I S P Channel

I S P Channel 🌟 Welcome to my versatile world of content creation! 🎬 As a passionate content creator.

29/09/2025

بچپن کی یادیں | پانی والی بندوق کی لڑائی | دوستوں کے ساتھ وہ ناقابلِ فراموش لمحے

بچپن کی وہ گرمیوں کی چھٹیاں یاد آتی ہیں جب دن کے سب کام ختم کر کے ہماری نظریں صرف ایک ہی چیز پر ہوتی تھیں… پانی والی بند...
29/09/2025

بچپن کی وہ گرمیوں کی چھٹیاں یاد آتی ہیں جب دن کے سب کام ختم کر کے ہماری نظریں صرف ایک ہی چیز پر ہوتی تھیں… پانی والی بندوق۔ یہ وہ دور تھا جب ہم صبح سے ہی اپنی بندوق تیار کر کے رکھتے تھے۔ کوئی چھوٹی پلاسٹک کی بندوق تھی جس میں پانی بھر کر بٹن دبانے پر چھڑکاؤ ہوتا تھا، تو کسی کے پاس بڑی اور رنگین بندوق ہوتی تھی جسے دیکھ کر باقی سب دوست رشک کرتے۔

محلے میں ایک ہی بندے کے پاس سب سے نئی اور بڑی پانی والی بندوق ہوتی۔ وہ بندہ خود کو محلے کا "ہیرو" سمجھتا اور باقی سب اس کے ساتھ کھیلنے کے لیے دوڑتے۔ ہم سب گلی کے کونے پر جمع ہوتے اور ٹیمیں بناتے۔ کوئی کہتا: "میں فلاں کے ساتھ ہوں"، کوئی کہتا: "نہیں، تم ہمارے مخالف ہو گے"۔ اور یوں کھیل شروع ہو جاتا۔

پہلا پانی کا چھڑکاؤ ہوتے ہی گلی قہقہوں سے بھر جاتی۔ سب اپنے اپنے چھپنے کے ٹھکانے ڈھونڈتے۔ کوئی دیوار کے پیچھے چھپتا، کوئی درخت کے تنے کے ساتھ لگ جاتا، اور کوئی چھت سے نیچے جھانک کر دوستوں پر نشانہ لگاتا۔ جیسے ہی بندوق کا پانی ختم ہوتا، دوڑ لگا کر قریبی نلکے یا بالٹی تک پہنچنا پڑتا۔ یہ سب سے مشکل لمحہ ہوتا، کیونکہ باقی سب دشمن اس بھاگنے والے کو نشانہ بنا لیتے۔ کبھی وہ بھیگ کر واپس آتا، کبھی ہنستے ہوئے قلابازیاں کھا لیتا۔

کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کسی کے گھر میں پانی والی بندوق ختم ہو جاتی تو وہ پانی سے بھری بالٹی یا جگ لے آتا اور سیدھا دوستوں پر انڈیل دیتا۔ پھر باقی سب شور مچاتے: "یہ دھوکا ہے!"، لیکن دل ہی دل میں سب کو مزہ آ رہا ہوتا۔

چھوٹی موٹی لڑائیاں بھی ساتھ ساتھ چلتی رہتیں۔ کبھی کوئی کہتا: "تم نے زیادہ زور سے مارا ہے"، تو کبھی کوئی اپنی گیلی شرٹ دکھا کر ناراض ہوتا۔ مگر یہ ناراضگیاں زیادہ دیر نہ ٹک پاتیں۔ پانچ منٹ بعد پھر وہی دوست ہنس ہنس کر ایک دوسرے پر پانی برسا رہے ہوتے۔

گلی میں اتنا شور ہوتا کہ کبھی کبھی گھروں سے مائیں غصے میں نکل آتیں اور کہتیں:
"بس کرو! بیمار ہو جاؤ گے!"
لیکن ہم کہاں رکنے والے تھے۔ کسی کی بات سنتے ہی ہم ہنستے اور دوبارہ پانی چلانا شروع کر دیتے۔

سب سے دلچسپ موقع وہ ہوتا جب سب دوست مل کر ایک کو گھیر لیتے۔ پانچ چھ بندوقوں کا پانی ایک ساتھ پڑتا اور وہ بچہ بھیگ کر ایسا لگتا جیسے ابھی ابھی نلکے کے نیچے کھڑا رہا ہو۔ وہ دوست ناراضگی کا ڈرامہ کرتا، مگر اندر سے ہنس رہا ہوتا کیونکہ اس کا نام سب کے مذاق کا مرکز بن گیا تھا۔

کبھی ہم یہ کھیل شام تک جاری رکھتے۔ جیسے جیسے سورج ڈھلتا، گلی کی مٹی گیلی ہو جاتی، دیواریں چمکنے لگتیں اور ہر طرف ہنسی کی گونج سنائی دیتی۔ کپڑے اتنے گیلے ہو جاتے کہ پہچاننا مشکل ہو جاتا کون کس ٹیم میں ہے۔ آخر میں جب سب کے پاس پانی ختم ہو جاتا، ہم بیٹھ کر گپ شپ لگاتے اور اگلے دن کی لڑائی کے منصوبے بناتے۔

اب جب ان لمحوں کو یاد کرتے ہیں تو دل کہتا ہے… وہ وقت ہی اصل خوشی تھی۔ نہ کوئی بڑی خواہش تھی، نہ کوئی دکھ۔ صرف پانی والی بندوق، محلے کے دوست، ہنسی اور شور۔ آج کے دور میں چاہے ہزاروں گیمز کھیل لیں، موبائل پر کتنے ہی مزے لے لیں، مگر وہ خوشی دوبارہ نہیں مل سکتی جو اس وقت کی پانی والی بندوق کی لڑائی میں تھی۔

بچپن کی یادیں انسان کی زندگی کا وہ سرمایہ ہیں جو کبھی پرانا نہیں ہوتا۔ آج کی کہانی ہے سکول کے راستے کی کہانیاں۔جب ہم چھو...
22/09/2025

بچپن کی یادیں انسان کی زندگی کا وہ سرمایہ ہیں جو کبھی پرانا نہیں ہوتا۔ آج کی کہانی ہے سکول کے راستے کی کہانیاں۔

جب ہم چھوٹے ہوتے ہیں تو سکول صرف کتابوں، استاد اور پڑھائی تک محدود نہیں ہوتا، بلکہ سکول کا راستہ بھی ہماری زندگی کی خوبصورت کہانیوں میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ صبح کا وقت، ماں کا جلدی جگانا، نیند سے بوجھل آنکھیں اور پھر بستہ اٹھا کر باہر نکلنا۔ جیسے ہی گلی میں قدم رکھتے، ایک الگ دنیا شروع ہو جاتی۔

راستے میں ملنے والے دوست وہی ہوتے تھے جو روز ساتھ چلتے۔ کچھ دوست آہستہ آہستہ چلنے والے ہوتے، کچھ دوڑتے بھاگتے آگے نکل جاتے۔ کبھی کوئی نئی گپ شپ شروع ہو جاتی تو کبھی چھوٹے موٹے جگھڑے۔ کسی کے ہاتھ میں تازہ اخبار ہوتا جس میں کرکٹ میچ کے اسکور کی خبریں ہوتیں، تو کوئی ناشتے کا پرانٹھا کاغذ میں لپیٹ کر کھاتا ہوا آ رہا ہوتا۔

راستے کے چھوٹے چھوٹے دکان دار بھی یاد آتے ہیں۔ نانبائی کی دوکان سے نکلتی خوشبو، پان والے کی گھنٹی، ٹافیوں والے بابا جی جو پانچ روپے میں دس ٹافیاں دے دیتے۔ کبھی کبھی ہم پیسے جمع کر کے اسی دوکان سے چیزیں خریدتے اور دوستوں کے ساتھ بانٹ لیتے۔

سکول کا راستہ کھیل کا میدان بھی ہوتا۔ کبھی کنکریاں اچھالتے، کبھی راستے میں درختوں سے بیری توڑ کر کھاتے۔ بارش کے دن سب سے زیادہ مزے دار ہوتے، راستے میں چھوٹے چھوٹے پانی کے جوہڑ بنتے اور ہم جوتے گیلا کر کے مزے لیتے۔ کئی بار گھر جا کر ڈانٹ بھی پڑتی کہ جوتے اور یونیفارم کیوں خراب کیا۔

راستے کی یادوں میں وہ دن بھی شامل ہیں جب ہم کبھی دیر سے نکلتے اور پورا راستہ دوڑتے بھاگتے طے کرتے۔ وہ گھبراہٹ کہ کہیں اسمبلی نہ چھوٹ جائے۔ لیکن انہی لمحوں میں وہ سکول کا راستہ ایک سفر نہیں بلکہ کہانی بن جاتا، جو آج بھی دل کو بھاتا ہے۔

یہ کہانیاں صرف ہمارے سکول کے راستے تک محدود نہیں، بلکہ یہ بچپن کی معصومیت، چھوٹی چھوٹی خوشیاں اور دوستوں کے ساتھ بتائے گئے سنہری دنوں کی عکاسی کرتی ہیں۔ آج بھی جب اس راستے کو یاد کرتے ہیں تو دل کہتا ہے کہ کاش وہ دن واپس آ جائیں

بچپن کی دنیا واقعی ایک الگ ہی کائنات تھی۔ وہ دن، وہ شرارتیں، وہ ہنسی مذاق… سب یاد آتا ہے تو دل مسکرا اٹھتا ہے۔ آج کی کہا...
22/09/2025

بچپن کی دنیا واقعی ایک الگ ہی کائنات تھی۔ وہ دن، وہ شرارتیں، وہ ہنسی مذاق… سب یاد آتا ہے تو دل مسکرا اٹھتا ہے۔ آج کی کہانی انہی شرارتوں میں سے ایک پر ہے، جو شاید ہر محلے کے بچوں نے کبھی نہ کبھی کی ہو گی۔ اور وہ ہے… کسی کے گھر کی بیل بجا کر یا دروازہ کھٹکھٹا کر فوراً بھاگ جانا۔

یہ شرارت ہماری روز کی عادت بن چکی تھی۔ شام کے وقت، جب محلے میں خاموشی ہوتی اور گلیاں نسبتاً سنسان، ہم سب دوست جمع ہوتے۔ کوئی کہتا، "آؤ آج فلاں کے گھر چلتے ہیں"، تو کوئی کہتا، "آج بیل بجا کر دیکھتے ہیں کون باہر نکلتا ہے۔" پھر ہم سب اپنے اپنے جوتے کس کر، ایک پلان بناتے۔ ایک دوست کو بیل بجانے کا کام دیا جاتا اور باقی سب تھوڑا فاصلے پر چھپ کر کھڑے ہو جاتے۔ جیسے ہی دوست نے بیل بجائی، سب قہقہے لگاتے ہوئے بھاگ نکلتے۔

کبھی کبھی تو مزہ اس وقت آتا جب گھر کا مالک غصے میں دروازہ کھولتا اور باہر آ کر آوازیں لگاتا: "کون ہے؟ کون ہے؟" اور ہم دیوار کے پیچھے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتے۔ کئی بار تو ایسا بھی ہوا کہ وہ ہمیں بھاگتے دیکھ لیتے اور پیچھے دوڑنے لگتے۔ پھر ہم اپنی جان بچاتے، کبھی کسی کھمبے کے پیچھے چھپتے، کبھی کسی دوست کے گھر میں گھس جاتے۔

کبھی کبھی یہ شرارت الٹی بھی پڑ جاتی۔ کوئی بڑا آدمی محلے میں شکایت کرنے پہنچ جاتا کہ "یہ آپ کے بچے بار بار بیل بجاتے ہیں اور بھاگ جاتے ہیں۔" تب ہمیں گھر پر ڈانٹ پڑتی، لیکن اگلے دن پھر وہی کھیل شروع ہو جاتا۔

یہ شرارت صرف مذاق نہیں تھی، بلکہ دوستوں کے درمیان ایک خاص سا مقابلہ بھی ہوتا۔ کہ کون سب سے تیز بھاگتا ہے، کون سب سے ہمت والا ہے جو بیل بجا کر بھی زیادہ دیر کھڑا رہ سکتا ہے۔ کئی بار کوئی دوست بیل بجا کر اتنی زور سے بھاگتا کہ خود ہی گر جاتا اور سب ہنس ہنس کر اس کا حال دیکھتے۔

یاد ہے، اس وقت نہ موبائل فون تھے، نہ کوئی اور مصروفیت، تو چھوٹی چھوٹی شرارتیں ہی ہماری خوشی کا ذریعہ بنتی تھیں۔ وہ دروازے، وہ بیل، وہ محلے والے، سب ایک کھیل کا حصہ بن جاتے۔ آج جب سوچتا ہوں تو لگتا ہے کہ ہم نے کسی کو نقصان نہیں پہنچایا، بس بچپن کی مستی کی، جو زندگی کے سب سے حسین دنوں میں سے تھی۔

یہ کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ زندگی میں چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہی اصل خوشی ہوتی ہیں۔ ہم نے نہ پیسے لگائے، نہ بڑے انتظام کیے، بس دوستوں کی محفل اور چھوٹی سی شرارت نے وہ ہنسی دی جو شاید آج ہزاروں روپے خرچ کرنے کے بعد بھی نہ ملے۔

22/09/2025

بچپن کے دن | بیل بجا کر بھاگ جانا | Childhood Memories in Urdu

07/09/2025

چاچا جی کی ڈانٹ اور محبت | بچپن کی یادوں کی کہانی 💭❤️

یار بچپن کی ایک عجیب دنیا تھی۔۔۔ ہر چیز سیدھی سادی لیکن مزے دار۔۔۔ خاص طور پر جب بات کرکٹ کی آتی تھی نا تو ایسا لگتا تھا...
29/08/2025

یار بچپن کی ایک عجیب دنیا تھی۔۔۔ ہر چیز سیدھی سادی لیکن مزے دار۔۔۔ خاص طور پر جب بات کرکٹ کی آتی تھی نا تو ایسا لگتا تھا جیسے دنیا کا سب سے بڑا ورلڈ کپ ہم اپنی گلی میں کھیل رہے ہیں۔ بال بھی وہ نہیں جو آج آپ کو مارکیٹ میں سو، دو سو کی ملتی ہے۔۔۔ اُس زمانے میں پلاسٹک یا ربڑ کی ایک چھوٹی سی بال لے کر ہم اپنے آپ کو وسیم اکرم اور سچن تندولکر سمجھتے تھے۔

اب مسئلہ یہ تھا کہ وہ بال اکثر زیادہ دن چلتی ہی نہیں تھی۔۔۔ دو چار میچز کے بعد یا تو سڑک پر رگڑ کھا کے ہلکی سی ٹوٹ جاتی تھی یا کبھی چھت پر جا کر پنکھے کے بلیڈ سے لگ کر دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی تھی۔ لیکن اصل مزہ تب آتا تھا جب بال ٹوٹتی تھی اور جھگڑا شروع ہو جاتا تھا۔

"یار یہ تیری وجہ سے ہوا ہے۔۔۔ زور سے بال پھینکی تھی!"
"اوے میری کیا غلطی ہے۔۔۔ تو نے اتنی زور سے شاٹ مارا تھا۔"

اور پھر گلی بھر میں ایسی بحث شروع ہو جاتی جیسے پاکستان اور انڈیا کا میچ ڈرا ہو گیا ہو۔ کچھ دوست فوراً جج بن جاتے تھے:
"چپ کرو سب۔۔۔ پہلے فیصلہ ہوگا کہ بال کس کی تھی۔۔۔ جس کی بال تھی، وہی اگلی لے کر آئے گا۔"

اب یہاں اصل ڈرامہ ہوتا تھا۔ جس کی بال ہوتی، وہ بیچارہ کہتا:
"یار میں نے تو پیسے ڈال کے خریدی تھی، اب بار بار تو میں نہیں لاؤں گا!"
اور باقی سب فوراً اُس کو بھائی چارے اور دوستی کے سبق سنانے لگتے:
"یار دوستی میں یہ چھوٹی موٹی چیزیں چلتی رہتی ہیں۔۔۔ تو ہی بڑا دل دکھا دے، نئی بال لے آ۔"

اصل بات یہ تھی کہ جیب خالی ہوتی تھی، جیب خرچ ہفتے میں ایک بار ملتا تھا، اور وہ بھی ٹافیاں، سموسے، یا ٹھنڈی بوتل میں اُڑ جاتا تھا۔ تو بال خریدنے کے لئے سب کے بہانے تیار ہوتے تھے۔ کوئی کہتا، "میرے ابو سے آج پیسے مانگے تھے لیکن وہ کہہ رہے تھے امتحان میں نمبر اچھے لا پھر بال لے دینا۔"
کوئی دوسرا کہتا، "یار میری امی کہہ رہی تھیں پہلے جوتے کے تلے لگوا لو، پھر کرکٹ کھیلنا۔"

آخر کار جھگڑا اس بات پر ختم ہوتا کہ جس نے سب سے زیادہ شور مچایا ہوتا، وہی بال لے کر آتا۔۔۔ اور باقی سب وعدہ کرتے کہ "پیسے سب مل کر ڈالیں گے"۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پیسے کبھی واپس نہیں ملتے تھے۔

اب وہ نئی بال آ جاتی تو خوشی کا عالم ہی کچھ اور ہوتا۔ ایسے لگتا جیسے ورلڈ کپ کی آفیشل بال ہاتھ لگ گئی ہو۔ پہلے دو تین گیندیں بڑی احتیاط سے کھیلی جاتیں۔۔۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ وہی حال۔۔۔ کبھی بال نالی میں جا گری تو سب لائن بنا کر کھڑے ہو جاتے، ایک بچہ ڈنڈا ڈال کر نکالتا۔۔۔ نالی کا پانی ٹپکتا ہوا بال پر سے گر رہا ہوتا لیکن اُس وقت ہمیں بال کی خوشبو نہیں، کھیل کی خوشی عزیز ہوتی۔

سب سے دلچسپ لمحہ تب ہوتا جب کوئی بڑا، ابو یا محلے کے چاچا، گلی سے گزرتے ہوئے کہتے:
"یہی بال مارو گے تو شیشے توڑ دو گے، پھر پتا چلے گا۔۔۔"
اور ہم سب وعدے کرتے: "نہیں چاچا جی، اب احتیاط کریں گے۔۔۔"
لیکن اگلے ہی اوور میں بال دیوار کے پار یا کھڑکی کے اندر۔۔۔ اور پھر وہی ڈانٹ ڈپٹ، وہی بھاگ دوڑ۔

یار سوچو۔۔۔ وہی ٹوٹی ہوئی بال، وہی جھگڑے، وہی ضد۔۔۔ آج ہم بڑے ہو کر جب یاد کرتے ہیں تو ہنسی بھی آتی ہے اور دل بھی بھر آتا ہے۔ اُس وقت ہمیں لگتا تھا کہ بال سب سے بڑی دولت ہے۔۔۔ اور آج ہزاروں روپے کی چیزیں ہیں، پھر بھی وہ مزہ نہیں جو اُس دو روپے کی پلاسٹک کی بال میں تھا۔

آخر میں صرف یہ کہنا ہے۔۔۔ کہ بچپن کے وہ جھگڑے دراصل سب سے بڑے تحفے تھے۔۔۔ وہ ٹوٹی ہوئی بال آج بھی دل کے کسی کونے میں جمی ہوئی ہے۔۔۔ یادوں کے خزانے میں۔۔۔ اور جب بھی یاد آتی ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے دوبارہ گلی میں کھڑے ہو کر کھیل رہے ہیں، ہنسی مذاق کر رہے ہیں، اور دوستوں کے ساتھ بے فکری سے وقت گزار رہے ہیں۔

ہمارے بچپن کے دن سب سے حسین دن ہوتے ہیں۔ ان دنوں میں نہ کوئی فکر ہوتی ہے، نہ کوئی غم، بس کھیل، شرارتیں اور دوستوں کا سات...
24/08/2025

ہمارے بچپن کے دن سب سے حسین دن ہوتے ہیں۔ ان دنوں میں نہ کوئی فکر ہوتی ہے، نہ کوئی غم، بس کھیل، شرارتیں اور دوستوں کا ساتھ۔ محلے کی گلیوں میں کھیلتے کھیلتے وقت کیسے گزر جاتا تھا، پتا ہی نہیں چلتا تھا۔ انہی یادوں میں سے ایک یاد ہمیشہ دل میں زندہ رہتی ہے، اور وہ ہے محلے کی سب سے مضبوط دوستی کی۔

ہمارے محلے میں دو دوست ہوا کرتے تھے، علی اور بلال۔ دونوں کی عمر تقریباً ایک ہی تھی، اور دونوں کی دوستی کی مثال پورے محلے میں دی جاتی تھی۔ علی شرارتی تھا، ہر وقت ہنستا کھیلتا رہتا، اور بلال نسبتاً سنجیدہ مزاج تھا، لیکن دونوں کا ساتھ ایسا تھا کہ جیسے ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہوں۔

کہانی کا آغاز اس دن سے ہوا جب علی کی گیند غلطی سے بلال کے گھر کی کھڑکی پر جا لگی۔ سب بچے ڈر گئے، سب نے کہا اب تو بڑی ڈانٹ پڑے گی، مگر بلال باہر آیا، ہنسا اور بولا: "کھڑکی ٹوٹ گئی تو کیا ہوا، دوستی تو نہیں ٹوٹی۔" اس جملے کے بعد سے دونوں کی دوستی شروع ہوئی اور پھر کبھی نہ ٹوٹی۔

اس کے بعد ہر کھیل، ہر شرارت، ہر تہوار میں یہ دونوں ساتھ ساتھ نظر آتے۔ گرمیوں کی دوپہریں ہوں، یا شام کے وقت گلی میں کرکٹ کھیلنا ہو، دونوں ہر وقت ایک دوسرے کے ساتھ رہتے۔ اگر علی پتنگ اڑاتا تو بلال ڈور سنبھالتا، اور اگر بلال گیند پھینکتا تو علی بیٹ تھام لیتا۔ ان کی ہنسی، ان کی شرارتیں اور ان کی معصومیت پورے محلے میں مشہور تھی۔

یاد ہے، ایک بار دونوں نے فیصلہ کیا کہ آج سب سے اونچی چھت پر پتنگ اڑائیں گے۔ چھت پر چڑھنے کے لیے بڑی مشکلوں سے سیڑھی ڈھونڈی، اور جیسے ہی چھت پر پہنچے تو ہوا کے جھونکوں نے ان کی پتنگ کو آسمان تک پہنچا دیا۔ نیچے پورے محلے کے بچے شور مچاتے، "واہ واہ، دیکھو علی اور بلال کی پتنگ کہاں تک گئی ہے۔" وہ لمحہ آج بھی یاد آتا ہے تو چہرے پر مسکراہٹ آ جاتی ہے۔

لیکن دوستی صرف ہنسی اور کھیل کا نام نہیں۔ ایک دن کھیلتے کھیلتے محلے کے کچھ بڑے لڑکوں نے علی کو دھکا دیا۔ سب بچے خاموش ہو گئے، مگر بلال آگے بڑھا اور بولا: "اگر علی سے لڑو گے تو پہلے مجھ سے لڑنا ہوگا!" یہ سن کر سب حیران رہ گئے۔ اس دن محلے کے ہر بچے کو پتا چل گیا کہ دوستی کا اصل مطلب کیا ہے۔

وقت گزرتا گیا۔ اسکول کے دن ختم ہوئے، اور زندگی نے نئے راستے دکھائے۔ علی پڑھائی کے لیے دوسرے شہر چلا گیا اور بلال نے گھر والوں کے ساتھ کام سنبھال لیا۔ لیکن ان دونوں کی دوستی وقت اور فاصلے کے باوجود کم نہ ہوئی۔ کبھی خط کے ذریعے، کبھی فون پر اور کبھی کبھار ملاقاتوں میں وہی پرانی ہنسی، وہی بچپن کی شرارتیں زندہ ہو جاتیں۔

سالوں بعد جب علی دوبارہ محلے آیا تو سب نے دیکھا کہ دونوں دوست اب بڑے ہو گئے ہیں، مگر ان کی دوستی آج بھی اتنی ہی گہری ہے جتنی بچپن میں تھی۔ وہ پھر اسی برگد کے درخت کے نیچے بیٹھے، بچپن کی کہانیاں دہراتے، اور ایک دوسرے کو یاد دلاتے کہ اصل خزانہ نہ پیسہ ہے، نہ شہرت، بلکہ وہ لمحے ہیں جو دوستوں کے ساتھ گزارے جائیں۔

یہ کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ بچپن کی دوستیاں سب سے مضبوط اور سچی ہوتی ہیں۔ وقت گزر سکتا ہے، حالات بدل سکتے ہیں، لیکن جو دوست دل سے جڑ جائیں، وہ کبھی جدا نہیں ہوتے۔

20/08/2025

Yaad Hai Woh Din? Bachpan Mein Chupke Cinema Dekhne Ki Kahani | Nostalgia Story

18/08/2025

بارش کی شامیں اور امی کے ہاتھوں کے پکوڑے… یہ لمحے ہمیشہ دل کو چھو لیتے ہیں۔
اس ویڈیو میں ہم لے کر آئے ہیں آپ کے لیے بچپن کی وہ سنہری یادیں جب بارش صرف بارش نہیں ہوتی تھی بلکہ خوشیوں کا میلہ لگاتی تھی۔

15/08/2025

کیا آپ کو یاد ہے وہ دن جب ہم اسکول کی گھنٹی بجنے سے پہلے ہی دوستوں کے ساتھ بھاگ نکلتے تھے؟
چائے کی دکان، نہر کے کنارے، کچے راستے، اور وہ ہنسی جو دل میں آج بھی گونجتی ہے۔
یہ ہے ایک بچپن کی یاد، ایک ایسی کہانی جو آپ کو ماضی میں لے جائے گی اور آپ کے دل کو مسکرا دے گی۔

11/08/2025

کبھی کبھی پرانی ڈائری کا ایک ورق پلٹتے ہی دل ماضی کی گلیوں میں کھو جاتا ہے۔
وہ دن، وہ باتیں، وہ ہنسی، اور وہ چھوٹے چھوٹے خواب… سب جیسے پھر سے سامنے آ جاتے ہیں۔
آئیے آج میرے ساتھ ایک ایسے سفر پر چلیں، جہاں یادوں کی خوشبو اور دل کے راز ایک ساتھ بکھرے ہیں۔

Address

Lahore
Green Town
54770

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when I S P Channel posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to I S P Channel:

Share