13/12/2025
ایبٹ آباد ( ) اپر کوہستان چاروں تحصیلوں کے ممبران ملک سراج خان خیلی, سرنگزیب خان ,ملک نور علی شاہ اور ضیاء الحق نے ایبٹ آباد پریس کلب میں پر ہجوم پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ 40رکنی جے آر سی کمیٹی اپر کوہستان کی چاروں تحصیل میں بسنے والی عوام کے امن کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کمشنر ہزارہ ڈپٹی کمشنر داسو امیر مقام و دیگر اعلیٰ افسران چار ماہ قبل بننے والی 300رکنی جے آر سی کمیٹی کو بحال کیا جائے چور دروازے سے بننے والی جے آر سی کمیٹی کا نوٹیفکیشن خارج کیا جائے اگر حکومتی اداروں نے حالیہ کمیٹی کو بحال رکھا تو کسی بھی ناخوشگوار واقعے کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے اپر کوہستان چاروں تحصیلوں متاثرین داسو ڈیم کے اکابرین نے مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم 300ممبران شورہ ممبر ہیں ہم نے پاکستان کے امن کی خاطر اپنے آباؤ اجداد کو قبروں سے نکال کر دوسری جگہوں پر دفنایا اس بعد بھی ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہے انہوں نے مزید بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ
اپر کوہستان میں متاثرین ڈیم کے مسائل کے حل کے لیے قائم متفقہ شوری کو بائی پاس کر کے بنائی گئی غیر نمائندہ40رکنی JRC کمیٹی کو مسترد کرتے ہیں
ا پرکوہستان کے ڈیم متاثرین پرمشتمل ایک متفقہ اور نمائندہ شوری طویل اور مسلسل جدو جہد کے بعد قائم کی گئی تھی، جس میں تقریبا 300 افراد شامل تھے۔ یہ شوری علاقے کی تمام اقوام اور متاثرین کی متفقہ نمائندہ تھی۔ اس شوری کے قیام کا بنیادی مقصد متاثرین کے اجتماعی مسائل کا حل، واپڈا حکام سے مذاکرات ، ڈیم منصوبے میں حائل رکاوٹوں کا خاتمہ اور عوامی مسائل کو منظم انداز میں حل کرنا تھا۔ شورٹی کے قیام سے قبل علاقے میں جگہ جگہ روڈ بلاک ، ڈیم کے کام میں رکاوٹیں ، اور انفرادی نوعیت کے مسائل عام تھے، تاہم شوری کے قیام کے بعد ان تمام مسائل کو اجتماعی ذمہ داری کے تحت حل کرنے کا ایک مؤثر فورم میسر آگیا تھا۔ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ شوری کے قیام کے بعد چند با اثر عناصر نے اپنے ذاتی اثر ورسوخ کا استعمال کرتے ہوئے اس متفقہ شوری کو بائی پاس کیا اور بمورخہ 18/8/2025 کو 40 افراد پرمشتمل ایک خود ساختہ JRC کمیٹی کا سرکاری نوٹیفکیشن جاری کروالیا۔ یہ نام نہاد JRC کمیٹی نہ تو عوامی مینڈیٹ رکھتی ہے، نہ میرٹ پر بنی ہے، اور نہ ہی علاقے کی تمام اقوام کی نمائندہ ہے۔ زمینی حقائق ، آبادی کے تناسب، جغرافیائی تقسیم اور کوہستان کی علاقائی وقبائلی ساخت کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ چند مخصوص اقوام سے من پسند افراد شامل کیے گئے جبکہ کئی اقوام کو مکمل طور پر باہر رکھا گیا، جس کی وجہ سے یہ کمیٹی متفقہ ہونے کے بجائے شدید اختلافات کا باعث بن چکی ہے۔
اس کمیٹی کے قیام کے بعد علاقے میں بے چینی ، عدم اعتماد، باہمی انتشار اور احتجاجی رد عمل پیدا ہو رہا ہے۔ مختلف اقوام اور متاثرین اس کمیٹی کو یکسر مسترد کرتے ہیں کیونکہ:
اس کمیٹی کے پاس عوامی اعتماد اور سماجی مقبولیت موجود نہیں ہے
متاثرین کے درمیان نہ کوئی ہم آہنگی ہے اور نہ باہمی رابطہ ہے۔ حالیہ کمیٹی مسائل حل کرنے کے بجائے نئے تنازعات کو جنم دے رہی ہے ڈیم منصوبے کو نقصان پہنچنے اور تاخیر کا شدید خدشہ پیدا ہو چکا ہے
من پسند افراد کی شمولیت سے شفافیت اور انصاف مجروح ہو رہا ہے
ہم واضح طور پر یہ اعلان کرتے ہیں کہ یہ کمیٹی علاقے کے لیے نقصان دہ ہے اور متاثرین کے مسائل حل کرنے کے بجائے
انہیں مزید پیچیدہ بنادیا گیا ہے
متاثرین کے حقیقی مسائل کے حل کے لیے 300 افراد پرمشتمل متفقہ شوری کے اعتماد سے
زمینی حقائق ، آبادی کے تناسب اور تمام اقوام کی نمائندگی کو مد نظر رکھتے ہوئے
میرٹ، شفافیت اور اتفاق رائے کی بنیاد پر ایک نئی کمیٹی تشکیل دی جائے
ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم ڈیم منصوبے کے مخالف نہیں بلکہ اس کی بر وقت تکمیل کے خواہاں ہیں ۔ ہم نہیں چاہتے کہ ماضی کی طرح دوبارہ روڈ بلاک ، احتجاج اور رکاوٹیں پیدا ہوں ۔ ہم اس ملک کے محب وطن شہری ہیں اور چاہتے ہیں کہ قومی مفاد کے اس منصوبے کو بلا تعطل مکمل کیا جائے۔
اسی مقصد کے تحت آج اس پر یس کا نفرنس کے ذریعے ہم نے اپنی آواز اور ضمیر کواعلیٰ حکام تک پہنچایا ہے۔ اگر فوری طور پر اس معاملے کا نوٹس نہ لیا گیا تو حالات دوبارہ کشیدہ ہونے کا خدشہ ہے، جس کی ذمہ داری ان عناصر پر عائد ہوگی جنہوں نے عوامی شوری کو نظر انداز کیا۔
وزیراعظم پاکستان چیف جسٹس آف پاکستان و دیگر ادارے اس 40رکنی نوٹیفکیشن منسوخ کریں تاکہ ایک نئی متفقہ، نمائندہ اور میرٹ پر بنی کمیٹی تشکیل دی جائے تا کہ متاثرین
کے مسائل حل ہوں اور ڈیم منصوبہ بغیر کسی رکاوٹ کے آگے بڑھ سکے۔