Rehan Babar

Rehan Babar BAHAWALPUR

چوہدری کے ڈیرے پہ آگ لگ گئی رحیماں مراسی خوش ہوتے ہوۓ اپنی بیوی سے بولا۔ چوہدری نے میری بے عزتی کیتی سی ویکھ قدرت دا انت...
01/02/2025

چوہدری کے ڈیرے پہ آگ لگ گئی رحیماں مراسی خوش ہوتے ہوۓ اپنی بیوی سے بولا۔

چوہدری نے میری بے عزتی کیتی سی ویکھ قدرت دا انتقام۔

مراسی کی بیوی بولی او تے ٹھیک ہے پر چوہدری دا اینا نقصان ہوگیا اے ہن اسی دانے کتھوں لیواں گے تے اسی کی کھاواں گے ؟

رحیماں مراسی بولا: او فکر نہ کر توں، ہلے تے فصل اچ چھ مہینے باقی نیں اودوں تک تے چوہدری صاحب دوبارہ سارا کج سیٹ کرلین گے. فیر ساڈا کی اے اسی مافی موفی منگ لاں گے
بیوی¡! تے جے او ناں منیا تے
تو کوئ نی اسی دو چار چھتر وتر وی کھالاں گے اسی مراسی آں اسی کیڑے وڈ وڈیرے آں۔

21/12/2024

اپنی زندگی کو کسی کے لیے عیاں نہ کریں،
حسد ہمیشہ وہاں سے آتا ہے جہاں لوگ آپ کے گھر آ کر آپ کے حالات اور دولت کو جانتے ہیں۔

کوئی آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکتا جب تک وہ آپ کے گھر کی تفصیلات نہ جانتا ہو۔
کوئی بھی آپ کے منصوبوں کو ناکام نہیں بنا سکتا جب تک آپ خود اسے اپنا راز نہ بتائیں۔
آپ کا راز آپ کا قیدی ہے، لیکن جیسے ہی آپ اسے کسی کے سامنے ظاہر کرتے ہیں، آپ خود اس کے قیدی بن جاتے ہیں۔
بعض اوقات حسد کرنے والے لوگ مشورے کے پردے میں آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔

کوئی آپ کے خاندان کے لیے سازش نہیں کر سکتا جب تک وہ آپ کے گھر میں کثرت سے آتا جاتا نہ ہو۔
کوئی بھی آپ کی کمزوریوں کو نہیں جان سکتا جب تک وہ آپ کے قریب نہ رہا ہو۔

ہر عزیز کے لیے بھی ایک حد مقرر کریں۔ یہ توقع نہ کریں کہ کوئی آپ کے راز کو محفوظ رکھے گا، جبکہ آپ خود اسے چھپا نہ سکے۔

یہاں میرا مطلب یہ نہیں کہ آپ لوگوں سے رابطہ ختم کر دیں۔ نہیں، ہرگز نہیں۔ بلکہ یہ کہ آپ حدود کا تعین کریں اور ان حدود کو عبور نہ ہونے دیں۔ اپنی زندگی کو کسی کے لیے مکمل طور پر ظاہر نہ کریں، کیونکہ لوگ کب بدل جائیں، یہ آپ کو معلوم نہیں ہوتا۔

جو لوگ کبھی آپ کے دل اور سکون کا سب سے بڑا ذریعہ تھے، وہی لوگ کبھی آپ کے لیے خوف کا سبب بن سکتے ہیں، کیونکہ آپ نے ایک وقت میں اپنی کمزوریاں، راز اور خود کو ان کے حوالے کیا تھا۔

اپنے راز کو اپنا قیدی بنائیں، اور اپنے گھر کو محفوظ رکھیں۔ کسی کو اپنی فیملی کے ساتھ بے تکلف ہونے نہ دیں، چاہے وہ کتنا ہی قریبی کیوں نہ ہو۔
اپنے گھر کے راز کسی کو نہ بتائیں، اور اگر آپ کو اپنے منصوبے کی کامیابی پر اعتماد ہے تو کسی سے مشورہ نہ لیں۔

اپنی خوشی میں اتنا نہ بہہ جائیں کہ آپ جو کچھ رکھتے ہیں وہ بانٹ دیں، اور نہ ہی اپنے غم میں اتنا کھو جائیں کہ جو کچھ آپ کے پاس ہے وہ ظاہر کر دیں۔
اپنے غصے میں اپنی زبان پر قابو رکھیں، اور اپنی خوشی میں اپنے جذبے پر قابو رکھیں۔
آنے والے وقت کو مدنظر رکھیں، اور حال پر نظر رکھیں۔

یہ محض ایک نصیحت ہے۔

04/12/2024

‏میں نے یزید کو گالی دی ابن زیاد کو برا بھلا کہا ، شمر پر لعن طعن کی۔ ایک بزرگ کہیں سے نمودار ہوا اور اس نے مجھے اٹھا کر ٹائم ٹریول کروا دیا۔ چند لمحے بعد میں61 ھجری کی کربلا میں کھڑا تھا۔ میں نے مڑ کر پیچھے اس بزرگ کی طرف دیکھا اور کہا، یہ کیا مذاق اے؟"

بزرگ نے مجھے زور دار تھپڑ رسید کیا اور کہا کہ ہر دور کے اپنے اپنے یزید، ابن زیاد اور شمر ہوتے ہیں توں اپنے دور کے یزید ابن زیاد اور شمر کو گالی نکال، پھر تیرا ایمان مضبوط ہوگا۔

1385 سال پرانے یزید ابن زیاد اور شمر کو گالی نکالنا اسلئے آسان ہے کیونکہ وہ سب مر کھپ چکے ہیں۔

اپنے دور کے یزید ، ابنِ زیاد اور شمر کے روبرو تو تم سب کی سانس حلق میں اٹک جاتی ہے ۔
ہر دور میں یزید ہوتے ہیں۔۔۔۔
دور باطل میں حق پرستوں کی۔
بات رہتی ھے سر نہی رہتے۔۔۔۔

12/11/2024

*بد دعا کیسے تباہی پھیرتی ہے ؟؟؟*
*(جاوید چوہدری کے کالم سے اقتباس)*

اگر آپ اسلام آباد میں رہتے ہیں تو راول ٹاؤن چوک کو اچھی طرح جانتے ہوں گے۔ یہ چوک کلب روڈ پر سرینا ہوٹل سے فیض آباد کی طرف جاتے ہوئے آتا ہے۔ چوک میں ایک پٹرول پمپ اور ایک پرانی مسجد ہے۔ میں 1993ء میں اسلام آباد آیا تو مسجد کے ساتھ ایک چھوٹا سا گاؤں ہوتا تھا گاؤں کی زمینیں ایکوائر ہو چکی تھیں، امیر لوگ زمینوں کی قیمتیں وصول کر کے بڑے بڑے سیکٹرز اور فارم ہاؤسز میں شفٹ ہو چکے تھے لیکن وہ غرباء پیچھے رہ گئے تھے جن کی زمینوں کے پیسے امراء کھا گئے یا پھر وہ جو گاؤں کے کمی کمین تھے اور ان کے نام پر کوئی زمین نہیں تھی، حکومت نے انہیں کوئی معاوضہ نہیں دیا۔

دنیا میں ان کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا، لہٰذا وہ اپنے ٹوٹے پھوٹے گھروں میں مقیم تھے۔ سی ڈی اے اور ضلعی انتظامیہ نے ان کو بے شمار نوٹس دیے مگر مکینوں کا کہنا تھا ”ہم کہاں جائیں‘ آپ ہمیں بتا دیں ہم وہاں چلے جاتے ہیں“ حکومت ظاہر ہے ایک ٹھنڈی ٹھار مشین ہوتی ہے، اس کا دل ہوتا ہے اور نہ ہی جذبات، لہٰذا حکومت جواب میں ایک اور نوٹس بھجوا دیتی تھی۔ نوٹس بازی کے اس عمل کے دوران بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی حکومتیں آتی اور جاتی رہیں۔ ضلعی انتظامیہ نے جب بھی سویلین گورنمنٹ سے آپریشن کی اجازت مانگی، حکومت نے اجازت نہ دی۔ انتظامیہ ایک بار مشینری لے کر وہاں پہنچ گئی، چودھری شجاعت حسین اس وقت وزیر داخلہ تھے، ان کو اطلاع ملی تو وہ فوراً وہاں پہنچے اور ذاتی طور پر آپریشن رکوایا۔

لیکن پھر 1999ء آ گیا اورجنرل پرویز مشرف حکمران بن گئے۔ ان کا قافلہ روز اس چوک سے گزر کر وزیراعظم ہاؤس آتا تھا۔ جنرل مشرف کی طبع نازک پر غریبوں کی وہ جھونپڑیاں ناگوار گزرتی تھیں۔ وہ ایک دن گزرے، کھڑکی سے باہر دیکھا اور آپریشن کا حکم جاری کر دیا۔ میں ان دنوں شہزاد ٹاؤن میں رہتا تھا اور روزانہ راول چوک سے گزرتا تھا۔ میں نے دوپہر کو دفتر جاتے ہوئے اپنی آنکھوں سے وہ آپریشن دیکھا۔ وہ لوگ انتہائی غریب تھے، ان کے گھروں میں ٹوٹی چار پائیوں، پچکے ہوئے برتنوں اور پھٹی رضائیوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ انتظامیہ نے وہ بھی ضبط کر لئے۔ گاؤں چند گھنٹوں میں صاف ہو گیا۔ زمین کو فارم ہاؤسز میں تبدیل کر دیا گیا اور وہ فارم ہاؤسز امراء نے خرید لئے۔
صرف مسجد اور اس کے ساتھ چند قبریں بچ گئیں۔ وہ قبریں بھی اب کم ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ یہ کہانی یہاں پر ختم ہو گئی۔ 2007 ء میں اس کہانی کا ایک نیا پہلو میرے سامنے آیا۔ ملک میں اس وقت جنرل پرویز مشرف کے خلاف تحریک چل رہی تھی۔ ایک روز ایک صاحب وہیل چیئر پر میرے پاس تشریف لائے۔ وہ ٹانگوں سے معذور تھے اور چہرے سے بیمار دکھائی دیتے تھے، میں انہیں بڑی مشکل سے گھر کے اندر لا سکا۔ وہ مجھے اپنی کہانی سنانا چاہتے تھے، ان کا کہنا تھا "راول چوک کا وہ آپریشن انہوں نے کیا تھا، وہ اسے لیڈ کر رہے تھے"

میں خاموشی سے ان کی داستان سنتا رہا۔ ان کا کہنا تھا: ان کے تین بچے تھے، دو لڑکے اور ایک لڑکی، شادی پسند کی تھی۔ وہ سی ایس پی آفیسر تھے، کیریئر بہت برائیٹ تھا، سینئر اس کی کارکردگی سے بہت مطمئن تھے، ان کا اپنا خیال بھی تھا وہ بہت اوپر تک جائیں گے۔ وہ رٹ آف دی گورنمنٹ کے بہت بڑے حامی تھے‘ وہ سمجھتے تھے قانون پر سو فیصد عمل ہونا چاہیے اور جو شخص قانون کے راستے میں حائل ہو، ریاست کو اس کے اوپر بلڈوزر چلا دینا چاہیے چنانچہ جنرل مشرف نے جب راول چوک کے مکانات گرانے کا حکم دیا تو یہ ذمہ داری انہیں سونپی گئی۔ یہ فورس لے کر وہاں پہنچے اور گھر گرانا شروع کر دیے۔

لوگ مزاحم ہوئے، پولیس نے ڈنڈے برسائے، لوگوں کو گرفتار بھی کیا اور ایک آدھ موقع پر ہوائی فائرنگ بھی کرنا پڑی، بہرحال قصہ مختصر آپریشن مکمل ہو گیا اور انتظامیہ نے ملبہ اٹھانا شروع کر دیا۔ وہ رکے اور پھر بولے: آپریشن کے بعد اینٹوں کے ایک ڈھیر پر درمیانی عمر کی ایک خاتون بیٹھی تھی، وہ ملبے سے نہیں اٹھ رہی تھی، اس کا صرف ایک مطالبہ تھا، وہ کہہ رہی تھی کہ وہ بس ایک بار آپریشن کرنے والے صاحب سے ملنا چاہتی ہے۔ انتظامیہ عموماً ایسے مواقع پر خواتین سے زبردستی نہیں کرتی چنانچہ اہلکاروں نے انہیں بتایا اور وہ خاتون کے پاس چلے گئے۔

خاتون نے ان کی طرف دیکھا اور کہا ”صاحب! یہ آپریشن آپ نے کیا؟“ میں نے جواب دیا ”ہاں“ اس نے جھولی پھیلائی، آسمان کی طرف دیکھا اور بولی
”یا پروردگار! اس شخص نے میرے اور میرے بچوں کے سر سے چھت چھینی، یا اللہ اسے اور اس کے بچوں کو برباد کر دے“
میں اس وقت جوان تھا، میں نے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ اس خاتون نے اس کے بعد کہا:
”یا اللہ! ہم سے ہمارے گھر چھیننے والے تمام لوگوں کو برباد کر دے“
اس نے اس کے بعد اپنی پوٹلی اٹھائی، اپنے بچے ساتھ لیے اور چلی گئی۔
وہ رکا، اس نے اپنے آنسو پونچھے اور بولا: جاوید صاحب! آپ یقین کریں، وہ دن ہے اور آج کا دن ہے، میں بحرانوں سے نہیں نکل سکا۔ میں اس پوٹلی والی کی بددعا کا نشانہ بن گیا۔ میرا ایکسیڈنٹ ہوا، میری بیوی اور میری بچی مر گئی، میری ٹانگیں کٹ گئیں۔ میرے دونوں بیٹے ایک ایک کر کے بیمار ہوئے، میں نے اپنی ساری جمع پونجی ان کے علاج پر لگا دی لیکن وہ فوت ہو گئے۔ مجھے سسرال سے گھر ملا تھا، وہ بک گیا۔ میں نے اپنا گھر بنایا تھا، وہ 2005ء کے زلزلے میں گر گیا۔
محکمے نے میرے اوپر الزام لگایا، میری انکوائری شروع ہوئی، میں ڈس مس ہوا اور بے گناہی کے باوجود آج تک بحال نہیں ہو سکا۔ میں مقدمے پر مقدمہ بھگت رہا ہوں، میں 38 سال کی عمر میں شوگر، بلڈ پریشر اور دل کا مریض بھی بن چکا ہوں اور میرے تمام رشتے دار اور دوست بھی میرا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ میں دل سے سمجھتا ہوں مجھے اس عورت کی بددعا لگی تھی۔ حکومت، میرا محکمہ اور آرڈر دینے والے لوگ، تینوں پیچھے رہ گئے لیکن میں برباد ہو گیا۔میں آج سوچتا ہوں تو میں اپنے آپ سے پوچھتا ہوں‘میں کتنا بے وقوف تھا! میں نے جنرل مشرف کے حکم پر غریبوں کے سروں سے چھت چھین لی.

وہ رکا اور پھر بولا: آپ کو میری باتیں عجیب لگیں گی لیکن میں نے تحقیق کی ہے، اس آپریشن کا حکم دینے والا ہر شخص میری طرح ذلیل ہوا، ان میں سے آج کوئی شخص اپنے گھر میں آباد نہیں، وہ سب اولاد اور بیویوں کے بغیر عبرت ناک اور بیمار زندگی گزار رہے ہیں یہاں تک کہ اس وقت کے چیئرمین سی ڈی اے کی ساری پراپرٹی بھی بک گئی اور اس کی اولاد بھی دربدر ہو گئی، وہ بھی عبرت کا نشان بن کر آخری سانسیں لے رہا ہے۔ہم سب کو اس عورت کی آہ کھا گئی.
میرا تجربہ اور میرا مشاہدہ ہے دنیا کا ہر وہ شخص جو کسی کے سر سے چھت اور اس کا روزگار چھینتا ہے یا پھر کسی معزز شخص کو بے عزت کرنے کی کوشش کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس سے سب کچھ چھین لیتا ہے اور وہ شخص اس کے بعد روز مرتا اور روز جیتا ہے مگر اس کی سزا ختم نہیں ہوتی لہٰذا آپ جو دل چاہے کریں، لیکن کسی کی بددعا نہ لیں۔ دنیا کے تمام عہدے، کرسیاں اور تکبر عارضی ہوتے ہیں، یہ پیچھے رہ جاتے ہیں اور دنیا اور آخرت دونوں میں صرف پوٹلی والیوں کی دعائیں یا پھر بد دعائیں کام کر جاتی ہیں۔

نوٹ
اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے.

جس ملک کے شہر پرانے اور تاریخی ہوتے ہیں وہاں قدرتی طور پر ترقی زیادہ ہوتی ہے۔ وہیں پر آبادی کا دباؤ زیادہ ہوتا ہے۔ اسی ط...
10/11/2024

جس ملک کے شہر پرانے اور تاریخی ہوتے ہیں وہاں قدرتی طور پر ترقی زیادہ ہوتی ہے۔ وہیں پر آبادی کا دباؤ زیادہ ہوتا ہے۔ اسی طرح انڈسٹری اور ٹرانسپورٹ بھی زیادہ ہوتی ہے۔ وہیں پانی اور ہوا کی آلودگی زیادہ ہوتی ہے۔ درختوں کی کٹائی لگائی سے زیادہ ہوتی ہے کیونکہ درخت کاٹنا منافع بخش اور لگانا وسائل مانگتا ہے جو غریب ممالک میں تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ہوا کا آلودہ ہونا اور سموگ کی شکل اختیار کر لینا فطرت کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ ملک ترقی یافتہ ہو یا ترقی پذیر سموگ سے ایک ہی صورت بچا ہوتا ہے اور وہ ہے قدرتی طور پر وقفے وقفے بارش کا ہونا۔ دنیا کے کئی شہر دہلی کلکتہ لاہور کراچی سے زیادہ دھواں پیدا کرتے ہیں مگر خوش قسمتی سے ایسے خطے میں موجود ہیں جہاں ہر تیسرے چوتھے دن بارش ہو جاتی ہے۔ بارش اس دھوئیں کو اپنے اندر سما کر ندی نالوں کے ساتھ سمندر برد کر دیتی ہے۔
بدقسمتی سے برصغیر کے زیادہ تر حصہ میں سال میں دو دفعہ بارش ہوتی ہے۔ ایک مون سون ( پندرہ جون سے پندرہ ستمبر) اور دوسرا گرد باد ( پندرہ دسمبر سے پندرہ جنوری) کے درمیان۔ ان مہینوں میں کبھی آپ نے سموگ کا نام نہیں سنا ہو گا۔ وجہ چوتھے پانچویں دن بارش کا ہوا کو صاف کر دینا۔ اس کے علاؤہ مختلف ٹوٹکے آزمائے جا سکتے ہیں ۔ درختوں کو لگا کر سموگ ختم نہیں مگر کم ضرور کی جا سکتی ہے۔ گاڑیوں کا الیکٹرک کرنا شاید ہمارے بس میں ہی نہیں ۔
الغرض جو مرضی تدبیریں کر لیں یہ مسلہ حل ہونے والا نہیں ۔ اس کا حل بارش کا ہونا ہی ہے اور متواتر گاہے بگاہے ہونا۔ یہی سستا اور سب سے کارگر طریقہ ہے۔ باقی سیاسی باتیں ہیں کرتے رہیں کوئی فرق پڑنے والا نہیں

بظاہر مہذب نظر آنے والی ہماری یہ دنیا نقاب پوشوں سے بھری ہوئی ہے؛ جہاں آپ کی ملاقات ہوتی ہے؛ بہادر سورماؤں سے، راہبوں سے...
10/11/2024

بظاہر مہذب نظر آنے والی ہماری یہ دنیا نقاب پوشوں سے بھری ہوئی ہے؛ جہاں آپ کی ملاقات ہوتی ہے؛ بہادر سورماؤں سے، راہبوں سے، فوجیوں سے، علم کے طالبعلموں سے، عدلیہ کے وکیلوں سے ، پادریوں سے ، فلسفیوں سے… یہ تمام لوگ ویسے ہرگز نہیں ہیں جیسا کہ وہ دکھائی دیتے ہیں؛ یہ خوشنما نظر آنے والے نقاب ہوتے ہیں جو انہوں نے پہن رکھے ہوتے ہیں، ان نقابوں کے پیچھے آپ کو پیسہ بنانے والے لوگ ہی ملیں گے - ایک آدمی، میں سمجھتا ہوں، جس نے قانون کا نقاب اوڑھا ہوتا ہے، جو اس نے اپنے مقصد کی پایہ تکمیل کے لئے قانون سے ادھار لیا ہوتا ہے ، تاکہ اس طاقت کے ذریعے وہ دوسرے آدمی کو مار پیٹ کر شکست دے سکے ؛ ایک دوسرے آدمی نے وطن سے محبت(حب الوطنی، وطنیت) کا نقاب ، عوام کی فلاح کرنے کا نقاب بھی اسی مقصد کے تحت پہنا ہوتا ہے؛ تیسرے شخص نے مذہب یا پاکیزگی کے مقدس نظریے کا نقاب پہنا ہوتا ہے - اس طرح کے ذاتی تمام مقاصد حاصل کرنے کے لیے آدمی بعض اوقات فلسفے کا نقاب بھی اوڑھتا ہے، حتیٰ کہ انسان دوستی کا نقاب بھی وہ پہنے ہوئے ہوتا ہے -

خواتین کی بات کی جائے تو ان کے پاس محدود انتخاب ہوتے ہیں، وہ اصولی طور پر اخلاقیات کا نقاب پہنتی ہیں، شرم و حیا کا نقاب اوڑھتی ہیں ، گھریلو نظر آنے اور ہمدرد دکھائی دینے کا نقاب اوڑھتی ہیں -

پھر یہاں کچھ عام نقابیں بھی ہیں، جو کسی خاص کردار پیشے کو ظاہر نہیں کرتیں، اس میں ان لوگوں کی آنکھیں دکھائی دیتی ہیں لیکن چہرہ چھپا رہتا ہے - یہ نقاب ہر دوسرا شخص عام طور پر پہنے ہوئے ہوتا ہے؛ یہ نقاب ہے خالص سچا دکھائی دینے کا ، خوش اخلاقی کا ، خالصتاً ہمدرد دکھائی دینے کا، پر خلوص دوستی کا نقاب .. اپنی اصلیت چھپا کر ایسی ظاہری اور خوشنما صورتوں میں لوگ دوسروں کے سامنے اپنا آپ پیش کرتے ہیں -

یہ تمام قسم کی نقابیں اصولی طور پر ، جیسا کہ میں نے پہلے کہا، لوگوں نے اپنی تجارت، صنعت کو فروغ دینے اور اپنے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے، محض بھیس بدل کر پہنی ہوتی ہیں -

جرمن فلسفی
آرتھر شوپنہاؤر

07/11/2024

عورت کی امامت میں کراچی کی عوام اور جید علماء کی نمازِ جمعہ کا انوکھا اور سچّا تاریخی واقعہ ۔۔۔

یہ 1970 کی بات ہے کہ جب اِنڈونیشیا میں صدر سوہارتو کی حکُومت تھی اور پاکِستان میں جنرل یحیٰی خان کا مارشل لاء تھا...
انڈونیشیا کی ایک خاتُون "زہرہ فونا" نے حضرت مہدیؑ کی والدہ ہونے کا دعویٰ کر دِیا ....

اُس کا کہنا تھا کہ اُس کے رحم میں پرورِش پانے والا بچہ حضرت مہدیؑ ہے ....

کیونکہ اُس عورت کے پیٹ سے کان لگا کر سُننے پر اذان اور تِلاوتِ قُرآن کی آواز آتی تھی.

یہ خبر پُورے اِنڈونیشیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ۔۔۔۔
جب یہ خبر اِنڈونیشی حُکام تک پہنچی تو سب سے پہلے اِنڈونیشیا کے اُس وقت کے نائِب صدر آدم مالِک نے زہرا فونا کو اپنی رہائش گاہ پر مدعُو کِیا اور دورانِ مُلاقات اُس کے پیٹ پر کان لگا کر اذان سُننے کا شرف حاصِل کیا اور تصدیق کر دی۔۔۔

اُس کے بعد اِنڈونیشیا کے وزیر مذہبی امُور محمد ڈیچلن نے بھی اذان سُنی اور ایک بیان جاری کِیا کہ اِمام شافعی بھی تین سال اپنی ماں کے رحم میں رہے تو اِمام مہدی کیوں رحم سے اذان نہیں دے سکتے ۔۔۔

اِس کے بعد تو گویا اِنڈونیشی حُکام کی زہرہ فونا سے مُلاقات کی لائِن لگ گئی ۔۔۔

خُود صدر سوہارتو اور اُن کی بیگم نے زہرہ فونا سے مُلاقات کی ۔۔۔

لوگوں نے زہرا کو مریم ثانی کا درجہ دے دِیا۔ زہرہ کی شہرت اِنڈونیشیا سے نِکل کر پُورے عالمِ اِسلام میں پھیل گئی اور مُختلف مُمالِک نے زہرا فونا کو اپنے یہاں آنے کی دعوت دی ۔۔۔

ہماری عسکری حکُومت کو بھی یہ شرف اور نادر موقع حاصِل ہوا کہ لوگوں کے اذہان کو تبدیل کِیا جا سکے اور اُن کو روٹی اور منتقلی ء اقتدار کے چکر سے نِکال کر معجزات پر مرتکز کر دیا جائے جس کیلئے زہرا خاتون کو پاکستان کے سرکاری دورے کی دعوت دے ڈالی ۔۔۔

زہرہ فونا کی پاکستان آمد کے ساتھ ہی عُلماء کو تصدیق کے لیئے بلوا لیا گیا کہ آیا خاتُون کے پیٹ میں موجُود بچہ واقعی اِمام مہدی ہی ھے ؟

مولانا احترامُ الحق تھانوی اور مولانا شفیع اوکاڑوی نے باری باری خاتُون کےپیٹ کے قریب کان لگا کر اذان سُننے کے بعد پُورے یقین کے ساتھ بیان جاری کِیا کہ اذان کی آواز خاتُون کے اندرونی حِصوں سے ہی آ رہی ہے اور بس اب اِمام مہدی کی آمد آمد ہے ۔۔۔

ہمارے عُلماء حضرات کے لئے تحقیق شاید آواز سُننے کی حد تک ہی تھی۔ اُنہیں صرف ریڈیو اور ٹی وی کا علم تھاـ اُس وقت ٹیپ ریکارڈر کا کوئی خاص تصور نہیں تھا اگر کِسی اشرافیہ کے گھر ٹیپ ریکارڈر تھا بھی تو بڑے ڈبے نُما طرز کا تھا ۔۔۔۔

علماء نے اُس آواز کے منبع کی مزید کرید و جستجو مُناسِب نہ سمجھی کہ یہ خبر ہی اِس قدر خُوش کُن تھی کہ برادرانِ اِسلام مزید کُچھ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے قاصر ہو گئے۔ نہ صِرف ہمارے عُلماء بلکہ اِنڈونیشی جید عُلماء اور عالمِ اِسلام کے دیگر مُمالِک کے عالم بھی اِس ضُعف الاعتقادی میں آ گئے ۔۔۔

کراچی کی تقریباً پانج لاکھ سے زائد آبادی نے اور تمام مسالِک اور مکاتبِ فِکر کے جید عُلماء نے زہرا فونا کی اِمامت میں نمازِ جُمعہ ادا کرنے کی سعادت حاصل کر لی ۔۔۔

یہ واقعہ اس قدر مضحکہ خیز تھا کہ وہ عورت اپنے پیر کعبہ کی طرف کر کے بیٹھ گئی اور اُس کے پیٹ کے پاس مائِیک اسٹینڈ رکھ دیا گیا اور عوام معہ عُلماء و مشائخ حضرات نے اُسکے پیچھے اِمام مہدی کی اِقتداء میں باجماعت نماز جمعہ ادا کی ۔۔۔

قُرانِ پاک کی سورہ حجرات کی آیت ۴۹ میں اللّٰہ تعالٰی کا اِرشاد ہے:
(ترجمہ)
”اے مُسلمانو ! اگر تُمہیں کوئی فاسِق خبر دے تو تُم اُس کی اچھی طرح تحقیق کر لِیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کِسی قوم کو اِیذا پہنچا دو پھِر اپنے کِیے پر پشیمانی اُٹھاؤ ۔"

پھِر کُچھ یُوں ہُوا کہ ۔۔۔۔
چند ڈاکٹروں کے لئے اِس بات پر یقین کرنا مُشکِل تھا۔ چنانچہ اُنہوں نے صحیح صورتحال کو جاننے کی ٹھان لی ۔۔۔
مگر زہرہ فونا ہر دفعہ اُنہیں چکر دے کر نِکل جاتی ۔ مُسلسل کوشِش کے بعد ایک دِن ڈاؤ میڈیکل کالِج کے ڈاکٹر اُسے قابُو کرنے میں کامیاب ہو گئے اور دورانِ تفتیش زہرہ فونا کی ٹانگوں کے درمیان پھنسا ہُوا ننھا مُنّا ٹیپ ریکارڈر برآمد کر لِیا۔

اُسی روز زہرہ فونا پاکِستان سے براستہ اِنڈیا اِنڈونیشیا بھاگ گئی اور پاکِستانیوں کو مزید ماموں بننے اور سعادتیں حاصل کرنے کا عظیم موقع مزید نہ مل سکا ۔۔۔

بعد میں زہرہ فونا اور اُس کا شوہر اِنڈونیشیا میں گِرفتار ہوئے اور اُنہوں نے قبُول کِیا کہ یہ سب اُنہوں نے دولت اور شہرت حاصِل کرنے کیلئے کِیا تھاـ

دُنیا آج بھی اِس واقعے کو یاد کر کے مُسلمانانِ عالم پر ہنستی ہے ۔۔۔
( تاریخ کے اوراق سے )

05/11/2024

ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻧﮯ ﺟﺐ ﻣﯿﺮﮮ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﮯ ﺣﻘﮯ ﭘﺮ ﭘﺎﺑﻨﺪﯼ ﻟﮕﺎﺋﯽ
ﺗﻮ ﻭﺍﻟﺪ ﻧﮯ ﺣﻘﮧ ﮔﻮﺩﺍﻡ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﻮﺍ ﺩﯾﺎ۔
ﯾﻮﮞ ڈیرے ﮐﯽ ﺑﮍﯼ ﺍﭨﺮﯾﮑﺸﻦ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔
انہی ﺩﻧﻮﮞ ’’ﺍﯾﮑﺲ ﭼﯿﻨﺞ‘‘ ﮐﯽ ’’ﺍﭖ ﮔﺮﯾﮉﯾﺸﻦ‘‘ ﺑﮭﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻓﻮﻥ ﺑﮭﯽ ﻋﺎﺭﺿﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﮐﭧ ﮔﯿﺎ۔
ﯾﻮﮞ ڈیرے ﮐﯽ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺍﭨﺮﯾﮑﺸﻦ ﺑﮭﯽ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔

ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﺟﻮ ﺭﻭﺯ ﺻﺒﺢ ﺳﻮﯾﺮﮮ ہمارے ڈیرے ﭘﺮ ﺍٓ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺷﺎﻡ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﯽ ڈیرے ﭘﺮ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﻏﺎﺋﺐ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ۔
ﮨﻢ ﺟﻦ ﮐﻮ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﻗﺮﯾﺒﯽ ﺩﻭﺳﺖ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ، ﺟﻮ ﻟﻮﮒ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭼﺎﭼﺎ ﺟﯽ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﮭﮯ، ﺟﻮ ﮔﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﻭﻧﭽﯽ ﺍٓﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ حاجی ﺻﺎﺣﺐ ﮐﺎ ﻧﻌﺮﮦ ﻟﮕﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﮔﮭﻨﭩﻮﮞ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﯽ ﺗﻌﺮﯾﻔﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ، ﻭﮦ ﺳﺐ ﺑﮭﯽ ﻏﺎﺋﺐ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ۔ ﮨﻢ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺷﮑﻠﯿﮟ ﺗﮏ ﺑﮭﻮﻝ ﮔﺌﮯ۔
ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﭘﺮﺍﺋﻤﺮﯼ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﮬﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﭽﮯ ﺫﮨﻦ ﮐﮯ لئے ﯾﮧ صورتحال ﮨﻀﻢ ﮐﺮﻧﺎ ﻣﺸﮑﻞ ﺗﮭﺎ۔

ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻥ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ؛ ’’ﺍﺑﺎ ﺟﯽ! ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﺩﻭﺳﺖ ﮐﮩﺎﮞ ﭼﻠﮯ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ؟‘‘
ﻣﯿﺮﮮ ﻭﺍﻟﺪ ﻧﮯ ﻏﻮﺭ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ، ﻣﯿﺮﯼ ﺍٓﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺍبھیگی ہوئی تھیں۔
ﻣﯿﺮﮮ ﻭﺍﻟﺪ ﻧﮯ ﺭﻭﻣﺎﻝ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺍٓﻧﮑﮭﯿﮟ ﺻﺎﻑ ﮐﯿﮟ، ﺳﺮ ﭘﺮ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﮭﯿﺮﺍ ﺍﻭﺭ ﺑﮍﮮ ﭘﯿﺎﺭ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ؛

’’ﺑﯿﭩﺎ! ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻭﺳﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﮯ،
ﯾﮧ ﺣﻘﮯ ﺍﻭﺭ ﭨﯿﻠﯽ ﻓﻮﻥ ﮐﮯ ﺩﻭﺳﺖ ﺗﮭﮯ۔ ﺣﻘﮧ ﺑﻨﺪ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ، ﭨﯿﻠﯽ ﻓﻮﻥ ﮐﭧ ﮔﯿﺎ، ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﺑﮭﯽ ﮐﭧ ﮔﺌﮯ۔
ﺟﺲ ﺩﻥ ﭨﯿﻠﯽ ﻓﻮﻥ ﺍﻭﺭ ﺣﻘﮧ ﻭﺍﭘﺲ ﺍٓ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ، ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﺩﻥ ﻭﺍﭘﺲ ﺍٓ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ۔‘‘

ﻣﯿﺮﮮ ﮐﭽﮯ ﺫﮨﻦ ﻧﮯ ﯾﮧ ﻓﻠﺴﻔﮧ ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ
ﻣﯿﺮﮮ ﻭﺍﻟﺪ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﯽ ﮔﻮﻣﮕﻮ ﭘﮍﮪ ﻟﯽ۔ ﻭﮦ ﺑﻮﻟﮯ ﺑﯿﭩﺎ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﻮ

ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺟﺐ ﺍٓﭖ ﮐﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﻌﻤﺖ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﯾﮧ ﻧﻌﻤﺖ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﺌﮯ ﺩﻭﺳﺖ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺍٓﺗﯽ ﮨﮯ، ﻟﯿﮑﻦ ﮨﻢ ﻧﻌﻤﺖ ﮐﮯ ﺍﻥ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﻭﺳﺖ ﺳﻤﺠﮫ ﺑﯿﭩﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
یہی ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺑﮯ ﻭﻗﻮﻓﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔
ﯾﮧ ﻧﻌﻤﺖ ﺟﺲ ﺩﻥ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ، ﯾﮧ ﺳﺎﺭﮮ ﺩﻭﺳﺖ ﺑﮭﯽ ﺭﺧﺼﺖ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
۔ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ؛
’’ﺑﯿﭩﺎ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﺍﺻﻞ ﮐﻤﺎﻝ ﯾﮧ ﮨﻮ ﮔﺎ کے ﺍٓﭖ ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﺩﻭﺳﺖ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ۔
ﺍٓﭖ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﻭﺳﺖ ﻧﮧ ﺑﻨﻨﮯ ﺩﻭ۔
ﺗﻢ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﺎﯾﻮﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﮔﮯ۔‘‘
’’ﺑﯿﭩﺎ! ﺍٓﭖ ﮐﺎﺭ ﮐﮯ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﺎﺭ ﮐﺎ ﺩﻭﺳﺖ ﺳﻤﺠﮭﻮ،
ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ﮐﮯ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ﮐﺎ ﺩﻭﺳﺖ ﺳﻤﺠﮭﻮ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﮩﺪﮮ ﮐﮯ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﻋﮩﺪﮮ ﮐﺎ ﺩﻭﺳﺖ ﺳﻤﺠﮭﻮ ۔۔۔
ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻝ ﺗﮏ ﻧﮧ ﭘﮩﻨﭽﻨﮯ ﺩﻭ۔
ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺩﻝ ﮐﺒﮭﯽ ﺯﺧﻤﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﮔﺎ۔ ﺗﻢ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﻭﺅ ﮔﮯ۔

‏سنیما کی تاریخ کاسب سے طاقتور مکالموں میں سے ایک، اس دنیا کی حقیقت کا خلاصہ،‏ "جب میں مر جاؤں گا تو وہ تم سے صلح کرنے ا...
01/11/2024

‏سنیما کی تاریخ کاسب سے طاقتور مکالموں میں سے ایک، اس دنیا کی حقیقت کا خلاصہ،

‏ "جب میں مر جاؤں گا تو وہ تم سے صلح کرنے اور معاہدہ کرنے کو کہیں گے، وہ تمہارے پاس کسی ایسے شخص کو بھیجیں گے، جس پر تم اعتماد کرتے ہو، ہمارے گروپ یا خاندان میں سے کسی ایک کو;

‏مستقل بنیادوں پر قیام امن کے لیے اجلاس منعقد کرنے کے لیے تاریخ مانگیں گے۔، اس ملاقات کے دوران تم کو قتل کر دیا جائے گا! جس شخص کو بھی وہ تمہارے کے پاس میٹنگ طے کرنے کے لیے بھیجیں، اس سے بچ کر رہنا، دراصل وہی غدار ہوگا!!

‏ (ڈان ویٹو کورلیون) اپنے بیٹے (مائیکل کورلیون) کو فلم (دی گاڈ فادر) میں نصیحت

01/11/2024

کسی جنگل میں ایک بکری بہت بے فکری سے ادھر ادھر گھوم رہی تھی ۔
ایک کوے کو بہت حیرت ھوئی اور وہ بکری سے پوچھنے لگا کہ تمہیں کسی سے خوف کیوں نہیں ھے؟

بکری نے کہا ۔ بھائی میری بے فکری کا سبب یہ ھے کہ کچھ عرصہ پہلے ایک شیرنی اپنے دو چھوٹے بچے چھوڑ کر مر گئی تھی ۔

میں نے ان پہ ترس کھا کر اپنے دودھ پہ پال کر انہیں پروان چڑھایا۔اب وہ جوان ھیں اور انہوں نے جنگل میں اعلان کر رکھا ھے کہ ھماری بکری ماں کی طرف کوئی میلی آنکھ سے نہ دیکھے۔سو اب کسی بڑے خوںخوار جانور میں بھی یہ ہمت نہیں کہ مجھ پہ ہاتھ ڈالے کسی چھوٹے موٹے جانور کا ذکر ہی کیا۔
کوے نے سوچا کاش مجھے بھی ایسی نیکی کرنے کا موقع ملے اور پرندوں کی دنیا میں مجھے بھی احترام حاصل ھو جائے۔وہ یہی سوچتا ھوا اڑتا جا رہا تھا کہ اس نے نیچے دریا میں ایک چوہے کو ڈبکیاں کھاتے دیکھا ۔

وہ فوراً نیچے اترا اور چوہے کو دریا سے نکال لایا اور ایک بڑے پتھر پہ لٹا کر اپنے پروں سے ھوا دینے لگا تاکہ وہ خشک ھو جائے۔جونہی چوہے کے حواس بحال ھوئے اس نے کوے کے پر کترنے شروع کر دئیے۔کوا بیچارہ نیکی کی دھن میں مگن تھا اور چوہا اپنی کار گزاری میں مصروف۔اتنی دیر میں وہ خشک بھی ھو چکا تھا ۔

لہذا اس نے اپنے بل کی طرف دوڑ لگا دی ۔کوا نیکی کر کے بہت موج میں تھا۔اسی موج میں اس نے لمبی اڑان بھرنے کی کوشش کی مگر منہ کے بل زمین پہ آ پڑا اور اڑنے سے معذور ھو کر زمین پہ ہی اچھلنے اور گھسٹنے لگا ۔

اتفاقاً بکری ادھر سے گزری تو پوچھنے لگی ۔بھائی کوے تم پہ کیا افتاد آن پڑی؟وہ غصے سے بولا۔یہ سب تمہارا کیا دھرا ھے۔تمہاری باتوں سے متاثر ھو کر میں نےنیکی کمانے کی چاہ میں چوہے کی جان بچائی مگر وہ میرے پر ہی کتر بھاگا۔بکری ہنس پڑی اور کہنے لگی۔

بے وقوف اگر نیکی ہی کرنی تھی تو کسی شیر کے بچے کے ساتھ کرتے۔چوہے کا بچہ تو اپنا چوہا پن ہی دکھائے گا۔بد ذات اور بدنسل کے ساتھ نیکی کرنے والے کا وہی حال ھوتا ھے جو تمہارا ھوا ھے.....

کووں کے بچے موتی چگنے سے ہنس نہیں بن جاتے اور کھارے پانی کے کنویں میں میٹھا ڈالنے کے بعد بھی کھارے ہی رہتے ہیں۔

31/10/2024

اہک سبق آموز تحریر!!!

نائی اور غربت دی چس ...

ایک گاوں میں غریب نائی رہتا تھا جو ایک درخت کے نیچے کرسی لگا کے لوگوں کی حجامت کرتا ۔ مشکل سے گزر بسر ہوتی. اس کے پاس رہنے کو نہ گھر تھا نہ بیوی تھی نہ بچے تھے۔ ایک چادر اور ایک تکیہ اس کی ملکیت تھی ۔جب رات ہوتی تو وہ ایک بند سکول کے باہر چادر بچھاتا، تکیہ رکھتا اور سو جاتا.
ایک دن صبح کے وقت گاوں میں سیلاب آ گیا.
اس کی آنکھ کھلی تو ہر طرف شور و غل تھا۔ وہ اٹھا اور سکول کے ساتھ بنی ٹینکی پر چڑھ گیا. چادر بچھائی، دیوار کے ساتھ تکیہ لگایا اور لیٹ کر لوگوں کو دیکھنے لگا ۔
لوگ اپنا سامان، گھر کی قیمتی اشیا لے کر بھاگ رہے تھے. کوئی نقدی لے کر بھاگ رہا ہے، کوئی زیور کوئی بکریاں تو کوئی کچھ قیمتی اشیا لے کر بھاگ رہا ہے۔
اسی دوران ایک شخص بھاگتا آ رہا تھا اس نے سونے کے زیور پیسے اور کپڑے اٹھا رکھے تھے۔جب وہ اس نائی کے پاس سے گزرا تو اسے سکون سے لیٹے ہوئے دیکھا تو رک کر بولا۔۔۔ اوئے ساڈی ہر چیز اجڑ گئی اے. ساڈی جان تے بنی اے، تے تو ایتھے سکون نال لیٹا ہویا ویں۔۔۔۔
یہ سن کر وہ ہنس کر بولا : لالے اج ای تے غربت دی چس آئی اے۔

جب میں نے یہ کہانی سنی تو ہنس پڑا ۔مگر پھر ایک خیال سا آیا۔
میں روز محشر والے دن کا سوچنے لگا کہ بروز حشر کا منظر بھی کچھ ایسا ہو۔ جب تمام انسانوں کا حساب قائم ہو گا۔ ایک طرف غریبوں کا حساب ہو رہا ہو گا ۔ دو وقت کی روٹی، کپڑا ۔حقوق اللہ اور حقوق العباد ۔
ایک طرف امیروں کا حساب ہو رہا ہو گا ۔پلازے. دکانیں. فیکٹریاں. گاڑیاں. بنگلے. سونا چاندی ۔ ملازم ۔ پیسہ ۔حلال حرام۔ عیش و آرام ۔ زکواۃ ۔حقوق اللہ۔ حقوق العباد...
اتنی چیزوں کا حساب کتاب دیتے ہوئے پسینے سے شرابور اور خوف سے تھر تھر کانپ رہے ہو گے۔
دوسری طرف غریب کھڑے ان کو دیکھ رہے ہو گے چہرے پر ایک عجیب سا سکون اور شاید دل ہی دل میں کہہ رہے ہو گے...
اج ای تے غربت دی چس آئی اے...

مزید ایسی پوسٹوں اور اچھی اچھی تحریروں کے لئے فالو کریں شکریہ

ایک دانا سے استفسار کیا گیا:"آپ اس عظیم فہم و شعور کے مقام تک کیسے پہنچے؟  کون سی کتابوں نے آپ کو یہ فکری بلندی عطا کی؟"...
30/10/2024

ایک دانا سے استفسار کیا گیا:
"آپ اس عظیم فہم و شعور کے مقام تک کیسے پہنچے؟
کون سی کتابوں نے آپ کو یہ فکری بلندی عطا کی؟"
دانا نے جواب دیا:
"میں نے کتابوں سے نہیں، بلکہ زندگی کے نشیب و فراز سے سیکھا ہے۔
پچاس زخموں کی گہرائی میں اتر کر، ستر جھگڑوں کی سختیوں میں گِھر کر اور بے شمار مصیبتوں کے بوجھ تلے دب کر شعور کی منازل طے کیں۔
اپنوں کی آنکھوں میں جب غداری کی جھلک دیکھی، تو احتیاط کا ہنر سیکھا۔
جن سے محبت کی، ان کی نظروں میں جب بے دردی دیکھی، تو خاموشی اختیار کرنا سیکھا۔
دوست کہلانے والوں کے ہاتھوں بے وفائی کا زخم کھایا، تو رخصت ہونے کا ہنر اپنایا۔
اور جب بار بار اپنے پیاروں کو سپردِ خاک کیا، تو یہ حقیقت مجھ پر آشکار ہوئی کہ محبت وہ اثاثہ ہے جسے جینا لازم ہے۔
اگر سیکھنا ہے تو دنیا کو پڑھو؛ یہ وہ کتاب ہے جس کی وسعتیں لامحدود ہیں۔
یاد رکھو، زندگی میں کوئی سبق مفت نہیں ملتا، ہر سبق کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔"

Address

Bahawalpur
63100

Telephone

+923007840418

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Rehan Babar posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share