05/09/2025
ٹریفک کا سرکس اور ایبٹ آباد کا سانحہ
آج صبح ایبٹ آباد کی مرکزی شاہراہ پر، لیڈی گارڈن کے قریب ایک ایسا المناک حادثہ پیش آیا جس نے پورے شہر کو غم سے نڈھال کر دیا۔ ایک بے قابو ٹرک نے سات معصوم بچوں کو کچل ڈالا، جن میں سے تین بچے موقع پر ہی دم توڑ گئے۔ یہ خبر صرف ایک سانحہ نہیں، بلکہ ہمارے نظام کی ناکامی کا کھلا ثبوت ہے۔
ایبٹ آباد کی یہ سڑک شہر کی مرکزی شریان ہے، مگر یہاں ٹریفک کا حال کسی جنگل سے کم نہیں۔ ڈالا سوزوکیاں جہاں چاہیں رک کر سواریاں اتارتی اور بٹھاتی ہیں۔ بھاری بھرکم ٹرک شور مچاتے دوڑتے ہیں۔ موٹر سائیکل پر تین تین افراد کا سوار ہونا عام ہے اور ہیلمٹ کا استعمال تقریباً نہ ہونے کے برابر۔ اکثر یہ منظر دیکھنے کو ملتا ہے کہ ایک ہاتھ سے بائیک چلائی جا رہی ہے اور دوسرے ہاتھ سے موبائل پر کال سنی جا رہی ہے۔
اوورٹیک کا بھی عجیب تماشا ہے۔ خاص طور پر بائیں جانب سے سبقت لینا عام رواج ہے، جس میں موٹر سائیکل سوار کمال مہارت رکھتے ہیں۔ لین ڈسپلن کا تصور ناپید ہے، انڈیکیٹر کا استعمال شاذونادر، اور راستہ دینا تو ڈرائیوروں کی لغت میں ہی شامل نہیں۔ سوزوکی ڈرائیور اور ریہڑی بان سب اپنی من مانی کے مالک ہیں۔
یہ سب کچھ روزانہ عوام دیکھتے ہیں، اور ٹریفک پولیس بھی۔ جگہ جگہ اہلکار کھڑے ہوتے ہیں لیکن انہیں یہ بدنظمی نظر ہی نہیں آتی۔ ہاں، اڈوں کی تقسیم اور مخصوص مقامات پر رُکنے کی اجازت جیسے "کاروباری معاملات" ان کی ترجیح ضرور رہتے ہیں۔ ایوب اسپتال کے سامنے نئے اڈے بن چکے ہیں، جبکہ قریب موجود پلازے آدھی سڑک پارکنگ کے نام پر بند کر دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ یہاں گاڑی چلانا ایسے ہے جیسے سرکس کے کنویں میں موٹر سائیکل چلانا۔
اصل سوال یہ ہے کہ آخر اس بدنظمی کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا صرف ڈرائیور قصوروار ہیں یا وہ نظام بھی جو ہر حادثے کے بعد چند روز کے لیے جاگتا ہے اور پھر دوبارہ سو جاتا ہے؟
آج جن معصوم بچوں کی جان گئی، ان کے والدین چند دن سوگ منائیں گے، پھر وقت زخم پر مرہم رکھ دے گا۔ لیکن اگر ہم سب نے مل کر ٹریفک پولیس کو جواب دہ نہ بنایا، قانون پر عمل درآمد کا مطالبہ نہ کیا اور اپنی روش نہ بدلی، تو یہ سلسلہ رکنے والا نہیں۔ حادثات اور ہڑبونگ کا یہ سرکس یونہی چلتا رہے گا، اور جانے کتنے معصوم اس کی نذر ہوں گے۔