01/11/2025
عنوان: خاص دنوں میں ابو کے ساتھ بازار جانا
کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ وقت واپس لوٹ آئے، وہ دن لوٹ آئیں جب زندگی اتنی سادہ، اتنی خوبصورت، اور اتنی بے فکری سے بھری ہوئی تھی۔
وہ دن جب خاص موقعوں پر ابو کے ساتھ بازار جانا ایک عید سے کم نہیں ہوتا تھا۔
مجھے آج بھی یاد ہے، جیسے کل کی بات ہو۔
ابو صبح ناشتہ کرتے ہوئے کہہ دیتے، “بیٹا آج بازار جانا ہے، کچھ چیزیں لینی ہیں۔”
بس اتنا سننا کافی ہوتا، میرے چہرے پر خوشی کی ایک چمک آ جاتی۔
پورا دن بس اسی لمحے کا انتظار رہتا، کہ کب ابو جوتے پہنیں گے، کب وہ بولیں گے، “چلو، نکلتے ہیں۔”
میں جلدی سے کنگھی کرتا، اپنی چھوٹی سی قمیض ٹھیک کرتا، اور ان کے ساتھ دروازے سے باہر نکلتا۔
ابو ہمیشہ آہستہ آہستہ چلتے، اور میں ان کے ساتھ قدم ملانے کی کوشش کرتا۔
بازار کے راستے میں جو ہوائیں چلتی تھیں، ان میں ایک عجیب سی خوشبو ہوتی تھی — شاید دھوپ، گرد، اور تلے ہوئے پکوڑوں کا ملا جلا ذائقہ۔
لیکن وہ خوشبو آج بھی یاد ہے، جیسے وہ بچپن کے دنوں کا کوئی نشان ہو۔
بازار پہنچتے ہی ابو پہلے ہمیشہ ایک جگہ رکتے — یا تو جلیبی والے کے پاس، یا چاٹ کے ٹھیلے پر۔
میں کچھ بولتا نہیں تھا، لیکن ابو میری آنکھوں کو پڑھ لیتے تھے۔
وہ کہتے، “لے بیٹا، پہلے کچھ کھا لیتے ہیں۔”
اور وہ جلیبی کی پلیٹ یا چاٹ کا کٹورا، میرے لیے دنیا کی سب سے بڑی خوشی ہوتا تھا۔
میں کھاتے ہوئے بار بار ابو کو دیکھتا، کہ وہ تھکے ہوئے ہونے کے باوجود مسکرا رہے ہیں۔
پھر وہ دکانوں پر لے جاتے۔
کبھی جوتے کی دکان پر، کبھی کپڑوں کی، کبھی صرف دیکھنے کے لیے کہ کیا چیزیں نئی آئی ہیں۔
میں دکانوں کے رنگ، بلبوں کی روشنی، اور لوگوں کی آوازوں میں کھو جاتا۔
ابو کبھی کبھی کہتے، “یہ دکاندار تو پچھلے سال والا ہی ہے، بس بال سفید ہو گئے ہیں اس کے۔”
میں ہنس دیتا، اور دل میں سوچتا، “ابو کو سب یاد رہتا ہے…”
کبھی وہ میرے لیے کچھ خرید لیتے — کوئی چھوٹی سی کار، یا رنگین پینسلز، یا بسکٹ کا ڈبہ۔
اور جب میں وہ چیز ہاتھ میں پکڑتا، تو لگتا جیسے میں نے پوری دنیا جیت لی ہو۔
ابو ہمیشہ کہتے، “زیادہ خوش نہ ہو، کل اسکول جانا ہے۔”
لیکن میں دل میں جانتا تھا کہ کل اسکول میں دوستوں کو یہی چیز دکھا کر فخر محسوس کرنا ہے۔
واپسی کے وقت ابو کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چلنا، میرے لیے سب سے بڑا اطمینان ہوتا۔
کبھی میں ان کے ہاتھ پکڑ لیتا، کبھی جیب سے لٹکتا۔
راستے میں جب تھکن محسوس ہوتی، تو ابو کہہ دیتے، “چلو بیٹا، ایک بوتل لے لیتے ہیں۔”
اور وہ ٹھنڈی بوتل، جیسے ساری گرمی، ساری تھکن، سب ختم کر دیتی۔
گھر واپس پہنچ کر امی پوچھتیں، “کیا لیا ہے آج؟”
ابو کہتے، “بس تھوڑا سا گھومنے گئے تھے، کچھ خاص نہیں۔”
لیکن میرے لیے تو وہ دن بہت خاص ہوتا۔
امی مسکرا دیتیں، اور میں اپنی چھوٹی سی چیزوں کی دنیا میں خوش رہتا۔
آج جب میں خود بازار جاتا ہوں، تو ہر دکان، ہر گلی، ہر خوشبو جیسے ابو کی یاد دلاتی ہے۔
اب احساس ہوتا ہے، اصل خوشی خریدی نہیں جاتی…
اصل خوشی تو اُس ساتھ میں تھی، اُس ہاتھ کے لمس میں تھی، اُس خاموش محبت میں تھی جو ابو کی نگاہوں میں جھلکتی تھی۔
اب وہ دن نہیں، وہ بازار نہیں، اور نہ وہ ابو کا ہاتھ۔
لیکن دل کے ایک کونے میں آج بھی وہ یادیں زندہ ہیں۔
جب بھی کسی بچے کو باپ کے ساتھ بازار جاتے دیکھتا ہوں، تو دل کہتا ہے —
کاش وقت ایک لمحے کے لیے ہی سہی، واپس پلٹ آئے… تاکہ میں پھر ایک بار ابو کا ہاتھ پکڑ کر بازار جا سکوں۔