12/07/2023
https://www.facebook.com/100063638923293/posts/750256623772295/?mibextid=cr9u03
پرٹوکول کا ایک واقعہ
*مفتی تقی عثمانی صاحب جب سپریم کورٹ کے جج تھے*
سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے ہمیں معمول کے مطابق جو پروٹوکول دیا جاتا تھا مجھے اپنی سادگی پسند طبیعت کی وجہ سے اس کے بعض پہلو گراں معلوم ہوتے تھے لیکن عملی طور پر میں اس کی ضرورت کا قائل تھا کیونکہ وہ عدالت عظمی کے وقار کا تقاضہ تھا مثلاً جب ہماری گاڑی جس پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہراتا تھا پولیس کے کسی اہلکار کے سامنے آتی تو وہ اٹینشن کی پوزیشن میں آ کر سلامی دیا کرتا تھا۔
ایک مرتبہ ہماری بینچ کا اجلاس کراچی کے ہائی کورٹ کی عمارت میں ہو رہا تھا عدالتی کام سے فارغ ہو کر جب میں اپنے جھنڈے والی کار میں بیٹھ کر ہائی کورٹ سے روانہ ہوا تو پولیس کے اہلکار حسب معمول سلامی دیتے رہے ہائی کورٹ سے نکلنے کے بعد میرے ڈرائیور نے بتایا کہ اس کے گھر میں کوئی فوری ضرورت پیش آگئی ہے اور وہ مجھے گھر پہنچا کر واپس شہر آئے گا میں نے سوچا کہ اس بے چارے کو یہ ناگہانی ضرورت درپیش ہے اور اگر یہ مجھے دارالعلوم پہنچا کر واپس بس میں آئے گا تو بہت دیر ہو جائے گی اس لیے میں نے اس سے کہا کہ وہ یہیں سے اپنے گھر چلا جائے اور گاڑی پر سے جھنڈا اتار کر مجھے گاڑی دیدے میں خود کار چلا کر دارلعلوم چلا جاؤں گا ڈرائیور شروع میں اس پر تیار نہیں تھا لیکن میں نے اصرار کرکے اسے آمادہ کر لیا۔ اس نے گاڑی سے جھنڈا اتارا اور میں نے ڈرائیور کی سیٹ پر آکر گاڑی خود چلانی شروع کر دی چونکہ مدت سے خود گاڑی چلانے کی نوبت نہیں آئی تھی اس لیے تھوڑا تکلف ضرور ہوا لیکن پھر روانی آ گئی البتہ اب یہ یاد نہیں رہا تھا کی کونسی سڑک یکطرفہ (ون وے) ہے اور کون سی دو رویہ۔ چنانچہ میں نے صدر کے علاقے میں گاڑی ایک ایسی سڑک پر موڑ دی جو ون وے تھی اور وہاں موڑنا ٹریفک کے قاعدے کے خلاف تھا ابھی میں اس سڑک پر توڑا ہی سا مڑا تھا کہ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا اور میں اس غلطی کی تلافی کی فکر کر ہی رہا تھا کہ ایک ٹریفک کانسٹیبل نے مجھے روک کر بڑی غصیلے لہجے میں کہا نظر نہیں آتا کہ یہ ون وے ہے میں نے گاڑی روکی اور اس سے کہا واقعی مجھ سے غلطی ہوگئی ہے مجھے یاد نہیں رہا تھا کہ یہ سڑک ون وے ہے اس نے پھر سخت لہجے میں کہا یاد نہیں رہا تھا تو یہ بورڈ نظر نہیں آرہا میں نے پھر معذرت کی لیکن اس نے میرا چالان لکھنا شروع کر دیا میں نے کہا کہ واقعی مجھ سے غلطی ہوئی ہے آپ بیشک چالان کر دے اتنے میں کوئی شخص جو مجھے پہچانتا تھا وہاں مجھے دیکھ کر رکا اور اس نے پولیس والے سے کہا کہ یہ سپریم کورٹ کے جج ہے تم ان سے کیوں الجھ رہے ہو اسے جب یہ پتا چلا کہ میں سپریم کورٹ کا جج ہو تو اس کی حالت غیر ہوگئی وہ بڑی لجاجت کے ساتھ میرے پاس آیا اور معافی مانگنے لگا میں نے کہا کہ تم نے اپنا فرض ادا کیا ہے اس لیے تم نے کوئی غلطی نہیں کی البتہ جب بھی ایسا واقعہ پیش آئے تو اپنا لہجہ سخت نا کیا کرو چالان کرنا تمہاری ذمہ داری ہے لیکن چالان اخلاق کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اس کے بعد میں نے اسے چالان لکھنے کیلئے کہا تو ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوگیا کہ سر میں یہ گستاخی نہیں کر سکتا میں نے کہا یہ گستاخی نہیں ہے تمہارا فرض ہے کہ چالان کرو آخرکار میں نے اسے چالان کرنے پر مجبور کر ہی لیا ۔
کسی بڑے عہدے پر پہنچنے کے بعد اس قسم کے واقعات سے اللہ تعالی انسان کو اس کی حقیقت یاد دلاتے رہتے ہیں
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کی سوانح ْ۔یادیں ۔ْ