09/10/2025
سیاسی مارکیٹنگ یا کچھ اور
سہیل آفریدی علی امین گنڈاپور کا رائٹ ہینڈ ، تبدیلی کی توقع کیسے
کیا عمران خان رہائی تحریک تیز ہوگی ؟
خیبرپختونخوا کی سیاست میں حالیہ پیش رفت، یعنی علی امین گنڈاپور کے بعد سہیل آفریدی کو وزیراعلیٰ بنانا، بظاہر ایک بڑی تبدیلی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، مگر سیاسی حالات اور پارٹی کے اندرونی ڈھانچے کا جائزہ لینے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ محض ایک ہی گروپ کے اندر چہروں کی تبدیلی ہے، نہ کہ کسی نئی پالیسی یا حکمت عملی کا آغاز۔ علی امین گنڈاپور اور سہیل آفریدی دونوں پاکستان تحریک انصاف کے اُس بنیادی دھڑے سے تعلق رکھتے ہیں جو پارٹی قیادت اور فیصلہ ساز حلقوں کے قریب سمجھا جاتا ہے۔ گنڈاپور کے دور میں فیصلے اسلام آباد یا پارٹی کے مرکزی حلقوں سے ہوتے تھے، اور سہیل آفریدی بھی اسی انداز میں پارٹی پالیسی پر عمل درآمد کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ان کی تقرری میں کسی نئی سوچ یا آزاد قیادت کو موقع نہیں دیا گیا، بلکہ پرانے ہی دھارے کو برقرار رکھا گیا ہے۔
پارٹی کے اندر پالیسی سازی کا نظام وہی ہے جو پہلے تھا۔ صوبائی حکومت محض مرکزی قیادت اور فیصلہ ساز قوتوں کے درمیان توازن برقرار رکھنے کا ایک آلہ ہے۔ نہ کابینہ میں کسی بڑی سطح پر تبدیلی متوقع ہے، نہ طرزِ حکمرانی میں۔ سہیل آفریدی کو آگے لانا دراصل پارٹی کے اندرونی دباؤ کو کم کرنے اور عوام کو تبدیلی کا تاثر دینے کی کوشش ہے، ورنہ اصل میں سب کچھ ویسا ہی رہنے والا ہے جیسا گنڈاپور کے دور میں تھا۔ عمران خان کی رہائی کے حوالے سے بھی کسی بڑی تحریک یا تیز تر حکمت عملی کی امید نہیں۔ پارٹی نے پہلے ہی طے کر رکھا ہے کہ اس معاملے کو قانونی راستے سے آگے بڑھایا جائے گا، نہ کہ عوامی مزاحمتی تحریک کے ذریعے۔ سہیل آفریدی بھی مزاحمتی سیاست کے بجائے مفاہمتی رویہ رکھنے والے سمجھے جاتے ہیں، اس لیے تحریک کے تیز ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
یہ ساری تبدیلی دراصل سیاسی مارکیٹنگ کا حصہ ہے تاکہ عوام کو یہ تاثر دیا جا سکے کہ حکومت میں نیا دور شروع ہو رہا ہے، حالانکہ زمینی حقائق بالکل برعکس ہیں۔ نہ ترقیاتی منصوبوں میں کوئی انقلابی تبدیلی متوقع ہے، نہ بجٹ یا اختیارات کی تقسیم کے حوالے سے کوئی نئی پالیسی سامنے آئی ہے۔ اصل طاقت اور فیصلہ سازی وہی پرانے مراکز میں ہے، اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ یہ صرف چہروں کی تبدیلی ہے، نظام کی نہیں۔ گنڈاپور اور سہیل آفریدی ایک ہی صف کے سپاہی ہیں، اس لیے نہ صوبائی سطح پر کوئی واضح تبدیلی آئے گی اور نہ عمران خان کی رہائی کی تحریک میں کوئی حقیقی تیزی دیکھنے کو ملے گی۔ عوام کے لیے صورتحال پہلے جیسی ہی رہے گی، بس نام بدل گیا ہے۔