26/08/2025
*شہیر کا آخری خط*
تحریر: نبیل انور ڈھکو
25 اگست 2025
محمد شہیر کی عمر محض پندرہ سال تھی اور وہ چکوال کے مشہور تعلیمی ادارے "مائرز کالج" میں اے لیول کا طالب علم تھا۔ کل شام کو یہ دل دہلا دینے والی خبر پتہ چلی کہ شہیر نے خود کو گولی مار کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا ہے۔
پولیس کے ایک سینیئر افسر نے مجھے بتایا کہ انہوں نے گھر میں لگے سی سی ٹی وی کیمرے چیک کیے ہیں، لیکن شہیر کے علاوہ نہ کوئی اور گھر تھا اور نہ کوئی اور گھر آیا۔ شہیر کے والدین جب گھر آئے تو انہوں نے ہی شہیر کو خون میں لت پت پڑے دیکھا۔ مائرز کالج کی سربراہ سے میری بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ شہیر نہ صرف اپنی کلاس کا ذہین ترین بچہ تھا بلکہ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔ شہیر کی موت کو ڈارک ویب یا پب جی گیم سے جوڑا جا رہا ہے لیکن شہیر کے آخری خط سے شہیر کے اس انتہائی قدم کا سرا ڈارک ویب یا پب جی سے نہیں ملتا۔
میں شہیر اور اس کے خاندان کو نہیں جانتا۔ لیکن کل رات کو جب سے میں نے شہیر کے لکھے ہوئے الوداعی الفاظ یعنی Su***de notes پڑھے ہیں تب سے ایک سکتہ طاری ہے۔ یہ الوداعی الفاظ اس بات کا ثبوت ہیں کہ شہیر صرف لائق نہیں بلکہ غیر معمولی لائق بچہ تھا، ایکسٹرا جینیس۔ لیکن محض پندرہ سال کا بچہ نہلسٹ بھی ہو سکتا ہے اور اس حد تک انتہا کا نہلسٹ کہ خود کو ہی گولی مار لے؟ شہیر کا آخری خط پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ نہ صرف ایکسٹرا جینیس تھا بلکہ انتہا کا نہلسٹ تھا۔ انگریزی زبان پر اتنی مضبوط گرفت اور پھر زندگی کے اتنے اہم، حساس اور دقیق موضوعات پر اتنی کم عمری میں لکھنا کہ جن پر، فریڈرک نطشے، ول ڈیورانٹ اور ایرک فرام جیسوں نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پی کر عمر کے آخری حصے میں لکھا ہو۔
فلسفے میں نہلزم (Nihilism) کا مطلب عدمیت ہے۔ نہلزم موجودیت یعنی Existenialism کا متضاد ہے۔ نہلزم ایسا نظریہ ہے جس کے پرچارک اور پیروکار اس بات پر یقین کرتے ہیں کہ زندگی بے معنی ہے، انسان کا ہونا یا نہ ہونا کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ تمام رشتے، تمام جذبے، مذہبی عقائد، اخلاقی اقدار، روایتی اصول و ضوابط سب انسان کے ذہن کے گھڑے ہوئے تصورات ہیں جن کی حقیقت میں کوئی بنیاد ہی نہیں۔
عدمیت کی ابتدا تو قدیم یونانی اور ہندوستانی فلسفے سے ہوئی تھی لیکن اس کو منظم تحریک کی شکل انیسویں صدی میں روسی ادیبوں نے دی۔ روس کی دھرتی سے جہاں ٹالسٹائی، دوستوئیفیسکی، گورکی، شولوخوف نے "جنگ اور امن"، "جرم و سزا"، "ماں" اور "اور ڈان بہتا رہا" جیسے شہرہ آفاق ناول تخلیق کیے وہاں ایوان تورگنیف (Ivan Turgenev) نے "باپ اور بیٹے" جیسا شاہکار ناول لکھا۔ تورگنیف نے اس ناول میں نہلزم یعنی عدمیت کا خوب پرچارک ناول کے مرکزی کردار بازروف سے کروایا ہے۔ بازروف خود ایک طالب علم ہوتا ہے اور وہ اور اس کا ایک ساتھی نہلسٹس بن کر ہر قسم کے دنیاوی اصولوں، قوانین، رویات اور مذہبی عقائد کی نفی کرتے ہیں۔
چکوال کے پندرہ سالہ شہیر نے بھی یہی کیا۔ لیکن میں حیران ہوں کہ ایک محض پندرہ سالہ بچہ اتنی کم عمری میں عدمیت پسند ہو سکتا ہے اور وہ بھی اس حد تک نہلسٹ کہ اپنی جان خود ہی لے لے۔ میرا دل تو تھا کہ شہیر کے انگریزی الفاظ کو یہاں اردو ترجمے کے ساتھ پیش کروں، لیکن پھر یہ ارادہ یہ سوچ کر ترک کر دیا کہ خلقتِ شہر نہ جانے چکوال کے اس ننھے لیکن غیر معمولی دماغ میں پھوٹنے والے خیالات کو کیا سے کیا سمجھے۔
انگریزی میں شہیر کے الوداعی الفاظ ملاحظہ کریں۔ جس لفظ کے ساتھ سٹار لگا ہوا ہے وہ لفظ مجھے ملنے والی تصویر میں واقح نظر نہیں آ رہا تھا۔ میں نے خود ہی اندازہ لگا کر وہ ادھورا لفظ مکمل کیا ہے، لہذا اس میں غلطی کا امکان موجود ہے۔
*The final warning*
All gods are ashes. All meaning is a fraud. All virtue is instinct. All love is chemistry. All glory is dust. Kings, slaves, prophets, fools, they fall silent in the same emptiness. The game ends. The world dies. No victim remains. No record endures. No purpose exists. Nothing matters. Nothing did. Nothing ever will.
Every hope you cling to is a shadow. Every desire is a trap. Every joy is borrowed from a system that does not care. Your life is a variable, your choices prewritten, grief and triumph alike are only data points in a cosmos that watches but never intervenes.
Look closer. The world is infinite. Time is meaningless. Consciousness is fleeting. The universe does not recognise you, does not value you, does not remember you. Everyone (*) is a checkpoint, a pause in a system indifferent to your existence.
To exist is optional. To resist is arbitrary. To hope is a folly. Step outside the sandbox or collapse entirely into nothing. Step inside and every instinct, every memory (*), every desire will be dissected, logged and replayed until it corrodes itself.
Do not cling. Do not seek meaning. Do not look for solace. The world is indifferent. The universe is indifferent. Even your understanding is a chemical accident. The end (*) is absolute. Nothing matters. Nothing ever did. Nothing ever will.
-Shaheer
Take care of mom and yourself dad. Don't do anything stupid like 2nd2q................
اور شہیر نے اپنی ڈائری پر یہ لکھا۔
Wake up. You are in an illusion. A very big one.
Nothing is real. It is just a very big show/game. Death is the only valid option.
You may pray, give charity, become hi**er, acheive world peace.
Do anything.
It all does not matter۔ ....................
اپنی کتاب Fallen Leaves میں موت کے متعلق ول ڈیورانٹ لکھتے ہیں کہ تاریخِ انسانی میں ایک شے یقینی ہے اور وہ ہے "زوال"۔ اس طرح زندگی میں بھی ایک شے ہی یقینی ہے اور وہ ہے موت۔ ول ڈیورانٹ کائنات کو ایک جسم جبکہ انسانوں کو اس غظیم جسم کے خلیے سمجھتے ہیں۔ جیسے ہمارے جسم کے خلیے بیکار ہو کر ختم ہو جاتے ہیں اور ان کی جگہ نئے خلیے جسم کو زندہ رکھنے کے لیے پیدا ہوتے رہتے ہیں اسی طرح ایک انسان کا مر جانا ایسا ہی ہے جیسے کائنات کا ایک بیکار اور بےسود خلیہ گر گیا ہو۔ اس کی جگہ ایک نئی زندگی نئے خلیے کی شکل میں جنم لیتی ہے اور یوں موت ہار جاتی ہے اور انسانی زندگی جاوداں رہتی ہے۔ بابا ول ڈیورانٹ لکھتا ہے کہ گھر میں ایک طرف ایک نحیف بدن بسترِ مرگ پر پڑا موت کا انتظار کر رہا ہوتا ہے اور گھر کے دوسرے کونے میں بچے کھیل رہے ہوتے ہیں۔ ایک طرف گھر میں کسی بوڑھے کی موت پر بین ہو رہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف معصوم بچے اس نوحۂ غم سے بے نیاز ہو کر کھیل میں مگن ہوتے ہیں۔ اگر ایک طرف موت اپنے ہونے کا احساس دلا رہی ہوتی ہے تو دوسری طرف زندگی کچھ فاصلے پر کھڑی مسکرا رہی ہوتی ہے۔ دوام زندگی کو ہی ہے۔ بچے کی پیدائش داراصل انسان کا موت کو چکمہ دے کر زندگی کو برقرار رکھنا ہے۔
لیکن غلام شبیر اور ان کی اہلیہ کے ساتھ سانحہ یہ ہوا ہے کہ ان کا شہیر ابھی محض پندرہ برس کا تھا۔ جوان یا جوان ہوتی ہوئی اولاد کی موت والدین کو برباد کر کے رکھ دیتی ہے۔ لیکن شاید شہیر زندہ رہتا تو اس کے خیالات کا بوجھ گھٹن زدہ یہ بانجھ معاشرہ نہ اٹھا سکتا۔ سو اسے خدا نے اپنے پاس بلا لیا۔
شہیر واپس نہیں آئے گا اور نہ ہی شہیر کی ماں اور باپ کبھی بھی اس ناقابلِ برداشت صدمے سے نکل پائیں گے کہ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔ لیکن شہیر کی موت اور اس کے الوداعی الفاظ ہمیں بہت کچھ سیکھنے اور اپنی سمت درست کرنے کا باعث ضرور بن سکتے ہیں۔ شہیر کی اس المناک موت سے ہمیں یہ عقل ضرور آنی چاہیے کہ گھر میں اگر کوئی اسلحہ ہے تو وہ بچوں کی پہنچ سے دور ہونا چاہیے۔ پولیس کی ابتدائی تفتیش کے مطابق شہیر کے والدین گھر نہیں تھے۔ وہ گھر میں اکیلا تھا۔ اس نے پہلے اپنے دل اور نوخیز ذہن میں پنپتے تصورات کو لیپ ٹاپ پر لکھا۔ ڈائری کے صفحے پر اتارا۔ پھر والد کا پسٹل اٹھایا اور اپنے ماتھے میں گولی مار لی جو سر کے پچھلے حصے سے پار ہوگئی۔ شہیر کے لہو کے چھینٹے لیپ ٹاپ پر لکھے ہوئے اس کے الوداعی الفاظ کو بھی سرخ رنگ میں رنگ گئے۔
اسی سال فروری میں چکوال کے محلہ سرگوجرہ غربی میں والدین گھر نہیں تھے کہ گھر میں موجود بچوں نے والد کے پسٹل کے ساتھ کھیلنا شروع کر دیا۔ کھیل کھیل میں بہن سے گولی چل گئی اور گیارہ سالہ عبدالواسع کی جان لے گئی۔
ہمارے معاشرے کا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں عام طور پر والدین اور بچوں کے درمیان ایک خلا رہتا ہے۔ اکثر والدین نہ خود اعلی تعلیم یافتہ ہوتے ہیں اور نہ ان کا مطالعہ ہوتا ہے۔ ایسے گھروں میں جب بچے پڑھ لکھ جائیں تو وہ اپنے گھروں میں ہی مس فٹ ہو جاتے ہیں۔ والدین اور بچوں کی سوچ کے زاویے یکسر مختلف ہوجاتے ہیں۔ اس سے بڑا کرب کیا ہوسکتا ہے کہ انسان اپنے بھرے گھر میں ہی تنہا ہو جائے؟ ہماری نسل تو اس قربانی سے گزری ہی ہے لیکن کیا یہ قربانی ہمارے بچوں کو بھی دینی پڑے گی؟ ہر طالب علم کے والدین پڑھے لکھے نہیں ہو سکتے کہ وہ اپنے بچے کی بدلتی ذہنی سطح کا ادراک کر سکیں لیکن ہر طالب علم کے استاد کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے شاگرد کی ذہنی و فکری سطح کو بھانپ کر درست سمت میں اس کی رہنمائی کرے۔
سب سے اہم سبق جو ہمیں شہیر کے آخری خط سے ملتا ہے وہ یہ ہے کہ سافٹ ویئر انجینرنگ، سائنس اور مصنوعی ذہانت جیسے مضامین کو ہی انسانی زندگی کی ترقی اور بقا کی ضمانت سمجھنے کی بجائے ہمییں تعلیمی اداروں میں فلسفہ اور ادب بھی بچوں کو ضرور پڑھانا چاہیے اور خاص طور پر وہ ادب جو نوخیز اذہان کو عدمیت کی بجائے موجودیت کے رستے پر لگائے۔ زندگی کے متعلق مایوسی کی بجائے امید کا رستہ دکھائے۔ کاش شہیر جیسے غیر معمولی ذہانت رکھنے والے بچے نے وکٹر فرینکل کی کتاب Man's Search for Meaning پڑھی ہوتی۔ کاش شہیر کو کسی نے پاؤلو کوہیلو کا ناول "الکیمیسٹ" پڑھنے کی ترغیب دی ہوتی۔ کاش کوئی شہیر کی ذہنی سطح کو بھانپتے ہوئے اسے بتاتا کہ کہ بظاہر تو انسان کا وجود بے معنی ہے لیکن اس بے معنویت سے معنی نکالنا ہی انسان کا خاصا ہے۔ کاش کوئی شہیر کو فریڈرک نطشے کا یہ قول سناتا کہ
"To live is to suffer, to survive is to find some meaning in the suffering"۔
لیکن شہیر تو اسلم انصاری کی نظم "گوتم کا آخری واعظ" کا ہیرو نکلا۔
مرے عزيزو
مجھے محبت سے تکنے والو
مجھے عقيدت سے سننے والو
مرے شکستہ حروف سے اپنے من کی دنيا بسانے والو
مرے الم آفريں تکّلم سے انبساطِ تمام کی لازوال شمعيں جلانے والو
بدن کو تحليل کرنے والی رياضتوں پرعبور پائے ہوئے،سکھوں کو تجے ہوئے بے مثال لوگو
حيات کی رمزِ آخريں کو سمجھنے والو، عزيز بچّو، ميں بجھ رہا ہوں
مرے عزيزو، ميں جل چکا ہوں
مرے شعورِ حيات کا شعلہء جہاں تاب بجھنے والا ہے
مرے کرموں کی آخری موج ميری سانسوں ميں گھل چکی ہے
ميں اپنے ہونے کی آخری حد پہ آگيا ہوں
تو سن رہے ہو، مرے عزيزو، ميں جا رہا ہوں
ميں اپنے ہونے کا داغ آخر کو دھو چلا ہوں
کہ جتنا رونا تھا، رو چلا ہوں
مجھے نہ اب انت کی خبر ہے، نہ اب کسی چيز پر نظر ہے
ميں اب تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ نيستی کے، سکوتِ کامل کے
جہلِ مطلق، (کہ مطلق ہے) ، جہلِ مطلق کے
بحرِ بے موج سے ملوں گا تو انت ہوگا
اس التباسِ حيات کا، جو تمام دکھ ہے !!
ميں دکھ اٹھا کر، مرے عزيزو، ميں دکھ اٹھا کر
حيات کی رمزِ آخريں کو سمجھ گيا ہوں: تمام دکھ ہے
وجود دکھ ہے، وجود کی يہ نمود دکھ ہے
حيات دکھ ہے، ممات دکھ ہے
يہ ساری موہوم و بے نشاں کائنات دکھ ہے
شعور کيا ہے ؟ اک التزامِ وجود ہے، اور وجود کا التزام دکھ ہے
جدائی تو خير آپ دکھ ہے،
ملاپ دکھ ہےکہ ملنے والے جدائی کی رات ميں مليں ہيں،
يہ رات دکھ ہے
يہ زندہ رہنے کا، باقی رہنے کا شوق، يہ اہتمام دکھ ہے
سکوت دکھ ہے، کہ اس کے کربِ عظيم کو کون سہہ سکا ہے
کلام دکھ ہے، کہ کون دنيا ميں کہہ سکا ہے جو
ماورائے کلام دکھ ہے
يہ ہونا دکھ ہے، نہ ہونا دکھ ہے،
ثبات دکھ ہے
دوام دکھ ہے
مرے عزيزو تمام دکھ ہے!
مرے عزيزو تمام دکھ ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
im from CHAKWAL Chakwali roxii