ch.AH NEWs

ch.AH NEWs male

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ جو پارٹیاں بدل رہے ہیں عوام میں ان کی حیثی...
21/05/2023

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ جو پارٹیاں بدل رہے ہیں عوام میں ان کی حیثیت دلہن اک رات کی سے زیادہ نہیں، دو تین مہینے سسرال جیل کاٹنے سے قیامت نہیں آجاتی لیکن بکنے کا دھبہ کبھی نہیں مٹتا، نسلی اوراصلی مشکل وقت میں ساتھ نہیں چھوڑتے اورچٹان کی طرح ڈٹے رہتے ہیں، معاشی حالات خوفناک ہوگئے، اسمبلی میں جانے یا نہ جانے سے فرق نہیں پڑتا۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹرپر جاری کردہ اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ساری قوم جناح ہاؤس اور جی ایچ کیو پر حملے کی نا صرف مذمت کرتی ہے بلکہ اس پر رنجیدہ ہے لیکن بے گناہ لوگوں کی گرفتاریوں سے اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا، موجودہ حکومت لوگوں کی نظر میں قابل نفرت ہو چکی ہے جو بھی ان کا ساتھ دے گا ڈوب جائے گا، شجر اور حجر بھی ان کا رونا رورہے ہیں۔
(جاری ہے)

سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ اللہ کو معلوم ہے کہ مائنس کون ہونے جارہا ہے اور پلس کون ہوگا لیکن اب یہ ہو کر رہے گا، فیصلہ اسی ہفتے میں ہوجائے یا اگلا ہفتہ لے لیں، جون میں چت یا پٹ ہوکررہے گا، عدلیہ جیتے گی بے شک آڈیو لیک تحقیقاتی کمیشن چیف جسٹس کے مشورے کے بغیر کیوں نہ بنالیں، آئینی قانونی فیصلہ چیف جسٹس کی طرف سے آکر رہے گا۔

قبل ازیں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ پر حملہ کرنا ن لیگ کو وراثت میں ملا ہے، ججز کو لٹکانے اور دھرنے کی باتیں عدلیہ کے خلاف اعلان جنگ ہے اور رجسٹرار سپریم کورٹ کے اجلاس میں پولیس کی عدم شرکت سول نافرمانی کی دلیل ہے، جب کہ عدلیہ نے ملک کو انارکی اور خانہ جنگی سے بچایا ہے، فائنل راؤنڈ شروع ہے 2 سے 4 ہفتوں میں فیصلہ ہو جائے گا، الیکشن ہوں گے اور آگ و خون کی سیاست ختم ہو کر رہے گی۔
Live

سپریم کورٹ میں ایک اور بڑی ملاقات ہوئی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال سے اسلام آباد ہائی...
20/05/2023

سپریم کورٹ میں ایک اور بڑی ملاقات ہوئی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز نے ملاقات کی،ملاقات میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق ملاقات میں موجود نہیں تھے۔
(جاری ہے)

معزز جج صاحبان کے درمیان ملاقات 3 گھنٹے سے زائد جاری رہی جس میں زیر سماعت مقدمات سمیت دیگر آئینی و قانونی امور پر بات چیت ہوئی

نیب نے وزیراعظم شہباز شریف کو آشیانہ ہاسنگ اسکینڈل میں بے گناہ قرار دے دیا۔ تفصیلات کے مطابق آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل میں ا...
20/05/2023

نیب نے وزیراعظم شہباز شریف کو آشیانہ ہاسنگ اسکینڈل میں بے گناہ قرار دے دیا۔ تفصیلات کے مطابق آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل میں اہم پیشرفت ہوئی ہے،احتساب عدالت میں نیب کی جانب سے آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل سے متعلق رپورٹ جمع کرا دی گئی ہے۔ نیب نے وزیراعظم شہباز شریف کو بے گناہ قرار دے دیا۔ نیب کی رپورٹ میں کہا گیا کہ وزیراعظم شہباز شریف کیخلاف کرپشن کے ثبوت نہیں ملے،شہباز شریف کیخلاف اختیارات کے ناجائز استعمال کے ثبوت بھی نہیں ملے۔
آشیانہ ہاؤسنگ کے ٹھیکے میں بدعنوانی کے کوئی ثبوت نہیں ملے،سرکاری خزانہ کو کوئی نقصان پہنچا اور نہ ہی شہباز شریف نے کوئی فائدے حاصل کیے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ دوبارہ انکوائری کی گئی لیکن ثبوت نہیں ملے،ریکارڈ اور ثبوت سے ثابت ہوتا ہے کسی پبلک ہولڈر نے کسی قسم کے فائدے حاصل نہیں کیے۔
(جاری ہے)

احتساب عدالت نے آشیانہ اقبال ریفرنس پر مزید سماعت 27 مئی تک ملتوی کر دی ہے،عدالت نے آئندہ سماعت پر شہباز شریف اور دیگر کی بریت کی درخواستوں پر حتمی دلائل طلب کر لیے۔

وزیراعظم کے وکیل نے بتایا کہ نیب نے شہباز شریف اور دیگر کو آشیانہ اقبال ریفرنس میں کلین چٹ دے دی ہے،بریت کی درخواستوں پر آج بھی حتمی دلائل دینے کیلئے تیار ہیں۔ یاد رہے کہ اس سے قبل آشیانہ اقبال ریفرنس میں وزیراعظم شہباز شریف اور احد چیمہ نے احتساب عدالت میں بریت کی درخواستیں دائر کی تھیں۔ وزیراعظم شہباز شریف اور احد چیمہ کی جانب سے ایڈووکیٹ امجد پرویز نے بریت کی درخواستیں دائر کیں۔ بریت کی درخواست میں مؤقف اختیارکیا گیا کہ نیب کی سپلیمنٹری تفتیشی رپورٹ سے کوئی کرپشن ثابت نہیں ہوئی۔عدالت سے استدعا کی گئی کہ ہمارے خلاف کوئی شواہد موجود نہیں،آشیانہ اقبال ہاؤسنگ ریفرنس میں بری کرنے کا حکم دیا جائے۔

وہ 17 اکتوبر 2022 کی صبح تھی اور شہریوں کی رجسٹریشن کے قومی ادارے ’نادرا‘ سے منسلک ڈپٹی ڈائریکٹر اپنے آفس میں معمول کے ک...
19/05/2023

وہ 17 اکتوبر 2022 کی صبح تھی اور شہریوں کی رجسٹریشن کے قومی ادارے ’نادرا‘ سے منسلک ڈپٹی ڈائریکٹر اپنے آفس میں معمول کے کام میں مصروف تھے۔ صبح کے لگ بھگ دس بجے اُن کے موبائل فون پر نادرا ہی کے ایک سینیئر ڈائریکٹر کا پیغام موصول ہوا۔

واٹس ایپ کے ذریعے بھیجے گئے اس پیغام میں دو پاکستانی شہریوں کے قومی شناختی کارڈ نمبر درج تھے اور ساتھ یہ درخواست کی گئی تھی کہ اِن افراد کو جاری کردہ پاسپورٹ کی تفصیلات چیک کر کے فراہم کی جائیں اور ان افراد کی تصاویر بھی فراہم کی جائیں۔

انکوائری کمیٹی کو دیے گئے اپنے بیان میں ڈپٹی ڈائریکٹر نے مؤقف اختیار کیا کہ چونکہ اپنے کام میں مصروف تھے اس لیے وہ موصول ہونے والے واٹس ایپ پیغام کا بروقت جواب نہ دے سکے چنانچہ ڈائریکٹر کی جانب سے دن 12 بج کر 17 منٹ پر دوبارہ یاد دہانی کا میسج بھیجا گیا اور ساتھ ہی ایک فون کال بھی جس میں انھیں مبینہ طور پر بتایا کہ جس شہری کا شناختی کارڈ نمبر چیک کیا جانا ہے دراصل ان کا ’نائیکوپ گم ہو چکا ہے‘ اور اس سلسلے میں تصدیق مطلوب ہے۔

نادرا کے متعلقہ محکموں میں کام کرنے والے چند افسران کو شناختی کارڈ پر جاری کردہ پاسپورٹ، فیملی ٹری (یعنی خاندان میں موجود دیگر افراد کے ڈیٹا تک رسائی) اور دیگر معلومات تک رسائی ہوتی ہے اور وہ ڈپٹی ڈائریکٹر بھی ان چند افسران میں سے تھے۔

انکوائری کمیٹی کو ڈپٹی ڈائریکٹر نے بتایا کہ ڈائریکٹر کی جانب سے موصول ہونے والے قومی شناختی کارڈ کے نمبروں کو جب انھوں نے مطلوبہ سسٹم میں چیک کیا تو معلوم ہوا کہ ایک شناختی کارڈ پر تو پاسپورٹ جاری ہوا تھا تاہم دوسرے شناختی کارڈ پر کبھی کوئی پاسپورٹ جاری ہی نہیں ہوا۔ ملنے والی تمام تر تفصیلات بشمول پاسپورٹ نمبر ڈپٹی ڈائریکٹر نے ڈائریکٹر کے ساتھ شیئر کر دیے۔

انکوائری کمیٹی کے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ڈپٹی ڈائریکٹر نے مزید بتایا کہ اُس وقت تک انھیں ’قطعاً‘ معلوم نہیں تھا کہ انھوں نے اپنے نادرا لاگ اِن کی مدد سے کس پاکستانی شخصیت اور اُن کے والد کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کی تھی اور یہ کہ ڈیٹا چیک کرنے اور نام پڑھنے کے بعد بھی انھیں ان شخصیات سے متعلق علم نہیں تھا چنانچہ انھوں نے انفارمیشن اپنے افسر کے ساتھ شیئر کر دی۔

انکوائری کمیٹی کو دیے گئے بیان کے مطابق ڈپٹی ڈائریکٹر نے بتایا کہ انھوں نے یہ انفارمیشن اس لیے شیئر کی کیونکہ ’نادرا میں بطور ادارہ یہ کلچر رہا ہے کہ سینیئر افسران دفاتری امور اور دیگر معاملات کی سلسلے میں اس نوعیت کی تفصیلات مانگتے رہتے ہیں جو انھیں بروقت فراہم کر دی جاتی ہیں۔‘

انھوں نے انکوائری کمیٹی کو مزید بتایا کہ 17 اکتوبر 2022 کے روز پیش آنے والا یہ معاملہ روٹین کی بات تھی جسے وہ معمول سمجھتے ہوئے ’بھول‘ چکے تھے۔

یاد رہے کہ پاکستان میں یہ وہی وقت تھا جب سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت مکمل ہونے کے قریب تھی اور 29 نومبر 2022 کو نئے آرمی چیف کی تعیناتی سے قبل مختلف سینیئر آرمی افسران کے نام مختلف حلقوں میں زیر بحث تھے۔

پاسپورٹ
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
،تصویر کا کیپشن
واٹس ایپ کے ذریعے بھیجے گئے اس پیغام میں دو پاکستانی شہریوں کے قومی شناختی کارڈ نمبر درج تھے اور ساتھ یہ درخواست کی گئی تھی کہ اِن افراد کو جاری کردہ پاسپورٹ کی تفصیلات چیک کر کے فراہم کی جائیں

اس حوالے سے ہفتوں جاری رہنے والی چہ مگوئیوں کے بعد بالآخر نومبر کے مہینے میں سید عاصم منیر کو نیا آرمی چیف تعینات کر دیا گیا جنھوں نے 29 نومبر کو جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان کی بری فوج کی کمان سنبھال لی۔

درحقیقت ڈپٹی ڈائریکٹر نے 17 اکتوبر کو یعنی عاصم منیر کی تعیناتی سے چند ہفتے قبل جو دو قومی شناختی کارڈ اپنے لاگ اِن کے ذریعے چیک کیے تھے وہ موجودہ آرمی چیف عاصم منیر اور ان کے والد کے تھے اور جو پاسپورٹ نمبر انھوں نے اپنے سینیئر ڈائریکٹر کے ساتھ شیئر کیا تھا وہ عاصم منیر کا پاسپورٹ نمبر تھا جبکہ ان کے والد کے شناختی کارڈ پر کسی پاسپورٹ کا ریکارڈ اُس وقت نادرا کے سسٹم میں موجود نہیں تھا۔

یاد رہے کہ اس معاملے میں شروع ہونے والی انکوائری کے نتیجے میں نادرا کے جونیئر ایگزیکٹیو سے لے کر ڈائریکٹر لیول تک کے چھ افسران کو نوکری سے برخاست (ڈس مس) کیا جا چکا ہے اور نادرا نے سیکریٹریٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں ملوث افراد کے خلاف کریمینل یا فوجداری کارروائی کے لیے پٹیشن دائر کر دی ہے اور اس معاملے میں پہلی سماعت 18 مئی کو سینیئر مجسٹریٹ اسلام آباد، عباس شاہ کی عدالت میں ہونا تھی تاہم ڈسٹرکٹ کورٹس کی عمارت کی منتقلی کے باعث اب اس پر 17 جون کی نئی تاریخ دے دی گئی ہے۔

اگرچہ ڈپٹی ڈائریکٹر یہ ریکارڈ فراہم کرنے کے بعد اس بات کو بھول چکے تھے مگر انکوائری کمیٹی کو دیے گئے بیان میں انھوں نے کہا کہ 19 دسمبر 2022 کو یعنی آرمی چیف کی تعیناتی کے لگ بھگ 20 دن بعد انھیں اپنی معطلی کا لیٹر مل گیا۔

اُن کے علاوہ چھ دیگر افسران کو بھی معطل کیا گیا تھا اور ان پر یہ الزام تھا کہ انھوں نے بھی آرمی چیف اور ان کے اہلخانہ کے ریکارڈ تک رسائی حاصل کی تھی۔ معطلی کے کچھ ہی روز بعد ڈپٹی ڈائریکٹر کو ادارے کی جانب سے چارج شیٹ موصول ہوئی (یعنی ان پر عائد کردہ الزامات کی تفصیل)۔

انکوائری کمیٹی کو دیے گئے اپنے بیان کے مطابق ڈپٹی ڈائریکٹر نے بتایا کہ چارج شیٹ موصول ہونے پر وہ یہ یاد کرنے سے قاصر رہے کہ یہ کن شناختی کارڈز کی بات ہو رہی ہے اور یہ کہ اس بابت انھیں کس افسر کی جانب سے درخواست موصول ہوئی تھی۔

انھوں نے انکوائری کمیٹی کو بتایا کہ ’میں نے چارج شیٹ موصول ہونے کے بعد اپنا موبائل چیک کیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کس نے مجھے اس ڈیٹا تک رسائی کے لیے درخواست کی تھی۔ واٹس ایپ ریکارڈ میں معلوم ہوا کہ یہ درخواست کرنے والے سینیئر ڈائریکٹر تھے۔‘

یہ معلوم ہونے کے بعد ڈپٹی ڈائریکٹر نے ڈائریکٹر سے رابطہ کیا اور ان کے بقول ڈائریکٹر نے بھی اپنا موبائل چیک کیا مگر چونکہ انھوں نے اپنے واٹس ایپ پر ’ڈس اپیئر میسج فیچر‘ آن کر رکھا تھا، اس لیے وہ معلوم نہیں کر پائے کہ انھوں نے کب اس ڈیٹا کو حاصل کرنے کی درخواست کی تھی۔

انکوائری کمیٹی کو دیے گئے بیان کے مطابق اگلا روز جمعے کا تھا جب ڈپٹی ڈائریکٹر بذات خود ڈائریکٹر کے دفتر خود چلے آئے اور انھیں درخواست کی کہ وہ ذہن پر زور دیں اور یاد کریں کے انھیں اس ڈیٹا تک رسائی کے لیے کس نے کہا تھا۔

ڈپٹی ڈائریکٹر نے انکوائری کمیٹی کو بتایا کہ ’اس موقع پر ڈائریکٹر نے مجھے یہ بھی کہا میں بھی اپنے موبائل سے اس بات چیت اور پاسپورٹ نمبر کی تفصیلات کو ڈیلیٹ کر دوں مگر میں نے انکار کر دیا اور انھوں واضح بتایا کہ میں یہ سکرین شاٹس انکوائری کمیٹی کے سامنے بطور ثبوت پیش کروں گا۔‘

وزارت بین الصوبائی رابطہ (آئی پی سی) نے ایک بار پھر پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) پر زور دیا ہے کہ وہ آج اخراجات کی جامع ...
18/05/2023

وزارت بین الصوبائی رابطہ (آئی پی سی) نے ایک بار پھر پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) پر زور دیا ہے کہ وہ آج اخراجات کی جامع رپورٹ فراہم کرے۔ آئی پی سی نے انتظامی کمیٹی کو ایک خط جاری کیا ہے، جس میں ان سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ چیئرمین کی تقرری تک بھرتی، برطرفی، اور انتخابی عمل کی تفصیلات شیئر کریں۔
قبل ازیں رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ گزشتہ ماہ وزارت نے پی سی بی کی انتظامی کمیٹی کو مطلع کیا تھا، جس میں ان کے اقتدار میں پہلے 120 دنوں کے اخراجات کی تفصیلات مانگی گئی تھیں۔ تاہم، وزارت نے اب ایک تازہ خط جاری کیا ہے، جس میں کمیٹی پر زور دیا گیا ہے کہ وہ 18 مئی تک اخراجات کی تفصیلات جمع کرائے، اس سے پہلے کہ معاملہ اعلیٰ حکام تک پہنچایا جائے۔
(جاری ہے)

آئی پی سی کے ڈپٹی سکریٹری کے دستخط شدہ خط میں معاملے کی فوری ضرورت پر زور دیا گیا ہے اور کافی وقت گزرنے کے باوجود تعمیل نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق وزارت خصوصی طور پر کمیٹی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے تمام کیٹیگریز کے تحت ہونے والے اخراجات کا مکمل بریک ڈاؤن حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ 20 اپریل کو بھیجے گئے پچھلے خط میں بشمول خطوں اور محکموں سے بورڈ ممبران کے انتخاب کا عمل ،کئی مخصوص تقاضوں کا خاکہ پیش کیا گیا تھا۔ خط میں منعقدہ انتخابات اور انتظامی کمیٹی کی جانب سے کی گئی تقرریوں کی نوعیت کے خلاف دائر کیے گئے کسی بھی مقدمے کی تفصیلات بھی مانگی گئیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک بار پھر ’گڈ ٹو سی یو‘ کا تذکرہ ہوا ہے۔جسٹس اربار محمد طاہر نے شہریار آفریدی کی اہلیہ کی گرفت...
18/05/2023

اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک بار پھر ’گڈ ٹو سی یو‘ کا تذکرہ ہوا ہے۔جسٹس اربار محمد طاہر نے شہریار آفریدی کی اہلیہ کی گرفتاری کے کیس میں ریمارکس دئیے کہ آئی جی صاحب! ایک گھریلو خاتون کی گرفتاری پر آپ کو’’ گڈ ٹو سی یو‘‘ نہیں کہہ سکتے۔آئی جی اسلام آباد نے عدالت کے روبرو کہا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ گھریلو خواتین نے اپنے شوہر بھی قتل کئے ہیں، گھریلو خواتین کچھ اور سرگرمیوں میں بھی ملوث ہو سکتی ہیں۔
جسٹس اربار محمد طاہر نے ریمارکس دئیے کہ ہماری عدالت کے حکم کی خلاف ورزی ہوئی تو سخت نتائج ہوں گے۔بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے شہریار آفریدی کی اہلیہ کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔گذشتہ روز شہریار آفریدی اور ان کی اہلیہ کو اڈیالا جیل منتقل کیا گیا تھا۔
(جاری ہے)

اسلام آباد کے تھانہ مارگلہ کی پولیس نے شہریار آفریدی اور ان کی اہلیہ کو حراست میں لیا تھا۔

پولیس نے شہر یار آفریدی اور ان کی اہلیہ کو 16ایم پی او کے تحت حراست میں لیا۔شہریار آفریدی کے بیٹے نے الزام لگایا تھاکہ پولیس نے والدین کو گھسیٹ کر باہر نکالا۔دوسرہ جانب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ 9مئی کے واقعات کے ہمارے پاس ثبوت آگئے ہیں، جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ لے کرعدالت جارہے ہیں، تاکہ شفاف تحقیقات ہوں سکیں، ہماری جماعت کبھی پرتشدد واقعات میں ملوث نہیں رہی۔
انہو ں نے ٹویٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ مجھے آج خوف ہے کہ پاکستان اس راستے پر نکل گیا ہے جو ہمارے ملک کی تباہی کا راستہ ہے، اگر ابھی حکمت استعمال نہ کی گئی اور عقل کا استعمال نہ کیا تو شاید ہم ملک کے ٹکڑے جمع نہ کرسکیں۔ اس سب کے پیچھے کیا ہے؟ ایک سال سے افراتفری مچی ہوئی ہے، زور لگایا جارہا ہے کہ عمران خان کا راستہ بند کیا جائے، آئین بھی ٹوٹ جائے ، الیکشن بھی نہ ہوں اور سپریم کورٹ کو بھی ذلیل کی جائے لیکن اس کو نہیں آنے دینا۔

ایکشن میں نظر آئیں گی۔ترجمان کے مطابق یہ ٹورنامنٹ19 مئی سے کراچی میں کھیلا جائے گا جس کا مقصد کھلاڑیوں کو محدود اوورز کی...
17/05/2023

ایکشن میں نظر آئیں گی۔ترجمان کے مطابق یہ ٹورنامنٹ19 مئی سے کراچی میں کھیلا جائے گا جس کا مقصد کھلاڑیوں کو محدود اوورز کی کرکٹ کے بہترین مواقع فراہم کرنا ہے ۔ترجمان نے کہاکہ اس ٹورنا منٹ سے کھلاڑیوں کو ایمرجنگ ویمنز ایشیا کپ کی تیاری میں بھرپور مدد ملے گی جو آئندہ ماہ ہانگ کانگ میں منعقد ہوگا۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان کپ تیرہ میچوں پر مشتمل ہوگا جو دو مرحلوں میں کھیلا جائے گا اور چار ٹیمیں رائونڈ رابن لیگ کی بنیاد پر ٹی ٹوئنٹی کھیلیں گی جبکہ تین ٹیمیں ون ڈے میچوں میں مدمقابل ہونگی ،یہ میچز ڈبل رائونڈ رابن لیگ کے تحت کھیلے جائیں گے جس کا فائنل چار جون کو ہوگا۔
(جاری ہے)

ترجمان نے کہاکہ ٹورنامنٹ کے پہلے مرحلے میں اے سی سی ویمنز ایمرجنگ ایشیا کپ کی ممکنہ کھلاڑی میدان میں نظر آئیں گی جس سے انہیں اپنا ٹیلنٹ دکھانے اور صورتحال کے مطابق اپنی مہارت دکھانے کا موقع مل سکے گا،ٹورنامنٹ میں شریک اسٹرائیکرز ٹیم کی قیادت فاطمہ ثنا کریں گی جبکہ بلاسٹرز کی کپتان منیبہ علی ہونگی جو ٹی ٹونٹی انٹرنیشنل میں سنچری بنانے والی واحد پاکستانی کھلاڑی بھی ہیں۔

ترجمان نے مزید کہاکہ چیلنجرز کی ٹیم کی قیادت لیفٹ آرم اسپنر سعدیہ اقبال کریں گی جبکہ ڈائنامائٹس کی ٹیم سدرہ امین کی کپتانی میں میدان میں اترے گی،ان چار ٹیموں کے درمیان چھ ٹی ٹونٹی میچز 19 سے 21مئی تک حنیف محمد ہائی پرفارمنس سینٹر اوول گرائونڈ اور اسٹیٹ بینک گرائونڈ میں کھیلے جائیں گے۔ترجمان نے کہاکہ23مئی سے بلاسٹرز، چیلنجرز اور ڈائنامائٹس کی ٹیمیں پچاس اوورز پر مشتمل ون ڈے ٹورنامنٹ میں مدمقابل آئیں گی،اس ٹورنامنٹ کا فائنل اسٹیٹ بینک گرائونڈ میں کھیلا جائے گاجسے پی سی بی کے یوٹیوب چینل پر لائیو دکھایا جائے گا۔
ترجمان نے کہاکہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے ٹورنامنٹ کے لیے نقد انعامات کا اعلان بھی کیا ہے،فاتح ٹیم کو دس لاکھ روپے اور رنراپ کو پانچ لاکھ روپے دیے جائیں گے جبکہ پلیئر آف دی میچ کے لیے بیس ہزار روپے اور پلیئر آف دی ٹورنامنٹ کے لیے پچاس ہزار روپے کا انعام رکھا گیا ہے۔اس حوالے سے پاکستان کرکٹ بورڈ کی ویمنز کرکٹ کی سربراہ تانیہ ملک کا کہنا ہے کہ ٹورنامنٹ کا بنیادی مقصد ہماری باصلاحیت خواتین کرکٹرز کو اپنی مہارت دکھانے کا موقع فراہم کرنا ہے ، اس ٹورنامنٹ کو دو مرحلوں میں رکھا گیا ہے تاکہ دو مختلف فارمیٹس کے مختلف چیلنجز سے ان کھلاڑیوں کو تجربہ حاصل ہوسکے۔
انہوں نے کہاکہ ٹی ٹونٹی فارمیٹ سے ہماری ایمرجنگ ٹیم کو اے سی سی ویمنز ایمرجنگ ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ کی تیاری میں مدد ملے گی۔

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی نو مئی کو گرفتاری کے بعد جب لاہور کے کور کمانڈر ہاؤس میں مشتعل مظاہرین توڑ پھوڑ کر رہے ...
17/05/2023

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی نو مئی کو گرفتاری کے بعد جب لاہور کے کور کمانڈر ہاؤس میں مشتعل مظاہرین توڑ پھوڑ کر رہے تھے تو اس وقت وہاں احتجاج کے لیے علی حمزہ (فرضی نام) بھی موجود تھے۔

علی گریجویشن کے بعد امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ لے چکے ہیں اور وہ پی ٹی آئی کے ووٹر ضرور ہیں لیکن کوئی سرگرم کارکن نہیں ہیں۔ ان کے مطابق وہ اس دن کور کمانڈر ہاؤس میں کسی قسم کی توڑ پھوڑ میں شریک نہیں تھے۔

نو مئی کو علی کے ایک دوست نے انھیں احتجاج کے لیے لاہور کے لبرٹی چوک چلنے کا کہا لیکن راستے میں ہی انھوں نے سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز دیکھیں جن میں لوگ کور کمانڈر ہاؤس کے باہر جمع ہو رہے تھے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے علی بتاتے ہیں کہ ’میں نے اسے کہا کہ یار دفع کرتے ہیں بلاوجہ پھنس جائیں گے۔ جس پر اس نے کہ کہا کہ ’ڈرتا کیوں ہے، ہم شغل دیکھنے ہی جا رہے ہیں۔‘ جب ہم وہاں پہنچے تو اس وقت توڑ پھوڑ ہو چکی تھی اور گیٹ بھی ٹوٹا ہوا تھا۔‘

علی کے مطابق ’ہم نے سوچا اسی بہانے کور کمانڈر ہاؤس اندر سے بھی دیکھ لیتے ہیں۔ اندر گئے اور وہاں چند منٹ کھڑے ہونے کےفوراً بعد باہر نکل آئے جب لگا کہ حالات خاصے خراب ہیں۔

’پھر ہم گھروں کو چلے گئے۔ اگلے ہی روز میں کسی کام سے شہر سے باہر آ گیا۔‘

علی جس علاقے کے رہنے والے ہیں، وہاں ان کے گھر اور پولیس تھانے میں زیادہ فاصلہ نہیں ہے اور وہاں پولیس ان کے خاندان کو اچھے سے جانتی ہے۔

PTI
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
علی بتاتے ہیں کہ ’مجھے وہاں کے ایس ایچ او کی کال آئی کہ بیٹا تم کہاں پہنچے ہوئے تھے۔ تم اور تمھارے گھر والے شریف لوگ ہیں لیکن تمھارا نام گرفتاریوں والی فہرست میں کیسے آیا ہے۔

’میں نے انھیں بتایا کہ میں دوست کے ساتھ گیا تھا لیکن میں نے کوئی توڑ پھوڑ نہیں کی۔ میرے گھر والوں نے مجھے اسی وقت کہا کہ تم روپوش ہو جاؤ۔‘

علی کے مطابق ان کے گھر والوں نے پولیس سے جا کر معافی بھی مانگی اور فوج میں موجود کچھ جاننے والوں کے ذریعے بھی کہلوانے کی کوشش کی اور وکیلوں کو بھی اس مسئلے میں شامل کیا لیکن ’ہر طرف سے یہی جواب ملا کہ لڑکا تو گرفتار ہو گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہم صرف یہ کر سکتے ہیں کہ آپ کے کسی اور بندے کو نہیں پکڑیں گے اور نہ ہی پولیس آپ کے گھر آئے گی۔ لیکن لڑکا آپ کو ہر حال میں ہمارے حوالے کرنا ہو گا۔‘

علی جیسے کئی افراد نو مئی کو کور کمانڈر ہاؤس پر حملے کے دوران وہاں موجود تھے۔ ان کے نام گرفتاریوں کی فہرست میں آنے سے متعدد سوالات نے جنم لیا ہے۔

سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پولیس کی جانب سے ان افراد کی شناخت کیسے کی گئی اور اس بات کا تعین کیسے کیا جا رہا ہے کہ ان میں سے کون سا شخص بے قصور اور کون واقعی توڑ پھوڑ میں ملوث تھا۔

police
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
’میں وہاں کھڑا صرف دیکھ رہا تھا کہ یہ ہو کیا رہا ہے‘
علی حمزہ کے علاوہ اور بھی ایسے کئی لوگ ہیں جن کا یہ کہنا ہے کہ وہ حملے میں ملوث نہیں تھے اور کور کمانڈر ہاؤس کے باہر صرف پُرامن احتجاج کے لیے پہنچے تھے۔ لیکن ان کے نام بھی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کر دیے گئے۔

مثال کے طور پر ایک نجی چینل کی ڈی ایس این جی کا ڈرائیور اپنی ڈیوٹی کرنے کے لیے وہاں موجود تھا لیکن اب وہ اس لیے روپوش ہے کیونکہ اس کی تصویر بھی مطلوب افراد کی تصاویر کے ساتھ اخبار میں شائع کی گئی ہے۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ان کے دفتر کے لوگوں نے بتایا کہ ’جب اس کی تصویر اخبار میں آئی تو ہم نے اس سے پوچھا کہ تم اندر کیا کرنے گئے تھے۔ تو اس نے بتایا کہ میں تو صرف کھڑا دیکھ رہا تھا کہ ہو کیا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے میں بھی کیمروں کی زد میں آ گیا۔‘

خیال رہے کہ پنجاب پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک 3200 سے زیادہ افراد کو پُرتشدد مظاہروں کے الزام میں پنجاب بھر سے گرفتار کیا گیا ہے جبکہ خیبرپختونخوا سے تقریباً تین سو سے زیادہ افراد پولیس کی حراست میں ہیں۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت ملک کے دیگر صوبوں میں بھی عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے مظاہروں میں شامل افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

مظاہرے، لاہور، گرفتاریاں
،تصویر کا ذریعہEPA
گرفتار افراد میں سے کئی ایسے لوگ ہیں جنھیں دفعہ 144 کے تحت پکڑا گیا ہے جبکہ کئی دیگر دفعات کے ساتھ مشتعل مظاہرین کو مختلف مقدموں کے تحت بھی گرفتار کیا گیا ہے۔

حراست میں لیے جانے والوں میں پاکستان تحریک انصاف کے متعدد کارکن بھی شامل ہیں جنھیں یہ کہہ کر گرفتار کیا گیا ہے کہ یہ ’سہولت کاری‘ میں ملوث تھے یا پھر انھوں نے ’اشتعال دلوایا۔‘

اس معاملے پر بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کا کہنا تھا کہ ہم مختلف طریقوں سے لوگوں کی شناخت اور نشاندہی کر رہے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’ہم نے باقائدہ 32 مقامات کی جیو فینسنگ کی ہے، سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہونے والی ویڈیوز اور سیف سٹی (شہر بھر کے سی سی ٹی وی کیمروں کی ویڈیوز) کا ڈیٹا جمع کیا ہے اور موقع پر بننے والی تمام ویڈیوز بھی دیکھی ہیں۔

’ہم نے وہ ڈیٹا نادرا کو بھجوایا جہاں ان کی شناخت کی گئی۔ جبکہ آئی بی مختلف علاقوں سے لوگوں کے بارے میں معلومات جمع کر کے لا رہی ہے، جس سے ان لوگوں کی گرفتاری میں مدد مل رہی ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’ہم نے موقع سے بھی لوگوں کو گرفتار کیا۔‘

آئی جی پنجاب نے دعویٰ کیا کہ ’جو لوگ حملوں میں ملوث تھے ان کی گرفتاری کے بعد معلوم ہوا کہ ان کے واٹس ایپ گروپس بنے ہوئے تھے جس میں سے ہمیں کافی ڈیٹا بھی ملا اور ویڈیوز بھی۔ اس کی مدد سے ہم نے مزید لوگوں پکڑا ہے۔‘

نگران پنجاب حکومت نے فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کی حوالگی کیلئے 24 گھنٹے کا الٹی میٹم دے دیا۔ تفصیلات کے مطابق نگرا...
17/05/2023

نگران پنجاب حکومت نے فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کی حوالگی کیلئے 24 گھنٹے کا الٹی میٹم دے دیا۔ تفصیلات کے مطابق نگران وزیر اطلاعات پنجاب عامر میر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ آرمی تنصیبات پر حملے کرنے والے 30 سے 40 شرپسند زمان پارک میں پناہ لیے ہوئے ہیں،ان کی حوالگی نہ ہونے پر 24 گھنٹے کے بعد قانون حرکت میں آئے گا،ان لوگوں کو عبرت کا نشان بنایا جائے گا تاکہ آئندہ کوئی ایسی حرکت نہ کرے۔
انہوں نے کہا کہ 9 مئی کو پی ٹی آئی کے شرپسند نے ریڈ لائن کراس تھی،آخری شرپسند کی گرفتاری تک شناخت کا عمل جاری رہے گا۔ کسی میڈیسن یا ویکسین سے ان کا علاج ممکن نہیں سرجری کرنا پڑے گی،کسی نے قانون ہاتھ میں لیا تو فواد چوہدی سے بھی تیز دوڑ لگانی پڑے گی،ریاستی رٹ چیلنج کرنے والے ایسے دوڑ لگائیں گے کہ اولمپکس کے قابل ہو جائیں گے۔
(جاری ہے)

عامر میر کا کہنا تھا کہ کالعدم تنظیم کی طرح پی ٹی آئی بھی نان اسٹیٹ کا روپ دھارتی جا رہی ہے،فیصلہ ہو گیا ہے کہ شرپسندوں کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہو گا،آئندہ صورتحال کیلئے پولیس کو فری ہینڈ دیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جو شرپسند اسلحہ استعمال کرے گا اس کخلاف اسلحہ استعمال ہو گا،جو شرپسندی میں کھلم کھلا ملوث ہیں انہیں کیوں ریلیف دیا جا رہا ہے؟ زمان پارک میں پچھلی بار اسلحہ برآمد ہوا تھا،اب کوئی اندر جائے گا تو پتہ چلے گا کہ زمان پارک میں اسلحہ ہے یا نہیں،فائرنگ لاشیں گرانے کیلئے مجمع ختم کرنے کیلئے ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل نگران پنجاب حکومت نے حالیہ دنوں میں ہونے والے واقعات میں ملوث شرپسندوں کیخلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کے فیصلے کی مںظوری دی۔ نگران وزیراعلٰی پنجاب محسن نقوی کی زیر صدارت اجلاس میں پنجاب میں شرپسند کیخلاف مقدمات کیلئے جے آئی ٹی تشکیل دینے کی مںظوری دے دی گئی۔

محمد صہیبعہدہ,بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد2 گھنٹے قبلیہ ریال میڈرڈ اور مانچسٹر سٹی کے درمیان میچ کے آخری مراحل تھے ...
16/05/2023

محمد صہیب
عہدہ,بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
2 گھنٹے قبل
یہ ریال میڈرڈ اور مانچسٹر سٹی کے درمیان میچ کے آخری مراحل تھے جب چیمپئنز لیگ میں بہترین کارکردگی دکھانے والی ریال میڈرڈ کے مداحوں کو سنہ 2022 میں فائنل تک رسائی ناممکن دکھائی دے رہی تھی۔

اس وقت نوے منٹ کا کھیل ہو چکا تھا اور مانچسٹر سٹی کو میڈرڈ پر اس میچ میں ایک صفر، اور ایگریگیٹ سکور میں پانچ تین سے برتری حاصل تھی۔

تاہم ریال میڈرڈ کی ٹیم کو ’ٹیم آف ڈریمز‘ اور ’معجزے کرنے والی ٹیم‘ کہا جاتا ہے۔ ان کے کوچ اینکلوٹی انھیں اس میچ سے قبل صرف اسی سیزن میں سات مرتبہ دوسری ٹیم کی برتری حاصل کرنے کے بعد کم بیک کر کے جیتنے کی ویڈیوز دکھا چکے تھے شاید یہی وجہ تھی کہ اب بھی ٹیم میں یقین موجود تھا۔

اگلے 88 سیکنڈز میں جو ہوا، اس نے فٹبال کی دنیا کا سر چکرا دیا۔ ریال میڈرڈ کی جانب سے اتنے کم وقت میں لگاتار تین گول کیے گئے اور یوں یہ ٹیم ایک اور چیمپیئنز لیگ فائنل میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئی اور بعد میں اس میں 14ویں دفعہ چیمپیئن بننے کا اعزاز بھی حاصل کر لیا۔

کرکٹ کی دنیا میں ایسی ہی ’معجزے‘ اور ناقابلِ یقین پوزیشنز سے کم بیک کرنے والی ٹیم پاکستان کی ہے جس کی تاریخ ایسے کئی واقعات سے بھری پڑی ہے۔

اس کی تازہ ترین مثال گذشتہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی ہے جب ایک موقع پر پاکستان کے سیمی فائنل تک رسائی کے امکانات صرف چار فیصد تھے، تاہم پھر پاکستان نے کم بیک کرتے ہوئے ورلڈ کپ کا فائنل بھی کھیلا۔ اس کی سب سے مقبول مثال 1992 کے ورلڈ کپ کی دی جاتی ہے جب پاکستان نے ایک ناقابلِ یقین صورتحال سے کم بیک کرتے ہوئے ورلڈ کپ جیتا تھا۔

پاکستانی کرکٹ ٹیم
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
تاہم یہ وہ واحد ون ڈے ورلڈ کپ ہے جو پاکستان اب تک جیت سکا ہے اور ون ڈے کرکٹ میں گذشتہ دو دہائیوں میں پاکستانی ٹیم صرف ایک مرتبہ ورلڈ کپ کے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستانی ٹیم مینجمینٹ نے ’دی پاکستان وے‘ کے نام سے ایک جارحانہ حکمت عملی اور کلچر میں تبدیلی متعارف کروائی ہے جو پاکستانی ٹیم اب سے اپنائے گی اور اس کے تحت ہی ورلڈ کپ 2023 میں کھیلے گی۔

یہ حکمتِ عملی پاکستان کرکٹ ٹیم کی جانب سے گرانٹ بریڈبرن کو بطور کوچ تعینات کرنے کے اعلان کے ساتھ کی گئی ہے۔

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے مینیجر ریحان الحق پاکستان کرکٹ ٹیم اور ریال میڈرڈ کے درمیان مماثلت دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’چیمپیئنز لیگ فٹبال میں جیسے ریال میڈر ایک نئے لیول پر آ جاتی ہے کیونکہ انھیں یقین ہوتا ہے کہ ہم نے یہ پہلے بھی کیا ہے اور اب ہم یہ دوبارہ کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔

’اسی طرح پاکستانی ٹیم کی بھی یہ خاصیت ہے کہ انھیں جب بھی کارنر کیا جاتا ہے تو وہ بار بار اس میں سے نکل کر فتح حاصل کرتے ہیں، یہی چیز کھلاڑیوں کو باور کروانے کے لیے اور ان کی ذہنیت میں تبدیلی کے لیے ہم نے ’دی پاکستان وے‘ کی حکمتِ عملی متعارف کروائی ہے۔‘

ٹیم کلچر میں تبدیلی یا اس حوالے سے حکمتِ عملی کے لیے کوئی نئی اصطلاح کا سامنے آنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے متعدد سپورٹس ٹیمز اس طرح کی حکمتِ عملیاں اپنا چکی ہیں۔

اس بارے میں بات کرنے سے پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ ’دی پاکستان وے‘ ہے کیا اور اسے متعارف کروانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

’اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے‘: عاصمہ شیرازی کالمعاصمہ شیرازیعہدہ,صحافی و تجزیہ کار54 منٹ قبلمنظر، پس منظر اور پیش منظر کا...
16/05/2023

’اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے‘: عاصمہ شیرازی کالمعاصمہ شیرازی
عہدہ,صحافی و تجزیہ کار
54 منٹ قبل
منظر، پس منظر اور پیش منظر کا عکاس ہے، پس دیوار اب نوشتہ دیوار بن رہا ہے اور عکس معکوس ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

نو مئی کو لگنے والی آگ پر بظاہر قابو پا لیا گیا مگر در و دیوار میں چھپی چنگاریاں شاید اب بھی سلگ رہی ہیں کہ اپنے ہی ہاتھ سے آگ اب کے دامن کو لگی ہے۔

عمران خان کی گرفتاری کے بعد کے واقعات عوامی تو نہ تھے مگر بامعنی ضرور تھے۔ لاہور کا جناح ہاؤس جو کبھی جناح کے ہاتھ تو نہ لگا مگر بلوائیوں کے ہاتھ ضرور لگ گیا، اب ایک علامت بن گیا ہے۔

جناح ہاؤس میں لگی آگ ہو یا پشاور کے تاریخی ریڈیو پاکستان میں دہکتے شعلے، نذر آتش جہاز کا ماڈل یا شہید کا سر بُریدہ مجسمہ۔۔۔ ستم ظریفی یہ کہ دشمن اسے طاقت کے میناروں کے زمین بوس ہونے سے تشبیہ دے رہے ہیں اور محفوظ فصیلوں میں محصور چوکیداروں کو عدم تحفظ کے احساس سے پہلی بار دوچار بھی کر رہے ہیں۔

طاقت کے حصول کی اس لڑائی میں اب اصول طے نہیں ہوں گے کیونکہ آگ دہلیز تک پہنچ چکی ہے اور شعلے دیواروں کو گھیرے کھڑے ہیں۔

گذشتہ کئی برسوں سے نظام، آئین، جمہوریت مخالف ذہن سازی، چور چور کی بازگشت میں پلتی نسلیں، عداوت کی حد تک سیاست کی راہ ہموار کرنے اور تقسیم کے ذریعے حکمرانی کرنے والے ادارے کو اب خود اسی قسم کے چیلنجز کا سامنا ہے۔

اندرونی طور پر اسٹیبلشمنٹ کا حصہ سمجھی جانے والی عدلیہ ’حق شفعہ‘ میں طاقت کے مرکز پر قابض ہو رہی ہے اور نئی عالمی صف بندی میں جغرافیائی زنجیر میں جکڑے ہم جیسے راہگیر ہٹو بچو کی بازگشت میں حادثے سے بچنے کی کوششوں میں ہیں۔ ہر طرح کے عفریت منھ کھولے لقمہ بنانے کو کھڑے ہیں۔ پچھتر سال کی ساری بیماریوں نے کمزور جسم پر دھاوا بول دیا ہے اور ازلی طاقت کا ستون خود بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔

حادثوں کی پرورش کس نے کی؟ اپنے ہی ہاتھ گریبانوں تک کیسے پہنچے اور آستینوں میں چھپے سانپوں کو دودھ کس نے پلایا، غور کئے بغیر بھی اب صورتیں حفظ ہیں۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد کے واقعات محض بیرو میٹر پر لگے پیمانے پر لال نشان مزید روشن کر رہے ہیں اور بقول جون ایلیا۔۔۔ اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے۔

islamabad
،تصویر ک
القادر ٹرسٹ یعنی برطانیہ سے آئے ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کی رقم کو جرمانے کی مد میں سیٹلمنٹ کے مقدمے میں عمران خان کی گرفتاری وہ ریڈ لائن بن گئی جسے خود تحریک انصاف نے ہی عبور کر لیا۔

گھیراؤ جلاؤ کے واقعات نے وطن عزیز کی اشرافیہ کو متحرک کیا اور اعلیٰ متوسط طبقے کے بظاہر حضرات اور بالخصوص خواتین جوشِ انقلاب میں کینٹونمنٹس کو اپنی جاگیر سمجھتے ہوئے داخل ہوگئے۔

یہی تھا شاید وہ اپنا پن کہ جس پر ’آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی‘ کا اظہار بھی ہوا۔ ہلہ بولنے والوں کا انتخاب بھی شاید کسی منصوبہ بندی کا حصہ تھا کہ مبینہ طور پر ’اشرافیہ اور عسکری اشرافیہ‘ کو ہاتھ لگانا کس کے بس کی بات ہے؟

دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس معاملے میں کوئی ریڈ لائن باقی نہیں رہی سوائے خوش قسمت ملک ریاض کے، جن کی جائیداد کی رقم کا تنازعہ بذریعہ عمرانی کابینہ طے ہوا، بدلے میں مبینہ زمین ملی یا زر اس کی تحقیقات تو ہو رہی ہیں البتہ عمران خان کے خلاف بیانات اور احکامات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

پریس کانفرنسوں اور تقریروں کا بھی زور ہے جبکہ سیاستدانوں سے لے کر سینئر بیوروکریٹس، ریٹائرڈ جرنیلوں سے لے کر بیشتر قلم کاروں اور سیاستدانوں کی پگڑیاں اچھالنے والے چینلوں تک ملک صاحب کا نام لینے سے ایسے گریزاں ہیں جیسے نئی دلہن اپنے دلہا کا نام لیتے جھجک رہی ہو۔ بڑے بڑے طرم خان ججوں کا نام لے رہے ہیں مگر ملک صاحب کا نام آتے ہی میوٹنگ کا بٹن دبا دیا جاتا ہے۔

مدعا یہ بھی ہے کہ طاقت کے ایوانوں میں نقب لگ چکی ہے۔ پرانی اسٹیبلشمنٹ کا بچھایا جال ہر ادارے کو گرفت میں لیے ہوئے ہے جسے پرویز الہی ’اسٹیبلشمنٹ حقیقی‘ کا نام دے چکے ہیں۔

ریاست اپنی رٹ کو چیلنج کرنے والوں سے آہنی ہاتھوں نمٹنے کی کوششوں میں ہے اور ہو سکتا ہے کہ نمٹ بھی لیں مگر بڑے گھر کے در و دیوار میں لپٹا خوف ہی اصل چیلنج ہے۔

اس میں دو آرا نہیں کہ ادارے کا عفریت بنانے اور بنا کر مٹانے کا وسیع تجربہ ہے تاہم اس بار صفائی کی نوعیت ذرا مختلف ہے کیونکہ مورچے اب گھر میں ہی بنانا پڑیں گے۔

16/05/2023

Address

Jhang Road Chiniot
Chiniot

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when ch.AH NEWs posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share