12/12/2025
ایک معمولی ہیرو کی وہ بڑی کہانی جس نے ایک قوم کو بچا لیا: طاعون کی وبا میں "ڈاکٹر آف اروراس" کا کردار
کیا آپ جانتے ہیں کہ تاریخ میں ایک ایسا وقت بھی تھا جب انسانی جان بچانے والے ڈاکٹروں کو حکومتیں خصوصی طور پر صرف "موت کے گاؤں" میں بھیجتی تھیں، جہاں صرف ان لوگوں کا علاج کیا جاتا تھا جنہیں "بلیک ڈیتھ" (Black Death) کا خوفناک طاعون لاحق تھا؟ یہ کسی ہالی ووڈ فلم کا منظر نہیں بلکہ 17ویں صدی کے یورپ کی ایک خوفناک حقیقت ہے، جہاں ایک معمولی ڈاکیا کے بیٹے نے اپنی جان پر کھیل کر لاکھوں لوگوں کو موت کے منہ سے بچایا اور اس کے لیے ایک ایسا "سسٹم" بنایا جو آج کے وبائی امراض کے کنٹرول میں بھی ایک بنیادی جزو ہے۔ یہ ہے "ڈاکٹر آف اروراس" کی حقیقی کہانی۔
یہ قصہ 1665 کا ہے، جب لندن "بلیک ڈیتھ" نامی طاعون کی ایک خوفناک لہر کی لپیٹ میں تھا۔ یہ وبا اتنی تیزی سے پھیل رہی تھی کہ چند مہینوں میں تقریباً ایک لاکھ لوگ ہلاک ہو چکے تھے، جو لندن کی کل آبادی کا چوتھائی حصہ تھا۔ لوگ خوفزدہ ہو کر شہر سے بھاگ رہے تھے۔ ایسے میں حکومت کے پاس ایک بہت بڑا چیلنج تھا: کیسے اس وبا کو پھیلنے سے روکا جائے؟
اس وقت کے ڈاکٹرز طاعون کے مریضوں کے قریب جانے سے کتراتے تھے کیونکہ یہ بیماری بہت تیزی سے پھیلتی تھی۔ شہر میں ڈاکٹروں کی تعداد کم پڑ رہی تھی اور جو تھے، وہ بھی محفوظ نہیں تھے۔ ایسے میں جان وارڈال (John Wardall) نامی ایک شخص نے، جو پہلے ایک ڈاکیا کا بیٹا تھا اور اب ایک سرکاری اہلکار تھا، ایک انقلابی اور انتہائی دلیرانہ تجویز پیش کی۔ اس نے حکومت کو ایک ایسا نظام بنانے کا مشورہ دیا جس میں مخصوص "ڈاکٹر آف اروراس" (Doctors of Arrobas) کو ٹریننگ دی جائے گی اور انہیں صرف طاعون کے مریضوں کا علاج کرنے کے لیے شہر کے مختلف حصوں میں تعینات کیا جائے گا۔
"اروراس" (Arrobas) ایک ہسپانوی پیمانہ تھا جس کا وزن تقریباً 11.5 کلوگرام ہوتا تھا۔ وارڈال نے تجویز دی کہ ان ڈاکٹروں کو طاعون سے بچنے کے لیے خصوصی لباس اور ماسک دیے جائیں گے، اور انہیں ہر مریض کے علاج کے لیے ایک مخصوص رقم ادا کی جائے گی۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ ان ڈاکٹروں کو یہ بھی ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ طاعون کے مریضوں کی تعداد کا درست ریکارڈ رکھیں اور انہیں حکام تک پہنچائیں۔ یہ عمل آج کے "کانٹیکٹ ٹریسنگ" (Contact Tracing) کی بنیاد بنا۔
اس نظام کے تحت "ڈاکٹر آف اروراس" نے انتہائی بہادری کا مظاہرہ کیا۔ وہ ایک ایسے لباس میں ملبوس ہوتے تھے جس میں ایک لمبا چمڑے کا اوور کوٹ، ٹوپی اور ایک عجیب و غریب ماسک ہوتا تھا جس کی چونچ جیسی شکل ہوتی تھی۔ اس چونچ میں خوشبودار جڑی بوٹیاں بھری ہوتی تھیں تاکہ وہ تعفن سے بچ سکیں اور ان کا خیال تھا کہ یہ ہوا میں موجود زہریلی "میعازما" (Miasma) کو فلٹر کرتی ہیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک لکڑی کی چھڑی ہوتی تھی جس سے وہ مریضوں کو چھوئے بغیر ان کا معائنہ کرتے اور انہیں دور رکھتے۔
ان ڈاکٹروں نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دن رات کام کیا، مریضوں کی دیکھ بھال کی اور وبا کے پھیلاؤ کا ریکارڈ رکھا۔ ان کے اس منظم ریکارڈ نے حکام کو یہ سمجھنے میں مدد دی کہ وبا کیسے پھیل رہی ہے اور کس علاقے کو قرنطینہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ نظام نہ صرف مریضوں کے علاج میں مددگار ثابت ہوا بلکہ اس نے وبا کے پھیلاؤ کو سست کرنے اور بالآخر اسے قابو کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
جان وارڈال کی یہ معمولی سی مگر انقلابی تجویز، اور "ڈاکٹر آف اروراس" کی قربانی، نے لندن کو ایک بدترین تباہی سے بچایا۔ یہ کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ کس طرح ایک نامعلوم فرد کا چھوٹا سا آئیڈیا اور کچھ بہادر لوگوں کی قربانیاں، تاریخ کے سب سے تاریک لمحوں میں بھی انسانیت کو بچا سکتی ہیں۔ آج بھی جب ہم کسی وبائی مرض سے نمٹتے ہیں، تو ہم کانٹیکٹ ٹریسنگ اور خاص پروٹوکولز پر عمل کرتے ہیں، اور یہ سب اسی 17ویں صدی کے "ڈاکٹر آف اروراس" کے نظام کی ایک جدید شکل ہے۔
اپنی رائے کا اظہار کمنٹ باکس میں کریں اور پیج کو فالو کریں شکریہ