I S P Channel

I S P Channel 🌟 Welcome to my versatile world of content creation! 🎬 As a passionate content creator.

01/11/2025
01/11/2025

Abu Ke Sath Bazaar Jana – Bachpan Ki Wo Yaadein Jo Kabhi Bhool Nahi Sakte

عنوان: خاص دنوں میں ابو کے ساتھ بازار جاناکبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ وقت واپس لوٹ آئے، وہ دن لوٹ آئیں جب زندگی اتنی سادہ، ...
01/11/2025

عنوان: خاص دنوں میں ابو کے ساتھ بازار جانا

کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ وقت واپس لوٹ آئے، وہ دن لوٹ آئیں جب زندگی اتنی سادہ، اتنی خوبصورت، اور اتنی بے فکری سے بھری ہوئی تھی۔
وہ دن جب خاص موقعوں پر ابو کے ساتھ بازار جانا ایک عید سے کم نہیں ہوتا تھا۔

مجھے آج بھی یاد ہے، جیسے کل کی بات ہو۔
ابو صبح ناشتہ کرتے ہوئے کہہ دیتے، “بیٹا آج بازار جانا ہے، کچھ چیزیں لینی ہیں۔”
بس اتنا سننا کافی ہوتا، میرے چہرے پر خوشی کی ایک چمک آ جاتی۔
پورا دن بس اسی لمحے کا انتظار رہتا، کہ کب ابو جوتے پہنیں گے، کب وہ بولیں گے، “چلو، نکلتے ہیں۔”

میں جلدی سے کنگھی کرتا، اپنی چھوٹی سی قمیض ٹھیک کرتا، اور ان کے ساتھ دروازے سے باہر نکلتا۔
ابو ہمیشہ آہستہ آہستہ چلتے، اور میں ان کے ساتھ قدم ملانے کی کوشش کرتا۔
بازار کے راستے میں جو ہوائیں چلتی تھیں، ان میں ایک عجیب سی خوشبو ہوتی تھی — شاید دھوپ، گرد، اور تلے ہوئے پکوڑوں کا ملا جلا ذائقہ۔
لیکن وہ خوشبو آج بھی یاد ہے، جیسے وہ بچپن کے دنوں کا کوئی نشان ہو۔

بازار پہنچتے ہی ابو پہلے ہمیشہ ایک جگہ رکتے — یا تو جلیبی والے کے پاس، یا چاٹ کے ٹھیلے پر۔
میں کچھ بولتا نہیں تھا، لیکن ابو میری آنکھوں کو پڑھ لیتے تھے۔
وہ کہتے، “لے بیٹا، پہلے کچھ کھا لیتے ہیں۔”
اور وہ جلیبی کی پلیٹ یا چاٹ کا کٹورا، میرے لیے دنیا کی سب سے بڑی خوشی ہوتا تھا۔
میں کھاتے ہوئے بار بار ابو کو دیکھتا، کہ وہ تھکے ہوئے ہونے کے باوجود مسکرا رہے ہیں۔

پھر وہ دکانوں پر لے جاتے۔
کبھی جوتے کی دکان پر، کبھی کپڑوں کی، کبھی صرف دیکھنے کے لیے کہ کیا چیزیں نئی آئی ہیں۔
میں دکانوں کے رنگ، بلبوں کی روشنی، اور لوگوں کی آوازوں میں کھو جاتا۔
ابو کبھی کبھی کہتے، “یہ دکاندار تو پچھلے سال والا ہی ہے، بس بال سفید ہو گئے ہیں اس کے۔”
میں ہنس دیتا، اور دل میں سوچتا، “ابو کو سب یاد رہتا ہے…”

کبھی وہ میرے لیے کچھ خرید لیتے — کوئی چھوٹی سی کار، یا رنگین پینسلز، یا بسکٹ کا ڈبہ۔
اور جب میں وہ چیز ہاتھ میں پکڑتا، تو لگتا جیسے میں نے پوری دنیا جیت لی ہو۔
ابو ہمیشہ کہتے، “زیادہ خوش نہ ہو، کل اسکول جانا ہے۔”
لیکن میں دل میں جانتا تھا کہ کل اسکول میں دوستوں کو یہی چیز دکھا کر فخر محسوس کرنا ہے۔

واپسی کے وقت ابو کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چلنا، میرے لیے سب سے بڑا اطمینان ہوتا۔
کبھی میں ان کے ہاتھ پکڑ لیتا، کبھی جیب سے لٹکتا۔
راستے میں جب تھکن محسوس ہوتی، تو ابو کہہ دیتے، “چلو بیٹا، ایک بوتل لے لیتے ہیں۔”
اور وہ ٹھنڈی بوتل، جیسے ساری گرمی، ساری تھکن، سب ختم کر دیتی۔

گھر واپس پہنچ کر امی پوچھتیں، “کیا لیا ہے آج؟”
ابو کہتے، “بس تھوڑا سا گھومنے گئے تھے، کچھ خاص نہیں۔”
لیکن میرے لیے تو وہ دن بہت خاص ہوتا۔
امی مسکرا دیتیں، اور میں اپنی چھوٹی سی چیزوں کی دنیا میں خوش رہتا۔

آج جب میں خود بازار جاتا ہوں، تو ہر دکان، ہر گلی، ہر خوشبو جیسے ابو کی یاد دلاتی ہے۔
اب احساس ہوتا ہے، اصل خوشی خریدی نہیں جاتی…
اصل خوشی تو اُس ساتھ میں تھی، اُس ہاتھ کے لمس میں تھی، اُس خاموش محبت میں تھی جو ابو کی نگاہوں میں جھلکتی تھی۔

اب وہ دن نہیں، وہ بازار نہیں، اور نہ وہ ابو کا ہاتھ۔
لیکن دل کے ایک کونے میں آج بھی وہ یادیں زندہ ہیں۔
جب بھی کسی بچے کو باپ کے ساتھ بازار جاتے دیکھتا ہوں، تو دل کہتا ہے —
کاش وقت ایک لمحے کے لیے ہی سہی، واپس پلٹ آئے… تاکہ میں پھر ایک بار ابو کا ہاتھ پکڑ کر بازار جا سکوں۔

24/10/2025

Jab Tape Recorder Ki Awaaz Dil Ko Chu Jaati Thi | Bachpan Ki Yaadein | 90’s Nostalgia

یاد ہے وہ دن، جب زندگی میں سادگی بھی تھی اور سکون بھی۔جب ہمارے کمروں میں کسی بڑے ساونڈ سسٹم کی جگہ ایک چھوٹا سا ٹیپ ریکا...
24/10/2025

یاد ہے وہ دن، جب زندگی میں سادگی بھی تھی اور سکون بھی۔
جب ہمارے کمروں میں کسی بڑے ساونڈ سسٹم کی جگہ ایک چھوٹا سا ٹیپ ریکارڈر ہوتا تھا۔
اور اس کے ساتھ پڑی ہوتی تھی ایک یا دو آڈیو کیسٹس، جن پر ہاتھ سے لکھا ہوتا تھا — “احمد رشدی کے گانے”، “ملی نغمے”، یا “محسن نقوی کی غزلیں”۔

اس وقت میوزک سننا صرف ایک عادت نہیں تھی، بلکہ ایک جذبہ تھا۔
ٹیپ میں وہ کالا سا ریبن، جو اگر اَلَجھ جاتا تو ہم پینسل سے بڑی محبت سے اسے سیدھا کرتے۔
اور جب وہ چلتا — کلک کی آواز آتی، پھر ایک ہلکی سی سرسراہٹ، اور پھر وہ آواز…
وہ آواز جو دل کے اندر اتر جاتی تھی۔

اس زمانے میں کوئی Spotify یا YouTube نہیں تھا۔
نہ کسی کو لائکس کی پروا تھی، نہ ویوز کی۔
بس دل چاہتا تھا کہ اچھا گانا سنیں، اور چائے کے کپ کے ساتھ کھڑکی کے پاس بیٹھ کر لمحوں کو محسوس کریں۔

اکثر شاموں میں بجلی چلی جاتی تھی،
تو ہم موم بتی کی روشنی میں ٹیپ آن کرتے،
آواز ہلکی رکھتے،
اور دل میں جیسے کوئی خاموش سا سکون اتر آتا۔

اگر کبھی ٹیپ بند ہو جاتی، تو ابو یا امی کے کہنے پر ہم اسے کھول کر صاف کرتے۔
کوئی روئی لیتے، تھوڑا سا الکحل یا پٹرول لگا کر ہیڈ صاف کرتے،
اور پھر دوبارہ پلے دبانے پر وہی پرانی آواز زندہ ہو جاتی۔
کتنا عجیب لگتا ہے نا، کہ اُس دور کی ٹیکنالوجی اتنی سادہ تھی، مگر احساس اتنے گہرے۔

کچھ لوگ تو اپنی پسند کے گانے خود ریکارڈ کرتے تھے —
ریڈیو پر چلتا گانا سنتے ہی “ریکارڈ” دبانا،
اور جب گانا ختم ہوتا تو جلدی سے “اسٹاپ” دبانا،
تاکہ اگلا اشتہار کیسٹس میں نہ آجائے۔
یہی تو وہ “کرافٹ” تھا جسے آج کے دور میں کوئی نہیں سمجھ سکتا۔

جب ہم دوستوں کو اپنی نئی ریکارڈ کی ہوئی کیسٹس سناتے،
تو وہ حیرت سے کہتے: “یار واہ، تم نے تو پورا البم بنا لیا!”
اور ہم خوش ہو کر کہتے، “ہاں، یہ میری پسند کے گانے ہیں، دل کے قریب والے۔”

آج جب کبھی کوئی پرانا ٹیپ ریکارڈر نظر آتا ہے،
تو ایسا لگتا ہے جیسے وقت رک گیا ہو۔
جیسے اس کے اندر اب بھی وہی پرانی آوازیں قید ہوں —
امی کی آواز جو کہتی تھیں "آواز ہلکی رکھو، ابا سو رہے ہیں"،
یا بھائی کی آواز جو کہتا تھا “میرا گانا مت مٹانا!”

یہ سب لمحے صرف یادیں نہیں،
یہ ہمارے بچپن کا وہ حصہ ہیں جہاں ہر چیز خلوص سے بھری تھی۔
جہاں ایک گانے کے بول دل کو چھو جاتے تھے،
اور ہم محسوس کرتے تھے کہ شاید دنیا واقعی خوبصورت ہے۔

اب جب جدید دنیا کے شور میں کان بہرے ہونے لگے ہیں،
تو کبھی کبھی دل چاہتا ہے واپس لوٹ جائیں —
اُس وقت، اُس کمرے میں،
جہاں ایک ٹیپ ریکارڈر کے ساتھ بیٹھ کر دل کو سکون ملتا تھا۔

کیونکہ کچھ آوازیں صرف سنی نہیں جاتیں —
وہ دل میں بس جاتی ہیں۔
اور کچھ یادیں، جیسے پرانی ٹیپ کی طرح،
کبھی مٹتی نہیں…
بس خاموشی میں دوبارہ چل پڑتی ہیں۔

19/10/2025
19/10/2025

Hath Se Likhe Khat... Mohabbat Jo Lafzon Mein Nahin, Jazbat Mein Thi | Bachpan Ki Yadein

کبھی کبھی دل چاہتا ہے وقت تھم جائے...جیسے وہ پرانے دن، جب زندگی سادہ تھی، مگر خوشیوں سے بھری ہوئی۔وہ گرمیوں کی چھٹیاں یا...
11/10/2025

کبھی کبھی دل چاہتا ہے وقت تھم جائے...
جیسے وہ پرانے دن، جب زندگی سادہ تھی، مگر خوشیوں سے بھری ہوئی۔

وہ گرمیوں کی چھٹیاں یاد ہیں؟
جب شام ڈھلتے ہی پورا گھر نانی کے گھر اکٹھا ہو جاتا تھا۔
چھت پر چارپائیاں بچھ جاتیں، لالٹین کی مدھم روشنی جلتی،
اور نانی ایک ہاتھ میں پنکھا لیے، دوسرے ہاتھ سے ہمیں گود میں سمیٹے بیٹھتیں۔

نانی کے گرد ہم سب — کوئی تکیے پر لیٹا، کوئی زمین پر بیٹھا،
کوئی چپکے سے چنے چبانے میں مصروف،
اور پھر نانی کی آواز گونجتی…
“ایک تھا راجہ… ایک تھی رانی…”

نانی کی آواز میں جادو ہوتا تھا —
ایسا لگتا جیسے ہر لفظ کسی اور دنیا کا دروازہ کھول رہا ہو۔
ہم سب سانس روکے سنتے،
کہانی کا ہر موڑ، ہر کردار، ہمارے دلوں میں اترتا جاتا۔

کبھی راجہ بہادر بنتا،
کبھی چڑیل آتی تو کوئی کمبل اوڑھ لیتا۔
اور جب نانی ڈراؤنا موڑ سناتیں،
تو سب بچے ایک ساتھ چیخ کر ہنس پڑتے۔

کسی کے ہاتھ میں مکھیاں بھگانے کا پنکھا،
کسی کے پاس آلو چپس،
اور نانی کے پاس…
وقت، صبر، اور محبت کا وہ خزانہ
جو آج کے زمانے میں کسی کے پاس نہیں۔

نانی کے قصے ختم نہیں ہوتے تھے —
کبھی شہزادے کی کہانی،
کبھی جن بھوتوں کا قصہ،
کبھی کسی پرانی محبت کا راز۔

اور پھر جب رات گہری ہو جاتی،
آسمان پر تارے جھلملا رہے ہوتے،
نانی دھیرے سے کہتیں،
“بس آج کی کہانی ختم، باقی کل سناؤں گی…”
اور ہم سب ضد کرتے، “نانی بس ایک اور سنادو!”

مگر نانی مسکرا کر کہتیں،
“بیٹا، کہانیاں بھی خوابوں کی طرح ہوتی ہیں،
ایک ہی رات میں سب نہیں سنائی جاتیں…”

پھر وہ ہمیں کمبل اڑھاتیں،
پنکھا جھلتی رہتیں،
اور ان کی آواز میں لوری کی مٹھاس گھل جاتی۔
پتا ہی نہیں چلتا کب نیند ہمیں لے جاتی۔

اب نہ وہ چھتیں رہیں، نہ وہ لالٹین،
نہ نانی کی کھنکتی ہنسی…
بس دل میں ان راتوں کی خوشبو باقی ہے۔

کاش وقت پلٹ سکے،
اور ہم پھر سے نانی کے گرد بیٹھ کر کہیں —
"نانی، آج کون سی کہانی سناؤ گی؟"

11/10/2025

نانی کی کہانیاں | وہ راتیں جب ہم سب نانی کے گرد بیٹھ کر خواب سنتے تھے | Bachpan Ki Yaadein”

29/09/2025

بچپن کی یادیں | پانی والی بندوق کی لڑائی | دوستوں کے ساتھ وہ ناقابلِ فراموش لمحے

بچپن کی وہ گرمیوں کی چھٹیاں یاد آتی ہیں جب دن کے سب کام ختم کر کے ہماری نظریں صرف ایک ہی چیز پر ہوتی تھیں… پانی والی بند...
29/09/2025

بچپن کی وہ گرمیوں کی چھٹیاں یاد آتی ہیں جب دن کے سب کام ختم کر کے ہماری نظریں صرف ایک ہی چیز پر ہوتی تھیں… پانی والی بندوق۔ یہ وہ دور تھا جب ہم صبح سے ہی اپنی بندوق تیار کر کے رکھتے تھے۔ کوئی چھوٹی پلاسٹک کی بندوق تھی جس میں پانی بھر کر بٹن دبانے پر چھڑکاؤ ہوتا تھا، تو کسی کے پاس بڑی اور رنگین بندوق ہوتی تھی جسے دیکھ کر باقی سب دوست رشک کرتے۔

محلے میں ایک ہی بندے کے پاس سب سے نئی اور بڑی پانی والی بندوق ہوتی۔ وہ بندہ خود کو محلے کا "ہیرو" سمجھتا اور باقی سب اس کے ساتھ کھیلنے کے لیے دوڑتے۔ ہم سب گلی کے کونے پر جمع ہوتے اور ٹیمیں بناتے۔ کوئی کہتا: "میں فلاں کے ساتھ ہوں"، کوئی کہتا: "نہیں، تم ہمارے مخالف ہو گے"۔ اور یوں کھیل شروع ہو جاتا۔

پہلا پانی کا چھڑکاؤ ہوتے ہی گلی قہقہوں سے بھر جاتی۔ سب اپنے اپنے چھپنے کے ٹھکانے ڈھونڈتے۔ کوئی دیوار کے پیچھے چھپتا، کوئی درخت کے تنے کے ساتھ لگ جاتا، اور کوئی چھت سے نیچے جھانک کر دوستوں پر نشانہ لگاتا۔ جیسے ہی بندوق کا پانی ختم ہوتا، دوڑ لگا کر قریبی نلکے یا بالٹی تک پہنچنا پڑتا۔ یہ سب سے مشکل لمحہ ہوتا، کیونکہ باقی سب دشمن اس بھاگنے والے کو نشانہ بنا لیتے۔ کبھی وہ بھیگ کر واپس آتا، کبھی ہنستے ہوئے قلابازیاں کھا لیتا۔

کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کسی کے گھر میں پانی والی بندوق ختم ہو جاتی تو وہ پانی سے بھری بالٹی یا جگ لے آتا اور سیدھا دوستوں پر انڈیل دیتا۔ پھر باقی سب شور مچاتے: "یہ دھوکا ہے!"، لیکن دل ہی دل میں سب کو مزہ آ رہا ہوتا۔

چھوٹی موٹی لڑائیاں بھی ساتھ ساتھ چلتی رہتیں۔ کبھی کوئی کہتا: "تم نے زیادہ زور سے مارا ہے"، تو کبھی کوئی اپنی گیلی شرٹ دکھا کر ناراض ہوتا۔ مگر یہ ناراضگیاں زیادہ دیر نہ ٹک پاتیں۔ پانچ منٹ بعد پھر وہی دوست ہنس ہنس کر ایک دوسرے پر پانی برسا رہے ہوتے۔

گلی میں اتنا شور ہوتا کہ کبھی کبھی گھروں سے مائیں غصے میں نکل آتیں اور کہتیں:
"بس کرو! بیمار ہو جاؤ گے!"
لیکن ہم کہاں رکنے والے تھے۔ کسی کی بات سنتے ہی ہم ہنستے اور دوبارہ پانی چلانا شروع کر دیتے۔

سب سے دلچسپ موقع وہ ہوتا جب سب دوست مل کر ایک کو گھیر لیتے۔ پانچ چھ بندوقوں کا پانی ایک ساتھ پڑتا اور وہ بچہ بھیگ کر ایسا لگتا جیسے ابھی ابھی نلکے کے نیچے کھڑا رہا ہو۔ وہ دوست ناراضگی کا ڈرامہ کرتا، مگر اندر سے ہنس رہا ہوتا کیونکہ اس کا نام سب کے مذاق کا مرکز بن گیا تھا۔

کبھی ہم یہ کھیل شام تک جاری رکھتے۔ جیسے جیسے سورج ڈھلتا، گلی کی مٹی گیلی ہو جاتی، دیواریں چمکنے لگتیں اور ہر طرف ہنسی کی گونج سنائی دیتی۔ کپڑے اتنے گیلے ہو جاتے کہ پہچاننا مشکل ہو جاتا کون کس ٹیم میں ہے۔ آخر میں جب سب کے پاس پانی ختم ہو جاتا، ہم بیٹھ کر گپ شپ لگاتے اور اگلے دن کی لڑائی کے منصوبے بناتے۔

اب جب ان لمحوں کو یاد کرتے ہیں تو دل کہتا ہے… وہ وقت ہی اصل خوشی تھی۔ نہ کوئی بڑی خواہش تھی، نہ کوئی دکھ۔ صرف پانی والی بندوق، محلے کے دوست، ہنسی اور شور۔ آج کے دور میں چاہے ہزاروں گیمز کھیل لیں، موبائل پر کتنے ہی مزے لے لیں، مگر وہ خوشی دوبارہ نہیں مل سکتی جو اس وقت کی پانی والی بندوق کی لڑائی میں تھی۔

Address

Lahore
Green Town
54770

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when I S P Channel posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to I S P Channel:

Share