13/09/2024
ایک غازی پہلے بھی معافیاں مانگتا پھرتا تھا۔ ممتاز قادری. وہ پھر بعد میں صدر پاکستان سے معافیاں مانگ رہا تھا کہ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ لیکن حکومت نے ان کو کہا کہ نہیں جنت میں حوریں آپ کی منتظر ہیں وہاں چلے جاو۔
جس مولوی نے قادری کو ورغلایا تھا وہ بھی عدالت میں مکر گیا کہ میں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔
وہ جو پشاور میں ایک قادیانی کو قتل کی تھا وہ بھی جھوٹا تھا۔ ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اس نے جھوٹا الزام لگایا کہ انہوں نے مجھے پستول دی۔ بعد میں پتہ چلا کہ پستول ایک وکیل نے دی تھی۔ اس کے والدین کو بھی لوگ مبارک باد دینے گئے تھے لیکن اب اس کے والدین معافی تلافی چاہتے ہیں۔
مشال خان کو جنہوں نے شہید کیا تھا وہ بھی پولیس گرفتاری سے بھاگ رہے تھے ۔ حلانکہ ان کو خوشی خوشی گرفتاری دینی چاہئے تھی۔ ۔ لیکن وہ عدالت میں یہ ثابت کرنے پر لگے تھے کہ ہم تو اس کام میں ملوث ہی نہیں ہیں۔
اس طرح کے سارے لوگ بعد میں معافیاں مانگتے ہیں۔ چلیں ایک واقعہ سناتا ہوں۔ پاکستان بننے سے پہلے علم الدین نے ایک ہندو کو قتل کیا تھا جو ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی شان میں گستاخی کرتا تھا اور ایک کتاب لکھی تھی جس میں حضور کی شان میں گستاخیاں کی گئی تھیں۔۔ سنا ہے کہ علم دین کو جب پھانسی ہوئی تو جیل سے گھر تک میت لانے کیلئے دین محمد نامی شخص نے چارپائی فراہم کی تھی کہ یہ اعزاز کی بات ہے کہ غازی کی میت میری چارپائی پر گھر لائی جائے۔ دین محمد کے بیٹے کا نام سلمان تاثیر تھا ۔ جی ہاں وہی گورنر سلمان تاثیر جن کو ممتاز قادری نے توہین رسالت کی وجہ سے قتل کیا تھا۔ تاریخ بہت ظالم ہے۔ یہ گول پیئے کی طرح چکر کاٹتی ہے۔ جو آج دوسروں کو قتل کرتے ہیں یا قتل کی مبارکباد دیتے ہیں ان کے بچوں کو پھر قربانی دینی پڑتی ہے۔ باقی آپ لوگ خود سمجھدار ہیں۔