01/09/2025
کالم : *آئیں باعمل مسلمان بنیں*
قارئین ! دونوں جہانوں کے آقا رسول اکرم حضرت محمد مصطفے ﷺ کے یوم ولادت باسعادت کی آمد آمد ہے ہر مذہبی اور سماجی فورم پر اپ کی شان اقدس کے حوالے سے خطبات ، بیانات اور محافل کا سلسلہ جاری و ساری ہے ۔ آئے روز میلاد مصطفی کے عنوان سے ہر شہر ، دیہات کے گلی کوچوں اور بازاروں میں میلاد مصطفی کے عنوان سے ریلیاں نکالی جا رہی ہیں ۔ جن کے شرکا آپ کی ذات اقدس پر بے تحاشا درود بھیجتے ہیں ۔ اسی طرح عاشقان رسول ﷺ اپنی توفیق اور استطاعت کے مطابق اپنے گھروں یا کاروباری مراکز میں نعتیہ محافل کا انعقاد کرتے ہیں تاکہ عید میلاد النبی کو پورے عقیدت و احترام سے منایا جائے ۔ یہ مقدس سلسلہ یکم ربیع الاول سے 30 ربیع الاول تک جاری اور ساری اور گردونواح کی فضائیں درود پاک کی کثرت سے منور محسوس ہوتی ہیں ۔ ماضی قریب میں محلے دار آپس میں پیسے جمع کر کے اپنی گلی کوچوں کو میلاد النبی ﷺ کی مناسبت سے بھرپور طریقے سے سجایا کرتے تھے ۔ پہاڑیاں بنائی جاتی تھی جنہیں ہر گزرنے والے مرد و خواتین اور بچے بڑے شوق سے دیکھا کرتے تھے ۔ اسی بابرکت دن لوگ اپنے گھروں میں بہترین پکوان بنا کر گلی محلے کے بچوں میں تقسیم کرتے تھے اور یہ سلسلہ سارا دن جاری رہتا تھا ۔ قارئین ! میرا آج کا عنوان ایک سوال ہے جو میں خود سے اور آپ سے اجتماعی طور پر کرنا چاہتا ہوں ۔ ہم بحیثیت مسلمان ربیع الاول کا پورا مہینہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کا جشن مناتے ہیں ۔ محافل کا انعقاد کرتے ہیں ، ریلیاں نکالتے ہیں آپ کی ذات اقدس پر با آواز بلند درود بھیجتے ہیں لیکن باقی کے گیارہ مہینوں میں ہمارے اندر عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لو مدھم کیوں پڑ جاتی ہے ؟ کیا ہم موسمی مسلمان تو نہیں بن چکے یا ہم نے اپنے دین اسلام کو صرف مخصوص مہینوں کے اندر تقسیم کر دیا ہے ؟ مثال کے طور پہ رمضان المبارک کے 30 دن ہم ہر نماز پڑھتے ہیں ، روزے رکھتے ہیں ، نیک اعمال کرتے ہیں لیکن جوں ہی عید الفطر کا چاند نظر آتا ہے ہم اپنی پہلی حالت پہ واپس آجاتے ہیں ، ہماری مساجد پہلے کی طرح خالی ہو جاتی ہیں۔ قارئین کرام ! ہم واقعی موسمی مسلمان بن چکے ہیں ۔ سارا سال ہم اپنے سماجی و کاروباری افعال میں بددیانتی ، ہیرا پھیری ، ناجائز منافع خوری ، امانت میں خیانت ، تول مول میں کمی سمیت ہر سماجی برائی کے ریکارڈ پاش پاش کردیتے ہیں ۔ زیادہ امیر کبیر نظر آنے کی ہوس میں ہر جائز ناجائز حد پار کردیتے ہیں ۔ ، عدم برداشت کی بلندی کو چھوتے ہم بظاہر مہذب نظر آنیوالے لوگ معمولی باتوں پہ اپنے سے کمتر کو کیڑے مکوڑوں کی طرح کچل دیتے ہیں ، ذرا سی توتکار پہ ہم ایک دوسرے کو ختم کرنے پہ اتر آتے ہیں ، بے راہ روی کو جدید دور کی ضرورت سمجھتے ہیں ، سود جیسی لعنت کو انٹرسٹ کا غلاف لپیٹ کر حرام کا مال اڑاتے ہیں ، بیوہ اور یتیموں کے حقوق کو بے رحمی سے پامال کرتے ہیں لیکن جونہی محرم الحرام ، ربیع الاول اور رمضان المبارک کے ماہ مقدسہ کا آغاز ہوتا ہے ہم فوراً سروں پہ ٹوپیاں پہن کر ہاتھ میں تسبیح پکڑ کر مساجد کی چوکھٹ پکڑ لیتے ہیں ۔ اللہ کو راضی کرنے کے جتن کرتے ہیں دل کھول کر صدقات و خیرات کرتے ہیں مگر اللہ کے بندوں کو راضی نہیں کرتے ۔ قارئین ! ہم سب کو خود احتسابی کے کڑے عمل سے گزرنا ہوگا ۔ اپنی اصلاح کرنا ہوگی ، اللہ کے بندوں کو راضی کرنا ہو جو ہماری کی گئی زیادتیوں پہ خاموش رہے ، کمزور ہونے کے سبب اپنا بدلہ نہ لے سکے ، اس سے پہلے کہ خدا کا قانون حرکت میں آجائے ہمیں نام نہاد مذہبی لبادہ اتار دینا چاہئے ۔ ہمیں انفرادی طور پر حقیقی معنوں میں باعمل مسلمان بننا ہوگا تبھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی خوشنودی حاصل ہوسکے گی ۔