08/09/2025
جنوبی پنجاب میں مچھلی فارمنگ وہ واحد کاروبار تھا جو دیگر شعبوں کی نسبت حالات کی سختیوں سے کچھ حد تک محفوظ رہا۔ یہی وجہ تھی کہ فارمرز کو خوشحال طبقہ سمجھا جاتا تھا۔ مگر چند دنوں کے بے رحم سیلابی ریلے نے یہ خوشحالی لمحوں میں چھین لی۔
یہ وہ لوگ ہیں جن کی زندگی بھر کی کمائی انہی تالابوں میں بندھی ہوئی تھی۔ کسی کی بیٹی کا جہیز، کسی کے بیٹے کا مستقبل، سب کچھ ایک ہی جھٹکے میں پانی کے ساتھ بہہ گیا۔ لیکن اصل تکلیف دہ منظر تب سامنے آیا جب انہی فارمز کے قریب کھڑے کچھ لوگ، جو پہلے بند سے گزرتے ہوئے بھی جھجکتے تھے، آج بے خوف چھوٹی جالیوں کے ساتھ مچھلیاں پکڑنے میں مصروف ہیں۔
فارم مالکان بے بسی کی تصویر بنے کھڑے ہیں—نہ روک پا رہے ہیں نہ کچھ کہہ پا رہے ہیں۔ آنکھوں میں آنسو اور لبوں پر صبر، بس آسمان کی طرف امید بھری نظریں۔ بلاشبہ یہ مچھلیاں یا تو بہہ کر چناب اور راوی میں چلی جائیں گی یا کھیتوں میں مر کھپ جائیں گی، لیکن دوسروں کی بربادی سے فائدہ سمیٹنے کا یہ رویہ کسی طور قابلِ جواز نہیں۔ ایسے لوگوں کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے۔
یہ منظر مجھے برسوں پرانا ایک حادثہ یاد دلاتا ہے جب ایک زخمی خاتون نے اپنے زیورات نوچنے والے کو کہا تھا:
“رکو… ابھی زندہ ہوں، مر جانے دو، پھر اتار لینا۔”
یاد رکھیں، اگر آج اس عذاب کو دیکھنے کے بعد بھی ہمارے رویے نہ بدلے تو اگلا امتحان اس سے کہیں زیادہ سخت ہوگا۔ اور شاید اس دن ہم سب ایک جیسے محتاج ہو جائیں۔
اللہ کریم ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔