31/07/2025
📌 امریکی اسپیشل فورسز سے ریٹائرڈ افسر Anthony Aguilar نے امدادی اشیاء کی تقسیم کے دوران دیکھی گئی کچھ ہولناک وارداتوں کا ذکر کیا، جن میں اس تصویر والے بچے "امیر" کی داستان بھی شامل ہے۔
انٹونی کہتے ہیں:
"پانچ سالہ امیر 12 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے 'امداد' لینے آیا۔ وہ میرے قریب آیا اور ایک تھیلا اٹھایا، جبکہ اس کے پاس کوئی چیز نہ تھی جس میں وہ سامان رکھ سکتا۔ پھر اس نے ہاتھ بڑھایا، میں نے سمجھا وہ مزید امداد مانگ رہا ہے۔ میں نے ہاتھ بڑھایا تو اس نے میرا ہاتھ چوم لیا اور کہا: 'شکریہ'۔
میں نے اس ننگے پاؤں، بھوکے، کمزور بچے کو دیکھا جس کے کپڑے بھی اُس کے لاغر جسم سے گرنے کو تھے۔ میں گھٹنوں کے بل جھکا ہوا تھا، میں نے اسے تسلی دی کہ: کوئی ہے جو تم لوگوں کی فکر کرتا ہے۔ امیر میرے قریب آیا، اپنی مٹی سے اَٹی ہوئی نازک ہتھیلیوں سے میرا سر تھاما اور انگریزی میں بولا: 'Thank you'۔ پھر وہ چلا گیا، اپنے ساتھ تھوڑا سا کھانا لے کر جو میں نے اُسے دیا تھا۔"
"لیکن چند لمحوں بعد ہی، اسرائیلی فوج نے ان بھوکے ہچوں پر گولیاں چلانا شروع کر دیں جو صرف خوراک لینے آئے تھے۔ لوگ ایک ایک کر کے میرے سامنے گرتے گئے۔ اور جن میں سے ایک جس کے جسم کو گولیوں نے چیر ڈالا، وہی بچہ امیر تھا۔"
انٹونی نے اپنی نوکری سے استعفیٰ دے دیا، اس ہولناکی کے بعد جو اُس نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ مگر اُس کے دیگر ساتھیوں نے استعفیٰ نہ دیا۔ اس قسم کی قتلِ عام کی کارروائیاں روز کا معمول بن چکی ہیں۔
کون جانتا ہے… شاید امیر کا کوئی چھوٹا بہن بھائی بھوک سے تڑپ رہا ہو، یا کوئی ماں باپ ہو جو مفلوج ہو چکے ہوں انھی حملوں کی وجہ سے۔
پھر یہی "مہذب دنیا" تمہیں "بچوں کے حقوق"، "خواتین کے بااختیار بنانے"، "جینڈر ایکویٹی"، اور "انتہا پسند اسلامی نظریات" سے نجات کی بات کرے گی…
اللہ کی قسم! جو کچھ ہو رہا ہے، اس میں ہر شریک کا حساب سخت ترین ہو گا — ایسا کہ وہ تمنّا کرے گا کہ کاش وہ مٹی ہوتا، یا زمین کے برابر کر دیا جاتا۔
پس اے اللہ! ہمیں اُس وقت موت نہ دینا جب تُو ہمیں ان مجرموں کے شریک یا خاموش تماشائیوں میں لکھ چکا ہو…
اور ہمارا اللہ ہی کافی ہے، اور وہی بہترین کارساز ہے۔
ڈاکٹر ایاد القنیبی