05/09/2025
الائ کالج کا مسئلہ اور ہمارا فرض
وہ جنگلوں سے نکالے ہوئے غریب پرندے
جہاں گئے انہیں مسکن ملا عقابوں کا
آپ سب کے علم میں ہے کہ ڈگری کالج الائ کو حکومت خیبر پختونخوا نے سرکاری تحویل سے نکال کر کسی اور پارٹی کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ادارہ اب ایک عام پرائیویٹ کالج کی طرح اپنی آمدن اور اخراجات خود برداشت کرے گا۔ گویا حکومت نے یہ سوچ لیا ہے کہ اگر کسی ادارے کی کارکردگی معیاری نہ ہو تو اس سے جان چھڑا کر اسے کسی اور کے حوالے کر دینا ہی حل ہے۔
ہم یہ مانتے ہیں کہ حکومت کو حق حاصل ہے کہ وہ کم کارکردگی والے اداروں سے باز پرس کرے اور خامیوں کو دور کرنے کے لیے اصلاحی اقدامات کرے۔ لیکن اس احتساب کے لیے پورا نظام موجود ہے، چاہے وہ محکمہ جاتی سطح پر ہو یا کسی آزاد ادارے کے ذریعے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تعلیم، جسے ہمیشہ **"سب کے لیے مفت"** کا نعرہ دیا جاتا رہا ہے، اسے اب کاروبار کیوں بنایا جا رہا ہے؟
اب ذرا الائ کالج کی صورتحال دیکھ لیجیے۔ یہ ادارہ ابھی تک زیر تعمیر ہے اور مکمل طور پر محکمہ کے حوالے بھی نہیں کیا گیا۔ اس کے باوجود جلد بازی میں کلاسز شروع کر دی گئیں—یہ قابلِ فہم ہے، کیونکہ علاقے کے طلباء کا قیمتی وقت ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن جب کالج ابھی ابتدائی مرحلے میں ہی ہے، تو پھر کارکردگی کا بہانہ بنا کر اسے بیچنے کی بات کہاں کا انصاف ہے؟
کسی بھی تعلیمی ادارے کی کارکردگی کے دو بنیادی پیمانے ہوتے ہیں:
1. طلباء کی تعداد
2. امتحانی نتائج
الحمدللہ، الائ کالج ان دونوں پیمانوں پر پورا اترتا ہے۔ پھر بھی اسے نجی شعبے کے حوالے کرنے کی ضد کیوں کی جا رہی ہے؟
حیرت کی بات یہ ہے کہ آج تک پریس، سول سوسائٹی، طلباء، سیاسی رہنما اور والدین میں سے کسی نے بھی اس معاملے پر آواز بلند نہیں کی۔ یہ خاموشی کس مصلحت کے تحت ہے؟ اگر ہم سب خاموش رہے تو یہ فیصلہ لاگو ہو جائے گا اور الائ کے غریب طلباء اعلیٰ تعلیم کے حق سے محروم رہ جائیں گے۔
یہ صرف ایک کالج نہیں، بلکہ الائ کے ہزاروں طلباء اور والدین کی امید ہے۔ اگر یہ ادارہ چھن گیا تو گویا غریب طلباء کے لیے اعلیٰ تعلیم ایک خواب بن کر رہ جائے گی.
تحریر
پروفیسر ڈاکٹر شاہ سلیم اللہ