ASIM IQBAL

ASIM IQBAL مزہب
سیاست
کھیل

24/06/2025

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1833

كِتَابُ الْجَنَائِزِ الْمَوْتُ بِغَيْرِ مَوْلِدِهِ حسن أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي حُيَيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ مَاتَ رَجُلٌ بِالْمَدِينَةِ مِمَّنْ وُلِدَ بِهَا فَصَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ يَا لَيْتَهُ مَاتَ بِغَيْرِ مَوْلِدِهِ قَالُوا وَلِمَ ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا مَاتَ بِغَيْرِ مَوْلِدِهِ قِيسَ لَهُ مِنْ مَوْلِدِهِ إِلَى مُنْقَطَعِ أَثَرِهِ فِي الْجَنَّةِ

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل اپنی پیدائش کےمقام سے باہرفوت ہوجانا حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں ایک آدمی فوت ہوگیا جو پیدا بھی ویں ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جنازہ پڑھا، پھر فرمایا: ’’کاش کہ یہ اپنی پیدائش والی جگہ سے باہر فوت ہوتا۔‘‘ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیوں؟ آپ نے فرمایا: ’’آدمی جب اپنی پیدائش کی جگہ سے دور فوت ہوتا ہے تو جنت میں اسے اس کی پیدائش گاہ سے موت کی جگہ تک کا فاصلہ ماپ کر جنت دی جاتی ہے۔
تشریح : یہ عام بات ہے۔ باقی رہا مدینہ منورہ میں فوت ہونا تو یہ بہت بڑی سعادت ہے جو اس بیان شدہ فضیلت سے کہیں بڑھ کر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مطلب نہیں کہ یہ شخص مدینہ منورہ سے باہر فوت ہوتا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کاش یہ مدینہ کا پیدائشی نہ ہوتا۔ کسی اور جگہ پیدا ہوکر یہاں ہجرت کرتا اور پھر مدینہ منورہ میں فوت ہوتا کیونکہ مدینے میں وفات کی فضیلت تو احادیث میں وارد ہے۔ دیکھیے: (سنن ابن ماجہ، المناسک، حدیث: ۳۱۱۲، و مسند أحمد: ۷۴/۲) اور یہ مومن کے لیے بڑی سعادت ہے۔ یاد رہے کہ ہر سعادت کے حصول کے لیے صحیح ایمان شرط ہے ورنہ ہر چیز بے کار ہے۔ یہ عام بات ہے۔ باقی رہا مدینہ منورہ میں فوت ہونا تو یہ بہت بڑی سعادت ہے جو اس بیان شدہ فضیلت سے کہیں بڑھ کر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مطلب نہیں کہ یہ شخص مدینہ منورہ سے باہر فوت ہوتا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کاش یہ مدینہ کا پیدائشی نہ ہوتا۔ کسی اور جگہ پیدا ہوکر یہاں ہجرت کرتا اور پھر مدینہ منورہ میں فوت ہوتا کیونکہ مدینے میں وفات کی فضیلت تو احادیث میں وارد ہے۔ دیکھیے: (سنن ابن ماجہ، المناسک، حدیث: ۳۱۱۲، و مسند أحمد: ۷۴/۲) اور یہ مومن کے لیے بڑی سعادت ہے۔ یاد رہے کہ ہر سعادت کے حصول کے لیے صحیح ایمان شرط ہے ورنہ ہر چیز بے کار ہے

ایک گاؤں میں ایک باپردہ خاتون رہا کرتی تھیں۔ ان کی خواہش تھی کہ شادی صرف اسی سے کریں گی جو اُن کے پردے کی حفاظت کرے گا۔ا...
17/05/2025

ایک گاؤں میں ایک باپردہ خاتون رہا کرتی تھیں۔ ان کی خواہش تھی کہ شادی صرف اسی سے کریں گی جو اُن کے پردے کی حفاظت کرے گا۔

ایک نوجوان اس شرط پر نکاح کے لیے آمادہ ہوا۔ شادی ہو گئی، وقت گزرتا رہا، یہاں تک کہ اللہ نے ایک بیٹے سے نوازا۔

کچھ عرصے بعد شوہر نے کہا:

"میں دن بھر کھیتوں میں ہوتا ہوں، گھر آ کر کھانے میں وقت ضائع ہوتا ہے، تم کھانا کھیتوں تک پہنچا دیا کرو۔"

بیوی نے رضا مندی ظاہر کی۔
وقت گزرتا گیا، دوسرا بیٹا بھی پیدا ہوا۔
اب شوہر نے کہا:

"اخراجات بڑھ گئے ہیں، تمہیں میرے ساتھ کھیتوں میں ہاتھ بٹانا ہو گا۔"

یوں وہ مکمل پردے سے نیم پردے میں آ گئی۔

اور جب تیسرا بیٹا ہوا تو شوہر نے اسے مکمل بے پردگی کے ماحول میں لا کھڑا کیا۔

وقت کی دھول سب کچھ ڈھانپتی رہی۔ بچے جوان ہو گئے۔

ایک دن شوہر یونہی بیٹھے بیٹھے ہنسنے لگا۔ بیوی نے وجہ پوچھی، تو وہ بولا:

"یاد ہے! تم کہا کرتی تھیں کہ پردہ میری شرط ہے… کیا ملا اس پردے سے؟
زندگی تو ویسے ہی گزر رہی ہے، پردے سے یا بے پردگی سے کیا فرق پڑا؟"

بیوی نے خاموشی سے کہا:

"ذرا ساتھ والے کمرے میں جا کر چھپ جاؤ، میں تمہیں پردے اور بے پردگی کا فرق سمجھاتی ہوں۔"

شوہر کمرے میں چلا گیا۔

عورت نے بال بکھیر لیے، رونا پیٹنا شروع کر دیا۔

پہلا بیٹا دوڑا آیا، ماں کے آنسو دیکھ کر تڑپ گیا:

"امی! کیا ہوا؟"

ماں بولی:

"تمہارے ابا نے مارا ہے…"

بیٹا سنبھل کر بولا:

"امی! وہ آپ سے محبت بھی تو کرتے ہیں، خیال رکھتے ہیں، کبھی کبھار ہو جاتا ہے۔ صبر کریں۔"

اور وہ چلا گیا۔

ماں نے پھر آہ و زاری کی۔ اب منجھلا بیٹا آیا۔ ماں نے اُسے بھی وہی کہا۔

وہ غصے میں آیا، مگر صرف اتنا بولا:

"ابا نے اچھا نہیں کیا، لیکن آپ فکر نہ کریں، سب ٹھیک ہو جائے گا۔"

اور وہ بھی چلا گیا۔

آخر میں سب سے چھوٹا بیٹا آیا۔ ماں نے اس سے بھی وہی شکایت کی۔

مگر اب… غصہ آسمان کو چھونے لگا۔

"ابھی اس ظالم کی خبر لیتا ہوں!"

وہ گالیاں بکتا ہوا ڈنڈا اٹھا کر کمرے کی طرف لپکا…

بیوی نے شوہر کو آواز دی:

"نکل آؤ… تمہیں پردے اور بے پردگی کا فرق سمجھ آ گیا ہو گا!"

پھر بولی:

"پہلا بیٹا اُس وقت پیدا ہوا، جب میں مکمل باپردہ تھی…
اس نے تمہاری عزت کا بھی پردہ رکھا۔
دوسرا بیٹا جب پیدا ہوا جب میں ادھا پردا کرنے لگی اسنے میرا میرے بچے کچے پردے کا پردہ رکھا …
اور تیسرا جب میں مکمل بے پردہ ہو چکی تھی…
تو وہ تمہیں بھی ننگا کر کے رکھ گیا۔۔

اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحَزَنِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْكَسَلِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِن...
15/05/2025

اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحَزَنِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْكَسَلِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ جُبْنِ وَالْبُخْلِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ غَلَبَةِ الدَّيْنِ وَقَهْرِ الرِّجَالِ۔

ترجمہ:

"اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں غم اور افسردگی سے، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں کمزوری اور سستی سے، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں بزدلی اور کنجوسی سے، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں قرض کے دباؤ اور لوگوں کے ظلم سے۔"

عمل:

اس دعا کو باقاعدگی سے پڑھیں، خاص طور پر صبح و شام۔

اپنے دل کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے نماز قائم کریں اور قرآن مجید کی تلاوت کریں۔

اللہ سے اپنے دل کی حالت کے بارے میں کھل کر بات کریں، جیسے آپ اپنے دوست سے بات کرتے ہیں۔

یاد رکھیں کہ اللہ ہمیشہ اپنے بندوں کی دعاؤں کا جواب دیتا ہے، اور امید اور صبر کے ساتھ اس کی طرف رجوع کرنا آپ کو سکون اور خوشی عطا کر سکتا ہے۔

عجیب تیری عبادت ہے اے مسلمان ایک چاند دیکھ کر تو مسجد آباد کردیتا ہے۔۔اور دوسرا چاند دیکھتے ہی مسجد ویران کر دیتا ہے۔۔
31/03/2025

عجیب تیری عبادت ہے اے مسلمان
ایک چاند دیکھ کر تو مسجد آباد کردیتا ہے۔۔
اور دوسرا چاند دیکھتے ہی مسجد ویران کر دیتا ہے۔۔

1932 عراق میں جب دو صحابۂ اکرام رضوان اللّه اجمعین کی قبور مبارک میں پانی داخل ھوا اور ان کے مزارات کو انہی کے حکم سے من...
29/03/2025

1932 عراق میں جب دو صحابۂ اکرام رضوان اللّه اجمعین کی قبور مبارک میں پانی داخل ھوا اور ان کے مزارات کو انہی کے حکم سے منتقل کیا گیا تھا ۔

عراق کے بادشاہ ملک فیصل (اول) گہری نیند میں تھے انھوں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی ان سے کہہ رہا تھا۔

ہم رسول اللّه صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کے دو صحابی دریائے دجلہ کے کنارے دفن ہیں دریا کا رخ تبدیل ہو رہا ہے پانی ہماری طرف بڑھ رہا ہے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر مبارک میں پانی آچکا ہے جبکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر بھی نم ہونے لگی ہے ہمیں یہاں سے نکال کر دریا کے کنارے سے کچھ فاصلے پر دفن کیا جائے۔

عراق کے بادشاہ نے یہ الفاظ خواب میں سنے لیکن ان کی طرف کوئی توجہ نہ دی دوسری رات پھر یہی الفاظ سنائی دیئے لیکن اس نے اب بھی توجہ نہ دی۔تیسری رات یہ خواب عراق کے مفتی اعظم ”نوری السعید پاشا‘‘ کو دکھائی دیا انہوں نے اسی وقت وزیراعظم کو ساتھ لیا اور بادشاہ کی خدمت میں پہنچ گئے جب انہوں نے بادشاہ سے اپنا خواب بیان کیا تو بادشاہ چونکا اور بولا:

”یہ خواب تو میں بھی دو بار دیکھ چکا ہوں“

اب انہوں نے مشورہ کیا آخر بادشاہ نے مفتی اعظم سے کہا پہلے آپ قبروں کو کھولنے کا فتویٰ دیں تب میں اس خواب کے مطابق عمل کروں گا۔
مفتی اعظم نے اسی وقت قبروں کو کھولنے اور اس میں سے مقدس اجسام کو نکال کر دوسری جگہ دفن کرنے کا فتویٰ جاری کر دیا اب یہ فتویٰ اور شاہی فرمان اخبارات میں شائع کر دئیے گئے اور اعلان کیا گیا کہ عیدقربان کے دن دونوں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قبریں کھولی جائیں گی۔
اخبارات میں جوں ہی یہ خبر شائع ہوئی تو دنیائے اسلام میں بجلی کی طرح پھیل گئی اخبارات کی دنیا اس خبر کو لے اڑی اور مزے کی بات یہ کہ یہ حج کے دن تھے تمام دنیا سے مسلمان حج کیلئے مکہ اور مدینہ میں پہنچے ہوئے تھے انہوں نے درخواست کی کہ قبریں حج کے چند روز بعد کھولی جائیں تاکہ وہ سب بھی اس پروگرام میں شرکت کرسکیں۔
اسی طرح حجاز‘ مصر‘ شام ‘ لبنان‘ فلسطین‘ ترکی‘ ایران‘ بلغاریہ‘ روس‘ ہندوستان وغیرہ ملکوں سے شاہ عراق کے نام سے بے شمار تار پہنچے کہ ہم بھی اس موقع پر شرکت کرنا چاہتے ہیں‘ مہربانی فرما کر مقررہ تاریخ چند روز آگے بڑھا دی جائے۔
چنانچہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی خواہش پر دوسرا فرمان یہ جاری کیا گیا کہ اب یہ کام حج کے دس دن بعد کیا جائے گا۔
آخر کار وہ دن بھی آ گیا جب قبروں کو کھولنا تھا دنیا بھر سے مسلمان وہاں جمع ہوچکے تھے پیر کے دن دوپہر بارہ بجے لاکھوں انسانوں کی موجودگی میں قبروں کو کھولا گیا۔
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر میں کچھ پانی آچکا تھا جبکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر میں نمی پیدا ہوچکی تھی اگرچہ دریائے دجلہ وہاں سے دو فرلانگ دور تھا۔
تمام ممالک کے سفیروں‘ عراقی حکومت کے تمام ارکان اور شاہ فیصل کی موجودگی میں پہلے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جسم مبارک کو کرین کے ذریعے زمین سے اس طرح اوپر اٹھایا گیا کہ ان کی نعش کرین پر رکھے گئے سٹریچر پر خودبخود آ گئی۔ اب کرین سے سٹریچر کو الگ کرکے شاہ فیصل‘ مفتی اعظم‘ وزیر جمہوریہ ترکی اور شہزادہ فاروق ولی عہد مصر نے سٹریچر کو اپنے کندھوں پر اٹھایا اور نہایت احترام کے ساتھ ایک شیشے کے تابوت میں رکھ دیا۔
پھر اسی طرح حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جسم مبارک کو نکالا گیا۔
دونوں اجسام کے کفن بالکل محفوظ تھے یہاں تک کہ ڈاڑھی مبارک کے بال بھی صحیح سلامت تھے۔ اجسام کو دیکھ کر قطعاً یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ وہ تیرہ سو سال پہلے کی ہیں بلکہ یوں گماں گزرتا تھا انہیں وفات پائے ابھی مشکل سے دو تین گھنٹے ہوئے ہیں۔
سب سے عجیب بات یہ ہے کہ دونوں کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں ان میں اس قدر تیز چمک تھی کہ دیکھنے والے ان آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ نہ سکے بڑے بڑے ڈاکٹر یہ منظر دیکھ کر دنگ رہ گئے۔
ان مقدس اجسام کو مزار سیدنا سلمان فارسی رضی اللّه عنہ کے پاس منتقل کر دیا گیا ۔

سچ ہے کہ محمد ﷺ کے غلاموں کا کفن میلا نہیں ہوتا.💞
IMF Africa Pakistan Stock Exchange Limited International Monetary Fund IMF Finance & Development Magazine ASIM IQBAL Asim Iqbal

Address

Karachi

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when ASIM IQBAL posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to ASIM IQBAL:

Share