
06/02/2025
تو کیا یہ ممکن ہے کہ غزہ خالی ہو جائے اور وہ دنیا کی مہنگی ترین پراپرٹیوں میں شامل کر لیا جائے۔ یا پھر اسے دیوانے کا خواب سمجھا جائے؟
جب نومبر 1917 میں برطانوی وزیرِ خارجہ سر آرتھر بالفور نے صیہونی رہنما سر والٹر روتھ چائلڈز کو سرکارِ انگلشیہ کی جانب سے تحریراً یقین دلایا کہ برطانیہ فلسطین میں یہودیوں کے قومی وطن کے قیام کی مکمل حمایت کرتا ہے، تب بھی آج کی طرح بہت سے عقل پرست اپنے ناخن دانتوں سے کاٹ رہے تھے۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ایک خطہ جو ابھی تک سلطنتِ عثمانیہ کا صوبہ ہے اسے کیسے ایک غیر قابض طاقت (برطانیہ) ایک اقلیتی گروہ کو دان کرنے کا وعدہ کر سکتی ہے۔
بھلا 90 فیصد مقامی عرب کیسے دس فیصد سے بھی کم یہودی آبادکاروں کو ایک الگ مملکت کاڑھنے دیں گے۔ مگر سب نے دیکھا کہ تمام تر ہائے واویلا کے باوجود اقوامِ متحدہ کی چھایا تلے نومبر 1947 میں فلسطین دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔
53 فیصد رقبہ 32 فیصد آبادی کو اور 47 فیصد رقبہ 67 فیصد عربوں کو الاٹ ہوا۔ زمین خالی کروائی گئی اور ماتمیوں کے سامنے خالی کروائی گئی۔
تب کیا قیامت آ گئی جو اب آ جائے گی۔ اقوامِ متحدہ، عالمی عدالت انصاف، عرب لیگ، اسلامی کانفرنس، انسانی حقوق کے ادارے اور ہمسائے کل بھی شور کر رہے تھے۔ آج بھی کر رہے ہیں۔ سو کرتے رہیں۔ مرغیوں کا واویلا چھری کو کند کر دیتا ہے کیا؟
بہت ہو گئی سالمیت و خودمختاری، پرامن بقاِ باہمی، عالمی کنونشنز، بین الاقوامی قانون کی ٹیں ٹیں۔ جس کی لاٹھی کے فطری اصول پر قائم ہو رہے نیو ورلڈ آرڈر کا سامنا کیجیے۔ بات سمجھ میں نہیں آ رہی تو ٹرک کے پیچھے لکھا پڑھ لیں ’پاس کر ورنہ برداشت کر۔‘