29/09/2025
بچپن کی وہ گرمیوں کی چھٹیاں یاد آتی ہیں جب دن کے سب کام ختم کر کے ہماری نظریں صرف ایک ہی چیز پر ہوتی تھیں… پانی والی بندوق۔ یہ وہ دور تھا جب ہم صبح سے ہی اپنی بندوق تیار کر کے رکھتے تھے۔ کوئی چھوٹی پلاسٹک کی بندوق تھی جس میں پانی بھر کر بٹن دبانے پر چھڑکاؤ ہوتا تھا، تو کسی کے پاس بڑی اور رنگین بندوق ہوتی تھی جسے دیکھ کر باقی سب دوست رشک کرتے۔
محلے میں ایک ہی بندے کے پاس سب سے نئی اور بڑی پانی والی بندوق ہوتی۔ وہ بندہ خود کو محلے کا "ہیرو" سمجھتا اور باقی سب اس کے ساتھ کھیلنے کے لیے دوڑتے۔ ہم سب گلی کے کونے پر جمع ہوتے اور ٹیمیں بناتے۔ کوئی کہتا: "میں فلاں کے ساتھ ہوں"، کوئی کہتا: "نہیں، تم ہمارے مخالف ہو گے"۔ اور یوں کھیل شروع ہو جاتا۔
پہلا پانی کا چھڑکاؤ ہوتے ہی گلی قہقہوں سے بھر جاتی۔ سب اپنے اپنے چھپنے کے ٹھکانے ڈھونڈتے۔ کوئی دیوار کے پیچھے چھپتا، کوئی درخت کے تنے کے ساتھ لگ جاتا، اور کوئی چھت سے نیچے جھانک کر دوستوں پر نشانہ لگاتا۔ جیسے ہی بندوق کا پانی ختم ہوتا، دوڑ لگا کر قریبی نلکے یا بالٹی تک پہنچنا پڑتا۔ یہ سب سے مشکل لمحہ ہوتا، کیونکہ باقی سب دشمن اس بھاگنے والے کو نشانہ بنا لیتے۔ کبھی وہ بھیگ کر واپس آتا، کبھی ہنستے ہوئے قلابازیاں کھا لیتا۔
کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کسی کے گھر میں پانی والی بندوق ختم ہو جاتی تو وہ پانی سے بھری بالٹی یا جگ لے آتا اور سیدھا دوستوں پر انڈیل دیتا۔ پھر باقی سب شور مچاتے: "یہ دھوکا ہے!"، لیکن دل ہی دل میں سب کو مزہ آ رہا ہوتا۔
چھوٹی موٹی لڑائیاں بھی ساتھ ساتھ چلتی رہتیں۔ کبھی کوئی کہتا: "تم نے زیادہ زور سے مارا ہے"، تو کبھی کوئی اپنی گیلی شرٹ دکھا کر ناراض ہوتا۔ مگر یہ ناراضگیاں زیادہ دیر نہ ٹک پاتیں۔ پانچ منٹ بعد پھر وہی دوست ہنس ہنس کر ایک دوسرے پر پانی برسا رہے ہوتے۔
گلی میں اتنا شور ہوتا کہ کبھی کبھی گھروں سے مائیں غصے میں نکل آتیں اور کہتیں:
"بس کرو! بیمار ہو جاؤ گے!"
لیکن ہم کہاں رکنے والے تھے۔ کسی کی بات سنتے ہی ہم ہنستے اور دوبارہ پانی چلانا شروع کر دیتے۔
سب سے دلچسپ موقع وہ ہوتا جب سب دوست مل کر ایک کو گھیر لیتے۔ پانچ چھ بندوقوں کا پانی ایک ساتھ پڑتا اور وہ بچہ بھیگ کر ایسا لگتا جیسے ابھی ابھی نلکے کے نیچے کھڑا رہا ہو۔ وہ دوست ناراضگی کا ڈرامہ کرتا، مگر اندر سے ہنس رہا ہوتا کیونکہ اس کا نام سب کے مذاق کا مرکز بن گیا تھا۔
کبھی ہم یہ کھیل شام تک جاری رکھتے۔ جیسے جیسے سورج ڈھلتا، گلی کی مٹی گیلی ہو جاتی، دیواریں چمکنے لگتیں اور ہر طرف ہنسی کی گونج سنائی دیتی۔ کپڑے اتنے گیلے ہو جاتے کہ پہچاننا مشکل ہو جاتا کون کس ٹیم میں ہے۔ آخر میں جب سب کے پاس پانی ختم ہو جاتا، ہم بیٹھ کر گپ شپ لگاتے اور اگلے دن کی لڑائی کے منصوبے بناتے۔
اب جب ان لمحوں کو یاد کرتے ہیں تو دل کہتا ہے… وہ وقت ہی اصل خوشی تھی۔ نہ کوئی بڑی خواہش تھی، نہ کوئی دکھ۔ صرف پانی والی بندوق، محلے کے دوست، ہنسی اور شور۔ آج کے دور میں چاہے ہزاروں گیمز کھیل لیں، موبائل پر کتنے ہی مزے لے لیں، مگر وہ خوشی دوبارہ نہیں مل سکتی جو اس وقت کی پانی والی بندوق کی لڑائی میں تھی۔