Quran & Sunnah

Quran & Sunnah حیَّ علی الفلاح

26/10/2025

بار بار توبہ کرنے سے ملال نہ کرو
کیوں جب کپڑا گندا ھو جاتا ھے تو کیا تم اسے دھو نہیں دیتے؟؟
اسیطرح جب گناہ ہو جائیں تو بار بار رجوع کر یہ تیرے دل میں ایمان کے باقی ھونے کی دلیل ھے۔

26/10/2025

‏ایک دکاندار عبدالرحمٰن نے ابھی اپنی دکان کھولی ہی تھی کہ ایک خاتون آئی اور بولی :
“بھائی صاحب، یہ لیجیے آپ کے دس روپے۔”

عبدالرحمٰن نے حیرت سے عورت کی طرف دیکھا، جیسے پوچھ رہا ہو،
“میں نے تمہیں دس روپے کب دیے تھے؟”

عورت بولی:
“کل شام میں نے آپ سے کچھ سامان خریدا تھا۔ میں نے آپ کو سو روپے دیے،
سامان ستر روپے کا تھا، آپ نے چالیس روپے واپس دیے،
جبکہ دینے تیس روپے تھے۔”

عبدالرحمٰن نے وہ دس روپے پیشانی سے لگائے،
پیسے کے ڈبے میں رکھے اور بولا:
“بہن، ایک بات بتاؤ، سامان لیتے وقت تم نے ہر پانچ روپے پر مجھ سے خوب بھاؤ تاؤ کیا،
اور اب محض دس روپے واپس کرنے کے لیے اتنی دور چلی آئیں؟”

عورت نے کہا:
“بھاؤ تاؤ میرا حق ھے، مگر جب ایک قیمت طے ہو جائے،
تو کم دینا گناہ ھے۔”

عبدالرحمٰن نے کہا:
“مگر تم نے کم نہیں دیا، پورے پیسے دیے۔
یہ دس روپے میری غلطی سے تمہارے پاس گئے،
اگر تم رکھ لیتیں تو مجھے کوئی فرق نہ پڑتا۔”
عورت نے جواب دیا:
“شاید آپ کو فرق نہ پڑتا،
لیکن میرے ضمیر پر بوجھ رہتا۔
میں جانتی کہ میں نے کسی کا حق جان بوجھ کر رکھا ہے۔
اسی لیے میں کل رات ہی واپس کرنے آئی تھی،
مگر آپ کی دکان بند تھی۔”

عبدالرحمٰن نے حیران ہو کر پوچھا:
“تم کہاں رہتی ہو؟”
عورت بولی:
“گلشن کالونی سیکٹر8میں۔”

عبدالرحمٰن کے منہ سے حیرت سے نکلا:
“سات کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے صرف دس روپے واپس کرنے آئی ہو؟
اور یہ تمہارا دوسرا چکر ہے؟”

عورت نے سکون سے کہا:
“جی ہاں، دوسری بار آئی ہوں۔
*اگر سکونِ دل چاہیے تو ایسے ہی کام کرنے پڑتے ہیں۔*
میرے شوہر اب دنیا میں نہیں،
مگر وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے:
‘کبھی کسی کا ایک پیسہ بھی ناحق مت رکھنا۔’

کیونکہ انسان تو خاموش رہ سکتا ہے،
مگر اللہ پاک کسی بھی وقت حساب لے سکتا ہے۔
اور اس حساب کی سزا میرے ساتھ میرے بچوں پر بھی آسکتی ھے۔”

یہ کہہ کر عورت چلی گئی۔

عبدالرحمٰن نے فوراً کیش باکس سے 300 روپے نکالے،
اپنے ملازم سے کہا:
“دکان کا خیال رکھنا، میں ابھی آتا ہوں۔”
وہ قریب ھی ایک اور دکاندار فراز کے پاس گیا اور بولا:
“یہ لو تمہارے 300 روپے،
کل جب تم سامان لینے آئے تھے،
میں نے تم سے زیادہ پیسے لے لیے تھے۔”

فراز ہنس کر بولا:
“اگر زیادہ لے لیے تھے تو واپس کر دیتے جب میں دوبارہ آتا۔
اتنی صبح صبح آنے کی کیا ضرورت تھی؟”
عبدالرحمٰن نے کہا:
“اگر میں تمہارے آنے سے پہلے مر گیا تو؟
تمہیں تو پتہ بھی نہ چلتا کہ تمہارے پیسے میرے پاس ہیں۔
اسی لیے لوٹا دیے۔
کبھی نہیں پتا کہ اللہ پاک کب حساب لے لے،
اور سزا میرے بچوں کو نہ بھگتنی پڑے۔”

یہ سن کر فراز خاموش ہوگیا۔
اس کے دل میں ایک زخم جاگا
دس سال پہلے اس نے ایک دوست کاشف سے تین لاکھ روپے قرض لیے تھے۔
اگلے دن ہی کاشف کا انتقال ہو گیا۔

کاشف کے گھر والوں کو اس قرض کا علم نہ تھا،
تو کسی نے تقاضا نہیں کیا۔
لالچ میں آکر فراز نے کبھی خود بھی واپس نہیں کیا۔
آج کاشف کا گھرانہ غربت میں زندگی گزار رہا تھا،
بیوہ عورت گھروں میں نوکریاں کر کے بچوں کو پال رہی تھی،
اور فراز ان کا حق دبائے بیٹھا تھا۔

عبدالرحمٰن کے الفاظ “اللہ پاک کسی بھی وقت حساب لے سکتا ھے”
فراز کے دل و دماغ میں گونجنے لگے۔

دو تین دن کی بےچینی کے بعد
فراز کا ضمیر جاگ اٹھا۔
اس نے بینک سے تین لاکھ روپے نکالے
اور اپنے دوست کے گھر گیا۔
کاشف کی بیوہ اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھی تھی۔
فراز نے اس کے قدموں میں گر کر معافی مانگی۔
تین لاکھ روپے اس کے لیے بہت بڑی رقم تھی
اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے،
اور اس نے فراز کو دعائیں دیں۔

یہ وھی عورت تھی
جو دس روپے واپس کرنے دو بار دکاندار کے پاس گئی تھی۔

جو لوگ دیانتداری اور محنت سے جیتے ہیں،
اللہ پاک ان کا امتحان ضرور لیتا ھے،

مگر کبھی چھوڑتا نہیں۔
ایک دن ان کی دعا ضرور سنی جاتی ھے۔
اللہ پاک پر یقین رکھو۔

“ایمانداری ایمان کا حصہ ھے، اور ناحق مال انسان کے رزق سے برکت چھین لیتا ھے”

25/10/2025

*WEEKLY DARSE QURAN By Hazrat M***i Muhammad Ayoub Sahab Naqshbandi DB At Alamdar Masjid Dangerpora Pulwama,Every Sunday, Timing 8:30 Am Onwards Insha Allah*

25/10/2025

زندگی میں اتنے کامیاب ضرور ہوجاؤ کہ تمہیں رد کرنے والے جب کبھی اچانک تمہیں دیکھیں تو پچھتائیں تمہیں کھونے پر ۔۔۔ فقط

24/10/2025

"لوگوں کی زبانوں اور تعریفوں پر نہ جاؤ، بلکہ اپنی پہچان اپنے ضمیر کی آواز سے کرو…

کیونکہ لوگ جھوٹ بول سکتے ہیں، مگر اندر کی آواز کبھی جھوٹ نہیں بولتی…
*لہذا ہر انسان خوب جانتا ہے کہ وہ درحقیقت کیسا ہے…؟"*

23/10/2025

*عورتوں کیلئے قرآنی دینی تعلیم کی اہمیت*

جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے قرآن وسنت میں انسانوں اور جنوں کو صرف اور صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا کیااور پھر انسانوں میں مردوں اور عورتوں کو تخلیق فرمایا اور تخلیق کا مقصد بھی واضح فرمایا، ”مردوں اورعورتوں میں سے جس نے بھی حالت ایمان میں اعمال صالحہ سرانجام دئیے تو ہم انہیں پاکیزہ زندگی عطا کردیں گے۔ اور ان کے عمل سے بھی بہت بدلہ انہیں دیں گے“۔ (سورة النخل آیت:۹۷)

اور پھر سورة آل عمران آیت ۱۹۵ میں بھی یہی بات کہی گئی اور پھر سورة بقرہ آیت ۳۳۸ میں بھی فرمادیا گیا کہ ”عورتوں کے حقوق اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے مردوں کے حقوق کے برابر ہیں“۔

میری بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مرد ہو یا عورت ان کی حیات کا مقصد اپنی عبادت ہی بتایا ہے۔ ہر ہر شے اللہ سبحانہ تعالیٰ کی حمد وپاکی میں مشغول ہے، بالکل اسی طرح پیدا ہونے سے مرنے تک کا مختصر وقت ہمیں دیاگیا ہے تو محض اس لئے کہ دیکھا جاسکے کہ کون ”احسن عمل“ کرکے آتا ہے۔ اس بات کا ذکر سورة ملک میں موجود ہے۔

ہاں یہ بات ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت اور مرد کو مختلف بنایا ہے۔ یعنی دونوں کو مختلف دائرہ کار فراہم کئے ہیں۔ جیسے کائنات کی ہر شے ایک نظام اصول اور دائرہ کار میں موجود ہے۔ بالکل اسی طرح عورت اور مرد کیلئے دائرہ کار بنادیاگیا کہ اپنی اپنی حدود میں اصول شرعیہ کے ساتھ زندگی کو بسر کریں۔ مرد کیلئے گھر سے باہر اور عورت کیلئے گھر کے اندر رہنے کیلئے اصول ونظام بتایا، اور پھر اگر پوری کائنات پر غور کیا جائے، تو بعض کو بعض پر فضیلت دی گئی ہے۔ ہر شے اپنے دائرے اور حد میں لیکن کچھ کا کام اور ذمہ داری اس کی استطاعت کے مطابق زیادہ ہے اور کچھ کا کم۔ کچھ کو امیر بنایا، کچھ کو غریب۔ کوئی بادشاہ ہے اور کوئی فقیر، لیکن اس تفریق کا ہرگز ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ محض اس تفریق سے کوئی اعلیٰ یاافضل ہوگیا، یا کمتر ہوگیا بلکہ مقصد اس تفریق سے یہ ہے کہ یہ سب ایک دوسرے کو متوازن کرے۔ بہتر اورافضل تو صرف وہی ہے جو تقویٰ والا زیادہ ہے۔ (بلاشبہ) یعنی کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے دنیا کو ”دارالامتحان“ بنایا پھر واضح فرمادیا کہ دارالجزاء کے فیصلے کا معیار، ایمان اور اعمال صالحہ ہیں۔ پس عورت اور مرد کو مختلف دائرہ کار دئیے گئے اور پھر مرد کو امیر بناکر فضیلت دی گئی یعنی کہ مرد کو استطاعت زیادہ دی گئی اور ذمہ داری بھی زیادہ دی گئی لیکن ساتھ ہی عورت کو اس کا مددگار بنایاگیا اور پھر دونوں کو ایک دوسرے کیلئے راحت کی شے بنادیاگیا۔ حدیث پاک میں ہے۔ ”طلب العلم فریضة علی کل مسلم“ کہ علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پرفرض ہے۔ اتنا علم تو سبھی پر فرض ہوا کہ حلال وحرام، پاکی ناپاکی، جائز ناجائز کوجانا جاسکے؛ لیکن اس کے بعد جتنا بھی دینی علم ہے اس کیلئے یہ کہیں پر بھی نہیں کہاگیا کہ عورتیں حاصل نہ کریں جب کہ مرد ان کو ضرور حاصل کریں۔ اس کے بعد مقصودی علم تو ہر کوئی حاصل کرسکتا ہے۔ جسے شوق و لگن ہو، اگر عورتوں کیلئے مزید علم حاصل کرنا منع ہوتا تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ”افقہ الناس“اور ”حسن الناس“ نہ ہوتیں۔ عہد رسالت میں عورتوں کی دینی تعلیم کا باقاعدہ انتظام تھا۔ صحابیات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے خصوصی اجتماع میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم تشریف لے جاکر تلقین و وعظ فرمایا کرتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی طرح صحابیات رضي الله تعالي عنهن بھی محدثہ، فقیہ، عالمہ، فاضلہ مفتیہ اور کاتبہ تھیں۔ ام الموٴمنین حضرت عائشہ رضي الله تعالى عنها فقیہ الامت ہیں۔ ام المومنین ام سلمہ رضي الله تعالى عنها فقیہہ ومفتیہ تھیں۔ حضرت حفصہ رضي الله تعالي عنها لکھنا پڑھنا دونوں جانتی تھیں۔ حضرت خنساء رضي الله تعالى عنها شاعرہ تھیں۔ اسی طرح پہلی اور دوسری صدی ہجری میں پورے عالم اسلام میں احادیث کی روایت و تدوین کا سلسلہ شروع ہوا جن خواتین کے پاس مجموعے تھے ان سے وہ حاصل کئے گئے۔ حدیث کی تحصیل کیلئے محدثین و رواة کی طرح محدثات و راویات نے بھی گھر بار چھوڑ کر دور دراز ملکوں کا سفر کیا۔ اور ان محدثات وطالبات کیلئے محدثین و شیوخ کی درس گاہوں میں مخصوص جگہیں رہا کرتی تھیں، جس میں وہ مردوں سے الگ رہ کر سماع کرتی تھیں اور اسی طرح ان محدثات میں سے بہت سی حافظات، قاریات اور مفسرات تھیں وعظ و تذکیر میں نمایاں تھیں۔ رشدوہدایت، تزکیہ نفس، شعر وادب، خطاطی و کتاب وانشاء، اذکار کی تعلیم و تربیت میں بھی بہت زیادہ نمایاں تھیں اور رہیں۔

چوتھی صدی میں قرآنی مدارس کا انتظام ہوا۔ بنات الاسلام کی طرف سے سب سے پہلا قرآنی مدرسہ مغرب اقصیٰ کے شہر فاس میں ۲۴۵ھ میں قائم ہوا۔ جو آج بھی جامعہ قزوین کے نام سے موجود ہے۔ ایسی عورت جو علوم دینیہ کا شوق نہ رکھتی ہو، وہ کسی بھی حد تک اپنے شوہر کی معاون ہوسکے گی۔ کیا عورت کا وجود محض گھر کو صاف کرنا، کھانا پکانا اور بچے سنبھالنا (سنبھالناکہا ہے تربیت نہیں) تک محدود نہیں رہ جائے گا؟ اور شوہر کو خوش رکھنا، کیا یہ محض اس لئے تو نہیں ہوگا کہ بہرحال شوہر کے گھر کے بعد عورت کیلئے معاشرتی پناہ کہیں اور نہیں ہوتی اور پھر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی امت کی زندگی تو بہت مختصر ہے نا، اس کی وجہ سے اجر بہت زیادہ ملتا ہے۔ نامہ اعمال کھلاہی رہتا ہے۔ عورت کو صرف ان کاموں میں بند کرکے علمی وعملی کاموں کے اجر وثواب سے محروم نہیں ہوجائے گی؟

اللہ تعالیٰ نے ساری کائنات کو اپنے امر سے بنایا اور صرف انسان کو اپنے دست مبارک سے پیداکیا اور اپنا نائب بنایا۔ اللہ رب العزت اپنے بندے سے ایک ماں کی نسبت سترگنا زیادہ محبت کرتے ہیں۔ اس لئے اللہ رب العزت ہی بہتر جانتے ہیں کہ مرد و عورت کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے کن علوم کی پہلے ضرورت ہے۔ چونکہ یہ کتاب خصوصا عورتوں کیلئے لکھی گئی ہے۔ اس لئے ہم عورتوں کی دینی تعلیم کو بیان کرنا چاہیں گے۔ ارشاد ربانی ہے: ”واذکر ما یتلی فی بیوتکن من آیات اللّٰہ والحکمة“ (الآیة)

”اور یاد کرو اے عورتو! اللہ تعالیٰ کی باتوں کو جو تمہارے گھروں میں پڑھی جاتی ہیں اور دانائی کی باتوں کو۔“

سورہ نور میں چونکہ خواتین سے متعلق احکامات عفت، پردہ، استیذان وغیرہ قدرے تفصیل سے درج ہیں، اس لئے آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے خواتین کو سورئہ نور کی تعلیم دلانے کی خصوصی ترغیب دی

(قرطبی)

اب سب سے پہلے اس امر کی ضرورت ہے کہ عورتیں قرآن کی بنیادی علوم سیکھیں کیونکہ قرآنی علوم کا سیکھنا فرض ہے۔ جبکہ ایسے علوم جن کا تعلق معیشت یا سائنسی ترقی سے ہے ان کا سیکھنا مسلمان عورتوں کیلئے ضروری نہیں۔ ہاں مردوں کیلئے اس کا سیکھنا لازم ہے بلکہ فرض کفایہ ہے بلکہ سارے فقہاء و مجتہدین نے لکھا ہے کہ ایسے علوم و فنون جن کی عوام کو ضرورت ہو اور مسلمانوں میں اس کے ماہرین نہ ہوں تو سارے مسلمان گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوں گے۔ اسلام علوم جدیدہ کا بھی داعی ہے۔

(دیکھئے فتاویٰ عالمگیری، فتاوی سراجیہ)

آج کل عومومی ذہن یہ بنا ہوا ہے کہ موجودہ تعلیم کے بغیر بچی آداب زندگی Manner of life طرز معاشرت نہیں سیکھ سکتی اور امور خانہ داری کما حقہ سرانجام نہیں دے سکتی وغیرہ وغیرہ تو اس سلسلے میں گذارش ہے کہ شرم و حیا چھوٹوں بڑوں کا ادب، والدین اور بھائیوں بہنوں سے محبت حسن سلوک وغیرہ سیکھنے کیلئے اسکول کالج کے علوم نہیں؛ بلکہ آج کل اسکول کی بچیوں کا لباس، چال چلن، انداز، رفتار، گفتار اور مختلف موقعوں پر فحش ونیم عریاں لباس میں ملبوس اسٹیج ڈراموں نے بچیوں کو ادب کیا سکھایا؟ بلکہ الٹا انکو بے حیا بنادیا ہے (نعوذ باللّٰہ من ذلک) شرم وحیا اور ادب کیلئے تو سب سے بہتر قرآن وحدیث کی تعلیم ہے۔ اس میں اپنی زندگی بھی سنورے گی اورمعاشرے کا بگاڑ بھی ختم ہوگا۔

متقدمین اورمتاخرین دونوں علماء وفقہاء کرام کااس بات پر اتفاق ہے کہ دینی علم حاصل کرنے کا عورت کو بھی بالکل اسی طرح حکم ہے جس طرح مرد کو ہے۔ اس کے دو سبب ہیں:

شرعی اور دینی احکام میں عورت مرد کی طرح ہے۔ اسی طرح آخرت میں سزا اور جزا کے اعتبار سے عورت مرد کی طرح ہے اس لئے کہ اسلام نے عورت پر تمام فرائض لازم کئے ہیں، اور مرد کی طرح عورت کو بھی ان کا مکلف بنایا ہے جیساکہ نماز، روزہ، حج، زکوٰة، نیکی، اطاعت، عدل وانصاف، حسن وسلوک اچھی باتوں کا حکم دینا اور برائی سے روکنا؛ لیکن بعض خصوصی حالات میں اسلام نے عورت سے کچھ فرائض کواٹھالیا ہے یا تو اس وجہ سے کہ عورت مشقت و تکلیف میں گرفتار نہ ہوجائے یا اس کی صحت کی خرابی کی حالت جیسے ماہواری اور زچگی، حیض، نفاس میں عورت سے نماز کو معاف کرنا اور روزہ، سے رخصت دینا یا اس کی وجہ سے وہ کام عورت کی جسمانی وضع سے اور نسوانی طبیعت سے میل نہیں کھاتا مثلاً یہ کہ وہ میدان جنگ میں لڑائی کرے یا لوہاری یامعماری کرے اور وہ ذمہ داریاں اس سے چھوٹ جائیں جس کیلئے اسے پیدا کیاگیاہے یا کوئی کام ایسا ہو جس کے کرنے سے کوئی خطرناک معاشرتی فساد مرتب ہو۔ اہل عقل و بصیرت والوں کے ہاں عورت کو اس کے دائرہ کار سے اٹھاکر دوسری جگہ پر لے جانا عورت کی قدر و منزلت اور عزت کو گھٹانا ہے۔ ترمذی اور ابوداؤد کی روایت میں لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کی طرف ترغیب دلانے کے بارے میں ارشاد ہے:

من کان لہ ثلاث بنات او ثلاث اخوات او بنتان او اختان فادبہن واحسن الیہن وزوجہن فلہ الجنہ وایما رجل کانت عندہ ولیدة فعلمہا فاحسن تعلیمہا وادبہا فاحسن تادبیہا ثم اعتقہا فلہ اجران
(ترمذی)

جس کی تین لڑکیاں یا بہنیں یا دو لڑکیاں یا بہنیں ہوں اور وہ انہیں ادب سکھائے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور ان کی شادی کرے تو اسکو جنت ملے گی۔

دوسری روایت کا ترجمہ ہے کہ جس شخص کے پاس کوئی باندی ہو وہ اسے تعلیم دے اور اچھی طرح پڑھائے اوراس کو ادب سکھائے اور پھر اسے آزاد کرکے اس سے شادی کرے تو اس کے لئے دو اجر ہیں۔ اسی طرح صحیح بخاری ومسلم میں ہے کہ مسلمان عورتیں مقررہ دن جمع ہوکر نبی کریم صلى الله عليه وسلم سے دین سیکھ لیاکرتی تھیں“۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضي الله تعالى عنها بڑی محدثہ تھیں مرد اور عورتیں ان سے سوالات کرتے تھے۔ قاضی عیسیٰ بن مسکین صوفی وقت اپنی بچیوں اور پوتیوں کو پڑھایا کرتے تھے اور قاضی عیاض رحمة الله عليه عصر کے بعد بچیوں اور بھتیجیوں کو پڑھایا کرتے تھے۔ چنانچہ فقہاء نے لکھا ہے کہ جن احکام کی روز مرہ ضرورت پڑتی ہے ان کو حاصل کرنا فرض ہے۔ طلب العلم فریضة بقدر ما تحتاج الیہ لامر لابد منہ من احکام الوضو والصلٰوة وسائر الشرائع ولامور معاشہ وما وراء ذلک لیس بفرض

(فتاویٰ سراجیہ)

ترجمہ: علم کا طلب کرنا فرض ہے اتنی مقدار جتنی کہ ضرورت پڑتی ہے ضروری طور پر ایسے معاملات کیلئے جن کا حاصل کرنا ضروری ہو وضو اور نماز اور دیگر سارے شرائع اور اپنی معیشت کے امور کو سرانجام دینے کیلئے علوم حاصل کرنا لازم ہے۔ اس کے علاوہ علوم کاحاصل کرنا فرض نہیں۔

دینی تعلیم کے حصول کی شرائط

۱- سب سے پہلے اس بات کا خیال رکھاجائے کہ دینی تعلیم گھر کے کسی مرد سے حاصل کی جائے اگرایسا محرم نہ ہو جو دینی احکام سے واقف ہو تو وہ کسی محرم عالم سے احکام سیکھ کر اور کتابیں پڑھ کر عورتوں کو سکھائے۔

۲- اگرایسی کوئی صورت نہ نکل سکے کہ گھر کے کسی فرد سے دینی احکام سیکھے جائیں تو ان آداب کا خیال رکھ کر کسی عالم کے پاس باہر نکلا جائے جن کا تذکرہ پہلے گذر چکا ہے۔

۳- دینی علوم دو قسم کے ہیں علوم عالیہ یعنی مقصدی علوم جو یہ ہیں قرآن، حدیث، فقہ وغیرہ۔ علوم آلیہ وہ علوم ہیں جن کو قرآن وحدیث اور فقہ سمجھنے اور حاصل کرنے کے لئے ان کو آلہ کار بنایاجائے۔ علوم آلیہ یہ ہیں: صرف، نحو، منطق، فلسفہ، علم معانی، علم ادب وغیرہ۔

ہر لڑکی پر اس قدر علم حاصل کرنا فرض ہے جن کا حصول روزمرہ زندگی کیلئے ضروری ہے مثال کے طور پر وضو، غسل، ماہواری، زچگی،نماز، حج، زکوة وغیرہ کے مسائل، عورتیں اپنے مردوں سے سیکھیں یا کتابوں سے پڑھیں۔ اوراگر یہ صورتیں ممکن نہ ہوں تو پھر کسی عالمہ عورت سے معلوم کرے ان علوم (فرض عین) میں سے اچانک اگر عورت کو کسی مسئلہ کی ضرورت پڑی اور اپنا مرد مسئلہ پوچھ کر نہیں آتا یا اجازت نہیں دیتا اور عالمہ عورت نہ ہو تو اس کے حصول کیلئے عورت باپردہ بغیر مرد کی اجازت کے نیک معتمد عالم دین مفتی کے پاس جاسکتی ہے؛ لیکن علوم آلیہ پر کمال حاصل کرنا عورت کے لئے فرض نہیں۔

۴- صرف ان علوم کے حصول کیلئے گھر بار کو چھوڑ کر دوسری جگہ سکونت اختیار کرنا درست نہیں۔ کیونکہ یہ پرفتن دور ہے اور نئے نئے فتنے روز افزوں ابھر رہے ہیں۔ جب دینی مدارس کے بارے میں یہی حکم ہے تو دور جاکر اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے بارے میں آپ حضرات خود فتویٰ لگائیں۔

یہ بات قابل غور ہے کہ لڑکیوں کیلئے اسکول کالج، یونیورسٹی اور دینی مدرسہ میں حافظہ عالمہ بننے کے لئے محرم رشتہ دار سمیت باہر جانا جائز ہے کوئی اس کو ناجائز نہیں کہہ سکتا، لیکن خارجی امور کو دیکھ کر پرفتن دور کو مدنظر رکھ کر عورت کا دائرہ کار سامنے لاکر یہ کہاجاتا ہے کہ اس طرح کی تعلیم جائز تو ہے (جس کی شرائط آگے آرہی ہیں) لیکن بہتر نہیں ہے۔

۵- پڑھانے والی استانیاں عالمات ہوں مرد نہ ہوں اگر عالمہ مل نہ سکے تو پھر مرد پردہ لٹکاکر یا دور بیٹھ کر لاؤڈاسپیکر کے ذریعے سے پڑھائیں اور یہ دوسرا طریقہ بہتر اور فتنوں سے محفوظ ہے۔ لیکن ان امور کا خیال جامعہ کا منتظم کروائے کہ مرد سریلی آواز میں نہ پڑھائے، عشقیہ اشعار نہ کہے بلکہ علمی ضرورت کے علاوہ کوئی شعر نہ لکھے، طالبہ کا رول نمبر پکار کر حاضری لگائے نہ کہ نام لے کر، غیر ضروری اور غیر درسی باتوں سے اجتناب کرے، پڑھانے کے بعد وہاں بغیر ضرورت کے نہ ٹھہرے، افضل یہ ہے کہ شادی شدہ ہوں اور متقی با اعتبار عالم ہو۔ یہ پانچویں شرط صرف اسی صورت کے لئے ہے جبکہ علاقے میں ایسی کوئی عورت نہ ہو جو پوری عالمہ ہو اور عام عورتیں اس سے مسائل پوچھیں۔ جس طرح کہ موٴمنات صحابیات حضرت عائشہ رضي الله تعالى عنها سے پوچھتی تھیں۔ اگر علاقے میں کوئی مستند عالم، مفتی ہو تو اس کی بیوی کے ذریعے سے مسائل حل کرائے جائیں۔

اس صورت میں عالمہ بننے کی ضرورت نہیں اگرچہ فی نفسہ جائز ہے۔ اس لئے اس سے جو مقصد ہے وہ درست ہے۔

22/10/2025

*ہم میں قناعت رہی نہ شکرگزاری* !!

کئی کئی وقت گھر میں کھانے کو کچھ نہ ہوتا تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کبھی شوہر کو طعنہ نہ دیا کہ کھلا تک نہیں سکتے

نہ ہی کبھی علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ بھی گھر سے نکل کر کمائیں اور ہم مل جل کر گھر چلائیں ، عورت کو بھی معاش میں مدد کرنی چاہئے

نہ کبھی کائنات کے عظیم ترین والد محترم ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے داماد سے سوال کیا کہ میری بیٹی بھوک کی حالت میں کیوں ہے
کیونکہ خود والد محترم کے گھرانے میں بھی اکثر یہی حالات ہوتے تھے

*آج ہم دن میں دو اور تین تین وقت کھا رہے ہیں*
*لیکن ایک مقابلہ ہے*
*اچھے لباس کا ، اچھے گھر کا ، اچھی گاڑی*
سب کچھ مل جائے تو اس سے بہتر
اس سے بہتر مل جائے تو اس سے بھی بہتر

مرد بھی کما رہے ہیں ، خواتین بھی کما رہی ہیں
لیکن پھر بھی ایک بھاگ دوڑ ہے
ایک بے سکونی ہے
خوب سے خوب تر کی
*اور دنیا کی زندگی کی حد سے بزھی ہوئی فکر اور محبت کی* !

22/10/2025

*سیرت النبی ﷺ*🌴

*قسط نمبر 15*

*عنوان: حجر اسود کون رکھےگا؟*

*آخروہ سب بیت اللہ میں جمع ہوئے-ان لوگوں میں ابوامیہ بن مغیرہ تھا*- *اس کانام حذیفہ تھا-قریش کےپورےقبیلےمیں یہ سب سےزیادہ عمروالاتھا-یہ ام المؤمنین سیدہ ام سلمہؓ کا باپ تھا-قریش کے انتہائی شریف لوگوں میں سےتھا*- *مسافروں کوسفرسامان اورکھاناوغیرہ دینے کےسلسلےمیں بہت مشہور تھا-جب کبھی سفر کرتاتواپنےساتھیوں کےکھانےپینےکاسامان خودکرتاتھا*-
*اس وقت اس شدیدجھگڑےکوختم کرنےکےلیےاس نےایک حل پیش کیا-اس نےسب سےکہا:*
*اےقریش کےلوگواپناجھگڑاختم کرنےکےلیےتم یوں کروکہ حرم کےصفانامی دروازےسےجوشخص سب سےپہلےداخل ہو، اس سےفیصلہ کرالو-وہ تمہارےدرمیان جو فیصلہ کرے، وہ سب اس کومان لیں ،،-*
یہ تجویزسب نےمان لی*- *آج اس دروازےکوباب السلام کہاجاتاہے-یہ دروازہ رکن یمانی اور رکن اسودکےدرمیانی حصے کے سامنےہے-*
*اللہ کی قدرت کہ اس دروازےسے سب سے پہلےحضورنبی ﷺ تشریف لائے-قریش نے جیسے ہی آپ کودیکھا، پکاراٹھے:*
*’’یہ تو امین ہیں ، یہ تو محمد ہیں ، ہم ان پر راضی ہیں ۔‘‘*
*اور ان کے ایسا کہنے کی وجہ یہ تھی کہ قریش اپنے آپس کے جھگڑوں کے فیصلے آپ ہی سے کرایا کرتے تھے۔ آپ کسی کی بے جا حمایت نہیں کرتے تھے، نہ بلا وجہ کسی کی مخالفت کرتے تھے۔*
*پھر ان لوگوں نے اپنے جھگڑے کی تفصیل آپ کو سنائی۔ ساری تفصیل سن کر آپ نے فرمایا:*
*’’ایک چادر لے آؤ۔‘‘*
*وہ لوگ چادر لے آئے*۔ *آپ نے اس چادر کو بچھایا اور اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اٹھاکر اس چادر پر رکھ دیا۔ اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا:*
*’’ہر قبیلے کے لوگ اس چادر کا ایک ایک کنارہ پکڑلیں ، پھر سب مل کر اس کو اٹھائیں ۔‘‘*
*انہوں نے ایسا ہی کیا۔ چادر کو اٹھائے ہوئے وہ اس مقام تک آگئے جہاں حجر اسود کو رکھنا تھا۔ اس کے بعد نبی اکرم نے حجر اسود کو اٹھاکر اس کی جگہ رکھنا چاہا، لیکن عین اسی وقت ایک نجدی شخص آگے بڑھا اور تیز آواز میں بولا:*
*’’بڑے تعجب کی بات ہے کہ آپ لوگوں نے ایک کم عمر نوجوان کو اپنا راہنما بنالیا ہے، اس کی عزت افزائی میں لگ گئے ہو، یاد رکھو، یہ شخص سب کو گروہوں میں تقسیم کردے گا، تم لوگوں کو پارہ پارہ کردے گا۔‘‘*
*قریب تھا کہ لوگوں میں اس کی باتوں سے ایک بار پھر جھگڑا ہوجائے، لیکن پھر خود ہی انہوں نے محسوس کرلیا کہ حضور ﷺ نے جو فیصلہ کیا ہے، وہ لڑانے والا نہیں ، لڑائی ختم کرنے والا ہے، چنانچہ حجر اسود کو نبی کریم ﷺ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اس کی جگہ پر رکھ دیا۔*
*مورخوں نے لکھا ہے، یہ نجدی شخص دراصل ابلیس تھا جو اس موقع پر انسانی شکل میں آیا تھا۔
جب کعبے کی تعمیر مکمل ہوگئی تو قریش نے اپنے بتوں کو پھر سے اس میں سجادیا* - *کعبے کی یہ تعمیر جو قریش نے کی، چوتھی تعمیر تھی* - *سب سے پہلے کعبے کو فرشتوں نے بنایا تھا* - *بعض صحابہ نے فرمایا ہے کہ زمین و آسمان کو پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کا عرش پانی کے اوپر تھا، جب عرش کو پانی پر ہونے کی وجہ سے حرکت ہوئی تو اس پر یہ کلمہ لکھا گیا:*
*لَا إِِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰه*
*اللّٰہ تعالٰی کے سوا کوئی معبود نہیں ، محمد اللہ تعالٰی کے رسول ہیں* -
*اس کلمے کے لکھے جانے کے بعد عرش ساکن ہوگیا* - *پھر جب اللہ تعالٰی نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو اس نے پانی پر ہوا کو بھیجا - اس سے پانی میں موجیں اُٹھنے لگیں ، اور بخارات اٹھنے لگے* - *اللہ تعالیٰ نے ان بخارات یعنی بھاپ سے آسمان کو پیدا فرمایا - پھر اللہ تعالیٰ نے کعبہ کی جگہ سے پانی کو ہٹادیا، جگہ خشک ہوگئی، چنانچہ یہی بیت اللہ کی جگہ ساری زمین کی اصل ہے اور اس کا مرکز ہے* - *یہی خشکی بڑھتے بڑھتے سات* *براعظم بن گئی - جب زمین ظاہر ہوگئی تو اس پر پہاڑ قائم کیے گئے* - *زمین پر سب سے پہلا پہاڑ ابو قبیس ہے* -
*پھر اللہ تعالی نے فرشتوں کو حکم فرمایا:*
*"زمین پر میرے نام کا ایک گھر بناؤ تاکہ آدم کی اولاد اس گھر کے ذریعے میری پناہ مانگے* - *انسان اس گھر کا طواف کریں ، جس طرح تم نے میرے عرش کے گرد طواف کیا ہے، تاکہ میں ان سے راضی ہوجاؤں* -"
*فرشتوں نے حکم کی تعمیل کی - پھر آدم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیر شروع کی* - *اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی* - *اس طرح قریش کے ہاتھوں یہ تعمیر چوتھی بار ہوئی تھی۔*

*حضور اکرم ﷺ کی عمر مبارک 40 سال کے قریب ہوئی تو وحی کے آثار شروع ہوگئے، اس سلسلے میں سب سے پہلے آپ کو سچے خواب دکھائی دینے لگے*۔ *آپ جو خواب دیکھتے وہ حقیقت بن کر سامنے آجاتا۔ اللہ تعالیٰ نے سچے خوابوں کا سلسلہ اس لئے شروع کیا کہ اچانک فرشتے کی آمد سے کہیں آپ خوفزدہ نہ ہوجائیں ۔ ان دنوں ایک بار آپ نے سیدہ خدیجہ* *رضی اللہ عنہا سے فرمایا:*
*’’جب میں تنہائی مٰیں جاکر بیٹھتا ہوں تو مجھے آواز سنائی دیتی ہے۔۔۔ کوئی کہتا ہے، اے محمد ۔۔۔۔ اے محمد۔۔۔‘‘*
*ایک بار آپ نے فرمایا:*
*’’مجھے ایک نور نظر آتا ہے، یہ نور جاگنے کی حالت میں نظر آتا ہے۔ مجھے ڈر ہے، اس کے نتیجے میں کوئی بات نہ پیش آجائے۔‘‘*
*ایک بار آپ نے یہ بھی فرمایا:*
*’’اللہ کی قسم! مجھے جتنی نفرت ان بتوں سے ہے، اتنی کسی اور چیز سے نہیں* ۔‘‘
*وحی کے لئے آپ کو ذہنی طور پر تیار کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرشتے اسرافیل کو آپ کا ہم دم بنادیا تھا۔ آپ ان کی موجودگی کو محسوس تو کرتے تھے، مگر انہیں دیکھ نہیں سکتے تھے۔ اس طرح آپ کو نبوت کی خوش خبریاں دی جاتی رہیں* ۔ *آپ کو وحی کے لیے تیار کیا جاتا رہا۔*
*اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں تنہائی کا شوق پیدا فرمادیا تھا، چنانچہ آپ کو تنہائی عزیز ہوگئی*۔ *آپ غار حرا میں چلے جاتے اور وہاں وقت گزارتے۔ اس پہاڑ سے آپ کو ایک بار آواز بھی سنائی دی تھی:*
*’’میری طرف تشریف لائیے۔ اے اللہ کے رسول۔‘‘*
*اس غار میں آپ مسلسل کئی کئی راتیں گزارتے۔ اللہ کی عبادت کرتے۔* *کبھی آپ تین راتوں تک وہاں ٹھہرے رہتے، کبھی سات راتوں تک۔ کبھی پورا مہینہ وہاں گزاردیتے۔ آپ جو کھانا ساتھ لے جاتے تھے، جب ختم ہوجاتا تو گھر تشریف لے جاتے، یہ کھانا عام طور پر زیتون کا تیل اور خشک روٹی ہوتا تھا*۔ *کبھی کھانے میں گوشت بھی ہوتا تھا۔ غار حرا میں قیام کے دوران کچھ لوگ وہاں سے گزرتے اور ان میں کچھ مسکین لوگ ہوتے تو آپ انہیں کھانا کھلاتے۔*
*غار حرا میں آپ عبادت کس طرح کرتے تھے۔ روایات میں اس کی وضاحت نہیں ملتی۔ علما کرام نے اپنا اپنا خیال ضرور ظاہر کیا ہے۔ ان میں سے ایک خیال یہ ہے کہ آپ کائنات کی حقیقت پر غور وفکر کرتے تھے اور یہ غور وفکر لوگوں سے الگ رہ کر ہی ہوسکتا تھا*۔
*پھر آخر کار وہ رات آگئی جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت اور رسالت عطا فرمادی۔ آپ کی نبوت کے ذریعہ اپنے بندوں پر عظیم احسان فرمایا۔ وہ ربیع الاول کا مہینہ تھا اور تاریخ سترہ تھی*۔ *بعض علما نے یہ لکھا ہے کہ وہ رمضان کا مہینہ تھا، کیوں کہ قرآن رمضان میں نازل ہونا شروع ہوا تھا۔ آتھویں اور تیسری تاریخ بھی روایات میں آئی ہے اور یہ پہلا موقع تھا جب جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر آپ کی خدمت مین حاضر ہوئے۔ اس سے پہلے وہ آپ کے پاس نہیں آئے تھے*۔ *جس صبح جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر آئے، وہ پیر کی صبح تھی اور پیر کی صبح ہی آپ اس دنیا میں تشریف لائے تھے*۔ *آپ فرمایا کرتے تھے*:
*’’پیر کے دن کا روزہ رکھو، کیوں کہ میں پیر کے دن پیدا ہوا، پیر کے دن ہی مجھے نبوت ملی*۔‘‘
*بہر حال اس بارے میں روایات مختلف ہیں* ۔ *یہ بات طے ہے کہ اس وقت آپ کی عمر مبارک کا چالیس واں سال تھا*۔ *آپ اس وقت نیند میں تھے کہ جبرائیل علیہ السلام تشریف لے آئے*۔ *ان کے ہاتھ میں ایک ریشمی کپڑا تھا اور اس کپڑے میں ایک کتاب تھی*۔

*☆☆☆*
*جاری ہے ۔۔۔۔۔!*

*کتاب : سیرت النبی ﷺ قدم بہ قدم*

21/10/2025

*"ہم اپنے گھروں کو صاف رکھتے ہیں کہ اچانک کوئی مہمان نہ آ جائے"*
*"ہمیں اپنے دل اور اعمال کو بھی صاف رکھنا چاہیے نہ۔۔۔۔"*
`اگر اچانک موت آ گئی تو؟؟`

21/10/2025

*‏اگر کوئی شخص آپ کے غلط رویے پر خاموشی اختیار کر لے تو سمجھ جائیں وہ کردار میں آپ سے بڑا ہے*

20/10/2025

*سیرت النبی ﷺ*🌴

*قسط نمبر 14*

*عنوان: تین تحریریں*

*آپ ﷺ کی عمر 35سال ہوئی تو مکہ میں زبردست سیلاب آیا۔ قریش نے سیلاب سے محفوظ رہنے کے لئے ایک بند بنا رکھا تھامگر یہ سیلاب اس قدر زبردست تھا کہ بند توڑکر کعبے میں داخل ہو گیا۔پانی کے زبردست ریلے اور پانی کے اندر جمع ہونے کی وجہ سے کعبے کی دیواروں میں شگاف پڑگئے*۔ *اس سے پہلے ایک مرتبہ یہ دیواریں آگ لگ جانے کی وجہ سے کمزور ہو چکی تھیں اور یہ واقعہ اس طرح ہوا تھا کہ ایک مرتبہ کوئی عورت کعبے کو دھونی دے رہی تھی کہ اس آگ میں سے ایک چنگاری اڑکر کعبے کے پردوں تک پہنچ گئی*۔ *اس سے پردوں کو آگ لگ گئی اور دیواریں تک جل گئیں* ۔ *اس طرح دیواریں بہت کمزور ہو گئی تھیں ،یہی وجہ تھی کہ سیلاب نے ان کو کمزور دیواروں میں شگاف کردیے*۔
*سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کعبے کی جو دیواریں اٹھائی تھیں ،وہ نو گز اونچی تھیں* ۔ *ان پر چھت نہیں تھی۔لوگ کعبے کے لئے نذرانے وغیرہ لاتے تھے*۔ *یہ نذرانے کپڑے اور* *خوشبو ئیں وغیرہ ہوتی تھیں* ۔ *کعبے کے اندر جو کنواں تھا*، *یہ سب نذرانے اس کنوئیں میں ڈال دیئے جاتے* *تھے،کنواں اندرونی حصے میں دائیں طرف تھا*۔ *اس کو کعبے کا خزانہ کہا جاتا تھا*۔ *کعبے کے خزانے کو ایک مرتبہ ایک چور نے چرانے کی کوشش کی،چور کنوئیں ہی میں مر گیا۔ اس کے بعد اللہ تعالٰی نے اس کی حفاظت کے لیے ایک سانپ کو مقرر کر دیا۔یہ سانپ کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھا رہتا تھا*۔ *کسی کو خزانے کے نزدیک نہیں آنے دیتا تھا۔ قریش بھی اس سے خوف زدہ رہتے تھے۔اب جب کہ کعبے کی دیواروں میں شگاف پڑ گئے اور نئے سرے سے اس کی تعمیر کا مسئلہ پیش آیا تو اللہ تعالیٰ نے ایک پرندے کو بھیجا،وہ اس سانپ کو اٹھا لے گیا۔(البدایہ والنہایہ)*
*یہ دیکھ کر قریش کے لوگ بہت خوش ہوئے۔اب انہوں نے نئے سرے سے کعبے کی تعمیر کا فیصلہ کر لیا۔اور پروگرام بنایا کہ بنیادیں مضبوط بنا کر دیواروں کو زیادہ اونچا اٹھایا جائے۔اس طرح دروازے کو بھی اونچا کردیا جائے گا تاکہ کعبے میں کوئی داخل نہ ہو*۔ *صرف وہی شخص* *داخل ہو جسے وہ اجازت دیں* ۔
*اب انہوں نے پتھر جمع کیے۔ ہر قبیلہ اپنے حصے کے پتھر الگ جمع کررہا تھا۔چندہ بھی جمع کیا گیا۔چندے میں انہوں نے پاک کمائی دی۔ ناپاک کمائی نہیں دی۔مثلاًطوائفوں کی آمدنی،سود کی کمائی،دوسروں کا مال غصب کرکے حاصل کی گئی دولت چندے میں نہیں دی اور پاک کمائی انہوں نے بلاوجہ نہیں دی تھی۔ایک خاص واقعہ پیش آیا تھا۔جس سے وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اس کام میں صرف پاک کمائی لگائی جائے گی۔ وہ واقعہ یوں تھا:*
*ایک قریشی سردار ابو وہب عمرو بن عابد نے جب یہ کام شروع کرنے کے لیے ایک پتھر اٹھایا تو پتھر اس کے ہاتھ سے نکل کر پھر اسی جگہ پہنچ گیا جہاں سے اسے اٹھایا گیا تھا۔اس پر قریشی حیران وپریشان ہوئے۔آخر خود وہب کھڑا ہوا اور بولا:*
*"اے گروہ ِقریش ! کعبے کی بنیادوں میں سوائے پاک مال کے کوئی دوسرا مال شامل مت کرنا۔ بیت اللہ کی تعمیر میں کسی بدکار عورت کی کمائی،سود کی کمائی یا زبردستی حاصل کی گئی دولت ہرگز شامل نہ کرنا۔"*
*یہ وہب نبی کریم ﷺ کے والد حضرت عبداللہ کا ماموں تھا اور اپنی قوم میں ایک شریف آدمی تھا*۔

*جب قریش کے لوگ خانہ کعبہ کی تعمیر کے لیے پتھر ڈھورہے تھے تو ان کے ساتھ نبی کریم ﷺ* . *بھی پتھر ڈھونے میں شریک تھے۔آپ پتھر اپنی گردن پر رکھ کر لا رہے تھے ۔تعمیر شروع کرنے سے پہلے قریش کےلوگوں نے خوف محسوس کیا کہ دیواریں گرانے سے کہیں ان پر کوئ مصیبت نہ نازل ہو جائے ۔آخر ایک سردار ولید بن مغیرہ نے کہا:* *”کعبہ کی دیواریں گرانے سے تمہارا ارادہ اصلاح اور مرمت کا ہے یا اس کو خراب کرنے کا„*
*جواب میں لوگوں نے کہا ظاہر ہے ہم تو مرمت اور اصلاح چاہتے ہیں ; یہ سن کر ولید نےکہا;*
*"تب پھر سمجھ لو: اللہ تعالی اصلاح کرنے والوں کو برباد نہیں کرتا۔"*
*پھرولید ہی نے گرانے کے کام کی ابتدا کی لیکن اس نےبھی صرف ایک حصہ ہی ہی گرایاتاکہ معلوم ہو جائے کہ ان پر کوئ تباہی تو نہیں آتی ۔جب وہ رات خیریت سے گزر گئی*. *تب دوسرے دن سب لوگ اس کے ساتھ شریک ہو گئے اور پوری عمارت گرادی ۔یہاں تک کہ اسکی بنیاد تک پہنچ گئے۔یہ بنیاد ابراہیم علیہ السلام کےہاتھ کی رکھی ہوئ تھی*۔ *حضرت ابراہیم علیہ السلام نےبنیادوں میں سبز رنگ کے پتھر رکھے تھے ۔یہ پتھر اونٹ کے کوہان کی طرح کے تھے اور ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے، ان لوگوں کے لئے انکو توڑ نا بہت مشکل کام. ثابت ہوا۔*
*دائیں کونے کے نیچے سے قریش کو ایک تحریر ملی، وہ تحریر سریانی زبان میں لکھی ہوئی تھی۔انہیں سریانی زبان نہیں آتی تھی، آخر ایک یہودی کو تلاش کرکے لایا گیا، اس نےوہ تحریر پڑھ کر انہیں سنائی تحریر یہ تھی* ۔
*"میں اللہ ہوں ، مکّہ کا مالک جسکو میں نے اس دن پیدا. کیا جس دن میں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، جس دن میں نے سورج اور چاند بنائے ۔میں نے اس کو یعنی. مکہ کو سات فرشتوں کے ذریعہ گھیر دیاہے۔اسکی عظمت اس وقت تک ختم نہیں ہو گی"*
*جب تک کہ اس کے دونوں طرف پہاڑ موجود ہیں ، ان پہاڑوں سے مراد ایک تو ابو قیس پہاڑ ہے جو کہ صفا پہاڑی کے سامنے ہے اور دوسرا قعیقعان پہاڑ ہے جو مکہ کے قریب ہے اور جس کا رخ ابو قیس پہاڑ کی طرف ہے*۔ *اور یہ شہر اپنے باشندوں کے لیے پانی اور دودھ کے لحاظ سے بہت بابرکت اور نفع والا ہے"۔*
*یہ پہلی تحریر تھی*۔ *دوسری مقام ابراھیم سے ملی*۔ *اس میں لکھا تھا:*
*"مکہ اللہ تعالیٰ کا محترم اور معظم شہر ہے۔ اس کا رزق تین راستوں سے اس میں آتا ہے*"۔
*یہاں تین راستوں سے مراد قریش کے تین تجارتی راستے ہیں* ۔ *ان راستوں سے قافلے آتے جاتے تھے*۔
*تیسری تحریر اس سے کچھ فاصلے سے ملی۔ اس میں لکھا تھا*:
*"جو بھلائی بوئے گا لوگ اس پر رشک کریں گے یعنی اس جیسا بننے کی کوشش کریں گے اور جو شخص رسوائی بوئے گا وہ رسوائی اور ندامت پائے گا۔ تم برائیاں کرکے بھلائی کی آس لگاتے ہو، ہاں ! یہ ایسا ہی ہے جیسے کیکر یعنی کانٹے دار درخت میں کوئی انگور تلاش کرے"*۔
*یہ تحریر کعبے کے اندر پتھر پر کھدی ہوئی ملی۔ کعبے کی تعمیر کے سلسلے میں قریش کو پتھروں کے علاوہ لکڑی کی بھی ضرورت تھی۔ چھت اور دیواروں میں لکڑی کی ضرورت تھی۔ لکڑی کا مسئلہ اس طرح حل ہوا کہ ایک جہاز عرب کے ساحل سے آکر ٹکراگیا، آج اس مقام کو جدہ کا ساحل کہا جاتا ہے، پہ پہلے یہ مکہ کا ساحل کہلاتا تھا اس لیے کہ مکہ کا قریب ترین ساحل یہی تھا۔ ساحل سے ٹکرا کر جہاز ٹوٹ گیا۔ وہ جہاز کسی رومی تاجر کا تھا۔ اس جہاز میں شاہ روم کے لیے سنگ مرمر، لکڑی اور لوہے کا سامان لے جایا جارہا تھا۔ قریش کو اس جہاز کے بارے میں پتا چلا تو یہ لوگ وہاں پہنچے اور ان لوگوں سے لکڑی خرید لی۔ اس طرح چھت کی تعمیر میں اس لکڑی کو استعمال کیا گیا۔ آخر خانہ کعبہ کی تعمیر کا کام حجر* *اسود تک پہنچ گیا۔ اب یہاں ایک نیا مسئلہ پیدا ہوگیا*۔ *سوال یہ پیدا ہوا کہ حجر اسود کون اٹھاکر اس کی جگہ پر رکھے گا*۔
*ہر قبیلہ یہ فضیلت خود حاصل کرنا چاہتا تھا۔*
*یہ جھگڑا اس حد تک بڑھا کہ مرنے مارنے تک نوبت آگئی*۔ *لوگ ایک دوسرے کو قتل کرنے پر تل گئے*۔
*قبیلہ عبد الدار نے تو قبیلہ عدی کے ساتھ مل کر ایک برتن میں خون بھرا اور اس میں اپنے ہاتھ ڈبو کر کہا:*
*"حجر اسود ہم رکھیں گے"۔*
*اسی طرح دوسرے قبیلے بھی اڑگئے*۔ *تلواریں نیاموں سے نکل آئیں* ۔

*☆☆☆*
*جاری ہے ۔۔۔۔۔!*

*کتاب : سیرت النبی ﷺ قدم بہ قدم*

19/10/2025

جو لوگ جدید مغربی تہذیب کے ماتھے پر لکھا *کفر* نہیں پڑھ سکتے ٫٫

یقین جانیں وہ دجال کو بھی نہیں پہچان سکتے ٫٫
*لمحہ فکریہ*

Address

Chattabal
Srinagar
190010

Telephone

+919018851234

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Quran & Sunnah posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Category