30/08/2025
🌿 سیلاب، کرامات اور اولیاء کرام پر اعتراضات کا جواب
جب بھی ملک پر کوئی قدرتی آفت آتی ہے تو کچھ لوگ اپنا اصل کام چھوڑ کر مذہب اور اولیاء کرام پر بے جا تنقید شروع کر دیتے ہیں۔ حالیہ سیلاب کے دنوں میں بھی یہ آوازیں سنائی دیتی ہیں کہ اگر اولیاء کرام حق پر ہیں تو کرامت دکھا کر سیلاب کو روک کیوں نہیں دیتے؟ یا مزارات پر پانی کیوں آ گیا؟
ایسے اعتراضات دراصل جہالت اور دین کی بنیادی سمجھ بوجھ سے محرومی کا نتیجہ ہیں
⸻
🌙 قرآن و حدیث میں کرامات کا ثبوت
📖 قرآن کریم واضح طور پر کرامات کا تذکرہ کرتا ہے:
1. حضرت مریمؑ کا بے موسم رزق
“جب بھی زکریا علیہ السلام محراب میں ان کے پاس جاتے تو کھانے پینے کا سامان موجود پاتے۔ وہ پوچھتے: اے مریم! یہ کہاں سے آتا ہے؟ وہ جواب دیتیں: یہ اللہ کی طرف سے ہے۔”
(آلِ عمران: 37)
یہ ایک کھلی کرامت ہے۔
2. حضرت آصف بن برخیاؒ کا معجزہ
“وہ شخص جس کے پاس کتاب کا کچھ علم تھا، بولا: میں پلک جھپکنے سے پہلے تخت (بلقیس) آپ کے پاس لے آؤں گا۔”
(النمل: 40)
یہ بھی کرامت ہے جسے قرآن نے بیان فرمایا۔
3. حدیث شریف
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“مؤمن کی فراست سے بچو، وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔”
(جامع ترمذی، حدیث: 3127)
یہ صریح اشارہ ہے کہ اولیاء اللہ کو اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کے ذریعے غیر معمولی بصیرت عطا کرتا ہے۔
⸻
🌙 قدرتی آفات اور نظامِ الٰہی
یہ سوال کہ “اگر کرامت سچی ہے تو اولیاء اپنے مزارات یا شہروں کو آفات سے کیوں نہیں بچاتے؟” کا جواب یہ ہے کہ:
دنیا اللہ کے قوانینِ قدرت کے تحت چل رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
“تم اللہ کے طریقے میں کبھی تبدیلی نہ پاؤ گے۔”
(الاحزاب: 62)
یعنی کائنات ایک مقررہ نظام پر چل رہی ہے۔
اگر یہ اعتراض درست ہو کہ کرامت سے سب کچھ ٹل جانا چاہیے، تو پھر یہ بھی اعتراض ہونا چاہیے کہ مسجدیں کیوں شہید ہو جاتی ہیں؟ حالیہ سیلاب میں درجنوں مساجد منہدم ہوئیں۔ کیا کعبہ معظمہ میں کبھی پانی داخل نہیں ہوا؟
📖 کتاب: اخبار مکہ (الفاکہی)
اس میں موجود ہے کہ جب سیلاب نے کعبہ کو ڈھانپ لیا تو حضرت عبداللہ بن الزبیرؓ نے تیر کر طواف کیا۔
📖 ابن ابی الدنیا نے بھی اس واقعے کو نقل کیا ہے۔
حتیٰ کہ 1941ء کے سیلاب میں بھی ایک بحرینی نوجوان شیخ علی العوضی نے تیرتے ہوئے کعبہ کا طواف کیا۔
تو اگر اللہ کا اپنا گھر (بیت اللہ) بھی قدرتی آفات کے ظاہری اثرات سے محفوظ نہیں رکھا جاتا، تو پھر اولیاء کے مزارات پر اعتراض کرنا محض لاعلمی ہے۔
⸻
🌙 کرامت کی حقیقت
• کرامت اللہ کے حکم سے ظاہر ہوتی ہے، ولی اپنی مرضی سے نہیں دکھاتا۔
• حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
“ولی کرامت کو اس طرح چھپاتا ہے جس طرح عورت حیض کے کپڑے چھپاتی ہے۔”
(عین الفقر)
یعنی ولی کے نزدیک اصل مقام معرفتِ الٰہی ہے، کرامت نہیں۔
⸻
🌙 نتیجہ اور نصیحت
کرامت حق ہے اور قرآن و سنت سے ثابت ہے۔ لیکن یہ ہمیشہ اللہ کی مشیت اور اذن سے ظاہر ہوتی ہے، نہ کہ اولیاء کی مرضی سے۔ آفاتِ سماوی اور زمینی نظام اللہ کے قوانین کے مطابق جاری رہتے ہیں۔
لہٰذا اولیاء کرام اور مزارات پر اعتراض دراصل ایمان کو کمزور کرنے والی سوچ ہے۔
اور اگر کوئی شخص صرف “عقیدے کے اختلاف” کی وجہ سے دل سے یہ بات نہیں مانتا تو کم از کم زبان درازی نہ کرے۔ یاد رکھیں! میدانِ محشر میں فیصلہ اللہ تعالیٰ نے کرنا ہے، نہ کہ آپ سے پوچھ کر یا آپ کے ایمان پر۔
جو شخص شرک کرتا ہے یا گستاخی کرتا ہے، اس کی ذمہ داری اسلامی ریاست پر ہے۔
آپ کا کام یہ ہے کہ دین پر عمل کریں، مگر پورا دین، نہ کہ پسندیدہ حصے۔
“سیلیکٹیو اسلام” آپ کا دین ہو سکتا ہے، رسول اللہ ﷺ اور اللہ کا دین نہیں۔
اپنی آخرت کو برباد نہ کریں اور تھوڑی سی شرم و حیاء کریں۔