Shah Ji

Shah Ji مل تو رہے ہیں آپ بڑی عقیدت سے
خوف آتا ہے مجھے اس محبت سے

میرے نبی ﷺ تو مہانتم ہیںوجود اُپون، چرتر درپن،وشال ہرِدے، کمال چِنتن۔سُوچھ ساگر، پُنیِت چِتوَن،اسیِم کرِپا، پَتِت پاوَن۔...
26/09/2025

میرے نبی ﷺ تو مہانتم ہیں

وجود اُپون، چرتر درپن،
وشال ہرِدے، کمال چِنتن۔
سُوچھ ساگر، پُنیِت چِتوَن،
اسیِم کرِپا، پَتِت پاوَن۔
میرے نبی ﷺ تو مہانتم ہیں॥

سمگر سیوا، اُشا سروَر،
جگت کا گورو، دَیا کا ساگر۔
وَہ دِوْی پرکاش کی کرن سا،
وَہ ایک دِنکَر، وَہ ایک دِواکَر۔
میرے نبی ﷺ تو مہانتم ہیں॥

ہیرا کے پَرْوَت پے جگمگایا،
تو ساری دُنیا نے نُور پایا۔
وَہ جس نے دُشٹوں کی شِشٹتا دی،
پَلَٹ کَر رَکھ دی دھرَا کی کایَا۔
میرے نبی ﷺ تو مہانتم ہیں॥

وَہ جسکے چرَنوں میں آپدائیں،
جو دُشمنوں کو بھی دِیں دُعائیں۔
جن کی شِکشاؤں میں نِہِت ہیں،
اَنت کلِیان کی وِدھائیں۔
میرے نبی ﷺ تو مہانتم ہیں॥

🌴 سیرت النبی ﷺ 🌴عنوان: "تم وہی ہو"✍🏻 مردوں میں سب سے پہلے سیدنا ابوبکر صدیقؓ ایمان لائے۔ آپ نبی اکرم ﷺ کے سب سے پہلے دوس...
16/09/2025

🌴 سیرت النبی ﷺ 🌴

عنوان: "تم وہی ہو"

✍🏻 مردوں میں سب سے پہلے سیدنا ابوبکر صدیقؓ ایمان لائے۔ آپ نبی اکرم ﷺ کے سب سے پہلے دوست تھے۔ حضور نبی کریم ﷺ اکثر ان کے گھر آتے اور ان سے باتیں کیا کرتے تھے۔

ایک دن حضرت حکیم بن حزامؓ کے پاس بیٹھے تھے کہ ان کی ایک باندی آئی اور کہنے لگی:
"آج آپ کی پھوپھی خدیجہ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان کے شوہر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے پیغمبر ہیں جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام تھے۔"

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے یہ بات سنتے ہی وہاں سے اٹھ کر نبی کریم ﷺ کے پاس آکر پوچھا۔ آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو وحی آنے کا پورا واقعہ سنایا اور بتایا کہ آپ کو تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ سنتے ہی حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عرض کیا:
"میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ بالکل سچ کہتے ہیں، واقعی اللہ کے رسول ہیں۔"

ان کی اس فوری تصدیق پر نبی کریم ﷺ نے آپ کو صدیق کا لقب عطا فرمایا۔ دوسری روایت کے مطابق صدیق کا لقب اس وقت دیا جب آپ ﷺ معراج سے واپس آئے اور کفار نے جھٹلایا، لیکن حضرت ابوبکرؓ نے فوراً تصدیق کی۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ کا اصل نام عبداللہ تھا، اس سے پہلے ان کا نام عبدالکعبہ تھا، جو نبی کریم ﷺ نے بدل دیا۔ آپ کو عتیق کا لقب بھی دیا گیا۔ عتیق کے معنی ہیں خوبصورت اور آزاد۔ روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
"یہ جہنم کی آگ سے آزاد ہیں۔"

قریش میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کا مرتبہ بہت بلند تھا۔ آپ خوش اخلاق، سخی اور دولت مند تھے۔ لوگ آپ کی مجلس میں بیٹھنا پسند کرتے تھے۔ آپ خوابوں کی تعبیر بتانے میں بھی ماہر تھے۔ علامہ ابن سیرینؒ فرماتے ہیں:
"نبی اکرم ﷺ کے بعد اس امت میں سب سے بہترین خواب کی تعبیر بتانے والے حضرت ابوبکر صدیقؓ ہیں۔"

اسی طرح نسب نامہ بیان کرنے میں بھی آپ سب سے بڑے عالم تھے۔ حضرت جبیر بن مطعمؓ فرماتے ہیں:
"میں نے نسب ناموں کا علم خصوصاً قریش کے نسب نامے حضرت ابوبکر صدیقؓ سے سیکھے ہیں، کیونکہ وہ اس علم کے سب سے بڑے ماہر تھے۔"

نبی اکرم ﷺ فرمایا کرتے تھے:
"میں نے جسے بھی اسلام کی دعوت دی، اس نے کچھ نہ کچھ سوچا، سوائے ابوبکر کے۔ وہ بغیر ہچکچاہٹ فوراً مسلمان ہوگئے۔"

ایک حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ نے میری مدد کے لیے چار وزیر مقرر فرمائے ہیں، دو آسمان والوں میں سے (جبرائیل و میکائیل علیہما السلام) اور دو زمین والوں میں سے (ابوبکر و عمرؓ)۔"

اسلام لانے سے پہلے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ایک خواب دیکھا کہ چاند مکہ میں اترا اور اس کا ایک ایک حصہ ہر گھر میں داخل ہوا، پھر سارا چاند آپؓ کی گود میں جمع ہوگیا۔ ایک عیسائی عالم نے اس کی تعبیر دی:
"تم ایک نبی کی پیروی کرو گے اور اس کے وزیر اور بعد میں خلیفہ بنو گے۔"

اسی طرح یمن میں ایک بوڑھے عالم نے آپ کو دیکھ کر کہا:
"میرے خیال میں تم قریش کے تیمی خاندان سے ہو۔"
پھر اس نے کہا:
"حرم میں ایک نبی کا ظہور ہونے والا ہے۔ ان کی مدد کرنے والا ایک جوان ہوگا اور ایک پختہ عمر کا ساتھی، اور وہ ساتھی تم ہو گے۔"

پھر اس نے آپؓ کی علامت دیکھ کر کہا:
"پروردگارِ کعبہ کی قسم! تم وہی ہو۔"

☆☆☆

📚 مصنف: عبداللہ فارانی
کتاب: سیرت النبی ﷺ قدم بہ قدم

میں نے بڑے ادب سے پوچھا:"بابا جی، کامیاب شادی کا نسخہ کیا ہے؟"بابا جی نے مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے کہا:"نسخہ؟ پُتر یہ دوا...
15/09/2025

میں نے بڑے ادب سے پوچھا:
"بابا جی، کامیاب شادی کا نسخہ کیا ہے؟"

بابا جی نے مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے کہا:
"نسخہ؟ پُتر یہ دوا ابھی تک فارمیسی میں آئی ہی نہیں!" 😆

‏کچھ مراسم ہوتے ہیں ازل سے تحریر شدہیوں ہی نہیں ہو جاتی ہیں نسبتیں ہمدم🤍
13/09/2025

‏کچھ مراسم ہوتے ہیں ازل سے تحریر شدہ

یوں ہی نہیں ہو جاتی ہیں نسبتیں ہمدم🤍

10/09/2025
🚢 سو سالہ جہاز اور قدرت کا کمال!ارے بھائیو! جہازوں کی کہانیاں تو آپ نے بہت سن رکھی ہوں گی — کبھی طوفان میں ڈوبنے والے، ک...
01/09/2025

🚢 سو سالہ جہاز اور قدرت کا کمال!

ارے بھائیو! جہازوں کی کہانیاں تو آپ نے بہت سن رکھی ہوں گی — کبھی طوفان میں ڈوبنے والے، کبھی آگ میں جلنے والے۔ مگر یہ کہانی ایک ایسے جہاز کی ہے جو نہ ڈوبا، نہ جلا… بلکہ آج بھی اپنی انوکھی شان کے ساتھ سمندر پر موجود ہے۔

جی ہاں! یہ ہے SS Ayrfield — پرانا کارگو جہاز جو دوسری جنگِ عظیم میں فوجی سامان ڈھونے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ جنگ ختم ہوئی تو جناب کو آسٹریلیا کے ساحل پر چھوڑ دیا گیا۔ سمندر اور وقت نے مل کر جہاز کو کھوکھلا کردیا، لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی۔

قدرت نے کہا: "صاحب! اگر تم خالی کھڑے رہو گے تو میں اپنی مرضی کا کام کرلوں گی۔" اور یوں جہاز کے سینے سے ننھے پودے اُگنے لگے۔ پھر جھاڑیاں، پھر درخت، اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا جہاز ایک تیرتا ہوا جنگل بن گیا۔ 🌿

آج سڈنی کے قریب ہوم بش بے میں یہ جہاز آدھا پانی میں اور آدھا سبزے میں ہے۔ سیّاح حیرت سے تصویریں بناتے ہیں اور سوچتے ہیں: "ارے واہ! یہ تو کھنڈر بھی نہیں، بلکہ قدرت کا جادو ہے!"

✨ سبق یہ ہے دوستو کہ انسان چاہے جنگ کے لیے کچھ بنائے، وقت اور قدرت اُس میں زندگی کی ہریالی بھر ہی دیتی ہیں۔
یہی وہ بات ہے جو شاعر نے بڑے خوبصورت انداز میں کہی تھی:

؎ "گر خزاں آئے تو کیا، سبز ہو جاتے ہیں شجر
وقت کے صدمے سے بھی اُمید جنم لیتی ہے"

تو صاحبو! جہاز ہو یا انسان، اگر دل میں تھوڑی سی جگہ خالی رہ جائے، تو قدرت اُس میں نئی زندگی ضرور اُگا دیتی ہے۔ 🌱

"شہنشاہ معظم کو اپنی ہندوستانی فوج کے لیے جوانوں کی ضرورت ہے۔"یہ اشتہارات شہروں کے ساتھ ساتھ دیہات میں بھی چسپاں کیے جات...
31/08/2025

"شہنشاہ معظم کو اپنی ہندوستانی فوج کے لیے جوانوں کی ضرورت ہے۔"

یہ اشتہارات شہروں کے ساتھ ساتھ دیہات میں بھی چسپاں کیے جاتے تاکہ نوجوان غربت اور بے روزگاری سے نکلنے کے لالچ میں فوج میں شمولیت اختیار کریں۔
---
فوجیوں کے لیے مراعات اور شرائط

1️⃣ دستخطی انعام (Joining Bonus):
کل 50 روپے۔ 10 روپے فوراً بھرتی کے وقت، اور باقی 40 روپے اپنے یونٹ پہنچنے پر۔

2️⃣ تنخواہیں (شعبے کے مطابق):

ماؤنٹین آرٹلری گنر: 12 روپے ماہانہ۔

کوریئر/ڈرائیور (درابی): 11 روپے ماہانہ۔

کیولری (سوار): 34 روپے ماہانہ (جس میں 15 روپے گھوڑا الاؤنس شامل تھا)۔

سیپرز اینڈ ڈگرز: 11 روپے ماہانہ + روزانہ 1½ آنے سے 4 آنے تک الاؤنس۔

پلٹن (Infantry): سپاہی 11 روپے، کوریئر/ڈرائیور 9 روپے ماہانہ۔

3️⃣ راشن اور ایندھن: مفت۔

4️⃣ جنگی بونس: محاذ پر تعیناتی پر 5 روپے ماہانہ اضافی۔

5️⃣ اہل خانہ کے لیے کٹوتی سروس: سپاہی کی ہدایت پر تنخواہ کا کچھ حصہ حکومت براہِ راست اس کے گھر والوں کو پہنچاتی تھی۔
---
پہلی جنگِ عظیم اور ہندوستانی فوج

جنگ کے آغاز پر برطانوی ہند کی فوج میں صرف 1,60,000 سپاہی تھے۔ لیکن بھرتیوں کے نتیجے میں 13 لاکھ ہندوستانی جوان برطانوی فوج کا حصہ بنے۔
ان میں سے 7,40,000 کو یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے محاذوں پر بھیجا گیا۔

نتائج نہایت تلخ تھے:

74 ہزار سے زائد شہید

69 ہزار کے قریب زخمی

ہزاروں سپاہی دشمن کے ہاتھوں قید
---
انڈیا گیٹ کی کہانی

ان قربانیوں کو یاد رکھنے کے لیے برطانوی حکومت نے دہلی میں ایک عظیم یادگار تعمیر کی — انڈیا گیٹ۔

اس کا ڈیزائن مشہور برطانوی معمار سر ایڈون لیٹینز نے تیار کیا۔

تعمیر کا آغاز 1921 میں ہوا اور 1931 میں مکمل ہوا۔

یہ 42 میٹر بلند محرابی یادگار دراصل 84,000 سے زیادہ ہندوستانی فوجیوں کی یاد میں بنائی گئی، جنہوں نے پہلی جنگِ عظیم اور دوسری افغان جنگ میں اپنی جان قربان کی۔

انڈیا گیٹ کی دیواروں پر ہزاروں شہید سپاہیوں کے نام کندہ ہیں۔
آج بھی یہ مقام ہندوستانی فوج کی قربانیوں کا سب سے بڑا نشان ہے، جہاں ہر سال شہیدوں کی یاد میں تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔
---
دوسری جنگِ عظیم

اس بار ہندوستانی فوج دنیا کی سب سے بڑی رضاکار فوج بن گئی۔
کل 25 لاکھ سے زیادہ جوان برما، شمالی افریقہ، مشرقِ وسطیٰ اور یورپ میں بھیجے گئے۔
اس جنگ میں بھی ہندوستانی فوج نے بھاری جانی نقصان اٹھایا —

تقریباً 87 ہزار شہید

لاکھوں زخمی یا معذور
---
بھرتی کے بڑے مراکز

برطانوی فوج نے کچھ خطوں کو "مارشل ریس" قرار دیا اور وہاں سے زیادہ بھرتیاں کیں۔ پنجاب، سرحد، بہار اور گڑھوال کے علاقوں کے نوجوان سب سے زیادہ شامل ہوئے۔
انہیں تنخواہ، مفت راشن، پنشن اور زمین کے خواب دکھا کر جنگی مشین کا حصہ بنایا گیا۔
---
سیاسی اثرات اور آزادی کی تحریک

ان قربانیوں کے باوجود برطانیہ نے ہندوستان کو آزادی دینے سے انکار کیا۔
اس کے نتیجے میں ایک نئی سوچ پروان چڑھی:

"ہم نے دوسروں کے لیے خون بہایا ہے، اب ہمیں اپنی آزادی چاہیے۔"

یہی احساس ہندوستان کی تحریکِ آزادی کو طاقتور بنانے کا سبب بنا۔
---
نتیجہ

یہ پوسٹر محض ایک اشتہار نہیں بلکہ نوآبادیاتی سیاست کی علامت تھا۔
غلام قوموں کے بیٹوں کو ایسی جنگوں میں جھونکا گیا جن کا ان کی اپنی سرزمین سے کوئی تعلق نہ تھا۔

لیکن ان ہی قربانیوں نے برصغیر کے دل میں آزادی کی آگ بھڑکائی۔
اور آج انڈیا گیٹ اس تلخ مگر شاندار تاریخ کی گواہی دیتا ہے کہ ہندوستانی سپاہیوں نے برصغیر کی آزادی کی راہ ہموار کرنے کے لیے کس قدر قربانیاں دی تھیں۔
---
💭 یہ مضمون محض تاریخ نہیں بلکہ یاد دہانی ہے کہ کس طرح طاقتور سامراج غلام قوموں کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں، مگر آخرکار قربانیوں سے جنم لینے والا شعور ہی آزادی کی بنیاد بنتا ہے۔

چمن چمن ہی نہیں جس کے گوشہ گوشہ میں کہیں بہار نہ آئے کہیں بہار آئےیہ میکدہ کی یہ ساقی گری کی ہے توہین  کوئی ہو جام بکف ک...
31/08/2025

چمن چمن ہی نہیں جس کے گوشہ گوشہ میں
کہیں بہار نہ آئے کہیں بہار آئے

یہ میکدہ کی یہ ساقی گری کی ہے توہین
کوئی ہو جام بکف کوئی شرمسار آئے

خلوص و ہمت اہل چمن پہ ہے موقوف
کہ شاخ خشک میں بھی پھر سے برگ و بار آئے

جگر مرادآبادی
پیشکش: شاہ جی

اسرائیل نے غزہ میں رائٹرز کے لیے کام کرنے والے حسام المسری، ایسوسی ایٹڈ پریس کے لیے کام کرنے والی مریم ابو دگّہ، الجزیرہ...
28/08/2025

اسرائیل نے غزہ میں رائٹرز کے لیے کام کرنے والے حسام المسری، ایسوسی ایٹڈ پریس کے لیے کام کرنے والی مریم ابو دگّہ، الجزیرہ کے صحافی محمد سلام، فوٹو جرنلسٹ معاذ ابو طاہا اور قدس فیڈ کے احمد ابو عزیز کو شہید کر دیا ہے۔ یہ سب ایک اسپتال میں موجود تھے، اُسی دوران اسرائیل نے ڈرون کے ذریعے ٹارگٹ کلنگ کی۔

کل ہی مریم ابو دگّہ کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں وہ اُن خطرات کا ذکر کر رہی تھیں جن سے انہیں خوف تھا۔ وہ حماس کے نام پر اسرائیل کی جانب سے کیے جا رہے نسل کشی کے مظالم کو دنیا کے سامنے لا رہی تھیں۔ فوٹو جرنلسٹ معاذ ابو طاہا اسرائیلی حملے میں اپنے ہاتھ پاؤں گنوا چکے تھے اور پھر بھی وہ غزہ کے کُپوش بچوں کے علاج کے لیے کوشاں تھے۔

یہ سب صحافی اپنی زندگی کی سب سے خطرناک رپورٹنگ انسانیت کے لیے، مظلوم بچوں اور عوام کے لیے کر رہے تھے۔ لیکن ایک سنکی آمر نے اُن سب کی جان لے لی۔

ہندوستان جہاں صحافت دم توڑ چکی ہے اور قبر میں دفن ہو چکی ہے، وہاں کے صحافیوں کو سیکھنا چاہیے، دیکھنا چاہیے کہ کیسے یہ صحافی اپنے لوگوں اور اپنے بچوں کے لیے شہادت پیش کر گئے۔ اسٹوڈیو میں بیٹھ کر منہ کھول لینا صحافت نہیں ہوتا۔

میں ان سب بہادر صحافیوں کو سلام پیش کرتا ہوں۔ آپ کی شہادت ہمیشہ تاریخ کے اوراق پر درج رہے گی اور ظلم کرنے والے، مذہب کے نام پر فرقہ ڈالنے والے اور جان لینے والے ہر جگہ سے اکھاڑ پھینکے جائیں گے۔

— وکرم نرائن سنگھ چوہان، بھارتی صحافی
(Hindi post translated by Shah Ji )

"الفاظ" ✨"الفاظ" کی اپنی ایک دنیا ہوتی ہے۔ ہر "لفظ" اپنی ذمہ داری نبھاتا ہے۔کچھ لفظ "حکومت" کرتے ہیں 🌍،کچھ "غلامی"،کچھ ل...
23/08/2025

"الفاظ" ✨

"الفاظ" کی اپنی ایک دنیا ہوتی ہے۔ ہر "لفظ" اپنی ذمہ داری نبھاتا ہے۔
کچھ لفظ "حکومت" کرتے ہیں 🌍،
کچھ "غلامی"،
کچھ لفظ "حفاظت" کرتے ہیں 🤲،
اور کچھ "وار" بھی کرتے ہیں 🗡️۔

ہر لفظ کا ایک مکمل وجود ہے۔ جب سے میں نے لفظوں کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ سمجھنا شروع کیا، تب احساس ہوا کہ:

لفظ صرف معنی نہیں رکھتے بلکہ یہ دانت رکھتے ہیں 🦷،
جو کاٹ لیتے ہیں۔ یہ ہاتھ رکھتے ہیں 🤲،
جو "گریبان" چاک کر دیتے ہیں۔ یہ پاؤں رکھتے ہیں 🦶،
جو "ٹھوکر" لگا دیتے ہیں۔

اور اگر ان کے ہاتھوں میں "لہجے" کا اسلحہ دے دیا جائے تو یہ وجود کو "چھلنی" کرنے کی طاقت بھی رکھتے ہیں 🗡️۔

لہٰذا اپنے لفظوں کے بارے میں "محتاط" رہو۔
انہیں ادا کرنے سے پہلے سوچو کہ یہ کسی کے "وجود" کو سنبھالیں گے یا ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے 💭۔

کیونکہ یہ تمہاری "ادائیگی" کے غلام ہیں اور تم ان کے "بادشاہ" 👑۔
اور "بادشاہ" اپنی رعایا کا ذمہ دار بھی ہوتا ہے اور اپنے سے "بڑے بادشاہ" کو جواب دہ بھی... 🤴

🌹 خاص تحفہ، اچھے لوگوں کے لیے! 🌹

قسط نمبر 6: ریشمی رومال سے عالمی قیادت تک — علماء کا قافلہ✍️ تحریر: شاہ جیابتدا: ایک خواب جو خفیہ منصوبہ بن گیابرصغیر کے...
15/08/2025

قسط نمبر 6: ریشمی رومال سے عالمی قیادت تک — علماء کا قافلہ

✍️ تحریر: شاہ جی

ابتدا: ایک خواب جو خفیہ منصوبہ بن گیا

برصغیر کے افق پر ایک نیا سورج طلوع ہونے والا تھا۔
یہ کوئی عام منصوبہ نہ تھا، بلکہ ایک خواب تھا — ایسا خواب جو مدرسے کی چٹائی سے اٹھا اور بین الاقوامی سیاست کے ایوانوں تک پہنچا۔

شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ نے جب اپنے چند رفقا کے ساتھ یہ فیصلہ کیا کہ برصغیر کی آزادی کے لیے بیرونِ ملک سے مدد لی جائے گی، تو انہیں شاید اندازہ تھا کہ یہ سفر آسان نہ ہو گا۔
لیکن وہ جانتے تھے کہ اگر یہ قافلہ رکا، تو غلامی کی زنجیریں نسلوں کی ہڈیوں میں اتر جائیں گی۔

ریشمی رومال تحریک — تاریخ کا سنہرا باب

یہ منصوبہ اتنا نازک اور عظیم تھا کہ اگر اس کی پوری تفصیل لکھی جائے تو یہ قسط نہیں، بلکہ ایک ضخیم کتاب بن جائے۔ آپ حیران رہ جائیں گے کہ درس و تدریس سے وابستہ علماء، جن کے ہاتھ میں عام طور پر قلم اور کتاب دیکھی جاتی ہے، کس طرح ایک بین الاقوامی خفیہ نیٹ ورک چلا سکتے ہیں۔

ترکی، افغانستان، حجاز، اور جرمنی سے روابط؛
ریشمی کپڑے پر تحریر شدہ خفیہ پیغامات؛
اور آزادی کی خاطر اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دینا۔

اگر جنگِ عظیم اوّل کا نتیجہ وہ نہ ہوتا جو ہوا، اور اگر کچھ اندرونی غدار دشمن کے ہاتھ نہ ملاتے، تو شاید آج ہم ایک مختلف تاریخ پڑھ رہے ہوتے —
شاید بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں ہی، ایک غیر منقسم، آزاد ہندوستان کا پرچم پوری دنیا میں لہرا رہا ہوتا۔

اندرونی غداری کا زخم

ریشمی رومال تحریک کو ناکام کرنے والا کوئی یورپی خفیہ نیٹ ورک نہیں تھا،
بلکہ ہمارے اپنے قبیلے کے چند بکے ہوئے لوگ تھے۔
وہ چہروں پر اپنائیت کا نقاب اوڑھے تھے، مگر دل سامراج کے لیے دھڑک رہے تھے۔
انہوں نے دشمن کے کان میں وہ راز ڈالے جو صرف وفادار ساتھیوں کو معلوم تھے، اور یوں اس تحریک کا پردہ چاک ہو گیا۔

یہ وہ لمحہ تھا جب ہمیں احساس ہوا کہ غلامی صرف تلوار کے زور سے نہیں، بلکہ اندر کے بزدل اور غدار بھی ہمیں زنجیروں میں جکڑ دیتے ہیں۔

مالٹا کی اسیری — جسم قید، مگر ارادے آزاد

غداری کے بعد، مولانا محمود حسنؒ اور ان کے کئی ساتھی گرفتار ہوئے اور سمندر پار مالٹا کی جیلوں میں ڈال دیے گئے۔
یورپ سمجھتا تھا کہ وہ ان کے جسم قید کر کے ان کا حوصلہ بھی قید کر لے گا،
لیکن قید خانہ ان کے لیے مدرسہ بن گیا،
اور قید کا ہر دن آنے والے انقلاب کا بیج۔

واپسی اور خلافت تحریک

مالٹا سے رہائی کے بعد شیخ الہند واپس وطن پہنچے۔
ان کی آنکھوں میں اب بھی وہی خواب تھا، مگر تجربہ اور بصیرت کئی گنا بڑھ چکی تھی۔
انہوں نے خلافت تحریک میں شمولیت اختیار کی، اور مسلمانوں کو یہ پیغام دیا کہ
"ہم صرف برصغیر کے شہری نہیں، ہم ایک عالمی امت کے سپاہی ہیں۔"

یہ تحریک صرف خلافتِ عثمانیہ کا دفاع نہیں تھی، بلکہ امتِ مسلمہ کو ایک سیاسی، فکری اور روحانی مرکز پر اکٹھا کرنے کی کوشش تھی۔

جمعیت علمائے ہند — آواز کو منظم کرنا

1919 میں علماء نے محسوس کیا کہ جذبات اور جدوجہد کو ایک منظم پلیٹ فارم کی ضرورت ہے۔
یوں جمعیت علمائے ہند وجود میں آئی، جس کے دو بڑے مقاصد تھے:

1. آزادی کی تحریک کو اصولی اور دینی بنیاد فراہم کرنا۔

2. مسلمانوں کو سیاسی بصیرت اور قومی ذمہ داری کا شعور دینا۔
یہ تنظیم محض بیانات تک محدود نہیں رہی — جلسے، مظاہرے، تحریری مہمات، اور برطانوی سازشوں کے مقابل ڈٹ جانا، اس کی پہچان بن گئے۔

عدمِ تعاون اور عوامی بیداری

مہاتما گاندھی کی عدمِ تعاون تحریک میں علماء نے نہ صرف بھرپور حصہ لیا بلکہ عوام کو بھی ساتھ کھڑا کر دیا۔
مدارس کے طلبہ اور اساتذہ نے جیلیں بھریں،
خطبات اور بیانات نے گاؤں گاؤں آزادی کا بیج بویا،
اور یہ ثابت کر دیا کہ یہ قافلہ صرف لفظوں کا نہیں، عمل کا بھی ہے۔
مدرسے کی چٹائی سے کالج کے کیمپس تک

ان تمام مراحل کے بعد علماء نے یہ محسوس کیا کہ وقت آ گیا ہے کہ دینی قیادت عصری تعلیم کے مرکزوں میں بھی قدم رکھے۔
مدرسے کی چٹائی پر بیٹھ کر قرآن و حدیث پڑھانے والے یہ رہنما،
اب کالج کے کیمپس میں جا کر اپنے ہم نوا بڑھا رہے تھے۔

یہ صرف تعلیمی وسعت نہیں تھی، بلکہ نظریاتی دائرے کی توسیع تھی —
ایسا قدم جس نے جدید تعلیم یافتہ طبقے اور دینی قیادت کے درمیان خلیج کو کم کیا۔
(اس کی تفصیل، ان شاء اللہ، قسط نمبر 7 میں دی جائے گی)

11/08/2025

Address

Noida
201301

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Shah Ji posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Shah Ji:

Share