Global Insights

Global Insights Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Global Insights, News & Media Website, Burewala.

18/07/2024

*پاکستانیت اور دہرے معیار*

گزشتہ دنوں پاکستان کے ایک نامور اسلامی سکالر انجینئر محمد علی مرزا نے ایک پوڈکاسٹ میں کہا " اگر عمران خان صاحب زندہ رہے اور جیل سے باہر آگئے تو اس ملک میں استحکام نہیں آ پائے گا اور یہ بات فوج کو پتہ ہے اس لیے وہ اندر ہیں"
*جناب!*
انجینئر صاحب کا بیانہ انٹرنیٹ پر جنگل کی آگ کی طرح پھیلا اور نئی نسل اور انجینئر صاحب کے مخالفین حیران کن طور پر ایک کشتی میں سوار نظر آئے۔حیرت کی انتہا نہ رہی جب اکثریت نے محرم الحرام کی مناسبت سے انجینئر صاحب پر یزیدیت کا فتویٰ جاری کردیا اور دُو بہ دُو لفظی ڈنڈے سوٹے برسانے شروع کردیے۔ بندۂ ناچیز اپنی معمولی سے رائے دینا چاہتا ہے اور وہ یہ کہ بطور پاکستانی ہم کس قدر دُہرے معیار کے حامل ہیں۔ پہلی بات یہ کہ سوشل میڈیا کے کسی بھی اسلامی علم بردار نے پوڈکاسٹ پورا نہیں دیکھا اگر دیکھا ہوتا تو حالات یوں نہ ہوتے۔ انجینئر صاحب نے اپنے بیانات میں فوج کی سیاسی مداخلت کی مذمت کی اور جنرل ضیاء سے لے کر جنرل باجوہ تک سب کہ غلطیوں کی نشاندہی کی اور بتایا کہ کس طرح فوج عدم مداخلت کا حلف لے کر اسی حلف کی دھجیاں اڑاتی رہی ہے۔
خیر میرا موضوع یہ بھی نہیں کہ فوج نے کب اور کتنی مداخلت کی بلکہ یہ ہے کہ ہم کس قدر دُہرے معیار رکھتے ہیں۔ انجینئر صاحب ایک قابل آدمی ہیں اور ان کی دینی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ سوشل میڈیا پر یزیدیت کا فتویٰ جاری کرنے والے ذرا اس بات کا جواب بھی دیں کہ کیا ہر وہ شخص جو عمران خان صاحب کے حق میں بات نہیں کرے گا وہ یزیدی ہو جائے گا؟ اگر ایسا ہے تو اس ملک کی ایک نامور اسلامی جماعت 'تحریک لبیک پاکستان' کے بارے میں آپکا کیا خیال ہے؟ اس جماعت کو یزیدیت کا فتویٰ جاری کیوں نہیں کر رہے۔ باقی سیاسی جماعتیں بھی موجود ہیں پاکستان میں، انہیں بھی یزیدی لشکر قرار دے دیں. مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے ہاں طاقتور اور کمزور کے لیے قانون مختلف ہے۔ اسلامی علمبردار سوشل میڈیا پر ایک ایسے شخص کو تو فتوات جاری کر سکتے ہیں جسکے سننے والے انتہا پسند نہیں مگر کسی ایسی جماعت پر بات نہیں کر سکتے جو ان کو گستاخی کا دعویدار ٹھہرا کر قتل کرنے پر اتر آئے۔ مفتی حنیف قریشی صاحب کی حالتِ زار بھی سب کے سامنے ہے کہ کس طرح ان مذہبی درندوں سے چھپ چھپا کر انہیں اپنی جان بچا کر بھاگنا پڑا۔
پھر یہ بات بھی ہے کہ کیوں ہم ایسی سوچ رکھتے ہیں کہ ایک شخص جو زندگی کے کسی ایک شعبے میں مہارت رکھتا ہے، اسے دوسرے شعبے(زیادہ تر سیاست) میں بھی اسی پائے کا عبور حاصل ہو۔ قطعاً یہ ضروری نہیں کہ ایسا ممکن ہو۔ 'حقِ اظہار ِرائے' اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلقہ ہر بل کا حصہ رہا مگر افسوس اس بات کا ہے ہماری قوم آج بھی اسکے علم سے محروم ہیں۔ اسی کے سیاق و سباق میں یہ کہنا شاید غلط نہ ہوگا کہ ہم بحیثیتِ قوم 95٪ جاہل ہیں۔

تحریر: محمد معیز

18/07/2024

جناب!

آج جناب اکرام عارفی اور واجد امیر صاحب سے ملاقات کا اتفاق ہوا۔ چونکہ میرا ادب سے تعلق محض اتنا ہی ہے جتنا آج کل عمران خان کا اسٹیبلشمنٹ سے ہے لہذا ملاقات ادب سے عاری رہی یا یوں کہہ لیں کہ بے ادب رہی۔ عارفی صاحب اور واجد صاحب کے شاگردانِخاص کا جھرمٹ انکے اردگرد موجود تھا مگر ہم نے بھی صفیں چیرتے ہوئے کامیابی کیساتھ صفِ دوم میں جگہ بنا لی اور فوراً اپنے موبائل کا کیمرہ چمکانا شروع کردیا۔ گفتگو میں متعدد موضوع زیرِ بحث رہے اور اختلافِ رائے بھی رہا مگر نسوانی حُسن کے موضوع پر سب ہم خیال رہے۔ محفل میں موجود نئی نسل کے شعراء نے اپنی غزلیں پیش کیں مگر ایک صاحب تو ایسے نکلے کہ انہوں نے انگریزی میں غزل کہہ ڈالی جس پر واجد صاحب بولے! علیم تم نے آج انگریزی شاعری کیساتھ وہی کیا ہے جو سیاستدانوں نے ہمارے ملک کے ساتھ کیا ہے۔ایک کونے سے دھیمی آواز آئی۔۔۔بالتکار۔
البتہ سنگت میں سے دلفریب چیز عارفی صاحب کے چہرے کے تاثرات تھے جو ہر عمدہ شعر پر ان سے نکل جاتے تھے جو کہ شاید اب انکی شخصیت کا حصہ اور لوگوں میں آپکی پسندیدگی کی ایک وجہ بھی ہیں۔ خیر ہم نے بھی ہمت پکڑی اور محفل میں اپنی حاضری باور کروانے کے لیے موقع ملتے ہی عارفی صاحب سے سوالات شروع کردیے۔ ہم نے پوچھا عارفی صاحب آپ عمدہ شعر سنتے ہی کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں اور شاعر کے آگے ہاتھ جوڑ کر اسکی بھرپور ستائش کرتے ہیں، کیا بھارتی اداکار وکی کاشل آپکے اس منفرد انداز سے متاثر تو نہیں؟ محفل میں قہقہہ لگا اور ایک نوجوان بولا! بھائی سوال آپکا توبہ توبہ! مگر عارفی صاحب نے اس بات کی لاعلمی کو سگریٹ کے ایک کش میں اُڑا دیا۔ دوسرے سوال میں عارفی صاحب سے پوچھا کیا آپ نے مونچھیں جرمن فلسفہ دان فریڈرک نطشے سے متاثر ہوکر رکھی ہیں؟ بولے کیا نطشے کے بھی سامنے کے دانت نہیں تھے؟ ایک گونج دار قہقہہ لگا جسکا واجد امیر صاحب سمیت سب نے بھر پور لطف لیا۔
تاہم سنگت رات گئے دیر تک چلی مگر جو نہیں چلے، وہ یہ تمام لوگ اپنے گھر کو نہیں چلے۔ لہذا ہمیں بھی محفل کے آداب کو مدِنظر رکھتے ہوئے مجبوراً جب خالی پیٹ بیٹھنا پڑا تو اس وقت ہمیں یہ احساس ہوا کہ خاموشی کیوں عین عبادت ہے!
خیر وقت نے اپنی خوبی ثابت کی اور کٹ گیا اور پھر یوں ہوا کہہ دونوں شعرا نے طلباء سے اجازت طلب کی اور روانہ ہوگئے۔ دوسری جانب ہم نے بھی نیت باندھی کہ "نیت کرتا ہوں میں دو عدد روٹیاں کھانے کی واجب ساتھ آلو قیمے کے، واسطے پاپی پیٹ کے، منہ طرف ریسٹورنٹ شریف، اللّٰہ اکبر"

تحریر: محمد معیز

Address

Burewala

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Global Insights posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Global Insights:

Share