
20/09/2025
شکیل اختر۔۔۔
زندگی میں پہلی بار کوئی پوسٹ پڑھنے اور شئیر کرنے کی آپ تمام حضرات سے درخواست ہے۔
کوہستان کی ایک گونگی ماں 17 سالوں سے اپنے لخت جگر کی راہ تک رہی ہے۔۔
ہماری ایک پھوپھی ہیں،قوت گویائی سے مکمل محروم ہیں، تقدیر انہیں گلگت سے کھینچ کر کوہستان لے ائی اور اپنے شوہر کی خواہش کے مطابق انہوں نے اپنی ساری زندگی وہاں گزار دی،حالانکہ دادا جان نے یہاں گلگت میں انہیں اچھی خاصی جائیداد عطا کی تھی مگر سب کچھ چھوڑ کر وہ کوہستان کے علاقے "سو کوٹ" میں جابسے،ان کے دو بیٹے تھے،بڑا بیٹا محنت مزدوری کر کے گھر کے اخراجات پورے کرتا ہے جب کہ چهوٹے بیٹے کو انہوں دینی تعلیم کے لئے وقف کر رکھا تھا،چهوٹا بیٹا محمد امین ایک ٹانگ سے معذور تھا اور لنگڑا کر چلتا تھا،قرآن مجید حفظ کرنے کے بعد انہیں مزید تعلیم کے لئے ہری پور بھیج دیا گیا،وہاں کچھ عرصہ زیرِ تعلیم رہنے کے بعد گھر والوں کی مرضی کے خلاف وہ کراچی پہنچے اور یہاں سے ایک ایسی کہانی نے جنم لیا جو اس کے گھر والوں کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں ہے۔
2008ءمیں جب وہ کراچی آئے تو اس وقت میں بھی کراچی کے ایک مدرسے میں زیر تعلیم تھا،اس نے میرا نمبر ڈھونڈ کر مجھ سے رابطہ کیا اور ملاقات کے لیے میرے پاس تشریف لائے،بات چیت سے معلوم ہوا کہ اس نے پڑھائی کو خیرباد کہہ کر لی مارکیٹ کے قریب کسی اقراء اسکول میں تدریس شروع کی ہے،میں نے انہیں سمجھا یا کہ دوبارہ داخلہ لے کر پڑھائی کا سلسلہ جاری رکھیں،انہوں نے رمضان کے بعد دوبارہ پڑھائی شروع کرنے کا وعدہ کیا اور چلا گیا،مجھے کیا معلوم تھا کہ ممکنہ طور پر یہ زندگی کی آخری ملاقات ثابت ہوگی...
اس ملاقات کے چند ہفتے بعد ایک رات تقریبا 10 بجے قریب اچانک میرے موبائل پر پی ٹی سی ایل کا ایک نمبر جگمگانے لگا،کال رسیو کرکے موبائل کان سے لگا یا تو ایک ڈری سہمی اور شناسا آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی،بات کرنے والے کے انداز سے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے کوئی ہاتھ دھوکر اس کے پیچھے پڑا ہوا ہے،وہ محمد امین تھا،میں نے ہوچها کیا مسئلہ ہے تو اس کے آخری الفاظ یہ تھے:
"مجھے بچاؤ میرے پیچھے کچھ لوگ لگے ہیں اور میں اس وقت کلفٹن میں ہوں"
اور کال کٹ گئی...
تهوڑی دیر میں سکتے میں رہا اور یہ بات میرے لئے ناقابل یقین اور باعث حیرت تھی کہ ایک بے ضرر اور معذور شخص کے ساتھ کسی کی کیا دشمنی ہوسکتی ہے،بہر حال رات کافی بیت چکی تھی،اس وقت میں کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا،اگلے دن ان سے رابطے کی تمام کوششیں ناکام ہوگئیں تو میں نے فون پر اس کے بھائی کو اطلاع دی اور اپنی بساط کے مطابق اسے ڈھونڈتا رہا،پھر اس کا بھائی بھی کراچی آیا،ہم نے مل کر ہر جگہ ڈهونڈا مگر وہ نہیں ملا...
اس کی جدائی کے غم میں اس کا باپ چل بسا ہے اور حقیقت حال سے بے خبر اس کی گونگی ماں آج17 سال بعد بھی اس انتظار میں ہے اور اشاروں میں لوگوں کو بتاتی ہے میرا بیٹا عالم بن کر اور سر پر پگڑی پہن کر آنے والا ہے... کیوں کہ اسے یہی بتایا گیا ہے...
اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس کا معذور بیٹا زندہ بھی ہے یا کسی غلط فہمی میں مارا گیا ہے۔۔
تمام حضرات سے ایک بار پھر گزارش ہے کہ یہ پوسٹ شئیر کریں، شاید آپ کے شئیر کرنے سے ہمارے اس بے ضرر کزن کا کوئی سراغ مل جائے اور ہم 17 سالہ اذیت سے نکل آئیں اور زندگی اور موت کی سرحد پر کھڑی ایک گونگی ماں مرنے سے پہلے اپنے جگر گوشے ایک بار نظر بھر کر دیکھ سکے۔۔۔
نوٹ: یہ تصویر غالبا سن 2002 یا تین کی ہے، اس کے بعد کی ان کی کوئی تصویر نہیں مل سکی۔۔
کسی بھی قسم کی معلومات کے لیے رابطہ نمبر
03554276574