Abrar Says ابرار کہتا ہے

Abrar Says ابرار کہتا ہے ہر محبت کرنے والے کے نام ❤️‍🩹

اداکارہ حمیرا اصغر کو  اپنے کمرے میں مرے ہوئے 6 سے8 ماہ ہوچکے تھے ۔۔۔ تحقیقات میں ہوشربا انکشافات سامنے آنے لگے ۔۔۔ پول...
10/07/2025

اداکارہ حمیرا اصغر کو اپنے کمرے میں مرے ہوئے 6 سے8 ماہ ہوچکے تھے ۔۔۔ تحقیقات میں ہوشربا انکشافات سامنے آنے لگے ۔۔۔ پولیس کا کہنا ہے اداکارہ کے فلیٹ سے ملنے والے کھانے پینے کے سامان پر ایکسپائری تاریخ 2024 کی درج ہے۔۔۔ اداکارہ کے فون ریکارڈ میں بھی آخری کالز اور میسجز اکتوبر 2024 کے ہیں ۔۔ اداکارہ کا فلیٹ کا مالک سے آخری رابطہ بھی 2024 میں ہوا تھا۔۔ اداکارہ کے گھر کی بجلی بھی کئی ماہ سے کٹی ہوئی تھی

09/07/2025

May God bless Her soul (ameen)

یہ شوبز کی دنیا کیسی ہے کہ جہاں کوئی ایک رشتہ، کوئی ایک دوست بھی ایسا نہیں ہوتا کہ اگر آپ کئی ہفتوں سے لاپتہ ہوں تو وہ آ...
08/07/2025

یہ شوبز کی دنیا کیسی ہے کہ جہاں کوئی ایک رشتہ، کوئی ایک دوست بھی ایسا نہیں ہوتا کہ اگر آپ کئی ہفتوں سے لاپتہ ہوں تو وہ آپ کا حال پوچھنے کی زحمت ہی کر لے۔۔۔وہ اپنے اپارٹمنٹ میں ایک
مہینے سے مردہ پڑی تھی 😔 اور کسی کو خبر نہ تھی
انا للہ وانا الیہ راجعون

فیسبک پر کبھی کبھار پوسٹ کرنے والا آپ کا دوست اگر ہر روز 5 سے 10 پوسٹیں لگانا شروع کر دے تو سمجھ جائیں کہ اس کی آئی ڈی م...
04/07/2025

فیسبک پر کبھی کبھار پوسٹ کرنے والا آپ کا دوست اگر ہر روز 5 سے 10 پوسٹیں لگانا شروع کر دے تو سمجھ جائیں کہ اس کی آئی ڈی مونیٹائزڈ ہو گئی ہے. 😆 🤣 😂 😹

''اپنے اوپر بھی پیسہ خرچ کیا کر۔ ہر وقت پاکستان ہی مت بھیجتا رہا کر۔'' صابر نے ایک دن اسے ڈانٹا تھا۔ ''جتنا پیسہ بھیجے گ...
03/07/2025

''اپنے اوپر بھی پیسہ خرچ کیا کر۔ ہر وقت پاکستان ہی مت بھیجتا رہا کر۔'' صابر نے ایک دن اسے ڈانٹا تھا۔ ''جتنا پیسہ بھیجے گا، پاکستان والے سب کھا جائیں گے۔ وہ سمجھتے ہیں۔ یہاں ہم درختوں سے پیسہ اتار کر انہیں بھیجتے ہیں۔''
صابر بے حد تلخی سے کہہ رہا تھا۔
''اپنے پاس پیسہ بچایا کر۔ جو بچت کرنی ہے یہاں تو نے ہی کرنی ہے۔ پاکستان میں تو تیرے پیسے سے عیش کر رہے ہوں گے سب۔ موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں پر پھر رہے ہوں گے تیرے بھائی اور تیری ماں اور بہنیں یا تو گھر کے لیے ٹی وی، فریج وی سی آر کے نئے سے نئے ماڈل بدل رہی ہوں گی یا پھر اپنے کپڑوں، جوتوں اورزیورات پر اڑا رہی ہوں گی۔''
اس نے صابر سے نظریں نہیں ملائیں۔ صرف اسی سے نہیں وہ حقیقت سے بھی نظریں چرانا چاہتا تھا کہ صابر کی باتوں میں سچائی تھی اور پیچھے اس کا خاندان اس کے بھیجے ہوئے ''رزق حلال'' کو ''رزق حرام'' کی طرح اڑا رہا تھا۔
''ایسی کوئی بات نہیں ہے۔'' اس نے سر جھکا کر بے حد معمول کے انداز میں کہا۔
''کیوں نہیں ہے؟ میرے بیوی بچے وہاں پاکستان بیٹھے یہی کر رہے ہیں۔ مجاہد کا خاندان یہی کر رہا ہے۔ تنویر پیسہ بھیج رہا ہوتا تو اس کا خاندان بھی یہی کرتا۔ تو تیرا خاندان کیوں نہیں کر رہا ہو گا۔'' صابر نے بے حد سرد مہری سے کہا۔
''تو پھر کیا کروں۔ ان کو بھوکا مار دوں۔'' وہ نہ چاہتے ہوئے بھی تلخ ہو گیا۔
''یہی تو مسئلہ ہے زندگی میں کہ کچھ چیزوں کا کوئی حل نہیں ہوتا پاس، بس انسان جیے جاتا ہے ان کے ساتھ، جیسے انسان کو چھوٹی موٹی بیماریوں کے ساتھ جینے کی عادت پڑجاتی ہے۔ ایسے ہی جھوٹ اور خود غرضی کے ساتھ بھی سمجھوتا کرنا سیکھ لیتا ہے۔''
صابر قیوم جب بولنے پر آتا تو لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ ایک ان پڑھ دیہاتی ہے۔
''یہ ماں، بہن، بیوی، سب بہت لالچی ہوتی ہیں۔
عورت کو مرد کے دل میں نہیں اس کی جیب میں دلچسپی ہوتی ہے۔ دل کا کیا کرنا ہوتا ہے اس نے۔ دل کو بیچ کر تو جوتوں کا ایک جوڑا تک نہیں آتا۔''
یہ مجاہد تھا۔ اس کے آنے کے ایک سال بعد اس نے اپنی بیوی کو غصے اور شک میں طلاق دے دی تھی۔ اس کے گھر والوں نے اس پر اپنے چھوٹے دیور کو ورغلانے کا الزام لگایا تھا اور اس کی بیوی نے اس کے چھوٹے بھائی پر زیادتی کی کوشش کا مجاہد نے وہی کیا تھا جو کوئی بھی پاکستانی مرد اشتعال میں کرتا ہے۔ اس نے اپنے خاندان کی باتوں پر یقین کرتے ہوئے اپنی بیوی کو طلاق بھیج دی تھی۔ وہ بے حد اشتعال میں تھا اور صابر اور تنویر کے ساتھ وہ بھی اس کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش اور اسے طلاق سے روکنے کی کوشش کرتا رہا۔ مجاہد نے ان کی ایک نہیں سنی۔
تنویر نے ایک بار اس کی بیوی کی حمایت کرنے کی کوشش کی تھی اور مجاہد اس پر پل پڑا تھا۔ وہ اور صابر تنویر کو نہ بچاتے تو شاید مجاہد اس دن تنویر کی جان لے لیتا۔ ''میرے بھائی، میرے چھوٹے بھائی پر الزام لگا رہا ہے۔ وہ اتنا بے غیرت ہو گا کہ اپنے بھائی کی عزت پر ہاتھ ڈالے گا؟ مر کر بھی کبھی ایسا کام نہ کرے وہ۔ میری ماں اور بہن نے قسم کھا کر بتایا ہے مجھے کہ میری بیوی آوارہ ہے اور شروع دن سے ہی آوارہ تھی اور وہ اس کی حرکتوں کومجھ سے چھپاتی رہیں۔ میرے بھائی کا نام کیسے لے لیا تو نے۔ وہ صرف پچیس سال کا ہے؟''
مجاہد حلق کے بل چیختا رہا تھا اور تب ہی خاموش ہوا جب تنویر نے اس سے معافی مانگی تھی۔
پندرہ دن بعد طلاق کے کاغذ پاکستان میں مجاہد کی بیوی کو مل گئے تھے۔ اس کے اگلے دن اس نے خود کشی کر لی۔ مجاہد کو اس نے خود کشی سے پہلے ایک خط لکھا تھا۔ مجاہد کو اس کی موت کے ایک ماہ بعد ملا۔ تب تک وہ اس کی موت کے بارے میں نہیں جانتا تھا۔ اس کے گھر والوں نے اسے اس سے بے خبر رکھا تھا۔
اس خط کے ملنے کے بعد مجاہد اگلے دو ماہ گم صم رہا تھا۔ وہ کئی بار دھاڑیں مار مار کر ان تینوں کے سامنے رویا بھی۔ خط میں اس کی بیوی نے اسے کیا لکھا تھا۔ وہ تینوں نہیں جانتے تھے۔ مگر وہ جو کچھ بھی تھا، اس نے مجاہد کے ضمیر کے بوجھ کو بڑھا دیا تھا۔
چھ ماہ اس نے اپنے گھر والوں کو ایک کال نہیں کی۔ ایک روپیہ نہیں بھیجا نہ ہی ان کی کوئی کال ریسیو کی۔ اس کے گھر والوں نے بوکھلاہٹ میں نیو یارک میں ہر واقف کار اور مجاہد کے ہر دوست کو فون کرنا شروع کر دیے تھے کہ وہ مجاہد کو گھر والوں کی مالی حالت کے بارے میں بتائے تاکہ وہ انہیں دوبارہ پیسے بھیجنا شروع کر دے۔
چھ ماہ کے بعد مجاہد نارمل ہو گیا تھا۔ گھر والوں کو ہنڈی ایک بار پھر جانے لگی تھی۔ فون بھی ہونے لگے تھے۔ البتہ اس نے اپنے چھوٹے بھائی سے دوبارہ کبھی بات نہیں کی۔ اس نے پاکستان واپسی کے اپنے سارے خواب بھی ختم کر دیے تھے۔ اس کے باوجود کہ ان ہی دنوں اس کی امیگریشن ہو گئی تھی۔
وہ خود ان ہی دنوں امریکہ میں آنے کے ڈھائی سال بعد اپنی چھوٹی بہن کی شادی میں شرکت کے لیے پاکستان جانے کی تیاری کررہا تھا۔ اور بے حد خوش تھا، مگر وہ پاکستان نہیں جا سکا۔ اس کی بہن مسلسل فون پر اسے چند مزید زیورات کے لیے روپے بھجوانے پر اصرار کر رہی تھی۔
''میرے پاس فی الحال بالکل پیسے نہیں ہیں، ٹکٹ کے پیسوں کے علاوہ۔ تم دو ماہ انتظار کر لو۔ میں شادی میں شرکت کے بعد جب واپس امریکہ آؤں گا تو تمہیں ان زیورات کے لیے روپے بھیج دوں گا۔'' اس نے فون پر اپنی بہن سے کہا تھا۔
''اگر شادی پر سارے زیور نہیں پہنے تو بعد میں پہننے کا کیافائدہ، لوگوں کو پتا کیسے چلے گا کہ میرے میکے والوں نے مجھے کتنا زیور دیا ہے۔''
اس کی بہن اپنے مطالبے پرجمی ہوئی تھی۔
''لیکن شہلا! میرے پاس واقعی پیسے نہیں ہیں۔'' اس نے اپنی بے بسی کا اظہار کیا۔
''آپ ایسا کریں کہ ٹکٹ کے پیسے مجھے بھجوا دیں۔ باقی کی رقم امی اور ابو کہیں سے ادھار لے لیں گے۔'' اس کی بہن نے بڑے اطمینان سے کہا۔ وہ بہت دیر کچھ بول نہیں سکا۔ یہ بھی نہیں کہ وہ پہلے ہی ٹکٹ خرید چکا ہے۔
''ٹھیک ہے، میں تمہیں ٹکٹ کے پیسے بھجوا دیتا ہوں۔''
''آپ دو ماہ بعد آجائیںجب ٹکٹ کے دوبارہ پیسے اکٹھے ہو جائیں۔ میں شادی کی مووی بنوا کر رکھوں گی آپ کو دکھانے کے لیے بھائی جان۔''
وہ اب چہکتے ہوئے بتا رہی تھی۔ وہ چپ چاپ سنتا رہا۔ ٹکٹ ری فنڈ کروا کر اس نے دوسرے دن ہنڈی کے ذریعے وہ رقم پاکستان بھجوا دی۔ اور پھر چند دنوں کے بعد کسی جاننے والے کے ہاتھ وہ چیزیں بھی۔ جو وہ پچھلے کچھ عرصے سے اس لیے خرید رہا تھا کہ پاکستان جانے پر سب کو دے۔
اس نے صابر، تنویر یا مجاہد میں سے کسی کو اپنے پاکستان نہ جانے کی اصل وجہ نہیں بتائی تھی۔ وہ ان کی طرح وہاں بیٹھ کر اپنے گھر والوں کی عیب جوئی نہیں کر سکتا تھا۔
اسے نیو یارک میں دو سال ہونے والے تھے جب اچانک ہارٹ اٹیک کی وجہ سے صابر کی موت ہو گئی تھی۔ وہ ہاسپٹل جانے سے پہلے ہی دم توڑ گیا تھا۔ مجاہد نے صابر کے بیٹوں کو فون کر کے انہیں اس کی موت کی اطلاع دی تھی۔ وہ رنجیدہ ہوئے تھے۔ مجاہد ان سے صابر کی ڈیڈ باڈی کو پاکستان بھجوانے کے انتظامات کرنے کے سلسلے میں بات کرنا چاہتا تھا۔ مگر ان میں سے کسی کو اس کی ڈیڈ باڈی وصول کرنے یا اسے پاکستان منگوانے کے لیے پیسہ خرچ کرنے میں دلچسپی نہیں تھی، وہ چاہتے تھے، اسے وہیں دفن کر دیا جائے البتہ اس کے پاس بینک میں موجود رقم اور دوسری جائیداد کی تفصیلات سے انہیں آگاہ کر دیا جائے۔ وہ اس سلسلے میں امریکہ آنے کے لیے بھی تیار تھے۔
اس نے مجاہد اور تنویر کے ساتھ زندگی کا یہ رخ بھی دیکھ لیا تھا۔ پورا ایک ہفتہ وہ مجاہد کے ساتھ صابر کے بیٹوں کولاش پاکستان منگوا لینے پر رضا مند کرنے کی کوشش کرتا رہا اور ناکام رہا۔ وہ اس سلسلے میں کسی قسم کی رقم، خرچ کرنے یا انتظامات کے لیے تیار نہیں تھے۔
مجاہد اور تنویر کے ساتھ مل کر چندہ جمع کر کے اس نے خود ہی صابر قیوم کی لاش کو پاکستان بھجوانے کا انتظام کیا تھا۔ مجاہد اور تنویر نے اسے ہی صابر قیوم کے سامان اورڈیڈ باڈی کے ساتھ پاکستان بھجوایا تھا۔ جس زمین پر صابر قیوم اپنے بڑھاپے میں کاشت کاری نہیں کر سکا تھا۔ انہوں نے کوشش کی تھی کہ وہ کم از کم وہاں دفن ضرور ہو سکے۔
جہاز پر امریکہ سے پاکستان کے طویل فضائی سفر کے دوران صابر قیوم کی ڈیڈ باڈی کے ساتھ سفر کرتے ہوئے وہ صابر قیوم کے بارے میں نہیں سوچتا رہا، وہ صرف اپنے بارے میں سوچتا رہا۔ کیا کسی دن اسی طرح جہاز پر کوئی اس کے تابوت کے ساتھ سفر کر رہا ہو گا۔

من و سلویٰ - عمیرہ احمد

"ماں باپ کو کیا خبر کہ وہ دل پر پتھر رکھ کر اپنے چاند کو جس پردیس میں رخصت کرتے ہیں اُس پردیس کا کوئی آسمان نہیں ہوتا۔" ...
01/07/2025

"ماں باپ کو کیا خبر کہ وہ دل پر پتھر رکھ کر اپنے چاند کو جس پردیس میں رخصت کرتے ہیں اُس پردیس کا کوئی آسمان نہیں ہوتا۔"

اطلس از واجدابرار

coming soon
25/06/2025

coming soon

ڈرامہ : شہر ذاترائٹر: عمیرہ احمد ڈائریکٹر: سرمد کھوسٹ چینل: ہم ٹی وی (2012)تبصرہ 8 : واجد ابرار "ہمسفر" کے بعد، سرمد سلط...
24/06/2025

ڈرامہ : شہر ذات
رائٹر: عمیرہ احمد
ڈائریکٹر: سرمد کھوسٹ
چینل: ہم ٹی وی (2012)
تبصرہ 8 : واجد ابرار

"ہمسفر" کے بعد، سرمد سلطان کھوسٹ کے کسی بھی کام سے توقعات بہت زیادہ تھیں، جن کا پورا ہونا آسان نہیں تھا۔ مجھ لگ رہا تھا کہ کوئی آخر اپنی ہی کامیابی کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہے؟ ویسے سچ کہوں تو مجھے اس ڈرامے کا انتظار سرمد کی بجائے ماہرہ خان کہ وجہ سے زیادہ تھا۔۔مجھے ان کی "معصوم " اداکاری بہت پسند ہے۔۔وہ ایک روایتی اداکارہ نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے پاس بہت زیادہ چہرے کے تاثرات ہیں۔۔البتہ ان کی آنکھیں بولتی ہیں اور ان کی ڈائیلاگ ڈلیوری مجھے بہت پسند ہے۔۔۔

"شہرِ ذات" کی کہانی، جو عمیرہ احمد نے لکھی ہے، اسکرین پر پیش کرنا ایک مشکل کام تھا۔ جو تحریر میں بہت معنی خیز ہو، وہ اسکرین پر سنجیدہ یا بوجھل بھی لگ سکتی ہے۔
شہر ذات ایک سنجیدہ ڈرامہ ہے۔ یہ ہماری توجہ کا تقاضا کرتا ہے، ہمیں آسان مفروضوں سے باہر دھکیلتا ہے، اور کبھی کبھار یہ دیکھنا مشکل بھی لگتا ہے، لیکن یہ ناظر کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے اس کا خوبصورت اور دل موہ لینے والا اوریجنل ساؤنڈ ٹریک (OST) "یار کو ہم نے جا بجا دیکھا" جسے عابدہ پروین نے گایا ہے۔ اس کی دھن ذہن میں گونجتی ہے، بول کسی پراسرار انداز میں بے چین کر دیتے ہیں، اور سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں… اس سب کا کیا مطلب ہے؟ ڈرامے کا پہلا سین جو کہ مکلی کے قبرستان میں فلمایا گیا تھا، بہت پراسرار اور اس پر بجنے والا بیک گراؤنڈ میوزک کسی انہونی کی پیشگوئی کرتا ہے، مجھے اس ڈرامے نے اس پہلے سین سے ہی جکڑ لیا تھا۔

ماہرہ خان نے مرکزی کردار، فلک، کو بڑی مہارت سے نبھایا ہے۔ یہ ان کے ناقدین کو خاموش کرنے کے لیے کافی ہونا چاہیے، اور جو اب بھی قائل نہیں، انہیں راضی کرنا شاید ممکن نہیں۔ ماہرہ نے بطور اداکارہ بہت ترقی کی ہے، اور میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ کوئی اور یہ کردار ادا کر سکتا تھا۔ میرے نزدیک یہ ماہرہ خان کی بہترین پرفارمنس تھی۔۔جنہوں نے فلک جیسے کردار کو، جو خود غرض، خود پسند اور مغرور ہے، پھر بھی ایک نرم گوشہ دیا ہے۔ فلک کی خوبصورتی، دولت اور سماجی رتبہ اسے دنیا کی حقیقتوں سے غافل رکھے ہوئے ہیں۔ وہ بدصورتی سے نفرت کرتی ہے اور غربت کے پردے میں چھپے انسانوں کو نہیں دیکھ پاتی۔

اس کی سلمان انصر سے اتفاقیہ ملاقات قدرت کا انصاف لگتی ہے۔ سلمان، جس سے وہ بے حد محبت کرنے لگتی ہے، پہلے ہی خود پسندی میں مبتلا ہے اور فلک کے لیے زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا۔ مگر فلک اپنی ضد، اور مسلسل کوشش سے اسے شادی کے لیے آمادہ کر لیتی ہے۔

میکال ذوالفقار نے سلمان انصر کا کردار نہایت مہارت سے ادا کیا ہے۔ ان کے کردار میں کوئی روایتی ہیرو والی خوبی نہیں، لیکن میکال نے اسے ایک مخصوص کشش دے دی ہے جو سلمان کو حقیقت میں حاصل نہیں۔ یہ میکال کے لیے کوئی نئی بات نہیں، کیونکہ وہ ایسے کرداروں میں مہارت رکھتے ہیں۔

مرکزی کرداروں کے ساتھ ساتھ ہر اداکار نے شاندار کارکردگی دکھائی ہے—حنا بیات، ثمینہ پیرزادہ، اور یقیناً محب مرزا، جنہوں نے حمزہ کا کردار انتہائی عمدگی سے نبھایا۔ فلک کے بہترین دوست اور ممکنہ شریک حیات کے طور پر، محب کی اداکاری بے مثال رہی ہے۔
مجھے منشا پاشا کا بھی ذکر کرنا ہوگا، جنہوں نے فلک کی دوست، رشنا، کا کردار ادا کیا ہے، اور ہر منظر میں تازگی کا احساس دلاتی ہیں۔

کہانی کا بنیادی موضوع ایک روحانی بیداری ہے۔ اس میں عشقِ حقیقی (اللہ سے محبت) اور عشقِ مجازی (انسان سے محبت) کے درمیان واضح فرق دکھایا گیا ہے—جو کہ آسان کام نہیں تھا۔

"آپ نے مجھ پر ظلم کیا ہے، مما!" فلک تڑپ کر کہتی ہے۔ "آپ نے مجھے اللہ سے محبت کرنا نہیں سکھایا!"

یہ جملے وہ اس وقت کہتی ہے جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا شوہر جس عورت کے ساتھ بے وفائی کر رہا ہے، وہ ہر لحاظ سے اس سے کمتر ہے۔

وہ سین جب ساحل پر موجود فقیر کے ذریعے فلک کو درس دیا گیا وہ کمال تھا۔۔۔اس کے بعد فلک کے کی زندگی بھی ایسے موڑ سے گزرتی ہے کہ وہ بھی ایک شام اسی ساحل پر چیختی چلاتی ہوئی اپنی ذات کی چاہ کرتی ہے اور مٹی اپنے منہ پر ملتی ہے، اس کا سارا غرور دھل جاتا ہے۔۔۔عمیرہ کی تحریر اور ماہرہ کی اداکاری نے اس سین میں ایسی روح پھونکی کے آج بھی میں اس سین کے سحر سے نہیں نکل پایا۔۔

کسی اور کہانی میں، فلک شاید وہ مغرور بیوی ہوتی جسے اس کے شوہر کی متوسط طبقے کی نیک دل معشوقہ کے لیے چھوڑ دیا جاتا۔ لیکن "شہرِ ذات" روایتی سانچوں کو توڑتا ہے۔

"دوسری عورت" تابندہ، بدتمیز اور عام سی ہے۔ یہ بات بہت سے لوگوں کے لیے الجھن کا باعث بنی کہ آخر سلمان جیسے نفیس شخص کو ایسی عورت میں کیا نظر آیا؟ مگر نادیہ افگن نے اس کردار کو مزاحیہ رنگ دے کر ناظرین کو حیران کر دیا۔ شاید اگر ہمیں دکھایا جاتا کہ سلمان نے تابندہ میں کیا کشش محسوس کی، تو یہ زیادہ منطقی لگتا۔

عمیرہ احمد نے اس کہانی میں خود کی تلاش کا ایک نہایت مضبوط پیغام دیا ہے۔۔جو کہ ان کی تحریر کا خاصہ ہے۔
"مرد دروازوں کی طرح ہوتے ہیں، وہ عورت کے لیے راستہ کھول سکتے ہیں یا اسے روک سکتے ہیں، لیکن وہ منزل نہیں ہوتے۔"
یہ ڈرامہ شائد ہر ایک کو پسند نہ آئے لیکن میں اس ڈرامے کے سحر میں اب تک مبتلا ہوں اور یہ ڈرامہ میرے حالیہ دور کے پندرہ پسندیدہ ترین پاکستانی ڈراموں میں چوتھے نمبر پر ہے۔۔اور میری ریٹنگ 4.7/5 ہے۔

24/06/2025

او آگئی اے، پٹواریاں دی ماں آ گئی اے
تے گلاں گلاں وچ 10 کھرب کھا گئی اے

24/06/2025

قطر پر ایران کا حملہ
مریم نواز کا دل ہل گیا

23/06/2025

محبت جب اپنے عروج پر ہوتی ہے تو تبھی وہ اپنا انجام لکھتی ہے۔۔

عبداللہ دیوانہ از واجد ابرار

Indirizzo

Milan

Notifiche

Lasciando la tua email puoi essere il primo a sapere quando Abrar Says ابرار کہتا ہے pubblica notizie e promozioni. Il tuo indirizzo email non verrà utilizzato per nessun altro scopo e potrai annullare l'iscrizione in qualsiasi momento.

Condividi