معلومات پلس

معلومات پلس Informazioni di contatto, mappa e indicazioni stradali, modulo di contatto, orari di apertura, servizi, valutazioni, foto, video e annunci di معلومات پلس, Agenzia media/stampa, Via Birti 7 Vadena, Bolzano.
(1)

"معلومات پلس" صرف ایک پیج نہیں، بلکہ علم، آگہی اور حوصلہ افزائی کا ایک زبردست پلیٹ فارم ہے۔ یہاں آپ کو نہ صرف دلچسپ اور مستند معلوماتی مواد ملے گا، بلکہ زندگی کو نیا رُخ دینے والی موٹیویشنل کہانیاں بھی پڑھنے کو ملیں گی۔ تو اس پیج کو ابھی فالو کرلیں۔

🌟 کیا آپ جانتے ہیں؟کیلا دراصل ایک بیری ہے، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اسٹرابیری بیری نہیں ہے!کیونکہ بیری وہ پھل ہوتا ہے ج...
16/09/2025

🌟 کیا آپ جانتے ہیں؟
کیلا دراصل ایک بیری ہے، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اسٹرابیری بیری نہیں ہے!
کیونکہ بیری وہ پھل ہوتا ہے جو ایک ہی پھول کے بیضہ دانی سے بنتا ہے اور اس کے اندر بیج موجود ہوتے ہیں۔ کیلا اس تعریف پر پورا اترتا ہے، جبکہ اسٹرابیری کے بیج باہر ہوتے ہیں، اسی لیے یہ بیری نہیں کہلاتی۔

قلات کا قلعہ میری: ایک تاریخی ورثہبلوچستان، پاکستان کا ایک وسیع و عریض صوبہ، اپنی دلفریب ثقافت، تاریخی مقامات اور قدرتی ...
16/09/2025

قلات کا قلعہ میری: ایک تاریخی ورثہ

بلوچستان، پاکستان کا ایک وسیع و عریض صوبہ، اپنی دلفریب ثقافت، تاریخی مقامات اور قدرتی خوبصورتی کے لیے مشہور ہے۔ اس صوبے میں متعدد تاریخی قلعے موجود ہیں جو اس کی شاندار تاریخ کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک اہم تاریخی مقام "قلعہ میری" ہے جو قلات شہر میں واقع ہے۔ اگرچہ بلوچستان میں "قلعہ میری" کے نام سے دو قلعے مشہور ہیں—ایک کوئٹہ چھاؤنی میں اور دوسرا قلات میں—لیکن یہ مضمون قلات کے قلعہ میری پر مرکوز ہے۔ یہ قلعہ نہ صرف اپنی منفرد تعمیراتی خوبصورتی کے لیے جانا جاتا ہے بلکہ اس کی تاریخی اہمیت بھی ناقابلِ فراموش ہے۔

قلات کا قلعہ میری بلوچستان کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ قلعہ خان قلات کی ملکیت تھا، جو ایک زمانے میں بلوچستان کی ایک وسیع ریاست کے حکمران تھے۔ انگریزوں نے 1875ء کے بعد اس قلعے پر قبضہ کیا اور اسے 99 سال کے لیے لیز پر حاصل کیا۔ اس وقت انگریزوں نے اسے اسلحہ خانے (Arsenal) کے طور پر استعمال کیا۔ یہ قبضہ بلوچ قوم کے لیے ایک تکلیف دہ واقعہ تھا، جس کی وجہ سے مقامی لوگوں میں انگریزوں کے خلاف غم و غصہ بڑھا۔ تاہم، یہ قلعہ آج بھی بلوچ ثقافت اور تاریخ کی علامت کے طور پر اپنی شان برقرار رکھتا ہے۔

قلات کا قلعہ میری فوجی مقاصد کے لیے بنایا گیا تھا اور اس کی تعمیر ایک بلند و بالا مٹی کے ٹیلے پر کی گئی تھی۔ اس کی بھول بھلیوں نما ساخت اسے اسلحہ ذخیرہ کرنے کے لیے موزوں بناتی تھی۔ اس کی تعمیر میں پراسراریت اور دفاعی حکمت عملی کا خاص خیال رکھا گیا تھا، جو اسے دشمن کے حملوں سے محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی تھی۔

قلات کا قلعہ میری بلوچستان کے ضلع قلات میں واقع ہے۔ کوئٹہ سے قلات تک کا سفر نیشنل ہائی وے کے ذریعے کیا جا سکتا ہے، جو ایک ہموار اور خوبصورت سڑک ہے۔ یہ ہائی وے سیاحوں کے لیے سفر کو آسان بناتی ہے، اور کوئٹہ سے قلات تک کا فاصلہ تقریباً 150 کلومیٹر ہے، جسے چند گھنٹوں میں طے کیا جا سکتا ہے۔ راستے میں سیاح بلوچستان کے دلکش مناظر، پہاڑوں اور سرسبز وادیوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

قلعہ میری کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کا منفرد ڈیزائن ہے، جو اسے دیگر تاریخی قلعوں سے ممتاز کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی تعمیر سمندری جہاز کی شکل سے متاثر ہو کر کی گئی ہے، جو اسے ایک منفرد اور دلفریب شکل دیتی ہے۔ قلعے کے سامنے ایک وسیع و عریض سرسبز میدان ہے، جو اس کی خوبصورتی کو دوبالا کرتا ہے۔ اس میدان کے دامن میں چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں اور جنوب کی طرف گھنے جنگلات واقع ہیں، جو اس مقام کو قدرتی حسن سے مالا مال بناتے ہیں۔

قلعے کے قریب ایک چھوٹی سی مسجد بھی موجود ہے، جو اس کی روحانی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ اس کے علاوہ، قرآن خوانی کے لیے بنائے گئے لکڑی کے تختوں کی موجودگی اس مقام کی مذہبی اور ثقافتی اہمیت کو مزید واضح کرتی ہے۔ قلعہ میری کے ڈیزائن میں جدیدیت اور روایت کا امتزاج دیکھا جا سکتا ہے، جو اسے نہ صرف ایک دفاعی ڈھانچہ بلکہ ایک ثقافتی علامت بھی بناتا ہے۔

انگریزی دور میں قلعہ میری سازشوں اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز رہا۔ 1857ء سے 1957ء تک یہ قلعہ مختلف سیاسی اور فوجی واقعات کا گواہ رہا۔ انگریزوں نے اسے اپنے کنٹرول میں لے کر اسے انتظامی اور فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ اس وقت خان قلات کے چچا اس علاقے کے والی تھے، اور انگریزوں نے اپنے پولیٹیکل ایجنٹس اور دیوانوں کے ذریعے اس علاقے پر اثر و رسوخ قائم کیا۔ بدقسمتی سے، اس دور میں کچھ دیوانوں کی بدعنوانیوں اور ناانصافیوں نے مقامی آبادی میں عدم اطمینان کو جنم دیا، جس کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔

قلات کا قلعہ میری نہ صرف ایک تاریخی عمارت ہے بلکہ بلوچ ثقافت اور شناخت کا ایک اہم حصہ بھی ہے۔ یہ قلعہ بلوچ قوم کی خودمختاری، استقامت اور فخر کی علامت ہے۔ مقامی لوگ اسے عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کی تاریخی اہمیت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ، قلعے کے قریب واقع قلات بازار اس علاقے کا ایک اہم تجارتی مرکز ہے، جہاں مقامی دستکاری اور روایتی مصنوعات کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔

قلات کا قلعہ میری سیاحوں کے لیے ایک پرکشش مقام ہے۔ اس کی تاریخی اہمیت، منفرد تعمیراتی ڈیزائن اور قدرتی خوبصورتی اسے ایک مثالی سیاحتی مقام بناتی ہے۔ اگر آپ تاریخ، ثقافت اور قدرتی مناظر کے شوقین ہیں تو یہ قلعہ ضرور دیکھنے کے قابل ہے۔ سیاح یہاں آ کر نہ صرف قلعے کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں بلکہ بلوچستان کی بھرپور ثقافت اور روایات کو بھی قریب سے دیکھ سکتے ہیں۔

قلات کا قلعہ میری بلوچستان کے تاریخی اور ثقافتی ورثے کا ایک ناقابل فراموش حصہ ہے۔ اس کی منفرد تعمیر، تاریخی اہمیت اور قدرتی خوبصورتی اسے ایک عظیم الشان مقام بناتی ہے۔ یہ قلعہ نہ صرف بلوچ قوم کی تاریخ کی عکاسی کرتا ہے بلکہ سیاحوں کے لیے ایک دلفریب تجربہ بھی پیش کرتا ہے۔ اگر آپ کو موقع ملے تو اس تاریخی قلعے کا دورہ ضرور کریں اور اس کے پراسرار حسن اور داستانیں خود دریافت کریں۔

براس ٹیک مشقیں اور جنرل ضیا الحق کا تاریخی دورہ بھارتتم پاکستان پر حملہ   کرنا چاہتے ہو، ٹھیک ہے کرو لیکن یاد رکھنا ( اس...
15/09/2025

براس ٹیک مشقیں اور جنرل ضیا الحق کا تاریخی دورہ بھارت

تم پاکستان پر حملہ کرنا چاہتے ہو، ٹھیک ہے کرو لیکن یاد رکھنا ( اس حملے کے بعد) دنیا چنگیز خان اور ہلاکو خان کو بھول جائے گی۔ (جنرل ضیاء)
1980 کی دہائی کے وسط میں جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات نہایت کشیدہ ہو چکے تھے۔ دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازعات، سیاسی بداعتمادی اور اسلحہ کی دوڑ نے خطے کو ایک خطرناک موڑ پر لا کھڑا کیا تھا۔ اس دوران بھارت نے 18 نومبر 1986 کو "براس ٹیک" کے نام سے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی مشقوں کا آغاز کیا۔ یہ مشقیں راجستھان کے علاقے میں، پاکستان کی سرحد کے قریب منعقد کی گئیں، جس نے پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے شدید خدشات کو جنم دیا۔
ان مشقوں کی وسعت اور شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ماہرین کے مطابق دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا نے اس پیمانے کی فوجی نقل و حرکت نہیں دیکھی تھی۔ مختلف ذرائع کے مطابق ان مشقوں میں چار سے چھ لاکھ بھارتی فوجی شامل تھے، اور اس کے ساتھ ساتھ بھارتی فضائیہ کے جدید طیارے بھی شریک تھے۔ ان مشقوں کا مقصد نہ صرف بھارتی فوج کی نقل و حرکت اور لاجسٹک صلاحیت کو جانچنا تھا بلکہ پاکستان پر اپنی عسکری برتری کا مظاہرہ بھی تھا۔
بھارت کی اس غیر معمولی عسکری سرگرمی نے پاکستان کو فوری طور پر اپنی فوجی اور فضائیہ کو ہائی الرٹ کرنے پر مجبور کر دیا۔ پاکستان نے اپنی زمینی افواج کو سرحد پر تعینات کیا اور بحریہ نے بھی شمالی بحیرہ عرب میں اپنی موجودگی بڑھا دی۔ اس صورتحال نے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان جنگ کے خطرے کو بڑھا دیا بلکہ عالمی برادری کی توجہ بھی اس خطے پر مرکوز ہو گئی۔ بین الاقوامی میڈیا نے اس صورتحال کو "جنگ کے دہانے پر کھڑے ہونے" سے تعبیر کیا۔
اس دوران پاکستان کو یہ خدشہ لاحق ہوا کہ بھارت اس کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ امریکی خفیہ دستاویزات کے مطابق اس وقت کے امریکی صدر رونالڈ ریگن نے بھی اس خطرے کا اظہار کیا تھا کہ اگر پاکستان نے یورینیم کی افزودگی جاری رکھی تو بھارت اس کے ایٹمی اثاثوں پر حملہ کر سکتا ہے۔ اس تناظر میں پاکستان نے بھارت کو واضح پیغام دیا کہ اگر اس کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہوا تو وہ بھرپور جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
جنرل ضیا الحق کا دورہ بھارت: کرکٹ ڈپلومیسی
اسی کشیدہ ماحول میں 1987 کے اوائل میں پاکستان کے صدر جنرل محمد ضیا الحق نے بھارت کا غیر معمولی دورہ کیا۔ بظاہر یہ دورہ جے پور میں ہونے والے کرکٹ میچ کے لیے تھا، لیکن درحقیقت اس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنا تھا۔ اس دورے کو بعد میں "کرکٹ ڈپلومیسی" کا نام دیا گیا۔
جنرل ضیاء الحق نے بہرام مینن کی موجودگی میں راجیو گاندھی کو مخاطب کیا اور کہا ’تم پاکستان پر حملہ کرنا چاہتے ہو، ٹھیک ہے کرو لیکن یاد رکھنا ( اس حملے کے بعد) دنیا چنگیز خان اور ہلاکو خان کو بھول جائے گی صرف ضیا الحق اور راجیو گاندھی کو یاد رکھے گی کیونکہ یہ جنگ روایتی نہیں ایٹمی ہو گی۔‘
’ہو سکتا ہے کہ اس جنگ کے نتیجے میں پاکستان صفحہ ہستی سے مٹ جائے لیکن مسلمان دنیا میں موجود رہیں گے کیونکہ دنیا میں مسلمانوں کے بہت سے ملک ہیں۔ رہ گئے ہندو تو یاد رکھنا، اس تباہی کے نتیجے میں ہندوستان مٹ گیا تو دنیا بھر سے ہندوؤں کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ اگر تم نے میری واپسی سے قبل اپنی فوج کو واپسی کا حکم نہ دیا تو پاکستان پہنچتے ہی میرے منھ سے ایک ہی لفظ نکلے گا، فائر۔‘

اس ملاقات کے دوران جنرل ضیا الحق نے راجیو گاندھی کو نہایت سنجیدہ اور دو ٹوک انداز میں پیغام دیا کہ اگر بھارتی افواج کو واپس نہ بلایا گیا تو پاکستان بھی اپنے دفاع میں کسی حد تک جا سکتا ہے۔ اس گفتگو کا راجیو گاندھی پر گہرا اثر ہوا اور کہا جاتا ہے کہ ان کے چہرے پر پسینے کے قطرے نمودار ہو گئے۔ اس واقعے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سفارتی سطح پر رابطے تیز ہو گئے اور بالآخر ایک معاہدے کے تحت دونوں ممالک نے اپنی افواج کو سرحدوں سے واپس بلا لیا۔
جنرل ضیا الحق کے اس دورے کو عالمی سطح پر سراہا گیا۔ امریکی صدر رونالڈ ریگن اور سوویت یونین کے رہنماؤں نے بھی اس بحران کے حل کے لیے دونوں ممالک کے ساتھ رابطے کیے۔ اس دورے کے بعد بھارت نے غیر ملکی صحافیوں اور سفارتکاروں کو راجستھان کے دورے کی دعوت دی تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ بھارت کی جانب سے جارحیت کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
جنرل ضیا الحق کا یہ دورہ اور اس کے دوران اختیار کی گئی حکمت عملی آج بھی سفارتکاری کی ایک منفرد مثال کے طور پر یاد کی جاتی ہے۔ اس واقعے نے ثابت کیا کہ مشکل ترین حالات میں بھی بات چیت اور سفارتی تدبر کے ذریعے بڑے بحرانوں کو ٹالا جا سکتا ہے۔ "کرکٹ برائے امن" کی اس حکمت عملی نے نہ صرف جنگ کے خطرے کو ٹالا بلکہ جنوبی ایشیا میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے خدشے کو بھی وقتی طور پر کم کر دیا۔
یہ واقعہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ برصغیر میں امن اور استحکام کے لیے سیاسی قیادت، تدبر اور بروقت فیصلے کس قدر اہمیت رکھتے ہیں۔ آج بھی جب خطے میں کشیدگی بڑھتی ہے تو اس تاریخی واقعے سے سبق سیکھا جا سکتا ہے کہ بات چیت اور سفارتکاری ہی پائیدار امن کی ضمانت ہیں۔

کارن فلیکس کی ایجاد کب اور کس نے کی؟کارن فلیکس ایک ایسا مشہور ناشتہ ہے جو دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کی روزمرہ کی غذا کا ...
15/09/2025

کارن فلیکس کی ایجاد کب اور کس نے کی؟
کارن فلیکس ایک ایسا مشہور ناشتہ ہے جو دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کی روزمرہ کی غذا کا حصہ ہے۔ آپ نے شاید اسے دودھ کے ساتھ کھایا ہو یا پھر فرائیڈ چکن کی کوٹنگ کے طور پر استعمال کیا ہو۔ یہ نہ صرف مزیدار ہوتے ہیں بلکہ صحت بخش بھی سمجھے جاتے ہیں۔ تاہم، بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ یہ سادہ سے نظر آنے والے دانے ایک حادثاتی دریافت کا نتیجہ ہیں اور ان کی تاریخ صحت، مذہبی عقائد اور کاروباری جدوجہد سے جڑی ہوئی ہے۔
یہ کہانی 1894 کی ہے، جب امریکہ کی ریاست مشی گن میں واقع بیٹل کریک سینی ٹیریئم کے سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر جان ہاروی کیلوگ تھے۔ یہ سینی ٹیریئم ایک مشہور صحت مرکز تھا جو سیونتھ ڈے ایڈونٹسٹ چرچ کی زیر نگرانی چلتا تھا۔ یہ چرچ مسیحیت کا ایک فرقہ ہے جو صحت اور غذائی عادات پر خاص زور دیتا ہے۔ اس فرقے کے پیروکار سبزی خور ہوتے ہیں اور گوشت، شراب اور دیگر محرکات سے پرہیز کرتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ صحت مند جسم اور دماغ کے لیے سادہ اور قدرتی غذا ضروری ہے۔ ڈاکٹر جان ہاروی کیلوگ، جو ایک ماہر طبیب اور صحت کے اصلاح کار تھے، اس مرکز میں مریضوں کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے نئی غذائیں تیار کرنے پر کام کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ ان کے چھوٹے بھائی ول کی تھ کیلوگ بھی شامل تھے، جو دونوں اس چرچ کے عقائد پر عمل پیرا تھے۔ ان کا مقصد ایسی غذائیں بنانا تھا جو نہ صرف مریضوں کی ہاضمے کی صحت کو فائدہ پہنچائے بلکہ مذہبی اصولوں کے مطابق خالص سبزی پر مبنی ہو۔ اس دور میں، 19ویں صدی کے آخر میں، امریکہ میں صحت کی اصلاح کی تحریک عروج پر تھی، اور کیلوگ برادران اس کی اہم شخصیات میں سے تھے۔
ایک دن، تجرباتی طور پر ابلی ہوئی گندم کو تیار کرتے ہوئے ول کیلوگ نے اسے غلطی سے رات بھر چھوڑ دیا۔ اگلے دن جب وہ واپس آئے تو گندم خشک اور باسی ہو چکی تھی۔ عام طور پر ایسی چیز کو ضائع کر دیا جاتا، لیکن کیلوگ برادران نے اسے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اسے رولر مشین سے چپٹا کرنے کی کوشش کی، مگر یہ چپٹی تہوں کی بجائے پتلے دانوں میں تبدیل ہو گئی۔ یہ دانے کرکرے اور ہلکے تھے۔ انہوں نے انہیں بھون کر مریضوں کو پیش کیا، اور حیرت کی بات یہ ہوئی کہ مریضوں کو یہ نئی غذا بہت پسند آئی۔ یہ دانے ہاضمے کے لیے آسان تھے اور سادہ ذائقے کی وجہ سے صحت کے اصولوں سے مطابقت رکھتے تھے۔ اس کامیابی نے انہیں مزید تجربات کی ترغیب دی۔
اس دریافت کی بنیاد پر، کیلوگ برادران نے ان گندم کے دانوں کو "گرینوز" کے نام سے پیٹنٹ کروایا۔ یہ 1895 میں ہوا، اور یہ ایک اہم سنگ میل تھا جو جدید ناشتے کی صنعت کی بنیاد رکھنے والا تھا۔ اس کے بعد، انہوں نے دیگر اناج جیسے جو، چاول اور مکئی پر تجربات شروع کیے۔ مکئی (کارن) سے بنے دانوں نے خاص مقبولیت حاصل کی کیونکہ یہ زیادہ کرکرے اور ذائقہ دار تھے۔ مکئی امریکہ کی ایک اہم فصل ہے اور اس کی غذائی قدر بھی زیادہ ہے، جس میں فائبر، وٹامنز اور معدنیات شامل ہیں۔ یہ دانے جلد ہی سینی ٹیریئم سے باہر بھی مشہور ہونے لگے۔
اس مقبولیت کو دیکھتے ہوئے، ول کیلوگ نے 1906 میں "کیلوگ کمپنی" کی بنیاد رکھی، جو آج دنیا کی سب سے بڑی ناشتے کی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ یہ کمپنی کارن فلیکس کی بڑے پیمانے پر پیداوار اور فروخت کرنے لگی۔ تاہم، ایک دلچسپ تنازعہ یہ تھا کہ ڈاکٹر جان ہاروی کیلوگ نے کمپنی میں شمولیت سے انکار کر دیا۔ وجہ یہ تھی کہ ول نے کارن فلیکس کو زیادہ پرکشش بنانے کے لیے ان میں چینی شامل کی تھی، جو جان کے صحت کے سخت اصولوں کے خلاف تھی۔ جان کا خیال تھا کہ چینی جیسے محرکات انسانی جذبات کو بھڑکاتے ہیں اور صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ یہ اختلاف بھائیوں کے درمیان قانونی لڑائی کا سبب بھی بنا، مگر ول کی کمپنی نے کارن فلیکس کو عالمی سطح پر متعارف کروایا۔ آج کارن فلیکس نہ صرف ایک صحت مند ناشتہ ہے بلکہ یہ غذائی صنعت کی ایک انقلاب کی علامت ہے، جو حادثاتی دریافتوں کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے دنیا بھر میں ناشتے کی عادات بدل گئیں اور صحت بخش اناج کی مصنوعات کی ایک نئی رینج سامنے آئی۔

ایسی معلوماتی پوسٹس کے لئے پیج کو لائک کریں

بھارتی فوج کی “عقلمندی” پر ہنسی کا فوارہبھارتی فوج تو اپنی “پریشان” فطرت کے لیے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ لیکن کچھ واقعات ...
13/09/2025

بھارتی فوج کی “عقلمندی” پر ہنسی کا فوارہ

بھارتی فوج تو اپنی “پریشان” فطرت کے لیے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ لیکن کچھ واقعات ایسے بھی ہیں جن پر ہنسی کے ساتھ ساتھ سر پر ہاتھ رکھ کر سوچنا پڑتا ہے۔ برطانوی میڈیا کے بڑے نام “بی بی سی” نے بھی ایک ایسے ہی “قابلِ ذکر” واقعے پر روشنی ڈالی، جسے ہم “دفاعی جینئس” کا شاہکار کہہ سکتے ہیں۔
________________________________________
ہمالیہ میں “چینی ڈرون” کی “پریشان” سیر
پچھلے سال، بھارت اور چین کے درمیان ہمالیہ کے پہاڑی علاقے میں سرحدی جھگڑے کے باعث بھارتی فوج نے چینی “ڈرون” پر “نظریں جمانے” کا فیصلہ کیا۔ فوجی کمانڈرز کو بتایا گیا کہ چین کے ڈرون رات کے سناٹے میں سرحد پار کر کے نہ صرف بھارت کی خودمختاری کی “چوری” کر رہے ہیں بلکہ “جاسوسی” کا بھی کام کر رہے ہیں۔ یہ خبر سُن کر فوج نے فوراً “سیکریٹری ڈائریکٹر” کی طرح چھ ماہ کے لیے “ڈاکیومنٹیشن” شروع کر دی۔
________________________________________
“انڈین انسٹی ٹیوٹ آف آسٹرو فزکس” کی مدد سے “ڈاکیومنٹیشن” کا نیا موڑ
چونکہ ڈرون ہر رات “پہنچ” رہے تھے اور فوج انہیں “پکڑ” نہیں پا رہی تھی، اس لیے “انڈین انسٹی ٹیوٹ آف آسٹرو فزکس” (یعنی ستاروں کے ماہرین) کو بلایا گیا۔ ماہرین نے جب “ڈاکیومنٹیشن” کے لیے ڈرون کو دیکھا تو پتہ چلا کہ یہ کوئی “ڈرون” نہیں، بلکہ دو سیارے ہیں: مشتری اور زحل!
ہاں، وہی سیارے جو آسمان میں چمکتے ہیں، لیکن بھارتی فوج نے انہیں “چینی ڈرون” سمجھ کر چھ ماہ تک “سخت نگرانی” میں رکھا۔
________________________________________
“قومی راز” بن گیا “عالمی لطیفہ”
یہ انکشاف ہوا تو فوراً ہی “قومی راز” کی طرح دبایا گیا۔ لیکن راز دبانے کی کوشش میں ہی یہ “عالمی لطیفہ” بن گیا۔ بی بی سی نے اس پر خاص رپورٹ تیار کی اور دنیا بھر کے میڈیا نے اس پر ہنسی کے فوارے بہائے۔
________________________________________
یہ واقعہ “قومی راز” سے “عالمی لطیفہ” میں بدل گیا، اور بی بی سی نے اس پر خاص توجہ دی۔ اور یوں یہ واقعہ عالمی لطیفے میں تبدیل ہوگیا۔
________________________________________
تو بھائیو، اگلی بار جب آپ آسمان کی طرف دیکھیں تو یاد رکھیں: شاید وہ سیارہ نہیں ، بلکہ کوئی “چینی ڈرون” بھی ہوسکتا ہے۔

خبر کا لنک نیچے کمنٹ میں ہے

ایک اتفاقی دریافت سے جدید کچن کی سہولت تکدوسری جنگ عظیم (1939-1945) کے خاتمے کے فوراً بعد، جب دنیا نئی ٹیکنالوجیز کی طرف...
12/09/2025

ایک اتفاقی دریافت سے جدید کچن کی سہولت تک

دوسری جنگ عظیم (1939-1945) کے خاتمے کے فوراً بعد، جب دنیا نئی ٹیکنالوجیز کی طرف گامزن ہو رہی تھی، امریکی کمپنی ریٹھیون (Raytheon) کے سائنسدان پرسی لیبارون سپینسر ایک اہم پروجیکٹ پر کام کر رہے تھے۔ یہ پروجیکٹ ریڈار سسٹم کے لیے بجلی پیدا کرنے والی ویکیوم ٹیوب، جسے میگنیٹرون کہا جاتا ہے، کو بہتر بنانے سے متعلق تھا۔ میگنیٹرون جنگ کے دوران برطانوی سائنسدانوں کی ایجاد تھی، جو دشمن کے جہازوں اور آبدوزوں کا پتہ لگانے میں کلیدی کردار ادا کرتی تھی۔ جنگ کے بعد، یہ ٹیکنالوجی شہری استعمال کے لیے دستیاب ہوئی، اور سپینسر جیسے انجینئرز اسے مزید موثر بنانے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ 1945 میں، ایک عام دن لیبارٹری میں کام کے دوران، سپینسر نے اچانک محسوس کیا کہ ان کی جیب میں رکھی چاکلیٹ کی بار پگھل گئی تھی، حالانکہ آس پاس کوئی گرمی کا ذریعہ نہیں تھا۔

سائنسدان ہونے کے ناطے، سپینسر نے فوراً اس کی وجہ سمجھ لی: یہ مائیکرو ویوز نامی برقی مقناطیسی لہریں تھیں، جو میگنیٹرون سے خارج ہو رہی تھیں۔ مائیکرو ویوز ریڈیو لہروں کا ایک قسم ہیں، جن کی فریکوئنسی 2.45 گیگا ہرٹز ہوتی ہے اور یہ پانی، چکنائی اور شکر جیسے مالیکیولز کو ہلا کر گرمی پیدا کرتی ہیں – یہ اصول آج بھی مائیکرو ویو اوون کا بنیادی میکانیزم ہے۔ سپینسر نے اس دریافت کو اتفاقیہ نہیں سمجھا بلکہ اس پر سائنسی تجربات شروع کر دیے۔ انہوں نے پہلے مکئی کے دانوں کو میگنیٹرون کے قریب رکھا، اور چند سیکنڈز میں دانے پھٹ کر پاپ کارن بن گئے۔ یہ تجربہ کامیاب ہونے کے بعد، انہوں نے انڈے، سبزیاں اور دیگر خوراکوں پر بھی آزمائش کی، جو یہ ثابت کرتا تھا کہ مائیکرو ویوز خوراک کو تیزی سے گرم کر سکتی ہیں بغیر براہ راست شعلے کے۔ یہ دریافت نہ صرف حیران کن تھی بلکہ کھانا پکانے کے روایتی طریقوں – جیسے چولہے یا تنور – کو چیلنج کرتی تھی، جو صدیوں سے استعمال ہو رہے تھے۔

ان ابتدائی تجربات کی بنیاد پر، سپینسر نے ایک پروٹوٹائپ ڈیوائس تیار کی، جس میں مائیکرو ویوز کو ایک دھاتی ڈبے میں بند کر کے خوراک گرم کرنے کا نظام بنایا گیا۔ اسے "ریڈار رینج" (Radarange) کا نام دیا گیا، جو ریڈار ٹیکنالوجی سے ماخوذ تھا۔ یہ آلہ 1946 میں ریٹھیون کمپنی نے پیٹنٹ کروایا اور 1947 میں تجارتی طور پر متعارف کروایا۔ تاہم، ابتدائی ماڈل بہت بڑا تھا – تقریباً ایک ریفریجریٹر جتنا اونچا اور 340 کلوگرام وزنی – اور اس کی قیمت تقریباً 5,000 امریکی ڈالر تھی، جو آج کے حساب سے 60,000 ڈالر سے زیادہ بنتی ہے۔ اسے صرف ہوٹلوں، ریستورانوں اور فوجی تنصیبات میں استعمال کیا جاتا تھا، کیونکہ گھریلو استعمال کے لیے یہ مہنگا اور غیر عملی تھا۔ سپینسر کی ٹیم نے سیفٹی کے لیے مائیکرو ویوز کو دھاتی جالی والے دروازے سے محفوظ کیا، جو لہروں کو باہر نکلنے سے روکتا ہے اور آج بھی تمام اوونز میں موجود ہے۔

ریٹھیون کی انجینئرنگ ٹیم نے سپینسر کے نتائج کو مزید بہتر بنایا۔ انہوں نے مائیکرو ویوز کو ایک مکمل طور پر بند اور محفوظ دھاتی کیبنٹ میں قید کرنے کا نظام تیار کیا، جس میں ایک ٹرن ٹیبل شامل کی گئی تاکہ خوراک یکساں طور پر گرم ہو۔ اس نئی ڈیوائس کو "مائیکرو ویو اوون" کا نام دیا گیا، جو مائیکرو ویوز کے استعمال کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہ نام 1950 کی دہائی میں مقبول ہوا، جب ٹیکنالوجی کو مزید کمپیکٹ بنایا جانے لگا۔ مائیکرو ویو اوون کی مقبولیت میں اضافہ 1960 کی دہائی میں ہوا، جب الیکٹرانکس کی صنعت نے سستی اور چھوٹی ڈیوائسز تیار کرنا شروع کیں۔ آخر کار، 1967 میں ریٹھیون کی ذیلی کمپنی امانا (Amana Corporation) نے پہلا میز پر رکھ کر استعمال ہونے والا کاؤنٹر ٹاپ ماڈل متعارف کروایا، جس کی قیمت صرف 495 ڈالر تھی۔ یہ ماڈل گھریلو صارفین کے لیے انقلاب ثابت ہوا، کیونکہ یہ کم جگہ لیتا تھا، بجلی کی بچت کرتا تھا اور کھانا چند منٹوں میں تیار کر دیتا تھا۔

آج مائیکرو ویو اوون دنیا بھر میں اربوں گھروں اور دفاتر میں استعمال ہوتا ہے، جو نہ صرف کھانا گرم کرنے بلکہ پکانے، ڈیفروسٹ کرنے اور یہاں تک کہ بیکنگ میں بھی مدد دیتا ہے۔ یہ ایجاد خوراک کی صنعت کو تبدیل کر چکی ہے، جہاں فروزن فوڈز اور ریڈی ٹو ایٹ کھانے عام ہو گئے ہیں۔ تاہم، سیفٹی کے پیش نظر، صارفین کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ دھاتی برتن استعمال نہ کریں اور اوون کو درست طریقے سے استعمال کریں تاکہ مائیکرو ویوز کی لیکیج سے بچا جا سکے۔ پرسی سپینسر کی یہ اتفاقی دریافت سائنس کی طاقت کی ایک زندہ مثال ہے، جو جنگ کی ٹیکنالوجی کو روزمرہ کی سہولت میں بدل گئی۔
Follow this page

آئس لینڈ کی پریوں کی وجہ سے سڑک کی تعمیر مؤخرآئس لینڈ کی سرزمین، جہاں آگ اور برف کا رقص ہر سانس میں محسوس ہوتا ہے، ایک ا...
12/09/2025

آئس لینڈ کی پریوں کی وجہ سے سڑک کی تعمیر مؤخر

آئس لینڈ کی سرزمین، جہاں آگ اور برف کا رقص ہر سانس میں محسوس ہوتا ہے، ایک ایسی جگہ ہے جہاں دھواں اٹھتا ہے، آتش فشاں سوتے ہیں، اور کہانیاں ہوا میں سانس لیتی ہیں۔ لیکن یہ کہانیاں کوئی عام داستان نہیں—یہ ’ہلڈوفوک‘ کی باتیں ہیں، وہ پوشیدہ مخلوق جو شاید نظر نہ آئے، مگر ان کی موجودگی ہر چٹان اور ہر وادی میں گونجتی ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ پریاں آئس لینڈ کے دل میں بستی ہیں، اور اب ان کے سائے ایک نئی جنگ کی شکل اختیار کر رہے ہیں۔

دارالحکومت ریکیاوک سے چند میل دور، جزیرہ نما اَلفتانیس سے گاردا بائر تک ایک نئی ہائی وے کی تعمیر کا منصوبہ بن رہا تھا۔ لیکن یہ سڑک، جو ترقی کا خواب سجاتی تھی، اب ایک اسرار بھرے موڑ پر کھڑی ہے۔ ’فرینڈز آف لاوا‘ نامی ایک گروہ، جو ماحول پسندوں اور پریوں کے چاہنے والوں کا عجیب امتزاج ہے، اس منصوبے کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ ہائی وے پریوں کے مقدس گھروں کو تباہ کر دے گی—خاص طور پر ایک ’ایلف چرچ‘، جو اس سرزمین کی ثقافتی روح کا حصہ ہے۔

رات کے سناٹے میں، جب آئس لینڈ کی ہوائیں سرگوشیاں کرتی ہیں، ’فرینڈز آف لاوا‘ کے کارکن سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں پلے کارڈز ہیں، ان کے دل میں ایک عزم، اور ان کی آوازوں میں ایک خوفناک یقین کہ وہ جو نظر نہیں آتے، وہ اس زمین کے اصلی وارث ہیں۔ انہوں نے تعمیراتی مشینوں کو روک دیا، سڑکوں پر دیواریں کھڑی کر دیں، اور آئس لینڈ کی سپریم کورٹ کے دروازوں تک اپنی لڑائی لے گئے۔ اب یہ عدالت فیصلہ کرے گی کہ ترقی کی دوڑ جیتے گی یا پریوں کی پوشیدہ دنیا بچ پائے گی۔

یہ کوئی نئی کہانی نہیں۔ آئس لینڈ میں پہلے بھی سڑکیں، پل، اور عمارتیں اس ’ان دیکھی مخلوق‘ کے باعث رکی ہیں۔ اسکینڈے نیویا کی لوک داستانوں میں ’ایلف‘ اور ’ہلڈوفوک‘ کے قصے گھر گھر سنائے جاتے ہیں۔ ناروے، سویڈن، اور ڈنمارک کی وادیوں میں بھی ان کی باتیں گونجتی ہیں، لیکن آئس لینڈ میں یہ عقیدہ اب بھی زندہ ہے۔ سن 2007 کے ایک سروے میں، جب یونیورسٹی آف آئس لینڈ نے ایک ہزار لوگوں سے پوچھا کہ کیا وہ پریوں پر یقین رکھتے ہیں، تو دو تہائی نے کہا—ہاں، یہ ممکن ہے کہ وہ وجود رکھتی ہوں۔

اب جب رات گہری ہوتی ہے اور اَلفتانیس کے پتھروں پر چاندنی رقص کرتی ہے، ایک سوال ہوا میں معلق ہے: کیا یہ ہائی وے بنے گی، یا پریوں کی یہ سرزمین اپنے رازوں کو چھپائے رکھے گی؟ فیصلہ ابھی آنا باقی ہے، لیکن ایک بات طے ہے—آئس لینڈ کی یہ جنگ صرف پتھر اور مٹی کی نہیں، بلکہ اسرار اور عقیدے کی ہے۔

الف لیلہ کی کہانیاںکیا آپ کو معلوم ہے کہ بچوں کی مشہور داستانوں کی سیریز "الف لیلہ" کا اصل مطلب کیا ہے اور یہ دلچسپ کہان...
11/09/2025

الف لیلہ کی کہانیاں

کیا آپ کو معلوم ہے کہ بچوں کی مشہور داستانوں کی سیریز "الف لیلہ" کا اصل مطلب کیا ہے اور یہ دلچسپ کہانیاں کیسے وجود میں آئیں؟ اگر نہیں، تو آئیے اس بارے میں کچھ دلچسپ اور معلوماتی باتیں جانتے ہیں جو شاید آپ نے پہلے نہ سنی ہوں۔ یہ کتاب نہ صرف ادبی شاہکار ہے بلکہ مختلف ثقافتوں کی لوک داستانوں کا ایک خوبصورت امتزاج بھی ہے، جو صدیوں سے لوگوں کو مسحور کرتی آرہی ہے۔
"الف لیلہ" کی یہ مشہور کتاب اصل میں آٹھویں صدی عیسوی کے عرب ادیبوں اور قصہ گوؤں کی تخلیق ہے، جسے بعد میں ایرانی، مصری اور ترک داستان نویسوں نے مزید وسعت دی۔ اس کا مکمل عربی نام "الف لیلۃ و لیلۃ" ہے، جس کا اردو ترجمہ "ایک ہزار ایک راتیں" ہے۔ یہ نام اس کی مرکزی کہانی سے جڑا ہے، جو ایک ہزار ایک راتوں پر محیط ہے۔ یہ مجموعہ دراصل مختلف علاقوں کی لوک داستانوں کا ایک مجموعہ ہے، جو ابتدائی طور پر زبانی روایات کی صورت میں پھیلا اور پھر تحریری شکل اختیار کی۔ تاریخی طور پر، یہ کتاب اسلامی سنہری دور کی عکاسی کرتی ہے، جہاں بغداد جیسے شہر علم و ادب کے مراکز تھے اور داستان گوئی ایک مقبول فن تھی۔
اس کتاب کی بنیاد ایک دلچسپ اور افسوسناک کہانی پر رکھی گئی ہے۔ ایک لیجنڈ مشہور ہے کہ قدیم سمرقند کا ایک بادشاہ شہریار، جو اپنی ملکہ کی خیانت سے شدید مایوس ہوا، عورتوں سے نفرت کرنے لگا۔ اس نے ایک ظالمانہ رواج قائم کیا کہ ہر روز ایک نئی لڑکی سے شادی کرتا اور رات گزارنے کے بعد صبح اسے موت کے گھاٹ اتار دیتا۔ یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ بادشاہ کے وزیر کی بیٹی شہرزاد نے اپنی ہم جنسوں کو اس اذیت سے بچانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اپنے باپ کو قائل کرکے بادشاہ سے شادی کی اور پہلی رات ایک ایسی دلچسپ کہانی شروع کی جو رات ختم ہونے پر بھی ادھوری رہی۔ بادشاہ، کہانی کا باقی حصہ سننے کی خواہش میں، اس کی موت ملتوی کر دیتا۔ شہرزاد نے یہ طریقہ جاری رکھا: ہر رات ایک کہانی ختم کرکے نئی شروع کرتی، جو اگلی رات تک معلق رہتی۔ یہ سلسلہ ایک ہزار ایک راتوں تک چلا، اس دوران شہرزاد کے دو بچے بھی پیدا ہوئے۔ آخر کار، بادشاہ کی عورتوں سے نفرت ختم ہوئی اور وہ ایک رحم دل حکمران بن گیا۔ یوں یہ کہانیاں ایک فریم ورک کی صورت میں جمع ہوئیں، جو بعد میں مزید اضافوں سے مالا مال ہوئیں۔ یہ کہانی دراصل داستان گوئی کی طاقت کو ظاہر کرتی ہے کہ کیسے الفاظ انسانی رویوں کو تبدیل کر سکتے ہیں، اور یہ تھیم ادبی تاریخ میں بار بار سامنے آیا ہے۔
"الف لیلہ" کی بیشتر کہانیاں قدیم بابلی، فونیقی، مصری اور یونانی لوک داستانوں سے ماخوذ ہیں، جنہیں اسلامی دور کے مطابق ڈھالا گیا ہے۔ ان میں حضرت سلیمان علیہ السلام، ایرانی بادشاہوں اور مسلمان خلفاء کے کرداروں کو شامل کیا گیا۔ کتاب کا بنیادی ماحول آٹھویں صدی کا ہے، جو عباسی خلافت کے عروج کا دور تھا، جہاں تجارت، سائنس اور فنون کی ترقی ہو رہی تھی۔ تاہم، کچھ کہانیوں میں ایسی ایجادات کا ذکر ہے جو اس دور میں موجود نہیں تھیں، جیسے بارود یا بعض جدید آلات، جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ اضافے بعد کی صدیوں میں کیے گئے۔ یہ کتاب نہ صرف تفریح بلکہ اخلاقی سبق بھی دیتی ہے، جہاں جادو، جن، مہم جوئی اور دانشمندی جیسے عناصر غالب ہیں۔ اس کی ثقافتی اہمیت یہ ہے کہ یہ مشرق اور مغرب کے درمیان ادبی پل کا کام کرتی ہے۔
تاریخی حوالوں سے، نویں صدی کے عرب عالم محمد بن اسحاق نے اپنی کتاب "الفہرست" میں ایک کتاب "ہزار افسانہ" کا ذکر کیا ہے، جو بغداد میں تحریر کی گئی تھی۔ اس میں ایک کہانی کا نمونہ بھی درج ہے جو "الف لیلہ" کی پہلی کہانی سے ملتی جلتی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اصل میں یہ مجموعہ "ہزار افسانہ" کہلاتا تھا اور اس میں ایک ہزار ایک کہانیاں نہیں تھیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ مختلف علاقوں کے قصہ گوؤں نے اس میں اضافے کیے، کہانیوں کی تعداد بڑھائی اور نام تبدیل کرکے "الف لیلۃ و لیلۃ" رکھا۔ یہ عمل دراصل لوک ادب کی ارتقائی نوعیت کو ظاہر کرتا ہے، جہاں زبانی روایات تحریری شکل میں تبدیل ہوتی رہیں۔
یورپ میں اس کتاب کا پہلا ترجمہ فرانسیسی ادیب انٹوان گیلانڈ نے اٹھارہویں صدی کے آغاز میں کیا، جو "عربیان نائٹس" کے نام سے مشہور ہوا۔ گیلانڈ نے اصل مخطوطات سے ترجمہ کیا لیکن کچھ کہانیاں خود شامل کیں، جیسے علاء الدین اور علی بابا، جو اصل عربی نسخوں میں نہیں ملتیں۔ اس ترجمے سے یورپی زبانوں میں مزید تراجم ہوئے، جو مغربی ادب پر گہرا اثر ڈالے، جیسے کہ شیکسپیئر یا جدید فینٹسی ناولوں میں۔ اردو میں یہ کتاب زیادہ تر انگریزی تراجم سے ماخوذ ہے، لیکن کچھ براہ راست عربی سے بھی ترجمہ کی گئیں، جیسے کہ میرزا قادر بخش کی کاوشیں۔ یہ تراجم اردو ادب کو مالا مال کرنے کا ذریعہ بنے اور بچوں کی تعلیم میں استعمال ہوتے رہے۔
"الف لیلہ" کی چند مشہور کہانیوں کے نام یہ ہیں: علاء الدین اور جادوئی چراغ، علی بابا اور چالیس چور، مچھیرا اور جن، سندباد جہازی کی مہم جوئیاں، تین سیب کی کہانی، سمندری بوڑھا، شہرزاد کی حکمت عملی، اور حاتم طائی کی فیاضی کی داستانیں۔ یہ کہانیاں نہ صرف تفریح فراہم کرتی ہیں بلکہ اخلاقیات، دانش اور انسانی فطرت کی گہرائیوں کو بھی اجاگر کرتی ہیں، جو انہیں تعلیمی اور ثقافتی اعتبار سے اہم بناتی ہیں۔ آج کل یہ کہانیاں فلموں، کارٹونز اور ڈراموں میں بھی مقبول ہیں، جو اس کی لازوال اپیل کو ثابت کرتی ہیں۔

قفقاز کے پراسرار مقبرےکیا آپ نے کبھی قفقاز کے پراسرار مقبروں کے بارے میں سنا ہے؟ اگر نہیں، تو آئیے اس دلچسپ موضوع پر بات...
01/09/2025

قفقاز کے پراسرار مقبرے
کیا آپ نے کبھی قفقاز کے پراسرار مقبروں کے بارے میں سنا ہے؟ اگر نہیں، تو آئیے اس دلچسپ موضوع پر بات کرتے ہیں۔
قفقاز کا علاقہ یورپ اور ایشیا کی سرحدی لائن پر واقع ہے، جو بحیرہ اسود اور بحیرہ قزوین کے درمیان پھیلا ہوا ہے۔ یہ خطہ قدرتی خوبصورتی، متنوع ثقافتوں اور تاریخی رازوں سے بھرا پڑا ہے، جہاں متعدد ممالک جیسے روس، جارجیا، آرمینیا اور آذربائیجان واقع ہیں۔ مغربی قفقاز تقریباً 275,000 ہیکٹر رقبے پر محیط ہے، اور اس کا انتہائی مغربی حصہ بحیرہ اسود کے شمال مشرقی کنارے سے تقریباً 50 کلومیٹر دور ایک بلند پہاڑی سلسلہ پر مشتمل ہے۔ یہ پہاڑی زنجیر یورپ کے سب سے بڑے پہاڑی نظاموں میں سے ایک ہے، جو گریٹر قفقاز کا حصہ ہے اور اس کی بلندی 5,000 میٹر سے بھی زیادہ ہے۔ اس علاقے کی دشوار گزار جغرافیائی ساخت کی وجہ سے یہاں انسانی آمدورفت محدود رہی ہے، جو اسے ایک طرح کا قدرتی تحفظ فراہم کرتی ہے اور قدیم رازوں کو محفوظ رکھتی ہے۔ تاریخی طور پر، قفقاز مختلف تہذیبوں کا مرکز رہا ہے، جہاں سے تجارتی راستے گزرتے تھے اور جنہوں نے یوریشیائی ثقافتوں کو متاثر کیا۔
اس پہاڑی سلسلے میں ہزاروں کی تعداد میں قدیم اور پراسرار تعمیراتی ڈھانچے موجود ہیں، جن کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔ یہ ڈھانچے میگالیتھک دور (پتھر کے بڑے ڈھانچوں کا دور) سے تعلق رکھتے ہیں، جو عالمی سطح پر دیگر مقامات جیسے اسٹون ہینج یا کارناک کے میگالیتھس سے ملتے جلتے ہیں، لیکن قفقاز میں ان کی تعداد اور تنوع انہیں منفرد بناتا ہے۔ آثار قدیمہ کے ماہرین آج تک یہ طے نہیں کر سکے کہ انہیں کون سی تہذیب نے تعمیر کیا، پتھروں کو کہاں سے لایا گیا، اور ان کی تعمیر کا بنیادی مقصد کیا تھا۔ کچھ نظریات کے مطابق، یہ مائیکوپ یا کوبان جیسی قدیم ثقافتوں سے جڑے ہو سکتے ہیں، جو کانسی کے دور (تقریباً 3000 قبل مسیح) میں یہاں رائج تھیں۔ سائنس دانوں میں اس بارے میں صرف اندازے اور بحثیں پائی جاتی ہیں، جیسے یہ تدفینی مقامات تھے، فلکیاتی مشاہداتی مراکز، یا مذہبی رسومات کے لیے استعمال ہوتے تھے۔
روسی مقامی لوگ ان ڈھانچوں کو "ڈولمینز" کہتے ہیں، جو "پورٹل مقبرے" کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ نام یونانی اور روسی زبانوں سے ماخوذ ہے، جہاں "ڈول" کا مطلب میز اور "مین" کا مطلب پتھر ہے، جو ان کی میز نما ساخت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ تاہم، اس نام کے باوجود کوئی ٹھوس شواہد نہیں ملتے کہ یہ واقعی تدفین کے لیے بنائے گئے تھے یا یہاں مردوں کو دفن کیا جاتا تھا۔ آثار قدیمہ کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ان سے ملنے والے قدیم برتنوں، انسانی ہڈیوں اور دیگر باقیات سے ان کی عمر 4,000 سے 6,000 سال پرانی لگتی ہے، جو نیولیتھک سے کانسی کے دور تک پھیلتی ہے۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ یہ اشیاء بعد کے ادوار میں یہاں رکھی گئی ہوں، جیسا کہ کچھ مقامات پر دیکھا گیا ہے جہاں مختلف تہذیبوں نے انہیں دوبارہ استعمال کیا۔ عالمی طور پر، ڈولمینز یورپ، ایشیا اور افریقہ میں پائے جاتے ہیں، لیکن قفقاز کے یہ ڈھانچے اپنی تعداد (تقریباً 3,000 سے زائد) اور محفوظ حالت کی وجہ سے خاص اہمیت رکھتے ہیں۔
اگرچہ دنیا بھر میں مختلف اقسام کے مقبرے اور میگالیتھک ڈھانچے موجود ہیں، جیسے اہرام مصر یا نیوزی لینڈ کے میگالیتھس، لیکن قفقاز کے یہ مقبرے اپنی فن تعمیر کی منفردیت کی وجہ سے الگ نظر آتے ہیں۔ ان کی تعمیر میں سائیکلوپک پتھر استعمال کیے گئے، جو بہت بڑے اور بے قاعدہ شکل کے پتھر ہوتے ہیں جنہیں بغیر کسی جوڑنے والے مواد کے ایک دوسرے پر فٹ کیا جاتا ہے۔ یہ پتھر عموماً کارنرز اور بنیادوں کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ تمام ڈھانچوں میں ایک مشترک خصوصیت دیوار میں ایک گول سوراخ کا ہونا ہے، جو ممکنہ طور پر داخلے یا روشنی کے لیے تھا، اور بعض نظریات کے مطابق فلکیاتی حسابات سے جڑا ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، ہر ڈھانچے کے سامنے پتھروں کی ایک چھوٹی دیوار بنائی گئی ہے جو اسے بلاک کرتی ہے، اور بعض جگہوں پر یہ دیوار ایک میٹر سے زیادہ اونچی بھی ہے۔ یہ ڈیزائن ممکنہ طور پر حفاظتی یا علامتی مقاصد کے لیے تھا، اور یہ قدیم انجینئرنگ کی اعلیٰ سطح کو ظاہر کرتا ہے۔
اس علاقے سے ملنے والے آثار میں لوہے اور کانسی کے برتن شامل ہیں، جو کانسی کے دور کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، کانسی کے اوزار، سونے، چاندی اور قیمتی پتھروں سے بنے زیورات بھی دریافت ہوئے ہیں، جو اس دور کی معاشی اور دستکاری کی ترقی کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ اشیاء ممکنہ طور پر تجارتی روابط سے حاصل کی گئیں، کیونکہ قفقاز قدیم سلک روڈ کے راستوں سے قریب تھا۔ ہر ڈھانچے کا وزن تقریباً 15 سے 30 ٹن ہے، اور ایسا کوئی راستہ یا ثبوت نہیں ملا جس سے یہ واضح ہو کہ ان بھاری پتھروں کو کیسے یہاں تک لایا اور اٹھایا گیا۔ یہ راز میگالیتھک تہذیبوں کے مشترکہ مسائل میں سے ایک ہے، جہاں جدید سائنس بھی یہ سمجھنے میں جدوجہد کر رہی ہے کہ بغیر پہیوں یا مشینری کے یہ کام کیسے ممکن تھا۔ کچھ نظریات میں لکڑی کے راہداروں یا انسانی طاقت کا ذکر ملتا ہے، لیکن کوئی حتمی جواب نہیں۔
ولادیمیر مارکووین ایک مشہور روسی آثار قدیمہ کے ماہر ہیں، جنہوں نے ان رازوں کو سلجھانے کے لیے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ وقف کیا ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق، اس دور کے لوگ مٹی کے سادہ گھروں میں رہائش پذیر تھے، زمین پر کاشتکاری کرتے تھے، اور انہیں برتن سازی کا فن نہیں آتا تھا۔ تاہم، وہ پیچیدہ تعمیراتی ڈیزائن بنانے میں ماہر تھے، جو ان کی سماجی تنظیم اور مذہبی عقائد کی گہرائی کو ظاہر کرتے ہیں۔ مارکووین کی کتابیں اور مقالے اس موضوع پر بنیادی ذرائع سمجھے جاتے ہیں، جن میں انہوں نے سینکڑوں ڈولمینز کا مطالعہ کیا۔
یہ پتھر اس قدر متوازن اور مستحکم طریقے سے رکھے گئے ہیں کہ دیکھنے والا حیران رہ جاتا ہے۔ یہ توازن زلزلوں اور قدرتی آفات کے باوجود ہزاروں سال تک قائم رہا ہے، جو قدیم انجینئرنگ کی شاندار مثال ہے۔ 2007 میں، جدید ٹیکنالوجی اور مشینری کی مدد سے ان ڈھانچوں کو دوبارہ تعمیر کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن ماہرین اسی طرح کا توازن قائم کرنے میں ناکام رہے۔ اس ناکامی نے یہ راز مزید گہرا کر دیا ہے کہ قدیم لوگ یہ کام کیسے کرتے تھے۔ آج، یہ ڈولمینز نہ صرف تاریخی اہمیت رکھتے ہیں بلکہ سیاحتی اور تعلیمی مقامات کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں، جو ہمیں ماضی کی تہذیبوں کی صلاحیتوں پر غور کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔

رب ایسے ذریعے سے مدد فرماتا ہے جہاں ہمارا وہم و گمان بھی نہیں جا سکتا۔ایک عام سی دوپہر تھی۔ ایک لڑکی نے بڑی خوشی سے ایک ...
21/08/2025

رب ایسے ذریعے سے مدد فرماتا ہے
جہاں ہمارا وہم و گمان بھی نہیں جا سکتا۔

ایک عام سی دوپہر تھی۔ ایک لڑکی نے بڑی خوشی سے ایک نیا لباس خریدا۔ اس نے وہ لباس پہنا، آئینے کے سامنے کھڑی ہو کر ایک تصویر کھینچی اور مسکرا کر اپنی قریبی سہیلی کو بھیج دی۔
پیغام کے ساتھ اس نے لکھا:
"کیا یہ خوبصورت لگ رہا ہے؟ میں آج کی پارٹی میں یہ پہنوں گی۔"

مگر اتفاق ایسا ہوا کہ نمبر ملانے میں اس سے ذرا سی غلطی ہوگئی، اور وہ تصویر سہیلی کے بجائے ایک اجنبی شخص کے پاس پہنچ گئی۔

کچھ ہی دیر بعد جواب آیا۔
اس اجنبی نے لکھا:
"مجھے معلوم ہے کہ یہ پیغام غلطی سے میرے پاس آیا ہے، اور یہ کسی اور کے لیے تھا۔ میری بیوی اس وقت گھر پر نہیں ہے، اس لیے اس کی رائے تو نہیں دے سکتا۔ لیکن میرے چھ بچے میرے ساتھ ہیں، اور ہم سب کا یہی خیال ہے کہ تم اس لباس میں بہت شاندار لگ رہی ہو۔ ضرور اسے پہن کر پارٹی میں جاؤ!"

ساتھ ہی اس اجنبی نے اپنے بچوں کی ایک تصویر بھی بھیج دی۔ ننھے منے بچے مسکرا رہے تھے، جیسے واقعی حوصلہ افزائی کر رہے ہوں۔

لڑکی نے یہ سارا واقعہ دلچسپ سمجھ کر فیس بک پر شیئر کر دیا۔ لیکن جلد ہی لوگوں نے تصویر کو غور سے دیکھا اور تبصرہ کیا کہ بچوں کی تعداد پانچ ہے، جبکہ اس شخص نے کہا تھا کہ اس کے چھ بچے ہیں۔

تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ اس کا چھٹا بچہ کینسر میں مبتلا ہے اور اسپتال میں زیرِ علاج ہے۔ باپ کے پاس علاج کے لیے درکار دس ہزار ڈالر نہیں تھے۔

یہ خبر پھیلتے ہی دنیا بھر کے لوگوں نے مدد کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ صرف چند دنوں میں 33 ہزار ڈالر جمع ہو گئے۔ بچے کی سرجری کامیاب رہی، اور باقی رقم سے اس خاندان کے قرضے بھی ادا ہو گئے۔

یوں ایک معمولی سی "غلطی" دراصل ربِ کریم کی بہترین تدبیر ثابت ہوئی، جس نے نہ صرف ایک معصوم بچے کو زندگی دی بلکہ ایک ٹوٹے ہوئے خاندان کو بھی سہارا بخشا۔

واقعی، خدا ایسے ذریعے سے مدد فرماتا ہے جہاں ہمارا وہم و گمان بھی نہیں جا سکتا۔
اس لئے کبھی مایوس نہ ہونا

Indirizzo

Via Birti 7 Vadena
Bolzano
39051

Sito Web

Notifiche

Lasciando la tua email puoi essere il primo a sapere quando معلومات پلس pubblica notizie e promozioni. Il tuo indirizzo email non verrà utilizzato per nessun altro scopo e potrai annullare l'iscrizione in qualsiasi momento.

Condividi