16/07/2025
کالم عنوان:
سستا آٹا، چینی، گھی — سب بند!
مزدور بے روزگار، عوام بے سہارا!
یہ معاشی پالیسی نہیں، عوامی دشمنی ہے!
ہنگو سمیت ملک بھر میں یوٹیلیٹی اسٹورز بند
عدالت کا سٹے آرڈر، مگر حکومت باز نہیں آ رہی
مزدوروں کی شٹر ڈاؤن ہڑتال جاری
تحریر: منظور خان
روزنامہ خبریں
ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حکومت نے عوام دشمنی کو پالیسی کا حصہ بنا لیا ہے۔ جن یوٹیلیٹی اسٹورز نے 10 برسوں میں 129 ارب روپے ٹیکس ادا کیا، جو 150 ارب روپے کے اثاثے رکھتے ہیں، جنہوں نے اپنے محنت کشوں کو تنخواہیں دی، اخراجات خود برداشت کیے اور عوام کو ریلیف فراہم کیا، آج اسی ادارے کو زبردستی دفن کیا جا رہا ہے۔
یوٹیلیٹی اسٹورز کو بند کرنا ایک معمولی فیصلہ نہیں، بلکہ غریبوں کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ یہ اقدام صرف اسٹورز کی تالہ بندی نہیں بلکہ سفید پوش طبقے کے چولہے بجھانے کا عمل ہے۔ عوام سے سستی روٹی، آٹا، دال، چینی اور گھی چھینا جا رہا ہے، تاکہ مافیاز، کارٹیلز اور ذخیرہ اندوزوں کی تجوریاں بھری جا سکیں۔
حکومت کہتی ہے خسارہ برداشت نہیں، لیکن سوال یہ ہے: کیا آئی ایم ایف کے سامنے جھکنے سے پہلے آپ نے ان اداروں کا احتساب کیا؟ کیا آپ نے یوٹیلیٹی اسٹورز کی کرپشن دور کرنے کی کوشش کی؟ نہیں! آسان راستہ چنا گیا—غریبوں کا منہ نوچ لو، خاموش طبقے کو روند ڈالو، اور سستی اشیاء کی آخری پناہ گاہ بھی چھین لو۔
ضلع ہنگو میں الجنت پلازہ، گنجیانوکلی، سمانہ روڈ، بلیمیہ، قاضی پمپ، دوآبہ، اور ٹل جیسے علاقوں میں یوٹیلیٹی اسٹورز کو بند کر دیا گیا ہے، جیسے یہ عوامی سہولت کے مراکز نہیں، بلکہ کوئی جرم گاہ ہوں۔ حکومت کی یہ نااہلی، بے حسی اور معاشی قتل کی پالیسی ناقابلِ معافی ہے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کے ورکرز اور انتظامیہ ملک گیر شٹر ڈاؤن ہڑتال پر مجبور ہو چکے ہیں۔ عدالتوں سے سٹے آرڈر لیا جا رہا ہے، مزدور دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، مگر حکومتی ایوانوں میں ایک بے حسی اور بے ضمیری کی چادر تنی ہوئی ہے۔
کیا یہی ریاستِ مدینہ ہے؟ کیا یہ وہ "عوامی فلاحی ریاست" ہے جس کا خواب دکھایا گیا تھا؟ اگر یہ طرزِ حکمرانی جاری رہا تو یاد رکھیں، یہ آگ صرف سفید پوش کے چولہے تک محدود نہیں رہے گی، یہ ہر دروازہ کھٹکھٹائے گی۔ حکومت کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے، وگرنہ عوام کا صبر تاریخ کی بدترین بغاوت میں بدل سکتا ہے۔