31/12/2024
خدیجہ گھر سے تمام جمع پونجی بھی لے گئی تھی لیکن جب گھر میں اس کی غیر موجودگی کا پتا چلا تب بہت دیر ہو چکی تھی۔ جب بھائی اس کو ڈھونڈتا ڈاک بنگلے پہنچا تو وہ وہاں قابل اعتراض حالت میں ملی جبکہ زیور اور نقدی لے کر وہ افسر وہاں سے فرار ہو چکا تھا۔ خدیجہ کو اس نے نشہ آور کوئی شے پلا دی تھی۔ جمال بہن کو اس حال میں دیکھ کر غیرت سے آگ کا شعلہ بن گیا 👇👇
نویں جماعت اچھے نمبروں سے پاس کر لی تو امی ابو بہت خوش ہوئے کیونکہ ان کو امید نہ تھی کہ میں پاس بھی ہو جائوں گی۔ مجھ کو نئی کلاس میں جانے کی بہت خوشی تھی۔ مزید یہ کہ امی نے چھٹیوں میں ماموں جان کے ساتھ گائوں بھیجنے کا وعدہ کیا تھا لیکن یہ وعدہ اچھے نمبروں کے ساتھ مشروط تھا۔ کچھ وجوہ کی بنا پر امی اپنے میکے نہیں جاتی تھیں۔
میں اپنے ہوش سنبھالنے کے بعد پہلی دفعہ جارہی تھی، تبھی پھولے نہ سماتی تھی۔ چھٹیاں ہوتے ہی ماموں لینے آ گئے اور ہم گانوں روانہ ہو گئے۔ دوران سفر تمام راستہ سوچتی جارہی تھی کہ وہاں کے لوگ کتنے سادہ ہوں گے جب کہ میں خود بھی سیدھی سادی لڑکی تھی۔ ان دنوں دنیا کے نشیب و فراز کو اچھی طرح نہیں سمجھتی تھی۔ یہاں کے لوگ واقعی بہت سادہ تھے۔ دیہاتی لڑکیاں آن واحد میں اکٹھی ہو گئیں اور انہوں نے میرے گرد گھیرا ڈال دیا جیسے میں کوئی آسمان سے اتری اپسرا ہوں۔
میں بہت خوش تھی۔ ان سادہ لوح لڑکیوں میں ایک بہت اچھی لگی۔ اس کی شوخیاں دل موہ لینے والی تھیں حالانکہ میں سنجیدہ اور سکون پسند تھی، پھر بھی وہ شوخ میرے دل کو بھا گئی تاہم ایک بات میں نے محسوس کی کہ یہ لڑکی خدیجہ کھل کر نہیں ہنستی تھی اور جب ہنستی تو اس کی ہنسی میں اداسی جھلکتی تھی۔ خدیجہ میں جانے کیا بات تھی کہ میری اس کی دوستی منٹوں میں ہو گئی جب کہ میں شہری اور وہ کلی طور پر دیہاتی لڑکی تھی۔ دیگر دیہاتی لڑکیوں کی مانند اس میں اجڑ پن بالکل نہیں تھا۔ چند دنوں میں ہی اس کے ساتھ دوستی اتنی ہو گئی کہ اب ہم اکٹھی باہر جانے لگیں۔
باہر نکل کر مجھ کو احساس ہوا کہ یہاں کے لوگ خدیجہ کو اچھا نہیں سمجھتے۔ وہ اس سے بے رخی سے بات کرتے اور کسی کارویہ تو بھر پور اہانت بھرا ہوتا تھا۔ اس کے گھر گئی، وہاں بھی اس کے ساتھ ایسا سلوک تھا۔ ایک بڑا بھائی جمال تھا اور ایک چھوٹی بہن تھی جس کا نام نازو تھا۔ وہ ایک اچھی فیملی تھی۔ اس کے باوجود خدیجہ وہاں خوش نہیں تھی، بس ایک نازو تھی جو اپنی بہن سے پیار کرتی تھی اور اس کا خیال رکھتی تھی۔
جب ماموں کو پتا چلا کہ میری دوستی اس لڑکی سے ہو گئی ہے تو ان کو برا لگا اور انہوں نے میرا اس کے ساتھ میل جول بند کرا دیا۔ میں پریشان ہو گئی۔ آخر ایسی کیا بات ہے کہ یہ لوگ اس بیچاری کو اتنا برا سمجھتے ہیں۔ایک دن دوپہر کے وقت نازو میرے پاس آئی۔ اس وقت نانی باہر تھیں اور نانا کھیتوں پر تھے ، میں اور ممانی گھر پر تھیں۔ نازو کو کمرے میں لے آئی اور اصرار کیا کہ تم اپنی بہن کے بارے میں بتائو کیا معاملہ ہے ؟ تب وہ یوں گویا ہوئی۔
سائرہ باجی، یہ خدیجہ آپی ، اماں باوا کا کہنا نہیں سنتی تھی۔ اماں منع کرتی تھیں کہ پلیا سے اس طرف مت جایا کرو وہ ہمارا علاقہ نہیں ہے بلکہ سرکاری علاقے میں آتا ہے، وہاں ایک ڈاک بنگلہ ہے جس میں سرکاری آفیسر آکر ٹھہرتے ہیں۔ یہ پھر بھی ادھر چلی جاتی تھیں۔ گائوں والے اپنی بیٹیوں کو ڈاک بنگلوں کی طرف کبھی نہیں جانے دیتے۔ مگر کیوں ؟ میں نے پوچھا۔ اس لئے کہ ادھر جانے سے کبھی کبھی بربادی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
ایک بار یہ اکیلی اس طرف گئیں۔ ڈاک بنگلہ اکثر خالی پڑا رہتا تھا۔ چوکیدار تبھی صفائی کرتا جب وہاں کوئی افسر بابو آ کر ٹھہرتا۔ بنگلے کے احاطے میں جامن ، بیر اور آم کے درخت ہیں۔ شہتوت بھی لگے ہیں۔ یہ ان کو توڑنے کے لالچ میں جاتیں۔ کئی بار مجھے بھی بہلا کر ساتھ لے لیا کرتیں۔ اماں نے مجھ کو بہت ڈانٹا کہ تو اس کے ساتھ مت جایا کر ، جب تو نہ جائے گی تو یہ بھی اکیلی جانے سے ڈرے گی مگر ہماری بہن بڑی نڈر ہے، یہ موقع ملتے اکیلی جا نکلتی۔ایک روز یہ وہاں گئیں تو ایک افسر آیا ہوا تھا، اس نے ان کو باتوں میں لگا لیا اور دوبارہ آنے کا وعدہ لیا۔
جامن توڑنے کے بہانے یہ روز چوری چھپے اس سے باتیں کرنے جانے لگیں۔ ایک دن چوکیدار نے دیکھ لیا، بنگلے کے باغ میں بابو سے باتیں کرتے ، وہ خانساماں بھی تھا۔ اس نے کچن کی کھڑکی سے ان کو دیکھا تھا مگر افسر کے ڈر سے خاموش رہا۔ افسر نے ان کو تحفے بھی دیئے اور شادی کا وعدہ کیا ، کہا کہ میں دوبارہ آئوں گا تو بارات لے کر آئوں گا۔ یہ باتیں بابا چوکیدار نے سن لیں.👇👇👇(آگے پڑھنے کےلئے مکمل کہانی کا لنک اوپن کریں)👇👇👇
https://bitly.cx/1sIhv
اسلامی کہانیاں، سبق آموز کہانیاں، اخلاقی کہانیاں،خوفناک کہانیاں، بچوں کی کہانیاں