ناول کی دنیا

ناول کی دنیا

دلچسپ تاریخی و اسلامی ناولز سچی کہانیاں ، اور دلچسپ تحاریر پڑھنے کے لئے ابھی ھمارا پیج لائک کریں اور دوستوں کو بھی مدعو کریں.شکریە

plz like and share our page now

27/11/2025

*سیرت النبی ﷺ*🌴

*قسط نمبر 02*

عبدالمطلب کو یہ حکم اسوقت دیا گیا جب وہ اپنی منّت بھول چکے تھے - پہلے خواب میں ان سے کہا گیا " منّت پوری کرو " انھوں نے ایک مینڈھا ذبح کرکے غریبوں کو کھلادیا " پھر خواب آیا " اس سے بڑی پیش کرو " اس مرتبہ انھوں نے ایک بیل ذبح کردیا - خواب میں پھر یہی کہا گیا اس سے بھی بڑی پیش کرو - اب انھوں نے اونٹ ذبح کیا - پھر خواب آیا اس سے بھی بڑی چیز پیش کرو - انھوں نے پوچھا " اس سے بھی بڑی چیز کیا ہے " تب کہا گیا :
" اپنے بیٹوں میں سے کسی کو ذبح کرو جیسا کہ تم نے منّت مانی تھی "
اب انھیں اپنی منّت یاد آئی - اپنے بیٹوں کو جمع کیا - ان سے منّت کا ذکر کیا - سب کے سر جھُک گئے " کون خود کو ذبح کرواتا " آخر عبداللہ بولے
" ابّاجان آپ مجھے ذبح کردیں "
یہ سب سے چھوٹے تھے - سب سے خوبصورت تھے - سب سے ذیادہ محبّت بھی عبدالمطلِّب کو انہیں سے تھی لہٰذا انھوں نے قرعہ اندازی کرنے کا ارادہ کیا - تمام بیٹوں کے نام لکھکر قرعہ ڈالا گیا - عبداللہ کا نام نکلا اب انھوں نے چُھری لی " عبداللہ کو بازو سے پکڑا اور انھیں ذبح کرنے کے لیے نیچے لٹادیا۔
جونہی باپ نے بیٹے کو لٹایا " عبّاس سے ضبط نہ ہوسکا, فوراً آگے بڑھے اور بھائی کو کھینچ لیا " اس وقت یہ خود بھی چھوٹے سے تھے " ادھر باپ نے عبداللہ کو کھینچا " اس کھینچا تانی میں عبداللہ کے چہرے پر خراشیں بھی آئیں " ان خراشوں کے نشانات مرتے دم تک باقی رہے -
اسی دوران بنو مخزوم کے لوگ آگئے انھوں نے کہا :
آپ اس طرح بیٹے کو ذبح نہ کریں , اس کی ماں کی زندگی خراب ہوجائے گی, "اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے بیٹے کا فدیہ دے دیں "
اب سوال یہ تھا کہ فدیہ کیا دیا جائے, اس کی ترکیب یہ بتائی گئی کہ کاغذ کے ایک کاغذ پر دس اونٹ لکھے جائیں , دوسرے پر عبداللہ کا نام لکھا جائے, اگر دس اونٹ والی پرچی نکلے تو دس اونٹ قربان کردئے جائیں , اگر عبداللہ والی پرچی نکلے تو دس اونٹ کا اضافہ کردیا جائے - پھر بیِس اونٹ والی پرچی اور عبداللہ والی پرچی ڈالی جائے - اب اگر بیِس اونٹ والی پرچی نکلے تو بیِس اونٹ قربان کردئے جائیں , ورنہ دس اونٹ اور بڑھادئیے جائیں , اس طرح دس دس کرکے اونٹ بڑھاتے جائیں -
عبدالمطلب نے ایسا ہی کیا ہے " دس دس اونٹ بڑھاتے چلے گئے " ہر بار عبداللہ کا نام نکلتا چلا گیا , یہاں تک اونٹوں کی تعداد سو تک پہنچ گئی - تب کہیں جاکر اونٹوں والی پرچی نکلی - اس طرح ان کی جان کے بدلے سو اونٹ قربان کئیے گئے - عبدالمطلب کو اب پورا اطمینان ہوگیا کہ اللہ تعالٰی نے عبداللہ کے بدلہ سو اونٹوں کی قربانی منظور کرلی ہے - انھوں نے کعبے کے پاس سو اونٹ قربان کئیے اور کسی کو کھانے سے نہ روکا " سب انسانوں , جانوروں اور پرندوں نے ان کو کھایا -
امام زہری کہتے ہیں کہ عبدالمطلِّب پہلے آدمی ہے جنہوں نے آدمی کی جان کی قیمت سو اونٹ دینے کا طریقہ شروع کیا - اس سے پہلے دس اونٹ دیے جاتے تھے - اس کے بعد یہ طریقہ سارے عرب میں جاری ہوگیا - گویا قانون بن گیا کہ آدمی کا فدیہ سو اونٹ ہے - نبی کریم ﷺ کے سامنے جب یہ ذکر آیا تو آپ نے اس فدیہ کی تصدیق فرمائی، یعنی فرمایا کہ یہ درست ہے
اور اسی بنیاد پر نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں :
میں دو ذبیحوں یعنی حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت عبداللہ کی اولاد ہوں
حضرت عبداللہ قریش میں سب سے زیادہ حسین تھے ان کا چہرہ روشن ستارہ کی ماند تھا قریش کی بہت سی لڑکیاں ان سے شادی کرنا چاہتی تھیں مگر حضرت عبداللہ کی حضرت آمنہ سے شادی ہوئ۔
حضرت آمنہ وہب بن عبدمناف بن زہرہ کی بیٹی تھیں شادی کے وقت حضرت عبداللہ کی عمر اٹھارہ سال تھی۔
یہ شادی کے لیئے اپنے والد کے ساتھ جارہے تھے راستہ میں ایک عورت کعبہ کے پاس بیٹھی نظر آئ، یہ عورت ورقہ بن نوفل کی بہن تھی۔ورقہ بن نوفل قریش کے ایک بڑے عالم تھے۔ورقہ بن نوفل سے ان کی بہن نے سن رکھا تھا کہ وقت کے آخری نبی کا ظہور ہونے والا ہےاور انکی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہوگی کہ ان کے والد کے چہرے میں نبوت کا نور چمکتا ہوگا۔جونہی اس نے عبداللہ کو دیکھا فوراﹰ اس کے ذہن میں یہ بات آئ، اس نے سوچا ہونہ ہو یہ وہ وہ شخص ہے جو پیدا ہونے والے نبی کے باپ ہوں گے ۔چنانچہ اس نے کہا:
"اگر تم مجھ سے شادی کرلو تو میں بدلہ میں تمہیں اتنے ہی اونٹ دوں گی جتنے تمہاری جان کے بدلے میں ذبح کئے گئے تھے۔"
اس پر انہوں نے جواب دیا:
"میں اپنے باپ کے ساتھ ہوں ۔ان کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں کرسکتا۔نہ ان سے الگ ہوسکتا ہوں اور میرے والد باعزت آدمی ہیں ، اپنی قوم کے سردار ہیں ۔"
بہر حال انک شادی حضرت آمنہ سے ہوگئ۔اپ قریش کی عورتوں میں نسب اور مقام کے اعتبار سے افضل تھیں -
حضرت آمنہ، حضرت عبداللٰہ کے گھر آگئیں - آپ فرماتی ہیں :
"جب میں ماں بننے والی ہوئی تو میرے پاس ایک شخص آیا، یعنی ایک فرشتہ انسانی شکل میں آیا - اس وقت میں جاگنے اور سونے کے درمیانی حالت میں تھی(عام طور پر اس حالت کو غنودگی کہاجاتاہے) - اس نے مجھ سے کہا:
"کہا تمہیں معلوم ہے، تم اس امت کی سردار اور نبی کی ماں بننے والی ہو۔"
اس کے بعد وہ پھر اس وقت آیا جب نبی صلی اللٰہ علیہ وسلم پیدا ہونے والے تھے - اس مرتبہ اس نے کہا:
"جب تمہارے ہاں پیدائش ہو تو کہنا:
"میں اس بچے کے لیے اللٰہ کی پناہ چاہتی ہوں ، ہر حسد کرنے والے کے شر اور برائی سے - پھر تم اس بچے کا نام محمد رکھنا، کیوں کہ ان کا نام تورات میں احمد ہے اور زمین اور آسمان والے ان کی تعریف کرتے ہیں ، جب کہ قرآن میں ان کا نام محمد ہے، اور قرآن ان کی کتاب ہے - "(البدایہ والنہایہ)
ایک روایت کے مطابق فرشتے نے ان سے یہ کہا:
"تم وقت کے سردار کی ماں بننے والی ہو، اس بچے کی نشانی یہ ہوگی کہ اس کے ساتھ ایک نور ظاہر ہوگا، جس سے ملک شام اور بصرٰی کے محلات بھر جائیں گے - جب وہ بچہ پیدا ہوجائے گا تو اس کا نام محمد رکھنا، کیوں کہ تورات میں ان کا نام احمد ہے کہ آسمان اور زمین والے ان کی تعریف کرتے ہیں ، اور انجیل میں ان کا نام احمد ہے کہ آسمان اور زمین والے ان کی تعریف کرتے ہیں اور قرآن میں ان کا نام محمد ہے -"(البدایہ والنہایہ)
حضرت عبداللٰہ کے چہرے میں جو نورچمکتا تھا، شادی کے بعد وہ حضرت آمنہ کے چہرے میں آگیا تھا -
امام زہری فرماتے ہیں ، حاکم نے یہ روایت بیان کی ہےاوراس کوصحیح قراردیا ہے کہ صحابہ رضی اللّٰہ عنہم نے حضور نبی کریم صلی اللٰہ علیہ وسلم سے عرض کیا:
"اے اللٰہ کے رسول! ہمیں اپنے بارے میں کچھ بتایئے-"
آپ صلی اللٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"میں اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں ، اپنے بھائی عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں اور خوشخبری ہوں ، جب میں اپنی والدہ کے شکم میں آیا تو انہوں نے دیکھا، گویا ان سے ایک نور ظاہر ہوا ہے جس سے ملک شام میں بصرٰی کے محلات روشن ہوگئے - "
حضرت آمنہ نے حضرت حلیمہ سعدیہ سے فرمایا تھا:
"میرے اس بچے کی شان نرالی ہے، یہ میرے پیٹ میں تھے تو مجھے کوئی بوجھ اور تھکن محسوس نہیں ہوئی۔"
حضرت عیسیٰ علیہ السلام وہ آخری پیغمبر ہیں جنہوں نے آپ صلی اللّٰہ علیہ
وسلم کی آمد کی خوشخبری سنائی ہے - اس بشارت کا ذکر قرآن میں بھی ہے، سورہ صف میں اللّٰہ تعالٰی فرماتے ہیں :
"اور اسی طرح وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب کہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام نے فرمایا کہ: اے بنی اسرائیل! میں تمہارے پاس اللّٰہ کا بھیجا ہوا آیا ہوں کہ مجھ سے پہلے جو تورات آچکی ہے، میں اس کی تصدیق کرنے والا ہوں اور میرے بعد جو ایک رسول آنے والا ہیں ، ان کا نامِ مبارک احمد ہوگا، میں ان کی بشارت دینے والا ہوں ۔"
اب چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہ بشارت سناچکے تھے، اس لیے ہر دور کے لوگ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی آمد کا بےچینی سے انتظار کررہے تھے، ادھرآپ کی پیدائش سے پہلے ہی حضرت عبداللّٰہ انتقال کرگئے - سابقہ کتب میں آپ کی نبوت کی ایک علامت یہ بھی بتائی گئی ہے کہ آپ کے والد کا انتقال آپ کی ولادت سے پہلے ہوجائے گا - حضرت عبداللہ ایک تجارتی قافلے کے ساتھ تجارت کے لیے گئے تھے، اس دوران بیمار ہوگئے اور کمزور ہوکر واپس لوٹے - قافلہ مدینہ منورہ سے گزرا تو حضرت عبداللہ اپنی ننھیال یعنی بنو نجار کے ہاں ٹھہرے - ان کی والدہ بنو نجار سے تھیں ، ایک ماہ تک بیمار رہے اور انتقال کرگئے - انہیں یہیں دفن کردیا گیا -
تجارتی قافلہ جب حضرت عبداللہ کے بغیر مکہ مکرمہ پہنچا اور عبدالمطلب کو پتا چلا کہ ان کے بیٹے عبداللہ بیمار ہوگئے ہیں اور مدینہ منورہ میں اپنی ننھیال میں ہیں تو انہیں لانے کے لیے عبدالمطلب نے اپنے بیٹے زبیر کو بھیجا - جب یہ وہاں پہنچے تو عبداللہ کا انتقال ہوچکا تھا - مطلب یہ کہ آپ ﷺ اس دنیا میں اپنے والد کی وفات کے چند ماہ بعد تشریف لائے -

☆☆☆
جاری ہے ۔۔۔۔۔!

*مصنف : عبداللہ فارانی*
*کتاب : سیرت النبی ﷺ قدم بہ قدم*( *سبق آموز کہانیاں)*

*سیرت النبیﷺ کی اگلی قسط جلدی حاصل کرنے کے لیے رئیکٹ کریں* ❤️

27/11/2025

*سیرت النبی ﷺ*🌴

*قسط نمبر 01*

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ١۲ بیٹے تھے - ان کی نسل اسقدر ہوئی کے مکہ مکرمہ میں نہ سما سکی اور پورے حجاز میں پھیل گئی - ان کے ایک بیٹے قیدار کی اولاد میں عدنان ہوئے - عدنان کے بیٹے معد اور پوتے کا نام نزار تھا - نزار کے چار بیٹے تھے - ان میں سے ایک کا نام مضر تھا - مضر کی نسل سے قریش بن مالک پیدا ہوئے" یہ فہر بن مالک بھی کہلائے - قریش کی اولاد بہت ہوئی - ان کی اولاد مختلف قبیلوں میں بٹ گئی - ان کی اولاد سے قصیّ نے اقتدار حاصل کیا - قصیّ کے آگے تین بیٹے ہوئے - ان میں سے ایک عبد مناف تھے جن کی اگلی نسل میں ہاشم پیدا ہوئے -
ہاشم نے مدینہ کے ایک سردار کی لڑکی سے شادی کی " ان کے یہاں ایک لڑکا پیدا ہوا " اس کا نام شیبہ رکھا گیا - یہ پیدا ہی ہوا تھا کہ ہاشم کا انتقال ہوگیا- ان کے بھائی مطلّب مکہ کے حاکم ہوئے - ہاشم کا بیٹا مدینہ منورہ میں پرورش پاتا رہا " جب مطلّب کو معلوم ہوگیا کہ وہ جوان ہوگیا ہے تو بھتیجے کو لینے کے لیے خود مدینہ گئے - اسے لیکر مکہ مکرمہ پہنچے تو لوگوں نے خیال کیا یہ نوجوان ان کا غلام ہے - مطلّب نے لوگوں کو بتایا " یہ ہاشم کا بیٹا اور میرا بھتیجا ہے " اس کے باوجود لوگوں نے اسے مطلّب کا غلام ہی کہنا شروع کردیا - اس طرح شیبہ کو عبدالمطلب کہا جانے لگا - انہیں عبدالمطلب کے یہاں ابوطالب حمزہ, عبّاس, عبداللہ, ابولہب, حارث, زبیر, ضرار, اور عبدالرحمن پیدا ہوئے- ان کے بیٹے عبداللہ سے ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ پیدا ہوئے۔
عبدالمطلب کے تمام بیٹوں میں حضرت عبداللہ سب سے زیادہ خوبصورت اور سب سے زیادہ پاکدامن تھے - عبدالمطلب کو خواب میں زمزم کا کنواں کھودنے کا حکم دیا گیا " یعنی حضرت اسماعیل علیہ السلام کے کنویں کو, اس کنویں کو قبیلہ
جرہم کے سردار مضاض نے پاٹ دیا تھا - قبیلہ جرہم کے لوگ اس زمانہ میں مکہ کے سردار تھے " بیت اللہ کے نگراں تھے - انہوں نے بیت اللہ کی بے حرمتی شروع کردی - ان کا سردار مضاض بن عمرو تھا " وہ اچھا آدمی تھا اس نے اپنے قبیلے کو سمجھایا کہ بیت اللہ کی بے حرمتی نہ کرو مگر ان پر اثر نہ ہوا " جب مضاض نے دیکھا کہ ان پر کوئی اثر نہ ہوتا تو قوم کو اس کے حال پر چھوڑ کر وہاں سے جانے کا فیصلہ کیا- اس نے تمام مال و دولت تلواریں اور زرہیں وغیرہ خانۂ کعبہ سے نکال کر زمزم کے کنویں میں ڈالدیں اور مٹی سے اسکو پاٹ دیا - کنواں اس سے پہلے ہی خشک ہوچکا تھا-
اب اس کا نام و نشان مٹ گیا - مدتوں یہ کنواں بند پڑا رہا اس کے بعد بنو خزاعہ نے بنو جرہم کو وہاں سے مار بھگایا " بنو خزاعہ اور قصیّ کی سرداری کا زمانہ اسی حالت میں گذرا - کنواں بند رہا یہاں تک کے قصیّ کے بعد عبدالمطلب کا زمانہ آگیا" انہوں نے خواب دیکھا " خواب میں انہیں زمزم کے کنویں کی جگہ دکھائی گئی اور اس کے کھودنے کا حکم دیا گیا-
حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ عبدالمطلب نے بتایا :-
" میں حجر اسود کے مقام پر سورہا تھا کہ میرے پاس ایک آنے والا آیا - اس نے مجھ سے کہا "طیبہ کو کھودو "
میں نے اس پوچھا "طیبہ کیا ہے؟"
مگر وہ کچھ بتائے بغیر چلاگیا - دوسری طرف رات پھر خواب میں وہی شخص آیا " کہنے لگا "برہ کو کھودو "
میں نے پوچھا "برّہ کیا ہے" وہ کچھ بتائے بغیر چلے گیا-
تیسری رات میں اپنے بستر پر سورہا تھا کہ پھر وہ شخص خواب میں آیا - اُس نے کہا " مضنونہ کھودو "
میں نے پوچھا " مضنونہ کیا ہے؟" وہ بتائے بغیر چلا گیا -
اس سے اگلی رات میں پھر بستر پر سورہا تھا کہ وہی شخص پھر آیا اور بولا "زم زم کھودو " میں نے اس سے پوچھا "زم زم کیا ہے؟ " اس بار اس نے کہا:
" زمزم وہ ہے جس کا پانی کبھی ختم نہیں ہوتا, جو حاجیوں کے بڑے بڑے مجموعوں کو سیراب کرتا ہے "
عبدالمطلب کہتے ہیں , میں نے اس سے پوچھا
"یہ کنواں کس جگہ ہے؟ "
اس نے بتایا -
"جہاں گندگی اور خون پڑا ہے, اور کوّا ٹھونگیں مار رہا ہے"
دوسرے دن عبدالمطلب اپنے بیٹے حارث کے ساتھ وہاں گئے - اس وقت ان کے یہاں یہی ایک لڑکا تھا - انہوں نے دیکھا وہاں گندگی اور خون پڑا تھا اور ایک کوّا ٹھونگیں مار رہا تھا, اس جگہ کے دونوں طرف بُت موجود تھے اور یہ گندگی اور خون دراصل ان بتوں پر قربان کئیے جانے والے جانوروں کا تھا, پوری نشانی مل گئی تو عبدالمطلب کدال لے آئے اور کھدائی کے لئیے تیار ہوگئے لیکن اس وقت قریش وہاں آ پہنچے -انہوں نے کہا :
" اللہ کی قسم ہم تمہیں یہاں کھدائی نہیں کرنے دیں گے, تم ہمارے ان دونوں بُتوں کے درمیاں کنواں کھودنا چاہتے ہو جہاں ہم ان کے لئیے قربانیاں کرتے ہیں - "
عبدالمطلب نے ان کی بات سن کر اپنے بیٹے حارث سے کہا :
"تم ان لوگوں کو میرے قریب نہ آنے دو, میں کھدائی کا کام کرتا رہوں گا اس لئیے کہ مجھے جس کام کا حکم دیا گیا ہے میں اس کو ضرور پورا کروں گا- "
قریش نے جب دیکھا کہ وہ باز آنے والے نہیں تو رک گئے - آخر انھوں نے کھدائی شروع کردی - جلد ہی کنویں کے آثار نظر آنے لگے - یہ دیکھ کر انہوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور پکار اٹھے
" یہ دیکھو یہ اسماعیل علیہ السلام کی تعمیر ہے "

*سیرت النبیﷺ کی اگلی قسط جلدی حاصل کرنے کے لیے رئیکٹ کریں* ❤️

جب قریش نے یہ دیکھا کہ انہوں نے کنواں تلاش کرلیا تو ان کے پاس آگئے اور کہنے لگے :
"عبدالمطلب اللہ کی قسم " یہ ہمارے باپ اسماعیل علیہ السلام کا کنواں ہے اور اس پر ہمارا بھی حق ہے" اس لئیے ہم اس میں تمہارے شریک ہوں گے -"
یہ سن کر عبدالمطلب نے کہا :
" میں تمہیں اس میں شریک نہیں کرسکتا " یہ مجھ اکیلے کا کام ہے"
اس پر قریش نے کہا :
" تب پھر اس معاملے میں ہم تم سے جھگڑا کریں گے"
عبدالمطلب بولے :
" کسی سے فیصلہ کروالو "
انہوں نے بنوسعد ابن ہزیم کی کاہنہ سے فیصلہ کرانا منظور کیا - یہ کاہنہ ملک شام کے بالائی علاقے میں رہتی تھی - آخر عبدالمطلب اور دوسرے قریش اس کی طرف روانہ ہوئے - عبدالمطلب کے ساتھ عبدمناف کے لوگوں کی ایک جماعت تھی -
جبکہ دیگر قبائل قریش کی بھی ایک ایک جماعت ساتھ تھی - اس زمانہ میں ملک حجاز اور شام کے درمیان ایک بیابان میدان تھا , وہاں کہیں پانی نہیں تھا - اس میدان میں ان کا پانی ختم ہوگیا - سب لوگ پیاس سے بے حال ہوگئے, یہاں تک کہ انہیں اپنی موت کا یقین ہوگیا - انہوں نے قریش کے دوسرے لوگوں سے پانی مانگا لیکن انہوں نے پانی دینے سے انکار کردیا - اب انہوں نےادھر ادھر پانی تلاش کرنے کا ارادہ کیا -
عبدالمطلب اٹھ کر اپنی سواری کے پاس آئے, جوں ہی ان کی سواری اٹھی, اس کے پاؤں کے نیچے سے پانی کا چشمہ ابل پڑا - انہوں نے پانی کو دیکھ کر اللہ اکبر کا نعرہ لگایا - پھر عبد المطلب سواری سے اتر آئے - سب نے خوب سیر ہوکر پانی پیا اور اپنے مشکیزے بھر لیے - اب انہوں نے قریش کی دوسری جماعت سے کہا:"آؤ تم بھی سیر ہوکر پانی پی لو -" اب وہ بھی آگے آئے اور خوب پانی پیا - پانی پینے کے بعد وہ بولے:
" اللہ کی قسم.... اے عبدالمطلب! یہ تو تمہارے حق میں فیصلہ ہوگیا - اب ہم زمزم کے بارے میں تم سے کبھی جھگڑا نہیں کریں گے - جس ذات نے تمہیں اس بیابان میں سیراب کردیا، وہی ذات تمہیں زمزم سے بھی سیراب کرے گا، اس لیے یہیں سے واپس چلو -"
اس طرح قریش نے جان لیا کہ اللہ تعالیٰ عبدالمطلب پر مہربان ہے، لہٰذا ان سے جھگڑنا بے سود ہے اور کاہنہ کے پاس جانے کا کوئی فائدہ نہیں ، چنانچہ سب لوگ واپس لوٹے -
واپس اکر عبدالمطلب نے پھر کنویں کی کھدائی شروع کی - ابھی تھوڑی سی کھدائی کی ہوگی کہ مال، دولت، تلواریں اور زرہیں نکل آئیں - اس میں سونا اور چاندی وغیرہ بھی تھی - یہ مال ودولت دیکھ کر قریش کے لوگوں کو لالچ نے آگھیرا - انہوں نے عبدالمطلب سے کہا :
"عبدالمطلب! اس میں ہمارا بھی حصہ ہے -"
ان کی بات سن کر عبدالمطلب نے کہا :
"نہیں ! اس میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ، تمہیں انصاف کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے - آؤ پانسو کے تیروں سے قرعہ ڈالیں -"
انہوں نے ایسا کرنا منظور کرلیا - دو تیر کعبے کے نام سے رکھے گئے، دو عبدالمطلب کے اور دو قریش کے باقی لوگوں کے نام کے.... پانسہ پھینکا گیا تو مال اور دولت کعبہ کے نام نکلا، تلواریں اور زرہیں عبدالمطلب کے نام اور قریشیوں کے نام کے جو تیر تھے وہ کسی چیز پر نہ نکلے - اس طرح فیصلہ ہوگیا - عبدالمطلب نے کعبے کے دروازے کو سونے سے سجا دیا -
زمزم کی کھدائی سے پہلے عبدالمطلب نے دعا مانگی تھی کہ اے اللہ! اس کی کھدائی کو مجھ پر آسان کردے، میں اپنا ایک بیٹا تیرے راستے میں ذبح کروں گا - اب جب کہ کنواں نکل آیا تو انہیں خواب میں حکم دیا گیا -
"اپنی منت پوری کرو، یعنی ایک بیٹے کو ذبح کرو -"

☆☆☆
جاری ہے ۔۔۔۔۔!

*مصنف : عبداللہ فارانی*
*کتاب : سیرت النبی ﷺ قدم بہ قدم*

*سیرت النبیﷺ کی اگلی قسط جلدی حاصل کرنے کے لیے رئیکٹ کریں* ❤️

22/11/2025

مجھے اس تحریر نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ امید ہے آپ کو بھی ایسا ہی محسوس گا
نجانے کس کی تحریر ہے۔ مگر اس منقول تحریر کو ذرا غور سے پڑھئے، آپ کو بہت سے سوالوں کے جواب ملیں گے۔ ۔
مصر میں مسلمانوں کی سب سے بڑی یونیورسٹی جامعة الازہر جانے کا اتفاق ہوا۔
جہاں ہر لیکچر کے آخر میں کانفرنس کے شرکا علماء سے اس سے بھی زیادہ سخت سوال کر رہے تھے۔۔۔۔۔ جو بچپن سے میرے دل میں موجود تھے
اور عالم دین۔۔۔۔ جو دراصل جامعۃ الازہر کے پروفیسرز تھے، ہر سوال کا خندہ پیشانی سے جواب دے رہے تھے۔
ایک صاحب نے وہی سوال پوچھ لیا
جس کی بنیاد پر میرے علاقے کے مولانا نے کسی صاحب کو گستاخ قرار دے دیا تھا۔
میری حیرت کی انتہاء نہ رہی جب پروفیسر نے کہا میری خواہش تھی کوئی یہ سوال کرے
اور پھر قرآن کی آیات سے سوال کا جواب دیا۔

اب میری بھی ہمت بڑھی
میں نے پوچھا
جناب، جب خدا جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلت دے جسے چاہے ہدایت دے۔۔۔۔۔جسے چاہے گمراہی میں مبتلا کر دے،
تو میں اسے مانوں نہ مانوں کیا فرق پڑتا ہے؟
پروفیسر صاحب تھوڑے سے مسکرائے اور بولے
قُرآن میں احکامات دو طرح کے ہیں
ایک مُحکمات ۔۔۔۔۔ اور دوسرے مُتشابہات۔
ضروری ہے کہ مُتشابہات کو مُحکمات کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے،
جن آیات میں یشاء اور تشاء آتا ہے
ان کا ترجمہ آپکے ہاں مُتشابہات و مُحکمات کے عام اُصول کے تحت نہیں کیا جاتا
اس لئے انڈیا اور پاکستان کےمسلمان خدا کے تصور کو غلط سمجھتے ہیں۔
اس کا عربی مفہوم یہ ہے کہ
*جو چاہتا ہے، ۔۔۔۔ اللہ اسے عزت دیتا ہے*
*اور جو چاہتا ہے، ۔۔۔۔۔ اللہ اسے ذلت دیتا ہے*۔
*جو چاہتا ہے، ۔۔۔۔ اللہ اسے ہدایت دیتا ہے*۔

انہوں نے کہا اس آیت کو آپ ایک اور آیت کے مطابق دیکھیں جو مُحکمات میں سے ہے
جس کا مطلب ہے کہ
*انسان کو وہی کچھ ملتا ہےجس کے لئے وہ کوشش کرے*۔

میں نے پھر سوال کیا کہ
میں نے تو ہمیشہ (اپنے) عُلماء سے یہی سُنا ہے کہ اللہ توفیق دے, تو ہی مُجھ سے کوئی نیکی ہو سکتی ہے۔
کانفرنس روم میں قہقہہ گُونجا
پھر پروفیسر صاحب نے سورہ رعد کی آیت پڑھی کہ
*اللہ لوگوں میں کُچھ نہیں بدلتا جب تک وہ خود میں تبدیلی نہ لائیں*۔
میں پروفیسر صاحب کا جُملہ مُکمل ہونے سے پہلے بول پڑا کہ
یہ سب.... جو میں اس کانفرنس میں دو دن سے سُن رہا ہوں
اُس اسلام سے بالکُل مُختلف ہے جو میں آج تک عُلماء سے سُنتا آیا ہوں۔
اس پر پروفیسر صاحب نے سورہ بقرہ کی آیت پڑھی
*اور جب اُن سے کہا جائے اللہ کے اُتارے پر چلو تو کہیں گے ہم تو اُس پرچلیں گے جس پر اپنے باپ دادا کو پایا۔ چاہے اُن کے باپ دادا نہ کُچھ عقل رکھتے ہوں نہ ہدایت*
کہنے لگے قرآن اللہ نے میرے اور تُمہارے لیے ہی اُتارا ہے
اسے خود پڑھتے اور سمجھتے کیوں نہیں
قرآن عین انسانی عقل کے مُطابق بات کرتا ہے۔
میں نے پھر سوال کیا کہ مُجھے تو آج تک علماء نے یہی بتایا ہے کہ
ایمان اور استدلال یعنی ریزن (reason) الگ الگ چیزیں ہیں
اور ریزن بھٹکا دیتی ہے۔
اس بار پروفیسر صاحب نے انڈین اور پاکستانی عُلماء کی کم علمی اور تنگ نظری کی وجوہات پر بات کی
اور سورہ انفال کی ایک آیت پڑھی کہ
*اللہ کی نظر میں وہ جانوروں سے بھی بد تر ہیں جو گُونگے بہرے بنے رہتے ہیں اور استدلال نہیں کرتے۔*
بس، ۔۔۔۔ پھر میں جیسے گُونگا ہو گیا۔
میرے سامنے سےجیسے اندھیرے چھٹ گئے۔
میں نے بڑے خلوصِ دل سےکلمہ پڑھا کہ واقعی میرا خدا تو بالکل ویسا ہے
جیسا ایک خالق کو ہونا چاہیے ۔
کانفرنس کے اختتام پر پروفیسر صاحب نے قرآن کی انگلش ترجُمے والی کاپی گفٹ کی ۔
ہر آیت مُجھے خود سے مُکالمہ کرتی سنائی دیتی۔
کچھ عرصہ بعد ایک نو مسلم گورے سےکینیڈا کی ایک یونیورسٹی میں ملاقات ہوئی۔
وہ اسلام کی پہلی دو صدیوں کے حوالے سے پی ایچ ڈی کر رہا تھا۔
اُس کے ساتھ مل کر کُچھ سال اسلام کی ابتدائی اُٹھان۔۔۔۔۔ اور پھر اس میں فرقے بنتے۔۔۔۔ ٹُکڑے ہوتے تاریخ کی نظر سے دیکھا۔
یہ بھی دیکھا کہ کیسے لوگ قُرآن جیسا خزانہ چھوڑ کر روایات کی تلاش میں دہائیوں تک بھٹکتے پھرے۔ آج ایسے مسلمانوں کی ضرورت ہے
جن کا دین صرف اسلام ہو۔
جو قرآن و سُنّت میں استدلال کریں۔
سورہ یونس کی سوویں آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ *عقل کا استعمال اور استدلال۔۔۔۔ ایمان کی بُنیادی شرط ہے* ۔
اب میں فرقوں میں بٹے اپنی اپنی انا میں مدہوش مُسلمانوں کو دیکھ کر سوچتا ہوں کہ
کیا یہ دُنیا بھر میں ہوتی ہوئی اپنی ذلّت کو نہیں دیکھتے؟
کیا یہ اب بھی۔۔۔ نہیں جان پائے کہ اللہ کی رسی چھوڑ کر یہ ٹُکڑوں میں بٹ چُکے ہیں۔
شاید دل مُردہ ہونے سے اپنی ذلّت کا احساس ہی نہ ہوتا ہو۔
سورہ حج میں اللہ کہتے ہیں
*پس کیا وہ زمین میں نہیں پھرے تاکہ انہیں وہ دل ملتے جن سے وہ عقل سے کام لیتے یا ایسے کان نصیب ہوتے جن سے وہ سن سکتے*۔
پس آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ ( سورہء حج آیت نمبر سنتالیس)

17/11/2025

*ہماری شادیوں کے رسم و رواج....!* 🙏🏻

یہ چند دن پہلے کی بات ہے۔ مجھے ایک شادی میں جانا پڑا۔ دل میں خوشی تھی، مگر جو منظر میرے سامنے آیا… اُس نے دل ہلا کر رکھ دیا۔

بارات پہلے ہی دو گھنٹے لیٹ تھی — سات بجے کا وعدہ، نو بجے کی آمد۔ مگر اصل دھچکا تب لگا جب بارات نے دروازہ پار کیا۔

یکایک ڈھول کی تھاپ گونجنے لگی، اور پھر… پیسے۔ اُڑتے ہوئے پیسے۔

درجنوں نہیں، سینکڑوں نوٹ فضا میں اچھالے جا رہے تھے۔ لوگ پاگلوں کی طرح لپک رہے تھے، ایک دوسرے پر گر رہے تھے، کپڑے پھٹ رہے تھے، چیخوں اور ڈھول کے شور میں انسانیت دب گئی تھی۔

پھر اچانک دلہے کا بھائی گاڑی کی طرف بھاگا، دو بڑے تھیلے نکالے — جن میں موبائل فون بھرے ہوئے تھے — اور وہ بھی آسمان کی طرف پھینکنے لگا۔ لمحے بھر میں منظر ایک جنگل بن گیا۔

نوٹ اور فون زمین پر گر رہے تھے اور لوگ حیوانوں کی طرح ان پر ٹوٹ رہے تھے۔ کسی کا جوتا گم ہو گیا، کوئی نالی میں گر پڑا، کوئی بچے کو دھکا دے کر آگے بڑھا۔ خوشی نہیں، بھوک نہیں… یہ غربت کی چیخ تھی، جو ڈھول کی آواز میں دب کر بھی سنائی دے رہی تھی۔

میں یہ سب دیکھ رہا تھا۔ دل میں بار بار سوال اٹھ رہا تھا:
کیا یہ شادی ہے؟ یا غربت اور امارت کا تمسخر؟ کیا یہ خوشی ہے؟ یا ضرورت مندوں کی بے بسی کا تماشا؟

میری نظر اِدھر اُدھر بھٹکتی رہی کہ اچانک ایک بزرگ پر ٹھہر گئی۔

وہ سب سے پیچھے کھڑے تھے…
دبلے، کمزور، شاید دن بھر کچھ نہ کھایا ہو۔
اُن کے قدم آگے بڑھتے تھے، مگر فوراً رک جاتے تھے۔
ہاتھ ذرا سا اوپر اٹھتا، پھر شرم کے مارے نیچے گر جاتا۔

اُن کی آنکھوں میں ایک طوفان تھا — بھوک کی چبھن، ضرورت کی آگ، اور عزت کی آخری سانسیں۔

وہ کچھ لمحے نوٹوں اور فونوں کے ڈھیر کو دیکھتے، پھر پیچھے ہٹ جاتے۔
جیسے دل کہہ رہا ہو: “چل اٹھ، کچھ لے جا… شاید گھر میں بہت ضرورت ہو”
اور روح روک رہی ہو: “نہیں… بھوک قبول کر لے، مگر ہاتھ نہ پھیلا۔”

میں وہ منظر آج تک نہیں بھول پایا۔
جیسے پوری قوم کی غربت، بے بسی، اور عزتِ نفس اُس ایک بزرگ کے لرزتے ہاتھ میں سمٹ آئی ہو

روایات کا اپنا حسن ہوتا ہے—رشوت و شوکت کا نہیں۔ شادی، میل جول اور خوشیوں کا اظہار فطری ہے۔ مگر جب دکھانے کے لئے خرچ کرنا مگر سچا ارادہ چھوڑ کر صرف تاثر بچانے کا ذریعہ بن جائے — تب وہ رسم لعنت بن جاتی ہے۔

آج کے دور میں یہ بات واضح ہے: پیسے ہوا میں پھینکنا عزت نہیں، فضول خرچی ہے؛ اور جب یہی فضول خرچی گلیوں کے غریب کو ذلت میں ڈال دے تو یہ ہمارا ایمان اور ہماری انسانیت دونوں شرمندہ کرتی ہیں۔

یہ مسئلہ صرف پیسے اُڑانے کا نہیں — پورا معاشرتی ڈھانچہ بگڑ چکا ہے۔
اور جب پورا معاشرہ بگڑ جائے تو پھر ہر مسئلے کی جڑ میں دُہرا معیار، دکھاوا، جہالت اور ظلم چھپا ہوتا ہے۔

*🙏🏻 "معزز دوستو! آپ کا ایک مختصر سا رئیکٹ نہ صرف میری حوصلہ افزائی ہے بلکہ اس پلیٹ فارم پر ہماری آواز کو مضبوط بھی بناتا ہے۔ اپنی موجودگی کا اظہار ضرور کیجیے۔"* ❤️

17/11/2025

*"دال کا عذاب"* 😍

ایک شخص کی شادی ہوئی تو باوجود مال دار و صاحبِ ثروت ہونے کے بیگم کے نان نفقہ کے حوالے سے بڑی کنجوسی سے کام لیتا۔ کھانے پینے کے حوالے سے موصوف کو دال کے علاوہ کوئی اور کھانا سوجھتا ہی نہیں تھا، خود تو دال پر گزارا کرتا، ساتھ میں بیوی کو بھی اسی ایک سالن پر گزارا کرنے پر مجبور کر دیا۔ تنگ آکر جب کبھی بیوی دال کے علاوہ کچھ اور سبزی، گوشت لانے کا کہتی تو جوابا بری طرح ڈانٹ ڈپٹ کر خاموش کروا دیتا اور دال کے فوائد گنوانا شروع کر دیتا۔

ایک دن بیوی اپنے مائیکے گئی تو اس کے بھائیوں نے بہن کے اترے چہرے، پھیکی پڑتی رنگت اور نقاہت زدہ جسم کو دیکھ کر اندازہ لگایا کہ بہن خوش نہیں ہے۔ وجہ دریافت کرنے پر پہلے پہل تو بہن نے بات ٹالنا چاہی، مگر بھائیوں کے اصرار پر شوہر کی کنجوسی اور دال کا قصہ سنا ڈالا۔ بھائیوں نے کہا کہ : اس کا معاملہ ہم پر چھوڑ دو، بس یہ نیند کی گولی لے جا کر اس کے کھانے میں ڈال دینا۔

بہن نے واپس گھر آ کر شوہر کے لیے اس کی من پسند ڈش (دال) بنائی اور وہ نیند کی گولی اس کے سالن میں ڈال کر اسے کھلا دی۔

اب شوہر جیسے ہی نیند کی گہری وادیوں میں اترا تو اس عورت کے بھائیوں نے آ کر پہلے اس کے کپڑے اتار کر اسے کفن میں لپیٹا، پھر اس کی چار پائی اک اندھیرے، تاریک کمرے میں لے گئے۔

جیسے ہی وہ نیند کی وادیوں کی سیر سے واپس آیا تو اپنے آپ کو کفن میں ملفوف پا کر سمجھا کہ شاید اس کی موت ہو چکی ہے۔ اس کے اس گمان کو یقین میں بدلنے کے لیے عورت کے دو بھائی ( دنیاوی) منکر، نکیر بن کر حاضر ہوئے اور سوالات کا سلسلہ شروع کیا : من ربک؟ " ( تیرا رب کون ہے؟)

بخیل : ربی اللہ
"ما دینک؟ " ( تیرا دین کونسا ہے؟)
"دینی الإسلام"
"من الرجل الذی بعث فیکم؟ " ( نبی کون ہیں؟)
"محمد ﷺ "

جب ان تین سوالوں کے جواب دے چکا تو ایک چوتھا سوال داغا گیا : دنیا میں کھانا کیا کھاتے تھے؟"
اب کی بار جواب دیا : میں نے تو دال کے علاوہ کوئی کھانا چکھا ہی نہیں کبھی۔"

اب اس جواب پر یہ کہتے ہوئے اس کی پکڑ ہو گئی کہ : دال کے علاوہ کبھی کچھ کیوں نہیں کھایا؟ جبکہ اللہ نے فرمایا : ہمارے عطا کردہ پاکیزہ رزق میں سے خوب جی بھر کر کھاؤ پیو۔" لہذا اب تمہاری سزا یہ ہے کہ تمہیں قیامت تک کوڑے مارے جائیں، اور یہ کہ کر اس پر کوڑوں کی ایسی برسات کی گئی کہ بیچارہ درد کی تاب نہ لاتے ہوئے بے ہوش ہو گیا۔

اب فوراً اسے واپس اسی جگہ لِٹا دیا جہاں سویا تھا اور واپس کپڑے تبدیل کر دیے۔

جیسے ہی اسے ہوش آیا تو درد سے کراہتے ہوئے بیوی کو سامنے دیکھ کر حیرانی کے عالم میں بولا : ہیں....! میں زندہ ہوں؟ "

ہاں، تمہیں کیا ہونا تھا بھلا؟... ٹھہرو میں دال بنا کر لاتی ہوں۔" بیوی یہ کہ کر مڑنے ہی لگی تھی کہ فورا اس نے چلاتے ہوئے آواز دی: نہییییییییں! دال نہیں، دال کا عذاب بڑا سخت ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے : ہمارے دیے ہوئے پاکیزہ رزق میں سے خوب کھاؤ پیو " اس لیے میں گوشت لے کر آتا ہوں آج وہ پکائیں گے۔"

[مسکرانا بھی سنت ہے مسکرائیں اور دعاؤں میں ہمیں بھی یاد رکھئے] 😍

*🙏🏻 "معزز دوستو! آپ کا ایک مختصر سا رئیکٹ نہ صرف میری حوصلہ افزائی ہے بلکہ اس پلیٹ فارم پر ہماری آواز کو مضبوط بھی بناتا ہے۔ اپنی موجودگی کا اظہار ضرور کیجیے۔"* ❤️

17/11/2025

*ہمت کبھی مت ہاریں...!* 🦅

رات 3 بجے ڈنمارک کے ایک چھوٹے سے پرانے قصبے میں فائر فائٹر ایرک کو ایک کال موصول ہوتی ہے جو نائٹ ڈیوٹی پر ہے۔
فون اٹھاتے ہی ایک عورت کی چیخ سنائی دی
" میری مدد کرو میں اٹھ نہیں سکتی "
گھبرائیں مت میڈم ' ایرک بولا ' ہم ابھی پہنچ رہے ہیں آپ کہاں ہیں ؟
مجھے نہیں معلوم ، عورت نے لرزتی ہوئی آواز میں بتایا
آپ کا ایڈریس کیا ہے ؟ ایرک نے پوچھا
"مجھے نہیں معلوم میں چکرا رہی ہوں "
ایرک :کیا آپ مجھے اپنا نام بتا سکتی ہیں
نہیں میں کچھ یاد نہیں کر پا رہی ، میں کیوں یاد نہیں کر پا رہی لگتا ہے میرے سر پر کچھ مارا گیا ہے "
اس کے فورا بعد ایرک فون کمپنی کو کال کرتا ہے اور آنے والی کال کی شناخت اور لوکیشن دریافت کرنے کا کہتا ہے
"ہم معذرت خواہ ہیں ہم یہ لوکیشن شناخت نہیں کر پا رہے"۔ دوسری طرف سے فون آپریٹر جواب دیتا ہے۔
ایرک واپس خاتون سے بات کرتا ہے " کیا آپ اپنا فون نمبر بتا سکتی ہیں ، ہو سکتا ہے کہیں لکھا ہو ڈائری میں ۔
" نہیں میرے پاس نمبر کہیں نہیں لکھا اب میں کیا کروں ، پلیز جلدی کریں، خاتون کی آواز مدہم اور کمزور پڑ رہی تھی
ایرک جلد سوچتے ہوئے ، اچھا اپنے اردگر دیکھیں اور منظر بتانے کی کوشش کریں
خاتون "میرے گھر میں ایک کھڑکی روشن ہے گلی کی طرف اور گلی میں اسٹریٹ لائٹ ہیں ۔
ایرک :کھڑکی کس شکل کی ہے؟
"مستطیل نما ہے "
ایک پرانے ٹاون میں ایرک اس لوکیشن کے تک پہنچنے کی کوشش میں سوچتا ہے
"آپ اپنی جگہ پر رہیں زیادہ موومنٹ مت کریں ہم آپکو تلاش کرنے آ رہے ہیں"
ایرک کو کوئی جواب نہ ملا سوائے زخمی خاتون کی لمبی سانسوں کے۔
ایک لمحہ سوچے بغیر ایرک نے اپنے کیپٹن کو کال کی، صورتحال بتا کر زیادہ سے زیادہ فائر ٹرک بھیجنے کے مطالبہ کیا ،
"یہ بہت بڑا چلینج اور مشکل ٹارگٹ ہے لیکن کسی کی جان بچانا ہمارے لیئے اولین ترجیح ہے " کیپٹن نے جواب دیا
کچھ ہی دیر میں 15 فائر ٹرک ٹاون میں گلی کے ہر کونے پر پہنچ گئے
ایرک نے دوبارہ خاتون کو متوجہ کیا لیکن اب وہ جواب نہیں دے پا رہی تھی ، ایرک ابھی بھی اس کی سانسوں کی اواز سن سکتا تھا،
فون پر ایرک کو فائر ٹرک کا سائرن سنائی دینا شروع ہوا۔ اس نے وائرلیس پر ٹرک کو ایک ایک کر کے اپنا سائرن بند کرنے کا بولا ، فائر ٹرک نے باری باری اپنا سائرن بند کرنا شروع کیا۔
ٹرک نمبر 12 پر پہنچ کر ایرک کو سائرن کی آواز آنا بند ہوئی ، اس نے دوبارہ ٹرک 12 کو سائرن چلانے کا بولا یہ اس گھر کے بہت قریب ہے "ایرک چلایا "
وہ خاتون کی رہائشی بلڈنگ کی گلی میں کامیابی سے پہنچ گیا لیکن ابھی گھر تلاش کرنا باقی تھا ۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ گھر کیسے تلاش کرے ، اچانک اس کے ذہن میں خیال آیا اس نے لاؤڈ اسپیکر اٹھایا اور اس اسٹریٹ والوں سے مخاطب ہوا " ہمیں ایک خاتون کی تلاش ہے جو مصیبت میں ہے اسے ہماری ضرورت ہے مجھے معلوم ہے وہ یہاں قریب ہی ہے اس کے کمرے کی لائٹ آن ہے پلیز آپ لوگ اپنے گھر کی لائٹس آف کر دیں۔ کچھ ہی سکینڈ میں تمام لائٹ آف ہو گئیں سوائے ایک گھر کے ،
ناقابلِ یقین ، ایرک نے کر دیکھایا
فائرمین نے دروازہ توڑا اور دم توڑتی سانس لیتی زخمی خاتون کو اٹھا کر فوری وقت پر ہسپتال پہنچا دیا
دو ہفتے میں وہ مکمل صحتیاب ہو گئی اور اسکی یاداشت واپس آ گئی۔ ایرک نے اپنا فرض بغیر ہچکچاہت کے نبھانے کی مکمل کوشش کی اور کامیاب ہوا۔

اگر آپ کسی کام ٹھان لیں اور ہمت نہ ہاریں تو آپ اپنی مہارت اور جذبے سے پہاڑوں کو ہلا سکتے ہیں اگر ہم ایک ٹیم ورک معاشرے طور پر اکھٹے ہیں تو ایک ناممکن سی صورتحال میں بھی کسی کی مدد کر سکتے ہیں ہم ناممکن کو ممکن بنا سکتے ہیں.."

*🙏🏻 آپ سے ایک رئیکٹ ہی تو مانگتے ہیں ہم آپ وہ بھی نہیں کرتے اگر آپ کو ہماری پوسٹس پسند آتی ہیں تو ایک لائیک کرلیا کریں اور اگر نہیں آتی تو جو دل کرے وہ ریکٹ کرلیا کریں کونسا ہم نے پابندی لگائی ہے بس رئیکٹ کیا کریں لازمی*🥹

Dirección

Isla Mujeres
2423

Notificaciones

Sé el primero en enterarse y déjanos enviarle un correo electrónico cuando ناول کی دنیا publique noticias y promociones. Su dirección de correo electrónico no se utilizará para ningún otro fin, y puede darse de baja en cualquier momento.

Contacto La Empresa

Enviar un mensaje a ناول کی دنیا:

Compartir

Categoría