MBUC Media

MBUC Media جامعہ بحرالعلوم چمن کے میڈیا سیکشن

حافظ محمد صدیق مدنی ایک سماجی و سیاسی شخصیت  حافظ محمد صدیق مدنی 7 جنوری 1982 کو بلوچستان کے شہر چمن میں پیدا ہوئے. وہ ا...
11/01/2025

حافظ محمد صدیق مدنی ایک سماجی و سیاسی شخصیت

حافظ محمد صدیق مدنی 7 جنوری 1982 کو بلوچستان کے شہر چمن میں پیدا ہوئے. وہ ایک ممتاز مذہبی سکالر، سماجی کارکن اور سیاسی رہنماء ہیں۔ تعلیم، سماجی بہبود اور سیاسی مصروفیت کے لیے ان کے شاندار سفر نے انھیں اپنی برادری اور اس سے باہر کی ایک بااثر شخصیت بنا دیا ہے۔
حافظ محمد صدیق مدنی کا تعلیمی سفر چمن کے مدرسہ عربیہ ولیہ تعلیم القرآن مال روڈ اور گورنمنٹ ماڈل ہائی سکول سے شروع ہوا جہاں انہوں نے اپنے علمی اور روحانی مشاغل کی بنیاد رکھی۔ سیکھنے کے لیے ان کی وابستگی نے انھیں دینی علوم کی راہ پر گامزن کیا۔ ثقافتی طور پر بھرپور اور سماجی طور پر فعال ماحول میں اس کی پرورش نے اس کے وژن اور سماجی بہتری کی خواہشات کو گہرا اثر انداز کیا۔ حافظ محمد صدیق مدنی نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول مدرسہ عربیہ ولیہ تعلیم القرآن مال روڈ چمن ، میٹرک کو گورنمنٹ ماڈل ھائی سکول تاج روڈ چمن ، ایف اے اور بی اے کو گورنمنٹ ڈگری کالج چمن اور ایم اے کو یونیورسٹی آف بلوچستان کوئٹہ سے حاصل کی ہے۔ اسی طرح درس نظامی کی فراغت الجامعہ الاسلامیہ علامہ عبد الغنی شہید ٹاؤن بائی پاس روڈ چمن سے حاصل کی ہے۔ اسلامی تعلیم اور مذہبی گفتگو میں حافظ محمد صدیق مدنی کی خدمات قابل ذکر ہیں۔ ایک مذہبی اسکالر کے طور پر، انہوں نے امن، ہم آہنگی اور اخلاقی طرز عمل کی اقدار کو فروغ دیتے ہوئے متعدد افراد کی رہنمائی کی ہے۔ ان کی علمی بصیرت مسلم کمیونٹی کو درپیش عصری چیلنجوں سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہے۔
حافظ محمد صدیق مدنی کی نمایاں کامیابیوں میں سے مدرسہ بحرالعلوم گھوڑا ہسپتال روڈ چمن کے ترجمان اور ایک مشہور اشاعت ماہنامہ البحر چمن کے چیف ایڈیٹر کے طور پر ان کا کردار ہے۔ ان کی قیادت میں، اشاعت مذہبی، سماجی اور سیاسی معاملات پر روشن خیالی کے لیے ایک پلیٹ فارم بن گئی ہے جس سے متنوع قارئین کو پورا کیا جا رہا ہے۔ ان کا ادارتی کام علم اور بیداری پھیلانے کے لیے ان کی لگن کی عکاسی کرتا ہے۔
حافظ محمد صدیق مدنی پاکستان کی یوتھ پارلیمنٹ کے ممبر بھی ہیں جو حلقہ NA-263 کی نمائندگی کرتے ہیں، جس میں قلعہ عبداللہ اور چمن شامل ہیں۔ ان کے سیاسی سفر کی جڑیں نوجوانوں کو بااختیار بنانے اور اپنے علاقے کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے وژن سے جڑی ہوئی ہیں۔ وہ جمعیت علماء اسلام (ف) سے بھی وابستہ ہیں جہاں وہ انصاف اور سماجی مساوات کو فروغ دینے کے پارٹی کے مشن کو مضبوط بنانے کے لیے کام کرتے ہیں۔
حافظ محمد صدیق مدنی کی قیادت سیاست اور مذہب سے بالاتر ہے۔ وہ سماجی تبدیلی کے لیے ایک مضبوط وکیل ہیں، تعلیم، غربت کے خاتمے اور کمیونٹی کی ترقی پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ ان کے اقدامات کا مقصد پسماندہ افراد کی ترقی اور بلوچستان میں نوجوانوں کو بااختیار بنانے کے مواقع پیدا کرنا ہے۔ آج کے ڈیجیٹل دور میں حافظ محمد صدیق مدنی وسیع تر سامعین سے جڑنے کے لیے ٹویٹر ،انسٹاگرام اور فیس بک جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو مؤثر طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ اس کی آن لائن موجودگی علم کو بانٹنے، بامعنی گفتگو میں مشغول ہونے اور نوجوان ذہنوں کو معاشرے کی تشکیل میں فعال کردار ادا کرنے کی ترغیب دینے کے لیے ایک ذریعہ کے طور پر کام کرتی ہے۔
حافظ محمد صدیق مدنی کی زندگی تعلیم، سماجی بہبود اور سیاسی سرگرمی سے ان کی غیر متزلزل وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ایک خوشحال اور ہم آہنگ معاشرے کے لیے ان کا وژن بہت سوں کو متاثر کرتا رہتا ہے۔ ایک عالم، رہنماء اور سماجی مصلح کے طور پر حافظ محمد صدیق مدنی اپنی برادری اور اس سے آگے کے لیے امید اور ترقی کی کرن بنے ہوئے ہیں۔ اپنے ہمہ جہتی کرداروں کے ذریعے حافظ محمد صدیق مدنی نے علم، قیادت اور خدمت کی طاقت کو مثال بنا کر بلوچستان اور پاکستان کا حقیقی اثاثہ بنایا۔

شفیع اللہ کاکڑ
سیکرٹری اطلاعات شمشاد رائٹرز فورم پاکستان
03003984168
[email protected]

نیشنل سکیورٹی ورکشاپ بلوچستان ترقی کی جانب ایک سفر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔...
27/10/2024

نیشنل سکیورٹی ورکشاپ بلوچستان ترقی کی جانب ایک سفر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: حافظ محمد صدیق مدنی
ممبر یوتھ پارلیمنٹ آف پاکستان

بلوچستان پاکستان کا ایک اہم اور حساس صوبہ ہے جسے کئی دہائیوں سے مختلف چیلنجز کا سامنا رہا ہے جس میں نسلی تنازعات سماجی تفریق، ادارہ جاتی کمزوریاں اور پسماندگی شامل ہیں۔ ان مسائل کے حل کی خاطر اور صوبے کی ترقی کے لیے ہر سطح پر کوششیں کی جا رہی ہیں اور انہی کاوشوں میں ایک اہم قدم نیشنل ورکشاپ بلوچستان کا انعقاد ہے۔ یہ ورکشاپ مختلف اسٹیک ہولڈرز کو اکٹھا کرنے ان کے کردار کو اجاگر کرنے اور قومی یکجہتی کو فروغ دینے کا ایک مثالی ذریعہ ہے۔ نیشنل ورکشاپ بلوچستان کا بنیادی مقصد صوبے کی خوشحالی اور ترقی کے لیے مختلف طبقات کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر یکجا کرنا ہے تاکہ مل جل کر ایک مشترکہ حکمت عملی تیار کی جا سکے۔ اس ورکشاپ کا مقصد بلوچستان میں موجود نسلی اور سماجی تقسیم کو ختم کرنے میں مدد دینا، عوام کے درمیان اعتماد بحال کرنا، اور قومی سطح پر اداروں کی ترقی میں شراکت داری کو فروغ دینا ہے۔ یہ ورکشاپ مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد کو نہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے بلکہ ان کے درمیان خیالات، تجربات اور معلومات کے تبادلے کو بھی فروغ دیتی ہے۔ بلوچستان میں ادارہ جاتی ترقی ایک اہم چیلنج ہے، اور نیشنل ورکشاپ اس سلسلے میں ایک اہم قدم ہے۔ اس کاوش کے ذریعے مختلف اداروں کے مابین باہمی تعاون اور ہم آہنگی کو فروغ دیا جاتا ہے تاکہ صوبے میں جاری ترقیاتی منصوبوں کو مؤثر طریقے سے آگے بڑھایا جا سکے۔ ورکشاپ کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ یہ بلوچستان کے مستقبل کے لیے ایک مستحکم بنیاد فراہم کرتی ہے، جہاں پائیدار ترقی کے اصولوں کو اپنایا جائے اور نسلی و سماجی تفریق کو کم کیا جا سکے۔ بلوچستان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹوں میں سے ایک سماجی تفریق اور مختلف نسلی گروہوں کے مابین عدم اعتماد ہے۔ نیشنل ورکشاپ بلوچستان کے انعقاد سے ان تفریقوں کو کم کرنے اور مختلف ثقافتوں اور پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد کے درمیان سمجھ بوجھ اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس ورکشاپ کا مقصد ایک ایسا ماحول پیدا کرنا ہے جہاں ہر فرد کو اپنی رائے کا اظہار کرنے اور دوسروں کے تجربات سے سیکھنے کا موقع ملے، جس سے نہ صرف باہمی اعتماد میں اضافہ ہو بلکہ صوبے کی ترقی میں مثبت کردار بھی ادا کیا جا سکے۔ نیشنل ورکشاپ بلوچستان ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کرتی ہے جہاں مختلف طبقوں، پیشوں، اور شعبوں سے وابستہ افراد اپنے تجربات، خیالات اور نظریات کا تبادلہ کر سکتے ہیں۔ اس پلیٹ فارم کا بنیادی مقصد مختلف شعبوں میں موجود چیلنجز کو سمجھنا، ان کے حل کے لیے مشترکہ حکمت عملی تیار کرنا اور بلوچستان کے مسائل کو قومی سطح پر اجاگر کرنا ہے۔ تجربات کے اس تبادلے سے نہ صرف شرکاء کو نئے خیالات ملتے ہیں بلکہ وہ ایک وسیع تر تناظر میں صوبے کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کے قابل ہوتے ہیں۔ نیشنل ورکشاپ بلوچستان صوبے کی بہتری اور ترقی کے لیے ایک اہم سنگ میل ہے۔ یہ مختلف اسٹیک ہولڈرز کو یکجا کر کے ان کے کردار کو واضح کرتی ہے اور انہیں صوبے کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ اس ورکشاپ کے ذریعے بلوچستان کے مسائل کو بہتر طریقے سے سمجھا جا سکتا ہے اور ان کے حل کے لیے مؤثر اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ نیشنل ورکشاپ بلوچستان نہ صرف صوبے کے مسائل کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے بلکہ یہ صوبے کی ترقی کے لیے ایک مضبوط اور مستحکم بنیاد بھی فراہم کرتی ہے۔ اس ورکشاپ کے ذریعے بلوچستان میں خوشحالی، امن اور استحکام کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے، جس سے نہ صرف صوبے بلکہ پورے ملک کی ترقی میں معاونت ملے گی۔


مولانا ندا محمد حقانی ایک عظیم روحانی شخصیت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مولا...
13/09/2024

مولانا ندا محمد حقانی ایک عظیم روحانی شخصیت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا ندا محمد حقانی بلوچستان میں دینی و سیاسی میدان میں ایک روشن ستارہ تھے۔ چمن کے معروف تاجر حاجی کرم خان کاکوزئی مرحوم کے ایک سادہ گھر میں پیدا ہوئے، انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے بڑے بھائی شیخ الحدیث حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ اور دیگر علماء کرام سے حاصل کی بعد میں مدرسہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے فراغت حاصل کرنے کے بعد، وہ ایک باصلاحیت عالم دین کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ اور مدرسہ عربیہ بحرالعلوم جامع مسجد نور گھوڑا ہسپتال روڈ چمن میں بہت عرصہ تدریس سے منسلک رہے مولانا ایک بہترین مدرس تھے اور انہوں نے اپنی زندگی دین اسلام کی تعلیم و تبلیغ میں گزاری۔ وہ سماجی مسائل کے حل کے لیے ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے اور لوگوں کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے۔ مولانا ایک سیاسی شخصیت بھی تھے جو جمعیت علماء اسلام س بلوچستان کے صوبائی امیر رہے اور انہوں نے اپنی زندگی میں مختلف سیاسی مراحل سے گزرے۔
وہ ایک سادہ اور پاکباز زندگی گزارتے تھے اور ان کی زندگی اخلاقی اقدار کی بہترین مثال تھی۔
مولانا ندا محمد حقانی نے اپنی زندگی میں دین اسلام کی خدمت کے لیے بے شمار خدمات انجام دیں۔ انہوں نے مختلف مدارس میں درس و تدریس کی، مساجد میں خطبات دیے اور لوگوں کو دین کی تعلیمات سے آگاہ کیا۔ وہ سماجی مسائل کے حل کے لیے بھی کوشاں رہتے تھے اور لوگوں کی مشکلات کو دور کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے تھے۔ مولانا ندا محمد حقانی کا انتقال بلوچستان کے لیے ایک بڑا نقصان ہے۔ ان کی وفات پر پورے علاقے میں سوگ کی لہر دوڑ گئی۔ ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ مولانا ندا محمد حقانی کی زندگی ہمارے لیے ایک مشعل راہ ہے۔ ان کی زندگی سے ہم یہ سبق لے سکتے ہیں کہ دین کی خدمت ایک عظیم کام ہے اور ہمیں بھی اپنی زندگی میں دین کی خدمت کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔ مولانا ندا محمد حقانی ایک عظیم روحانی شخصیت تھے جنہوں نے اپنی زندگی دین اسلام کی خدمت کے لیے وقف کر دی۔ ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین

چمن کے بائی پاس علاقے میں خوفناک ہوائی فائرنگ شروع ہوگئی اور قانون نافذ کرنے والے خواب غفلت میں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔...
14/07/2024

چمن کے بائی پاس علاقے میں خوفناک ہوائی فائرنگ شروع ہوگئی اور قانون نافذ کرنے والے خواب غفلت میں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چمن کے بالائی بائی پاس علاقے میں گزشتہ دو دنوں سے رات کو میوزیکل شو اور ہوائی فائرنگ کا انتظام ہوتا ہے جس سے بالائی بائی پاس کے باشندوں کو سخت مشکلات اور ذہنی کوفت کا سامنا ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے، بالخصوص لیویز اہلکاران، تاحال خواب غفلت میں ہیں۔ خدارا ہوائی فائرنگ سے اجتناب کیجئے کیونکہ گرمیوں کے موسم ہے اور سب لوگ کمروں سے باہر صحنوں میں سوتے ہیں۔ اگر کوئی بدنما واقعہ پیش آئے تو اس کے ذمہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور میوزیکل نائٹ پروگرام بنانے والوں پر ہوگا۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں بالخصوص لیویز فورس سے درخواست ہے کہ وہ ہوائی فائرنگ سلسلہ کا نوٹس لے کر ہوائی فائرنگ کی روک تھام کیجئے اور خواب غفلت سے بیدار ہو کر عوام کو ذہنی کوفت سے بچائیں۔

اعلان داخلہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مدرسہ عربیہ بحرالعلوم جو چمن کا قدیم اور منفرد ممتاز دینی، تعلیمی، تربیتی ادارہ ہے، جو حکومت ...
27/06/2024

اعلان داخلہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مدرسہ عربیہ بحرالعلوم جو چمن کا قدیم اور منفرد ممتاز دینی، تعلیمی، تربیتی ادارہ ہے، جو حکومت پاکستان اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے رجسٹرڈ تعلیمی ادارہ ہے۔ اس تعلیمی ادارے کی دینی و علمی خدمات کا دائرہ تقریبا نصف صدی پر پھیلا ہوا ہے۔ جامعہ سے فیض یافتہ حفاظ، علماء و فضلاء کرام کی ایک بڑی جماعت ملک اور بیرون ملک میں پھیلے بے شمار اداروں میں دینی و ملی خدمات انجام دے رہی ہے۔
اس سال مدرسہ عربیہ بحر العلوم چمن کے تعلیمی مشاورتی مجلس کے فیصلے کی روشنی میں مدرسہ عربیہ بحر العلوم چمن کے شعبہ جات (درجہ ناظرہ ، شعبہ حفظ اور شعبہ متوسطہ) میں داخلے 25 جون سے 15 جولائی 2024 تک جاری رہے گی۔ داخلے محدود مدت تک ہے۔
مدرسہ عربیہ بحر العلوم چمن جامع مسجد نور محلہ حاجی کرم کاکوزئی گھوڑا ہسپتال روڈ چمن میں حفظ و ناظرہ کے طلباء کیلئے شاندار تعلیمی نظام ہمہ وقت اساتذہ کی نگرانی اور ہر دوئی و ہاسروٹ کے طرز پر بہترین نوارنی قاعدہ پڑھانے کا معقول انتظام ہے، جس سے طلبا قرآن کریم عمدہ سے عمدہ پڑھنا سیکھتے ہیں، تو دیر کس بات کی آپ بھی اپنے بچوں کا داخلہ کرا کر شاندار تعلیم دیں.

واضح ہو کہ یہ ادارہ محترم مولانا حافظ محمد صدیق مدنی دامت برکاتھم العالیہ کی زیر نگرانی اپنی آب و تاب سے چل رہا ہے ۔ اس لیے آپ حضرات وقت متعینہ سے قبل اپنے بچوں کی بہترین تعلیم کے لیے داخلہ کروائیں.

مدرسہ کا نظام تعلیم تربیت کے سلسلے میں معلومات حاصل کر سکتے ہیں.

رابطہ نمبرز
03337752771
03137752771
ایمیل ایڈریس
[email protected]
ویب سائٹ لنک
http://www.mbuchaman.wordpress.com
لوکیشن لنک
https://www.google.com/maps/place/WFC2%2B844+Madrassa+Bahrul+Uloom+Chaman,+Chaman,+Killa+Abdullah,+Balochistan,+Pakistan/@30.920797,66.4502899,15z/data=!4m6!3m5!1s0x3ed4790007157427:0x2f9b145ba8fa3be!8m2!3d30.920797!4d66.4502899!16s%2Fg%2F11y2phxdy6?force=pwa&source=mlapk

افیون کی کاشت کاری سے معاشرے کیلئے نقصانات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر : حافظ محمد صدیق مدنی  ا...
17/04/2024

افیون کی کاشت کاری سے معاشرے کیلئے نقصانات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر : حافظ محمد صدیق مدنی
افیون کی کاشت کی ایک طویل تاریخ ہے، جو اکثر معاشی، سماجی اور سیاسی عوامل سے جڑی ہوتی ہے۔ اگرچہ اس نے کچھ لوگوں کے لیے روزی روٹی فراہم کی ہے اور کنٹرول شدہ ماحول میں دواؤں کے مقاصد کی خدمت کی ہے، افیون کی کاشت مجموعی طور پر معاشرے کے لیے اہم نقصانات لاتی ہے۔ صحت کے بحرانوں سے لے کر معاشی بدحالی اور سماجی بدامنی تک، افیون کی کاشت کے اثرات ان کھیتوں سے کہیں زیادہ پھیلے ہوئے ہیں جہاں اسے اگایا جاتا ہے۔ افیون کی کاشت کے سب سے فوری اور وسیع نقصانات میں سے ایک صحت کو لاحق خطرات ہیں۔ افیون اور اس کے مشتقات، جیسے ہیروئن، انتہائی نشہ آور مادے ہیں جو استعمال کرنے والوں میں شدید جسمانی اور ذہنی صحت کے مسائل کا باعث بنتے ہیں۔ ایچ آئی وی/ایڈز اور ہیپاٹائٹس جیسی بیماریوں کا عادی افراد میں سوئی بانٹنے سے پھیلنا صحت کے بحران کو مزید بڑھا دیتا ہے۔
افیون کی کاشت مختلف محاذوں پر معاشی عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ قیمتی زرعی زمین اور وسائل کو خوراک کی فصلوں سے دور کر دیتا ہے، جس سے خوراک کی حفاظت متاثر ہوتی ہے اور دیہی علاقوں میں غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔ مزید برآں، منشیات کا غیر قانونی کاروبار اکثر بدعنوانی کو ہوا دیتا ہے اور جائز معاشی سرگرمیوں کو نقصان پہنچاتا ہے، جس سے مجموعی اقتصادی ترقی اور ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔
افیون کی کاشت کے سماجی نتائج بہت گہرے ہیں۔ خاندان اور کمیونٹیز نشے کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں، بچوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور جرائم کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے۔ منشیات کی لت سے وابستہ بدنما داغ بھی افراد کو الگ تھلگ کر دیتا ہے اور انہیں مدد حاصل کرنے یا معاشرے میں دوبارہ شامل ہونے سے روکتا ہے، سماجی خلل کے ایک چکر کو جاری رکھتا ہے۔
افیون کی غیر قانونی تجارت کا تعلق اکثر منظم جرائم اور تشدد سے ہوتا ہے۔ منشیات کے کارٹلز اور مجرمانہ نیٹ ورک افیون کی کاشت اور اسمگلنگ سے حاصل ہونے والے منافع پر پروان چڑھتے ہیں، جس کے نتیجے میں جنگیں، اغوا اور دیگر پرتشدد سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ اس سے نہ صرف تجارت سے وابستہ افراد کی زندگیوں کو خطرہ ہے بلکہ متاثرہ علاقوں میں خوف اور عدم تحفظ کا ماحول بھی پیدا ہوتا ہے۔ حال ہی میں عید الفطر کی چھٹیوں میں گلستان کے علاقے نورک سلیمان خیل جانا پڑا وہاں پورے گلستان میں گھوم پھرے لیکن افسوس اب وہ گلستان نہیں رہا جو چالیس سال پہلے لوگ میلوں کیلئے آتے تھے ۔ گلستان میں جہاں بھی جاتا وہاں افیون (تریاق) کاشت نظر آتے امسال 90 فیصد سے زائد لوگوں نے افیون کی کاشت کئے تھے۔ جو بہت افسوس ہوئی ۔ افیون کو چھوڑ دے ابھی لوگوں نے آئیس کے کارخانے لگائے تھے جو معاشرے کیلئے سب سے بد تر نشہ آئس تیار کررہے تھے ۔ جب مقامی لوگوں سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ یہاں لوگوں نے اسے اپنے پیسوں کی زیادتی کی خاطر حلال قرار دی ہے بہت سے دیندار لوگوں نے کارخانے لگا کر یہ کام شروع کردی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ضلع قلعہ عبداللہ کے بعض علاقوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی رٹ کمزور ہوئی ہے جس کی بدولت ایسے گھناؤنی اعمال میں لوگ ملوث ہورہے ہیں۔ حکومت وقت توجہ دے کر افیون کی کاشت اور آئس کارخانوں کی خاتمہ کرکے نوجوانوں کی زندگیاں تحفظ اور بچا جاسکے ۔
افیون کی کاشت کے طریقوں، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں اسے غیر قانونی طور پر اگایا جاتا ہے، اکثر جنگلات کی کٹائی، مٹی کا کٹاؤ، اور کیڑے مار ادویات اور کیمیکلز سے آلودگی شامل ہیں۔ اس سے ماحولیاتی انحطاط، حیاتیاتی تنوع کا نقصان، اور ماحولیاتی نظام میں خلل پڑتا ہے، جو ان علاقوں کو درپیش طویل مدتی پائیداری کے چیلنجوں کو مزید بڑھاتا ہے۔
افیون کی کاشت کے نقصانات کو دور کرنے کے لیے ایک کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے جس میں صحت عامہ کی مداخلت، اقتصادی ترقی کی حکمت عملی، قانون نافذ کرنے کی کوششیں، اور بین الاقوامی تعاون شامل ہو۔ منشیات کی موثر پالیسیوں کو روک تھام، علاج اور نقصان میں کمی پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے، جبکہ منشیات کی پیداوار اور اسمگلنگ کی بنیادی وجوہات کو بھی حل کرنا چاہیے۔
اگرچہ افیون کی کاشت کچھ لوگوں کے لیے ایک منافع بخش منصوبہ لگتی ہے، لیکن معاشرے کے لیے اس کے نقصانات کسی بھی مختصر مدت کے فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔ صحت کے بحرانوں سے لے کر معاشی عدم استحکام اور سماجی خلل تک، افیون کی کاشت اہم چیلنجز کا سامنا کرتی ہے جن سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے مقامی، قومی اور عالمی سطح پر مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔

https://www.mbuchaman.wordpress.com

شیخ الحدیث مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ۔۔۔۔۔۔۔ آہ ھم سے بچھڑ گئے۔ (آج پہلی برسی)تحریر: مولانا حافظ محمد صدیق مدنیا...
03/08/2023

شیخ الحدیث مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ۔۔۔۔۔۔۔ آہ ھم سے بچھڑ گئے۔ (آج پہلی برسی)
تحریر: مولانا حافظ محمد صدیق مدنی

اللہ تعالیٰ کا امت مسلمہ پر یہ بڑا کرم ہے کہ ہر دور میں وہ اپنے دین کی حفاظت، تبلیغ، اشاعت اور دفاع کاکام اپنے منتخب بندوں سے لیتا رہا ہے۔ اس طرح ایک طرف کتاب وسنت کے ابدی رہنماء اصول ہر دور میں اجاگر ہوتے رہتے ہیں اور دوسری طرف حق کے متلاشی حضرات کی رہنمائی ہوتی رہتی ہے ساتھ ہی مسلمانوں کی اصلاح کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ تاریخ اسلام کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ علمائے امت اور صلحائے امت صدیوں سے اس خدمت میں مصروف ہیں۔ کتاب وسنت کی تبلیغ واشاعت، علوم کی ترویج، فنون کی تدوین، مسائل کے استنباط اور نتائج کے استخراج کے عظیم خدمات کا ہی نتیجہ ہے کہ آج دین کے اصولوں اور جزئیات کا زبردست ذخیرہ ملت اسلامیہ کے پاس موجود ہیں یہ سب حضور کائنات حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی اس تربیت کا نتیجہ ہے جس سے صحابہ کرامؓ فیض یاب ہوئے۔ اور انہوں نے یہ اثاثہ تابعین کو اور انہوں نے تبع تابعین کو منتقل کیا اور علمائے حق آج تک اس مبارک اور عظیم ورثے کی حفاظت کرکے اسے آئندہ نسلوں کو منتقل کر رہے ہیں۔
عجب قیامت کا حادثہ ہے، آستیں نہیں ہے
زمین کی رونق چلی گئی ہے، افق پہ مہر مبین نہیں
تری جدائی سے مرنے والے، وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے
مگر تری مرگ ناگہاں کہ اب تک یقین نہیں ہے
جمعیت علماء اسلام س پاکستان کے سابق مرکزی سالار اعلیٰ اوربلوچستان کے قدیم اور معروف دینی درسگاہ الجامعہ بحرالعلوم جامع مسجد نور گھوڑا ہسپتال روڈ چمن کے بانی و مہتمم حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ ایسی شخصیت تھے کہ اس کے شجر سایہ دار تلے پہنچ کر ہر کس و ناکس راحت وسکون پاسکتا تھا۔ پورے پاکستان میں آپ ؒ کومولانا چمنی صاحب کے نام سے پہچانا جاتاتھا۔ حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ کی شخصیت ایسی دل نواز، حیات افروز اور ایسی باغ و بہار تھی کہ جس کی خصوصیات کو ایک مختصر تحریر میں سمانا مشکل ہے۔ ہر فن میں اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک خاص ملکہ عطاء فرمایا تھا۔ زندگی کے آخر میں حدیث کے فروغ میں بہت خدمت کی اور اس فن حدیث میں پورے پاکستان اور افغانستان میں اچھے اساتذہ علمائے کرام ہیں ان میں سے تھے۔ شیخ الحدیث مولانا فتح محمد چمنی صاحب ؒ ہر فن کی معلومات کا خزانہ تھے، وقت مناظر اسلام تھے،
حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ خوبصورت، درمیانہ قد، سفید ریش بزرگ تھے۔ کوئی اگر آپ ؒ کو دیکھتا تا آنکھ ہٹانے کو اس کا دل نہ چاہتا۔ رنگ گوراسرخی مائل تھا۔ چہرے سے نورانیت ٹپکتی تھی، ڈاڑھی پوری سنت کی مطابق تھی، چہرہ بارعب تھا۔ غصے کے وقت ان کے چہرے پر جلال کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ بات کرتے تو ہر کوئی ان کی گفتگو سے ان کا گرویدہ ہوجاتا۔ صاف صاف الفاظ میں گفتگو فرماتے، جس سے کوئی بھی ان کی بات سمجھے بغیر نہیں رہتا۔ شیخ الحدیث مولانا فتح محمد چمنی کو اللہ تعالیٰ نے جو خطابت کا ملکہ عطاء فرمایا تھاوہ اہل عجم میں شاذونادر ہی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔خاص طور پر پشتو اور اردو تقریریں، جو اتنی بے ساختہ، سلیس، رواں اور شگفتہ ہیں کہ ان کے فقرے فقرے پر ذوق سلیم کو حظ ملتا ہے۔ ان میں قدیم و جدید اسالیب اس طرح سے جمع ہوکر یکجان ہوگئے ہیں کہ سننے والے جزالت وسلالت دونوں کا لطف ساتھ ساتھ محسوس کرتا۔ حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ کا شمار ایسے ہی علمائے حق میں ہوتا ہے جنہوں نے پوری زندگی علوم دینیہ کی خدمت اور امت مسلمہ کی اصلاح میں صرف فرمائی۔ وہ نہ صرف مفسرعہد مدبر عصر، عالم بے بدل، فاضل اجل اور فقیہ دوراں تھے بلکہ راہ سلوک کے بے مثل امام تھے۔ ان کی وفات سے نہ صرف علمی دنیا اجڑ گئی بلکہ دنیائے سلوک کا آفتاب غروب ہوگیا۔ وہ حقیقت میں ہمارے عظیم اسلاف کی یادگار تھے۔وہ عالموں کے عالم تھے ان کی زندگی ہم سب کیلئے مشعل راہ اور نمونہ ہدایت تھی ان پر شاعر مشرق علامہ اقبال کا یہ شعر بالکل صادق آتا ہے
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
شیخ الحدیث حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ المعرودف مولانا چمنی صاحب صوبہ بلوچستان کے شہر چمن میں 1953 میں حاجی کرم خان کاکوزئی کے گھرگھوڑا ہسپتال چوک چمن میں پیدا ہوئے۔ 1961 میں تعلیم کے حصول کا آغاز کیا اور ابتدائی تعلیم کلی ارمبی کاکوزئی قلعہ عبداللہ میں اپنے دو ماموں مولوی عبدالستار نوراللہ مرقدہ اور مولوی محمد میر نوراللہ مرقدہ اور اپنے آبائی وطن چمن میں جمعیت علماء اسلام پاکستان کے مرکزی نائب امیر اور سابق ممبر قومی اسمبلی شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالغنی شہیدنوراللہ مرقدہ اور کلی لاجور گلستان میں پیر سید حاجی علی آغا اور سید قطب الدین آغا صاحبان سے حاصل کی اور بعد ازاں 1972 میں اعلٰی تعلیم کیلئے مدرسہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک اور مدرسہ اشرف العلوم باغبانپورہ گوجرانوالہ گئے وہاں شیخ الحدیث، استاد العلماء اور بانی دارالعلوم حقانیہ حضرت مولاناعبدالحق نوراللہ مرقدہ اور ممبر قومی اسمبلی قاضی حمیداللہ جان سے پڑھتے رہے۔ آخر میں بیماری کی وجہ سے 1980میں آخری دورہ حدیث مدرسہ مطلع العلوم کوئٹہ سے کرکے دینی علوم سے فراغت حاصل کی۔ مولوی صاحب مرحوم نے 1980 سے دو اگست 2022 تک تدریسی خدمات کیساتھ سیاسی اور سماجی خدمات بھی سرانجام دیتے رہے۔ دو اور تین اگست کے درمیانی شب ساڑھے دو بجے پر دل کی دورہ پڑنے اور کوئٹہ کے سول ہسپتال میں انتقال فرماگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ انہی عظیم ہستیوں میں سے ایک ہیں جن سے اللہ رب العزت نے بڑے بڑے کام لئے جن کا وجود پورے ملک کیلئے ایک عظیم نعمت تھا جن کے کردار پر آج تک کوئی انگشت نمائی نہیں کرسکا دوست تو دوست دشمن بھی انکے کردار کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکے۔ ذاتی اوصاف سے مولانا صاحب ایک بلند پایہ انسان تھے ہر لحظہ مسکرانے کی عادت مزاج میں نرمی، طبیعت میں انکسار، استقامت، عزیمت، علم، حلم ووقار،تدبر، فراست، ذہانت اور اخلاق کو گوندھ کراگر انسانی وجود تیار کیا جائے تو وہ حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ ہوں گے۔حضرت کی زندگی کے تمام گوشے آج ہمارے سامنے ہیں۔بظاہر تو ہر کوئی دینداری و پاکبازی کا دعویدار ہوتا ہے، لیکن حقیقت کی کسوٹی پر کچھ ہی لوگ اتر پاتے ہیں اسی کیساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج دنیامیں صاحب دل اور خداترس لوگوں کی کمی ضرور ہیں لیکن نایاب نہیں۔ کائنات کا وجود ہی ایسی لوگوں کے دم سے ہیں جن کے دل خوف خدا سے لبریز ہوں اور جن کے دماغ پر ہمہ وقت آخرت کا فکر سوار ہو، جن کے زبانیں ذکر الٰہی سے تروتازہ اور جن کی ہر حرکت اور زندگی کے ہر ہر سانس اطاعت الٰہی اور سنت نبوی کا نمونہ ہو۔ انھیں عظیم انسانوں میں ایک نام حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ کا نمایاں ہے اور وہ ایک عظیم انسان اور ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ ان کے دل میں اللہ رب العزت اور اس کے رسول حضور کائنات حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت، ملت اسلامیہ کا درد اور پوری انسانیت سے خیرخواہی کا جزبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہواتھا۔ دراصل حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ کی شخصیت کی تصویر اتنی پھیلی ہوئی ہے اور اسکے درخشاں گوشے سامنے ہیں کہ ان سب کا احاطہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مولانا صاحب کے اندر ایک داعی حق، ایک متکلم اسلام، ایک مفکر حیات، ایک ادیب، ایک سیاسی قائد، ایک تنظیم کار اور ایک بیباک مجاہد بیک وقت جمع تھے۔ ان کی شخصیت سیاسی وتاریخی اور علمی وانقلابی ہر دو لحاظ سے بے حد اہم ہے۔ اور پھر اس کیساتھ حسن کردارکے اجتماع نے ان کو اپنے دور کی ایک عبقری شخصیت بنادیا ہے مگرکسی ایسی جامع شخصیت کے حسن کو دوسروں تک منتقل کرنا ٹیڑی کھیر ہے۔اسکے یہ معنی نہیں کہ اس کام کو کیا ہی نہ جائے۔کوشش ہی کی راہ کامیابی کی منزل کو جاتی ہے۔
حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ کی انتہائی نمایاں خصوصیت تھی کہ سیاست اور علاقائی مصروفیات میں اس درجہ انہماک کے باوجود ان کا علمی استحصار اور علمی ذوق پوری طرح برقرار رہا۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا فتح محمد چمنی نور اللہ مرقدہ اپنے زندگی میں نظریہ سیکولرزم کے بہت مخالف تھے۔ سیکولرزم نظریئے کیخلاف ایک کتاب بھی تصنیف کی تھی۔ جب کبھی کسی علمی مسئلے کی بات آتی تو معلوم ہوتا کہ اس کے تمام مالہ و ما علیہ پوری طرح مولانا صاحب کے نگاہ میں ہیں اور جب اس موضوع پر بات کرتے تو ایسا محسوس ہوتا جیسے کسی علمی کتاب کا درس ہورہاہے۔بلوچستان کے شہر چمن کا ایک قدیم دینی اور تعلیمی ادارہ مدرسہ بحرالعلوم چمن گھوڑا ہسپتال روڈ چمن میں ایک تعزیتی مولانا فتح محمدچمنی کانفرنس سے حضرت مولانامفتی فدا محمد، مولاناندا محمد حقانی اور حافظ سیف الرحمان صدیق نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ جامع الکمالات انسان تھے۔ اللہ تعالٰی نے بہت سی خوبیوں سے انہیں نوازا تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں کسی عالم دین میں بیک وقت اتنے کمالات جمع نہیں دیکھے۔ آپ بہت بڑے محدث، فقہی، فن منطق کے ماہر فلسفی، اصول پسند، فصیح و بلیغ ہونے کیساتھ ایک عظیم مقرر بھی تھے۔ مجمع میں تمام حاضرین کو اپنے دلائل اور اخلاص سے متاثر کرلیا کرتے تھے کسی کو تابع و گرویدہ بنانا انہی کاکام تھا۔ آپ ظاہری و باطنی، دینی و دنیاوی، علمی اور غیرعلمی کے تمام خوبیوں کا مجموعہ تھے۔بہر حال آپ کی پوری زندگی خدمت اسلام میں گزری اور نہایت لطیف مزاج کے مالک تھے اور آپ کا ہم سے جدا ہونا ایک صبر آزما سانحہ ہے جس میں چشم ماتم گسار خداجانے کب تک اشک بار رہے گی اور موت کے ظالم ہاتھوں نے ایک ایسی ہستی کو ہم سے جدا کردیا جس سے ملک کے تمام مذہبی لوگ ہدایت حاصل کرتے تھے۔
اللہ رب العزت ہمیں ان کے اسلامی نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائیں۔ (آمین ثم آمین)


https://mbuchaman.wordpress.com/2023/07/29/shaikh-molana-fateh-muhammad-chamani-nowarallah-marqadaho/

Address

Chaman

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when MBUC Media posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to MBUC Media:

Share

جامعہ بحرالعلوم چمن

ایڈریس : جامعہ بحرالعلوم چمن

گھوڑا ہسپتال روڈ پوسٹ بکس نمبر 5 چمن 86000 بلوچستان

پاکستان

00923337752771