The Bahawalpur Division

The Bahawalpur Division Bwp
(1)

07/12/2024

بہاولپور جھیل :
بہاولپور جھیل پہ کئی بار باتیں ہوئیں ،سب کو معلوم ہے اس سے بہاولپور کا زیر زمین پانی میٹھا ہو گا ، سب کو معلوم ہے کہ اس سے سیاحت کو بھی فروغ ملے گا اور زراعت میں بھی ترقی ہو گی ۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ جھیل کے بن جانے کے بعد دریا ستلج جہاں آج ریت اڑتی نظر آتی ہے بڑا دریا بن جایے گا ۔
یہ بھی سب جانتے ہونگے کہ اس سے ریاست بہاولپور کو وسیع پیمانے پر زرمبادلہ کمانے کا موقع ملے گا ۔کئی لوگوں کو روزگار بھی میسر آئے گا اور بہاول پور جیسے شہر میں پانی کی کمی کا مسلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئیے ناپید ہو کر رہ جائے گا۔
میں بہاولپوری عوام سے گزارش کروں گا کہ وقت یہی ہے اپنے مقصد کے لئیے آواز اٹھائیں کیونکہ اس وقت ہمارے بہاولپور کے اندر ڈپٹی سپیکر موجود ہیں اور مزید چولستان کی نہریں بھی نکالی جا رہیں ہیں اس کے ساتھ ہی اگر بہاولپور جھیل کا بندوبست کر دیا جائے تو اگلے صرف پانچ سالوں میں پورے بہاولپور کا پانی میٹھا ہو گا
اس جھیل کی تفصیل جاننے کے لئیے کمنٹ میں موجود لنکس پر کلک کریں وہاں اس کی مکمل فزیبلیٹی موجود ہے۔
مظہر بھٹی بہاولپور

06/12/2024
05/12/2024
05/12/2024

جنگل کیوں کٹے دریا کیوں بکے ؟
ایک گزرے دور کی داستان
میلسی اور تحصیل حاصلپور کے درمیان ایک علاقہ ہے جو موضع نور پور ڈاک خانہ جمال پور تحصیل حاصل پور کہلاتا ہے۔یہاں ایک جگہ ہے جیسے چکری بھی کہتے ہیں۔دریا ستلج کی بہت سی چکریاں ہیں تو اس لئیے اس چکری کو چکری آرائیاں سے پہچان حاصل ہے۔
چکری کی وجہ اس علاقے کے چاروں طرف دریا ستلج بہتا تھا اور ایک شاخ سے دوسری شاخ کے درمیان تقریبا فاصلہ 6 کلومیٹر سے بھی زیادہ بنتا ہے اور لمبائی میں بھی یہ علاقہ 10 کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے ۔ان دونوں شاخوں میں سارا سال پانی رہتا تھا۔ اردو میں اسے دریائی جزیرہ کہتے ہیں ۔
مون سون کے موسم میں ان دونوں شاخوں میں بہت زیادہ پانی ہوتا تھا اور اس سے مزید پانچ کلومیٹر آگے ایک اور شاخ جیسے نور پور شاخ کہتے ہیں وہ بھی بہنے لگتی تھی۔ ہر شاخ پہ الگ موہانے اور کشتیاں ہوتیں تھیں۔ ان شاخوں کے درمیان میں اس وقت ایک قدرتی جنگل میں بھر پور زندگی تھی تقریبا ہر قسم کے جنگلی جانوروں کا یہ ایک محفوظ گھر تھا۔
یہاں سور اور بھیڑیوں کے بڑے جھنڈ رہتے تھے۔ان کے ساتھ جنگلی بلیاں،گدڑ،لومڑیاں،مرغیاں،خرگوش،نیل گائے اور کہیں کہیں ہرن بھی مل جاتے تھے اس کے علاؤہ بھی بے پناہ چیزیں موجود ہوتیں البتہ چیتے کا ذکر نہیں ملا لیکن کبھی کبھی یہاں سے ایسے جانوروں کی گزرگاہ کا ذکر ہو جاتا تھا یا وہ روپوش رہتے تھے۔
دریا کی آبی زندگی کا ایک بلا خوف جہاں آباد تھا ۔
دریائے ستلج اپنی مکمل پہنچان رکھتا تھا یعنی یہ دریا کنال کنال کی زمین ایک ساتھ بھی کاٹ کر پھینک دیتا تھا ۔مراد یہ ہے کہ ایک کنال کا پورا گھر سیدھا اندر لے لیتا اور کھڑے لوگ اپنی چیزیں بھی نہ اٹھا پاتے تھے ۔یہ تیزیاں تھیں۔گھڑیال اور ایسے آبی جانوروں کے حوالے سے محفوظ آبی مسکن تھا۔
ٹرین کی پٹڑی کو ترقی بتانے والے زرا غور سے سنیں !! یہ بھر پور تہذیب 1947ء کے بعد ایک جاگیرداری اور سیاسی خاندان کو بطور زرعی زمین کے الاٹ ہوئی۔سننے میں آتا تھا کہ ان کے گھر ملتان میں تھے۔اس وقت میلسی کا ضلع ملتان تھا اب وہاڑی ہے جبکہ حاصل پور کا ضلع بہاولپور تھا جو آج بھی ہے۔
ان سیاسی کارندوں کو یہ بھی نہیں پتا تھا کہ یہ زمین یہ چکری کہاں ہے لیکن انہوں نے کوڑیوں کے بھاؤ کوئی ایک ایکڑ لینے آتا تو دس نام کروا دیتے اور پیسے لے لیتے اور پوری دریائی تہذیب انہیں ہی بیچ ڈالی جو نسل در نسل یہاں آباد تھے اور وہ بھی خالی پٹواری کے نقشے پر بیچی گئی ۔یہاں لینے والوں کی بھی مجبوری یہ تھی کہ میلسی والی سائڈ پر ان کی ایک قدیم سینکڑوں سال پرانی "بستی آرائیاں" ایک اور جاگیردار نے اجاڑ دی تھی۔وہ بیچارے لٹے پٹے یہاں جنگلوں میں آتے اور آباد ہو جاتے کیونکہ باقی زرعی زمینیں پر تو پھر جاگیردار قابض تھے یا ان کو الاٹ ہوئیں تھیں۔
یہ کچھ ایسے ہی ہے جیسے آج کل روہی کی زمین کے ساتھ کیا جا رہا ہے سینکڑوں سالوں سے رہنے والوں کو یہ بھی نہیں پتا کہ یہ کس کے نام زمین ہے اور وہ ایک دم اپنے آبائی گھر سے کسی کے غلام بن جاتے ہیں۔اگے چل کر وہ چراگاہوں سے ہاتھ دو بیٹھے گے اور ان کو زبردستی غلامی کرنا پڑے گی۔یہاں سے ان کی تہذیب اور رسم و رواج کا معاشی دباؤ کے نیچے ناس ہو گا۔
انگریز نے جن کو وسائل دئیے انہی کو سیاسی قوت بھی دی اور یہ وسائل کے ساتھ اور سیاست کے زریعے سے بھی ملک کے مالک بن بیٹھے۔
سیاسی کارندوں کی ایک نسل پھر دوسری نسل بھی بیچتی رہی اور ان کی عورتیں بھی گاڑیوں میں آتیں اور ہماری ہی دھرتی ہمیں بیچ کر چلی جاتیں۔یہ تھی ایک مذہب اسلام کے چورن پر ایک نوآبادیاتی ریاست کا قیام جس نے برعظیم کی لاکھوں چکری جیسی تہذیبیں رگڑ کھائیں اور پیٹ ان کے پھر بھی نہ بھر سکے ۔
لیں دوستو ! آج پتا چلا یہ جنگل کیوں ختم ہوئے اور ہمارے دریاؤں کا ناس کیوں ہوا ؟مزید سنیں دریاوں کی یہ تقسیم کسی ڈھنگ سے بھی کی جا سکتی تھی لیکن اس تقسیم کو مضبوطی بخشنے کے لئیے باقی مسائل کی طرح ادھر بھی بے ڈھنگی تقسیم کے لئیے ناصرف انجنئیرز کی ٹیم کو سائڈ پر کیا بلکہ جلدی میں دستخط کر کے ہمیشہ کا مسلہ باقی رکھا۔بس اب یہی سننے کو ملتا ہے بھارت کی آبی جارحیت۔
آج ان ظالم لوگوں کے لکھے لیٹریچر پڑھ کر ہمیں ٹرین نام کی ترقی گنوائی جاتی ہے۔ میں تو کہوں گا وہ زرا ساری پٹڑیاں بیچیں اور ہمیں ان کارندوں کی بیچی ایک چکری کی تہذیب ہی لوٹا کر واپس کر دیں
ہمارے بزرگوں کے پاس مغلیہ پنچائت کا مضبوط انصاف کا مقامی نظام تھا اور ہر شخص اس سے مطمئن تھا جو ایسے الاٹ کئیے ہوئے کتے نہلانے والے اور اس دھرتی کے غدار جاگیرداروں کے ڈیروں نے برباد کر ڈالا۔
ہمارے بزرگ آنکھوں میں شرم و حیا رکھتے تھے ان کے پاس عظیم و الشان اقدار تھے مضبوط خاندانی نظام تھا وہ ان کے الاٹ کئیے ہوئے رقبوں کی عیاشیوں اور سرمایہ دارانہ نظام کی بھینٹ چڑھ گئے۔حوس کا عالم پیدا ہے کیونکہ شاملات زمینیں ہوں یا موضع کے دیہاتوں کی چراگاہیں ، قبرستان ہوں یا سڑکیں سب پر قابض ہو گئیے اور اس وقت بھی ہیں ۔کہیں کسی گاؤں کا سنا ہے کہ اس گاؤں میں جانوروں کی چراگاہ بھی ہے ؟ جب وسائل ہی نہیں بچیں گے تو ضرور عادات و اطوار خراب ہونگیں لوگوں کو غربت گھیرے گی ۔اس طرح برائے فروخت برطانوی عدالتی انصاف کی وجہ سے جاگیردار طاقت پکڑتے گئیے اور عام انسان کمزور ہوتا چلا گیا اور نوبت آج یہاں تک آن پہنچی کہ ایک عام شخص اپنی عزت بھی بیچنے کو تیار ہے افسوس سد افسوس ۔
ان کارندو کی شرم و حیا پارلیمنٹ میں انہی کی اولادوں کی شکل میں دیکھ لو اور ہم عظیم بزرگوں کی اولادوں کو بتا رہیں ہیں کہ بھائیو ان کی پہنچان کرو اور ان کی جگہ تم آؤ اور ان کو نکال کر سمندروں میں پھینکو۔تمہارے بزرگ جلیانوالہ سے لے کر آج تک قربان ہو رہیں ہیں ۔اب ہمیں مضبوط بنیادوں پر جماعت سازی کر کے آگے بڑھنا ہو گا ۔
لارڈ میکالے کے نظام تعلیم نے 75 سال سے ہماری آنکھوں میں جھول دھوڑ رکھی ہے۔ان سے نفرت ایمان کا حصہ بناو یہ تو کاٹ کھانے والے لوگ ہیں اور جانفشانی سے اس انگریز کی وفاداری کا دم بھرتے ہیں۔ابھی بھی بہت ساری ترقیاں ہیں جو ٹرین کے بدلے ہمارے گلے میں پڑی ہیں ضرور شئیر ہونگیں ۔
میں جلد آپ لوگوں کو حقیقی کتابیں بھی دیا کروں گا زرا مطالعہ پاکستان سے نکل کر پڑھو تو یار ہم کتنے عظیم تھے ہمیں مطالعہ پاکستان اور 1857 کے بعد انگریز کے لکھے لٹریچر نے اپنے ہی بزرگوں سے نفرت کروا ڈالی ؟
آج پرندوں کو ہیلی کاپٹر سے بچانے والی نام نہاد مہذب قوم کل دنیا میں سب سے زیادہ شیروں کا شکار انگریزوں نے ہندوستان میں رہتے ہوئے کیا اندازے کے مطابق ستر ہزار شیر ختم کر دئیے۔پتا ہے کیوں ؟ کیونکہ وہ حضرت ٹیپو سلطان رحمتہ اللہ علیہ کی سرکاری ریاست کا نشان تھا اور ٹیپو کا مطلب شیر تھا۔اس کے بعد اس گندی نسل نے کچھ بے حیاوں کو پیسے دے کر کتوں کے نام بھی ٹیپو رکھوانا شروع کروا دئیے۔
ٹیپو کے اہم عہدوں کو نیچ عہدے بنا دئیے گئیے ۔
ظالموں وہ اتنے نفرت کرتے تھے ہم سے اور ہمارے بزرگوں سے اور تم ہو محبت کرتے ہو ان سے ؟
یہ آج پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگوں کا بھی ہم سے کسی ایک وجہ کا بھی تعلق نہیں ہے ۔ان سے خوف نہیں ان پر قیامت صغرا برپا کرو اور دنیا میں ہی میزان قائم کرو ۔
سنو تو ہماری بات: ہم پینڈو گواروں کی ۔کیوں نہیں سنتے ہوں ؟ پڑھے لکھے لوگوں ٹرین کو ترقی کہتے ہو؟ ہماری تہذیب کا مذاق اڑاتے ہو ؟
۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے ۔
مظہر بھٹی بہاولپور

Fareed Gate  also spelled as Farid Gate, is a historical gate of the old city of Bahawalpur, Pakistan.👉 History: Fareed ...
12/10/2024

Fareed Gate also spelled as Farid Gate, is a historical gate of the old city of Bahawalpur, Pakistan.
👉 History:
Fareed Gate is named after Khwaja Ghulam Farid.
Under a local beautification initiative, Farid Gate was selected for restoration. This followed an art project illuminating buildings along Circular Road with murals of local life.
Earlier, there was a beautiful fountain in front of Farid Gate which was closed after 2011. Later, instead of this fountain, a roundabout was made and plants etc were planted in it. However, they also add beauty

1: Noor Mahal Bahawalpur The Noor Mahal  is a historic real estate owned by the Ministry of Defense (MoD) under the mana...
11/10/2024

1: Noor Mahal Bahawalpur
The Noor Mahal is a historic real estate owned by the Ministry of Defense (MoD) under the management of the Army Secretariat in Bahawalpur, Punjab, Pakistan.
It was built in 1872 as an Italian chateau on neoclassical lines, at a time when modernism had set in. It belonged to the Nawabs of Bahawalpur princely state, during the British Raj.
👉History
Mr. Heennan, an Englishman who was the state engineer, designed the building. The foundation of Noor Palace was laid in 1872. A map and coins of the state were buried in its foundation as a good omen. Most of the palace's materials and furniture were imported from England and Italy. The construction of the palace was completed in 1875 at a cost of Rs. 1.2 million. The palace was originally constructed to serve as a residence for the Nawabs of the Bahawalpur princely state during the British Raj era.Nawab Sadiq Khan IV, who was known for his love of architecture and often compared to Shahjahan of Bahawalpur, commissioned the palace for his wife, Noor.However, after spending only one night in the palace, Noor decided not to return due to its close proximity to the Basti Malook Shah graveyard, which was visible from her balcony. She instead chose to reside in Darbar Mahal.

On January 11, 1890, Prince Albert Victor visited the palace.

From December 22 to 24, 1892, Sir McOrth Beck, a senior finance commissioner of Punjab, and his family stayed at the palace. The palace also served as the location for the celebration of Queen Victoria's 60th birthday on May 11, 1897.

In 1906, Nawab Muhammad Bahawal Khan the fifth added a mosque to the palace at the cost of Rs. 20,000.

On February 9, 1933, an important event was held at Noor Mahal to celebrate the union between the British Government and the Bahawalpur State.The State of Bahawalpur also celebrated its 10-year jubilee at the palace on March 8, 1934.

In 1956, when Bahawalpur State was merged into Pakistan, the building was taken over by the Auqaf department. The palace was leased to the army in 1971; in 1997 the army purchased it for the sum of 119 million
👉Architecture
Noor Mahal
Noor Palace covers an area of 44,600 square feet (4,140 m2). It has 32 rooms including 14 in the basement, 6 verandas and 5 domes.

The design encompasses features of Corinthian and Islamic styles of architecture with a tinge of subcontinental style.The Corinthian touch is visible in the columns, balustrade, pediments and the vaulted ceiling of Durbar Hall. The Islamic style is evident in the five domes, whereas the angular elliptical shapes are a stroke of subcontinent style.

The building was declared a "protected monument" in September 2001 by the Government of Pakistan's Department of Archeology, and it is now open for general visitors, students trips and other interested persons.
👉 Gallery
In comments

08/10/2024

پنجند بیراج پاکستان کا وہ تاریخی مقام جہاں دنیا کے پانچ بڑے دریا ملتے ہیں۔ اس بیراج کی تعمیر نواب آف بہاولپور نے کوٹ مٹھن بابا فرید کی نگری کے قریب کروائی ۔

08/10/2024

شمائی نہر بہاولپور کے مقام پر نہر کے دونوں اطراف گھنے درخت ہیں ۔ایسے ہی درخت ہر نہر اور روڈ کے اطراف ہوا کرتے تھے ۔پھر ہم نے ترقیاں کیں اور درختوں کی چھٹی کروا دی ۔ہر مائنر اور ہر نہر خالی کر دی اور نئے درخت بھی لگانا گناہ کبیرہ سمجھا ۔

07/10/2024

دریاؤں اور انسانی تہذیب کا رشتہ بہت گہرا ہے۔

بہاولپور کے نئے ڈپٹی کمشنر فرحان فاروق نے چارج سنبھال لیا۔۔۔۔امید ہے آپ کی سر پرستی شہر کے لیے باعث رحمت ثابت ہوگی۔
05/10/2024

بہاولپور کے نئے ڈپٹی کمشنر فرحان فاروق نے چارج سنبھال لیا۔۔۔۔
امید ہے آپ کی سر پرستی شہر کے لیے باعث رحمت ثابت ہوگی۔

بہاولپور کے نئے ڈپٹی کمشنر فرحان فاروق نے چارج سنبھال لیا۔۔۔۔امید ہے آپ کی سر پرستی شہر کے لیے باعث رحمت ثابت ہوگی۔
05/10/2024

بہاولپور کے نئے ڈپٹی کمشنر فرحان فاروق نے چارج سنبھال لیا۔۔۔۔
امید ہے آپ کی سر پرستی شہر کے لیے باعث رحمت ثابت ہوگی۔

05/10/2024


قسط نمبر 01 ۔
دو دریاؤں کے درمیانی علاقے کو دو آبہ(Two Water) کہتے ہیں۔ یہ علاقہ کئی لاکھ ایکڑ سے چند ہزار مربع فٹ تک بھی ہو سکتا ہے۔ اس کی چند ایک مثالیں خصوصاً برصغیر پاک و ہند کی ہم یہاں دے رہیں ہیں ۔
1: اوپری دو آب operi do aabah
دریائے گنگا اور دریائے جمنا کے علاقے کو اوپری دو آبہ کہتے ہیں
2: رچنا دوآب Rchana Do Aabah
دریائے راوی اور دریائے چناب کے درمیانی علاقے کو دوآبہ رچنا کہتے ہیں ۔
3: چج دو آب / چنبہ دو آب chaj Do Abbah
دریائے چناب اور دریائے جہلم کے درمیانی علاقے کو دوآبہ چج یا چنبہ دو آب کہتے ہیں ۔
4:دو آبہ سندھ ساگر Sindh Sagar Do Aabah
دریائے سندھ اور جہلم کے درمیانی علاقہ کو دوآبہ سندھ ساگر کہا جاتا ہے۔
5: دو آبہ باری Do Aabah Bari
دریائے بیاس اور دریائے راوی کے درمیان دو آبے کو دو آب باری کہتے ہیں۔
نوٹ: ہر دو آب کی اپنی اپنی خصوصیات ہے ۔ وہاں کے رہن سہن ، رسم و رواج ،تہزیب و تمدن ،لباس،کھانے ،وہاں کی بولیاں اور بہت کچھ منفرد اور دلکش ہے۔ انشاء اللہ آہستہ آہستہ پاکستان اور ہندوستان دونوں کے ہر ایک دو آب پر روشنی ڈالیں گے۔

تحریر: مظہر بھٹی بہاولپور

اوچ شریف ۔ عباسیہ کینال میں پڑنے والے شگاف کو مقامی افراد  ریسکیو عملہ نے مشترکہ کوششوں سے بند کردیا ۔ اسسٹنٹ کمشنر احمد...
05/10/2024

اوچ شریف ۔ عباسیہ کینال میں پڑنے والے شگاف کو مقامی افراد ریسکیو عملہ نے مشترکہ کوششوں سے بند کردیا ۔ اسسٹنٹ کمشنر احمد پور شرقیہ ، دیگر انتظامیہ بھی موقع پر موجود ۔ اہل علاقہ ، ریسکیو ٹیم کی بروقت کوششوں ، اور ہیڈ پنجند سے نہر بند کرنے کے باعث شہری آبادی کو لاحق خطرہ ٹل گیا ۔

ڈرنگ اسٹیڈیم  بہاولپور میں حالیہ تعمیر  ہونے والا نیا کرکٹ پولین  !!    Dring Stadium Bahawalpur Dring Stadium Bahawalpu...
05/10/2024

ڈرنگ اسٹیڈیم بہاولپور میں حالیہ تعمیر ہونے والا نیا کرکٹ پولین !!

Dring Stadium Bahawalpur Dring Stadium Bahawalpur

04/10/2024

دریائے ستلج کے کنارے آباد بہاولپور ریاست کی ایک چولستان وٹرنری یونیورسٹی میں 5 ہزار درختوں کا ایک جنگل لگایا جا رہا ہے ۔ بہاولپور شہر میں یہ لال سوہانرا کے بعد دوسرا بڑا جنگل ہو گا جو کہ شہر کی فضا کو تازگی بخشے گا۔ یہ جنگل 5 سے 7 ایکڑ پر مشتمل ہو گا ۔
غلام رسول صاحب جو اس جنگل کی سرپرستی کر رہے ہیں ان کا مشن ہے کہ وہ پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں میں اس طرز کے جنگل لگائیں گے ۔مزید ان کا کہنا ہے کہ آنے والے چند سالوں میں جب یہ جنگل مکمل جوان ہونگے تو اس کے بھر پور ماحول دوست نتائج بھی سامنے آئیں گے ۔
وہ اس مہم میں اس قدر مخلص ہیں کہ ہر شہر کی یونیورسٹی جا کر درخت لگانے کا پیغام بھی دے رہیں ہیں اور بچوں کو درخت لگانے کی طرف ترغیب دلا رہیں اور اس وقت وہ نبوی سنت کو پورا کرتے ہوئے 17 لاکھ سے زائد پودے لگا چکے ہیں اور اس سنت کی ہر یونیورسٹی میں جا کر تبلیغ بھی کر رہیں ہیں۔
اللہ تعالیٰ غلام رسول صاحب کی زندگی دراز کرے اور اس کی قبر میں وہی باغ لگائے جو وہ اس دنیا میں عوام کے لئیے لگا رہیں ہیں ۔
مظہر بھٹی بہاولپور

Address

Bahawalpur
63100

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when The Bahawalpur Division posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share