16/08/2025
پاکستان کی سپریم کورٹ نے 45 سال بعد سپریم کورٹ رولز 1980 کو منسوخ کر کے سپریم کورٹ رولز 2025 نافذ کر دیے ہیں، جو 6 اگست 2025 سے مؤثر ہیں۔ یہ نئے رولز عدالتی کارروائیوں میں شفافیت، کارکردگی، اور ڈیجیٹلائزیشن کو فروغ دینے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ ذیل میں رولز 1980 اور رولز 2025 کا تقابلی جائزہ اور نئے رولز کی اہم خصوصیات پیش کی جا رہی ہیں:
تقابلی جائزہ: رولز 1980 بمقابلہ رولز 2025
پہلو
رولز 1980
رولز 2025
اپیل دائر کرنے کی مدت
فوجداری اور براہِ راست دیوانی اپیلوں کے لیے مدت 30 دن تھی۔
فوجداری اور براہِ راست دیوانی اپیلوں کی مدت بڑھا کر 60 دن کر دی گئی ہے۔
نظرثانی درخواست کی مدت
واضح طور پر مدت کا ذکر نہیں تھا، یا پرانے طریقہ کار پر عمل ہوتا تھا۔
نظرثانی درخواست کی مدت 30 دن مقرر کی گئی ہے۔ درخواست گزار کو فوری طور پر دوسرے فریق کو نوٹس دینا لازم ہے۔
رجسٹرار اعتراضات پر اپیل
اعتراضات کے خلاف اپیل کی مدت واضح نہیں تھی یا روایتی طریقہ کار پر انحصار تھا۔
رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے خلاف اپیل 14 دن کے اندر دائر کرنا لازمی ہے۔
نظرثانی درخواست کے تقاضے
نئے شواہد یا دستاویزات کے لیے مخصوص تقاضوں کا ذکر نہیں تھا۔
نظرثانی درخواست کے ساتھ فیصلے کی تصدیق شدہ کاپی لازمی ہے۔ نئے شواہد پر مبنی درخواستوں کے لیے مصدقہ دستاویزات اور حلف نامہ درکار ہے۔
غیر سنجیدہ درخواستوں پر جرمانہ
غیر سنجیدہ یا پریشان کن درخواستوں کے لیے جرمانے کا کوئی واضح نظام نہیں تھا۔
غیر سنجیدہ یا پریشان کن نظرثانی درخواست پر وکیل یا فریق پر 25,000 روپے تک جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔
نظرثانی درخواست کی سماعت
واضح طور پر بینچ کے تعین کا ذکر نہیں تھا۔
نظرثانی درخواست وہی بنچ سنے گا جس نے فیصلہ دیا تھا۔ اگر جج ریٹائر یا مستعفی ہو جائے تو باقی ججز سماعت کریں گے۔
جیل درخواستوں پر فیس
جیل درخواستوں پر فیس کے بارے میں واضح ہدایات نہیں تھیں۔
جیل درخواستوں پر کوئی کورٹ فیس نہیں لی جائے گی۔
کورٹ فیس
فیس کا ڈھانچہ پرانا تھا اور ڈیجیٹلائزیشن کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔
نیا کورٹ فیس چارٹ جاری کیا گیا ہے، مثلاً: سی پی ایل اے/سول اپیل کی فیس 2500 روپے، آئینی درخواست کی فیس 2500 روپے، سول ریویو کی فیس 1250 روپے، سیکیورٹی چالان کی فیس 50,000 روپے، انٹرا کورٹ اپیل کی فیس 5000 روپے، وغیرہ۔
ڈیجیٹلائزیشن اور شفافیت
ڈیجیٹلائزیشن یا آٹومیشن پر زور نہیں تھا۔
ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے کیس مینجمنٹ اور آٹومیشن کو بہتر بنانے پر توجہ دی گئی ہے۔
رولز کی تیاری
پرانے رولز 1980 میں بنائے گئے تھے اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں تھے۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی ہدایت پر جسٹس شاہد وحید کی سربراہی میں چار رکنی کمیٹی نے ججز، سپریم کورٹ آفس، بار کونسلز، اور وکلاء ایسوسی ایشنز سے تجاویز لے کر رولز تیار کیے۔
نئے رولز 2025 کی اہم خصوصیات
مدت میں اضافہ:
فوجداری اور براہِ راست دیوانی اپیلوں کی مدت 30 دن سے بڑھا کر 60 دن کر دی گئی ہے، جو درخواست گزاروں کو زیادہ وقت فراہم کرتی ہے۔
رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے خلاف اپیل کی مدت 14 دن مقرر کی گئی ہے۔
نظرثانی درخواستوں کے تقاضے:
نظرثانی درخواست کے ساتھ فیصلے یا حکم کی تصدیق شدہ کاپی لازمی ہے۔
نئے شواہد پر مبنی درخواستوں کے لیے مصدقہ دستاویزات اور حلف نامہ درکار ہے۔
درخواست پر دستخط کرنے والے وکیل یا فریق کو نظرثانی کی بنیاد مختصر طور پر بیان کرنا ہوگا۔
غیر سنجیدہ درخواستوں پر جرمانہ:
غیر سنجیدہ یا پریشان کن نظرثانی درخواستوں پر وکیل یا فریق پر 25,000 روپے تک جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے، جو عدالتی نظام کے غلط استعمال کو روکنے میں مدد دے گا۔
نظرثانی کی سماعت کا طریقہ کار:
نظرثانی کی درخواست وہی بنچ سنے گا جس نے فیصلہ دیا تھا۔ اگر جج ریٹائر یا مستعفی ہو جائے تو باقی ججز سماعت کریں گے۔
جیل درخواستوں پر فیس معافی:
جیل درخواستوں پر کوئی کورٹ فیس نہیں لی جائے گی، جو قیدیوں کے لیے انصاف تک رسائی کو آسان بناتی ہے۔
نیا کورٹ فیس چارٹ:
نیا فیس چارٹ 6 اگست 2025 سے نافذ العمل ہے، جس میں شامل ہے:
سی پی ایل اے/سول اپیل کی فیس: 2500 روپے
آئینی درخواست کی فیس: 2500 روپے
سول ریویو کی فیس: 1250 روپے
سیکیورٹی چالان کی فیس: 50,000 روپے
انٹرا کورٹ اپیل کی فیس: 5000 روپے
پاور آف اٹارنی، کیویٹ، کنسائز اسٹیٹمنٹ کی فیس: 500 روپے
حلف نامہ کی فیس: 500 روپے
درخواست فیس: 100 روپے
ڈیجیٹلائزیشن اور شفافیت:
نئے رولز میں ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے کیس مینجمنٹ کو بہتر بنانے اور آٹومیشن کے ذریعے انتظامی کاموں کو تیز کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ اس سے عدالتی کارروائیوں میں تاخیر کم ہوگی اور عوام کے لیے عدالتی معلومات تک رسائی بہتر ہوگی۔
چیف جسٹس کی صوابدیدی اختیارات:
اگر کسی شق پر عمل درآمد میں مشکل پیش آئے تو چیف جسٹس کمیٹی کی سفارشات کی بنیاد پر حکم جاری کر سکتے ہیں، جو رولز سے متصادم نہ ہو۔
رولز کی تیاری کا عمل:
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے جسٹس شاہد وحید کی سربراہی میں ایک چار رکنی کمیٹی تشکیل دی، جس میں جسٹس عرفان سعادت خان، جسٹس نعیم اختر افغان، اور جسٹس عقیل احمد عباسی شامل تھے۔ کمیٹی نے ججز، سپریم کورٹ آفس، بار کونسلز، اور وکلاء ایسوسی ایشنز سے تجاویز طلب کیں۔
اہم فرق اور فوائد
زیادہ لچک: اپیلوں کی مدت بڑھانے سے درخواست گزاروں کو زیادہ وقت ملے گا، جو انصاف تک رسائی کو بہتر بنائے گا۔
شفافیت اور جوابدہی: غیر سنجیدہ درخواستوں پر جرمانہ اور نظرثانی کے سخت تقاضوں سے عدالتی نظام کے غلط استعمال کو روکا جائے گا۔
ڈیجیٹلائزیشن: جدید تقاضوں کے مطابق آٹومیشن اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کا استعمال عدالتی کارروائیوں کو تیز اور شفاف بنائے گا۔
جیل درخواستوں کی سہولت: فیس معافی سے قیدیوں کے لیے انصاف تک رسائی آسان ہوگی۔
نتیجہ
سپریم کورٹ رولز 2025 پرانے رولز 1980 کے مقابلے میں زیادہ منظم، شفاف، اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہیں۔ یہ رولز عدالتی کارروائیوں میں کارکردگی، شفافیت، اور انصاف کی فوری فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ ڈیجیٹلائزیشن اور آٹومیشن پر زور دینے سے عدالتی نظام جدید خطوط پر استوار ہوگا، جبکہ جرمانوں اور سخت تقاضوں سے غیر ضروری مقدمات کی روک تھام ہوگی۔