
30/06/2023
اکیڈمک، پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ
شعبہ ِ منصوبہ بندی و ترقی یا عرفِ عام میں پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کسی بھی سرکاری و غیر سرکاری ادارے کی کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے۔ سرکاری جامعات ہوں، نیم سرکاری محکمے ہوں یا غیر سرکاری ادارے ہوں سبھی کی کامیابی میں کلیدی کردار ہمیشہ پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ ادا کرتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ سرکاری جامعات میں یہ شعبہ غنودگی کی صورتحال میں رہتا ہے۔ بنیادی وجہ اکثر اوقات وائس چانسلرز اور انتظامیہ نئے ترقیاتی پروجیکٹس شروع کرنے میں اس لئے بھی ہچکچاہٹ کا شکار رہتی ہے کہ چار سالہ مختصر عرصہ کے بعد نیب، اینٹی کرپشن ایسٹیبلشمنٹ، عدالتوں اور دیگر احتسابی اداروں کی جانب سے غیر ضروری انکوائریزی کا ناختم ہونے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ ماضی قریب میں کچھ وائس چانسلرز کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالتوں میں پیش کرنا، میڈیا ٹرائل کے ذریعے وائس چانسلرز کو اس حد تک ڈرایا دھمکایا گیا کہ کسی بھی سرکاری جامعہ کا وائس چانسلر بڑے پروجیکٹس شروع کرنے سے احتراظ کرتا ہے۔ مگر تاریخ کے اووراق کھنگھالے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ نے ہمیشہ اُن افراد کو اپنے سینے میں جگہ دی ہے جنہوں نے دنیاو ی ڈر اور افراد کے خوف سے بالا تر ہو کر بہادرانہ کام کئے اور تاریخ رقم کردی۔ ایک زندہ جاوید مثال اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے وائس چانسلر انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب ہیں جنہوں نے محض تین سال کے اندر جامعہ کی شکل بدل کے رکھ دی ہے۔ اربوں روپے کے ترقیاتی کام کا اجراء،ان کی مانیٹرنگ، اور ان کی کامیاب تکمیل کے طفیل یقینی طور پر آئندہ کئی برسوں میں وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب کا نام تاریخ میں زندہ و تابندہ رہے گا۔ پچھلے دنوں محمد شجی الرحمن سے ملاقات ہوئی انہوں نے کئی تعمیراتی پروجیکٹس پر سیر ِحاصل گفت گو کی۔ محمد شجی الرحمن بطور ایڈیشنل رجسٹرار (اکیڈمک و ایڈیشنل ڈائریکٹر پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ) اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔شجی الرحمن تعلیمی و ادبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اُن کے آباؤ اجداد میں مولانا حفیظ الرحمن،مولانا عزیرالرحمن، سیٹھ عبید الرحمن، ڈاکٹر جمیل الرحمن اورگورنر پنجاب اور سابق وفاقی وزیر برائے تعلیم محمد بلیغ الرحمن میں نمایاں ہیں۔ یہ خاندان ریاستِ بہاولپور کے آغاز کے ساتھ ہی یہاں رہائش اختیار کیئے ہوئے ہے۔
اس خاندان کی بنیادی پہچان تعلیم، ادب، تجارت اور سیاست رہا ہے۔ محمد شجی الرحمن نے ابتدائی تعلیم بہاولپور سے حاصل کی، بی کام اور ایم بی اے میں گولڈ میڈل بھی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے حاصل کیا۔ ایم بی اے کے فوراََ بعد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ہی میں اُن کی بطور اسسٹنٹ رجسٹرار تعیناتی ہوگئی۔ اسی دوران انہوں نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی تعمیر و ترقی کے لے یونیورسٹی انتظامیہ اور حکومتی سطح کے افسران کے درمیان پل کا کردار ادا کیا اور کئی پروجیکٹس پایہ ِ تکمیل تک پہنچائے۔ شجی الرحمن کا کہنا تھا کہ ہر وائس چانسلر اپنی سَمت طے کرتا ہے اور چار سال وہ اسی سَمت میں کام میں گامزن رہتا ہے۔ اُن کے بقول شعبہ پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ کے بغیر کوئی بھی ادارہ اپنی سمت طے نہیں کرسکتا۔آغاز سے ہی موجودہ وائس چانسلر نے اپنا ویثرن بتایا۔ وائس چانسلر نے کہا کہ اگلے دو سالوں میں ہم چالیس ہزار طلبہ و طالبات پر مشتمل ہونگے۔ ہم نے سوچا کہ کہاں تیرہ ہزار طلبہ و طالبات اور کہاں چالیس ہزار؟اگرچہ پوری یونیورسٹی انتظامیہ تذبذب کا شکار ضرور تھی کہ یہ سب کیسے ہوگامگر ہم نے اپنے منصوبے بنانا شروع کیے۔ پروپوزل بنائے گئے، ورکنگ پیپرز تیار ہوئے۔ ابتدائی طور پر وائس چانسلر نے کہا کہ سولر پارک کا منصوبہ فوری طور پر مکمل کیا جائے کیونکہ جب طلبہ و طالبات کی تعداد میں اضافہ ہوگا تو یقینی طور پر بجلی کی کھپت میں بھی اضافہ ہوگا اور موجودہ میپکو کا سسٹم بجلی کی کھپت پوری نہیں کرپائے گا۔ اسی لئے ہم نے پاسولر پارک کے منصوبہ کوپایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے رات دن ایک کردیا۔ وائس چانسلر انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب کے ویثرن،سابق صوبائی وزیر توانائی ڈاکٹر اختر ملک اور دیگر حکومتی ارکان کی کاوشوں سے اڑھائی میگا واٹ کے سولر پارک نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں کام کرناشروع کردیاہے۔
اسی طرح دوسرا اہم ٹاسک نئی عمارات کی تعمیر تھی تاکہ بڑھتی ہوئی تعداد کے حساب سے کلاس رومز اور فیکلٹی بلڈنگ کی تعمیر تھا جس پر صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے تعاون سے کام جاری ہے۔محمد شجی الرحمن کے مطابق ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان مختلف پروجیکٹس کی مد میں سرکاری جامعات کو ترقیاتی فنڈ مہیا کرتا ہے۔ اس پروگرام کے تحت شجی الرحمن نے وائس چانسلر کی مشاورت سے پی سی ون بنایا اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کو جمع کرایا۔ اس پروگرام کے تحت ہائر ایجوکیشن کمیشن نے چار ارب روپے کا ریکارڈ پروجیکٹ منظور کیا۔ اس پروجیکٹ کے تحت بغداد الجدید میں تین اکیڈمک بلاکس اور دو ہاسٹل، بہاولنگر کیمپس میں ایک اکیڈمک بلاک اور طالبات کے لئے دو ہاسٹلز،اسی طرح احمد پور شرقیہ سب کیمپس میں اکیڈمک بلاکس، ہاسٹل، چار دیواری کی تعمیر اور دیگر تعمیرات ہیں،علاوہ ازیں یہ بھی جامعہ اسلامیہ کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ کسی بھی سرکاری جامعہ میں پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ تصور کے تحت چار ارب روپے مالیت کے ترقیاتی کام جاری کیے گئے ہیں۔اس پروجیکٹ کے تحت تین نئی فیکلٹی بلڈنگز، ایگری کلچرل کالج کی توسیع، چار نئے ہاسٹل، اورمنیجمنٹ فیکلٹی کی عمارت کے ساتھ سڑک اور نیا گول چکر بنایا جائے گا۔انہوں نے بتایا کہ اس پروجیکٹ کے حوالے سے پروچانسلر راجہ یاسر ہمایوں نے دیگر یونیورسٹیز کو بھی کہا ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی طرز پر ایسا ماڈل اپنا یا جائے تاکہ سرکاری جامعات نہ صرف اپنے وسائل میں رہتے ہوئے کام کریں بلکہ پرائیوٹ سیکٹر کو بھی شامل کریں اور جامعات کی بڑھوتری کے لئے کام کیا جائے۔
دریں اثناء اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے تقریباََ پونے دو سو ملین روپے کے پروجیکٹس مکمل کرچکی ہے جن میں ہاسٹلز، چار دیواری اور دیگر منصوبہ جات کی مرمت و بحالی کا کام شامل ہے۔ محمد شجی الرحمن کے مطابق سوا ارب روپے کے مزید پروجیکٹس جاری ہیں جن میں بہاولنگر کیمپس میں اکیڈمک بلاک، گیسٹ ہاؤس اور گرلز ہاسٹل کی تعمیر، رحیم یار خان کیمپس میں مسجد کی تعمیر، اور بغداد کیمپس میں ایمفی تھیٹر، جامع مسجد کی توسیع شامل ہیں، علاوہ ازیں متعدد پروجیکٹس جن میں مقامی سطح پر کھومبیوں،ا سٹرابری، کھجوروں، مالٹے اورکیمپس میں تزین و آرائش کے لئے کٹ فلاور اگانے کے منصوبہ جات بھی شامل ہیں۔کئی ایسے پروجیکٹس پایہ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں جن کے مکمل ہونے پر کیمپس کی خوبصورتی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ رواں سال میں حکومت پنجاب کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے تاکہ نرسنگ کالج کے لئے نئی عمارت کا منصوبہ پایہ ِ تکمیل تک پہنچایاجائے، اور پاکستان کی سطح پر نرسنگ کی کمی کو پورا کیا جاسکے۔ اس پروجیکٹ کے تحت نہ صرف بغداد الجدید کیمپس میں ایک مکمل کالج کا قیام عمل میں لایا جائے گابلکہ بہاولنگر اور رحیم یار خان کیمپس میں بھی سب کیمپس بنائے گاجائیں گے۔ محمد شجی الرحمن سے گفت گو کے بعد راقم الحروف کو احساس ہوا کہ اگر قیادت کا ویثرن رکھتی ہو۔ بہادرانہ فیصلے کرنے کی ہمت و سکت رکھتی ہو تو سرکاری جامعات کو یقینی طور پر نہ صرف آگے بڑھایا جاسکتا ہے بلکہ دنیا کی صفِ اول کی جامعات میں شامل کرایا جاسکتا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون ڈاکٹر جام سجاد حسین کی کتاب "اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور (ترجمان ماضی شان حال)" سے لیا گیا ہے۔ مندرجہ بالا کتاب ڈائرکٹوریٹ آف پبلک ریلیشنز کے پلیٹ فارم سے چھپنے کے آخری مراحل میں ہے۔