06/02/2024
”ووٹ کس کو ڈالا تھا تم نے ایڈم؟“
ایڈم نے گردن موڑ کے اس کو دیکھا اور لمحے بھر کو چپ رہ گیا۔ پھینے نقوش اور صاف رنگت کا وہ ایک عام سا ملے نوجوان تھا اور سوٹ ٹائی اس پہ بہت نئے اور اوپرے لگ رہے تھے جیسے مانگ کے پہنے ہوں۔
”کسی کو نہیں‘ سر۔ مجھے سیاست سے دلچسپی نہیں ہے۔“
فاتح نے بے اختیار دونوں ابرو اٹھائے اور تعجب سے اسے دیکھا۔ ”تمہیں معلوم ہے ایڈم کسی ملک کے لئے سب سے خطرناک آدمی کون ہوتا ہے؟“
”کرپٹ حکمران؟“اس نے گڑبڑا کے کہا۔
”ہاں مگر اس سے بھی زیاہ ’سیاسی جاہل‘ خطرناک ہوتا ہے۔
”وہ سیاسی جاہل جو سینہ تان کے کہتا ہے کہ اسے سیاست سے دلچسپی نہیں‘ بلکہ اسے تو سیاست سے نفرت ہے۔ ایسا آدمی نہ کچھ دیکھتا ہے‘ نہ سنتا ہے‘ نہ کرتا ہے۔
اس کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ سیاست Policiesبنانے کا نام ہے اور آٹے دال‘ چاول‘ دواؤں اور موبائل کریڈٹ کی قیمت سے لے کر ہر چیز کا تعین سیاست دان کرتے ہیں‘ اور اگر سیاسی جاہل اپنی رائے نہیں رکھے گا‘ سیاست میں ووٹ اور سپورٹ کے ذریعے حصہ نہیں لے گا‘ تو و ہ کرپٹ حکمرانوں کو مضبوط کرے گا اور سڑکوں پہ بے حال پھرتے لوگوں‘ چور ڈاکوؤں‘غریبوں‘ سب کا ذمہ دار وہ ہو گا۔
مجھے زیادہ خوشی ہوتی ایڈم اگر تم کہتے کہ تم نے میرے مخالف کو ووٹ ڈالا تھا کیونکہ تب مجھے لگتا کہ میں ایک سیاسی خواندہ سے بات کر رہا ہوں جس کی کوئی سوچ ہے‘ بھلے مجھ سے مختلف ہو‘ مگر کوئی نظریہ“ کوئی رائے‘ کچھ تو ہے اس کے پاس۔ یہ انسان کی آزاد رائے ہوتی ہے جو ہمیں ایک دوسرے سے مختلف کرتی ہے‘ ورنہ ہم میں اور بھیڑ بکریوں میں کیا فرق ہے؟“
ح