05/09/2024
آپ نے کچھ عرصہ قبل ریلیز ہونے والی ایک فلم The Goat Life ضرور دیکھی ہو گی۔ یہ ایک المیاتی فلم ہے۔ یہ جہاں سعودی عرب میں عرب کے غلامانہ دور کی جدید شکل یعنی کفیل سسٹم کو بے نقاب کرتی ہے وہیں پر یہ رزق کی تلاش میں گئے لوگوں کی ان گنت مشکلات اور کام کے نام پر لوگوں سے کئے جانے والے فراڈ اور دھوکوں کا پردہ بھی فاش کرتی ہے۔
ایک صحت مند انسان رزق کی تلاش میں جب ایک بے رحم بدو کے ہاتھ لگتا ہے تو وہ کیسے اس کا استحصال کرتا ہے اور تپتے صحرا میں اس کی زندگی کتنی ان گنت مشکلات سے گزرتی ہے وہ تمام مناظر انسان کی نفسیات اور اوسان پر لرزہ طاری کر دیتے ہیں۔ فلم کے مناظر اور فلم کا پلاٹ اور اوورآل پرفارمنس اس قدر حقیقی زندگی سے مناسبت رکھتی ہے کہ دیکھتے ہوئے آپ کو ذرا بھی محسوس نہیں ہوتا کہ کہیں فلم کے بنانے یا کرداروں کی اداکاری میں کوئی جھول ہے یا اس میں کوئی کمی یا مصنوعی پن ہے۔۔۔چونکہ فلم ایک حقیقی واقعے سے ماخوذ ہے تو اسے حقیقت سے قریب تر رکھنے کیلئے اور اس کی حقیقی روح کو برقرار رکھنے کے لئے لازماً اس فلم کے ڈائرکٹر اور اداکاروں نے کافی محنت کی ہے۔
فلم کا حاصل یہ ہے کہ آج کے دور میں بھی کئی انسانوں کو معاش کی خاطر اور اپنی زندگی کی بقا کی خاطر کتنے کٹھن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور ہر جگہ پر ایسے لوگ گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں جو اپنے منافع کی خاطر دوسروں کی زندگی کو بد سے بدتر بنا دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔۔۔۔سعودی حکومت کو چاہئے کہ ایسے کفیل سسٹم اور تنازل نامی غیر انسانی قواتین جو انسانوں کو جکڑنے اور پابند کرنے کے لئے وجود میں آئے ہیں ان کو ختم کرے ان کی جگہ پر انسانوں کی معاش' ملازمت اور کام کے لئے یورپین طرز کی آزادانہ معاشی اور کاروباری پالیسی اپنائے جہاں انسان کسی دوسرے انسان کی کفالت میں نہیں ہوتا نہ اسے کسی دوسری اچھی جگہ نوکری اور ملازمت کی منتقلی کیلئے پہلے کسی تنازل کی ضرورت پڑتی ہے۔۔۔ملازمین کے حقوق کو تحفظ حاصل ہوتا ہے۔۔۔کوئی قانون کی طرف سے دی گئی کسی سہولت سے کسی دوسرے شخص کا استحصال نہیں کر سکتا۔
عاطف ایوب۔