
02/05/2024
میں نے کہا ذرا سنئے، مُنے کے ابا
آجی منے کے ابا سنتے ہو ، کھانا تیار ہے سب آپ کا انتظار کر رہے ہیں ، آجی سننا بازار سے آتے ہوئے دودھ لیتے آنا مہمان آرہے ہیں اور دودھ ختم ہے ، اوئے وہ میرا سویٹر کہاں رکھا ہے نہیں مل رہا اس جیسے فقرے اور مکالمے اب ناپید ہوگئے ہیں جو روزانہ گھروں میں میاں بیوی کے درمیان ہوا کرتے تھے یعنی حیا اور لجا کے مارے شوہر اور بیوی ایک دوسرے کو نام سے نہیں پکارا کرتے تھے بلکہ دو دہائیاں قبل تک بیوی کا شوہر کو نام لے کر پکارنا سب سے بڑی بے ادبی تصور ہوتا تھابیویوں نے اپنے شوہروں کو مخاطب کرنے کے لئے مختلف نام اور اشارے مخصوص کر رکھے تھے کوئی بھی بیوی اپنے شوہر کو نام لے کر نہیں مخاطب کرتی تھی جبکہ آج بھی صوبہ خیبر پختونخوا کے دیہی علاقوں میں عموما اور شہری علاقوں میں خصوصا بیویاں اپنے جیٹھوں اور شوہروں سے گھونگھٹ بھی نکالا کرتی تھیں مگر اب زمانہ بدل گیا ہے بیویوں نے شوہروں کو نام سے پکارنا شروع کردیا ہے جبکہ خاوندبیویوں کے نام نہیں لے سکتے جبکہ بیویوں نے انڈین سوپ سے متاثر ہوکر محبت کی آڑ لے کر شوہروں کے مختلف نام رکھے ہیں جن میں جانو، جان، سویٹو، سویٹی ، سویٹ جیسے نام شامل ہیں پرانے وقتوں میں کوئی بیوی جب اپنے خاوند کو بلاتی تھی تو میں نے کہا، ،سننا، منے کے ابا، جیسے فقرے بولے جاتے تھے شوہر کو مخاطب کرنے کے لئے سب سے بڑے بچے یا بچی یا پھر چھوٹے بچے بچی کا نام استعمال کیا جاتا تھا اگر جواب نہ ملتا تو پھر وہی فقرہ کچھ انتظار کے بعد دہرایا جاتاباربار آواز دینا یا مخاطب کرنا انتہائی بے ادبی اور بد تہذیبی کے زمرہ میں آتی تھی ایک بزرگ خاتون کے مطابق شادی سے قبل انہیں ماں نے سکھایا تھا کہ خاوند کو کبھی نام سے نہیں پکارنا تب سے آج تک میں نے اسے نام سے نہیں پکاراان کا کہنا تھا کہ شوہروں کے لئے بی یہی تربیت ہوتی تھی بعض شوہر بیویوں کو نام سے پکارتے تھے جبکہ اکثریت کسی بچے کا نام لے کر اپنی بیوی کو مخاطب کرتے تھے گھروں میں ننگے سروں بیٹھنا ، فیشن کے کپڑے پہننا ،مردوں کے سامنے اونچی آواز میں بات کرنا سب سے بڑی بد تمیزی تصور ہوا کرتی تھی بغیر سر پر دوپٹہ لئے شوہرکے سامنے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا آج بھی بڑے خاندانوں میں یہ شرم وحیا موجود ہے یہ روایتیں زندہ ہیں اور ا ن گھروں میں پیار ،جھجک اور شروم ولجا بھی زندہ ہے وہاں میاں بیوی کے تعلقات بھی ٹھیک ہیں اور ان کے درمیان کوئی خلیج حائل نہیں مگر جن خاندانوں میں جوں جوں حیا کے پردے اٹھتے گئے وہاں سماجی برائیوں نے جڑیں مضبوط کر لیں آج ہر گھر میں لڑائیاں ہیں سکون نہیں نفرتوں کی دیواریں ہیں عجیب سا دور ہے دلہا دلہن خود اپنی شادیوں میں ناچتے ہیں دلہن شادی کے دن چہکتی ہے اورڈانس بھی کر لیتی ہے کوئی بیوی نہ شوہر سے گھونگھٹ نکالتی ہے اور نہ ہی پردہ کرتی ہے اور نہ ہی نیچی آواز میں بات کرتی ہے اور رفتہ رفتہ آنے والے دور میں کو تھوڑی بہت مٹھاس ان رشتوں میں باقی ہے وہ ختم ہورہی ہے