18/05/2025
1970 میں ایک انڈونیشین خاتون زہرا فونا نے دعویٰ کیا کہ وہ دو سال سے حاملہ ہیں اور انکے پیٹ میں بچہ اذان دیتا ہے اور قران کریم کی تلاوت کرتا ہے اور انکو بشارت ہوئی ہے کہ یہ بچہ امام مہدی ہے ، خاتوں کے دعویٰ کو انڈونیشیا میں بہت پزیرائی ملی، اس وقت کے صدر سوہارتو اور وزیر خارجہ آدم ملک نے اپنے خاندان کے ساتھ انکی/انکے پیٹ میں موجود بچے کی امامت میں نماز بھی ادا کی۔۔۔وہاں کے وزیر مزہبی امور نے کہا کہ یہ کوئی عجیب بات نہیں کیوں کہ امام شافعی بھی تین سال ماں کے پیٹ میں رہے، اس لئے یہ امام مہدی بھی ہو سکتے ہیں۔۔خاتون کی شہرت انڈونیشیا سے باہر نکلی تو ملیشیا میں مسلمانوں نے انکو اپنے ملک کی دعوت دی اور انکی امامت نماز پڑھوانے کا شرف حاصل کیا- ایسے میں پاکستان کا پیچھے رہنا ایک اسلامی ملک کے شایان شان نہیں تھا اس لئے یحییٰ خان کی حکومت نے انکو کراچی اور دیگر شہروں میں ایسے روحانی اجتماعات میں شرکت کی دعوت دی، پہلے کراچی آئیں، خوب شہرہ رہا ۔۔دیوبندی عالم مولانا احتشام الحق تھانوی اور بریلوی عالم مولانا شفیع اوکاڑوی نے ان سے ثبوت مانگا تو خاتوں کے کہنے پر ان دونوں علماء کرام نے انکے زیر ناف حصہ پر کان لگا کے اذان اور تلاوت سنی اور کنفرم کر دیا کہ پیٹ میں موجود بچہ امام مہدی ہو سکتا ہے۔۔۔بس پھر کیا تھا کراچی کی اسلامی جزبہ سے سرشار عوام نے اگلے ہی جمعہ ایک بہت بڑے میدان میں امام مہدی اور انکی والدہ کی امامت میں نماز پڑھی۔۔خاتون اپنے پاوں پھلا کے قبلہ رو بیٹھ گئیں لاوڈ سپیکر/مائک زیر ناف کے قریب لگا دئے گئے اور بچہ اذان اور پھر تلاوت کے ساتھ پوری نماز کرا کے لاکھوں مقتدیوں کے ایمان کو مضبوط کر گیا-
لیکن کچھ بد تمیز قسم کے لبرل ٹائپ ڈاکٹرز یہ زور دیتے رہے کہ انکو خاتون کا معائنہ کرنے کی اجازت دی جائے۔۔خاتون اور ان کا شوہر ہر طریقہ سے ٹالتے رہے لیکن جب دس ڈاکٹروں کی ایک ٹیم جس میں پانچ لیڈی ڈاکٹرز بھی تھیں مل کے انکے ہوٹل کے کمرے میں پہنچ کے چیکنگ پر زور دینے لگیں اور زبردستی اپنا معائنہ کرنے لگیں۔۔۔تو راز کھلا کہ خاتون نے جائے مخصوصہ کے اندر ایک چھوٹا سا ٹیپ ریکارڈر فٹ کر رکھا ہے جو اس زمانے میں پاکستان میں تو کہیں ملتا نہ تھاشاید امریکہ یا یورپ سے لیا گیا ہوگا۔۔۔باہر اخباری نمائندوں کی ٹیم بھی موجود تھی جوں ہی یہ راز ان پر فاش ہوا وہ تو اپنے اپنے اخباروں مں یہ خبر دینے نکلے۔۔۔اس فیملی کو اگلے دن لاہور جانا تھا لیکن معلوم ہوا کہ رات کی کوئی فلائٹ پکڑ کے وہ دونوں پاکستان سے باہر چلے گئے۔۔۔پاکستانی اخباروں کی خبروں کے بعد اس جوڑے کو اندونیشیا میں جعل سازی اور فراڈ کے الزام میں جیل میں بند کر دیا۔۔
آپ میں سے شاید ہی کسی کو یہ واقعہ معلوم یا یاد ہو، اپنے بزرگوں سے پوچھ لیں ورنہ گوگل پوری کہانی آپ کے سامنے لا دے گا۔۔۔میں نے اپنی یاداشت سے لکھا ہے اس وقت کالج میں پڑھتا تھا۔۔مولانا احتشام الحق کی خاتوں کے پیٹ کے نچلے حصے سے نہایت مطمئن انداز میں تلاوت سنتے وقت جو تصویر اخباروں میں چھپی تھی نظروں کے سامنے گھوم گئی-خاتون کی انڈونیشی صدر اور آدم ملک کے ساتھ نماز والی تصاویر بھی اخباروں میں ان کے یہاں آنے کے بعد چھپی تھیں۔۔
Copied