29/09/2023
کردار کیا ہے؟
(قاسم علی شاہ)
پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح، گورنرجنرل ہاؤس کراچی میں مقیم تھے اور کبھی کبھی سیر کے لیے ملیر چلے جاتے۔ ایک دن کسی ریلوے پھاٹک کو کراس کررہے تھے کہ پھاٹک بند ہوگیا۔ ان کے اے ڈی سی گل حسن اترے اور پھاٹک والے سے کہا کہ اگر ریل گاڑی دور ہے تو پھاٹک کھول دو، کار میں قائداعظم بیٹھے ہیں۔ پھاٹک کھل گیا اور اے ڈی سی جیسے ہی واپس گاڑی میں بیٹھے تو قائد اعظم نے کہا: ’’واپس جائو اور پھاٹک بند کرو۔ قانون سب کے لیے قانون ہوتا ہے۔ تم مجھ سے بے اصولی کی توقع کیسے کررہے ہو؟‘‘
قائد اعظم کے پختہ کردار کے حوالے سے ایک واقعہ اور بھی ہے۔ ایک مرتبہ ممبئی کے تاج محل ہوٹل میں محفل جمی تھی، جہاں پاکستان کے بارے میں باتیں ہو رہی تھیں۔ حاضرین نے تحریک پاکستان کے بارے میں مضحکہ خیز باتیں شروع کردیں۔ ایک مسلمان کانگریسی سیاست دان نے قائد اعظم کے ساتھیوں کو انگریزوں کا زرخرید کہہ دیا، یہ سنتے ہی مسز سروجنی نائیڈو کے تیور بدل گئے۔ انھوں نے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’کیا کہا تم نے؟ جناح اور ان کے ساتھی زرخرید ہیں! غور سے میری بات سن لو تم بک سکتے ہو، میں خریدی جاسکتی ہوں، گاندھی اور جواہر لال نہرو کا سودا بھی شاید ہوسکتا ہے مگر محمد علی جناح انمول ہے، اسے کوئی نہیں خرید سکتا۔ سیاسی نقطہ نظر سے وہ ہم سے مختلف راستے پر گامزن ہیں لیکن ان کی دیانت ہر طرح شک و شبہ سے بالا تر ہے۔‘‘
انسان کو انمول بنانے والی چیز کا نام کردار ہے۔ یہ اس کو اتنا قیمتی بنا دیتا ہے کہ پھر کوئی اپنا ہو یا غیر، اس پر آنکھیں بند کرکے اعتماد کرتا ہے۔ ایک باکردار انسان معاشرے کا حسن اورایک مثبت چہرہ ہوتا ہے۔ اگر تاریخ پر نظر دوڑائیں تومعلوم ہوگا کہ جن شخصیات نے بھی قوموں کی تقدیر بدلی ہے، کردار ان کی پہلی خوبی رہی ہے۔ درحقیقت قدرت بھی اسی شخص سے قیاد ت کا کام لیتی ہے جو کردار میں بھی اعلیٰ ہو۔ کردار معاشرے کا وہ بنیادی ستون ہے جس پر معاشرے کا پورااخلاقی نظام کھڑا ہوتا ہے اور بدقسمتی سے اگر یہ ستون کمزور ہوجائے تو پورا نظام دھڑام سے گر جاتا ہے۔ ماضی کے واقعات میں جھانک کر ہم یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ جو بھی قوم کردار کے اعتبار سے کمزور ہوئی تو پھر وہاں حرص و ہوس، لالچ اور خودغرضی کی فضا عام ہوئی جو ان کے زوال کی وجہ بنی۔
کردار کیا ہے؟
کردار اپنے ساتھ ایک وعدے کا نام ہے۔ یہ روز کا امتحان ہے جس میں آپ کو سرخ رو ہونا پڑتا ہے۔ یہ روز کا محاسبہ ہے جس میں آپ خود کو اپنی ہی عدالت میں کھڑا کرتے ہیں اور اس بات کا احتساب کرتے ہیں کہ میں نے اپنے ساتھ کیے گئے وعدے کو کس حد تک نبھایا، میں کہیں کمزور تو نہیں پڑگیا، اور اگر کوئی غلطی ہوئی ہے تو کیوں؟ اس وعدے کو نبھانے والا اور اپنا محاسبہ کرنے والا انسان پھر معاشرے میں منفرد بن جاتا ہے کیوں کہ وہ صاحب کردار ہوتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں کردار کے بارے میں چند غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جس انسان کے پاس پیسہ زیادہ ہو، جو فیکٹریوں اور کارخانوں کا مالک ہوتو وہ کردار والا ہوتا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ پیسوں کی فراوانی کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ بندہ صاحب کردار بھی ہے، اگر ایسا ہوتا تو آج نیب میں خوش حال لوگوں کے کیس نہ پڑے ہوتے جن پر اربوں روپے کے کرپشنز کے الزامات ہیں۔ دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ جس کے پاس وسائل زیادہ ہوں تو وہ باکردار ہوتا ہے۔ یہ بات بھی درست نہیں کیوں کہ بہت سارے پرتعیش زندگی جینے والے لوگ بھی آپ کو کردار سے خالی مل جائیں گے۔
معاشرے نے کردار کو تین بڑی برائیوں کے ساتھ جوڑا ہے۔ شراب، بدکاری اور کرپشن۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کردار کی بڑی تصویر میں چھوٹے چھوٹے حصے ہیں۔ کردار کا مطلب ہے پیشہ ورانہ اخلاقیات۔ آپ کے اوپر جس حیثیت سے جس قدر بھی ذمہ داری عائد ہے آپ ان سب کو بہترین انداز میں نبھائیں۔ آپ اگر نوکری کرتے ہیں تو دفتر کا وقت آپ کے پاس امانت ہے جس میں آپ نے پوری انرجی کے ساتھ دفتری کاموں کو پورا کرنا ہے۔ آپ اگر کسی کے باپ / شوہریا ماں / بیوی ہیں تو اس ذمہ داری کو آپ نے پوری ایمان داری سے نبھانا ہے۔ آپ کسی ملک کے رہنے والے شہری ہیں تو آپ نے وہاں کے قوانین کا پورا پورا خیال رکھنا ہے۔
ہم اگر اپنی پوری زندگی کو 70سال کی عمرفرض کرلیں اور پھر اس بات کا جائزہ لیں کہ ہماری زندگی کا سب سے زیادہ وقت کس چیز میں گزرا ہے تو معلوم ہو گا کہ نوکری کرتے یا کاروبار کرتے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارا ذریعہ معاش ہماری زندگی کا ’’پرائم ٹائم‘‘ ہوتاہے۔ اس پرائم ٹائم میں سب سے زیادہ کردار کی ضرورت ہوتی ہے کیوں کہ یہ پرائم ٹائم اگر کردار کے بغیر گزرگیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس شخص نے بددیانتی اور بداخلاقی کے ساتھ رزق کمایا ہے، اسی سے اپنے بچوں کا پیٹ پالا ہے اور یہ چیز اس کے لیے شدید خسارے کا باعث بنے گی۔
یاد رکھیں کہ کردار کو ہم صرف عبادات تک محدود نہیں کرسکتے۔ معاشرے میں آ پ کو بہت سارے حاجی اور نمازی ملیں گے لیکن وہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں میں کمزوری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ لوگ اللہ کے ساتھ نماز میں وعدیٰ کرکے توآتے ہیں کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو ایمان داری کے ساتھ پورا کریں گے لیکن اپنے اس قول پر عمل پیرا نہیں ہوتے، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عبادت گزار ہیں لیکن ان کی سوچ اور عمل میں تبدیلی نہیں لائی۔
اپنی شخصیت میں کردار کی پختگی کیسے پیدا کی جائے؟ اس مقصد کے لیے پانچ اصول ہیں۔ ان اصولوں کو جو بھی انسان اپنالے تو نہ صرف اس کی دنیا سنور سکتی ہے بلکہ وہ اخروی کامیابی کا بھی حق د ار ہوسکتا ہے۔
پہلا اصول: اس بات کا یقین کہ میرے نصیب میں جو رزق لکھا ہے، وہ مجھے مل کر رہے گا۔
معاشرے میں ایک ایسی فضا قائم ہوچکی ہے کہ ہر شخص زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے کے چکر میں ہے۔ ہم زبان سے یہ تو کہتے ہیں کہ ہر انسان اپنا رزق اپنے ساتھ لاتا ہے لیکن خوف، اندیشے اور جلد بازی کی وجہ سے اکثر اوقات ہم اس اصول کو توڑ دیتے ہیں۔ ہمیں یہ خوف ہوتا ہے کہ کہیں میں مادی چیزوں سے محروم نہ ہوجاؤں۔ اندیشہ اس بات کا ہوتا ہے کہ معلوم نہیں کل کیا ہوگا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھے یہ چیزنہ ملے اور جلد بازی تو ہماری فطرت میں داخل ہے۔
یاد رکھیں کہ رزق صرف کھانے پینے کا نام نہیں اور پیسہ جس کو ہم رزق سمجھتے ہیں وہ تو اس کی بہت ہی محدود شکل ہے۔ رزق کی سب سے بہترین شکل صحت ہے۔ رشتے بھی رزق ہیں، کیوں کہ انسان کے پاس رشتے نہ ہوں تو پھر اس کی سب سے بڑی خوشی بھی پھیکی ہوتی ہے، اس کا چھوٹا سا غم بھی پہاڑ جتنا ہوتا ہے۔ رزق کی ایک اور شکل عزت بھی ہے کیوں کہ ایک انسان کی عزت کی بدولت ہی لوگ اس سے تعلق رکھنا چاہتے ہیں اور خدانخواستہ کسی کی عزت نہ رہے تو پھر قدرت اس کو مواقع بھی نہیں دیتی۔
کردار کو نبھانا تب آسان ہوتا ہے جب انسان کو اپنے رزق کے ملنے کا یقین ہو۔ اس کا اگر یہ ایمان ہو کہ دنیا اِدھر سے اُدھر ہوسکتی ہے لیکن میرا رزق مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا تو پھر وہ کبھی بھی خوف، اندیشے اور جلد بازی کا شکار نہیں ہوگا اورنہ ہی بدکرداری کا مظاہرہ کرے گا۔
دوسرااصول:اللہ تعالیٰ کی صفت’’رحم‘‘ پر یقین
ہم بسم اللہ الرحمن الرحیم کیوں پڑھتے ہیں؟
اس کے پیچھے حکمت یہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی صفت رحم کو بیان کیا گیا ہے۔ دراصل یہاں ایک اشارہ ’’رحم مادر‘‘ کی طرف بھی ہے۔ ماں کے پیٹ میں موجود بچہ مکمل طور پر اللہ کے آسرے پر ہوتا ہے۔ اس کے پاس مانگنے کا شعور نہیں ہوتا لیکن پھربھی اس کو رزق ملتا ہے۔ اس کو جس طرح کے اسباب اور سازگار حالات کی ضرورت ہوتی ہے وہ بہترین انداز میں فراہم کیے جاتے ہیں۔ اب یہاں بسم اللہ پڑھنے میں مجھے اور آپ کویہ یاد دلانا مقصود ہے کہ جب رحم مادر میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں پالا ہے تو اب کیوں نہیں پالے گا؟ اسی لیے زندگی میں بیداری بہت ضروری ہے۔ بیداری کا مطلب یہی ہے کہ انسان اپنے خالق کو پہچان لے لیکن اگر وہ دنیا وی مزوں میں اتنا گم ہوجائے کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے خالق کو بھول جائے تو پھر اس کی آنکھ تب کھلتی ہے جب موت سرپر ہو لیکن اس وقت کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
بیدار انسان جب بھی اپنی زندگی پر غور کرتا ہے تو اس کے دل سے بے اختیار الحمدللہ نکلتا ہے۔
تیسرا اصول : شکرگزاری
کردار کو پختہ کرنے کا یہ تیسرا اصول ہے۔ الحمدللہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنے پاس موجود نعمتوں کا احساس ہوگیا اور ہم دل سے اپنے رب کا شکر ادا کررہے ہیں۔ ہمارے لیے سب سے بڑا شکر کا مقام صبح کا وقت ہے کہ جب رات بھر ہم موت جیسی حالت میں رہ کر صبح دوبارہ زندہ ہوتے ہیں۔ ہمارا جسم سلامت ہوتا ہے اور ہم چل پھرسکتے ہیں۔ ایک لمحے کے لیے ان لوگوں کا سوچیے جنھیں آج کے دن کا سورج دیکھنا نصیب نہیں ہوا اور ان لوگوں کے بارے میں بھی سوچیے جو ہاتھ پاؤں سے معذور ہیں وہ کس قدر دوسرے لوگوں کے محتاج ہیں۔
چوتھا اصول: ماضی میں میرے رب نے مجھے پالا، مستقبل میں بھی وہی پالے گا۔
کردار کی پختگی کا تعلق ’’کل پریقین‘‘ کے ساتھ ہے۔ ہر وہ انسان جس کا کل پر یقین نہیں ہے تو اس کے لیے باکردار رہنا بھی مشکل ہے۔ کل پر یقین اسی انسان کا ہوتا ہے جواپنے ماضی پر نظر ڈالتا ہے کہ میرے رب نے کیسے کیسے عجیب اور ناممکن حالات میں بھی میرے اوپر کرم کیا۔ کرم وہ ہوتا ہے جو انسان کو اس کی اوقات سے زیادہ مل جائے اور اگر غورکیاجائے تو ہم میں سے ہر انسان کرم یافتہ ہے کہ ہم پر ہر وقت ہماری اوقات سے زیادہ کرم کیا جا رہا ہوتا ہے۔ زندگی میں بے لوث محبتوں کا ملنا اس بات کی علامت ہے کہ اللہ آپ پرمہربان ہے لیکن یہ چیز وہی محسوس کرسکتا ہے جس کے پاس بصیرت والی آنکھ ہو۔
پانچواں اصول: ہر کام کو نیک نیتی کے ساتھ کرنا
ہر وہ شخص جو انسانوں کودکھانے کے لیے نہیں بلکہ اپنے رب کی رضا حاصل کرنے کے لیے تمام کاموں کو کرنے لگ جاتا ہے تو اس کی زندگی میں سکون آنا شروع ہوجاتا ہے۔ اللہ کی رضا کو سامنے رکھ کر زندگی گزارنے والا انسان بہترین کردار کا حامل شخص ہوتا ہے۔ یہ یادرکھیں کہ اگر کوئی انسان نیک نیتی کے ساتھ کام کرتا ہے اور اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں پوری کرتا ہے تو اس چیز کا صلہ نہ صرف اس کو اپنی زندگی میں بلکہ اس کی اولاد کی زندگی میں بھی ملنا شروع ہو جاتا ہے۔ اولاد کی کامیابی ہر انسان کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے، جب اولاد کامیاب ہوتی ہے تو انسان کی ساری زندگی کی تھکاوٹ اترجاتی ہے لیکن اگر خدانخواستہ اولاد ناکام ثابت ہوجائے توپھر ساری زندگی کا سکون غارت ہوجاتاہے۔
مجھے زندگی میں کئی سارے لوگ ایسے ملے جنھوں نے بتایا کہ وہ اپنا کام پوری ایمان داری اور نیک نیتی کے ساتھ کررہے تھے اوراللہ نے ان کی اولاد کے لیے وسائل پیدا کرنا شروع کردیے، جبکہ کئی سارے ایسے لوگوں کو بھی میں نے دیکھا کہ جنھوں نے زندگی بھرخوب مال و متاع جمع کیا لیکن چوں کہ ان کی نیت ٹھیک نہیں تھی اس وجہ سے کچھ بھی ان کی اولاد کے کام نہ آیا اور ناکامی ان کا مقدر بنی۔
’’مجھے میرا رزق مل کر رہے گا‘‘،’’اللہ کی رحمت پربھروسا‘‘،’’شکرگزاری‘‘، ’’ کل پر یقین‘‘ اور ’’نیک نیتی‘‘یہ پانچ ایسی خصوصیات ہیں جوانسا ن کو باکردار بناتی ہیں۔ انسانیت کی تکمیل کردار کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس کی کمی کو کوئی دنیاوی چیز پورا نہیں کرسکتی کیوں کہ چہرہ کتنا ہی حسین کیوں نہ ہو، کردار بالآخر بازی لے جاتا ہے۔