21/09/2025
مشنِ نور اور 20 ستمبر کی اہمیت
مؤرخہ 8 جنوری 1841 کو بھیرہ تحصیل بھلوال ضلع سرگودھا میں حافظ غلام رسول کے گھر میں سات بھائیوں اور دو بہنوں کے بعد آخری بیٹا نورالدین پیدا ہوا۔
اس وقت پنجاب پہ سکھوں کا قبضہ تھا۔ جو 1849 میں انگریزوں کے ہاتھوں ختم ہوا۔
نورالدین پنجاب کے مختلف اساتذہ سے دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مزید تعلیم کے حصول کے لیے رامپور، مراد آباد، لکھنؤ، اور بھوپال کا سفر کیا۔
نور الدین نے سید حسن شاہ سے مشکاۃ، عزیز اللہ افغانی سے مختلف کُتُبِ فقہ، مولوی ارشاد حسین مجددی سے فلسفہ، سعد اللہ اریال سے عربی شاعری جبکہ مولوی عبد العلی اور ملا حسن سے منطق کی تعلیم حاصل کی۔ لکھنئو میں اس نے مشہور حکیم علی حسین سے طب کی تعلیم بھی حاصل کی اور بھوپال میں کچھ عرصہ طبابت کی۔
چار سال بعد 25 سال کی عمر میں مولوی نورالدین حج کے لیے روانہ ہوا۔
وہاں شیخ حسن الخزرجی اور مولانا رحمت اللہ کیرانوی سے حدیث کی تعلیم حاصل کی۔
حج سے واپسی کے بعد شاہ ولی اللہ محدث دھلوی رح کے بیٹے شاہ عبدالغنی محدث دھلوی رح کے ہاتھ پہ بیعت کی۔ اس کے وکی پیڈیا کے مطابق اس نے بانئی دارالعلوم دیوبند مولانا قاسم نانوتوی رح سے بھی کچھ عرصہ تعلیم حاصل کی۔
اور بھیرہ واپس آ کے ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی۔ اور ساتھ ہی طبابت بھی شروع کردی۔
اس کی طبابت کی شہرت سن کے مہاراجہ کشمیر رنبیر سنگھ نے اسے اپنا شاہی طبیب مقرر کر دیا۔ اگلے سولہ سال تک یہ شخص ریاستِ کشمیر کا شاہی طبیب رہا۔
کشمیر میں قیام کے دوران حکیم نور الدین نے مرزا غلام ق ادیا نی کی کتاب براھین احمدیہ پڑھی۔ اور مرزا سے ملنے کے لیے قادیان پہنچا۔
پہلی ملاقات میں ہی اس نے اس نے اس کے ہاتھ پہ بیعت کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ مرزا نے جواب دیا۔ ابھی مجھے بیعت لینے کی اجازت نہیں۔ یہ قادیان سے واپس کشمیر چلا گیا لیکن مرزا سے خط و کتابت جاری رہی۔
جب 1889 میں مرزا غلام ق ادی نی نے اپنی جماعت کی بنیاد رکھی اور 23 مارچ کو لدھیانہ میں بیعت لینے کا اعلان کیا تو اس روز سب سے پہلے حکیم نور الدین ہی کی بیعت کی۔
1892 میں کشمیر کی ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد یہ مرزا کے پاس قادیان آ گیا۔ اور اپنی موت تک قادیان میں ہی مقیم رہا۔
مرزا غلام ق ادیا نی کے مرنے کے بعد 27 مئی 1908 کو قادیان میں موجود تمام ق ا دیان یوں نے متفقہ طور پر حکیم نور الدین کو اپنا پہلا خلیفہ منتخب کر لیا۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنھوں نے بعد میں لاہوری جماعت کے نام سے اپنی الگ جماعت بنائی اور ق ا دیا نی خلافت کے نظام سے علیحدہ ہو گئے۔
مولوی نورالدین جو اب مولوی حکیم نورالدین کے نام سے مشہور تھا۔ اور مرزا غلام ق ادی انی کا پہلا خلیفہ بھی بن چکا تھا۔ اس نے اپنے چھ سالہ دور میں ق ادیا نی مشن کو اس طرح منظم کیا۔ کہ آج مختلف ممالک میں ان کے مشن کی ترویج کو ان کے اندرونی حلقے اسی کا کارنامہ تسلیم کرتے ہیں۔
اس شخص نے 1914 میں اپنے مرنے سے پہلے ق ادیا نی مشن لندن بھیجا۔ جس نے انگلینڈ کی پہلی مسجد شاہ جہاں مسجد ووکنگ پہ جوڑ توڑ کر کے قبضہ کیا۔ اور پھر وہیں سے مختلف ممالک میں اپنے مذہب کی ترویج و اشاعت کے لیے “ مشنِ نور “ کے نام سے وفود بھیجے۔
اسی لیے ان کی کُتُب میں موجود تاریخی بیانیے اسی دور کو “ مشنِ نور” سے جوڑتے ہیں۔
تاریخی لحاظ سے لفظِ “نور” کا استعمال ان کی جماعت میں بہت وضاحت سے ملتا ہے۔
جیسے نور مسجد قادیان، نور مسجد فرینکفرٹ نور مسجد کراؤلے انگلینڈ، امریکہ، افریقہ، کینیڈا اور دنیا کے بہت سے ممالک میں نور مسجد ( کچھ کی تصاویر منسلک ہیں ) نور اکیڈمی، نور فاؤنڈیشن اور دیگر بہت سی جگہوں پہ “ نور “ کا استعمال بہت واضح، مستند، تعلیمی، تبلیغی، دینی تشہیر اور ادارتی شناخت کے ثبوت کے طور پہ ملتا ہے۔ 1914 میں اس کے مرنے کے بعد مرزا بشیرالدین محمود دوسرا خلیفہ بنا۔ اور اس کے شروع کردہ “ مشنِ نور “ کو آگے چلاتا رہا۔
تقسیمِ ہندوستان کے بعد قادیان چونکہ ہندوستان میں آ چکا تھا۔ اس لیے 1947 میں ق ادیا نی جماعت کے اکثر اہم افراد قادیان سے لاہور اور دیگر شہروں میں قیام پذیر ہو گئے۔
یہ صورتِ حال دیکھ کے مرزا بشیرالدین محمود نے بھی قادیان سے نقل مکانی کا فیصلہ کیا۔ اور 1948 میں پاکستان آ گیا۔
یکم جون 1948 کو دریائے چناب کے کنارے تھوڑی سی زمین خریدی گئی۔ بعد میں اس مقام پہ 1034 ایکڑ زمین حکومتِ پاکستان سے جماعتِ احمدیہ کا ہیڈ کوارٹر بنانے کے لیے الاٹ کروائی گئی۔
نو نومبر 1948 کے سول اینڈ ملٹری گزٹ The Civil and Military Gazette کے مطابق لاہور سے تعلق رکھنے والے کچھ صحافی ربوہ کے نئے مقام کی سیر کو گئے۔
اخبارات نے “New Headquarters for Ahmadiyyas: Rabwah Allotment Site Near Chiniot” کے عنوان سے رپورٹ دی۔ کہ صحافیوں کو ربوہ میں بتایا گیا تھا۔ کہ احمدیہ کمیونٹی کو 1,034 ایکڑ زمین الاٹ کی گئی ہے تاکہ اپنا ہیڈکوارٹر بنایا جائے۔
اسی رپورٹ کے مطابق مرزا بشیرالدین محمود نے صحافیوں کو بتایا کہ ربوہ میں ہسپتال، تعلیمی ادارے، تحقیقی ادارے وغیرہ بنائے جائیں گے۔
اس نئے ہیڈ کوارٹر کا نام ربوہ رکھا گیا (جس کے معنی ہیں: بلند ٹیلہ)
ربوہ نام رکھنے سے پہلے اس جگہ کا نام “ چک ڈھگیاں “ تھا۔
1998 میں حکومتِ پاکستان نے سرکاری طور پر ربوہ کا نام بدل کے چناب نگر رکھ دیا۔ لیکن ق ادیا نی جماعت ابھی بھی اسے “ ربوہ “ کے نام سے پکارتی ہے۔
16 ستمبر 1948 کو قا دی انی جماعت کے اجلاس میں ربوہ کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔
اور 20 ستمبر 1948 کو ربوہ کو ق ادیانی مرکز قرار دیا گیا۔
اس روز باقاعدہ ایک افتتاحی تقریب منعقد کی گئی۔ (اس کی 78 سال پرانی تصویر بھی پوسٹ کے ساتھ منسلک ہے)
اس مقام پہ مرزا بشیرالدین محمود نے خود ظہر کی نماز پڑھائی۔ (20 ستمبر 1948 کو نماز پڑھانے کی تصویر بھی ساتھ منسلک ہے) اور نمازِ ظہر کی ادائیگی کے بعد اسی مقام پہ پانچ بکرے ذبح کیے گئے۔
ان پانچوں بکروں کو ذبح کرنے کے فوری بعد ربوہ کے چار کونوں اور مرکز کے درمیان میں دفن کیا گیا۔
جس مقام پہ نمازِ ظہر ادا کی گئی۔ اسی مقام پہ پہلی عمارت کا سنگِ بنیاد مرزا بشیرالدین محمود نے رکھا۔ اور اس کا نام بیتِ یادگار/ مسجد یادگار رکھا گیا۔
بیتِ یادگار اور مسجد یادگار دونوں ناموں سے اس بلڈنگ کو جانا اور پکارا جاتا ہے۔ ( اس کی تصویر بھی پوسٹ کے ساتھ منسلک ہے۔
بیتِ یادگار کا سنگِ بنیاد رکھنے کے بعد اس کی تعمیر کی طرف توجہ کرنے کی بجائے مرزا بشیرالدین محمود کی رہائش کے لیے ربوہ میں عالی شان اور پر شکوہ عمارت قصرِ خلافت کے نام سے فوری تعمیر کی گئی۔ بیتِ یادگار مسجد کی تعمیر پورے دس سال بعد 1958 میں کی گئی۔ اس سے پہلے قصرِ خلافت کی حدود میں مسجد مبارک تعمیر کر دی گئی۔
عزیز قارئین۔
مندرجہ بالا تفصیل سے آپ جان چکے، کہ ق ادیانی وں کے ہاں مشنِ نور اور 20 ستمبر کی کیا تاریخی اہمیت ہے۔
پوری دنیا میں اپنی جماعت کے ابتدائی پھیلاؤ کو اپنے پہلے خلیفہ حکیم مولوی نورالدین سے منسوب کرتے ہوئے اہم ترین مراکز کا نام “ نور” اور دعوتی، تبلیغی و تشہیری مہم کو " مشنِ نور “ کے نام سے پکارتے ہیں۔
نیز 20 ستمبر کی تاریخ ان کے ہاں اس لیے بھی اہم ترین ہے۔ کہ اس روز ان کے باضابطہ عالمی ہیڈ کوارٹر کا پاکستان میں سنگِ بنیاد رکھا گیا تھا۔
اس ہیڈ کوارٹر کے بننے کے بعد ہی انہوں نے صحیح طریقے سے پوری دنیا میں اپنے منحوس پنجے پھیلائے۔ اور دنیا کے چند ممالک کو چھوڑ کے تقریباً ہر ملک میں حقیقی اسلام کے متوازی اپنا جھوٹا و خود ساختہ ق ادی انی اسلام پھیلانے میں شب و روز مشغول ہیں۔
تحریکِ انصاف کے بانی عمران خان سے ہزار اختلاف اور شدید ترین نفرت کے باوجود میں نے آج تک اسے ق ادیان ی نہیں لکھا۔ کیونکہ اس کی تمام تر خرافات کے باوجود شرعی طور پہ میرے پاس ایسے مستند ثبوت موجود نہیں۔ کہ میں اسے ق ادیان ی قرار دے کے عنداللہ مجرم بنوں۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ عمران خان جان بوجھ کے ( اقتدار کی خاطر ) یا بھولے سے ( اپنی جھالت کی وجہ سے ) جن عالمی شی طانوں کا مہرہ بنا ہوا ہے اور ان کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے۔ ان میں ایک عالمی شی طان کا نام ق ادیان یت یا مر زا ئیت ہے۔
آپ میں سے اکثر دوستوں کو یاد ہوگا۔ کہ 2018 میں عمران خان نے اپنی حکومت کے معاونین کے طور پہ کئی نامور ق ادیان ی بیرونی ممالک سے بلوائے تھے۔ جو بعد ازاں عوام کے پرزور احتجاج پہ واپس بھجوا دیے گئے تھے۔
اس لیے یہ تو طے ہے۔ کہ اس کی جماعت میں بہت سے اہم افراد کا تعلق ق ادیا نی گروہ سے ہے۔
اور جس کسی نے بھی اسے 20 ستمبر کو “ مشنِ نور “ منانے کا مشورہ دیا ہے وہ تو سو فیصد پکا ق ادیان ی ہے۔
تحریک انصاف میں موجود اکثریت صحیح العقیدہ مسلمانوں پہ مشتمل ہے۔
ان سے میں یہ گذارش کرنا چاہوں گا۔
آپ اپنی گھروں کی چھتوں پہ ہی نہیں۔ پاکستان میں جہاں جہاں آپ کا بس چلتا ہے۔ وہاں اپنے لیڈر کی رہائی کے لیے صبح دوپہر شام رات جب چاہیں اذانیں دیں۔ لیکن نہ تو اسے “ مشنِ نور “ کا نام دیں۔ اور نہ ہی یہ کام 20 ستمبر کو کریں۔ تاکہ ایک اسلام کے باغی غیر مسلم گروہ سے آپ کی مشابہت نہ ہو۔
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا۔
وما علینا الا البلاغ
تحریر و جستجو؛ صاحبزادہ ضیاءالرحمٰن ناصر
نوٹ۔!
اس مضمون کی تیاری کے لیے ق ادی انیوں کی مختلف ویب سائٹس اور اہم تصاویر کے لیے ق ادیا نیوں کے مخزنِ تصاویر میں گُھسنا پڑا۔!