Daily Inkishaaf Srinagar

Daily Inkishaaf Srinagar The largest regulated Kashmir news site in Jammu & Kashmir. Independent, grassroots and nonsectarian. Established in 2011.

04/11/2025

Sasta Notebooks Shop, Battamaloo Vending Zone. Contact: 6005303228. Located at Old Bus Stand, opposite Darul Salam Restaurant. Share the video and follow my page!

لیفٹیننٹ گورنر سنہا نے جموں کشمیر میں جعلی صحافیوں پر کریک ڈاؤن کے احکامات دئےسرینگر، 3 نومبر: لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا ...
03/11/2025

لیفٹیننٹ گورنر سنہا نے جموں کشمیر میں جعلی صحافیوں پر کریک ڈاؤن کے احکامات دئے

سرینگر، 3 نومبر: لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے افسران کو ہدایت دی ہے کہ جموں کشمیر میں کام کرنے والے جعلی صحافیوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور یہ یقینی بنایا جائے کہ سرکاری محکموں کی طرف سے صرف مستند میڈیا پروفیشنلز کو ہی تسلیم کیا جائے اور ان سے رابطہ کیا جائے، ایک افسر نے بتایا۔

میٹنگ سے واقف افسران کے مطابق، "جعلی صحافیوں" کے مسئلے پر کل سرینگر میں لیفٹیننٹ گورنر کی صدارت میں ہونے والے اعلیٰ سطحی جائزہ اجلاس میں بحث کی گئی۔ یہ معاملہ، جو حال ہی میں ختم ہونے والے جموں کشمیر قانون ساز اسمبلی کے خزاں سیشن میں بھی زیر بحث آیا تھا، نے انتظامیہ کی جانب سے سنگین تشویش پیدا کی۔

"ایل جی نے واضح طور پر کہا کہ جو لوگ صحافت کے نام پر غلط استعمال کر رہے ہیں انہیں قانون کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے تمام ڈپٹی کمشنرز اور ایس ایس پیز کو ہدایت دی کہ ایسے عناصر کی شناخت کے لیے ٹھوس اقدامات کریں اور انہیں نظام سے نکال دیں،" میٹنگ میں موجود ایک سینئر افسر نے نیوز ایجنسی کشمیر ڈاٹ کام کو بتایا۔

لیفٹیننٹ گورنر نے افسران کو یہ بھی ہدایت دی ہے کہ وہ مل کر ہر ضلع میں تصدیق شدہ اور فعال صحافیوں کا ایک تصدیق شدہ ڈیٹا بیس تیار کریں۔ محکموں کو بھی ہدایت دی گئی ہے کہ صرف ان میڈیا نمائندوں سے رابطہ کریں جن کی اسناد ڈی آئی پی آر کی طرف سے مناسب طور پر تصدیق شدہ ہوں۔

لیفٹیننٹ گورنر نے مزید ہدایت دی کہ افراد یا گروپس جو فیس بک پیجز، آن لائن نیوز پورٹلز، یا سوشل میڈیا ہینڈلز صحافت کے بینر تلے چلا رہے ہیں، انہیں محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ (ڈی آئی پی آر) کی طرف سے مناسب طور پر رجسٹرڈ اور تصدیق شدہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے زور دیا کہ ایسے ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز کو اپنے شائع کردہ مواد کے لیے جوابدہ بنایا جائے اور وہ میڈیا اخلاقیات اور قانونی رپورٹنگ کی حدود کے اندر سختی سے کام کریں۔

افسران نے بتایا کہ یہ اقدام اس وقت سامنے آیا ہے جب کچھ افراد جو صحافیوں کا روپ دھار کر میڈیا شناخت کارڈز یا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا غلط استعمال کر کے افسران کو دھمکانے اور مراعات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے، اس کی بڑھتی ہوئی شکایات کے درمیان۔ حال ہی میں اسمبلی سیشن میں کئی قانون سازوں نے بھی یہ تشویش اٹھائی تھی اور اس برائی کو روکنے کے لیے ایک میکینزم کی مانگ کی تھی۔

"حکومت ان مستند صحافیوں کی قدر کرتی ہے جو سالمیت اور ذمہ داری کے ساتھ رپورٹنگ کرتے ہیں،" ایک اور سینئر افسر نے کہا۔ "تاہم، ان لوگوں کے خلاف کارروائی جو پیشے کو بدنام کر رہے ہیں، ناگزیر ہے۔"

اس سے قبل، محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ (ڈی آئی پی آر) جموں کشمیر نے کشمیر کے تمام ضلعی اطلاعات افسران کو جعلی صحافیوں کے خلاف نگرانی تیز کرنے کی ہدایت دی تھی۔ (

26/10/2025
26/10/2025
19/10/2025

افغانستان و پاکستان کے خراب تعلقات — ایک تاریخی و تجزیاتی مطالعہ

1947ء میں برصغیر کی تقسیم کے نتیجے میں جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو برطانوی ہند کے مغربی حصے میں ایک نیا ملک وجود میں آیا، جس کی سرحدیں افغانستان سے جا ملتی تھیں۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو گئی۔ افغانستان، جو ایک قدیم مسلم مملکت ہونے کے ناطے پاکستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات قائم کرنے کا قدرتی امکان رکھتا تھا، دراصل نئے بننے والے اس ملک کے بارے میں تحفظات رکھتا ہے۔

افغانستان وہ پہلا اور واحد ملک تھا جس نے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے رکن بننے کی قرارداد کے خلاف ووٹ دیا۔ یہ اقدام دراصل اس بات کا اظہار تھا کہ کابل حکومت پاکستان کی سرحدوں کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ اس اختلاف کی بنیاد ڈیورنڈ لائن تھی جو 1893ء میں برطانوی راج اور افغان امیر عبدالرحمن خان کے درمیان طے پائی تھی۔ برطانیہ نے اس لائن کو برصغیر اور افغانستان کی حدِ فاصل قرار دیا تھا، لیکن افغان حکومت ہمیشہ سے اسے ایک عارضی اور ناپائیدار سمجھتی آئی ہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد کابل نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ چونکہ یہ معاہدہ برطانوی حکومت کے ساتھ ہوا تھا، اس لیے پاکستان اس کا فریق نہیں بن سکتا۔

یہی وہ نکتہ تھا جس نے دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی کی بنیاد رکھی۔ افغانستان نے شروع ہی سے دعویٰ کیا کہ خیبر پختونخوا (اُس وقت کا صوبہ سرحد) اور بلوچستان کے پشتون علاقے دراصل افغان سرزمین کا حصہ ہیں، اور ان علاقوں کو ’’پشتونستان‘‘ کے نام سے ایک آزاد ریاست کی شکل دی جائے۔ پاکستان نے اس مطالبے کو اپنی خودمختاری کے خلاف قرار دیا اور اسے علیحدگی پسندی کے فروغ کے مترادف سمجھا۔

1949ء میں جب پاکستان نے قبائلی علاقوں میں اپنی فضائی نگرانی بڑھانے کے لیے کارروائیاں کیں، تو افغانستان نے اس پر شدید ردِعمل ظاہر کیا۔ اسی دوران کابل حکومت نے پاکستان کے ساتھ سرحدی جھڑپیں شروع کیں۔ افغان سرحدی دستوں نے کئی مقامات پر پاکستانی حدود میں داخل ہو کر حملے کیے۔ خاص طور پر 1950ء کے اوائل میں بلوچستان کے ضلع چمن اور خیبر پختونخوا کے علاقے باجوڑ کے قریب افغان دستوں نے گولہ باری کی۔ پاکستان نے ان حملوں کو اپنی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا، اور نتیجتاً دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید خراب ہو گئے۔

افغان حکومت نے نہ صرف حملے کیے بلکہ پشتونستان تحریک کی مالی اور سیاسی سرپرستی بھی شروع کی۔ کابل ریڈیو اور افغان اخبارات میں پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا مہم چلائی گئی۔ اس کے جواب میں پاکستان نے افغانستان سے سفارتی رابطے محدود کر دیے۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی سرد مہری 1950ء کی دہائی کے آخر تک برقرار رہی۔

1955ء میں پاکستان نے ملک کے انتظامی ڈھانچے میں ’’ون یونٹ‘‘ کا نظام متعارف کرایا جس کے تحت تمام مغربی صوبے ایک اکائی میں ضم کر دیے گئے۔ افغانستان نے اس فیصلے کی شدید مخالفت کی اور کابل میں پاکستانی سفارت خانے پر مشتعل ہجوم نے حملہ کر کے جھنڈا اتار دیا۔ اس واقعے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات عارضی طور پر منقطع کر دیے گئے۔ ایران اور مصر کی ثالثی سے 1956ء میں تعلقات بحال ہوئے، مگر اعتماد کی فضا قائم نہ ہو سکی۔

1960ء اور 1961ء میں افغانستان نے ایک بار پھر سرحدی علاقوں میں اشتعال انگیزی کی۔ افغان افواج نے باجوڑ ایجنسی اور گرد و نواح میں پاکستانی حدود پر فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں جانی نقصان ہوا۔ پاکستان نے یہ دعویٰ کیا کہ افغان افواج ’’پشتونستان‘‘ کے قیام کے لیے قبائلیوں کو اشتعال دلا رہی ہیں۔ ان حملوں کے نتیجے میں 1961ء میں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات مکمل طور پر منقطع ہو گئے۔ بعد ازاں ایران کے توسط سے 1963ء میں تعلقات بحال کیے گئے، مگر یہ واضح ہو چکا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان بدگمانی بہت گہری ہے۔

سرد جنگ کے دور میں پاکستان امریکہ کے زیرِ اثر آیا جبکہ افغانستان سوویت یونین کے قریب ہوا۔ عالمی سیاست کی یہ تقسیم دونوں ممالک کے درمیان فاصلے مزید بڑھانے کا باعث بنی۔ 1973ء میں افغانستان میں سردار داؤد خان نے بادشاہ ظاہر شاہ کی حکومت کا تختہ الٹ کر جمہوریہ قائم کی۔ داؤد خان ایک پرانا پشتونستان نواز رہنما تھا۔ اس نے اقتدار میں آتے ہی پشتون قوم پرستی کو دوبارہ زندہ کیا اور پاکستان مخالف بیانات کا سلسلہ شروع کیا۔ چنانچہ پاکستان نے افغانستان میں مخالف عناصر کی حمایت شروع کی۔ یہی وہ وقت تھا جب دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا سلسلہ شروع کیا، جس کے نتائج بعد میں انتہائی سنگین نکلے۔

1979ء میں سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان نے امریکہ کے ساتھ مل کر افغان مجاہدین کی حمایت کی۔ لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان میں پناہ گزین ہوئے، اور پاکستان افغان مزاحمت کا مرکز بن گیا۔ اگرچہ اس دور میں پاکستان نے افغان عوام کی بڑی مدد کی، لیکن اس جنگ نے پاکستان کے اندر کئی نئے مسائل کو جنم دیا — جن میں مذہبی انتہاپسندی، اسلحے اور منشیات کی اسمگلنگ، اور قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندی شامل تھی۔

سوویت انخلا کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی، جس کے نتیجے میں مختلف مجاہد گروہوں کے درمیان اقتدار کی کشمکش بڑھ گئی۔ پاکستان نے طالبان کی حمایت کی، جو 1996ء میں کابل پر قابض ہو گئے۔ طالبان حکومت سے پاکستان کو امید تھی کہ ایک دوستانہ حکومت قائم ہوگی جو بھارت کے اثر و رسوخ کو ختم کرے گی، مگر بین الاقوامی تنہائی، داخلی سخت گیر پالیسیوں اور انسانی حقوق کی پامالیوں نے طالبان کو عالمی سطح پر الگ تھلگ کر دیا۔

2001ء میں امریکہ پر نائن الیون کے حملوں کے بعد افغانستان میں طالبان حکومت کا خاتمہ ہوا اور ایک نئی حکومت امریکی سرپرستی میں قائم ہوئی۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا اتحادی بن کر کردار ادا کیا، مگر افغانستان کی نئی حکومت نے پاکستان پر طالبان کو پناہ دینے کا الزام لگایا۔ کابل اور اسلام آباد کے درمیان اس دوران سخت کشیدگی رہی۔ افغان انٹیلی جنس نے پاکستان میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کا الزام بعض اوقات افغان سرزمین پر موجود گروہوں سے منسلک کیا، جبکہ پاکستان نے دعویٰ کیا کہ تحریکِ طالبان پاکستان (TTP) افغانستان میں پناہ لے رہی ہے۔

2021ء میں طالبان دوبارہ کابل پر قابض ہوئے۔ پاکستان کو امید تھی کہ اب دونوں ممالک کے تعلقات بہتر ہوں گے، مگر ایسا نہ ہوا۔ طالبان حکومت نے ڈیورنڈ لائن کو باضابطہ سرحد ماننے سے انکار کر دیا اور پاکستان کی بارڈر فینسنگ پر اعتراضات اٹھائے۔ سرحدی علاقوں میں کئی مرتبہ فائرنگ اور جھڑپیں ہوئیں۔ پاکستان نے افغان سرزمین سے TTP کے حملوں پر سخت احتجاج کیا، مگر طالبان نے ان عناصر کے خلاف کارروائی کرنے سے گریز کیا۔

حالیہ برسوں میں، پاکستان نے غیر قانونی افغان مہاجرین کی واپسی کی مہم شروع کی، جس سے دونوں ممالک کے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے۔ کابل حکومت نے اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا، جبکہ پاکستان نے اسے قومی سلامتی کا معاملہ بتایا۔ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کا فقدان، سفارتی تلخی اور تجارتی رکاوٹیں آج بھی موجود ہیں۔

ان تمام تاریخی واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی خرابی کی بنیاد محض جغرافیائی یا سیاسی نہیں، بلکہ تاریخی بداعتمادی اور مفادات کے تضاد میں ہے۔ افغانستان ہمیشہ پاکستان کو ایک مصنوعی ریاست کے طور پر دیکھتا رہا، جبکہ پاکستان افغانستان کو اپنے اسٹریٹیجک مفادات کے لیے اہم سمجھتا ہے۔ جب تک دونوں ممالک ایک دوسرے کو دشمن یا خطرہ سمجھنے کے بجائے تعاون کے شراکت دار کے طور پر نہیں دیکھیں گے، خطے میں پائیدار امن ممکن نہیں۔

مستقبل کا راستہ صرف باہمی احترام، سفارتی مکالمے، اور اقتصادی تعاون میں مضمر ہے۔ ڈیورنڈ لائن کو مستقل طور پر تسلیم کر کے، سرحدی تجارت کو فروغ دے کر، اور دہشت گردی کے مسئلے پر مشترکہ حکمتِ عملی اختیار کر کے ہی دونوں ممالک ماضی کی تلخیوں کو بھلا سکتے ہیں۔ ورنہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہے گی، اور پاک-افغان تعلقات بداعتمادی کے اسی دائرے میں پھنسے رہیں گے۔

06/10/2025

سیب کی قیمتوں میں گراوٹ پیدا کرنے والے عوامل

سیب کی قیمتیں ہندوستان میں غیر معمولی طور پر کم ہیں، حالانکہ گھریلو پیداوار ملک کی کل سیب کی کھپت کا تقریباً نصف حصہ بناتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ فصل کی آمد کے وقت اضافی سپلائی، غیر مؤثر سپلائی چین، صارفین کی قیمت کے لحاظ سے حساسیت اور درآمدات کے ساتھ مقابلہ ہے۔

پیداوار اور سپلائی کی صورتحال:

ہندوستان میں 2024-2025 کے لیے سیب کی پیداوار کا تخمینہ 2.55 ملین میٹرک ٹن ہے، جو سالانہ تقریباً 6% زیادہ ہے اور ملک کی کل سالانہ کھپت کا تقریباً نصف ہے۔ جب فصل آتی ہے، ہماچل پردیش اور جموں و کشمیر جیسے بڑے پیداوار والے ریاستوں سے بڑی مقدار میں سیب مارکیٹوں میں آتے ہیں، جس سے قلیل مدت میں اضافی سپلائی ہوتی ہے اور قیمتیں شدید طور پر کم ہو جاتی ہیں—کئی مارکٹ مہینوں میں تقریباً 50% تک کمی آتی ہے۔ سپلائی کا ارتکاز ان مہینوں میں توازن کو بگاڑ دیتا ہے کیونکہ سپلائی عارضی طور پر طلب سے زیادہ ہو جاتی ہے۔

غیر موثر سپلائی چین:

ایک اور اہم وجہ ناکافی سپلائی چین انفراسٹرکچر ہے۔ یہاں سیب سیکٹر کولڈ اسٹوریج کی کمی، جدید فوڈ پروسیسنگ اور غیر مؤثر تقسیم کے چینلوں کی وجہ سے متاثر ہے۔ اس کمی کی وجہ سے کاشتکار اور تاجر سیب خراب ہونے کے خوف سے کم قیمتوں پر جلدی فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کے نتیجے میں، سٹاک کو آہستہ آہستہ فروخت کرنے کی صلاحیت نہ ہونے سے فصل کے عروج پر قیمتیں گرجاتی ہیں، جو بعد میں سٹاک ختم ہونے پر دوبارہ مستحکم ہو جاتی ہیں یا بڑھ جاتی ہیں۔

صارفین کا رویہ اور قیمت کی حساسیت:

ملک کے صارفین تازہ پھلوں کی قیمت میں اتار چڑھاؤ کے بارے میں بہت حساس ہیں، اور وہ اکثر سستی میں اپنی ترجیحات تبدیل کرتے ہیں۔ جب گھریلو سیب زیادہ مقدار میں مارکیٹ میں آتے ہیں، کم قیمتوں کی وجہ سے وہ درآمد شدہ سیب کے مقابلے میں زیادہ پرکشش ہو جاتے ہیں، جن کی قیمتیں درآمدی ڈیوٹی اور عالمی سپلائی چین کے مسائل کی وجہ سے زیادہ ہوتی ہیں۔ اس رجحان کی وجہ سے مقامی فروخت کنندگان میں مقابلہ بڑھتا ہے، اور قیمتیں مزید کم ہو جاتی ہیں۔

درآمدات کے ساتھ مقابلہ

گھریلو پیداوار کے باوجود، ہندوستان ہر سال تقریباً 6 لاکھ میٹرک ٹن سیب درآمد کرتا ہے، خصوصاً امریکہ، ترکی اور اٹلی جیسے ممالک سے ریڈ ڈیلیشس جیسی پریمیم اقسام۔ درآمد شدہ سیب اعلیٰ سٹوریج اور معیار کی perception کی وجہ سے مہنگے بکتے ہیں۔ لیکن جب مقامی سیب سستے اور زیادہ دستیاب ہوں تو صارفین ترجیح بدلتے ہیں، جس سے گھریلو قیمتیں مزید نیچے چلی جاتی ہیں۔

ممکنہ نتائج:

ملک میں سیب کی کم قیمتیں اضافی سپلائی، انفراسٹرکچر کی کمی، قیمت کے لحاظ سے حساس صارفین اور درآمد شدہ سیب سے مقابلے کے باعث ہیں۔ اگر مقامی سیکٹر نے کولڈ چین، سپلائی مینجمنٹ اور مارکیٹنگ میں سرمایہ کاری کی تو کاشتکاروں کو سٹاک کو آہستہ آہستہ فروخت اور معیار و وقت کے حساب سے قیمت کو بہتر بنانے کا موقع ملے گا

23/09/2025
17/09/2025

Kashmir Mourns: Veteran Hurriyet Leader Prof Abdul Gani Bhat Passes Away

Srinagar, Sep 17, 2025 – The Kashmir Valley is in mourning following the passing of Prof Abdul Gani Bhat, a towering figure in the region’s separatist politics, who breathed his last at his residence in Botingoo, Sopore, on Wednesday evening. Family sources confirmed to JKNS that Bhat succumbed to a brief illness, leaving behind a legacy that shaped decades of political discourse in Jammu and Kashmir.

A prominent voice in Kashmir’s complex political landscape, Bhat co-founded the Muslim United Front (MUF) in 1986 and later rose to prominence as chairman of the All Parties Hurriyat Conference (APHC), a coalition of separatist groups formed in 1993. He also served as president of the Muslim Conference, Jammu and Kashmir (MCJK), a faction banned by the Indian government. His unwavering commitment to his cause made him a polarizing yet influential figure in the region.

His Nemazi Jenaza tomorrow morning at 10.a.m. at his native village Botengo sopore kashmir.

As family and supporters prepare to bid farewell to a man whose life was intertwined with Kashmir’s turbulent political history. His passing marks the end of an era for the region’s separatist movement.

16/09/2025

: , as

Srinagar, September 16, 2025 – Kashmir’s apple industry is reeling as fruit markets across the Valley shuttered on Monday, September 15, in a fiery protest against the government’s failure to reopen the Srinagar-Jammu National Highway, closed for two weeks due to heavy rainfall. With losses soaring past ₹200 crore and potentially climbing to ₹600 crore, apple growers are demanding urgent action, accusing authorities of turning a natural setback into a man-made disaster.

Hundreds of growers flooded the streets, closing markets in north, central, and south Kashmir. “Our apples are rotting in trucks while we wait for the highway to reopen. This isn’t just rain—it’s negligence,” said Fayaz Dar, an apple dealer from Sopore’s mandi. The prolonged closure has slashed apple box prices from ₹600 to ₹400, hitting farmers hard. Zahoor Ahmad Rather of the J&K Apple Farmers Federation called for immediate highway access and compensation, including a waiver of Kisan Credit Card loans for affected farmers.

Jammu and Kashmir Chief Minister Omar Abdullah pointed fingers at the Central government, which oversees the highway. “If they can’t handle it, hand it over to us. Our engineers could have fixed this by now,” Abdullah said, revealing he’d raised the issue with Union Minister Nitin Gadkari. Promising “concrete steps” within 24 hours, he expressed sympathy for growers watching their livelihoods spoil.

The crisis has sparked political heat. PDP leader Iltija M***i slammed the National Conference government, hinting at corporate collusion, while J&K Peoples Conference leader Sajad Lone called the government’s inaction “criminal” and urged Abdullah to strategize with stakeholders. Meanwhile, Minister for Agriculture Javid Ahmad Dar inspected the highway, pushing for one-way access for stranded apple trucks within 48 hours.

A new parcel train service, flagged off by Lieutenant-Governor Manoj Sinha from Budgam to Delhi, aims to ease the crisis. The daily service, with an eight-coach train carrying 180 tonnes of apples and perishables, offers a faster, economical option. However, traders like Rashid Khan from Pulwama say it falls short: “Hundreds of metric tonnes are waiting. This is denting Kashmir’s apple brand and economy.”

With horticulture—led by apples—contributing 6-7% to J&K’s GDP and employing 35 lakh people, per the 2023-24 Economic Survey, the stakes are high. Divisional Commissioner Anshul Garg promised a plan to evacuate stranded trucks via the highway or Mughal Road, with a committee assessing losses. But as apples rot and tempers flare, Kashmir’s growers await action to save their harvest and livelihoods.

23/08/2025

Address

Press Enclave
Srinagar
190001

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Daily Inkishaaf Srinagar posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share