Campus Radio FM 92.6 official

Campus Radio FM 92.6 official Campus radio is a important source of learning different techniques of camparing,news casting etc. Its playing a vital role in university,s progress.

30/06/2023

اکیڈمک، پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ

شعبہ ِ منصوبہ بندی و ترقی یا عرفِ عام میں پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کسی بھی سرکاری و غیر سرکاری ادارے کی کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے۔ سرکاری جامعات ہوں، نیم سرکاری محکمے ہوں یا غیر سرکاری ادارے ہوں سبھی کی کامیابی میں کلیدی کردار ہمیشہ پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ ادا کرتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ سرکاری جامعات میں یہ شعبہ غنودگی کی صورتحال میں رہتا ہے۔ بنیادی وجہ اکثر اوقات وائس چانسلرز اور انتظامیہ نئے ترقیاتی پروجیکٹس شروع کرنے میں اس لئے بھی ہچکچاہٹ کا شکار رہتی ہے کہ چار سالہ مختصر عرصہ کے بعد نیب، اینٹی کرپشن ایسٹیبلشمنٹ، عدالتوں اور دیگر احتسابی اداروں کی جانب سے غیر ضروری انکوائریزی کا ناختم ہونے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ ماضی قریب میں کچھ وائس چانسلرز کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالتوں میں پیش کرنا، میڈیا ٹرائل کے ذریعے وائس چانسلرز کو اس حد تک ڈرایا دھمکایا گیا کہ کسی بھی سرکاری جامعہ کا وائس چانسلر بڑے پروجیکٹس شروع کرنے سے احتراظ کرتا ہے۔ مگر تاریخ کے اووراق کھنگھالے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ نے ہمیشہ اُن افراد کو اپنے سینے میں جگہ دی ہے جنہوں نے دنیاو ی ڈر اور افراد کے خوف سے بالا تر ہو کر بہادرانہ کام کئے اور تاریخ رقم کردی۔ ایک زندہ جاوید مثال اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے وائس چانسلر انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب ہیں جنہوں نے محض تین سال کے اندر جامعہ کی شکل بدل کے رکھ دی ہے۔ اربوں روپے کے ترقیاتی کام کا اجراء،ان کی مانیٹرنگ، اور ان کی کامیاب تکمیل کے طفیل یقینی طور پر آئندہ کئی برسوں میں وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب کا نام تاریخ میں زندہ و تابندہ رہے گا۔ پچھلے دنوں محمد شجی الرحمن سے ملاقات ہوئی انہوں نے کئی تعمیراتی پروجیکٹس پر سیر ِحاصل گفت گو کی۔ محمد شجی الرحمن بطور ایڈیشنل رجسٹرار (اکیڈمک و ایڈیشنل ڈائریکٹر پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ) اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔شجی الرحمن تعلیمی و ادبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اُن کے آباؤ اجداد میں مولانا حفیظ الرحمن،مولانا عزیرالرحمن، سیٹھ عبید الرحمن، ڈاکٹر جمیل الرحمن اورگورنر پنجاب اور سابق وفاقی وزیر برائے تعلیم محمد بلیغ الرحمن میں نمایاں ہیں۔ یہ خاندان ریاستِ بہاولپور کے آغاز کے ساتھ ہی یہاں رہائش اختیار کیئے ہوئے ہے۔
اس خاندان کی بنیادی پہچان تعلیم، ادب، تجارت اور سیاست رہا ہے۔ محمد شجی الرحمن نے ابتدائی تعلیم بہاولپور سے حاصل کی، بی کام اور ایم بی اے میں گولڈ میڈل بھی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے حاصل کیا۔ ایم بی اے کے فوراََ بعد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ہی میں اُن کی بطور اسسٹنٹ رجسٹرار تعیناتی ہوگئی۔ اسی دوران انہوں نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی تعمیر و ترقی کے لے یونیورسٹی انتظامیہ اور حکومتی سطح کے افسران کے درمیان پل کا کردار ادا کیا اور کئی پروجیکٹس پایہ ِ تکمیل تک پہنچائے۔ شجی الرحمن کا کہنا تھا کہ ہر وائس چانسلر اپنی سَمت طے کرتا ہے اور چار سال وہ اسی سَمت میں کام میں گامزن رہتا ہے۔ اُن کے بقول شعبہ پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ کے بغیر کوئی بھی ادارہ اپنی سمت طے نہیں کرسکتا۔آغاز سے ہی موجودہ وائس چانسلر نے اپنا ویثرن بتایا۔ وائس چانسلر نے کہا کہ اگلے دو سالوں میں ہم چالیس ہزار طلبہ و طالبات پر مشتمل ہونگے۔ ہم نے سوچا کہ کہاں تیرہ ہزار طلبہ و طالبات اور کہاں چالیس ہزار؟اگرچہ پوری یونیورسٹی انتظامیہ تذبذب کا شکار ضرور تھی کہ یہ سب کیسے ہوگامگر ہم نے اپنے منصوبے بنانا شروع کیے۔ پروپوزل بنائے گئے، ورکنگ پیپرز تیار ہوئے۔ ابتدائی طور پر وائس چانسلر نے کہا کہ سولر پارک کا منصوبہ فوری طور پر مکمل کیا جائے کیونکہ جب طلبہ و طالبات کی تعداد میں اضافہ ہوگا تو یقینی طور پر بجلی کی کھپت میں بھی اضافہ ہوگا اور موجودہ میپکو کا سسٹم بجلی کی کھپت پوری نہیں کرپائے گا۔ اسی لئے ہم نے پاسولر پارک کے منصوبہ کوپایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے رات دن ایک کردیا۔ وائس چانسلر انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب کے ویثرن،سابق صوبائی وزیر توانائی ڈاکٹر اختر ملک اور دیگر حکومتی ارکان کی کاوشوں سے اڑھائی میگا واٹ کے سولر پارک نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں کام کرناشروع کردیاہے۔
اسی طرح دوسرا اہم ٹاسک نئی عمارات کی تعمیر تھی تاکہ بڑھتی ہوئی تعداد کے حساب سے کلاس رومز اور فیکلٹی بلڈنگ کی تعمیر تھا جس پر صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے تعاون سے کام جاری ہے۔محمد شجی الرحمن کے مطابق ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان مختلف پروجیکٹس کی مد میں سرکاری جامعات کو ترقیاتی فنڈ مہیا کرتا ہے۔ اس پروگرام کے تحت شجی الرحمن نے وائس چانسلر کی مشاورت سے پی سی ون بنایا اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کو جمع کرایا۔ اس پروگرام کے تحت ہائر ایجوکیشن کمیشن نے چار ارب روپے کا ریکارڈ پروجیکٹ منظور کیا۔ اس پروجیکٹ کے تحت بغداد الجدید میں تین اکیڈمک بلاکس اور دو ہاسٹل، بہاولنگر کیمپس میں ایک اکیڈمک بلاک اور طالبات کے لئے دو ہاسٹلز،اسی طرح احمد پور شرقیہ سب کیمپس میں اکیڈمک بلاکس، ہاسٹل، چار دیواری کی تعمیر اور دیگر تعمیرات ہیں،علاوہ ازیں یہ بھی جامعہ اسلامیہ کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ کسی بھی سرکاری جامعہ میں پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ تصور کے تحت چار ارب روپے مالیت کے ترقیاتی کام جاری کیے گئے ہیں۔اس پروجیکٹ کے تحت تین نئی فیکلٹی بلڈنگز، ایگری کلچرل کالج کی توسیع، چار نئے ہاسٹل، اورمنیجمنٹ فیکلٹی کی عمارت کے ساتھ سڑک اور نیا گول چکر بنایا جائے گا۔انہوں نے بتایا کہ اس پروجیکٹ کے حوالے سے پروچانسلر راجہ یاسر ہمایوں نے دیگر یونیورسٹیز کو بھی کہا ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی طرز پر ایسا ماڈل اپنا یا جائے تاکہ سرکاری جامعات نہ صرف اپنے وسائل میں رہتے ہوئے کام کریں بلکہ پرائیوٹ سیکٹر کو بھی شامل کریں اور جامعات کی بڑھوتری کے لئے کام کیا جائے۔
دریں اثناء اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے تقریباََ پونے دو سو ملین روپے کے پروجیکٹس مکمل کرچکی ہے جن میں ہاسٹلز، چار دیواری اور دیگر منصوبہ جات کی مرمت و بحالی کا کام شامل ہے۔ محمد شجی الرحمن کے مطابق سوا ارب روپے کے مزید پروجیکٹس جاری ہیں جن میں بہاولنگر کیمپس میں اکیڈمک بلاک، گیسٹ ہاؤس اور گرلز ہاسٹل کی تعمیر، رحیم یار خان کیمپس میں مسجد کی تعمیر، اور بغداد کیمپس میں ایمفی تھیٹر، جامع مسجد کی توسیع شامل ہیں، علاوہ ازیں متعدد پروجیکٹس جن میں مقامی سطح پر کھومبیوں،ا سٹرابری، کھجوروں، مالٹے اورکیمپس میں تزین و آرائش کے لئے کٹ فلاور اگانے کے منصوبہ جات بھی شامل ہیں۔کئی ایسے پروجیکٹس پایہ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں جن کے مکمل ہونے پر کیمپس کی خوبصورتی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ رواں سال میں حکومت پنجاب کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے تاکہ نرسنگ کالج کے لئے نئی عمارت کا منصوبہ پایہ ِ تکمیل تک پہنچایاجائے، اور پاکستان کی سطح پر نرسنگ کی کمی کو پورا کیا جاسکے۔ اس پروجیکٹ کے تحت نہ صرف بغداد الجدید کیمپس میں ایک مکمل کالج کا قیام عمل میں لایا جائے گابلکہ بہاولنگر اور رحیم یار خان کیمپس میں بھی سب کیمپس بنائے گاجائیں گے۔ محمد شجی الرحمن سے گفت گو کے بعد راقم الحروف کو احساس ہوا کہ اگر قیادت کا ویثرن رکھتی ہو۔ بہادرانہ فیصلے کرنے کی ہمت و سکت رکھتی ہو تو سرکاری جامعات کو یقینی طور پر نہ صرف آگے بڑھایا جاسکتا ہے بلکہ دنیا کی صفِ اول کی جامعات میں شامل کرایا جاسکتا ہے۔

نوٹ: یہ مضمون ڈاکٹر جام سجاد حسین کی کتاب "اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور (ترجمان ماضی شان حال)" سے لیا گیا ہے۔ مندرجہ بالا کتاب ڈائرکٹوریٹ آف پبلک ریلیشنز کے پلیٹ فارم سے چھپنے کے آخری مراحل میں ہے۔

29/06/2023

29/06/2023

Eid Mubarak 🌙

27/06/2023

روایتی سے ڈیجیٹل یونیورسٹی کا سفر

دنیا میں وہی قومیں ترقی کی منازل تیزی سے طے کرتی ہیں جو دورِ جدید کے تقاضوں کے عین مطابق بدلتی ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ خود کو ہم آہنگ کرتی ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے نہ صرف خود کو نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ لیس کیا بلکہ اس نئی ٹیکنالوجی سے اپنے ذرِ مبادلہ کے ذخائر میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیاہے۔ دنیا بھر کی سرکاری و نیم سرکاری اور پرائیوٹ اداروں نے نئی ٹیکنالوجی کے کار آمد استعمال سے اپنے اداروں کی کارکردگی میں بھی بے پناہ اضافہ کیاہے۔ جہاں تک پاکستان کی بات ہے ہم کلی طور پر تاحال ٹیکنالوجی کے صحیح استعمال سے کوسوں دور ہیں۔تاہم ہمارے ہاں چند سرکاری اور غیر سرکاری ادارے ایسے بھی ہیں۔ جنہوں نے ٹیکنالوجی کے استعمال سے خود کو نہ صرف لیس کیا بلکہ وہ دوسرے اداروں کے لئے بھی مثال بنے ہیں۔ پچھلے دنوں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے ڈائریکٹر انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈاکٹر رضوان مجیدسے ملاقات ہوئی تو ایک سرکاری یونیورسٹی میں ٹیکنالوجی کے صحیح استعمال سے وقوع پذیر انقلاب بارے سیر ِ حاصل جانکاری ہوئی۔
رضوان مجید اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ڈائریکٹر انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ڈائریکٹر سٹوڈنٹس افیرز ہیں۔ دورانِ گفتگو معلوم ہوا کہ انہوں نے وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب کے زیر سایہ اپنی آئی ٹی ٹیم کے ہمراہ بہاولپور یونیورسٹی کو آئی ٹی یونیورسٹی میں بدل دیا ہے۔ مجھے یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ رضوان مجید نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اتنے پلیٹ فارمز بنا دیے ہیں کہ بطور طالب علم، بطور استاد یا انتظامیہ کے سٹاف ہونے کے ناتے آپ جامعہ سے منسلک ہیں تو پوری یونیورسٹی آپ کے موبائل فون میں دستیاب ہے۔ آپ کی ذمہ داریاں۔ فرائض، سہولتوں، مراعات، لیکچرز، گریڈز، چھٹیوں، اہم تقریبات کی تفصیل سبھی کچھ آپ کے موبائل میں موجود ہے۔ یعنی آپ کے موبائل پر پورا کیمپس منیجمنٹ سسٹم دستیاب ہے۔ مثلاََ صرف ایک آئی ٹی پلیٹ فارم ”مائی آئی یوبی“ کے تحت آپ اٹھارہ اقسام کے معاملات سرانجام دے سکتے ہیں۔ جیسے کہ ٹائم ٹیبل، وظائف، لرننگ منیجمنٹ سسٹم، سابق طلبہ سے رابطہ کاری کا نظام، ہیومین ریسورس منیجمنٹ، ہوسٹل، تدریس کے متعلق ایپ، لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ کا پورا نظام، کیس منیجمنٹ،ٹرانسپورٹ،سروے روپورٹس،اکاؤنٹنگ اینڈ فنانس، پروکیورمنٹ،لائبریری، سٹور، لیگل کیس منیجمنٹ سسٹم، اوورِک، امتحانات اور دیگر کئی کام آپ اپنے موبائل سے کرسکتے ہیں۔
اسی طرح سٹوڈنٹس لائف سائیکل نظام کے تحت ایک طالبعلم یونیورسٹی میں داخل ہونے سے لے کر سابق طالبعلم بننے تک ہر مرحلے کی معلومات اور سہولیات سے مستفید ہوسکتا ہے۔ علاوہ ازیں آئی یو بی پورٹل، آئی یو بی سمارٹ کارڈ، مائی آئی یو بی انڈرائیڈ ایپ، اور دیگر کئی طرح کی انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلقہ سہولیات سے میزن اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ایک جہان آباد ہوگیا ہے۔ یونیورسٹی کے کل چار ہزار تین سو بہتر ملازمین سے لے کر53 ہزار طلبہ و طالبات جن میں ساٹھ فیصد سے زائد طلبہ جبکہ انتالیس فیصد سے زائد طالبات کی مکمل معلومات ماؤس کے محض ایک کلک پر موجود ہیں۔ اسی طرح پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ پنجاب کی معاونت سے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ای۔روزگار پروگرام شروع کیا گیا ہے جس کے تحت کل ایک ہزار طلبہ و طالبات سے زائد کو تربیت دی جاچکی ہے اور صرف طلبہ سے گیارہ ملین روپے کا منافعہ ہوا ہے۔ وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی پاکستان کی معاونت سے قومی فری لانس ٹریننگ پروگرام شرو ع کیا گیا ہے اور پاکستان کی بہترین آئی ٹی لیب میں شمار ایک ہائی ٹیک لیب قائم کی گئی ہے۔ اٹھارہ کمپیوٹرز لیبس بنائی گئی ہیں، سٹوریج کے لئے ڈیٹا سنٹر بنا یا گیا ہے۔ آئی ٹی کی بدولت اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ویڈیو کانفرنس کے حوالے سے بہترین یونیورسٹی میں ڈھل چکی ہے۔ کچھ دیگر دوستوں سے ملاقات کے بعد معلوم ہوا کہ وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب نے یہ معجزہ کچھ ایسی خوابیدہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے سرانجام دیا ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ آپ کھلے دل و دماغ کے مالک ہوں۔
آپ کو کسی بھی قسم کا احساسِ کمتری نہ ہو بلکہ آپ دوسروں کو کریڈٹ دینا جانتے ہوں۔ دوسروں کو عزت و تکریم دینے سے دو فائدے حاصل ہوتے ہیں ایک تو دوسروں کو اپنی اہمیت اور اپنے کام کا کریڈٹ ملتا ہے دوسرا آپ کی ٹیم طاقتور ہوتی جاتی ہے۔ یہی کام وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور نے کیا ہے۔ انہوں نے آتے ہی اپنے تمام بڑے اہم اختیار ات پرووائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر نوید اختر کو منتقل کردیے۔ یوں وہ روز مرہ کے معمولات سے فارغ ہوئے تو پوری توجہ ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کی طرف کر دی۔ یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹی میں گزشہ دوسالوں کے اندر سات فیکلٹیز سے بڑھ کر سولہ اور شعبہ جات کی تعداد132تک جا پہنچی ہے۔فیکلٹیز اور شعبہ جات کے حوالے سے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور پاکستان کی سب سے قدیم پنجاب یونیورسٹی کو بھی پیچھے چھوڑ گئی ہے۔ جبکہ فنانشل منیجمنٹ سسٹم کے تحت یونیورسٹی خسارے سے منافع کی جانب چل پڑی ہے۔ رضوان مجید نے بتایا کہ ہم نے حال ہی میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ٹیسٹنگ سروس کا اجراء کیا ہے جس کے تحت نہ صرف ہم اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں مختلف پروگرامز میں داخلوں بلکہ بھرتیوں تک کا آن لائن ٹیسٹ لے رہے ہیں جس سے شفافیت کا عنصر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ٹیسٹنگ سروس کے اعتماد اور ساکھ کا یہ عالم ہے کہ دیگر سرکاری و غیر سرکاری تنظیمیں اور ادارے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی ٹیسٹنگ سروس سے اپنے ٹیسٹ منعقد کرارہے ہیں جس کے سبب مختلف اداروں کو نہ صرف با اعتماد بلکہ شفاف طریقہ کار کے مطابق کام کرنے والی سروس میسر آئی ہے۔ یقینی سی بات ہے اگر یہ سب کچھ ایک وائس چانسلر کا دماغ کرسکتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہماری باقی 129جامعات کیوں نہیں کرسکتیں؟راقم الحروف کے خیال میں ہمیں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے ماڈل کو اپنانا چاہئے تاکہ ہماری قومی جامعات خسارے سے منافع کی جانب چل پڑیں اورہم اپنے اداروں کو مضبوطی کی جاب رواں دواں کریں۔


نوٹ: یہ مضمون ڈاکٹر جام سجاد حسین کی کتاب "اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور (ترجمان ماضی شان حال)" سے لیا گیا ہے۔ مندرجہ بالا کتاب ڈائرکٹوریٹ آف پبلک ریلیشنز کے پلیٹ فارم سے چھپنے کے آخری مراحل میں ہے۔

26/06/2023

خودکفیل جامعہ

اگرچہ یہ ایک اچنبھے کی بات ہے کہ کوئی سرکاری جامعہ مالیاتی طور پر خود کفیل ہو اور نہ صرف رو ز مرہ بلکہ کئی ترقیاتی منصوبوں پر آنے والی لاگت کا بوجھ بھی وہ خود برداشت کررہی ہو۔ اگر ایسا کوئی ادارہ ترقی پذیر ملک یعنی پاکستان میں موجود ہو تو جان کر دل کو تسلی ہی نہیں ہوتی بلکہ امید کی ایک کرن بھی جاگ اٹھتی ہے کہ ہمارے جیسے ملک میں بھی کوئی ایسی یونیورسٹی موجود ہے جو مالیاتی طور پر خود کفیل ہورہی ہے۔ پچھلے دنوں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے خزانہ دار پروفیسر ڈاکٹر ابو بکر نے ایسی ہی کچھ حیرت انگیز معلومات فراہم کیں کہ سماعت پر خوشگوار اثر پڑا۔ مثلاََ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور تین سال قبل ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے فراہم کی جانے والی ایک طے شدہ گرانٹ سے چلنے والی جامع تھی جس میں طلبہ و طالبات کی تعداد محض ساڑھے تیرہ ہزار تھی۔ تب یونیورسٹی کے معاشی و مالیاتی وسائل اخراجات سے کم تھے۔ مگر پھر یک دم وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹراطہر محبوب نے جامع کا چارج سنبھالااور طلبہ کی تعداد محض دو سال کے عرصہ میں ترپن سے پچپن ہزار ہوگئی اور اب شاید ساٹھ ہزار طلبہ وطالبات جامعہ میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اب صورتحال یوں ہے کہ مالیاتی و معاشی وسائل کا گراف اخراجات سے کہیں زیادہ ہے۔ یونیورسٹی میں کئی ترقیاتی منصوبہ جات شروع کیے گئے ہیں جو اگلے دو سے تین سال میں تکمیل کے مراحل طے کررہے ہونگے۔ پروفیسرڈاکٹر ابو بکر نے بتلایا انہوں نے سابق گورنر پنجاب اور چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور لیفٹیننٹ جنرل خالد مقبول اور دیگر کئی وائس چانسلر کو قریب سے دیکھا ہے۔ یہ (پروفیسر اطہر محبوب)واحد وائس چانسلر ہیں جنہیں یونیورسٹی کا صحیح مطلب آتا ہے۔پروفیسر ابو بکر قومی اور بین الاقوامی اداروں بشمول بین الاقوامی جامعات میں کا م کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ آسٹریلیا سے ایم ایس اور پی ایچ ڈی کرنے کے ساتھ پروفیسر ابو بکر نے آسٹریلیا میں کام کیا اور وطن واپسی پر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے بہاولنگر کیمپس کو بطور کیمپس ڈائریکٹر جوائن کیا۔ بہاولنگر کیمپس کے قیام اور بڑھوتری کے لئے سابق چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمن اور گورنر پنجاب جنرل خالد مقبول نے خصوصی دلچسپی لی اور پہلی بار گورنر پنجاب ایک کیمپس کے دورے پر آئے اور مقامی انتظامیہ کو ہدایت جاری کیں کہ کیمپس کی فلا ح و بہبود کی تعمیر و ترقی کے لئے مکمل معاونت فراہم کریں۔
پروفیسر ابو بکر نے بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ کالج وہ جگہ ہے جہاں معلومات فراہم کی جاتی ہیں جبکہ جامع ایک ایسا تعلیمی ادارہ ہو تا ہے جہاں کمیونٹی سروس کا کام کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عہدِ اطہر محبوب میں رواں ترقیاتی منصوبوں میں شفافیت کا یہ معیار ہے کہ پہلے مالیاتی بجٹ دستی یا ہاتھ سے بنا ہوا کرتا تھا۔ پہلے تو لوگ اپنی تجاویز مسترد ہونے کے خوف سے کوئی تجویز پیش ہی نہیں کرتے تھے۔ اگر کوئی ایسا کرتا تو اسے کئی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا۔مگر اب صورتحال بدل چکی ہے۔ جو بھی تجویز لے کر آتا ہے خود وائس چانسلر ان تجاویز میں مزید بہتری کے ساتھ متعلقہ افسر کی رہنمائی کررہے ہوتے ہیں۔ اب انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب کے بعد یونیورسٹی کا مالیاتی نظام مکمل طور پر کمپیوٹرائزڈ ہوچکا ہے۔خزانہ دار سے چیک جاری ہوتا ہے۔ فوراََ بینک میں جمع ہوتا ہے، جوں ہی چیک کیش ہوتا ہے تو ساتھ ہی کمپیوٹرائزڈ تصدیقی عمل مکمل ہوجاتا ہے۔ اسی طرح پہلے بجٹ بھی دستی ہوا کرتا تھا جس میں نہ تو کسی شعبہ کے چیئرمین اور نہ ہی کسی فیکلٹی کے ڈین کومشاورت کے عمل میں شریک کیا جاتا تھا۔ یہ بھی پہلی بار ہوا ہے کہ وائس چانسلر نے تمام شعبہ جات کے چیئرمین، سربراہان اور ڈینز کو ہدایت جاری کیں ہیں کہ وہ اپنی فیکلٹی، شعبہ اور ڈائریکیٹوریٹ کے اخراجات ایس این ای یعنی Statement of New Expenditureکی لسٹ بنائیں، اس کے بعد خزانہ دار کے ساتھ ڈسکس کیا گیا۔ بعد ازاں فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی جو کہ ایک statutory bodyہے وہاں سے منظوری ہوئی۔
پھر سنڈیکیٹ اور آخر میں یونیورسٹی کی سب سے بڑی باڈی یعنی سینٹ سے منظوری لی گئی۔ پروفیسر ابو بکر نے بتلایا کہ2016سے لے کر 2021تک اسلامیہ یونیورسٹی کا کوئی بھی بجٹ سنڈیکیٹ سے منظور نہیں تھا مگر وائس چانسلر نے نہ صرف پچھلے بجٹ سنڈیکیٹ سے منظور کرائے بلکہ موجودہ بجٹ بھی سینٹ سے منظور کرایا گیا ہے اس کا فائدہ یہ ہے کہ کسی بھی ترقیاتی منصوبہ پر کسی بھی طرح سے قانونی اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔ اسلامیہ یونیورسٹی میں ترقیاتی منصوبہ جات کی خوبصورتی کا عنصر ہمیں development planمیں نظر آتا ہے۔ ہر ترقیاتی منصوبہ پہلے تجویز کی صورت میں وائس چانسلر، سنڈیکیٹ اور سنڈیکیٹ کی منظوری کے بعد نافذ العمل ہوتا ہے۔ جس قدر ترقی ہمیں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں نظر آرہی ہے اس کی کامیابی کا راز بھی وائس چانسلر کی بلند سوچ اور تیز رفتار ی میں پنہاں ہے۔ اب یونیورسٹی کی مستقبل مالیاتی منصوبہ بندی کے لئے دو اہداف وضع کیے گئے ہیں جن میں ایک فائل کی ٹریکنگ (سراغ رسانی) اور دوسرا ہدف بلوں کی ٹریکنگ شامل ہیں تاکہ یونیورسٹی کا سارا نظام ہی منظم انداز میں آن لائن چل رہا ہو اور یہ مستقبل قریب میں ہوتا ہوا نظر بھی آرہا ہے۔ مستقبل قریب میں جب تمام جاری ترقیاتی منصوبے تکمیل کی منزل طے کرچکے ہونگے تب یونیورسٹی کے وسائل اسی سطح پر ہونگے جو اب ہیں یعنی یونیورسٹی نہ صرف خود کفیل ہوچکی ہوگی بلکہ کسی بھی نئے ترقیاتی منصوبہ یا پروجیکٹ کے لئے وافر انداز میں وسائل میسر ہونگے اور یونیورسٹی صرف کیمپس کی حد ہی نہیں بلکہ کیمپس کی چار دیواری سے نکل کر بہاولپور اور دیگر ملحقہ علاقوں کے سماجی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے حل تجویز کررہی ہوگی۔
یوں یونیورسٹی، قومی، صوبائی اور ضلعی حکومتوں کے تعاون اور ان کے شانہ بشانہ عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کررہی ہوگی۔ پروفیسر ڈاکٹر ابو بکر کی گفت گو کے بعد راقم الحروف کو احساس ہوا کہ اگر دیگر جامعات کے وائس چانسلرز بھی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کاماڈل اپنا لیا جائے تو یقینی طور پر ہماری سرکاری جامعات مالیاتی طور پر خود کفیل ہوجائیں گی اور ہم بھی فخریہ اندازمیں لوگوں کو بتا رہے ہونگے کہ صرف امریکہ اور برطانیہ کی جامعات ہی دنیا میں دانش کدے نہیں ہیں بلکہ پاکستان کی جامعات بھی اس قابل ہوچکی ہیں کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر ممالک کے طلبہ و طالبات یہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اپنے اپنے ممالک میں کہہ رہے ہونگے کہ وہ پاکستان کی فلاں یونیورسٹی سے پڑھ کر آئے ہیں۔ اس مقصد کے لئے ہمیں نامور مسلمان خلیفہ ہارون الرشید اور مامون رشید کے ’دارلحکمت‘ جیسے ماڈل کو دیکھنا ہوگا جو صحیح معنوں میں دانش کدہ ہو۔اور ایسے دانش کدوں کو مالیاتی طور پر کامیاب بنانے کے لئے ہمیں پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب کے مالیاتی ماڈل کو اپنانا پڑے گا اور ایسے ماڈل کو کامیاب کرانے کے لئے پروفیسر ابو بکر جیسے موثر فرد کو خزانہ دار لگانا ہوگا۔

نوٹ: یہ مضمون ڈاکٹر جام سجاد حسین کی کتاب "اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور (ترجمان ماضی شان حال)" سے لیا گیا ہے۔ مندرجہ بالا کتاب ڈائرکٹوریٹ آف پبلک ریلیشنز کے پلیٹ فارم سے چھپنے کے آخری مراحل میں ہے۔

Address

Baghdad Campus Islamia University Bahawalpur
Bahawalpur

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Campus Radio FM 92.6 official posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Campus Radio FM 92.6 official:

Share