معلومات پلس

معلومات پلس Informazioni di contatto, mappa e indicazioni stradali, modulo di contatto, orari di apertura, servizi, valutazioni, foto, video e annunci di معلومات پلس, Y-Block Peoples Colony, Bolzano.
(1)

"معلومات پلس" صرف ایک پیج نہیں، بلکہ علم، آگہی اور حوصلہ افزائی کا ایک زبردست پلیٹ فارم ہے۔ یہاں آپ کو نہ صرف دلچسپ اور مستند معلوماتی مواد ملے گا، بلکہ زندگی کو نیا رُخ دینے والی موٹیویشنل کہانیاں بھی پڑھنے کو ملیں گی۔ تو اس پیج کو ابھی فالو کرلیں۔

ایک معمولی ہیرو کی وہ بڑی کہانی جس نے ایک قوم کو بچا لیا: طاعون کی وبا میں "ڈاکٹر آف اروراس" کا کردارکیا آپ جانتے ہیں کہ...
12/12/2025

ایک معمولی ہیرو کی وہ بڑی کہانی جس نے ایک قوم کو بچا لیا: طاعون کی وبا میں "ڈاکٹر آف اروراس" کا کردار
کیا آپ جانتے ہیں کہ تاریخ میں ایک ایسا وقت بھی تھا جب انسانی جان بچانے والے ڈاکٹروں کو حکومتیں خصوصی طور پر صرف "موت کے گاؤں" میں بھیجتی تھیں، جہاں صرف ان لوگوں کا علاج کیا جاتا تھا جنہیں "بلیک ڈیتھ" (Black Death) کا خوفناک طاعون لاحق تھا؟ یہ کسی ہالی ووڈ فلم کا منظر نہیں بلکہ 17ویں صدی کے یورپ کی ایک خوفناک حقیقت ہے، جہاں ایک معمولی ڈاکیا کے بیٹے نے اپنی جان پر کھیل کر لاکھوں لوگوں کو موت کے منہ سے بچایا اور اس کے لیے ایک ایسا "سسٹم" بنایا جو آج کے وبائی امراض کے کنٹرول میں بھی ایک بنیادی جزو ہے۔ یہ ہے "ڈاکٹر آف اروراس" کی حقیقی کہانی۔
یہ قصہ 1665 کا ہے، جب لندن "بلیک ڈیتھ" نامی طاعون کی ایک خوفناک لہر کی لپیٹ میں تھا۔ یہ وبا اتنی تیزی سے پھیل رہی تھی کہ چند مہینوں میں تقریباً ایک لاکھ لوگ ہلاک ہو چکے تھے، جو لندن کی کل آبادی کا چوتھائی حصہ تھا۔ لوگ خوفزدہ ہو کر شہر سے بھاگ رہے تھے۔ ایسے میں حکومت کے پاس ایک بہت بڑا چیلنج تھا: کیسے اس وبا کو پھیلنے سے روکا جائے؟
اس وقت کے ڈاکٹرز طاعون کے مریضوں کے قریب جانے سے کتراتے تھے کیونکہ یہ بیماری بہت تیزی سے پھیلتی تھی۔ شہر میں ڈاکٹروں کی تعداد کم پڑ رہی تھی اور جو تھے، وہ بھی محفوظ نہیں تھے۔ ایسے میں جان وارڈال (John Wardall) نامی ایک شخص نے، جو پہلے ایک ڈاکیا کا بیٹا تھا اور اب ایک سرکاری اہلکار تھا، ایک انقلابی اور انتہائی دلیرانہ تجویز پیش کی۔ اس نے حکومت کو ایک ایسا نظام بنانے کا مشورہ دیا جس میں مخصوص "ڈاکٹر آف اروراس" (Doctors of Arrobas) کو ٹریننگ دی جائے گی اور انہیں صرف طاعون کے مریضوں کا علاج کرنے کے لیے شہر کے مختلف حصوں میں تعینات کیا جائے گا۔
"اروراس" (Arrobas) ایک ہسپانوی پیمانہ تھا جس کا وزن تقریباً 11.5 کلوگرام ہوتا تھا۔ وارڈال نے تجویز دی کہ ان ڈاکٹروں کو طاعون سے بچنے کے لیے خصوصی لباس اور ماسک دیے جائیں گے، اور انہیں ہر مریض کے علاج کے لیے ایک مخصوص رقم ادا کی جائے گی۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ ان ڈاکٹروں کو یہ بھی ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ طاعون کے مریضوں کی تعداد کا درست ریکارڈ رکھیں اور انہیں حکام تک پہنچائیں۔ یہ عمل آج کے "کانٹیکٹ ٹریسنگ" (Contact Tracing) کی بنیاد بنا۔
اس نظام کے تحت "ڈاکٹر آف اروراس" نے انتہائی بہادری کا مظاہرہ کیا۔ وہ ایک ایسے لباس میں ملبوس ہوتے تھے جس میں ایک لمبا چمڑے کا اوور کوٹ، ٹوپی اور ایک عجیب و غریب ماسک ہوتا تھا جس کی چونچ جیسی شکل ہوتی تھی۔ اس چونچ میں خوشبودار جڑی بوٹیاں بھری ہوتی تھیں تاکہ وہ تعفن سے بچ سکیں اور ان کا خیال تھا کہ یہ ہوا میں موجود زہریلی "میعازما" (Miasma) کو فلٹر کرتی ہیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک لکڑی کی چھڑی ہوتی تھی جس سے وہ مریضوں کو چھوئے بغیر ان کا معائنہ کرتے اور انہیں دور رکھتے۔
ان ڈاکٹروں نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دن رات کام کیا، مریضوں کی دیکھ بھال کی اور وبا کے پھیلاؤ کا ریکارڈ رکھا۔ ان کے اس منظم ریکارڈ نے حکام کو یہ سمجھنے میں مدد دی کہ وبا کیسے پھیل رہی ہے اور کس علاقے کو قرنطینہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ نظام نہ صرف مریضوں کے علاج میں مددگار ثابت ہوا بلکہ اس نے وبا کے پھیلاؤ کو سست کرنے اور بالآخر اسے قابو کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
جان وارڈال کی یہ معمولی سی مگر انقلابی تجویز، اور "ڈاکٹر آف اروراس" کی قربانی، نے لندن کو ایک بدترین تباہی سے بچایا۔ یہ کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ کس طرح ایک نامعلوم فرد کا چھوٹا سا آئیڈیا اور کچھ بہادر لوگوں کی قربانیاں، تاریخ کے سب سے تاریک لمحوں میں بھی انسانیت کو بچا سکتی ہیں۔ آج بھی جب ہم کسی وبائی مرض سے نمٹتے ہیں، تو ہم کانٹیکٹ ٹریسنگ اور خاص پروٹوکولز پر عمل کرتے ہیں، اور یہ سب اسی 17ویں صدی کے "ڈاکٹر آف اروراس" کے نظام کی ایک جدید شکل ہے۔

اپنی رائے کا اظہار کمنٹ باکس میں کریں اور پیج کو فالو کریں شکریہ

وہ شہر جو کبھی غائب ہو گیادنیا کے عجیب و غریب تاریخی شہروں میں سے ایک ہے موہنجو داڑو، جو آج پاکستان کے صوبہ سندھ میں واق...
11/12/2025

وہ شہر جو کبھی غائب ہو گیا

دنیا کے عجیب و غریب تاریخی شہروں میں سے ایک ہے موہنجو داڑو، جو آج پاکستان کے صوبہ سندھ میں واقع ہے۔ یہ شہر تقریباً 5,000 سال پہلے دریائے سندھ کے کنارے آباد تھا، اور اپنی تہذیب، سڑکوں اور پانی کے نظام کی وجہ سے دنیا کے قدیم ترین شہری منصوبوں میں شمار ہوتا ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ موہنجو داڑو اتنے اچانک غائب ہو گیا کہ مورخین آج بھی اس کے مکمل راز نہیں جان سکے۔ کچھ ماہرین کے مطابق:

شدید سیلاب یا دریائے سندھ کے رخ بدل جانے کی وجہ سے شہر زیر آب آ گیا

یا پھر کسی جنگ یا بیماری نے یہاں کی آبادی کو ختم کر دیا

شہر کے نقش و نگار سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں کے لوگ انتہائی ترقی یافتہ، صاف ستھرے اور منظم زندگی گزارتے تھے—جیسے آج کے شہروں میں بنیادی سہولیات موجود ہوں۔

موہنجو داڑو ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ قدرت کی طاقت اور انسان کی ترقی ساتھ ساتھ چلتی ہے، لیکن کبھی کبھار انسان کی محنت بھی قدرت کے آگے کمزور ثابت ہو جاتی ہے۔

وہ بادشاہ جو کتابوں کو قید کرتا تھاآپ نے بادشاہوں کے بارے میں بہت کچھ سنا ہوگا، مگر ایک بادشاہ ایسا بھی گزرا ہے جو قیدیو...
11/12/2025

وہ بادشاہ جو کتابوں کو قید کرتا تھا

آپ نے بادشاہوں کے بارے میں بہت کچھ سنا ہوگا، مگر ایک بادشاہ ایسا بھی گزرا ہے جو قیدیوں کی جگہ کتابوں کو قید کرتا تھا!

یہ تھے مراکش کے بادشاہ المنصور۔ وہ علم کے دیوانے تھے۔ جب بھی ان کی فوج کوئی شہر فتح کرتی، تو وہ اس شہر کے بہترین علماء، خطاط اور کتابیں اپنے دربار میں لے آتے۔

دلچسپ بات؟
وہ کتابوں کے لیے الگ قید خانے بنواتے تھے—ایسے کمروں میں جہاں نمی، روشنی اور درجہ حرارت خاص طور پر کنٹرول کیا جاتا تھا تاکہ کتابیں خراب نہ ہوں۔

مورخین لکھتے ہیں کہ ان کی ذاتی لائبریری میں:

ہزاروں نایاب مخطوطے

سونے کی سیاہی سے لکھے قرآن

سائنس، فلکیات، طب اور فلسفے کی عربی و یونانی کتب

موجود تھیں، جنہیں خاص محافظ سنبھالتے تھے۔

یہ حقیقت اس بات کی گواہی ہے کہ کبھی مسلمان بادشاہ کتابوں اور علم کو خزانے کی طرح قید کر کے محفوظ رکھتے تھے—تاکہ آنے والی نسلیں جہالت سے آزاد رہیں۔

11/12/2025

وہ بادشاہ جس نے کبھی جنگ نہیں ہاری

دنیا کی تاریخ میں صرف چند ہی لوگ ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی میں ایک بھی جنگ نہیں ہاری—انہیں میں سے ایک تھے سلطان صلاح الدین ایوبی۔

صلاح الدین ایوبی کی سب سے بڑی طاقت صرف ان کی تلوار نہیں تھی، بلکہ ان کا اخلاق، انصاف اور دشمن پر بھی رحم تھا۔ تاریخ کے مورخین لکھتے ہیں کہ:

صلیبی دشمن بھی ان کی عزت کرتے تھے

وہ کبھی عورتوں، بچوں اور نہتے لوگوں پر ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے

انہوں نے بیت المقدس فتح کیا، مگر ایک قطرہ خون بھی بہنے نہیں دیا

یہی وجہ ہے کہ انہیں East & West دونوں جگہ "The King of Chivalry" یعنی "شرافت کا بادشاہ" کہا جاتا ہے۔

صلاح الدین ایوبی نے ہمیں سکھایا کہ اصل طاقت اخلاق اور کردار میں ہوتی ہے، صرف جنگ جیت لینے میں نہیں۔

دنیا کی پہلی یونیورسٹی ایک مسلمان خاتون نے بنائی859 عیسوی میں مراکش کے شہر فاس میں ایک باہمت اور علم دوست مسلمان خاتون ف...
11/12/2025

دنیا کی پہلی یونیورسٹی ایک مسلمان خاتون نے بنائی

859 عیسوی میں مراکش کے شہر فاس میں ایک باہمت اور علم دوست مسلمان خاتون فاطمہ الفہری نے دنیا کی پہلی باقاعدہ یونیورسٹی "جامعہ القرویین" قائم کی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ ادارہ آج بھی فعال ہے اور یونیسکو اسے دنیا کی پہلی اور سب سے قدیم جاری یونیورسٹی تسلیم کرتا ہے۔

فاطمہ الفہری نے اپنے باپ کی وراثت علم کی خدمت میں وقف کر دی۔ اس زمانے میں تعلیم زیادہ تر مردوں تک محدود تھی، لیکن انہوں نے نہ صرف مردوں بلکہ خواتین کے لیے بھی دروازے کھول دیے۔ یہاں ریاضی، فلکیات، فقہ، طب، ادبیات اور فلسفے سمیت کئی علوم پڑھائے جاتے تھے۔

ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ بعد کے زمانوں میں یورپ کے کئی سائنسدان، مفکر اور مذہبی اسکالرز بھی اسی یونیورسٹی کی تحقیق سے مستفید ہوتے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ یورپی یونیورسٹی سسٹم نے بھی کسی حد تک اسی کے ماڈل سے تحریک حاصل کی۔

یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ میں خواتین نے صرف گھریلو کردار ہی نہیں نبھایا بلکہ علم، تہذیب اور ترقی میں بھی عظیم کردار ادا کیا۔

11/12/2025

مصر کے عظیم اہرامِ گِزہ کو بنے ہوئے آج تقریباً 4,500 سال ہو چکے ہیں، لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جب یہ مکمل ہوئے تو اُس وقت پوری دنیا میں ان جیسی کوئی عمارت موجود نہیں تھی۔ سب سے بڑا اہرام—"Great Pyramid"—تقریباً 146 میٹر اونچا تھا، اور اس نے تقریباً 3,800 سال تک دنیا کی سب سے بلند انسان ساختہ عمارت ہونے کا اعزاز اپنے پاس رکھا۔

اس سے بھی زیادہ حیرت یہ ہے کہ یہ اہرام بغیر کرین، مشینری یا جدید ٹیکنالوجی کے بنائے گئے۔ ہر پتھر کا وزن کئی ٹن ہوتا تھا، مگر پھر بھی لاکھوں پتھروں کو انتہائی درست زاویے پر رکھ کر ایسی عمارت تیار کی گئی جو آج بھی کھڑی ہے۔ جدید انجینئرز آج بھی حیران ہوتے ہیں کہ اس زمانے میں یہ کیسے ممکن ہو پایا۔

اس کی پیمائش، سمت، سورج کی روشنی، موسم اور زمین کے زاویے تک اتنی درستگی سے جڑی ہوئی ہیں کہ یہ حیرت کا ایک عالمی جھونکا ہے۔ اس لیے اہرام کو آج بھی انسانی تاریخ کی سب سے بڑی انجینئرنگ کامیابیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

11/12/2025

دس دلچسپ حقائق
⭐ 1. مصر کے اہرام 3,800 سال تک دنیا کی سب سے اونچی عمارت رہے

گِزہ کا عظیم اہرام جب بنا تو اس کی بلندی نے ہر عمارت کو پیچھے چھوڑ دیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کے بعد تقریباً چار ہزار سال تک کوئی عمارت اس سے اونچی نہیں بن سکی۔

---

⭐ 2. چین کی دیوار خلا سے نظر نہیں آتی

عام تاثر کے برعکس، خلاباز صاف بتاتے ہیں کہ ننگی آنکھ سے یہ دیوار خلا سے دکھائی نہیں دیتی۔ البتہ فضائی تصاویر میں کبھی کبھی ہلکی لائن سی نظر آ جاتی ہے۔

---

⭐ 3. وائکنگز اپنے کپڑوں کو سرخ بنانے کے لیے سڑے ہوئے جانوروں کے خون کا استعمال کرتے تھے

یہ قدیم لوگ اپنے لباسوں کو زیادہ "خوفناک" دکھانے کے لیے عجیب ترکیبیں استعمال کرتے تھے۔

---

⭐ 4. قدیم مصر میں بلی کو مارنے کی سزا موت تھی

مصری بلیوں کو مقدس سمجھتے تھے۔ اگر کسی نے غلطی سے بھی بلی کو نقصان پہنچایا تو اسے سخت ترین سزا دی جاتی تھی۔

---

⭐ 5. دنیا کی پہلی یونیورسٹی فاطمہ الفہری نے بنائی

859 عیسوی میں مراکش کے شہر فاس میں قائم ہونے والی "جامعہ القرویین" آج بھی دنیا کی سب سے پرانی فعال یونیورسٹی ہے۔

---

⭐ 6. مونگ پھلی اصل میں نٹ نہیں ہوتی

دلچسپ مگر سچ—مونگ پھلی دراصل "لیگوم" فیملی سے تعلق رکھتی ہے، یعنی یہ دالوں کے خاندان میں آتی ہے۔

---

⭐ 7. دنیا میں کبھی 17 ہزار افراد ایک ہی جنگ میں صرف ایک دن میں مارے گئے

اسے Battle of Cannae کہا جاتا ہے جو رومی سلطنت اور ہینیبل کے درمیان لڑی گئی—یہ تاریخ کی سب سے خونریز ایک روزہ جنگوں میں سے ایک ہے۔

---

⭐ 8. بابا آدم اور بی بی حوّا کا مزار سری لنکا کی ایک پہاڑی سے منسوب ہے

اس پہاڑ کو "Adam’s Peak" کہا جاتا ہے اور مختلف مذاہب کی روایات اس سے جڑی ہیں۔

---

⭐ 9. دنیا کا پہلا پاسپورٹ حضرت عمرؓ کے دور میں جاری ہوا

مسافروں کو ایک تحریری "سفر اجازت نامہ" دیا جاتا تھا جو آج کے پاسپورٹ کے ابتدائی تصور سے ملتا جلتا ہے۔

---

⭐ 10. ناسا کے کمپیوٹر سے کم طاقت آج آپ کے موبائل میں ہے

چاند پر جانے والے مشن کے کمپیوٹرز کی طاقت آج کے عام اسمارٹ فون سے بھی کم تھی، لیکن پھر بھی انسان نے چاند پر قدم رکھ لیا۔

"خوش آمدید! ❤️میرے پیج کو فالو کرنے کا بہت شکریہ۔ آپ کی آمد نے اس جگہ کو اور بھی خوبصورت بنا دیا ہے۔امید ہے یہاں آپ کو م...
11/12/2025

"خوش آمدید! ❤️
میرے پیج کو فالو کرنے کا بہت شکریہ۔ آپ کی آمد نے اس جگہ کو اور بھی خوبصورت بنا دیا ہے۔
امید ہے یہاں آپ کو معلومات، دلچسپی اور سیکھنے کے سفر میں کچھ نیا ملے گا۔
شکریہ کہ آپ اس فیملی کا حصہ بنے!"
Maqbool Ahmad, Ahsan Khan, Shafqat Rasool Pti, Malik Javed Jhammat, Muhammad Ishfaq, Muhammad Raheem, Kamran Khan Afridi, Munib Ur Rahman, Muhammad Imran Memon Naeemu, Naeem Qaiser, Ibrahim Jan, Zain Sukhera, Liaqat Ishfaq Bhatti, Sufyan Sufyan Ali, Mehboob Zakir, Aslam Ali, Sohail Butt, علی علی

قدیم رومن ہاتھ سے بنے سائن بورڈز کیسے استعمال کرتے تھے؟ٹیکنالوجی کا وہ فیکٹ جو آج کے ڈیجیٹل مارکیٹنگ سے کچھ ہی دور لگے۔ج...
11/12/2025

قدیم رومن ہاتھ سے بنے سائن بورڈز کیسے استعمال کرتے تھے؟
ٹیکنالوجی کا وہ فیکٹ جو آج کے ڈیجیٹل مارکیٹنگ سے کچھ ہی دور لگے۔

جب ہم آج کل اشتہاروں کے بارے میں سوچتے ہیں، تو ہمارے ذہن میں بڑی بڑی ڈیجیٹل بل بورڈز، فیس بک اور انسٹاگرام پر ٹارگیٹڈ ایڈز، یا ٹی وی پر چمکدار کمرشلز آتے ہیں۔ ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں ڈیجیٹل مارکیٹنگ ہر جگہ ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ قدیم روم میں، جہاں نہ بجلی تھی، نہ پرنٹنگ پریس اور نہ کوئی سوشل میڈیا، وہاں بھی لوگ حیرت انگیز طور پر مؤثر "اشتہاری مہمات" چلاتے تھے؟ یہ ایک ایسی دلچسپ اور حیران کن تاریخی حقیقت ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ مارکیٹنگ کی جڑیں کتنی پرانی ہیں۔
ہاتھ سے لکھی تشہیر: پمفلٹ اور دیواروں پر اشتہارات
قدیم رومی شہری ایک متحرک کاروباری اور سماجی زندگی گزارتے تھے۔ شہر کی دیواریں، گلی کے کونے، اور بازاروں میں اکثر ہاتھ سے لکھے ہوئے سائن بورڈز اور اعلانات نظر آتے تھے۔ یہ قدیم دنیا کے "مارکیٹنگ چینلز" تھے:
1. دیواروں پر اشتہارات (Wall Ads): شہروں جیسے پومپی (Pompeii) کی کھدائیوں سے ایسی دیواریں ملی ہیں جن پر ہاتھ سے پینٹ کیے گئے اشتہارات موجود تھے۔ یہ دیواریں آج کے بل بورڈز کا کام دیتی تھیں۔
o انتخابی مہمات: سیاسی امیدوار اپنی تصاویر اور پرکشش نعرے دیواروں پر لکھواتے تھے تاکہ عوام ان کے حق میں ووٹ دیں۔ مثلاً: "لوکیس سیسیئس کو ایڈیلی (میئر) کے لیے منتخب کریں! وہ بہت اچھا ہے!" (یہ اس دور کی انتخابی مہم کا حصہ تھا)
o کاروباری تشہیر: دکان دار اپنی مصنوعات، جیسے شراب، کھانا، یا لوہے کے اوزار، کی تشہیر کے لیے دیواروں کا استعمال کرتے تھے۔ مثلاً: "یہاں تازہ روٹی دستیاب ہے!"
o تفریحی اعلانات: گلیڈی ایٹر کے مقابلوں (Gladiator Games)، تھیٹر کے شوز، یا عوامی غسل خانوں (Public Baths) کے بارے میں بھی اعلانات دیواروں پر لکھے جاتے تھے۔
2. پمفلٹ اور تختیاں (Pamphlets and Boards): دیواروں کے علاوہ، لکڑی کی تختیاں یا پاپائرس (Papyrus) پر ہاتھ سے لکھے گئے پمفلٹ بھی عام تھے۔ یہ لوگوں کے درمیان تقسیم کیے جاتے تھے یا عوامی مقامات پر لگائے جاتے تھے۔
3. مخبر اور پبلک اناؤنسر (Criers and Public Announcers): گلیوں میں گھومنے والے لوگ (criers) بھی ہوتے تھے جو زور زور سے اعلانات کرتے تھے یا کسی خاص پروڈکٹ یا ایونٹ کی تشہیر کرتے تھے، جو آج کے ریڈیو یا ٹی وی کمرشل کا قدیم ورژن تھا۔
الفاظ کی طاقت: ٹارگیٹڈ مارکیٹنگ
اگرچہ قدیم رومیوں کے پاس ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نہیں تھی، لیکن ان کی مارکیٹنگ انتہائی ٹارگیٹڈ اور مؤثر تھی۔ وہ جانتے تھے کہ ان کا پیغام کس تک پہنچانا ہے اور اس کے لیے کون سی جگہ یا کون سا ذریعہ سب سے مناسب ہوگا۔ دیواروں پر لکھے پیغامات آج کے وائرل پوسٹس کی طرح پورے شہر میں پھیل جاتے تھے۔

اگلی بار جب آپ کسی ڈیجیٹل بل بورڈ یا سوشل میڈیا ایڈ کو دیکھیں، تو ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ کیسے ہزاروں سال پہلے، لوگوں نے محدود وسائل کے ساتھ بھی اپنی مصنوعات، خیالات اور خدمات کی تشہیر کے لیے حیرت انگیز طریقے ڈھونڈ رکھے تھے۔
کیا آپ قدیم رومن کی طرح دیواروں پر لکھے اشتہارات پر بھروسہ کریں گے؟ مارکیٹنگ کی تاریخ واقعی رنگین ہے!
اس طرح کی معلوماتی پوسٹس کے لئے معلومات پلس پیج کو وزٹ کریں اگر پسند آئے تو ضرور لائک کریں شکریہ

کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا کا پہلا ویڈیو گیم ایک ٹینس میچ تھا؟ٹیکنالوجی کا وہ فیکٹ جو تفریح کی دنیا بدل گیا!جب ہم ویڈیو گی...
11/12/2025

کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا کا پہلا ویڈیو گیم ایک ٹینس میچ تھا؟
ٹیکنالوجی کا وہ فیکٹ جو تفریح کی دنیا بدل گیا!

جب ہم ویڈیو گیمز کے بارے میں سوچتے ہیں، تو ہمارے ذہن میں ایڈونچر سے بھرپور دنیا، ہائی ریزولوشن گرافکس، اور آن لائن ملٹی پلیئر میچز آتے ہیں۔ لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ دنیا کا پہلا باقاعدہ انٹرایکٹو ویڈیو گیم دراصل ایک سادہ سا ٹینس کا میچ تھا جو آج کے پونگ (Pong) سے بھی بہت پہلے ایجاد ہوا؟ جی ہاں، یہ ایک ایسی دلچسپ اور حیران کن تاریخی حقیقت ہے جو جدید گیمنگ کی شروعات کو ظاہر کرتی ہے۔
ٹینس فار ٹو (Tennis for Two): ایک سادہ لیکن انقلابی آغاز
1958 میں، نیویارک کے بروک ہیون نیشنل لیبارٹری (Brookhaven National Laboratory) میں کام کرنے والے ایک طبیعیات دان ولیم ہیگن بوتھم (William Higinbotham) نے ایک ایسے بوریت شکن تفریحی آلے کے طور پر "Tennis for Two" نامی ایک گیم ایجاد کیا۔ ان کا مقصد لیبارٹری آنے والے مہمانوں کو متوجہ کرنا اور انہیں یہ دکھانا تھا کہ سائنس کس قدر دلچسپ ہو سکتی ہے۔
اس گیم کی خصوصیات یہ تھیں:
1. ایک آسیلوسکوپ (Oscilloscope) پر چلنے والا گیم: آج کے ٹی وی یا مانیٹر کے بجائے، یہ گیم ایک آسیلوسکوپ (Oscilloscope) پر کھیلا جاتا تھا، جو سائنسی آلات میں الیکٹریکل سگنلز کو بصری شکل میں دکھانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
2. سادہ گرافکس: سکرین پر صرف ایک افقی لکیر ہوتی تھی جو ٹینس کورٹ کی نمائندگی کرتی تھی، اور ایک عمودی لکیر نیٹ کی نمائندگی کرتی تھی۔ ایک روشنی کا نقطہ (Dot) بال ہوتا تھا جو کھلاڑیوں کے کنٹرول سے حرکت کرتا تھا۔
3. دو کھلاڑیوں کا گیم: اس گیم کو دو کھلاڑی کھیلتے تھے، ہر کھلاڑی کے پاس ایک کنٹرولر ہوتا تھا جس میں ایک نوب (گیند کی حرکت کو کنٹرول کرنے کے لیے) اور ایک بٹن (گیند کو ہٹ کرنے کے لیے) ہوتا تھا۔
4. فزکس کا اطلاق: ہیگن بوتھم، جو کہ ایک طبیعیات دان تھے، نے گیند کی حرکت میں ہوا کی مزاحمت (Air Resistance) اور کشش ثقل (Gravity) کے اثرات کو بھی شامل کیا تھا، جس سے گیم زیادہ حقیقت پسندانہ بنتا تھا۔
گیمنگ کی دنیا کا پہلا قدم
"Tennis for Two" کو تقریباً دو سال تک لیبارٹری کے اوپن ہاؤس ایونٹس میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا اور یہ بہت مقبول ہوا۔ ہزاروں لوگ اسے کھیلنے کے لیے قطار میں کھڑے ہوتے تھے۔ اس گیم نے ثابت کیا کہ کمپیوٹرز کو صرف سائنسی حساب کتاب کے لیے ہی نہیں بلکہ تفریح کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اگرچہ "Tennis for Two" کو کبھی تجارتی مقاصد کے لیے جاری نہیں کیا گیا، لیکن اسے اکثر جدید ویڈیو گیمز کا پیش خیمہ سمجھا جاتا ہے، اور یہ پونگ (Pong) جیسے بعد کے گیمز کے لیے ایک تحریک ثابت ہوا۔
اگلی بار جب آپ اپنے پلے سٹیشن، ایکس باکس یا سمارٹ فون پر کوئی پیچیدہ ویڈیو گیم کھیلیں، تو ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ اس کی جڑیں 1958 کے ایک سادہ سے ٹینس میچ میں ہیں جو ایک سائنسی لیبارٹری میں مہمانوں کو متاثر کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔
ایک روشنی کے نقطے سے شروع ہونے والا سفر آج ورچوئل رئیلٹی تک پہنچ چکا ہے!

اس طرح کی معلوماتی پوسٹس کے لئے معلومات پلس پیج کو وزٹ کریں اگر پسند آئے تو ضرور لائک کریں شکریہ

برف میں دفن ہونے کے بعدر پھر زندہ لوٹ آئی: 56.7°F سے واپسی کی ناقابلِ یقین کہانی20 مئی 1999 — شمالی ناروے29 سالہ اینا بو...
11/12/2025

برف میں دفن ہونے کے بعدر پھر زندہ لوٹ آئی: 56.7°F سے واپسی کی ناقابلِ یقین کہانی

20 مئی 1999 — شمالی ناروے
29 سالہ اینا بوگن ہولم اُس زمانے میں میڈیکل کی طالبہ تھیں۔ امتحانات اور مصروفیات کے درمیان انہوں نے اپنے دو دوستوں کے ساتھ مل کر ناروک کے قریب آخری بہاری برفانی ڈھلوانوں پر اسکیئنگ کا منصوبہ بنایا—موسمِ بہار ختم ہونے سے پہلے آخری بار برف سے لطف اندوز ہونے کا موقع۔
تینوں ہنس رہے تھے، ٹھنڈی ہوا چہروں سے ٹکرا رہی تھی، اردگرد پھیلی خاموشی سکون دے رہی تھی… اور پھر ایک لمحہ ایسا آیا جس نے پوری زندگی بدل دی۔
ایک پھسلن بھرا موڑ۔
ایک سخت برفانی تختہ۔
ایک غلط زاویہ۔
اینا پھسل کر سیدھا سر کے بل برف جمی ندی میں جا گریں۔ ان کے اوپر برف کی تہہ بند ہوگئی۔ وہ پانی کے نیچے پھنس چکی تھیں۔
دوست دیوانہ وار انہیں پکڑنے کی کوشش کرتے رہے، لیکن بہاؤ نے انا کو برف کے نیچے مزید دور دھکیل دیا۔ وہ زندہ تھیں، پوری ہوش میں—گھٹن اور اندھیرے میں زندگی کے لیے لڑتی ہوئی۔ وہ ہاتھوں سے اوپر کی برف توڑنے کی کوشش کرتی رہیں، سانس روک کر پانی میں جدوجہد کرتی رہیں۔ پھر اچانک انہیں ایک چھوٹی سی ہوا کی جیب ملی، جہاں برف اور پانی کے درمیان چند انچ کا خالی حصہ موجود تھا۔
وہاں وہ اپنے چہرے کو اوپر رکھ کر سانس لینے لگیں—
دھیرے دھیرے… مشکل سے…
برف کا اندھیرا، جسم میں ٹھنڈ کی میخیں، اور امید کا آخری دھاگہ۔
انہوں نے چالیس منٹ اس جیب سے سانس لیتے ہوئے گزارے، مگر جیسے جیسے سردی جسم میں سرایت کرتی گئی، ان کی توانائی ختم ہونے لگی۔ کپکپی، کمزوری، ذہنی دھندلاہٹ…
اور پھر دل نے دھڑکنا چھوڑ دیا۔
ان کا جسم جواب دے چکا تھا۔
ادھر امداد ابھی پہنچی بھی نہیں تھی۔ مزید چالیس منٹ گزر گئے۔
کل ملا کر 80 منٹ وہ برف کے نیچے رہیں۔
جب ریسکیو ٹیم نے انہیں نکالا تو انا کلینیکل ڈیتھ کی حالت میں تھیں—
نہ نبض، نہ سانس، نہ جسم میں گرمی کا کوئی نشان۔
ان کی جلد موم کی طرح سرمئی، آنکھوں کی پتلیاں بے حرکت۔
اور سب سے ہولناک بات: ان کا کور باڈی ٹمپریچر صرف 56.7°F تھا۔ یعنی وہ انسان کی زندہ رہنے کی حد سے بہت نیچے گر چکی تھیں۔
مگر ٹرومسو شہر، جو تقریباً 62 میل دور تھا، وہاں کے ڈاکٹروں نے ہار ماننے سے انکار کردیا۔
میڈیکل دنیا کا ایک اصول اُن کے ذہن میں تھا:
“جب تک جسم گرم نہ ہو جائے، کسی کو مردہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔”
انہیں فوراً ہارٹ-لنگ بائی پاس مشین سے جوڑا گیا۔ ان کا خون جسم سے نکالا گیا، آکسیجن شامل کی گئی، آہستہ آہستہ گرم کیا گیا، اور پھر دوبارہ جسم میں واپس بھیجا گیا۔ یہ عمل گھنٹوں جاری رہا—ملی میٹر بہ ملی میٹر، سانس بہ سانس۔
جب ان کا جسم 86°F تک پہنچا تو ایک معجزہ ہوا۔
تقریباً نو گھنٹے بعد ان کا دل پھر سے دھڑکنے لگا۔
اگلے کئی دن بحالی، بے یقینی، انتظار، اور خاموش دعاوں میں گزرے۔ پھر آہستہ آہستہ ردعمل آنے لگے۔
پھر پہلی پہچان…
پہلا جملہ…
اینا زندہ تھیں۔
اور ان کا دماغ حیرت انگیز طور پر مکمل محفوظ تھا۔
ہاں، ہاتھوں اور پیروں میں کچھ اعصابی نقصان ضرور ہوا، مگر ان کی ذہنی صلاحیت، سوچ، یادداشت—سب کچھ برقرار تھا۔
وہ چلنے پھرنے لگیں، صحت بہتر ہوئی، اور اپنی پڑھائی مکمل کی۔
سالوں بعد وہ واپس اُسی اسپتال لوٹیں—
مگر مریضہ بن کر نہیں، ریڈیولوجسٹ بن کر۔
وہ انہی راہداریوں میں چلتی رہیں جہاں انہیں موت کے دہانے سے واپس لایا گیا تھا۔ انہی مشینوں کے پاس سے گزرتیں جنہوں نے ان کے دل کو دوبارہ زندہ کیا تھا۔
ان کی فائلیں دنیا بھر کے میڈیکل کالجوں میں پڑھائی جانے لگیں، ان کی کہانی گائیڈ لائنز کا حصہ بن گئی۔
“You’re not dead until you’re warm and dead.”
یہ اصول اب سرکاری ہدایت نامے میں شامل ہے۔
اور 56.7°F ایک تاریخی حوالہ بن چکا ہے۔
اینا 80 منٹ برف کے نیچے رہیں—
40 منٹ سانس لیتی رہیں…
40 منٹ دل بند رہا…
پھر بھی وہ جاگ اٹھیں۔
اور دوبارہ زندگی شروع کر دی۔
جس دن انا بوگن ہولم اُس برفانی ندی میں گری تھیں، اسی دن طبّی دنیا نے ایک نیا سبق سیکھا—
کہ بعض اوقات انجام وہ نہیں ہوتا جو نظر آتا ہے۔
اصل آغاز تو اُس کے بعد ہوتا ہے۔

بھیڑیوں سے بچنے کے لیے انسانوں کی وہ عجیب و غریب تدبیر جو خود بھی ایک معمہ بن گئی!کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ یورپ کے کچھ...
11/12/2025

بھیڑیوں سے بچنے کے لیے انسانوں کی وہ عجیب و غریب تدبیر جو خود بھی ایک معمہ بن گئی!

کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ یورپ کے کچھ گاؤں میں رات کو بھیڑیوں کے حملوں سے بچنے کے لیے انسانوں نے ایک ایسی خوفناک تدبیر اپنائی جو آج بھی نفسیاتی ماہرین کے لیے ایک معمہ بنی ہوئی ہے؟ یہ کہانی ان تاریک ادوار کی ہے جب انسان جنگلی حیات کے رحم و کرم پر تھے، اور جان بچانے کے لیے انہیں ایسے اقدامات کرنے پڑتے تھے جو آج کے دور میں ناقابلِ یقین لگیں۔ یہ ہے "وارولف ٹرائلز" (Werewolf Trials) یا بھیڑیا انسان کے مقدمات کی پراسرار داستان۔

16ویں اور 17ویں صدی کے یورپ میں، خاص طور پر فرانس اور جرمنی کے دیہی علاقوں میں، بھیڑیوں کا خطرہ ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔ جنگلات وسیع تھے اور بھیڑیوں کے جھنڈ گاؤں میں گھس کر جانوروں اور بعض اوقات انسانوں کو بھی نشانہ بناتے تھے۔ اس وقت لوگوں کا ایمان تھا کہ بعض انسان جادو کے ذریعے بھیڑیوں کی شکل اختیار کر سکتے ہیں، یعنی "وارولف" (Werewolf) بن سکتے ہیں۔ یہ عقیدہ محض کہانیوں تک محدود نہیں تھا بلکہ عدالتوں میں باقاعدہ ایسے مقدمات چلائے جاتے تھے جہاں لوگوں پر بھیڑیا انسان بننے کا الزام لگایا جاتا تھا۔

اب کہانی کا سب سے حیران کن اور ہولناک پہلو آتا ہے۔ ان وارولف مقدمات میں کچھ ایسے واقعات بھی پیش آئے جہاں پکڑے جانے والے افراد نے خود یہ اعتراف کیا کہ وہ واقعی بھیڑیا انسان بن گئے تھے اور انہوں نے انسانوں کو مار کر کھایا بھی تھا۔ ان میں سے ایک مشہور واقعہ 1589 کا ہے جب پیٹر اسٹوب (Peter Stumpp) نامی ایک کسان پر جرمنی میں یہ الزام لگا کہ وہ دس سال سے زیادہ عرصے سے راتوں کو بھیڑیا بن کر لوگوں کا شکار کر رہا ہے۔ اس نے خود اعتراف کیا کہ اس کے پاس ایک جادوئی بیلٹ ہے جسے پہننے سے وہ ایک خوفناک بھیڑیے میں بدل جاتا ہے، اور اس نے کئی مردوں، عورتوں اور بچوں کو قتل کرکے کھایا ہے۔ اسے انتہائی سفاکانہ طریقے سے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔

اسی طرح کے کئی دیگر مقدمات بھی ریکارڈ کیے گئے ہیں، جہاں ملزموں نے اپنے وارولف بننے کا اعترافی بیان دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ لوگ جادو کے ذریعے بھیڑیا بن جاتے تھے؟ یقیناً آج کی سائنس اسے مکمل طور پر رد کرتی ہے۔ تو پھر یہ لوگ ایسے اعتراف کیوں کرتے تھے؟ اس کے پیچھے کئی ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں جو انسانی نفسیات کی گہرائیوں میں چھپی ہیں۔

شدید تشدد اور اذیتیں: اس وقت کے عدالتی نظام میں تشدد اور اذیتیں دے کر اعترافات حاصل کرنا عام تھا۔ ہو سکتا ہے کہ ان لوگوں پر اتنا ظلم کیا جاتا ہو کہ وہ جان بچانے کے لیے کوئی بھی اعتراف کرنے پر مجبور ہو جاتے ہوں۔

نفسیاتی بیماریاں: کچھ ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ یہ لوگ شدید نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو سکتے تھے، جیسے "لائکینتھروپی" (Lycanthropy)۔ یہ ایک ذہنی حالت ہے جس میں انسان خود کو جانور سمجھنے لگتا ہے۔

مشروم یا جڑی بوٹیوں کا استعمال: یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے کسی ایسی زہریلی جڑی بوٹی یا مشروم کا استعمال کیا ہو جس سے وہ وہم اور دماغی خلل کا شکار ہو جاتے ہوں اور انہیں حقیقت اور فکشن کا فرق معلوم نہ پڑتا ہو۔

اجتماعی ہسٹیریا اور خوف: اس وقت کے معاشرے میں بھیڑیوں کا خوف، توہم پرستی اور جادو ٹونے پر گہرا ایمان تھا۔ اس اجتماعی ہسٹیریا نے لوگوں کے ذہنوں پر اس قدر گہرا اثر ڈالا ہو گا کہ بعض لوگ خود کو اس کہانی کا حصہ سمجھنے لگے۔

یہ وارولف ٹرائلز نہ صرف قانونی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہیں بلکہ یہ ہمیں اس وقت کے انسانی معاشرے اور اس کی نفسیات کے بارے میں بھی بہت کچھ بتاتے ہیں۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ خوف، جہالت اور توہم پرستی کس حد تک انسانی شعور کو متاثر کر سکتی ہے اور لوگوں کو ایسے کام کرنے یا ایسے اعتراف کرنے پر مجبور کر سکتی ہے جو آج کے دور میں ناقابلِ یقین لگتے ہیں۔ یہ کہانی آج بھی اس سوال کو جنم دیتی ہے کہ کیا انسان کی فطرت میں کوئی ایسا پوشیدہ پہلو بھی ہے جو بعض حالات میں اسے حیوان بنا سکتا ہے، یا یہ سب محض خوف، توہم پرستی اور نفسیاتی دباؤ کا نتیجہ تھا؟

Indirizzo

Y-Block Peoples Colony
Bolzano
52260

Sito Web

Notifiche

Lasciando la tua email puoi essere il primo a sapere quando معلومات پلس pubblica notizie e promozioni. Il tuo indirizzo email non verrà utilizzato per nessun altro scopo e potrai annullare l'iscrizione in qualsiasi momento.

Condividi