17/10/2025
تختِ کابل کی خاموشی — تاریخ کا تلخ سچ
تحریر: ائڈمن وائس آف فادرز
تاریخ گواہ ہے کہ جب برصغیر کے شمال مغربی خطے میں سکھ طاقت اُبھر رہی تھی، تب پشتون قبائل اپنے زورِ بازو پر میدانِ جنگ میں ڈٹے ہوئے تھے۔ یوسفزئی، خٹک، اور بعد ازاں افریدی قبائل سکھوں کے مقابلے میں جانوں کے نذرانے پیش کر رہے تھے۔ مگر افسوس کہ ان قربانیوں کے دوران تختِ کابل خاموش رہا۔
اٹھارہ سو تیس میں افغان حکمران شاہ شجاع نے سکھوں سے پشاور پر قبضے کے بدلے زرِ معاوضہ وصول کر کے معاملہ طے کر لیا۔ یوں پشاور، جو کبھی درۂ خیبر کا دروازہ اور افغان حکمرانوں کی شان سمجھا جاتا تھا، سودے بازی کی نذر ہو گیا۔
چند دہائیوں بعد جب انگریزوں نے سکھ سلطنت کو شکست دے کر پشاور اور قبائلی علاقے اپنے زیرِ اثر لے لیے، تب بھی کابل کا تخت گونگا بنا رہا۔
یہی نہیں، جب انگریزوں نے قبائلی عوام پر ایف سی آر جیسے ظالمانہ قوانین نافذ کیے، تب بھی کابل سے کوئی آواز بلند نہ ہوئی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ افغانستان نے انگریزوں کے ساتھ تین جنگیں ضرور لڑیں، مگر ان کا مقصد پختونخوا یا پشاور کی بازیابی نہیں تھا۔ وہ جنگیں صرف کابل کی خودمختاری کے تحفظ کے لیے تھیں۔
انیسویں صدی کے آخر میں افغان حکمرانوں نے خود ڈیورنڈ معاہدے پر دستخط کر کے ہمیشہ کے لیے پختونخوا سے علیحدگی اختیار کر لی۔
بعد میں غازی امان اللہ خان نے انگریزوں سے جنگ کی، مگر اس کا مقصد بھی پشاور یا خیبر نہیں بلکہ افغانستان کی "خپلواکی" یعنی داخلی خودمختاری تھا۔
پھر جب پہلی جنگِ عظیم کے بعد انگریز کمزور ہوئے، اور نوآبادیاتی نظام زمین بوس ہو رہا تھا، تب بھی تختِ کابل خاموشی کی چادر اوڑھے بیٹھا رہا۔
سن 1947 میں جب برطانوی راج کا خاتمہ ہوا اور انگریز پختونخوا کو پاکستان کے حوالے کر کے چلے گئے، تب اچانک کابل سے شور اُٹھا کہ "یہ تو ہماری سرزمین ہے!"
مگر یہ شور بھی صرف زبانی جمع خرچ ثابت ہوا۔ نہ کوئی عملی قدم اُٹھایا گیا، نہ کوئی سفارتی دباؤ۔
بعد ازاں 1965 اور 1971 کی جنگوں میں بھی اگر کابل چاہتا تو میدان بدل سکتا تھا، مگر اس وقت بھی تختِ کابل انگور کی پیٹی میں مدہوش رہا۔
تاریخ کا فیصلہ
تختِ کابل نے کبھی پختونخوا یا پشاور کے لیے جنگ نہیں لڑی، نہ کبھی انہیں واپس لینے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی۔
حقائق تلخ ضرور ہیں، مگر ان سے آنکھ چرانا تاریخ سے بے وفائی کے مترادف ہے۔
حقائق، حقائق ہی رہتے ہیں۔