلاف قلم اٹھا یا تھا۔ وہ انگریزوں کے خلاف فتویٰ جہاد صادر کرنے کے جرم میں جزیرہ انڈمان میں قید تھے۔ (ملاحظہ ہو باغی ہندوستان، امتیاز حق و غیره)

وہابی چونکہ تقلید کے خلاف تھے اس سے انہیں حنفیوں کو اپنے دامِ فریب میں پھنسانے کا موقع نہیں مل پا رہا تھا ۔ اس لئے انہوں نے حنفیت کا لبادہ اوڑ ھ کر امام ابو حنیفہ کی تقلید کا دعوی کرتے ہوئے دیوبند میں اپنا محاذ تیار کیا اور وہاں سے وہابی افکار و نظریات کی اشاعت کا بیڑہ مولوی قاسم نانوتوی ، رشید احمد گنگوہی خلیل احمد انبیٹھوی اور اشرف علی تھانوی نے اٹھایا ۔ یہ چاروں دیوبندیت کے ستون ہیں جن میں سے۔ (۱) قاسم نانوتوی نے تحذیر الناس ص ۲۸ میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد بھی نبی آنے کو ممکن قرار دیتے ہوئے ختم نبوت کا انکار کیا۔ (۲) رشید احمد گنگوہی اور خلیل احمد انبیٹھوی نے براہین قاطعہ ص ۱۵ پر نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے علم پاک کو شیطان ابلیس لعین اور

ملکہ الموت سے کم تر قرار دیا۔ (۳) اشرف علی تھانوی نے حفظ الایمان ص ۱۵ پر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے علم کو جانور وں پاگلوں کی طرح قرار دیا ۔ معاذ اللہ معاذ اللہ معاذاللہ۔

قادیانیت کا فتنه :
قاسم نانوتوی کی کتاب تحذیر الناس سے شہ پا کر مرزا غلام احمد قادیانی (۱۸۹۳، ۱۰۸ ) پنجابی نے نبوت کا دعوی کر دیا ۔ قاسم نانوتوی کی طرح اس کا بھی کہنا تھا کہ خاتم النبیین کا معنی آخری نبی نہیں بلکہ اصلی نبی ہے۔ ان کے بعد بھی نبی آنے سے ختم نبوت پر کوئی اثر نہیں
پڑتا حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم خاتم النبین پھر بھی برقرار رہتے ہیں۔ دوسری جانب دہریت ہندویت صلح کلیت، چکڑالویت تھی۔ گویا ہر چہار جانب سے اسلامیان ہند کے ایمان و عقیدے پر نقب زنی کی جارہی ھی ان کے ایمان کو لوٹنے کے لئے چوطرف محاذ کھول دیا گیا تھا۔ انہی حالات میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا پروان چڑھتے ہیں ۱۲۷۲ھ / ۱۸۵۶ء میں غدر سے صرف ایک سال قبل آپ کی پیدائش ہوتی ہے ۔ آپ کے ہوش سنبھالتے وقت یہ سارے فتنےپھیل رہے تھے ۔ امام احمد رضا نے اسلامیان ہند کے عقائد و ایمان کے تحفظ اور اللہ عزوجل اور حضرت مصطفیٰ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی شانہائے اقدس پر ہونے والے حملوں کے خلاف زبان و قلم کی تلوار سنبھالی اور ان دریدہ دہنوں کی کفری عبارات پر حکم شرعی بیان کرتے ہوئے بارگاہ رب العزت اور بارگاہ رسالت کی توہین کی وجہ سے قاسم نانوتوی ، رشید احمد گنگوہی خلیل احمد انبیٹھوی ،اشرف علی تھانوی اور بانی قادیانیت مرزا غلام احمد قادیانی پر کفر وارتداد کا حکم لگاتے ہوئے تصدیق کے لئے علمائے حرمین شریفین ( مکہ معظمہ ومدینہ منورہ) کی خدمات عالیہ میں پیش فرمایا ۔ مکہ مکرمہ کے (۲۰) جلیل القدر مفتیان عظام اور مدینہ منورہ کے تیرہ (۱۳) عظیم المرتب علما وفقہا نے مذکورہ افراد کے کفر وارتداد کی تصدیق فرمائی یہ تمام تصدیقات حسام الحرمین کے نام سے شائع کی گئیں ۔ آج بھی ان کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے ۔ پھر یہ فتویٰ غیر منقسم ہندوستان پیشاور تا بنگال کے علما کی خدمات عالیہ میں پیش کیا گیا اس پر ان حضرات نے بھی تصدیق فرمائی ۔ دوسواڑسٹھ علماء اسلام کی تصديقات
”الصوارم الہندیہ"
کے نام سے آج بھی موجود ہے۔ امام احمد رضا نے اہل سنت و جماعت کی دفاع کی ،عقائد اہل سنت کے اثبات اور وہابیت ، دیوبندیت، نیچریت ، چکڑالویت، قادیانیت اور رافضیت کے خلاف قلمی جہاد میں پوری زندگی صرف کر دی ۔ کہیں سے بھی اللہ ورسول کی شان میں کسی کی دریدہ دینی ظاہر ہوئی ،اس کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیا ۔ عام مسلمانوں کو اس کے مکر وفریب سے بچا کر ان کے ایمان کی کشتی ڈوبنے سے بچا لیا ۔
ہم نے باطل فرقوں کا اجمالی تعارف اس لیے پیش کر دیا ہے تاکہ اپ کو اس کا اندازہ ہو سکے کہ ہر دور میں ابلیسی نظام، الہی نظام کو درہم برہم کرنے کی ناکام کوششوں میں لگا رہا مگر حق و صداقت کا سورج ہر زمانے میں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جگمگاتا رہا۔ اللہ رب العزت نے اپنے محبوب دین کو محفوظ رکھنے کے لیے ہر دور میں حق و صداقت کے علمبرداروں کو پیدا فرمایا ہے عربی کا مقولہ ہے" لکل فرعون موسی" ہر ”فرعونے را موسی "

ہر دور میں اٹھتے ہیں یزیدی فتنے
ہر دور میں شبیر جنم لیتے ہیں
سے

(جاری)

Address

Ramgarh

Telephone

+918084799210

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Mufti Shadab Raza Qadri posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share