12/07/2023
”سمجھنے کی بات“
جب آپ کے سامنے کوئی سنگین معاملہ پیش آئے تو آپ اس کو جلد بازی میں نہ حل کریں بلکہ بیدار مغزی سے کام لیں،کیوں کہ جو شخص اس طرح کے معاملات میں عجلت سے کام لیتا ہے وہ گھاٹے اور خسارے کا سودا کر بیٹھتا ہے،اور جو شخص غور و خوض کرتا ہے عواقب پر نظر رکھتا ہے رائے قائم کرنے میں محتاط رہتا ہے تو وہ ہمیشہ ہونے والی ندامت و پشیمانی سے محفوظ رہتا ہے.
عرض یہ ہےکہ وہ شخص جس کے اندر قناعت ، توکل اور صبر جیسی صفات محمودہ ہوں پھر اس نے مذکورہ بالا طریقہ پر مسلہ کو حل کیا اور اس میں وہ کامیاب ہو گیا تو وہ اللہ تعالی کا شکر اور اس کی حمد و ثنا کرتا ہے اور اگر تفکر و تدبر کے باوجود سوچی ہوئی پلاننگ کے بر عکس ہو گیا تو وہ یہ کہ کر اپنے آپ کو خوش کر لیتا ہے کہ تقدیر میں یہی لکھا تھا بالفاظ دیگر میری قسمت میں یہی تھا تو وہ کبھی رنج و غم کا شکار نہ ہوگا، کبھی دکھ درد سے دو چار نہ ہوگا۔
یہی رضا بالقضاء کا مطلب ہےجس سے آج ہم کوسوں دور ہیں، توکل علی اللہ جیسی عظیم الشان صفت سے محروم ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر اللہ کسی کوآسایشوں خوشیوں سے نوازتا ہے تو لوگ اس کے دشمن اور اس سے نعمت کے زوال کے متمنی ہو جاتے ہیں، نعمتیں سلب ہو جانے کے خواہاں رہتے ہیں، اسی کو اصطلاح شرع میں حسد سے تعبیر کیا جاتا ہے جس کے دینی اور دنیاوی نقصانات روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔
حدیث میں فرمایا گیا کہ"ان الحسد یاکل الحسنات کما تاکل النار الحطب ترجمہ حسد نیکیوں کو ایسے ہی کھا جاتا ہے جیساکہ آگ لکڑیوں کو " اس لئے ہمیں اپنے دل کو ٹٹولنا چاہئے کہیں یہ مہلک بیماری ہمارے اندر تو نہی ہے،
لیکن افسوس آج ہم اللہ کے فیصلوں پر رضامندی کا اظہار نہی کرتے، ہماری امیدیں اور تمنائیں ہماری موت کی لکیروں سے باہر ہیں، تعلیمات نبوی سے ہم بر گشتہ ہو چکے ہیں، ہمیں نہ اپنی فکر ہے نہ آنے والی نسلوں کی، آخر کب تک غفلت و سستی کی چادر اوڑھ کر"اسلام زندہ باد" کا نعرہ لگاتے رہیں گے۔
اے امت مسلمہ کے نو جوانوں ؛ایک دن ہمیں اپنی بستی اپنا گائوں اپنا شہر اپنے ماں باپ اپنے دوستوں کو چھوڑ کر اسی وحدہ لا شریک کے پاس جانا ہے وہاں ایمانیات کے متعلق باز پرس ہوگی،
یاد رکھو؛ دنیا ہمارا مقصد نہی ہے دنیا تو امتحان گاہ ہے،جس کے پاس دنیا(مال و دولت) رہی ہے کبھی وہ اس کے ساتھ قبر تک نہی گئی نہ قارون کے ساتھ، نہ ہامان کے ساتھ، نہ شداد کے ساتھ۔
آپ کے ساتھ صرف آپ کے اعمال جائیں گے اچھے ہوں یا برے، اسی پر سزا و جزا کا ترتب ہوگا۔ میں یہ نہی کہتا کہ دنیا نہ کمائی جائے بلکہ انسان خصوصا ایک مسلمان کے لئے مال اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ کشتی کے لئے پانی، لہزا ہمیں دنیا کے حصول میں اپنے آپ کو رنج والم میں رکھ کر ہلاک نہی کرنا چاہئے، دنیا اپ کو مل کر رہے گی جتنی مقدر ہے
از: محمد صادق بارہ بنکوی