
11/07/2025
سناٹے سے گونجتا کمرہ، بند دروازے کے پیچھے چھ ماہ پرانی لاش، نہ کوئی آنکھ اشکبار، نہ کوئی ماتم، نہ دعا۔ صرف دیواریں گواہ تھیں اُس عورت کی تنہائی کی، جو کبھی خودمختاری پر نازاں تھی۔ رشتوں کو زنجیر سمجھ کر توڑ دیا، فیمینزم کے نشے میں باپ، بھائی، شوہر، حتیٰ کہ رب سے بھی روٹھ گئی۔
اداکارہ حمیرا اصغر — ایک مشہور، آزاد عورت — لیکن کیا واقعی کامیاب؟ جب پولیس نے اس کے گھر والوں سے رابطہ کیا، تو جواب ملا:
“ہم نے بہت پہلے اس سے ناتا توڑ لیا، لاش ہے تو جیسے چاہو دفنا دو۔”
سوال یہ ہے کہ وہ کون سی “آزادی” تھی جو باپ کو اتنا سخت، بھائی کو اتنا خاموش اور معاشرے کو اتنا بے حس کر گئی؟ یہ صرف ایک واقعہ نہیں، بلکہ فیمینزم کا وہ چہرہ ہے، جو دکھتا روشن ہے، لیکن اندر سے تنہا، کھوکھلا اور اندھیرے سے لبریز۔
فیمینزم نے عورت کو ماں، بیٹی، بہن، بیوی جیسے مقدس رشتوں سے نکال کر صرف “خود” بنا دیا، اور یہی “خود” اُسے تنہا کر گیا۔
انسٹاگرام کے فالورز، ٹوئٹر کے نعرے، فیس بک کی دوستیں — سب خاموش۔
کاش وہ سمجھ پاتی کہ باپ کی ڈانٹ محبت ہوتی ہے، بھائی کی غیرت عزت کی چادر، شوہر کی رفاقت تحفظ، اور خاندان سایہ دار درخت۔
مگر فیمینزم نے سب کچھ چھین لیا — حتیٰ کہ ایک جنازہ دینے والا بھی نہ چھوڑا۔
حمیرا اصغر چلی گئی,
لیکن فیمینزم کی دُھند میں گُم اور لاکھوں قطار میں لگی ہیں اس عارضی زندگی سے لطف کو کشید کرتی,
بس ہمیں تب ہوش آتا ہے،
جب تعفن زدہ لاش دیواروں کو گھورتی رہتی ہے ۔۔۔
"اور دیواریں قہقے لگا کر کہتی ہیں آزادی چاہیے تھی نا؟ لے لو.