𝐇𝐀𝐀𝐒𝐇𝐈𝐘𝐀 𝐀𝐓𝐓𝐎𝐂𝐊 𝐏𝐀𝐊𝐈𝐒𝐓𝐀𝐍

  • Home
  • Pakistan
  • Attock City
  • 𝐇𝐀𝐀𝐒𝐇𝐈𝐘𝐀 𝐀𝐓𝐓𝐎𝐂𝐊 𝐏𝐀𝐊𝐈𝐒𝐓𝐀𝐍

𝐇𝐀𝐀𝐒𝐇𝐈𝐘𝐀 𝐀𝐓𝐓𝐎𝐂𝐊 𝐏𝐀𝐊𝐈𝐒𝐓𝐀𝐍 حاشیہ ایک اصلاحی و تربیتی پلیٹ فارم ہے جہاں حتی الامکان کوشش کی جاتی ہے کہ نسلِ نو کو موجودہ چیلنجز سے مقابلہ سکھایا جاتا ہے۔

اسرائیل غزہ کی آوازوں کو خاموش کرنا چاہتا ہے، تاکہ جرائم خاموشی اور بغیر کوریج کے ہو، کہ یہ واویلا اور شور نہ مچائیں، ان...
07/04/2025

اسرائیل غزہ کی آوازوں کو خاموش کرنا چاہتا ہے، تاکہ جرائم خاموشی اور بغیر کوریج کے ہو، کہ یہ واویلا اور شور نہ مچائیں، ان 11 صحافیوں نے خاموش نہ رہنے کی یہ قیمت چکائی ہے۔💔💔💔

فلسطینی صحافی جنہیں خانیونس میں رات زندہ جلایا گیا

15/05/2024

My whatsapp channel link:

10/04/2024

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم!

تمام احباب کو عیدالفطر مبارک ہو اور دست بدست اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ اپنے پیارے حبیب ہمارے آقا و مولا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے میں ہم سب کو ہر قسم کے شروروآفات سے اپنی پناہ میں رکھے اور تمام روحانی و جسمانی بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ ہمیں مقصد حیات کو اچھی طرح سمجھنے کے قابل بنا کر اس امت کے لیے مفید اور کارآمد بنائے۔ آمین

عید چوں کہ خالصتاً اسلامی تہوار ہے اور یہ مسلمانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا تحفہ ہے اس لیے عید کے متعلق ناشکری یا ناپسندیدگی کا اظہار کرنا کسی صورت بھی مناسب نہیں ہے۔ اس لیے ایسے الفاظ یا ایسے طریقوں سے اجتناب کیا جائے جو ناشکری یا ناپسندیدگی کے زمرے میں آتے ہوں۔
عید کے موقع پر ساری ناراضگیاں گلے شکوے دور کریں اور خندہ پیشانی اور فراغ دلی کے ساتھ راضی ہوں راضی کریں۔اس دن روٹھے ہوؤں کو منائیں، انائیں، ناراضگیاں، چھوٹا بڑا پن یہ سب ایک طرف رکھ کر خوشی خوشی سے عزیز و اقارب سے ملیں، دعاؤں کا اہتمام کریں، مشکلات و تکالیف میں مبتلا مسلمانوں کے لیے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی ہر ممکن اور ہرطرح سے مدد کریں۔
خوشی منائیں مگر ان مسلمانوں کو بھی ذہن میں لازمی رکھیں جو اس وقت سختی اور کس مپرسی میں مبتلا ہیں خاص کر فلسطین کے مسلمانوں کا خیال کسی کسی صورت بھی ذہن سے نہیں نکلنا چاہیے۔

نصرت عزیز(اٹک شہر)

15/07/2023

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عیسائیوں کے ایک قلعہ کا محاصرہ کیا تو ان کا سب سے بوڑھا پادری آپ کے پاس آیا اس کے ہاتھ میں انتہائی تیز زھر کی ایک پڑیا تھی اس نے حضرت خالد بن ولید سے عرض کیا کہ آپ ھمارے قلعہ کا محاصرہ اٹھا لیں اگر تم نے دوسرے قلعے فتح کر لئے تو اس قلعہ کا قبضہ ھم بغیر لڑائی کے تم کو دے دیں گے۔ 🔥

‏حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا
‏نہیں ہم پہلے اس قلعہ کو فتح کریں گے بعد میں کسی دوسرے قلعے کا رخ کریں گے یہ سن کر بوڑھا پادری بولا اگر تم اس قلعے کا محاصرہ نہیں اٹھاؤ گے تو میں یہ زھر کھا کر خودکشی کر لوں گا اور میرا خون تمہاری گردن پر ھوگا حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ فرمانے لگے
‏یہ ناممکن ہے کہ تیری موت نہ آئی ھو اور تو مر جائے
‏بوڑھا پادری بولا اگر تمہارا یہ یقین ہے تو لو پھر یہ زھر کھا لوحضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ نے وہ زھر کی پڑیا پکڑی اور یہ دعا بسم الله وبالله رب الأرض ورب السماء الذي لا يضر مع اسمه داء پڑھ کر وہ زھر پھانک لیا اور اوپر سے پانی پی لیا۔ ♥️

‏بوڑھے پادری کو مکمل یقین تھا کہ یہ چند لمحوں میں موت کی وادی میں پہنچ جائیں گے مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ چند منٹ آپ کے بدن پر پسینہ آیا اس کے علاوہ کچھ بھی نہ ہوا، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پادری سے مخاطب ھو کر فرمایا دیکھا اگر موت نہ آئی ھو تو زھر کچھ نہیں بگاڑتا پادری کوئی جواب دئیے بغیر اٹھ کر بھاگ گیا اور قلعہ میں جا کر کہنے لگا۔♥️

‏اے لوگو میں ایسی قوم سے مل کر آیا ہوں کہ خدا تعالٰی کی قسم اسے مرنا تو آتا ہی نہیں وہ صرف مارنا ہی جانتے ھیں جتنا زِہر ان کے ایک آدمی نے کھا لیا اگر اتنا پانی میں ملا کر ہم تمام اہلِ قلعہ کھاتے تو یقیناً مر جاتے مگر اس آدمی کا مرنا تو درکنار وہ بیہوش بھی نہیں ہوا۔ میری مانو تو قلعہ اس کے حوالے کر دو اور ان سے لڑائی نہ کرو چنانچہ وہ قلعہ بغیر لڑائی کے صرف حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ کی قوت ایمانی سے فتح ہو گیا۔ ♥️
‏اللہ_اکبر

‏(تاریخ ابن عساکر)

https://www.facebook.com/100063638923293/posts/750256623772295/?mibextid=cr9u03
12/07/2023

https://www.facebook.com/100063638923293/posts/750256623772295/?mibextid=cr9u03

پرٹوکول کا ایک واقعہ
‏*مفتی تقی عثمانی صاحب جب سپریم کورٹ کے جج تھے*

‏سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے ہمیں معمول کے مطابق جو پروٹوکول دیا جاتا تھا مجھے اپنی سادگی پسند طبیعت کی وجہ سے اس کے بعض پہلو گراں معلوم ہوتے تھے لیکن عملی طور پر میں اس کی ضرورت کا قائل تھا کیونکہ وہ عدالت عظمی کے وقار کا تقاضہ تھا مثلاً جب ہماری گاڑی جس پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہراتا تھا پولیس کے کسی اہلکار کے سامنے آتی تو وہ اٹینشن کی پوزیشن میں آ کر سلامی دیا کرتا تھا۔
‏ایک مرتبہ ہماری بینچ کا اجلاس کراچی کے ہائی کورٹ کی عمارت میں ہو رہا تھا عدالتی کام سے فارغ ہو کر جب میں اپنے جھنڈے والی کار میں بیٹھ کر ہائی کورٹ سے روانہ ہوا تو پولیس کے اہلکار حسب معمول سلامی دیتے رہے ہائی کورٹ سے نکلنے کے بعد میرے ڈرائیور نے بتایا کہ اس کے گھر میں کوئی فوری ضرورت پیش آگئی ہے اور وہ مجھے گھر پہنچا کر واپس شہر آئے گا میں نے سوچا کہ اس بے چارے کو یہ ناگہانی ضرورت درپیش ہے اور اگر یہ مجھے دارالعلوم پہنچا کر واپس بس میں آئے گا تو بہت دیر ہو جائے گی اس لیے میں نے اس سے کہا کہ وہ یہیں سے اپنے گھر چلا جائے اور گاڑی پر سے جھنڈا اتار کر مجھے گاڑی دیدے میں خود کار چلا کر دارلعلوم چلا جاؤں گا ڈرائیور شروع میں اس پر تیار نہیں تھا لیکن میں نے اصرار کرکے اسے آمادہ کر لیا۔ اس نے گاڑی سے جھنڈا اتارا اور میں نے ڈرائیور کی سیٹ پر آکر گاڑی خود چلانی شروع کر دی چونکہ مدت سے خود گاڑی چلانے کی نوبت نہیں آئی تھی اس لیے تھوڑا تکلف ضرور ہوا لیکن پھر روانی آ گئی البتہ اب یہ یاد نہیں رہا تھا کی کونسی سڑک یکطرفہ (ون وے) ہے اور کون سی دو رویہ۔ چنانچہ میں نے صدر کے علاقے میں گاڑی ایک ایسی سڑک پر موڑ دی جو ون وے تھی اور وہاں موڑنا ٹریفک کے قاعدے کے خلاف تھا ابھی میں اس سڑک پر توڑا ہی سا مڑا تھا کہ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا اور میں اس غلطی کی تلافی کی فکر کر ہی رہا تھا کہ ایک ٹریفک کانسٹیبل نے مجھے روک کر بڑی غصیلے لہجے میں کہا نظر نہیں آتا کہ یہ ون وے ہے میں نے گاڑی روکی اور اس سے کہا واقعی مجھ سے غلطی ہوگئی ہے مجھے یاد نہیں رہا تھا کہ یہ سڑک ون وے ہے اس نے پھر سخت لہجے میں کہا یاد نہیں رہا تھا تو یہ بورڈ نظر نہیں آرہا میں نے پھر معذرت کی لیکن اس نے میرا چالان لکھنا شروع کر دیا میں نے کہا کہ واقعی مجھ سے غلطی ہوئی ہے آپ بیشک چالان کر دے اتنے میں کوئی شخص جو مجھے پہچانتا تھا وہاں مجھے دیکھ کر رکا اور اس نے پولیس والے سے کہا کہ یہ سپریم کورٹ کے جج ہے تم ان سے کیوں الجھ رہے ہو اسے جب یہ پتا چلا کہ میں سپریم کورٹ کا جج ہو تو اس کی حالت غیر ہوگئی وہ بڑی لجاجت کے ساتھ میرے پاس آیا اور معافی مانگنے لگا میں نے کہا کہ تم نے اپنا فرض ادا کیا ہے اس لیے تم نے کوئی غلطی نہیں کی البتہ جب بھی ایسا واقعہ پیش آئے تو اپنا لہجہ سخت نا کیا کرو چالان کرنا تمہاری ذمہ داری ہے لیکن چالان اخلاق کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اس کے بعد میں نے اسے چالان لکھنے کیلئے کہا تو ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوگیا کہ سر میں یہ گستاخی نہیں کر سکتا میں نے کہا یہ گستاخی نہیں ہے تمہارا فرض ہے کہ چالان کرو آخرکار میں نے اسے چالان کرنے پر مجبور کر ہی لیا ۔
‏کسی بڑے عہدے پر پہنچنے کے بعد اس قسم کے واقعات سے اللہ تعالی انسان کو اس کی حقیقت یاد دلاتے رہتے ہیں

‏شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کی سوانح ْ۔یادیں ۔ْ

https://www.facebook.com/100063638923293/posts/747968614001096/?mibextid=cr9u03
09/07/2023

https://www.facebook.com/100063638923293/posts/747968614001096/?mibextid=cr9u03

سومنات کا مندر اتنا بڑا تھا کہ ہندوستان کے سب راجے اس کے لیے جاگیریں وقف کرتے، اپنی بیٹیوں کو خدمت کے لیے وقف کرتے جوکہ ساری عمر کنواری رہتیں اور انہیں دیوداسیاں کہا جاتا، ہر وقت 2000 برہمن پوجا پاٹ کرنے کے لیے حاضر ہوتے اور 500 گانے بجانے خوبصورت عورتیں اور 300 قوال ملازم تھے، سومنات کے بت کی چھت 56 ستونوں پہ قائم تھی وہاں مصنوعی یا سورج کی روشنی کا بندوبست بالکل بھی نہیں تھا بلکہ ہال کے قندیلوں میں جڑے اعلیٰ درجے کے جواہرات روشنی مہیا کرتے تھے،
‏ﷲ کے دلاور سلطان محمود غزنوی بت شکن نے سونے و چاندی کے چھوٹے چھوٹے بتوں کو روندنے کے بعد بادشاہ بت کے سامنے جا کھڑے ہوئے، یہ بت 6 فٹ زمین کے اندر اور 9 فٹ زمین سے بلند تھا-
‏اسی دوران شہر کے معزز سمجھے جانے والے ہندوؤں نے منہ مانگی مال و دولت کی پیش کش کی کہ سومنات کے بادشاہ بت کو کچھ نا کہیں، تو سلطان محمود غزنوی کے دیسی دانشوروں نے مشورہ دیا کہ پتھر کو توڑنے کا کیا فائدہ جبکہ مال ودولت مسلمانوں کے کام آئے گا(یہی کنویں میں کتے والی سوچ ہمارے آجکل کے حکمرانوں کی بے کہ جہاد میں کیا فائدہ ہم اپنی معیشت مضبوط کرتے ہیں)
‏سلطان محمود غزنوی نے دیسی دانشوروں کی بات سُن کر کہا کہ "اگر میں نے تمھاری بات مان لی تو دنیا اور تاریخ مجھےبت فروش کہے گی جبکہ میری چاہت یہ ہے کہ دنیا و آخرت میں مجھے محمود بُت شکن کے نام سے پکارا جائے"
‏یہ کہتے ہی محمود بُت شکن کی توحیدی غیرت جوش میں آئی اور ہاتھ میں پکڑا ہوا گرز سومنات کے دے مارا، اس کا منہ ٹوٹ کر دور جا گرا، پھر سلطان کے حکم پہ اس کے دو ٹکڑے کیے گئے تو اس کے پیٹ سے اس قدر بیش بہا قیمتی ہیرے، جواہرات اور موتی نکلے کہ جو ہندو معززین اور راجوں کی پیش کردہ رقم سے 100 گنا زیادہ تھے

‏محمود غزنوی نے وہ بت توڑا جو فتح مکہ سے ایک رات قبل بنو اُمیہ کے سردار نے کعبہ سے ٹرانسفر کروایا تھا کہ اسے سنبھال کے رکھنا ، ہم لینے آئیں گے ، وہ تو نہ آسکے لیکن بنو ہاشم سے محمود غزنوی ضرور پہنچ گیا توڑنے ..

‏اسی لئے کافر مورخین سلطان کو ڈاکو کہتے ہیں .. جبکہ اسلام اسے مال غنیمت کہتا ہے ۔
‏یاد رکھیں غیرت مند مسلمان بت شکن ہے... بت فروش نہیں..

‏ بت شکن سلطان محمود غزنوی رح وہ ہستی ہے، جب ظاہر شاہ کی
‏ حکومت میں 1974 ء کو زلزلہ
‏ آیا ، محمود غزنوی کی قبر پھٹ گئی۔ منتظمین نے قبر کو ٹھیک کرنے کیلئے پوری قبر کھول دی۔ اس کو مرے ہوئے 1000 سال ہو گئے تھے۔ ان کی قبر میں عجیب منظر تھا، اس کا کفن تک میلا نہیں ہوا تھا۔ 1000 سال بعد بھی اس کا کفن ویسے کا ویسا ہی تھا۔ اس کاہاتھ سینے پر تھا اور کفن سینے سے کھلا ہوا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے اسے آج ہی کوئی قبر میں اتار کر گیا ہے۔ اس کے ہاتھ کو ہاتھ لگایا گیا تو وہ نرم و نازک تھا۔ ساری دنیا میں اس بات کی خبر پھیل گئی۔اللہ کے دین ، ملک و ملت کی حفاظت کرنے والوں کو اللہ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی بلند مقام عطا کرتا ہے۔🌺

23/04/2023

Address

Attock City

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when 𝐇𝐀𝐀𝐒𝐇𝐈𝐘𝐀 𝐀𝐓𝐓𝐎𝐂𝐊 𝐏𝐀𝐊𝐈𝐒𝐓𝐀𝐍 posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Category