11/08/2025
تعلیم کا غروب ہوتا سورج
یونیورسٹیوں اور کالجوں کے ایڈمشن ڈیسک سنسان ہو رہے ہیں، جیسے کسی پرانی لائبریری کے ٹوٹے شیلفوں پر برسوں سے کوئی کتاب ہاتھ نہ لگی ہو۔ نہ نوجوان آ رہے ہیں، نہ خواب۔ وہ مضامین جن کی کبھی معاشرتی توقیر تھی، اب ان کے نام بھی زنگ آلود بورڈز پر اداس لٹک رہے ہیں - اردو، فارسی، ریاضی، اسلامیات، فزکس، فلسفہ، تاریخ، سوشیالوجی۔ شماریات، معاشیات، نفسیات، کیمسٹری، باٹنی زوالوجی، لینگویجز، یہ سب گویا خاموشی سے اپنے جنازے کے منتظر ہیں۔
کیا قصور نوجوان کا ہے؟ شاید نہیں۔ جب ایک ٹک ٹاک ویڈیو کے ہونٹوں اور ہلکی سی ادا پر کمائی، ایک ایم فل یا پی ایچ ڈی کی برسوں کی محنت سے زیادہ ہو جائے، تو پھر کون بے وقوف ہے جو اپنا جوانی کا سرمایہ کسی کلاس روم کی چاک دھول میں جھونکے؟
ایچ ای سی کی حالت اس بوڑھے بزرگ جیسی ہے جو گھر کے کونے میں کھانسی کے دورے لیتا ہے، مگر پرانے خوابوں اور یادوں کے سہارے زندہ ہے۔ کیو ای سی اور اکیڈمک آڈٹ اور رینکنگ کی دوڑ کی "ڈاکومینٹیشنز"، اور جھوٹے سچے پراجیکٹس نے تعلیمی عمارت کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ جیسے صرف رپورٹیں اور چیک لسٹس ہی تعلیم ہوں، اور استاد کا پڑھانا اور ریسرچ کروانا ایک بے وقعت سا رسمی کام گنا جا رہا ہو
والدین کے پاس فیس نہیں، جامعات کے پاس فنڈ نہیں۔ کئی اداروں کو شاید اپنی زمین یا درخت بیچ کر بھی کلاسیں چلانی پڑیں۔
یہ بحران آ چکا ہے — اور یہ محض تعلیم کا بحران نہیں، یہ معاشرے کی سانس رکنے کا لمحہ ہے۔
سوال یہ نہیں کہ آگے کیا ہو گا… سوال یہ ہے کہ ہم نے اس شام میں، اس ڈوبتے سورج کی آخری کرن میں، کچھ بچانے کا فیصلہ کب کرنا ہے؟