Balakot News Network

Balakot News Network ہمارا صفحہ علاقے اور ملک سے متعلق خبروں کے ساتھ ساتھ دیگر بامقصد موضوعات پر معلومات کا اہم ذریعہ ہے

بالاکوٹ نیوز نیٹورک، بالاکوٹ اور اس کے ساتھ متعلقہ علاقوں کی ایک آواز ہے جو آپ کے علاقائی مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے آپ کی آواز بنے گا اور آپ کے مسائل متعلقہ اداروں تک پہنچائے گا۔ آپ سب سے گزارش ہے کہ آپ اپنے مسائل سے متعلق مصدقہ اور بامقصد معلومات وڈیو اور تصاویر ہمیں نیوز کی شکل میں بھیجیں ہم اپنے پیج پر شائع کریں گئے۔ علاوہ ازیں، علاقائی مفادات اور مفاد عامہ کے حوالے سے مواد بھی ترجیح بنیادوں پر

شائع کیا جائے گا۔ آپ بھی ہماری آواز بنیں ہمیں سپورٹ کریں اور اس کارخیر کا حصہ بنیں۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

جزاک اللہ خیرا کثیرا۔

اس کے علاوہ ملکی اور عالمی تناظر میں بھی بامقصد موضوعات پر قارئین تک درست معلومات اور تجزئیے پہنچانا بھی ہماری ترجیحات ہیں۔

ان صفحات پر محض ریٹنگ کی خاطر لایعنی اور فضول مواد کی کوئی جگہ نہیں

20/10/2025
اللّٰہ تعالیٰ مرحوم میاں اسحاق صاحب میرپور والے کی مغفرت فرمائے پچاس برس قبل آپ نے مقبوضہ وادیٔ کشمیر سے ہجرت کر کے پاکس...
18/10/2025

اللّٰہ تعالیٰ مرحوم میاں اسحاق صاحب میرپور والے کی مغفرت فرمائے

پچاس برس قبل آپ نے مقبوضہ وادیٔ کشمیر سے ہجرت کر کے پاکستان میں سکونت اختیار کی۔
نئی سرزمین پر آپ نے اپنی زندگی صبر، شکر، اور وقار کے ساتھ گزاری۔
دل کی گہرائیوں میں ہمیشہ اپنی مٹی کی محبت اور رشتۂ تعلق قائم رکھا۔

گزشتہ جمعہ ایک باوقار، شفیق اور مخلص انسان ہم سے رخصت ہو گئے۔
اِنّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعُونَ۔

میاں اسحاق صاحب اپنے اخلاق، شائستگی اور خلوص میں مثال تھے۔
خاندان سے دور رہنے کے باوجود ہمیشہ تعلقات کو جوڑے رکھا۔
تحصیل بالاکوٹ میں جب بھی رشتہ داروں کے ہاں تشریف لاتے،
وقار، محبت اور خلوص کے ساتھ سب سے ملتے اور ان کی خیر و عافیت دریافت کرتے۔
ان کی مجلس سکون، خلوص، اور احترام کی فضا سے بھرپور ہوتی۔

ان کے جانے سے دلوں میں جو خلا پیدا ہوا ہے، وہ مدتوں نہیں بھر سکے گا۔
ایسے لوگ وقت کے ساتھ نہیں مٹتے، وہ یادوں اور دعاؤں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔

اللّٰہ تعالیٰ مرحوم کی قبر کو نور سے منور فرمائے،
ان کی نیکیوں کو قبول فرمائے،
ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے،
اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
آمین یا ربّ العالمین۔ 🤲

انوار القلم

مری آدھی عُمر گزر گئی ۔۔۔۔یونہی بے یقیں یونہی بے نشاں، مری آدھی عمر گزر گئیکہیں ہو نہ جاؤں میں رائگاں، مری آدھی عمر گز...
18/10/2025

مری آدھی عُمر گزر گئی ۔۔۔۔

یونہی بے یقیں یونہی بے نشاں، مری آدھی عمر گزر گئی
کہیں ہو نہ جاؤں میں رائگاں، مری آدھی عمر گزر گئی

کبھی سائباں نہ تھا بہم، کبھی کہکشاں تھی قدم قدم
کبھی بے مکاں کبھی لا مکاں، مری آدھی
عمر گزر گئی

ترے وصل کی جو نوید ہے، وہ قریب ہے کہ بعید ہے
مجھے کچھ خبر تو ہو جانِ جاں، مری آدھی عمر گزر گئی

کبھی مجھ کو فکرِ معاش ہے، کبھی آپ اپنی تلاش ہے
کوئی گُر بتا مرے نکتہ داں، مری آدھی عمر گزر گئی

کبھی ذکرِ حرمتِ حرف میں، کبھی فکرِ آمد و صرف میں
یونہی رزق و عشق کے درمیاں، مری آدھی عمر گزر گئی

کوئی طعنہ زن مری ذات پر، کوئی خندہ زن کسی بات پر
پئے دل نوازیٔ دوستاں، مری آدھی عمر گزر گئی

ابھی وقت کچھ مرے پاس ہے، یہ خبر نہیں ہے قیاس ہے
کوئی کر گلہ مرے بد گماں، مری آدھی عمر
گزر گئی

اُسے پا لیا اُسے کھو دیا، کبھی ہنس دیا کبھی رو دیا
بڑی مختصر سی ہے داستاں، مری آدھی عمر گزر گئی

تری ہر دلیل بہت بجا، مگر انتظار بھی تا کجا
ذرا سوچ تو مرے رازداں، مری آدھی عمر گزر گئی

کہاں کائنات میں گھر کروں، میں یہ جان لوں تو سفر کروں
اسی سوچ میں تھا کہ ناگہاں، مری آدھی عمر گزر گئی

عرفان ستار

عمران خان ہی ریاست ہیں‘بدھ 15 اکتوبر 2025آصف محمودبانکے میاں تو عشقِ عمران میں مارے جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ خیبر پختونخ...
15/10/2025

عمران خان ہی ریاست ہیں‘
بدھ 15 اکتوبر 2025
آصف محمود
بانکے میاں تو عشقِ عمران میں مارے جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کے عوام کس جرم میں مارے جائیں گے؟

عمران خان کی نگاہ مردم شناس نے جب عثمان بزدار صاحب کا انتخاب کیا تو ہم جیسے مداحوں کو خیال گزرا کہ یہ ان کی مردم شناسی کی انتہا ہے اور اس سے آگے اب مزید کوئی مقام آہ و فغاں نہیں ہو سکتا، لیکن خان صاحب نے حیرتوں کو بازار کر دیا اور علی امین گنڈا پور کو لے کر آ گئے۔

گنڈا پور صاحب کی علمی، ادبی اور سیاسی بصیرت کا سونامی دیکھ کر جب یہ خیال آنے لگا کہ بس اس سے آگے تو اب کوئی مقام گریہ و زاری ہو ہی نہیں سکتا تو خان صاحب نے ایک بار پھر سب کو ششدر کر دیا اور بانکے میاں کو لے کر آ گئے۔
بانکے میاں نے آتے ہی صوبے میں گڈ گورننس کا کوئی منصوبہ سامنے رکھنے کی بجائے عشق عمران میں مارے جانے کی قوالی شروع کر تے ہوئے بتا دیا کہ کار مغاں کو تمام مت سمجھیے، انگور کی رگوں میں ابھی ایسی کئی شرابیں باقی ہیں جنہیں کسی نے چکھا تک نہیں۔

ایوان میں اہلِ فن تو بہت آئے لیکن بانکے میاں کا بانکپن سب سے جدا تھا۔ شوخی گفتار نے ادب سے سیاست تک جس موضوع کو چھوا، سرگم کر دیا۔ میرے جیسا آدمی فیصلہ نہیں کر پا رہا کہ پہلے بانکے میاں کے ادبی ذوق پر داد و تحسین بلند کرے یا ان کے سیاسی شعور پر۔

ایک زمانہ تھا، پارلیمان میں لوگ شعروادب کا سہارا لیتے تو سماں باندھ دیتے۔ نوابزادہ نصر اللہ خان، پروفیسر خورشید احمد، پروفیسر غفور، مولانا شاہ احمد نورانی، کس کس کا نام لیا جائے۔ رومی سے اقبال اور غالب سے میر تک، موتیوں کی ایک مالا تھی۔

بھٹو کو سزائے موت سنائے ہوئی، اپیل کے مرحلے میں، سپریم کورٹ کو مخاطب کرتے ہوئے غالب کا شعر پڑھا، مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں۔ پھر کہنے: مائی لارڈ غالب غلط کہتا تھا، مشکلیں کبھی آساں نہیں ہوتیں، انہیں جھیلنا پڑتا ہے۔ ابھی ماضی قریب میں مشاہد اللہ خاں کی مثال ہمارے سامنے ہے، شعر پڑھتے تھے اور کتنے ہی سخن ہائے ناگفتہ کو گویائی مل جاتی تھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اب ایک ہمارے یہ مبینہ وزیر اعلی صاحب ہیں، قابل رحم حد تک غیر معیاری نثری مضمون کو شعر بنا کر داد طلب ہوتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیےاور سر دھنیے۔ فرماتے ہیں :

’وہ جن کی اپنی لنگوٹیاں تک پھٹی ہوئی ہیں

وہ ہماری پگڑی اچھالنے میں لگے ہوئے ہیں‘

آدمی شعر سنتا ہےا ور حیران ہوتا ہے یہ یہ کسی سبزی منڈی کا احوال ہے یا پارلیمان کا۔
ضروری نہیں کہ ہر صاحب سیاست کا ادبی ذوق اچھا ہو تاہم ایک سیاست دان سے یہ توقع ضرور رکھنی چاہیے کہ کم از کم اس کا عصری سیاسی فہم پست نہ ہو۔ خرابی یہ ہے کہ اس میں بھی قافلہ انقلاب کا ہاتھ تنگ نظر آتا ہے۔

قافلہ انقلاب کا کُل سیاسی شعور اس ایک فقرے میں سمٹ آیا ہے کہ ’ عمران خان ہی ریاست ہے‘۔ یہ فقرہ بتا رہا ہے تحریک انصاف کی نفسیاتی گرہ کتنی شدید اور خوفناک ہے۔ یہ سوچ کسی سیاسی جماعت کی نہیں ہے، یہ پاپولر فاشزم ہے۔ اسی کی بد ترین شکل کو کَلٹ کہتے ہیں۔ یہ عارضہ تحریک انصاف کے وجود کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ یہ اب ایک سیاسی ٓجماعت نہیں رہی، یہ ایک کَلٹ کا روپ دھار چکی۔ یہاں کوئی اجتماعی بصیرت بروئے کار نہیں آتی۔ اس حیرت کدے میں صرف کَلٹ اور اس کے عشاق رہتے ہیں۔

حکومت پارلیمان کے منتخب نمائندوں کی اکثریت کا نام ہوتا ہے لیکن اسے بھی ریاست نہیں کہا جا سکتا۔ یہاں ایک فرد واحد کو ریاست قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ کوئی معمولی واردات نہیں، اس کے ساتھ پورا فکری پیکج ہے۔

ریاست کا مخالف غدار ہوتا ہے، اب جب عمران خان ہی ریاست ہے تو اس کی مخالفت تو غداری ٹھہری۔ یعنی جو عمران کا وفادار نہیں، و ہ غدار ہے۔

اس کے خلاف الیکشن لڑنا یا اس سے کسی بھی درجے میں اختلاف کرنا بھی ایک سنگین جرم ہوا کیونکہ بھائی جان تو ریاست ہیں، بلکہ بھائی جان ہی ریاست ہیں۔ اب اندھوں، گونگوں اور بہروں کی طرح صاحب کی اطاعت ہی ایک اچھے اور محب وطن شہری ہونے کی سند قرار پائے گی۔

اسٹیبلشمنٹ اگر عمران کے ساتھ نہیں تو گویا وہ ریاست کے ساتھ وفادار نہیں۔ عدلیہ اگر اسے دیکھ کر وارفتگی کے عالم میں ’گڈ ٹو سی یو‘ نہیں کہتی تو اس کی ریاست دوستی بھی سوالیہ نشان ٹھہری۔ انتظامیہ کی وفاداری اگر کپتان صاحب کے ساتھ نہں تو گویا وہ بھی ریاست کی وفادار نہیں۔ صحافت کا اگر کپتان خان کو دیکھ کر ابرار الحق صاحب کی طرح نچنے کو دل نہیں کرتا تو وہ بھی غیر محب وطن ہو گئی۔

اب اگر عمران خان ہی ریاست ہیں تو وفاق کی کیا مجال کہ وہ افغانستان کے بارے میں کوئی پالیسی وضع کرے اور امور خارجہ کا تعین کرتی پھرے۔ یہ فیصلہ تو صرف ریاست یعنی عمران خان کریں گے کہ افغانستان کے بارے میں کون سی پالیسی درست ہےا ور کون سی غلط۔۔ یعنی وفاق اور وزارت خارجہ جیسے وفاق کے ادارے تو اب غیر اہم ہو گئے، اب کے پی حکومت امور خارجہ بھی خود طے کرے گی۔ کیونکہ ریاست کا مفاد سب سے مقدم ہے اور برہان تازہ یہ ہے کہ عمران خان ہی ریاست ہے۔
اب معیار ایک ہی انسان ہے ، وہی ریاست ہے۔ اس کے سامنے جس جس نے اپنی عقل اور شعور کو سرنڈر کر دیا وہ نقیب صبح صداقت ہے ، باقی سب چور ، بے ایمان اور کرپٹ ہیں۔ یعنی خان نہیں تو کچھ بھی نہیں۔

گاہے محسوس ہوتا ہے کہ جس اصول کا اظہار بانکے میاں نے کیا ہے، تحریک انصاف اسی اصول کی عملی شکل ہے۔ ان کے ہاں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ خان جو کرتا ہے صحیح ہوتا ہے۔ کسی چیز کے درست ہونے کی کے لیے اور کوئی دلیل ان کے ہاں قابل قبول نہیں۔ خان ہی دلیل ہےا ور خان ہی معیار ہے۔ جو اس کے ساتھ آ جائے وہ معلوم انسانی تاریخ کا آخری ولی ہے جو دوسری صف میں ہے وہ خائن اور بد کردار ہے۔

کَلٹ کے عشاق تو عشقِ عمران میں مارے جائیں گے، سوال وہی ہے کہ صوبے کے عوام کس جرم کی سزا پارہے ہیں
انار گل کے وال سے۔

12/10/2025

پشاور کے معروف گلوکار بابر یوسفزئی نے افغانستان کے خلاف اپنا نغمہ نمک حرام جاری کردیا۔

نغمے میں افغان طالبان کی منافقت کمال خوبصورتی سے بے نقاب کی گئی ہے

تحریر و تحقیق: انوار القلم جس کو اب بھی گمراہی کے شکار طالبان کے خوارج ہونے پر شک ہے اس کو چاہئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ...
12/10/2025

تحریر و تحقیق: انوار القلم

جس کو اب بھی گمراہی کے شکار طالبان کے خوارج ہونے پر شک ہے اس کو چاہئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مندرجہ ذیل صحیح احادیث کا مطالعہ کر کے کسی عالم۔باعمل سے اس
مسئلہ کے حوالے سے اپنی تسلی کر لے

قال النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

يَقْتُلُونَ أَهْلَ الْإِسْلَامِ وَيَدَعُونَ أَهْلَ الْأَوْثَانِ.

وہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بتوں کے پجاریوں کو چھوڑ دیں گے۔ (صحیح بخاری: 3344، صحیح مسلم: 1064)

يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ حُدَثَاءُ الْأَسْنَانِ سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ يَقُولُونَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ.

آخر زمانے میں کچھ لوگ نکلیں گے جو کم عمر اور کم عقل ہوں گے۔ وہ سب سے بہترین بات (یعنی قرآن) کہیں گے، قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ (صحیح بخاری: 5057، صحیح مسلم: 1066)

سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي اخْتِلَافٌ وَفِرْقَةٌ، قَوْمٌ يُحْسِنُونَ الْقِيلَ وَيُسِيئُونَ الْفِعْلَ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، لَا يَعُودُونَ فِيهِ حَتَّى يَعُودَ السَّهْمُ إِلَى فُوقِهِ.

میری امت میں اختلاف اور فرقہ بندی ہوگی۔ ایک قوم ہوگی جو اچھی باتیں کرے گی مگر برے عمل کرے گی۔ قرآن پڑھے گی مگر وہ ان کے گلے سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکلتا ہے اور کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ (سنن ابی داؤد: 4765)

إِنَّ أَدْنَى مَا هُمْ صَانِعُونَ أَنْ يَقْتُلُوا مَنْ خَالَفَهُمْ، وَإِنَّ أَعْظَمَ مَا هُمْ صَانِعُونَ أَنْ يَقْتُلُوا الْمُسْلِمِينَ.

ان کا سب سے ہلکا جرم یہ ہوگا کہ جو ان کی مخالفت کرے گا اسے قتل کریں گے، اور سب سے بڑا جرم یہ ہوگا کہ مسلمانوں کو قتل کریں گے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: 37809)

يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، فَأَيْنَمَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ، فَإِنَّ فِي قَتْلِهِمْ أَجْرًا لِمَنْ قَتَلَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.

وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکلتا ہے، پس جہاں بھی تم انہیں پاؤ انہیں قتل کرو، کیونکہ جو انہیں قتل کرے گا اسے قیامت کے دن اجر ملے گا۔ (صحیح بخاری: 3611، صحیح مسلم: 1064)
خوارج کے بارے میں مذکورہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسے لوگ ہوں گے جو دین کے نام پر اٹھیں گے مگر ان کا فہم محدود اور طرزِ عمل انتہاپسندانہ ہوگا۔ وہ مسلمانوں کے خلاف تلوار اٹھائیں گے اور کفار کو چھوڑ دیں گے۔ قرآن پڑھیں گے مگر اس کی روح کو نہ سمجھیں گے۔ ان میں جذباتیت، کم عمری، خود پسندی، اور دوسروں کو کافر قرار دینے کا رجحان نمایاں ہوگا۔ وہ بظاہر نیک اور عبادت گزار دکھائی دیں گے مگر ان کا رویہ دین سے باہر ہوگا، حتیٰ کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا کہ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔

خارجی طالبان کا بھارت کے ساتھ رام مندر کے تحفظ کا معاہدہ ۔جب پاکستان نے سعودی عرب کے ساتھ  حرمین شریفین کے تحفظ کا عزم ا...
12/10/2025

خارجی طالبان کا بھارت کے ساتھ رام مندر کے تحفظ کا معاہدہ ۔

جب پاکستان نے سعودی عرب کے ساتھ حرمین شریفین کے تحفظ کا عزم اور معائدہ کیا تو جواب میں افغانستان کے خارجی طالبان نے بھارت کے ساتھ رام مندر کے تحفظ کا معاہدہ کر لیا۔

یوں لگتا ہے جیسے اب نعرہ بدل گیا ہو:
"افغان اور بھگوان بھائی بھائی!"

ان دونوں فریقین یعنی خوارج اور ہندو مشرکین میں اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ
اگر افغانستان پر حملہ ہوا تو وہ بھارت پر حملہ سمجھا جائے گا،
اور بھارت پر حملہ ہوا تو وہ افغانستان پر حملہ سمجھا جائے گا۔

مگر پاکستان نے حقیقت بتا دی جو دشمن اسلام اور پاکستان کے خلاف ہو،
اُس کا انجام ایک ہی ہے

تحریر: انوار القلم

ریاست اور اس کےاپنے بنائے ہوئے عفریتاب خندقیں کھودنے سے قابو نہیں ہونگے اکیسویں صدی کا زمانہ ہے  علم، ٹیکنالوجی اور تدبی...
11/10/2025

ریاست اور اس کےاپنے بنائے ہوئے عفریت
اب خندقیں کھودنے سے قابو نہیں ہونگے

اکیسویں صدی کا زمانہ ہے علم، ٹیکنالوجی اور تدبیر کا دور ہے
دنیا پیچیدہ مسائل کا حل مکالمے، پالیسی اور قانون کی بالادستی سے نکال رہی ہے۔
مگر ہم اب بھی خندقیں کھودنے، موبائل سروس بند کرنے، اور شہروں میں عملی کرفیو نافذ کرنے کو "حکمتِ عملی" سمجھ بیٹھے ہیں۔
یہ پرانی ترکیب ہر چند سال بعد دوبارہ آزمائی جاتی ہے،
اور ہر بار انجام ایک سا ہوتا ہے — شہری زندگی مفلوج، کاروبار بند، تعلیم متاثر، اور ریاست کا تاثر کمزور۔
اصل مسئلہ یہ نہیں کہ حکومت تحریک لبیک جیسے گروہوں کو قابو کیوں نہیں کر پاتی،
اصل سوال یہ ہے کہ آخر ایسے گروہوں کے قیام کے پیچھے خواب کس کے تھے؟
کبھی سیاسی مفادات، کبھی اقتدار کے توازن اور کبھی مذہبی جذبات کو ایندھن بنا کر
ایسے گروہ کھڑے کیے گئے جن کا مقصد وقتی فائدہ یا کسی مخالف پر دباؤ ڈالنا تھا۔
مگر تاریخ کا سبق یہ ہے کہ جو گروہ وقتی مقصد کے لیے بنائے جائیں،
وہ آخرکار اپنے خالقوں کے قابو سے نکل کر خود ریاست اور عوام کے لیے وبال بن جاتے ہیں۔
ان کی زبان، ان کا غصہ، اور ان کا اثر ایک ایسی آگ بن جاتا ہے
جو سب کچھ جلا دیتی ہے — یہاں تک کہ وہ ہاتھ بھی جنہوں نے انہیں بنایا تھا۔
اور جب حالات بے قابو ہو جاتے ہیں تو ریاست پھر اسی پرانے نسخے کی طرف لوٹتی ہے:
خندقیں، کنٹینر، بند راستے اور موبائل انٹرنیٹ کی بندش
یہ اقدامات وقتی حل تو نظر آتے ہیں
مگر درحقیقت یہ کمزوری کا اعتراف ہوتے ہیں
بیوروکریسی کا کردار بھی کسی المیے سے کم نہیں۔
اے سی اور ڈی سی صاحبان کی انتظامی غیرت زیادہ تر ان غریبوں کے سامنے دکھائی دیتی ہے
جن کے ہاتھ میں صرف ریڑھی کی ہتھیلی ہے، طاقت کی چھڑی نہیں۔
جن پر نظام آسانی سے اپنی دھاک بٹھا سکتا ہے، ان پر پورا زور لگا دیا جاتا ہے،
اور جن سے اصل خطرہ ہے، ان کے سامنے اکثر زبان بھی بند اور ہاتھ بھی لرزتے ہیں۔
یہ توازن نہیں — کمزوری کی علامت ہے۔

اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کی پالیسی؟
وہ اب ایک پرانی شطرنج کی بازی لگتی ہے —
چالیں وہی، مہرے وہی، اور نتیجہ بھی وہی۔
اب بھی اگر عقل استعمال نہیں کرنی تو پھر بہتر ہے فیض حمید کا لفافوں والا حل ہی نکال لیں تاکہ چند لفافے دے کر معاملہ وقتی طور پر رفع دفع کر دیا جائے،۔
خندقیں کھودنے سے بہتر ہے وہی راستہ اختیار کر لیا جائے
کم از کم سڑکیں دوبارہ بنانے کا خرچ تو بچ جائے گا۔
ریاست کو اب یہ سمجھنا ہوگا کہ
جن گروہوں کو وقتی فائدے کے لیے پروان چڑھایا گیا،
انہیں ختم کرنے کے لیے صرف لاٹھی یا کنٹینر نہیں،
بلکہ سوچ، تعلیم اور مکالمہ درکار ہے کیونکہ
ریاستیں خندقوں اور کنٹینرز سے نہیں، بصیرت اور انصاف سے مضبوط ہوتی ہیں۔

تحریر: انوار القلم

کتنا اچھا پیغام ہے۔ زرا اس کی بصیرت کا تجزیہ کریں۔
11/10/2025

کتنا اچھا پیغام ہے۔ زرا اس کی بصیرت کا تجزیہ کریں۔

سینیٹر مشتاق احمد کے جانے کے بعد مختلف تجزیے اور تبصرے سامنے آرہے ہیں اور ظاہر ہے ہر شخص کو اپنی رائے رکھنے کا حق ہے۔ تا...
10/10/2025

سینیٹر مشتاق احمد کے جانے کے بعد مختلف تجزیے اور تبصرے سامنے آرہے ہیں اور ظاہر ہے ہر شخص کو اپنی رائے رکھنے کا حق ہے۔ تاہم ایک چیز جو بہت نمایاں طور پر نظر آتی ہے اور شاید بہت سے لوگوں نے اس پر غور بھی کیا ہو وہ یہ کہ جب دوسری سیاسی جماعتوں سے کوئی اہم شخصیت علیحدہ ہوتی ہے تو عموماً الزامات کی بوچھاڑ، کردار کشی، اور ایک دوسرے پر کرپشن و بدعنوانی کے طوفان کھڑے کر دیے جاتے ہیں۔ ایسے مواقع پر سیاسی فضا زہر آلود ہو جاتی ہے۔

مگر جماعتِ اسلامی کی تاریخ ہمیشہ اس معاملے میں منفرد اور شائستہ رہی ہے۔ اختلافات ضرور ہوئے لیکن باہمی احترام کبھی ختم نہیں ہوا۔ مثال کے طور پر جب ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے جماعت سے علیحدگی اختیار کی تو انہوں نے انتہائی وقار اور احترام کے ساتھ اپنا اختلافی نوٹ سید مودودیؒ کے سامنے پیش کیا۔ جانے کے بعد بھی دونوں کے درمیان عزت و احترام کا رشتہ برقرار رہا۔

خود سید مودودیؒ نے ان کے بارے میں کہا تھا: “یہ جہاں بھی جائے گا، دین کی خدمت کرے گا۔”

اسی روایت کا تسلسل آج بھی نظر آتا ہے۔ سینیٹر مشتاق احمد نے جب استعفیٰ دیا تو نہ کسی پر الزام لگایا، نہ کوئی شکوہ کیا، بلکہ قومی ٹی وی پر کہا: “میں جماعت اسلامی سے استعفی دیتے ہوئے اتنا رویا جتنا اپنی ماں کے انتقال پر رویا تھا۔”

نہ انہوں نے حافظ نعیم الرحمٰن پر کوئی مالی یا اخلاقی کرپشن کا الزام لگایا، نہ جماعت کے کسی دوسرے رہنما پر۔ یہی دراصل جماعت اسلامی کا وہ اخلاقی حسن اور امتیاز ہے جو اسے باقی تمام سیاسی جماعتوں سے الگ مقام عطا کرتا ہے۔

یہ بات درست ہے کہ کسی اہم شخصیت کے جانے سے وقتی دکھ ضرور ہوتا ہے، مگر تحریکیں افراد کے سہارے نہیں بلکہ نظریے کے بل پر زندہ رہتی ہیں۔ جیسا کہ میاں طفیل محمدؒ نے فرمایا تھا:
“اگر سید مودودیؒ بھی جماعت چھوڑ کر چلے جائیں، تب بھی ہم اسی تحریک کے ساتھ جڑے رہیں گے۔”

اور یہی جذبہ آج بھی ہزاروں کارکنان کے دلوں میں موجزن ہے ہم نے جو فکر اور نظریہ سید مودودیؒ کے لٹریچر سے سیکھا ہے وہ کسی شخصیت کے آنے جانے سے ختم نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہ فکر دراصل قرآن و سنت کا نچوڑ ہے جو کبھی ماند نہیں پڑتا۔

یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی کی اصل طاقت اس کا نظریاتی استحکام، باہمی احترام، اور کردار کی پاکیزگی ہے یہ تحریک افراد سے نہیں، ایمان اور اخلاص سے آگے بڑھتی ہے۔

افتخار احمد

نوبل امن انعام 2025 — کس کے حصے میں آئے گا؟ کل نوبل امن انعام کا اعلان ہونے والا ہے، اور دنیا بھر میں تجزیے جاری ہیں۔ماہ...
09/10/2025

نوبل امن انعام 2025 — کس کے حصے میں آئے گا؟

کل نوبل امن انعام کا اعلان ہونے والا ہے، اور دنیا بھر میں تجزیے جاری ہیں۔
ماہرین کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کے امکانات صرف 10 تا 15 فیصد ہیں، مگر یاد رہے جب وہ پہلی بار صدر بنے تھے تو امکانات تب بھی کم تھے، اور وہ دو بار صدر بن گئے!
کیا پتا اس بار بھی قسمت کی دیوی اُن پر مہربان ہو جائے؟

ممکنہ فاتحین میں:
1️⃣ ولودیمیر زیلنسکی (یوکرین)
2️⃣ اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی UNRWA
3️⃣ الیکسی نیوالنی (روس) بعد از مرگ اعزاز کے لیے زیرِ غور

زیادہ امکان ہے کہ انعام کسی انسانی فلاحی یا عالمی ادارے کے حصے میں آئے مگر اس دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں

ماضی میں نوبل امن انعام بعض اوقات دو یا تین شخصیات اور اداروں کو مشترکہ طور پر بھی دیا گیا ہے اگر سب نے امن کے قیام میں نمایاں کردار ادا کیا ہو۔
مثلاً
1978: انور السادات (مصر) اور میناخم بیگن (اسرائیل) — مشرقِ وسطیٰ امن معاہدے پر۔

1994: یاسر عرفات، اسحاق رابین، شمعون پیریز اوسلو امن معاہدے پر۔

2014: ملالہ یوسفزئی (پاکستان) اور کیلاش ستیارتھی (بھارت) بچوں کے حقوق اور تعلیم کے لیے خدمات پر۔

2021: ماریا ریسا (فلپائن) اور دمیتری موراتوف (روس) آزادیِ صحافت کے تحفظ پر۔

انوار القلم

بالاکوٹ زلزلہ — بیس برس بعد بھی زخم تازہ ہیںکہتے ہیں زلزلہ چند لمحوں کا ہوتا ہے، مگر اس کے زخم نسلوں تک رہتے ہیں۔آج 8 اک...
08/10/2025

بالاکوٹ زلزلہ — بیس برس بعد بھی زخم تازہ ہیں
کہتے ہیں زلزلہ چند لمحوں کا ہوتا ہے، مگر اس کے زخم نسلوں تک رہتے ہیں۔

آج 8 اکتوبر 2025 ہے — وہ دن جب بالاکوٹ کی وادیاں قیامت کا منظر پیش کر رہی تھیں۔ زمین کانپ رہی تھی، پہاڑ لرز رہے تھے، اور چند لمحوں میں بالاکوث شہر اور ۔مضافاتی علاقے ملبے کا ڈھیر بن گئے۔ 8 اکتوبر 2005 کا زلزلہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی قدرتی آفتوں میں سے ایک تھا، جس نے ہزاروں زندگیاں نگل لیں، لاکھوں خواب چکناچور کر دیے، اور ایک ایسا زخم دیا جو آج بیس برس بعد بھی نہیں بھرا۔

آج بیس برس گزر گئے، مگر وہ چیخیں، وہ ملبے کے نیچے دبی سانسیں، وہ ماں کی پکاریں، آج بھی اس مٹی میں گونجتی ہیں۔

اُس دن کتنے گھروں کے چراغ بجھ گئے…
کتنی مائیں اپنے بچوں کی لاشیں نہ ڈھونڈ سکیں…
کتنے باپ، جن کے کندھوں پر کبھی بچے کھیلتے تھے، خود ملبے تلے دب گئے۔
ہزاروں لوگ ملبے میں دفن ہوئے، جن میں سے درجنوں آج تک لاپتہ ہیں — نہ قبر، نہ نشانی۔

گھروں کے ساتھ سکول، مساجد، اسپتال اور بازار سب مٹی میں مل گئے۔
ہزاروں لوگ زخمی اور معذور ہوئے، سینکڑوں عورتیں بیوہ بن کر ساری زندگی کے لئے دکھوں کی زندہ تصویر بن گئیں اور سینکڑوں بچے یتیم ہو کر زندگی کے سفر میں بھٹک گئے۔

یہ صرف ایک لمحے کا زلزلہ نہیں تھا، بلکہ ایک پوری نسل کے خوابوں، امیدوں اور سکون کو دفن کر گیا۔
وہ بچے جو اس دن ملبے تلے دبے مگر زندہ بچ گئے آج جوان ہو چکے ہیں، مگر ان کی روحوں کے زخم اب بھی تازہ ہیں۔
جو ماں باپ اپنے بچوں کو کھو بیٹھے، ان کی آنکھوں سے آج بھی خاموش آنسو بہتے ہیں۔

حکومتوں نے وعدے کیے، منصوبے بنائے، لیکن بیس برس بعد بھی وعدے وفا نہ ہوئے جو متاثرین مکانات بنانے کے باجود بروقت رشوت نہ دے سکے ان کے معاوضے کبھی نہ مل سکے۔

نیو بالاکوٹ سٹی بھی ایک ادھورا خواب بن گیا۔
حکومتی اہلکاروں اور عوامی نمائندوں کے اعلانات، فیتہ کٹائی کی تصویریں، اور رسمی بیانات عوام کے زخموں پر مرہم نہیں رکھ سکتے۔

لیکن سوال یہ ہے — کیا قصور صرف حکومتوں کا ہے؟
نہیں۔ قصور ہمارا بھی ہے۔
ہم نے اپنے حقوق کے لیے آواز نہیں اٹھائی۔
ہم نے انھی چہروں پر بار بار بھروسہ کیا جنہوں نے صرف وعدے کیے، عمل نہیں۔
ہمیں آزاد کشمیر کے عوام سے سیکھنا ہوگا جنہوں نے اپنے حقوق کے لیے یکجہتی کے ساتھ آواز بلند کی — اور اپنے حق حاصل کیے۔
اے بالاکوٹ والو!
وقت تمہیں بار بار یاد دلا رہا ہے
اپنی تقدیر کے فیصلے خود کرو۔
ورنہ تم یونہی دکھ، غربت، اور مایوسی کے اندھیروں میں زندگی گزارتے رہو گے،
اب بھی وقت ہے کہ تم اپنی تقدیر کے فیصلے خود کرو۔
اتحاد پیدا کرو، ایک جاندار اور ایماندار قیادت سامنے لاؤ۔
بار بار آزمائے ہوئے چہروں کو پھر موقع دینا اپنے زخموں پر خود نمک چھڑکنے کے برابر ہے۔
ورنہ وقت گزرتا جائے گا، نسلیں بدلتی رہیں گی،
اور تم یونہی شکایتیں کرتے کرتے دنیا سے رخصت ہو جاؤ گے
مگر تمہارے شہر، تمہاری مٹی، تمہارا مستقبل ویسا ہی ویران رہے گا۔
اب بھی وقت ہے
جاگو، متحد ہو جاؤ،
اپنے حقوق پہچانو،
اور اپنی تقدیر خود لکھو۔

زلزلہ گزرے دو دہائیاں بیت گئیں، مگر درد اب بھی زندہ ہے۔
اے پروردگار! ان آنکھوں کے آنسو رحمت بن جائیں،
ان وادیوں میں پھر سے خوشیاں لوٹ آئیں،
اور یہ زمین جو کبھی کانپی تھی،
اب صرف امن، محبت اور خوشحالی کے گیت گائے۔
آمین یا رب العالمین۔

انوار القلم

Address

Balakot
21230

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Balakot News Network posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share